نو آدم خور اور ایک پاگل ہاتھی

قیصرانی

لائبریرین
بیرا پُجاری

10 بیرا پجاری

جب بیرا پجاری سے میری پہلی ملاقات ہوئی، اس نے صرف ایک لنگوٹی نما چیز پہن رکھی تھی۔ لنگوٹی بھی کیسی کہ محض تین انچ چوڑی کپڑےکی دھجی تھی جو ٹانگوں کے درمیان سے ہو کر کمر پر ایک غلیظ دھاگے سے بندھی ہوئی تھی۔ لیکن وہ ایک نہایت عمدہ شخص اور میرا دوست ہے۔

میری بیرا سے پہلی ملاقات کو اب پچیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ یہ ملاقات کچھ ایسے ہوئی تھی۔

صبح کاذب کا وقت تھا۔ مشرقی افق سے آنے والی روشنی سے متھور کا بنگلہ اور اس کے گرد موجود پہاڑیاں روشن ہو رہی تھیں۔ ان کی وجہ سے یہاں سے گذرنے والی ندی کو دریائے چنار کا نام دیا گیا تھا۔ یہاں دریا گھنے جنگل سے نکل کر تنگ سا موڑ کاٹ کر سات میل دور دریائے کاویری سے جا ملتا ہے۔ گرمیوں کا موسم تھا اور دریائے چنار بالکل خشک پڑا تھا۔

میں حسب معمول جلدی اٹھا تھا اور جنگل کی سیر پر نکل کھڑا ہوا۔ دریائے چنار کی سنہری ریت پر چلتے ہوئے میں ریچھ سے مڈبھیڑ کا منتظر تھا۔ اس موسم میں ریچھ اس وقت دریا کے کنارے مختلف پھلوں کی تلاش میں آتے تھے۔ میرا اندازہ تھا کہ اگر ریچھ نہ سہی، تیندوے سے تو لازماً ہی ملاقات ہو جائے گی۔ مجھے یہ بھی علم تھا کہ اس وقت تیندوے کنارے کے جنگل کی گھنی گھاس میں دُبکے شکار کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ ان دنوں سانبھر، ہرن، جنگلی بھیڑ اور چیتل وافر مقدار میں ملتے تھے۔ اگرچہ میرا ارادہ شکار کا بالکل بھی نہیں تھا۔

ابھی میں بنگلے سے میل بھر ہی دور گیا ہوں گا۔ صبح کاذب کی روشنی تیزی سے ختم ہو رہی تھی۔ اچانک میں نے پہلے جنگلی مرغ پھر مور کی آواز سنی۔ پھر سامنے والی مہندی کی جھاڑیوں میں عجیب سی سرسراہٹ ہوئی۔ میرے پاس اتفاق سے ٹارچ موجود تھی۔ اس لئے میں بہت احتیاط کے ساتھ اس جھاڑی سے دس فٹ کے فاصلے پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ یہاں میری نظر ایک گڑھے پر پڑی جو کہ تین فٹ چوڑا اور تین ہی فٹ گہرا تھا۔ اس میں فٹ بھر پانی بھرا تھا جو دریا کی تہہ سے نکل آیا تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ کسی غیر قانونی شکاری کا کام ہے۔ یہ شکاری یہاں کسی ہرن وغیرہ کے انتظار میں بیٹھا ہوگا۔ اس کے پاس توڑے دار بندوق ہوگی جو اس ہرن بیچارے کا کام تمام کر دے گی۔ جو آواز پیدا ہوئی تھی وہ شاید یا تو مجھے دیکھ کر شکاری کے چھپنے کی کوشش میں پیدا ہوئی ہوگی یا پھر اس نے رات بھر جاگنے کے بعد اب نیند کی حالت میں کروٹ بدلتے ہوئے نکالی ہوگی۔

میں نے تامل زبان میں زور سے اس شکاری کو کہا کہ وہ باہر نکلےو رنہ میں اسے گولی مار دوں گا۔ پہلے پہل تو خاموشی رہی۔ میں چند قدم اور آگے بڑھا تو ایک تاریک سا سایہ ان جھاڑیوں سے نکلا۔ میرے سامنے رُک کر اس نے اپنا ماتھا زمین پر تین بار رگڑا۔

میں نے اسے اٹھنے کا حکم دیا اور پوچھا"تم کون ہو؟" اس نے جواب دیا "بیرا، ایک پجاری!"۔ میں نے پوچھا "بندوق کہاں ہے؟" اس نے حیرت سے پوچھا "کون سی بندوق؟ کیسی بندوق؟ میرے جیسے سیدھے سادھے بندے کے پاس بندوق کہاں سے آئی مالک؟ میں تو ایک مسافر ہوں۔ رات کو ادھر سے گذرتے ہوئے راستہ بھول گیا تو تھک کر ادھر سو گیا۔ میں نے تو آج تک بندوق دیکھی تک نہیں۔" میں نے پھر کہا "بندوق اٹھا کر باہر لاؤ۔" وہ چند لمحے تذبذب کا شکار رہا پھر جھاڑی میں گھس کر ایک پرانی توڑے دار بندوق لا کر میرے قدموں میں ڈال دی۔ یہ عجیب بندوق گز بھر لمبی اور پتلے سے بمشکل تین ان چوڑے کندے پر مشتمل تھی۔

بیرا سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ بیرا جو کہ ایک پجاری اور چوتھائی صدی سے میرا دوست ہے۔ اس نے ہی مجھے جنگل اور اس کی نباتات اور حیوانات کے بارے سب کچھ بتایا ہے۔

"تم نے کیا شکار کیا ہے؟" اس نے میرے قدموں پر جُھک کر کہا "ساری رات بیکار ہی گذری مالک۔" میں نے پھر سختی سے پوچھا "کیا شکار کیا ہے؟" اس بار اس نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہا۔ دریا کے کنارے ریتلی زمین پر ایک مادہ سانبھر مردہ پڑی تھی۔ اس کی گردن میں ایک بڑا سا سوراخ تھا جس سے خون نکل نکل کر آس پاس کی زمین کو سرخ کر گیا تھا۔

میں نے اسے غصے، نفرت اور ناراضگی کے ملے جُلے تائثر سے دیکھا تو وہ بولا "مالک، ہم بھوکے ہیں۔ اگر شکار نہ کریں تو کھائیں کیسے اور اگر نہ کھائیں تو زندہ کیسے رہیں؟"

اس سے چند گز دور بیٹھ کر میں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اپنا تمباکو نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے پہلے تو کافی مشکوک ہو کر تمباکو کو ہتھیلی پر رکھ کر سونگھا، پھر خوش ہو کر اسے چبانے لگا۔ کئی منٹ اسی طرح گذرے اور مجھے بھی مجبوراً خاموش رہنا پڑا۔

"مالک فارسٹ گارڈ کو میری بندوق کے بارے تو نہیں بتائیں گے؟ یہ میرا واحد روزگار کا زریعہ ہے۔ فارسٹ گارڈ کو علم ہوا تو وہ اسے چھین لے گا اور مجھے جیل ہو جائے گی۔ میری بیوی اور چار بچے بھوک سے مر جائیں گے۔" بیرا نے انتہائی متفکر انداز میں پوچھا۔

اب یہ کافی عجیب صورتحال تھی۔ جنگل میں شکار کا میرا لائسنس اس بات کا متقاضی تھا میں اس جنگل کے تمام غیر قانونی شکاریوں کو پولیس کے حوالے کروں۔ اس کے علاوہ مجھے اس بدمعاش سے کوئی ہمدردی نہیں ہونی چاہیئے جو کہ مادہ جانوروں کو بھی اتنی بے دردی سے مار رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے شکار کا طریقہ بھی نہایت ظالمانہ تھا۔ پانی کے لالچ میں آنے والے پیاسے جانوروں کو مارتا تھا۔ دوسری طرف مجھے اس چھوٹے سے بندے پر بہت ترس بھی آ رہا تھا۔ اس کی گفتگو سے یہ بات صاف ظاہر تھی کہ وہ مجھ سے امید لگائے ہوئے ہے۔ شاید یہ میرے تمباکو کا اثر ہو۔

براہ راست جواب سے بچتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ اس نے جواب دیا "ہمارا کوئی گھر نہیں نہ ہی کوئی جھونپڑا اور نہ ہی کوئی کھیت۔ ہم سارا دن شہد تلاش کرتے ہیں۔ اگر کوئی چھتہ خوش قسمتی سے مل جائے تو ہم اسے پناگرام کے بازار میں بیچ دیتے ہیں۔ شہر کے چھوٹے برتن کے عوض ایک روپیہ ملتا ہے۔ اس سے ہم چار دن کے کھانے کے برابر راگی خرید لیتے ہیں۔ اگر شہد نہ ملے تو ہم "اودمبو" یعنی گوہ پکڑ لیتے ہیں۔ اس کا گوشت کھانے کے کام آتا ہے اور اس کی کھال بیچ دیتے ہیں۔ اس کی دم پناگرام کا ایک ڈاکٹر ہم سے مہنگے داموں خرید لیتا ہے۔ یہ ڈاکٹر بھی بہت شاندار آدمی ہے۔ وہ اسکی دم کو پکا کر مختلف دوائیوں میں ملاتا ہے۔ پھر اسے خشک کر کے پیستا ہے اور پھر اسے پیکٹوں کی صورت میں بیچتا ہے۔ آٹھ آنے فی پیکٹ یہ دوائیں مردانہ کمزوری کے لئے تیر بہدف نسخہ ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر اس سفوف کی ایک چٹکی کسی لڑکی کے بائیں شانے پر ڈال دیں تو وہ فوراً ہی رام ہو جاتی ہے۔ "

اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا "اگر مالک کو کوئی لڑکی پسند ہو اور وہ اسے رام نہ کر سکیں تو میں ان کے لئے یہ سفوف لا سکتا ہوں۔ یہ بالکل مفت ہوگا۔ ڈاکٹر میرا گہرا دوست ہے اور اسے گوہ کی دم میری ہی مدد سے ملتی ہے۔ آپ کو صرف میم صاحب کے بائیں شانے پر اس سفوف کی چٹکی ڈالنی ہوگی اور بس میم صاحب ہمیشہ کے لئے آپ کی ہو جائیں گی۔"

میں نے اسے سختی سے کہا کہ وہ میری محبت کی فکر چھوڑے بلکہ اپنی کہانی جاری رکھے۔

"بعض اوقات جب ہم بہت بھوکے ہوں تو ہم جنگل میں مختلف جڑیں کھودتے ہیں۔ اس کے تنے پر تین پتے ہوتے ہیں۔ ان جڑوں کو آگ میں بھون کر یا پھر نمکین پانی میں کڑی مصالحے کے ساتھ اُبالنے سے یہ بہت لذیذ ہو جاتی ہیں۔ رات کو میں، میری بیوی اور میرے بچے "انائی بدھا" دریا کے کنارے کھودے ہوئے گڑھے میں سوتے ہیں۔ گرم موسم میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، میں چھپ کر شکار کرنے جاتا ہوں تو میری بیوی اور بچے باری باری رات بھر جاگتے ہیں مبادا کہ ہاتھی آ جائیں۔ اگر ہاتھی آ جائیں تو جاگنے والا فرد باقیوں کو جگا دیتا ہے اور وہ سب بھاگ کر گڑھے کے کنارے اگے بڑے درخت پر چڑھ جاتے ہیں۔ یہ ہاتھی بہت بدمزاج ہیں اور فوراً ہی حملہ کر دیتے ہیں۔ سال قبل ہاتھیوں نے ایک پُجاری عورت کو اسی طرح کے ایک گڑھے سے نکال لیا تھا۔ وہ بے خبر سو رہی تھی۔ اسے سُونڈ میں جکڑ کر اور درخت کے تنے سے مار مار کر ہلاک کر دیا۔ جب بڑا جانور ہاتھ لگ جائے تو ہم نہ صرف خود اس کا گوشت کھاتے ہیں بلکہ اسے دھوئیں میں سُکھا کر پناگرام کے بازار میں پندرہ روپے کے عوض بیچ دیتے ہیں۔ پندرہ روپے میں مہینے بھر کا راشن آ جاتا ہے۔ امید ہے کہ مالک یہ سب جان کر فارسٹ گارڈ کو میری بندوق کے بارے نہیں بتائیں گے۔ اتفاق سے یہ میرے والد کو ان کے والد نے بطور تحفہ دی تھی اور اُس وقت اس کی قیمت تیس روپے تھی۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

یہ بدمعاش اب امید بھری نگاہوں سے میری جانب دیکھنے لگا۔ اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ اور آنکھوں سے پریشانی جھلک رہی تھی۔ میرا احساس ذمہ داری بطور لائسنس ہولڈر کہیں دور جا سویا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ انکار کروں لیکن میرے منہ سے بے اختیار نکلا "نہیں بیرا، میں بالکل بھی نہیں بتاؤں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔"

وہ اُچھل کر کھڑا ہوا اور پھر اس نے پُجاریوں کے سے انداز میں تین بار اپنا ماتھا زمین پر ٹیکا اور بولا "میں تہہ دل سے مالک اپنی اور اپنے خاندان کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج سے ہم سب آپ کے غلام ہیں۔"

