آتش نہ کرزیادہ بس اب اے فراق جاناں تنگ

دیواں آتش مکمل کرنا چاہتا ہوں

  • ہاں

    Votes: 3 100.0%
  • نہیں

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    3
دیوان آتش

نہ کر زیادہ بس اب اے فراق جاناں تنگ
گلے کو کاٹتا ہے اپنے ہو کے انساں تنگ

طلسم تازہ دکھاتا ہے دہدہ دل کو
کشادہ چہرے کے اوپر دہان جاناں تنگ

رہے نہ لالہ و گل سے کوئی جگہ خالی
بہار باغ سے ہو عرصہ گلستان تنگ

پنہائی زخموں کی بدھی جو تیغ نے تیری
خوشی سے ہو گئے پیراہن شہیداں تنگ

نصیب شانے کے پیدا کرے دل صد چاک
بغل میں لیں اسے وہ گیسوئے پریشاں تنگ

وہ دل ہے جس میں تصویر ہو خوش جمالوں کا
وہ گھر ہے جس کو کہ رکھے ہجوم مہماں تنگ

نکل کے خائہ زنداں سے میں کدھر جاؤں
جنوں کے جوش میں ہے وہ جہاں کا میدان تک

یہ گوش ہی ہیں کہ باتیں زباں کی سنتے ہیں
نکل گئے ہیں دہن میں سے ہو گے دنداں تنگ

بہار گل میں جو دل کو ہوائے صحرا ہے
ہما ہے روح کو قالب سے اپنے زنداں تنگ

شکار مومن و کافر کا کھیلتا ہے وہ ترک
کمند زلف سے ہیں ہندو و مسلمان تنگ

نقاب رخ سے جو دل کو وہ شمع رو الٹے
یقین ہے کثرت پروانہ سے ہو ایواں تنگ

بہار گل میں جو میں دھجیا نہ لوں اس کی
گلا دبانے کو پھانسی سے ہو گریباں تنگ

خواجہ حیدر علی آت۔شؔ
 
Top