نیامت علی اور حُسنِ کارکردگی

مظفر بخاری

محفلین
چوہنگ کے علاقے حسین آباد میں گزشتہ روز ایک شخص نیامت علی کے گھر اکیسویں بچے کی پیدائش کی خبر پڑھ کر ہم چوہنگ پہنچ گئے۔ ان کا گھر تلاش کرنے میں ہمیں ذرا بھی دقت نہ ہوئی کیونکہ چوہنگ میں نیامت علی کو ۔’نیامت علی بچیاں والا‘ کہا جاتا ہے۔ ہم نیامت علی کے گھر پہنچے تو باہر ’خسروانِ دہر‘ ناچ اور گانے کا بیڑہ غرق کرنے میں مصروف تھے۔ خداخدا کر کے وہ رخصت ہوئے تو ہمیں نیامت علی سے ملاقات کا موقع ملا۔ جب ہم نے اسے بتایا کہ ہم اخباری آدمی ہیں اور اس کا انٹرویو لینے آئے ہیں تو وہ بہت خوش ہوا۔ ہمارے ہاتھ میں کیمرہ دیکھ کر نیامت علی کہنے لگا کہ انٹرویو سے پہلے ان کی فیملی کا فوٹو لے لیا جائے تو بہت اچھا ہوگا۔ ہم نے آمادگی ظاہر کی تو اس نے صحن میں ایک سٹول رکھ کر اپنی بیگم کو بٹھایا اور اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے اپنے بچے کھڑے کر دیئے۔ نومولاد بیگم صاحبہ کی گود میں تھا۔ہم نے اُن کا گروپ فوٹو لے لیا۔اس فرض سے فارغ ہو کر نیامت علی اور ہم اندر کمرے میں جا بیٹھے ۔ لیکن ہوا یہ کہ نیامت علی کے تمام بچے سوائے نومولود کے کمرے میں گھس آئے اور کمرہ منی بس کی شکل اختیار کر گیا۔
’’معاف کیجئے گا یہ بچے ذرا شرارتی ہیں۔ بہرحال آپ میرا انٹرویو شروع کریں ۔ ‘‘
ہم نے اس کے حکم کی تعمیل میں اپنا کام شروع کر دیا۔
’نیامت علی صاحب‘ آپ بچے پیدا کرنے علاوہ اور کیا کام کرتے ہیں؟‘
’’جی میں گوشت کا کاروبار کرتا ہوں۔ صبح دس بجے تک سارا گوشت فروخت ہو جاتا ہے تو گھر میں آجاتا ہوں۔ منگل بدھ کو ویسے ہی چھٹی ہوتی ہے۔‘‘
’’یہ دو چھٹیاں آپ کہاں اور کیسے گزارتے ہیں؟‘‘
’’جی میں گھر پر ہی رہتا ہوں ۔کہیں جاتا واتا نہیں ہوں۔‘‘
’’گویا آپ گھر پر آرام کرتے ہیں۔‘‘
’’میں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں گھر پر آرام کرتا ہوں۔میں نے تو یہ کہا ہے کہ گھر میں ہوتا ہوں۔‘‘
’’اچھا نیامت علی صاحب یہ بتائیں کہ آپ کی عمر کیا ہے؟‘‘
’جی 45سال‘
’اور آپ کی اہلیہ محترمہ کتنے سال کی ہیں؟‘
’مجھ سے چار سال چھوٹی ہیں۔‘
’’تو گویا مستقبل قریب میں بچوں کی پروڈکشن رکنے کا کوئی امکان نہیں‘‘
’’آپ آسان زبان میں بات کریں‘‘
’’میرا مطلب ہے کہ آپ کب تک بچوں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہیں گے۔‘‘
’’جب تک اﷲ توفیق دے گا جی۔‘‘
’’کیا بچوں سے آپ کا دل نہیں بھرا؟‘‘
’’یہ کیا کہہ رہے ہیں جی آپ ۔بچے تو اﷲ کی نعمت ہوتے ہیں ۔وہ دیتا ہے تو میں انکار کرنے والا کون ہوتا ہوں۔‘‘
’’آپ کی شادی کو کتنے سال ہوئے ہیں؟‘‘
’’پورے اکیس سال‘‘
’گویا آپ ہر سال بلاناغہ ایک بچہ پیدا کر لیتے ہیں۔ کیا منگل اور بدھ کی چھٹی کی طرح تخلیق بچگان کی چھٹی نہیں ہو سکتی؟‘‘
’’مجھے آپ کی بات کی سمجھ نہیں آئی۔‘‘
’’اچھا یہ بتائیں کہ آپ کے ہمسائیوں ، رشتہ داروں اور دوستوں نے کبھی آپ کو اس نیک کام سے منع نہیں کیا؟‘‘