میں نے بیرا سے وعدہ لیا کہ وہ دن چڑھے میرے بنگلے پر آئے گا۔ دراصل میں اس سے اس جنگل کے درندوں کی بابت پوچھنا چاہ رہا تھا۔ واپسی پر جان بوجھ کر میں مردہ سانبھر سے دور ہو کر گذرا ورنہ شاید میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا۔

وعدے کا پکا بیرا دس بجے میرے بنگلے پر پہنچا۔ سوالات کرنے پر پتہ چلا کہ دو دن قبل جب وہ سانبھر کی تلاش میں بیٹھا تھا تو ایک شیر اس سے پانچ فٹ کے فاصلے سے گذرا تھا۔ اس نے بتایا کہ یہ بوڑھا شیر اس علاقے میں ہی رہتا ہے اور عمر کی وجہ سے اس کی نقل و حرکت بہت محدود ہو چکی ہے۔

اس نے ایک اور داستان سنائی۔ پچھلے ماہ وہ اسی طرح چھپا ہوا اپنی توڑے دار بندوق کے ساتھ سانبھر کا انتظار کر رہا تھا۔ اچانک پانی کے گڑھے پر ایک چیتل نمودار ہوا ۔ چاند پوری طرح چمک رہا تھا۔ اس نے نشانہ لے کر گولی چلائی اور چیتل وہیں ڈھیر ہو گیا۔ بیرا نے بندوق دوبارہ بھری اور سونے کی تیاری کرنے لگا۔ اچانک ایک شیر نزدیکی جھاڑیوں سے نکلا اور سیدھا چیتل کی لاش پر آ کر رُکا۔ شیر نے لاش کو سُونگھا اور پھر اسے اٹھا کر چلتا بنا۔ بیرا نے اپنی توڑے دار بندوق کی وجہ سے ہلنے کی جرأت بھی نہ کی کہ اسے ایک بار چلانے کے بعد دوبارہ بھرنے میں کافی وقت لگتا تھا۔

اس وقت میرے ساتھ کوئی چارے کا جانور نہیں تھا۔ میں اگر کسی کو پناگرام بھیجتا تو وہ جانور لے کر تب پہنچتا جب دن کی روشنی ختم ہو چلی ہوتی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ رات کو بیرا کے ساتھ "امیراں ووڈو" کے کنارے بیٹھوں۔ میں نے بیرا کو یہ صاف کہہ دیا کہ جب تک وہ میرے ساتھ رہے گا، اسے غیر قانونی شکار کا خیال تک نہ آئے۔

چھ بجے ہم دونوں ندیوں کے درمیان والے جنگل میں بیرا کی بنائی ہوئی کھوہ نما پناہ گاہ میں بیٹھ گئے۔ یہ نہایت آرام دہ تھی۔ راتیں کافی گرم تھیں۔ بیرا صرف لنگوٹی پہنے ہوئے تھا۔ اس دن میں نے بیرا سے یہ سبق سیکھا کہ شکار کے انتظار میں کیسے بیٹھا جاتا ہے۔ جب بیرا بیٹھا تو ساری رات اس کی ٹانگ یا بازو تک بھی نہیں ہلا۔ دو بجے تک جب کوئی جانور نہ دکھائی دیا تو میں بے صبرا ہو کر سو گیا۔ صبح جب منہ اندھیرے بیدار ہوا تو بیرا ابھی تک اسی انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔

میری مایوسی کا اندازہ کرتے ہوئے اس نے مجھے مدد کی پیش کش کی کہ دن چڑھے وہ میرے ساتھ شیر کے پگ تلاش کرنے نکلے گا۔ بنگلے میں آ کر ، ناشتہ کر کے اور غسل سے فارغ ہو کر ہم نو بجے سے پہلے پلٹ آئے۔ میل بھر آگے جا کر ہم نے دیکھا کہ ایک بڑے نر شیر کے پگ دکھائی دیئے۔ یہ شیر شاید رات کو ادھر سے گذرا تھا۔ زمین اتنی سخت تھی کہ پگ کا پیچھا کرنا ممکن نہ تھا۔ بیرا کا خیال تھا کہ اسے چند ایسی جگہیں معلوم ہیں جہاں شیر کی موجودگی ممکن ہے۔

ہم لوگ آگے بڑھتے چلے گئے۔ پوری وادی کی گھنی گھاس اور جھاڑیاں چھان ماریں۔ بانس کے جھنڈ بھی نہ چھوڑے۔ ایک بار ہمیں ہاتھی کی وہ آواز سنائی دی جو وہ خوراک کو ہضم کرتے ہوئے نکالتا ہے۔ ہمیں علم تھا کہ اگر اس حالت میں ہاتھی کو چھیڑا جائے تو وہ بہت خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ ہم نے راستہ بدل کر دوسری سمت سے پیش قدمی جاری رکھی۔

اب ہم اس جگہ آ گئے جہاں جنگل صرف جھاڑیوں پر مشتمل تھا۔ ہر طرف چھوٹے چھوٹے پتھر بکھرے پڑے تھے۔ بیرا نے بتایا کہ شیر اور ریچھ اسی جگہ کے غاروں میں رہتے ہیں۔ پتھریلی زمین پر چلنے اور سخت گرمی کی وجہ سے ہمیں نشانات نہ دکھائی دیئے۔ میں نے واپسی کا ارادہ کیا۔ بیرا نے مزید کچھ دور چلنے کی درخواست کی۔

جلتے سورج کے پسینے سے شرابور ہم آخر کار پہاڑی کی چوٹی تک آ گئے جہاں سے دوسری طرف کی ڈھلوان شروع ہوتی تھی۔ اس جگہ اترائی چڑھائی سے زیادہ دشوار تھی اور زیادہ پتھریلی بھی۔ آخر کار ہم اس جگہ پہنچے جہاں کئی غار تھے۔ بیرا نے کہا کہ میں سائے میں بیٹھ جاؤں اور وہ ادھر ادھر کا جائزہ لے کر آتا ہے۔ بخوشی میں بیٹھ گیا اور پائپ سلگا لیا۔ بیرا جلد ہی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

دس منٹ بعد ہی بیرا لوٹ آیا۔ وہ بہت پرجوش دکھائی دے رہا تھا اور اس ے بتایا کہ اس نے شیر کی بو محسوس کی ہے۔ شیر لازماً یہیں کہیں نزدیک ہی چھپا ہوا ہے۔ اس وقت تک میں سخت مایوس اور تھک چکا تھا۔ میں نے کافی سخت لہجے میں اسے بکواس بند کرنے کو کہا۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور اس کے چہرے پر عجیب سے تائثرات پیدا ہوئے۔ وہ بولا آئیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ اس نے اتنا کہا اور میرے جواب کا انتظار کئے بنا چل دیا۔

رائفل اٹھائے میں اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ فوراً ہی غار ہمارے سامنے تھے۔ بیس گز نزدیک جا کر بیرا نے مجھ سے کہا کہ اسے شیر کی بو آ رہی ہے۔ مجھے کچھ نہ محسوس ہوا۔ کچھ اور پاس ہو کر اس نے پھر سونگھنے کو کہا۔ اس بار میں نے بو کو صاف محسوس کیا۔ ایسی بو جو گلی سڑی سبزیوں سے آتی ہے۔ میرے کئی سال کے مشاہدے نے بتایا تھا کہ یہ بو شیر سے ہی آتی ہے۔

بیرا نے سر اٹھا کر ان پانچ غاروں کا جائزہ لیا جو سامنے تھے۔ اس نے کافی دیر جائزہ لے مجھے بتایا کہ ان میں سے چوتھا غار ایسا ہے جہاں شیر کی موجودگی کا امکان ہے۔ یہ غار میرے اندازے کے مطابق بالکل بھی شیر کے لئے موزوں نہیں تھا۔

میں نے غیر یقینی انداز سے اسے دیکھا۔ اس نے میرے تائثرات کو نظر انداز کر کے مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ہم لوگ جلد ہی اس جگہ پہنچ گئے جہاں پتھر سے سر نکال کر ہم غار میں جھانک سکتے تھے۔ میں نے سر اٹھا کر جھانکا تو وہ جگہ خالی تھی۔ دوسرے ہی لمحے جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھمائی ہو، ایک بہت بڑے شیر کا سر نمودار ہوا جس کی آنکھوں سے تحیر جھلک رہا تھا۔

بمشکل آٹھ فٹ کی دوری سے میری گولی اس کی آنکھوں کے عین درمیان لگی۔ شیر اس ڈھلوان پر لڑھکتا ہوا بالکل اس پتھر پر آ کر ٹک گیا جو میرے سامنے تھا۔ اس کا بھاری سر اس کے اگلے پنجوں کے درمیان تھا، سبزی مائل آنکھیں نیم وا تھیں اور پیشانی سے خون کی دھار نکل رہی تھی۔

بیرا کی جنگل کے بارے معلومات کے امتحان کا یہ پہلا مرحلہ بخوبی طے ہوا۔ میں حد سے زیادہ خوش تھا لیکن بیرا پر اپنی خوشی ظاہر نہ ہونے دی۔ گذرتے سالوں سے ہماری دوستی اور اعتماد کا رشتہ پختہ ہونے لگا اور آج تک مجھے بیرا سے دوستی پر کبھی افسوس نہیں ہوا۔

ذیل میں بیرا کے ساتھ بے شمار واقعات میں سے دو واقعات درج ذیل ہیں۔ پہلا واقعہ تلوادی کے ریچھوں کے بارے ہے جہاں بیرا نے بخوشی مجھے بچانے کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ دوسرا منداچی پالم کے آدم خور شیر کے بارے ہے۔

تلوادی دراصل ایک وسیع وادی کا نام ہے جہاں تلوادی نام کی ایک ندی گذرتی ہے۔ جہاں میری بیرا سے پہلی ملاقات ہوئی تھی، یہ جگہ ادھر سے گیارہ میل دور ہے اور سالم ضلع کے دور افتادہ جگہوں میں سے ایک۔

تلوادی ندی آئیور کے مقام پر جہاں سے گذرتی ہے، اسے میں مکڑیوں کی وادی کے نام سے جانتا ہوں۔ یہاں سرخ اور پیلی مکڑیوں کے جالے ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ جالے بیضوی شکل کے اور بیس فٹ تک لمبے ہو سکتے ہیں۔ درمیان میں مکڑی خود ہوتی ہے جو عموماً نو انچ تک لمبی ہوتی ہے۔ اتنی بڑی جسامت کے باوجود یہ مکڑیاں بہت زود رنج اور غصیلی ہوتی ہیں۔اس کا شکار پتنگے اور تتلیاں ہوتے ہیں۔ جنگل کے دوسرے حشرات بھی یہ نہیں چھوڑتیں۔ یہ مکڑیاں اپنی ہی نسل کی دوسری مکڑیوں کے لئے بھی یکساں خطرناک ہوتی ہیں۔ اپنے جالے میں دوسری مکڑی کی موجودگی کا مطلب دونوں میں سے ایک نہ ایک مکڑی کی ہلاکت ہے۔

تلوادی کی ندی اس مقام سے گذرتی ہے اور دو شاخوں میں مقسم ہو جاتی ہے۔ چھوٹی شاخ جنوب کی طرف کمپی کاری کی وادی کی جانب دریائے چنار سے جا ملتی ہے۔ یہ علاقہ کمپی کاری کے پاگل ہاتھی کی بھی آماج گاہ رہا ہے۔ جس نے سات آدمی، دو تین مویشی مار ڈالے تھے اور پانچ یا چھ بیل گاڑیاں بھی تباہ کر دی تھیں۔ ایک تین ٹن وزنی لاری جو بانس لاد کر جا رہی تھی، کو بھی الٹ دیا۔ ندی کا بڑا حصہ مغرب کی جانب بہتے ہوئے چند میل بعد جنوب مغرب کا رخ کر لیتا ہے۔

یہ حصہ بالعموم گھنے جنگلات سے بھرا ہوا ہے۔ پہاڑی علاقے نسبتاً چھدرے لیکن باقی ہر جگہ بانس بھرا ہوا ہے۔ اس کے اختتام پر بلگنڈلو نامی مچھیروں کی بستی ہے۔ اس سارے علاقے میں ہاتھیوں اور بھینسوں کے غول موجود ہیں۔ اکا دکا شیر بھی پائے جاتے ہیں۔ تلوادی بذات خود گھنی گھاس سے ڈھکی اور تیندوؤں کا مسکن ہے۔ یہاں ریچھ، جنگلی سور، سانبھر، بھونکنے والے ہرن اور مور بھی اتنی بڑی تعداد میں ہیں جو میں نے کہیں اور نہیں دیکھے۔

کہانی کی ابتداء کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ بیرا نے مجھے پوسٹ ماسٹر کے ذریعے خط بھیجا۔ اس میں لکھا تھا کہ ایک بہت بڑا تیندوا ماتھور انچٹی والی سڑک کے گیارہوں میل سے پندرہویں میل کے درمیان مویشی مار رہا ہے۔ خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ یہ تیندوا عام شیر سے بھی زیادہ بڑا ہے۔

پانچ دن کی چھٹی لے کر میں ڈینکانی کوٹہ کے شارٹ کٹ سے ہوتا ہوا انچٹی اور پھر ماتھور پہنچا جہاں میری ملاقات بیرا سے ہوئی۔ یہاں سے ہم پندرہویں میل کی طرف پلٹے جو وادی میں ہی تھا۔ سڑک بالکل تباہ شدہ تھی۔ راستے میں کئی ندیاں تھیں اور راستہ جگہ جگہ بیل گاڑیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے کٹا پھٹا تھا۔ راستے میں ہی بڑے بڑے پتھر بکثرت تھے جو کہ کار اور اس کے مالک سے خراج وصول کرتے تھے۔ خیمہ لگا کر ہم لوگ مویشی پٹی کی طرف چلے گئے جو یہاں سے پون میل دور ہے۔ یہاں میں نے بذات خود تیندوے کے بارے سنا۔ تیندوے نے ریوڑ پر حملہ ساڑھے پانچ بجے کیا جب ریوڑ گاؤں واپس لوٹ رہا تھا۔ اس نے حملے کے لئے سب سے بڑی گائے کا انتخاب کیا۔ کئی چرواہوں نے تیندوے کو بھگانے کی کوشش کی لیکن الٹا تیندوا ان پر غراتا رہا۔ میرے علم کے مطابق یہ تیندوا کسی ایک جگہ نہیں رہتا تھا اور چار میل چوڑا علاقہ اس کی آماج گاہ تھا۔

چرواہوں کو جانور بیچنے پر مجبور کرنا بہت مشکل کام ہے۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تیندوے کی ہلاکت ان کے لئے ہی فائدہ مند ہوگی، وہ مذہبی تقدس کے باعث مجبور تھے۔ خیر مختلف طریقے آزما کر میں نے دو عدد تقریباً جوان جانور خریدے۔ ایک کو دریا کے کنارے اور دوسرے کو چودہویں سنگ میل کے ساتھ باندھا۔

اب میرا کام صرف انتظار کرنا ہی تھا کہ تیندوا کب انہیں ہلاک کرتا ہے۔ یہاں مور اور جنگلی مرغ بکثرت تھے۔ لیکن ان پر گولی چلاتا تو تیندوا بھاگ جاتا۔ صبح شام میں وادی کا چکر لگاتا کہ شاید تیندوے یا پھر کسی شیر سے مڈبھیڑ ہو جائے۔

خوش قسمتی سے تیسرے ہی دن شام کو سات بجے مجھے اطلاع ملی کہ اسی روز تیندوے نے دوسری مویشی پٹی سے ایک گائے ماری ہے جو یہاں سے تین میل دور ہے۔ جونہی گاؤں والوں کو خبر ہوئی، انہوں نے میری طرف ہرکارہ بھیج دیا۔

رائفل اٹھاتے ہوئے میں نے ٹارچ اور اوور کوٹ بھی اٹھائے اور اس جگہ کا رخ کیا جہاں گائے ماری گئی تھی۔ کئی فرلانگ قبل ہی میں نے ٹارچ بجھا دی اور اس طرح ہم لوگ احتیاط سے چلنے لگے۔ پہاڑیوں سے نصف چاند طلوع ہو رہا تھا۔ یہاں ایک تنگ موڑ مڑتے ہی تیندوا دکھائی دیا۔ وہ مردہ گائے کے پیچھے عین راستے کے درمیان چھپا ہوا تھا۔

میرے پاس بارہ بور کی بندوق تھی جو کم فاصلے کے لئے مناسب ہی۔ میری ونچسٹر رائفل بیرا اٹھائے میرے پیچھے تھا۔ قبل اس کے کہ میں بندوق اٹھاتا، تیندوے نے چھلانگ لگائی اور جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔

میں نے سرگوشی میں بیرا سے کہا کہ وہ چرواہے کے ساتھ باتیں کرتا ہوا واپس چلے تاکہ تیندوا دھوکا کھا جائے کہ ہم جا چکے ہیں۔ میں خود بیس قدم دور کھجور کے ایک جھاڑی نما درخت کے پیچھے چھپ گیا۔

تیندوے نے جلد ہی اپنی موجودگی کی اطلاع آواز نکال کر بہم پہنچائی۔ پھر یہ آواز اس طرف سے آئی جہاں بیرا اور چرواہا گئے تھے۔ شاید وہ پوری تسلی کرنا چاہتا ہوگا۔ گھنٹہ بھر کی خاموشی کے بعد تیندوا اچانک ہی نمودار ہوا۔ وہ اب بھی اس راستے کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں سے ہم لوگ آئے تھے۔

نیم تاریکی میں میں نے اس کے شانے کے پیچھے ہر ممکن احتیاط سے نشانہ لے کر گولی چلائی۔ تیندوا گز بھر ہوا میں اچھلا۔ زمین پر آئے بغیر اس نے ہوا ہی میں چھلانگ لگائی اور دوسری گولی چلانے سے قبل ہی گم ہو گیا۔ بلاشبہ اس کے فرار کے وقت کی آوازیں بتا رہی تھیں کہ وہ زخمی ہو چکا ہے۔ چند منٹ بعد خاموشی چھا گئی۔ میں نے مزید وقت گذارنا بیکار سمجھا اور واپس چل دیا۔

اگلی صبح ہم لوگ منہ اندھیرے اس جگہ واپس لوٹے۔ یہاں فوراً ہی بیرا نے تیندوے کے خون کے نشانات تلاش کر لئے۔ اس بار میں رائفل سے مسلح تھا۔ بیرا میرے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میرے Lg کے چھرے تیندوے کو لگے تھے۔ اس طرح تیندوے کی تلاش اور حملہ کی صورت میں اسے روکنا میرے ذمہ تھا۔ بیرا میرے پیچھے نسبتاً محفوظ رہ کر کھوج لگاتا آ رہا تھا۔

سو گز دور ہی ہمیں تیندوے کے رکنے کا پہلا نشان ملا۔ یہاں سے تیندوا ایک نزدیکی نالے میں گھس گیا تھا جہاں گھنی جھاڑیاں تھیں۔ یہاں پیچھا کرنا نہ صرف مشکل بلکہ خطرناک بھی ہوتا۔

پنجوں کے بل چلتے ہوئے ہم بار بار رک کر تیندوے کے لئے ادھر ادھر دیکھتے رہے۔ ہمیں علم نہ تھا کہ تیندوا زندہ ہے یا مر چکا ہے۔ یہاں میں بار بار جھاڑیوں اور گھاس میں اسے تلاش کرتا رہا۔ خوش قسمتی سے یہاں چٹانیں اور درخت بہت کم تھے۔

اسی طرح ہم چند ہی قدم چلے ہوں گے کہ اچانک میرے سامنے ایک گڑھے سے ایک عجیب الخلقت جانور نکلا۔ یہ ایک مادہ ریچھنی اور اس کا بچہ تھے جو اس گڑھے میں سو رہے تھے۔

ریچھنی کے سینے پر V کا نشان بالکل صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ نسبتاً اوپر کو اٹھی۔ اس کا انداز کافی جارحانہ اور غصیلہ تھا۔ پھر وہ دوبارہ چاروں پیروں پر جھکی اور سیدھا ہماری طرف آئی۔ میری رائفل بالکل اس کے کھلے منہ میں تھی کہ میں نے فائر کیا۔ اس لمحے وہ ہوا جس پر شکاری کی زندگی اور موت کا دارمدار ہوتا ہے۔ یعنی "مس فائر"

اس نے رائفل کو دانتوں میں جکڑ کر اس پر پنجہ مارا اور رائفل میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ اپنے دفاع میں پیچھے ہٹتے ہوئے میں ٹھوکر کھا کر گرا۔ ریچھنی میری طرف لپکی تاکہ مجھے نوچ سکے۔ عموماً یہ جانور سب سے پہلے چہرہ نوچتے ہیں۔ اس لمحے بیرا نے وہ عظیم ایثار کیا جو مجھے ساری زندگی اس کا احسان مند رکھنے کے لئے کافی ہے۔

وہ چھلانگ لگا کر میرے اور ریچھنی کے درمیان آیا اور پوری قوت سے چلانے کی کوشش کی تاکہ ریچھنی بھاگ جائے۔ اسے صرف اتنی کامیابی ہوئی کہ ریچھنی اب اسے بھلا کر بیرا پر حملہ آور ہو گئی۔

چونکہ بیرا آخری لمحے اس کے سامنے آیا تھا، ریچھنی کے دانت اس کے شانے میں گڑ گئے۔ اس کے پنجوں نے بیرا کے سینے، کمر اور پہلوؤں کو چھیل کر رکھ دیا۔ بیرا نیچے گرا اور ریچھنی اس پر لپٹی ہوئی تھی۔ میں فوراً رائفل کی طرف لپکا۔ میں نے مس فائر والا کارتوس نکالنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ لیور کام چھوڑ چکا ہے۔ چند ہی لمحے گذرے ہوں گے۔ بیرا درد سے چلا رہا تھا اور ریچھنی غصے سے۔ رائفل کو ڈنڈنے کی طرح اٹھائے دستے والے سرے کو ریچھنی کے سر پر مارا۔ شکر ہے کہ میرا نشانہ خطا نہیں ہوا اور ریچھنی نے بیرا کو چھوڑ دیا اور پھر میری رائفل منہ میں پکڑ لی۔ اس بار اس کے دانت دستے میں گڑ گئے۔ رائفل پھر میری گرفت سے چھوٹ گئی۔ اس نے دستے کو کترنا شروع کر دیا۔ خوش قمستی سے ریچھنی کے بچے نے، جو اس دوران حیرت اور دہشت سے دم بخود تھا، چند چیخیں ماریں۔ اچانک ہی ریچھنی نے رائفل چھوڑ دی اور بچے کی طرف لپکی۔ اس نے بچے کو بغور دیکھا اور سونگھا۔ پھر اچانک ہی دونوں مڑ کر ہماری نظروں سے جلد ہی اوجھل ہو گئے۔ یہ دہشت ناک منظر کئی دن تک میرے اعصاب پر سوار رہا۔

بیرا کہنیوں اور گھٹنوں کے بل جھکا درد کے مارے تڑپ رہا تھا۔ اس کے زخموں سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ میں نے بھاگ کر اپنا کوٹ اور قمیض اتاری۔ قمیض کو پھاڑ کر پٹیاں بنائیں اور بیرا کے زیادہ گہرے زخموں پر پٹی باندھنے کی کوشش کی تاکہ خون کا بہاؤ تھم سکے۔ پھر اسے کمر پر لادا اور ناکارہ رائفل اٹھائے میں مویشی پٹی کی طرف پلٹا۔ یہاں بیرا کو چارپائی پر لادے چار چرواہوں کی مدد سے اسے لے کر کیمپ پہنچا۔ یہاں زخموں پر آئیوڈین لگا کر اور جلدی جلدی سب کچھ سمیٹ کر میں نے بیرا کو گاڑی میں ڈالا اور پندرہ میل دور پناگرام کی طرف روانہ ہوا جہاں ڈسپنسری سے ابتدائی طبی امداد حاصل کی۔ بیرا خون بکثرت بہہ جانے کی وجہ سے زرد ہو رہا تھا اور غشی کی حالت میں تھا۔ یہاں سے پھر اسے کار میں ڈال کر میں اکسٹھ میل دور سالم ضلع پہنچا جہاں اول درجے کا ہسپتال موجود تھا۔

ان دنوں پینسلین ایجاد نہیں ہوئی تھی اور پہلا ہفتہ بیرا نے زندگی اور موت کی کشمکش میں گذارا۔ میں اس کے ساتھ اس کے بستر سے ٹکا رہا۔ جلد ہی ڈاکٹروں نے اسے خطرے سے باہر قرار دے دیا۔ اب میں پناگرام پلٹا جہاں بیرا کی بیوی اور بچے نہایت پریشان کسی اچھی خبر کے منتظر تھے۔ انہیں میں نے کچھ رقم دی۔ یہاں مجھے تیندوے کی کیڑوں سے بھری کھال بھی پیش کی گئی جو پریشانی کے باعث میرے ذہن سے نکل چکا تھا۔ تلوادی میں گدھوں کو اڑتا دیکھ کر چرواہوں نے تیندوے کی لاش پائی تھی۔ یہ جگہ ہمارے ریچھنی سے مڈبھیڑ والی جگہ سے دو سو گز دور تھی۔ یہ کھال کیڑوں سے پر تھی اور محطوظ کئے جانے کے قابل نہ تھی۔

سالم لوٹ کر میں نے بیرا کے علاج کے لئے کافی رقم چھوڑی اور واپس گھر لوٹ آیا۔ دو ماہ بعد جب بیر اچلنے کے قابل ہوسکا۔ اس بار اس کی دائیں ٹانگ میں کچھ لنگ سا آ چکا تھا۔ اس کے جسم پر زخموں کے نشانات بھی باقی تھے۔

میری رائفل کا کندہ بیکار ہو چکا تھا جسے میں نے بدل لیا۔ نالی پر سرے سے چھ انچ نیچے ریچھنی کے دانتوں کے نشانات موجود تھے۔ اس دن سے بیرا اور میں، دونوں حقیقی بھائی بن چکے ہیں۔ ہمارے درمیان جو محبت اور بھائی چارہ قائم ہوا ہے وہ ہر طرح کی دنیاوی آلائشوں سے پاک ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین

اس واقعے کے کئی سال بعد یہ دوسرا واقعہ منداچی پالم کے آدم خور شیر کے بارے ہے۔

منداچی پالم یا اس کا تامل ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے، منداچی کی ندی یا منداچی کا گڑھا۔ یہ جگہ گھاٹ کنارے سے کچھ دور اور دو ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے جہاں پناگرام کی بستی موجود ہے۔ یہاں سے دریائے کاویری بھی گذرتا ہے۔ یہاں سے چار میل دور اوتائی ملائی نامی مچھیروں کی بستی ہے۔ یہاں بالکل ہی قریب ہوگانیکال کی آبشار ہے۔ یہاں فارسٹ ڈیپارٹمنٹ نے سڑک کے کنارے منداچی پالم کے پاس کنواں بنوایا ہوا ہے تاکہ مسافروں اور دوسرے جانور جو بھاری عمارتی لکڑی لے جاتے ہیں ، کی پیاس بجھا سکے۔ یہاں سے پناگرام کی طرف چھ میل کی چڑھائی شروع ہوتی ہے۔ یہ چڑھائی نہایت مشکل ہے۔

چھوٹا سا کنواں جس کے چاروں طرف گھنا جنگل ہے، یہاں سے ایک پتلی سی پگڈنڈی گذرتی ہے۔ اس جگہ سے میری کہانی شروع ہوتی ہے جو کئی ہلاکتوں کے بعد اور میرے شکاری رانگا کے بال بال بچنے کے بعد ختم ہوتی ہے۔

علی الصبح ساڑھے سات بجے کا وقت ہوگا جب پتوں اور گھاس پر شبنم کے قطرے موتیوں اور ہیروں کی طرح چمک رہے تھے اور ان پر گھنے درختوں سے چھلکتی سورج کی روشنی عجب بہار دکھا رہی تھی۔

ایک مرد اور دو عورتیں مچھلیاں اٹھائے ادھر سے گذرے۔ ان کے پاس بانس کی تیلیوں سے بنی ٹوکریاں تھیں جن میں مچھلیاں تھیں۔ کنویں پر پہنچ کر انہوں نے ٹوکریاں زمین پر رکھ دیں اور بیٹھ کر آرام کرنے لگے۔ مرد کی کمر کے گرد رسی کی مدد سے لوٹا بندھا ہوا تھا۔ کنویں پر آ کر انہوں نے لوٹے کو رسی کی مدد سے کنویں میں لٹکایا اور تازہ، شفاف اور ٹھنڈے پانی کو باہر نکالا۔ یہاں کی مقامی رسوم کے مطابق مرد نے اپنی پیاس پہلے بجھائی۔ اس کے بعد دونوں عورتوں کی باری آئی۔ اس کے پانی پینے کے دوران لوٹے کو منہ سے نہ لگایا کہ یہ حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف تھا۔

یہ لوگ مچھلیاں لے کر پناگرام جا رہے تھے۔ پناگرام سے پہلے یہ آخری کنواں تھا۔ مرد نے اپنی طلب کے مطابق پانی پیا اور پھر لوٹے کو دو بار بھرا تاکہ دونوں خواتین اپنی اپنی پیاس بجھا سکیں۔ دونوں عورتیں بمشکل بیس یا بائیس سال کی ہوں گی۔ انہوں نے کمر سے اوپر محض ساڑھی کا پلو کندھے پر ڈالا ہوا تھا اور باقی اوپری بدن ننگا تھا۔ ان کی سانولی رنگت پر پسینہ موتیوں کی طرح چمک رہا تھا۔ اگرچہ صبح خاصی خنک تھی لیکن مچھلیوں کے وزن سے وہ پسینے میں شرابور ہو رہے تھے۔

پانی پی کر یہ لوگ چند منٹ کے لئے کمر سیدھی کرنے لگے۔ انہوں نے اپنی پوٹلیوں سے پان کے پتے اور سپاری وغیرہ نکالی اور پان بنا کر چبانے لگے۔ چند ہی منٹوں میں ان کی باچھوں سے لال رنگ کا لعاب بہنے لگا جسے وہ بے تکلفی سے بار بار ادھر ادھر تھوکتے جا رہے تھے۔

اچانک کنویں کے پاس والے جنگل سے شاخوں کے ٹوٹنے اور پتوں کے مسلے جانے کی آوازیں آئیں۔ آوازیں بار با رآتیں اور فوراً ہی تھم جاتیں۔اس کے علاوہ جنگل بالکل خاموش تھا۔

تینوں افراد نے آواز کا ماخذ جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے سمجھا کہ کوئی ہرن یا چیتل ہوگا جو جنگلی کتوں سے گھبرا کر ادھر پناہ لے رہا ہے۔ عورتوں کو متائثر کرنے اور یہ سوچ کر کہ اگر جانور زیادہ زخمی ہوا تو اسے پکڑ بھی سکتا ہے، مرد آگے بڑھا۔ اس نے ہاتھ میں پتھر اٹھایا ہوا تھا۔

اس وقت آوازیں تھمی ہوئی تھیں۔ اس نے ذرا قدم اور بڑھائے۔ جھاڑیوں کے درمیان ایک ببول کا درخت تھا۔ اس نے اس درخت کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ اس نے دیکھا کہ اس کے عین سامنے فٹ بھر دور شیروں کا جوڑا جنسی ملاپ کی حالت میں تھا۔

ایک عام شیر ایک ایسا جانور ہے کہ عموماً اس سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ ایک بار میں مچھلیوں کے شکار پر تھا کہ مجھ سے بمشکل پندرہ گز دور شیر نمودار ہوا۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ ہم میں سے کون زیادہ حیران ہوا۔ تاہم شیر نے فوراً ہی رخ بدلا اور جدھر سے آیا تھا، ادھر واپس چل دیا۔ میں غیر مسلح تھا اور متجسس بھی، میں اس کے پیچھے چل دیا۔ شیر میرے تعاقب سے باخبر ہو کر بھی عام کتے کی رفتار سے چلتا رہا۔ تاہم جلد ہی وہ گھنی جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔

تاہم چاہے شیر ہو یا کوئی بھی اور جانور، اسے بعض اوقات خلوت درکار ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ناراض ہو کر یا پھر اپنی مادہ کو متائثر کرنے کے لئے شیر نے مختصر سی دھاڑ لگائی اور ایک ہی چھلانگ میں اس آدمی کا گلا دبوچ لیا۔ بغیر آواز نکالے آدمی وہیں ڈھیر ہو گیا۔ شیر اب بھی غرائے جا رہا تھا۔ دونوں عورتوں نے یہ آوازیں سنیں اور وہ اوتاملائی کی طرف سرپٹ دوڑ پڑیں۔ شیر نے محض ناراضگی دکھانے کے لئے یہ حملہ کیا تھا۔ اس نے لاش کو چھوا تک نہیں۔ لیکن اسے انسان کی بے بسی کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔

چند ہفتے بعد ایک لکڑہارا جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لا رہا تھا کہ ایک موڑ پر اس کی مڈبھیڑ شیر سے ہوگئی۔ ایک بار پھر شیر کی مختصر دھاڑ اور چھلانگ لگی۔ ایک اور آدمی ہلاک ہو گیا۔ اس بار کوئی بھی وجہ نہیں تھی۔ اس بار بھی شیر نے لاش کو چھوا تک نہیں۔

دو ماہ گذرے۔ چند عورتیں مل کر جنگل میں املی کے پھل تلاش کر نے گئیں۔ ایک عورت باقیوں سے ذرا دور تھی۔ وہ پھل جمع کر کے انہیں اٹھانے کے لئے جھکی ہی تھی کہ اس کی نگاہیں شیر سے ملیں۔ ایک چیخ آئی اور پھر ایک دھاڑ کی آواز اور تیسری انسانی جان چلی گئی۔ اس بار شیر کے دانت شہہ رگ میں گھسے اور ان سے گرم گرم نمکین خون ابلنے لگا۔ یہ خون سیدھا شیر کے منہ میں گیا اور اس طرح منداچی پالم کا آدم خور وجود میں آیا۔ شیر اس عورت کو چند گز دور جھاڑیوں میں لے گیا اور اگلے دن کھوپڑی، پنجوں اور پیروں کے تلوے کے سوا سب کچھ کھایا جا چکا تھا۔

مختصر عرصے میں تین مزید ہلاکتیں ہوئیں۔ پہلی ساتویں سنگ میل پر، دوسری دریائے چنار کے کنارے اور تیسری اوکتاملائی سے بمشکل میل بھر دور۔ تینوں بار لاش کو شیر نے کلی یا جزوی طور پر کھایا تھا۔

شیر کی اس آخری واردات سے اتنا خوف و حراس پھیلا کہ لوگوں نے پناگرام جا کر حکام کو درخواست کی کہ براہ کرم شیر کے خلاف کوئی کاروائی کی جائے ورنہ وہ پورا گاؤں ہڑپ کر جائے گا۔ میرا شکاری رانگا بھی وہیں تھا۔ اس نے لوگوں سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے اس کام کے لئے تیار کرے گا۔ اس نے سو میل کا طویل سفر بس کے ذریعے کیا اور بنگلور میرے پاس شام ڈھلے پہنچا اور اطلاع دی۔

یہاں رانگا کا مختصر سا تعارف بے جا نہ ہوگا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ رانگا سے میری ملاقات ماتھور میں ہوئی تھی جہاں کچھ سال قبل میں بیرا سے پہلی بار ملا تھا۔ رانگا بیل گاڑی چلاتا تھا اور جنگل سے بانس لے کر پناگرام آتا تھا۔ وہ اپنا فالتو وقت بیرا کی طرح مانگے تانگے کی توڑے دار بندوق سے غیر قانونی شکار کھیل کر گذارتا تھا۔ تاہم وہ بیرا سے بہت مخلتف تھا۔ جسمانی اور شخصی، دونوں اعتبار سے۔ بیرا کے برعکس وہ لمبا اور توانا آدمی تھا۔ اس نے سال بھر جیل میں بھی گذارا تھا کہ اس نے اپنی بیوی پر شبہ کرتے ہوئے اسے جان سے مار دینے کی کوشش کی تھی۔ جیل سے نکل کر اس نے دوسری شادی کی اور جب میں اس سے ملا تو وہ تین بچوں کا باپ تھا۔ جلد ہی اس نے تیسری شادی بھی کر لی اور اب درجن بھر بچوں کا باپ اور دادا بھی بن چکا ہے۔ اس میں بیرا کے برعکس انتظامی صلاحتیں بھی تھی اور وہ دئے گئے احکامات کو بخوبی بجا لاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کا کردادر بھی پختہ نہ تھا۔ وہ ببول اور دیگر اجزاء سے ناجائز شراب بھی کشید کرتا تھا۔ میں نے کئی بار اس شراب کو چکھا تھا۔ یقین مانیں کہ نہایت عمدہ شراب ہوتی تھی۔ وہ بیرا سے کہیں زیادہ بے ایمان ہے۔ خصوصاً بارہ بور کے کارتوسوں کے لئے تو اس پر بالکل بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ اسے بیرا سے نفرت ہے اور وہ اکثر بیرا کی طرف حقارت اور نفرت سے دیکھتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ میری اور بیرا کی دوستی سے جلتا ہے۔ لیکن رانگا خطرے کے وقت بہادری سے ڈٹ کر سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ مشکل وقت میں قابل اعتماد ہے اور اسے جنگلی جانوروں یا ان کی کہانیوں سے بھی ڈر نہیں لگتا۔

بدقسمتی سے جب رانگا میرے پاس آیا تو میں کافی مصروف تھا اور کم از کم دو ہفتوں کے لئے میرا ان مصروفیات سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں تھا۔ سو میں نے رانگا کو پناگرام واپس بھیجا اور اسے تفصیلی ہدایات کے ساتھ ساتھ اپنے پتے لکھے ہوئے کافی سارے ڈاک کے لفافے بھی دئے۔ اسے میں نے ہدایت کی کہ وہ ہر دوسرے دن مجھے صورتحال سے تفصیلاً آگاہ کرتا رہے۔

اس وقت رانگا کے ساتھ نہ جانے کی وجہ سے شاید میں ان دو اموات کا بالواسطہ ذمہ دار ہوں جو اس دوران واقع ہوئیں۔ اس کے بعد جونہی مجھے کچھ فراغت ملی، میں بذریعہ کار پناگرام پہنچا۔ رانگا کو ساتھ لے کر میں ماتھور بیرا کی طرف چلا۔ اسے بھی ساتھ لے کر ہم اوکتا ملائی پہنچے۔ یہاں ہمارے گروپ کا آخری ممبر سوری تھا۔ سوری بھی جیل میں تین ماہ کاٹ چکا تھا۔ سوری کا جرم ایک جنگلی ہاتھی پر گولی چلانا اور اسے ہلاک کرنا تھا۔ یہ ہاتھی ایک نوجوان مادہ تھی۔ جب سوری غیر قانونی شکار کے لئے ایک گڑھے میں چھپا ہوا تھا تو یہ ہتھنی اس کے گڑھے کے کنارے آ گئی۔ سوری کو جان کے لالے پڑے تو اس نے گولی چلانے کا فیصلہ کیا۔ ہتھنی کے کان کے پیچھے اس نے اپنی توڑے دار بندوق سے گولی چلائی۔ سخت گولی نے اپنا اثر دکھایا اور ہتھنی وہیں ڈھیر ہو گئی۔ بدقسمتی سے سوری رنگے ہاتھوں وہیں پکڑا گیا۔ اس وقت میں دریا کے دوسرے کنارے شکار کھیل رہا تھا۔ مجھے معلوم ہوا تو میں نے آ کر ہتھنی کی تصویر کھینچی اور اس طرح سوری سے واقفیت بھی پیدا ہوئی۔