’’ہمسائے تو بہت منع کرتے ہیں بلکہ ان سے تو کئی بار لڑائی بھی ہو چکی ہے ۔ ایک بار تمام ہمسائیوں نے مل کر تھانیدار صاحب کو عرضی دے دی کہ نیامت علی کے بچوں کی وجہ سے ہمارا محلہ کارپوریشن پرائمری سکول بن چکا ہے۔ اُسے اور اس کی بیوی کو چھ سات سال کیلئے اندر کر دیا جائے اور انھیں الگ الگ جیلوں میں رکھا جائے لیکن تھانیدار صاحب نے یہ کہہ کر انہیں بھگا دیا کہ ملکی قانون میں بچے پیدا کرنے کی پوری پوری اجازت ہے۔ یہ جواب سُن کر بے چارے منہ لٹکا کر گھر چلے آئے۔ اب آپ رشتہ داروں کی سن لیں۔ انہوں نے اس ڈر سے ہمارے ہاں آنا چھوڑ دیا ہے کہ کہیں ہم بچوں سمیت ان کے گھر نہ جا پہنچیں۔ برادری میں کوئی شادی ہوتو ہمیں نہیں بلایا جاتا۔ اگر کوئی بلا ہی لے تو کارڈ پر اپنے ہاتھ سے لکھ دیتا ہے کہ صرف نیامت علی اور اس کی بیوی آ سکتی ہے۔ اگر بچے ساتھ آئے تو سب کو دھکے مار کر گھر سے باہر نکال دیا جائے گا۔ دوستوں کا رویہ البتہ کافی بہتر ہے۔ وہ بچے پیدا کرنے سے منع تو کرتے ہیں لیکن ہنسی مذاق میں ۔ میرا ایک شرارتی دوست ہر تیسرے چوتھے روز دروازہ کھٹکھٹا کر پوچھتا ہے ’نیا بچہ پہنچا کہ نہیں؟‘ میری بیوی کی ایک سہیلی اکثر اُسے کہتی ہے تھوڑا ٹائم ہمارے لئے بھی نکال لیا کرو۔ ہماری ہمسائی خالی بتول اکثر ہمیں کہتی ہے ،بیٹا! نیند انسان کیلئے بہت ضروری ہے۔‘
’’نیامت علی صاحب دیکھا گیا ہے کہ ڈھیر سارے بچے پیدا کرنے والوں کے چند بچے فوت بھی ہوجاتے ہیں ۔کیا کبھی آپ کا بچہ بھی فوت ہوا ہے؟‘‘
’’فوت تو خیر کبھی کوئی نہیں ہوا ۔البتہ کئی بچے فوت ہونے کے قریب پہنچ گئے لیکن عین موقع پر بچ گئے ۔ بچوں کے فوت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ میں انہیں کبھی ڈاکٹر کے پاس لے کر نہیں گیا۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جو بچہ آٹھ دس بار ڈاکٹر کا منہ دیکھ لیتا ہے وہ اس دنیا سے منہ موڑ لیتا ہے۔ میری بیوی تو اپنے بچوں کا علاج چھوٹی الائچی ، بڑی الائچی، سونف، ملٹھی، ادرک، پودینہ، شہد، سُنڈ،ریٹھے، کچلا، روغن بادام اور افیم وغیرہ سے کر لیتی ہے۔ اﷲ نے اس کے ہاتھ میں بڑی شفا دی ہے۔ اب تو وہ کبھی کبھار دوسروں کے بچوں کا علاج بھی کرنے لگی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ریٹائر ہونے کے بعد اپنا کلینک کھول لے گی۔‘‘
’’آپ نے اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں کیا منصوبہ بندی کی ہے؟‘‘
’میں منصوبہ بندی کے سخت خلاف ہوں جی۔ مولوی صاحب کہتے ہیں جو بچہ پیدا ہوتا ہے اپنا رزق ساتھ لاتا ہے۔‘
’’میرا مطلب ہے کہ آپ کے بچے بڑے ہو کر کیا کریں گے؟‘‘
’’جو اُن کی قسمت میں ہو گا کر لیں گے۔ ہمیں فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
’’کیا آپ کے وہ بچے جن کی عمر پانچ سال سے زائد ہے سکول جاتے ہیں؟‘‘
’’پانچ سال سے زیادہ عمر کے میرے سولہ بچے ہیں۔ کیا میرا دماغ خراب ہے کہ میں انہیں سکول بھیجوں۔ جس گھر سے ہر روز سولہ بچے سکول جانے کیلئے نکلیں گے اس گھر کی روٹی کیسے چلے گی؟‘‘
’’اتنی بڑی فیملی کے اخراجات آپ کیسے برداشت کرتے ہیں؟‘‘
’’چار پانچ سو روپے روز کے کما لیتا ہوں۔ دال روٹی چل جاتی ہے۔ بڑے دو لڑکے میرے ساتھ گوشت بیچتے ہیں۔ چھوٹوں کو بھی ادھر ادھر ورکشاپوں ، کوٹھیوں وغیرہ میں کھپا دوں گا۔ ویسے معاف کیجئے گا بچے میرے ہیں۔آپ کو ان کے اخراجات کی اتنی فکر کیوں ہے؟‘‘
’’جی نہیں۔ مجھے کیا ضرورت ہے فکر کرنے کی، اچھا اب اجازت دیجئے ، خدا حافظ‘‘
’’خدا حافظ‘‘
 
Top