مجھے اپنی خوش قمستی پر ناز ہے کہ میں اتفاقاً ان تینوں سے ملا۔ یہ تینوں ایک دوسرے سے الگ شخصیات رکھتے تھے۔ ان کے پاس جنگل کے مختلف پہلوؤں کے متعلق معلومات کے خزانے تھے۔ بیرا نے اس موقع پر فوراً ہی اپنی خدمات پیش کر دیں کہ وہ جنگل میں جا کر اس آدم خور شیر کو تلاش کرتا ہے۔ بمشکل میں اسے سمجھا پایا کہ یہ صریح خود کشی ہے۔ میں نے اس کے ساتھ سوری کو اپنی بارہ بور بندوق دے کر بھیجا۔ ایک اور بندہ جو محکمہ ماہی پروری کا نگران تھا، بھی ان کے ساتھ چلا۔ رانگا کے ذمے تین بھینسے لے کر انہیں مناسب جگہوں پر باندھنا ٹھہرا۔ رانگا کے لئے تین جانور پیدا کرنا مشکل نہ تھا کیونکہ وہ دھمکیاں، دھونس اور لالچ دے کر کام نکالنا بخوبی جانتا تھا۔

پہلا چارہ دریائے چنار کے کنارے اس جگہ سے میل بھر دور باندھا گیا جہاں دریائے چنار دریائے کاویری سے ملتا ہے۔ دوسرے کو اس جگہ سے تین میل دور اور تیسرا اس جگہ سے سو گز کے اندر باندھا گیا جہاں پہلی واردات ہوئی تھی۔ طے یہ پایا کہ بیرا اور دوسرے لوگ دریائے کاویری کے دوسرے کنارے پر شیر کی تلاش جاری رکھیں گے جبکہ میں اور ایک مقامی کھوجی کے ہمراہ دیرا کے دوسرے کنارے کی تلاشی لیں گے۔ رانگ کا کام بھینسوں کی دیکھ بھال اور ان کے چارے وغیرہ کا خیال رکھنا تھا۔

اس طرح ہم نے چار دن گذارے۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ ہمیں بہت ساری جگہوں پر شیر کے پگ ملے لیکن وہ تازہ نہ تھے۔ اس کے علاوہ کسی کو بھی علم نہ تھا کہ یہ آدم خور ہی کے پگ ہیں یا کسی اور شیر کے۔

ہماری طرف سے تمام دیہاتیوں کا جنگل میں داخلہ اور عام راستے کا استعمال بند کرا دیا گیا تاکہ شیر کو بھینسوں کی چاٹ لگ جائے۔ اس کے علاوہ اس جنگل میں جنگلی جانوروں کی بھی بہتات تھی۔ شیر کے بھوکے مرنے کا تو سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔ اسی طرح دوسرے گاؤں سے لوگوں کو آمد و رفت کو روکنا ہمارے بس میں نہ تھا۔ آدم خور ان پر بھی ہاتھ صاف کر سکتا تھا۔

اس دوران میں نے ہر ممکن طریقے سے گرد و نواح میں اپنی آمد کی اطلاع پہنچا دی تاکہ اگر شیر کہیں بھی واردات کرے تو مجھے فوراً اطلاع مل جائے۔اس کے بعد بیر ا کی مدد سے ہم اس جانور کی کھوج آسانی سے لگا سکتے تھے۔ ہانکہ ناممکن تھا کہ اول تو اس کے لئے آدمی نہ ملتے، دوسرا اگر آدمی مل بھی جاتے تو یہ شیر اتنا نڈر اور کمینہ تھا کہ وہ الٹا ہانکے والوں پر ہی حملہ کر دیتا۔

پانچویں دن علی الصبح مجھے اطلاع ملی کہ پانا پتی کی مویشی پٹی میں ایک آدمی کو شیر نے مارا ہے۔ وہ جگہ یہاں سے چار میل دور تھی۔ یہ واردات سابقہ شام ڈھلے ہوئے تھی۔ یہ آدمی اپنے گھر سے نکل کر سو گز دور اپنے کتے کو بلانے گیا تھا کہ واپس نہ لوٹا۔ میں اور بیرا عجلت میں اس طرف چل پڑے۔ یہاں جست لگانے سے قبل شیر کے پنجے بہت پھیل گئے تھے۔ اس کے علاوہ دریائے چنار میں سے جب وہ اپنے شکار کو لے کر گذرا تو نرم مٹی پر اس کے پگ بالکل صاف تھے۔ یہاں دریا عبور کر کے وہ جنگل کے دوسرے کنارے بانس کے جھنڈ میں گھسا۔ یہاں ہم نے اس آدمی کی لاش پائی جو تقریباً مکمل ہی کھائی جا چکی تھی۔

یہاں درخت بالکل نایاب تھے۔ صرف تیس فٹ دور بانس کا ایک گھنا سا جھنڈ تھا۔ میں نے بیرا کو ہدایت کی کہ اس جھنڈ میں سے آٹھ یا نو بانس کے تنے نیچے اور پھر چار فٹ کی بلندی سے کاٹ دے۔ چونکہ بانس کے اوپری سرے اس بری طرح گھتے ہوئے تھے کہ نیچے موجود شگاف کے باوجود بھی کوئی بانس نیچے نہ گرتا۔

بیرا نے جلد ہی اپنا کام پورا کر دیا۔ ایک آرام دہ غار نما جگہ بنا دی تھی۔ اس میں بیٹھتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اب پشت اور دیگر تمام اطراف سے میں بالکل محفوظ تھا کیونکہ میرے پیچھے اور اطراف میں موجود بانس کا جھنڈ بہت گھنا تھا۔ اگر شیر میری طرف آتا تو اسے سامنے سے حملہ کرنا پڑتا۔ میرے وفادار دوست بیرا نے میرے ساتھ ہی بیٹھنے پر اصرار کیا۔ میں نے سختی سے اسے روکا۔ مجھے اس کی ہمراہی میں زیادہ سکون ملتا لیکن یہ جگہ صرف اتنی ہی تھی کہ ایک بندہ بیٹھ سکتا تھا۔ اگر اسے کھلا کرنے کے لئے ہم دوسرے بانس کاٹتے تو خدشہ تھا کہ اوپر والے بانس نیچے گر پڑتے کیونکہ جھنڈ زیادہ بڑا نہ تھا۔ اس کے علاوہ زیادہ بانس کاٹنے سے زیادہ مقدار میں شاخیں اور پتے پھینکنے پڑتے جس سے شیر کو زیادہ شبہ ہو جاتا اور کٹتے تنوں کے شور سے بھی وہ خبردار ہو سکتا تھا۔

مجھے اندازہ تھا کہ رات بہت تاریک ہوگی کیونکہ یہ چاندنی راتیں نہیں تھیں۔ میں نے اپنی ونچسٹر رائفل پر ٹارچ جمائی اور اضافی ٹارچ کو بندوق پر لگا لیا اور اسے بھی اپنے ساتھ رکھ لیا۔ بانسوں کے درمیان موجود رہ کر میں شبنم اور جنگل کی خنک ہوا سے بھی محفوظ تھا۔ اسی طرح یہاں سانپوں کی آمد کا خطرہ بھی نہیں تھا۔

ایک بجے دوپہر کو میں اس جگہ پر بیٹھ گیا اور اپنے ساتھیوں کو واپس بھیج دیا۔ بیرا اب بھی ساتھ رکنے پر اصرار کر رہا تھا۔ میں نے انہیں ہدایت کی کہ صبح کو وہ جب دریائے چنار کی دوسری طرف پہنچیں تو مجھے پکاریں۔ ان کے جانے کے بعد میں اور میرے ہتھیار اگلے سترہ گھنٹوں کے لئے تنہا رہ گئے۔

آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس جگہ میں ہر طرف سے محفوظ تھا۔ میرے سامنے صرف اتنی سی جگہ تھی کہ میں سامنے دیکھ سکتا اور یہ بھی کہ انسانی لاش بھی میرے بالکل سامنے موجود تھی۔ مجھے اطمینان تھا کہ رات کو جب شیر اندھیرے میں بخوبی دیکھ سکے گا تو میں ہر طرف سے اس کے حملے سے کتنا محفوظ رہوں گا۔ خصوصاً جب میں اسے اندھیرے کے باعث نہیں دیکھ سکوں گا۔

انسانی لاش پر جھکے ہوئے بانس کے درختوں نے اسے گدھوں سے بچائے رکھا۔ مکھیاں البتہ بکثرت تھیں اور جلد ہی سڑاند ناقابل برداشت ہو گئی۔

تاریکی چھانے تک کچھ نہ ہوا۔ اندھیرا تیزی سے پھیل گیا۔ نہ صرف رات تاریک تھی بلکہ اس جگہ پر چھت کی طرح موجود بانس کے درختوں نے تاریکی کی شدت کو مزید بڑھا دیا تھا۔ تاریکی اتنی گہری تھی کہ حقیقتاً ہاتھ کو ہاتھ نہ سجھائی دیتا تھا۔ ٹارچ کا بٹن اور رائفل کی لبلبی، دونوں کو میں چھو کر ہی محسوس کر سکتا تھا ورنہ ان کا دکھائی دینا اس تاریکی میں ناممکن ہی تھا۔ البتہ میری کلائی پر بندھی ریڈیم ڈائل کی گھڑی پر مجھے صاف پونے آٹھ بجے کا وقت دکھائی دے رہا تھا۔ دس گھنٹے بعد ہی سورج نکلتا۔

مجھے علم تھا کہ مجھے اس دوران اپنی آنکھوں کو جنگل کے بادشاہ کی آمد کے لئے مستقل تیار رکھنا ہوگا۔ حقیقتاً رات کے گھپ اندھیرے میں شیر جو مجھے بالکل صاف دیکھ سکتا تھا، میرے لئے واضح خطرہ تھا۔ اسے تاحد نظر تمام چیزیں صاف دکھائی دیتیں اور میں ایک بھی انچ دور نہ دیکھ سکتا تھا۔ البتہ میں اس کی آمد کی آہٹ کو سن سکتا تھا۔ اسی طرح شیر کو میری آہٹ خبردار کر دیتی۔ میں شیر کی بو نہ سونگھ سکتا تھا اور نہ ہی شیر میری بو سونگھ سکتا تھا۔ البتہ میری آہٹ سے خبردار ہو کر وہ یا تو فرار ہو جاتا یا پھر میرے سامنے موجود سوراخ سے مجھ پر جھپٹ پڑتا۔ مجھے اس کی خوراک بننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔

میرے پاس خاموش اور بے حس و حرکت بیٹھنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ مچھر بھی اس جگہ گھس آئے اور خوب اذیت پہنچائی۔ اچانک ایک نرم اور لجلجی چیز میری گود میں حرکت کرنے لگی۔ اس کی لمبائی ہی لمبائی تھی اور ٹانگیں ندارد۔ بلاشبہ یہ کوئی سانپ ہی تھا۔ اس وقت ہلکی سی حرکت کا مطلب یقینی موت ہوتا۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے بیکار ہوتے اعصاب پر قابو پایا۔ خوش قسمتی سے سانپ فوراً ہی مجھ سے دور باہر کی طرف چلا گیا۔

اچانک میرے گلے میں سرسراہٹ سی پیدا ہو چلی۔ س وقت کھانسنا ناکامی کے مترادف ہوتا۔ میں نے بھیڑیں گننا شروع کر دیں حتیٰ کہ سرسراہٹ بالکل ہی ختم ہو گئی۔

دس بج کر پچیس منٹ پر میں نے عقبی طرف سے ہلکی سی آہٹ سنی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ منٹ پر منٹ گذرتے رہے۔ پھر یہ آواز میری دائیں جانب بالکل چند فٹ دور جھنڈ کے سرے سے آئی۔ بھاری سانس صاف سنائی دے رہی تھی۔ پھر ہلکی سی غراہٹ اور پھر خاموشی۔ پھر ایک اور غراہٹ اور پھر خاموشی۔ میرے سامنے کوئی چیز زمین پر گھسٹتی ہوئی گذری۔ کیا شیر شکار پر آ گیا ہے؟ کیا وہ چند فٹ دور مجھے تاک رہا ہے؟ کیا وہ حملہ کرنے کے لئے جھک رہا ہے؟ مجھے تو اپنی ناک کے سرے پر بھی کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا۔

میری رائفل بھری ہوئی تھی۔ میں نے آہستگی سے اسے اٹھایا تاکہ شیر کی جست کی صورت میں تیار رہوں۔ دہشت اور خوف کے مارے میرے چہرے سے پسینہ آبشار کی طرح بہہ رہا تھا۔ پورے جسم پر لرزہ طاری تھا۔

میں نے ٹارچ کا بٹن دبا دیا۔ میرے سامنے تیز روشنی میں نہایا ہوا لگڑبگڑ موجود تھا۔ وہ اس بات پر حیران تھا کہ لاش انسان کی ہے۔ اس نے ٹارچ کی طرف چند سیکنڈ کے لئے دیکھا اور پھر فرار ہو گیا۔ میرا دل چاہا کہ ایک قہقہہ لگاؤں لیکن موقع اس کے لئے مناسب نہ تھا۔

خیر ابھی تو میری موجودگی کا راز فاش ہو چکا تھا۔ میں توقع ہی کر سکتا تھا کہ آدم خور ان اطراف میں موجود نہ ہو ورنہ اسے میری موجودگی کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہوگا۔ میں نے عجلت میں تھرماس سے چائے کی چسکی لگائی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ایک بار اپنی ٹانگیں پھیلا کر پھر سمیٹ لیں۔ اب میں چند منٹ قبل والی دہشت کی حالت سے باہر تھا۔

دس یا بارہ منٹ بعد ہی میں نے فاصلے سے شیر کی آواز سنی۔ پانچ سے دس منٹ کے وقفوں سے یہ آواز کئی بار آئی۔ میرا اندازہ تھا کہ یہ آواز چوتھائی میل دور سے آئی ہے۔ اگرچہ اس جنگل میں آواز کا بالکل درست اندازہ لگانا ناممکن تھا پھر بھی میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ شیر نے خاموشی سے آنے کی بجائے عام طریقے سے آواز پیدا کرتے ہوئے آنے کو ترجیح دی ہے۔

پون گھنٹہ خاموشی سے گذرا۔ اس دوران ٹھنڈی ہوا چل پڑی۔ میرے اطراف میں موجود بانس کے تنے ایک دوسرے سے رگڑ کھا کر بے تحاشہ شور پیدا کرنے لگے۔ اس سے میرے ذہن میں ایک نیا خطرہ بیدار ہوا۔ اگر میرے سر پر معلق بانس کا کوئی تنا بھی اپنے وزن کے سبب نیچے گرتا تو کیا ہوتا؟ اس کے کٹے ہوئے تنے سے میں اس طرح زمین میں پیوست ہو جاتا جس طرح تتلی کو پن سوئی کی مدد سے تختے میں گاڑتے ہیں۔ مجھے اس خیال سے ہنسی آ گئی۔

عین اسی لمحے مجھے لاش کی جانب سے ہڈی ٹوٹنے کی آواز آئی۔ میں نے آہستگی سے رائفل اٹھائی اور اسے کندھے کے لیول پر لا کر سیدھا کیا۔ ٹارچ کا بٹن دبایا۔ تاریکی ہی رہی۔ ٹارچ نے جلنے سے انکار کر دیا۔ میں نے بار بار بٹن دبایا۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ شاید اس کا بلب جل گیا ہوگا۔ اب مجھے یا تو شیر کی موجودگی کے دوران خاموش رہنا ہوگا یا پھر بندوق سے گولی چلاتا۔ میں نے گولی چلانے کا فیصلہ کیا۔ بہت احتیاط سے رائفل زمین پر رکھی اور پھر اسی احتیاط سے ٹٹول کر بارہ بور کی بندوق سنبھالی۔ اسے اٹھا کر میں نے اونچا کرنا شروع کیا۔ میں امید کر رہا تھا کہ آدمی کو کھاتے وقت شیر کا رخ میری جانب نہ ہو۔ اچانک بندوق کی نال بانس کے تنے سے ٹکرائی اور کلک کی آواز پیدا ہوئی۔

اچانک ہی شیر کی آوازیں رک گئیں۔ پھر بہت بلند دھاڑ بلند ہوئی۔ میں نے فوراً ہی ٹارچ جلائی۔ چھلانگ لگا کر گم ہوتے ہوئے شیر کی جھلک دکھائی دی۔ شیر نے بار بار دھاڑنا شروع کر دیا۔ شاید وہ اس مداخلت پر ناراض تھا۔

میں نے بندوق کو سیدھا رکھتے ہوئے اور ٹارچ جو جلائے ہوئے دوسرے ہاتھ سے جیب سے ٹارچ کا اضافی بلب نکالا جو میری جیب میں اس طرح کی صورتحال کے پیش نظر ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ میں نے ایک ہاتھ سے رائفل کی ٹارچ کو کھول کر اس کا بلب بدلا۔ اب ٹارچ جل پڑی۔ میں نے بندوق کی ٹارچ بجھا دی۔ ابھی بھی بندوق میرے قدموں میں سیدھی رکھی تھی۔

شیر اب بھی دھاڑ رہا تھا۔ اب وہ میرے عقب میں آ چکا تھا۔ مجھے اطمینان تھا کہ سامنے کے علاوہ میں ہر طرف سے محفوظ ہوں۔ سامنے کے حملے سے بچنے کے لئے مجھے مسلسل ٹارچ جلائے رکھنی ہوتی۔ صبح ہونے میں ابھی کم از کم پانچ گھنٹے باتی تھے۔ میری دونوں ٹارچیں اگرچہ نئے سیلوں والی تھیں لیکن پھر بھی پانچ گھنٹے تک انہیں مسلسل جلائے رکھنا ممکن نہ تھا۔ میں نے ٹارچ بجھا کر محض اپنے کانوں پر بھروسہ کیا۔ اگر لمبی خاموشی چھا جاتی تو میں ٹارچ جلا لیتا۔ اڑھائی بجے تک شیر دھاڑتا رہا پھر آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔ یقیناً وہ سخت ناراض اور مایوس ہوا ہوگا۔ مجھے اس کی مایوسی اور ناراضگی بہت اچھی لگی کہ اس طرح میری جان بچ گئی۔

میں رات بھر چوکسی کی حالت میں شیر کی آمد کے لئے تیار رہا۔ شیر جو آدم خور بھ ہو، اس کے بارے کسی قسم کی پیشین گوئی کرنا آسان نہیں ہوتا۔ وقت گذرتا رہا اور آخر کار جنگلی مرغ کی آواز سنائید ی۔ یہ سورج طلوع ہونے کی نشانی تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ کئی صدیوں کے بعد سورج کو دیکھنے والا ہوں۔

جلد ہی دریا کے پار سے میرے ساتھیوں کا نعرہ سنائی دیا۔ مجھے یہ آواز خوش کن موسیقی جیسی لگی۔ میں نے چلا کر انہیں کہا کہ مطلع صاف ہے۔ وہ آ سکتے ہیں۔ اٹھنے سے قبل میں نے رات والی چائے کی تھرموس خالی کی اور اس دوران ٹانگیں بھی ہلائی جلائیں۔ اس کے بعد پائپ نے مجھے تازہ دم کر دیا۔ اس دوران میں نے رات کے واقعات کی کڑیاں بھی ملائیں۔

میرے تینوں دوست مجھے بخوبی جانتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کچھ کہا تو نہیں لیکن ان کے انداز سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ مجھے زندہ دیکھ کر بہت حیران ہو رہے ہیں۔ رات گئے تک جاری رہنے والے آدم خور کے ہنگامے کو انہوں نے بخوبی سنا تھا اور رات بھر دم بخود رہے تھے۔

بیرا نے مجھے کہا کہ وہ چار میل دور جا کر اپنے شکاری کتے کو لائے گا جو شیر کو منٹوں میں ڈھونڈ نکالے گا۔ یہ کتا عام پالتو دیہاتی کتا تھا۔ اس کا رنگ سفید اور بھورا نما تھا۔ اس کا نام کُش کُش کریہا تھا۔ بیرا اس کا نام لیتے وقت جب کریہا پر پہنچتا تو اس کی آواز ایک لمبی چیخ میں بدل جاتی۔ میں اس کی نقالی آج تک نہ کر سکا۔ خیر خالی کُش کُش کرنے پر بھی وہ متوجہ ہو جاتا۔ یہ بھی غنیمت تھا۔

میں نے اصرار کر کے سوری کو اس کے ساتھ بھیجا اور خود رانگا کے ساتھ اوتا ملائی کی طرف پلٹا۔ ناشتہ کر کے اور دریائے کاویری میں غسل کر کے سو گیا۔ دو بجے دوپہر کو میری آنکھ کھلی۔ بیرا، سوری اور بیرا کا کتا موجود تھے۔ کتے نے مجھے دیکھ کر اپنی دم ہلائی اور اپنی ناک میرے کندھے سے رگڑی۔

دوپہر کا کھانا بعجلت نگل کر ہم لوگ رات والی جگہ کی طرف پلٹے۔ متوفی کے لواحقین ہمارے ساتھ تھے جو اکیلا جانے سے کتراتے تھے۔

اب لاش اتنی متعفن ہو چکی تھی کہ اس کے رشتہ داروں نے طے کیا کہ وہ اسے اٹھا کر دریائےچنار کے پار دفن کر دیں گے۔ ان کے جانے کے بعد بیرا کے کتے نے شیر کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ بمشکل سو گز ہی دور جا کر وہ رک گیا۔ شاید شیر کی بو پر لاش کی بو غالب آ گئی تھی۔ رات ہونے سے ذرا قبل ہم کیمپ پلٹے۔

اگلے دن کچھ نہ ہوا۔ اس سے اگلی صبح رانگا مرتے مرتے بچا۔

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ بیرا، سوری اور میں مل کر شیر کو تلاش کرتے جبکہ رانگا کا کام بھینسوں کے چارے، پانی پلانا اور دیکھ بھال تھا۔ اس دن اس نے صبح جلدی کام کا آغاز کیا۔ اس کے ساتھ ایک اور دیہاتی بھی تھا۔ منداچی پالم کے کنویں والے بھینسے سے ہو کر وہ لوگ منداچی پالم سے نیچے اترے۔ اب ان کا رخ دوسرے بھینسے کی طرف تھا جو چنار دریا کے کنارے بندھا ہوا تھا۔ دیہاتی آگے آگے اور رانگا اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ میل بھر دور آ کر جب وہ ندی میں اترے تو ان سے پچاس گز ہی دور شیر کھڑا تھا۔

دیہاتی نے گھاس کا گٹھڑ وہیں پھینکا اور نزدیکی درخت پر چڑھنے لگا۔ اسے مناسب بلندی تک پہنچنے میں چند ہی سیکنڈ لگے لیکن اس دوران رانگا کا راستہ رکا رہا۔ رانگا ابھی زیادہ بلند نہ ہوا تھا کہ شیر پہنچ گیا۔ اس نے پچھلے پنجوں پر بلند ہوتے ہوئے رانگا پر پنجہ مارا۔ رانگا کی دھوتی اس سے الجھ کر گری۔ شیر پل بھر کے لئے ہی دھوتی کی طرف متوجہ ہوا تھا کہ رانگا (منفی دھوتی) اب محفوظ مقام تک پہنچ گیا۔ شیر اب دھوتی کو چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوا اور دھاڑنے لگا۔ رانگا اور دیہاتی چلا چلا کر اپنی بپتا سنانے لگے۔

خوش قسمتی سے اس وقت کافی سارے دیہاتی اکٹھے ہو کر ادھر سے گذر رہے تھے۔ انہوں نے رانگا اور دیہاتی کی آواز سنی، پیغام کو سمجھا اور پورا گروہ میرے پاس کیمپ کی طرف دوڑا اور چار میل طے کر کے مجھ تک پہنچے۔

یہ جانے بغیر کہ یہ واقعہ رانگا سے متعلق ہے، میں بیرا اور سوری کی واپسی کا انتظار کئے بنا سر پٹ اس مقام کی طرف دوڑا۔ اس مقام کے نزدیک پہنچ کر میں نے صرف ان دونوں کے چلانے کی آواز سنی۔ دونوں اتنے خوفزدہ تھے کہ شیر کے چلے جانے کے بعد بھی اس کے حملے کا خطرہ تھا۔ ہر ممکن احتیاط سے آگے بڑھا تاکہ اگر آدم خور موجود ہو تو اسے اس کی بے خبری میں جا لوں۔ تاہم مجھے دیکھ کر رانگا محض حیران ہی ہوا۔ میں نے انہیں تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ پھر ہم نے شیر کا پیچھا کرنے کی ٹھانی۔ زمین اتنی سخت تھی کہ کوئی نشان نہ ملا۔ ہم نے دوسرے بھینسوں کی دیکھ بھال کا سوچا۔ دونوں جانور بحفاظت تھے۔ سہ پہر کو ہم کیمپ لوٹے۔ ہمارا خیال تھا کہ شیر ان بھینسوں کو گھاس نہیں ڈالنے والا۔ گذشتہ دو دن قبل والے واقعے کے بعد اب آدم خور کے شکار پر واپس آنے کے امکانات کم ہی تھے۔ منداچی پالم کا یہ آدم خور ان شیروں میں سے ایک تھا جو خطرہ بھانپ کر کسی دوسری جگہ اپنی خون آشام سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔

دو دن بعد صبح سات بجے اچانک اس کہانی کا اختتام ہو گیا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، آغاز والی جگہ ہی اختتام والی جگہ بنی۔

ایک جماعت جو دس افراد پر مشتمل تھی، اسی جگہ، اسی کنویں پر رکے۔ منداچی پالم کی چڑھائی سے قبل وہ پانی پی کر اور دم لینا چاہتے تھے۔

چونکہ عورتیں ہمراہ تھیں، ایک مرد پیشاب کرنے کے لئے تھوڑی دور ہی رک گیا۔ پھر ہلکی سی غراہٹ اور ایک چھلانگ کے ساتھ ہی آدم خور اس کو لے کر غائب ہو گیا۔ خوش قسمتی سے میں، رانگا، بیرا اور سوری بھینسوں کی دیکھ بھال کے لئے میل بھر ہی دور تھے۔ جلد ہی ہم بقیہ نو افراد سے ملے۔ انہوں نے حادثے کی اطلاع دی۔ میں نے رانگا اور سوری کو ہدایت کی کہ وہ درخت پر چڑھ جائیں اور میرا انتظار کریں۔ بیرا اور میں اس طرف بڑھے جہاں آدم خور نے حملہ کیا تھا۔ یہاں ہم نے خون کی دھار دیکھی۔

بیرا اب نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے میرے آگے چل رہا تھا۔ سو ہی گز کے بعد ہمیں ہڈیاں چبانے کی آواز آئی۔ آواز بائیں طرف نالے سے آئی تھی۔ بیرا کو رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے میں اس طرف رینگنے لگا جہاں سے آواز آئی تھی۔ اگر ایسے مواقع پر ساتھی ہمراہ ہو تو ایک اضافی جان کی حفاظت کرنا مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔

جنگل بالکل خاموش تھا۔ ہڈیاں توڑنے اور بھنبھوڑنے کی آوازیں اب بالکل صاف آ رہی تھیں۔ نہایت احتیاط اور خاموشی سے میں آگے بڑھتے ہوئے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہا تھا مبادا کہ میں کسی خشک پتے کو نہ کچل دوں یا کوئی پتھر میری ٹھوکر سے نہ لڑھک جائے۔ پندرہ گز کا فاصلہ بہت دیر سے طے ہوا۔ یہاں مجھے آدم خور کا کچھ حصہ دکھائی دے رہا تھا۔ چند قدم اور۔ اچانک آدم خور اٹھ کر میری طرف مڑا اور اس کے منہ میں متوفی کا بازو تھا جو کندھے سے کٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ پھر اچانک اس نے غضب ناک دھاڑ لگائی۔

میری ونچسٹر رائفل کی نرم سیسے والی گولی کے پیچھے تین سو گرین کارڈائٹ کی طاقت تھی جس نے اس گولی کو فی مربع انچ پانچ ٹن وزن کی قوت سے دھکیلا تھا۔ یہ گولی اس کی گردن کی جڑ میں لگی۔ بلوپ کی آواز کے ساتھ بازو اس کے منہ سے گرا۔ اس نے آگے جھکتے ہوئے غراہٹ کی آواز نکالی۔ تیزی سے گولی تبدیل کرتے ہوئے میں نے اپنی پرانی اور وفادار رائفل سے دوسری گولی چلائی جو اس کے دل میں ترازو ہو گئی۔ اس کا کمینہ دل پھر کبھی نہ دھڑکنے کے لئے رک گیا۔ منداچی پالم کا آدم خور اسی جگہ گرا جہاں وہ تھا۔ اس طرح اس آدم خور کا خاتمہ ہوا۔ یہ شیر نر اور بے عیب و بے داغ جانور تھا۔ شاید فطرتاً یہ شیر کمینہ تھا جو آدم خوری کی طرف اتفاقاً مائل ہوا۔ ایسے ہی اتفاقات بے شمار انسانی جانوں کے اتلاف کا سبب ہوتے ہیں۔

میری عدم موجوگی سے پریشان میری بیوی اسی دن دوپہر کو بنگلور سے اپنی کار پر پہنچی کہ شاید میں گھر بار بھول چکا ہوں۔

ہم بیرا کو اپنے ہمراہ لئے اس کی کھوہ تک پہنچے۔ اسی وقت اس کے ہاں پانچویں بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ اس بچے کی آمد کچھ یوں ہوئی۔ ایک گہرا گڑھا جو بیرا نے دریائے چنار کی نرم مٹی میں کھودا تھا۔ اس میں نرم سبز پتے بھر کر اس نے زچہ خانہ تیار کیا۔ بیرا ہی مڈ وائف بنا۔ کوئی دوائی نہیں، کوئی سوئی دھاگہ نہیں، نہ ہی گرم پانی اور نہ ہوئی کپاس۔ صرف سبز پتے اور پتھر کا تیز کنارہ جس سے اس نے بچے کی نال کاٹی۔ نال سے خون روکنے کے لئے اس نے راکھ استعمال کی۔ پیدائش کے دو گھنٹے کے بعد ہی زچہ و بچہ اپنے اصل گھر یعنی دوسری کھوہ میں منتقل ہو ئے۔ بیرا نے نال وغیرہ کو وہیں گڑھا کھود کر دفن کر دیا۔ بیرا خود بھی شاید اسی طرح پیدا ہوا ہوگا۔ اس طرح وہ زندگی گذرا کر مرتے ہوں گے۔ حقیقتاً یہ جنگل کی اولاد ہیں۔ تہذیب سے نا آشنا یہ لوگ جنگل، پہاڑیوں، ندیوں، نالوں، ہر جگہ بغیر کسی جھجھک کے گھومتے ہیں۔ جس خاموشی سے پیدا ہوتے ہیں، اسی خاموشی سے ایک دن اسی زمین میں دفن ہو جاتے ہیں۔

اس دن صبح کو میں نے ایک مور مارا۔ اس کو ہم نے جنگل کے طریقے سے پکایا۔ پر اور آلائشیں وغیرہ نکال کر ہم نے اس کا سر اور گردن بمع پنجے کاٹ کر الگ کر دیئے۔ اس کے گوشت میں چاقو سے چرکے لگا کر اس میں نمک اور مصالحے بھر کر اس پر ہر طرف سے دریا کی گیلی مٹی کا لیپ کر دیا۔ مور اب گیند لگ رہا تھا۔ پھر آگ جلا کر انگاروں میں اس کو رکھ دیا۔ آگ متواتر جلتی رہی لیکن مور کو صرف انگاروں پر ہی رکھا گیا۔ جب مٹی ٹوٹ کر الگ ہونے لگی تو اسے آگ سے نکال لیا کہ کھانا تیار تھا۔ اس طرح ہلکی سی محنت سے اتنا لذیذ مور تیار ہو سکتا ہے کہ جو اچھے خاصے باورچی کو بھی شرمندہ کر دے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
Correction

جالا ہالی کا قاتل

یہ کہانی کسی آدم خور شیر کی نہیں اور نہ ہی کسی آدم خود تیندوے کے بارے ہے۔ بلکہ یہ کہانی ایک عام سی جسامت کے حامل ایک عام سے تیندوے کی ہے جو اپنی جان بچانے کے لئے نہایت بے جگری، چالاکی اور موثر طریقے سے لڑا۔ اس نے کُل تین افراد کو ہلاک کیا اور کم از کم گیارہ افراد زخمی بھی کئے۔

1938 میں دوسری جنگ عظیم سے ذرا قبل ، جالا ہالی کا گاؤں جو کہ بنگلور سے سات میل شمال مغرب میں، تمکور کی سڑک کے پاس واقع ہے، ایک غیر اہم وادی تھا۔ اس میں بمشکل ڈیڑھ سو کے قریب گھر رہے ہوں گے۔ ان میں سے کچھ گھر اینٹوں سے بنے ہوئے اور دیگر گھاس پھونس وغیرہ سے بنے ہوئے تھے۔ چونکہ بنگلور شہر میسور کی ریاست کا صدر مقام تھا، اس ریاست کے محکمہ جنگلات کا صدر دفتر بھی یہیں واقع تھا۔ ریاست میں سدا بہار اور برساتی، دونوں طرح کے جنگلات بے تحاشہ تھے۔ ریاست میں جنگلات کو کیڑوں اور بیماریوں سے ہونے والے باقاعدہ نقصان اور تباہی سے نمٹنے کے لئے حکومت نے جالاہالی سے میل بھر دور ایک چار مربع میل زمین کا ٹکڑا مختص کیا ہوا تھا۔ یہاں صندل، روز ووڈ، ریڈ روز ووڈ اور دیگر اقسام کے درخت قطاروں میں لگائے گئے تھے تاکہ ان پر کیڑوں سے ہونے والے نقصان کا مطالعہ کیا جا سکے۔ یہ کیڑے خود سے محدود مقدار میں چھوڑے جاتے تھے۔ بنگلور میں واقع جنگلات کی لیبارٹری بھی نزدیک ہی تھی۔ یہ درخت دس فٹ کی اونچائی کے ہو چکے تھے اور ان میں تیز دھار گھاس اور کانٹے دار جھاڑیاں بھی بکثرت تھیں جن کی وجہ سے یہاں اکثر جگہوں پر گذر ناممکن تھا اور سانپوں، خرگوشوں اور اکا دُکا موروں، تیتروں اور بٹیر کی بھی بڑی تعداد یہاں آباد تھی۔

ایک دن اس علاقے میں ایک تیندوا بیس میل دور مگاڈی کے پہاڑی سلسلے سے گھومتا ہوا آن پہنچا۔ پہلے پہل اس نے خرگوشوں، چوہوں اور اس علاقے میں موجود دیگر چھوٹے موٹے جانوروں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ تاہم جلد ہی اس نے جالاہالی کی بکریوں اور دیہاتی کتوں پر بھی نظر کرم ڈالنا شروع کر دی۔

سب کچھ بخیر چلتا رہا حتیٰ کہ ایک دن تیندوے نے ایک موٹے پولیس دفعدار کی بکری کو کھا لیا۔ تیندوے کے اس فعل کو دفعدار نے اپنے سرکاری عہدے اور اپنی انا پر ضرب سمجھا اور اس نے علی اعلان قسم کھائی کہ وہ اس تیندوے کو نیست و نابود کر دے گا۔

مقامی پولیس فورس کو تھری ناٹ تھری رائفلیں دی گئی تھیں۔ ان کے میگزین کو اس لئے ہٹا دیا گیا تھا کہ کوئی جذباتی پولیس والا عوامی احتجاج کے دوران پے در پے فائر نہ کرتا چلا جائے۔ اس رائفل سے ایک وقت میں ایک گولی چلتی تھی۔ اس کے بعد دوسری گولی کو بھر کر پھر فائر کیا جاتا تھا۔

دفعدار اپنی سروس رائفل لے کر مردہ بکری کے ساتھ موجود ایک درخت پر بیٹھ گیا۔ سورج غروب ہوتے وقت تیندوا پہنچا اور اس کی بے خبری میں چلائی گئی گولی سے اس کی اگلی بائیں ٹانگ زخمی ہوئی۔ اس ناکام کوشش کی وجہ شاید دفعدار کا برا نشانہ اور رعشہ زدہ ہاتھ تھے۔

تیندوے نے غرا کر چھلانگ لگائی اور یہ جا وہ جا۔ موٹا دفعدار ساری رات درخت پر خوف کے مارے کانپتا رہا۔ اگلی صبح وہ نیچے اترا تو اس نے خون کے نشانات دیکھنے کی کوشش کی پر ناکام رہا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ خوش قسمتی سے اس کا نشانہ خطا ہوا تھا۔ تاہم اس نے سوچا کہ تیندوے کے لئے یہ اچھا سبق تھا اور اب تیندوا بکریوں کی طرف اب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔

یہ سب کچھ جمعہ کی رات ہوا۔ اگلا دن یعنی ہفتے کا دن بغیر کسی خاص واقعے کے گذرا۔ اس شام دیہاتیوں نے اگلے دن کے لئے بڑے پیمانے پر ہانکا کرنے کا سوچا تاکہ خرگوشوں کا شکار ہو سکے۔ دو فٹ اونچے خرگوشوں کے جال کے گز در گز محکمہ جنگلات کے اس قطعے کے ایک کنارے تین ایکٹر تک بچھا دیئے گئے۔ اگلے دن ہانکا کرنے کے لئے سو کے قریب دیہاتی جمع ہو گئے جن کے پاس کتے اور لکڑی کے بھالے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ ہانکے سے جب خرگوش بھاگ کر جال میں پھنسیں تو انہیں بھالے مار مار کر ہلاک کیا جائے۔

بظاہر سب کچھ ٹھیک رہا۔ جب وہ جال کے نزدیک درختوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے وہاں سے بے ضرر خرگوشوں کی بجائے تیندوے کو نکلتے دیکھا۔ تیندوا ہانکا کرنے والوں کے دائرے میں پہنچا اور پلک جھپکنے جتنی دیر میں اس نے چھ افراد کو مختلف نوعیت کے زخم پہنچائے۔ کسی کو محض ایک خراش لگی تو کسی کو بلیڈ کی طرح تیز پنجوں سے گہرے زخم یا بھنبھوڑا۔

ہانکے والے دوڑ کر ادھر ادھر پھیل گئے جبکہ تیندوا واپس اسی جگہ گھس گیا جہاں سے وہ نکلا تھا۔

اس جگہ کے نزدیک ہی ہفی پلنکٹ اپنی والدہ کے ہمراہ رہتے تھے۔ اپنی جوانی میں وہ مانے ہوئے شکاری تھے اور انہوں نے مدراس پریزیڈنسی میں دیگو وامتا کے علاقے میں کوئی درجن بھر شیر اور دو درجن سے زیادہ تیندوے مارے ہوئے تھے۔ ہانکے والے بوکھلاہٹ میں سیدھا ان کے پاس پہنچے اور انہیں یہ خبر سنا کر مدد مانگی۔ ہفی اس وقت دیر سے اٹھے تھے اور شب خوابی کے لباس میں تھے۔ انہوں نے پولیس دفعدار کا تیندوے پر گولی چلانے اور اسے زخمی کرنے کے بارے نہیں سنا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ بنگلور جیسے بڑے شہر سے سات میل کے فاصلے پر کسی تیندوے کی موجودگی کا خیال محض حماقت ہے۔ خیر انہوں نے گھبرائے ہوئے دیہاتیوں سے الجھنا مناسب نہ سمجھا اور ایک ایل جی اور ایک گولی کا کارتوس لے کر اپنی بارہ بور کی بندوق کے ہمراہ چل پڑے۔

یہاں جب انہوں نے گھائل افراد کو دیکھا تو انہیں حقیقتاً پہلی بار صورتحال کی سنگینی اور تیندوے کی موجودگی کا علم ہوا۔

انہوں نے احتیاط سے ان درختوں کا جائزہ لیا اور ان کے پیچھے پیچھے نصف درجن دیہاتی چل رہے تھے۔ ہفی ابھی نصف درختوں سے ہی گذرے ہوں گے کہ ایک جگہ انہوں نے تیندوے کو اپنی جگہ بدلتے دیکھ لیا۔ انہوں نے اوپر تلے پہلے بائیں اور پھر دائیں نال خالی کر دیں اور تیندوا اپنی جگہ لوٹنے لگا۔

ہفی دوڑ کر اس کے پاس پہنچے۔ دیہاتی بھی ان کے پیچھے پیچھے تھے۔ یہاں ان سے وہ غلطی ہوئی جس کے بدلے انہیں اپنی جان دینی پڑی۔ انہوں نے ساکت پڑے تیندوے کو اپنے پاؤں سے چھوا۔ چھوتے ہی تیندوا اٹھا اور حملہ کر دیا۔ اس نے پلنکٹ پر دھاوا بولا اور ان کے دائیں بازو پر دانت جما دیئے تاکہ وہ اپنا ہتھیار نہ استعمال کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے پچھلے پنجوں سے ان کی رانوں کو چھیلنا شروع کر دیا۔ ان کے ہمراہی ادھر ادھر بھاگے۔ صرف ایک بندے نے اپنے لکڑی کے بھالے سے تیندوے پر حملہ کیا۔ تیندوے نے ہفی کو تو چھوڑ دیا لیکن اب اس نے اس بندے پر حملہ کر دیا۔ اس نے نہ صرف اس بندے بلکہ چار دیگر افراد کو بھی پنجے مارے اور بھاگ کر دوبارہ درختوں میں جا چھپا۔ اس کے پیچھے خون کی لکیر بھی جا رہی تھی۔

اب آپ اس صورتحال کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہفی درمیان میں تھے اور دیہاتی ان کے گرد۔ اس وقت تک ہفی بے ہوش ہو چکے تھے اور ان کا دائیں بازو تقریباً الگ ہو چکا تھا۔ ان کے ساتھیوں نے خود کو سنبھالا اور ہفی کو لے کر ان کے فارم ہاؤس کی طرف لپکے۔ ہفی کا خون اس دوران بری طرح بہتا رہا۔ دو دن بعد میں جب اس جگہ سے گذرا تو مجھے جمے ہوئے خون کی مقدار سے حیرت ہوئی کہ اتنا خون بہہ جانے کے بعد بھی کوئی انسان کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔

مسز پلنکٹ نہایت حاضر دماغ خاتون تھیں اور انہوں نے ہفی اور چار دیگر شدید زخمیوں کو کار میں ڈالا اور سیدھا بنگلور کے بورنگ ہسپتال پہنچیں۔ بقیہ سات زخمی بنگلور کے وکٹوریہ ہسپتال بھیجے گئے۔

ہفی کو اضافی خون بہم پہنچایا گیا اور ان کے بازو کو بچانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم اگلے دن جب گینگرین کے آثار نمایاں ہوئے تو ان کا بازو کاٹ دیا گیا۔ لیکن صدمے اور کثرت سے خون بہہ جانے کی وجہ سے ہفی نہ بچ سکے اور اس سے اگلے دن بخار کی حالت میں وفات پا گئے۔

یہ سب واقعات اتوار کی صبح ہوئے۔ اسی دوپہر کو ایک گڈریا ادھر سے گذرا تو اس نے تیندوے کے خون کے نشانات دیکھے جب تیندوا ان درختوں سے نکلا تھا۔ اس نے جالا ہالی کے دو بھائیوں کو اس کی اطلاع دی جن کے نام کالیہ اور پپیہ تھے۔

اگلی صبح یعنی پیر کے دن دونوں بھائیوں نے نہایت بہادری لیکن حماقت سے تیندوے کا پیچھا کرنے کی ٹھانی۔ بڑے بھائی کالیہ کے پاس بارہ بور کی توڑے دار بندوق تھی جبکہ چھوٹے بھائی کے پاس ایک نالی مزل لوڈر۔

اپنی اپنی بندوقیں بھر کر ان بہادروں نے کندھے سے کندھا ملائے اس علاقے میں موجود خون کے نشانات کا پیچھا کیا۔

اس طرح چلتے ہوئے وہ دونوں ایک جگہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے اور پلک جھپکتے ہی تیندوا کالیہ پر تھا۔ تیندوے نے کالیہ کو زمین پر گرایا اور اس کے مثانے اور جنسی اعضاء کو چبا ڈالا۔ دھکے سے کالیہ کی بارہ بور کی بندوق گر گئی۔ وہ نیچے اور تیندوا اوپر۔ کالیہ درد کی شدت سے چلا رہا تھا کہ اس کا بھائی اس کی مدد کو لپکا اور آتے ہی اس نے اپنی مزل لوڈر سے تیندوے پر فائر جھونک دیا۔ تاہم اس کی گولی اس کے بھائی کو کیسے نہ لگ سکی، یہ ایک راز ہے۔

تیندوا جو کہ اب مزید زخمی وہ چکا تھا، کالیہ کو چھوڑ کر پپیہہ پر چڑھ دوڑا۔ وہ منہ کے بل نیچے گرا۔ تیندوے کے دانت اس کی پشت سے ہوتے ہوئے اس کے پھپیھڑے تک پہنچ گئے جبکہ تیندوے کے پچھلے پنجوں نے اس کے کولہے اور رانوں کو نوچ ڈالا اور پھر گم ہو گیا۔

میں اس وقت دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا کہ ایک بندہ میرے پاس پسینے میں شرابور پہنچا اور اس نے خبر پہنچایا۔ عجلت میں میں نے اپنی رائفل، بارہ بور کی بندوق اور ٹارچ اٹھائی اور کار کی طرف بڑھا۔ میری بیوی نے اسی وقت ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔ جونہی ہم گیٹ سے باہر نکلے، میرا دوست ایرک نیو کامب ہمیں ملنے کی نیت سے آتا ہوا دکھائی دیا جو مقامی پولیس میں کام کرتا ہے۔ اسے جلدی سے بتاتے ہوئے کہ میں کہا جا رہا ہوں، معذرت کی اور چلنے ہی والا تھا کہ ایرک نے بھی ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔

ہمیں جالا ہالی پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگا اور دہشت ناک منظر ہمارے سامنے تھا۔ ہر مکین، چاہے وہ بوڑھا تھا چاہے نوجوان، مرد یا عورت، سب کے سب موجود تھے۔ ایک ہجوم درختوں کے ذخیرے کے پاس جمع تھا کہ شاید انہیں تیندوے کی کوئی جھلک دکھائی دے جائے۔ انہوں نے درختوں کی شاخوں پر پناہ لی ہوئی تھی۔ اس علاقے کے درخت آدمیوں کے بوجھ سے ٹوٹنے کے قریب تھے۔ تاہم کوئی بھی فرد آگے جا کر دونوں بھائیوں کی مدد کرنے کی جرأت نہیں رکھتا تھا جو گذشت چار گھنٹوں سے درد کے مارے چلا اور مدد مانگ رہے تھے۔

سب سے پہلا کام تو زخمیوں کو اٹھا کر ہسپتال پہنچانا تھا۔ کالیہ کی حالت بہت بری تھی اور وہ بہت تکلیف میں تھا۔ اس کے سوراخ شدہ پھیپھڑے سے خون بلبلوں کی صورت میں نکل رہا تھا۔

ہم نے انہیں اٹھا کر کار میں ڈالا اور میں نے انجن چلایا تاکہ ہم انہیں ہسپتال لے جا سکیں کہ ایک دیہاتی دوڑا ہوا ہمارے پاس آیا۔ اس کے پاس اتنا لمبا نیزہ تھا کہ میں نے آج تک اتنا بڑا نیزہ نہیں دیکھا۔ شاید اس کی لمبائی بارہ فٹ رہی ہوگی۔ اس نے بتایا کہ تین سو گز دور ایک بڑی جھاڑی میں ابھی ابھی تیندوا گھسا ہے۔ اگر ہم اس کے ساتھ چلیں تو تیندوا آسانی سے مارا جا سکتا ہے۔

مجھے بخوبی احساس ہے کہ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا، وہ میری ذاتی غفلت کا نیتجہ تھا۔ میں اپنے بنیادی فرض یعنی زخمیوں کو وقت پر ہسپتال پہنچانے کی بجائے تیندوے کے شکار میں الجھ گیا۔ تاہم، تیندوے کو مار سکنے کا اتنا آسان موقع ایسی بات تھی جس سے میری آنکھوں پر پردے پڑ گئے اور میں زخمیوں کو بھلا کر تیندوے کو مارنے بڑھا۔ ایرک نے میرے ساتھ چلنے پر اصرار کیا اور میں نے اسے بارہ بور کی بندوق پکڑائی جس کی بائیں نالی میں ایل جی اور دائیں نالی میں گولی کا کارتوس تھا۔ اسے چند اضافی کارتوس بھی میں نے دیئے۔ میرے پاس اعشاریہ 405 بور کی رائفل تھی جو میں نے خود اپنے استعمال کے لئے رکھی۔ یہ دوسری غلطی تھی جیسا کہ آگے چل کر آپ کو علم ہوگا۔ مجھے رائفل کی بجائے بارہ بور کی بندوق اپنے پاس رکھنی چاہیئے تھی۔ اب ہم اس دیہاتی کے ساتھ آگے بڑھے اور میری بیوی بطور تماشائی ہمارے پیچھے تھی۔

ہم بڑی جھاڑیوں سے پچیس گز قریب پہنچ گئے لیکن چونکہ ہمیں دیہاتی نے کسی خاص جھاڑی کا نہیں بتایا تھا کہ اس نے تیندوا کس جھاڑی میں دیکھا تھا، میں نے ایرک کو کہا کہ وہ مجھ سے تیس گز دور دائیں طرف چلے جائیں تاکہ ہم ایک دوسرے کی گولی چلانے کی سیدھ سے ہٹ جائیں اور تیندوے کو فرار ہونے سے بھی روک سکیں۔ پھر میں نے نیزہ بردار سے کہا کہ وہ ان جھاڑیوں میں پتھراؤ کرے۔ اس نے بہت منظم طریقے سے پتھراؤ شروع کیا۔ بیس منٹ تک پتھراؤ جاری رہا لیکن ہمیں نہ تو کچھ سنائی دیا اور نہ ہی دکھائی۔ مجھے اب شبہ ہو چلا تھا کہ تیندوا قرب و جوار میں موجود بھی ہے یا نہیں۔ اسی وقت ایرک کی آواز آئی کہ انہیں جھاڑیوں میں صاف دکھائی دے رہا ہے اور یہ بھی کہ تیندوا موجود نہیں۔

اسی دوران ہجوم سے چند دلیر جوان ہمارے پاس آ گئے تھے۔ ان کے پاس ایک کتا بھی تھا۔ ہم نے اس کتے کو جھاڑیوں میں گھسانے کی کوشش کی تاکہ تیندوے کی موجودگی کا علم ہو سکے لیکن کتے نے اندر گھسنے سے انکار کر دیا۔ کتا ان جھاڑیوں سے باہر ہی رہ کر جھاڑیوں کی طرف منہ اٹھا کر بھونکتا رہا۔

اس سے مجھے اپنا خیال تبدیل کرنا پڑا کہ تیندوا موجود بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت تک ایرک بے صبرے ہو کر جھاڑیوں کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی طرف سے ایک پتھر بھی پھینکا۔ پہلے چند پتھروں کی حد تک تو کچھ بھی نہ ہوا۔ پھر انہوں نے ایک بڑا پتھر پھینکا جو یا تو تیندوے کو لگا یا اس کے بہت نزدیک گرا۔ آوف! آوف! کی آواز آئی اور پھر ایک پیلے رنگ کی لکیر سی جھاڑی سے نکلتی ہوئی دکھائی دی۔ انہیں بندوق سیدھی کرنے کا موقع تک نہیں ملا لیکن بوکھلاہٹ میں ان سے بندوق کا ٹریگر دب گیا۔ شاید اسی وجہ سے ان کی جان بھی بچ گئی۔ بندوق چلی اور اس نے تیندوے کے سامنے زمین میں سوراخ کر دیا۔ اس سے تیندوا کچھ جھجھکا۔ اگلے ہی لمحے وہ ان پر تھا۔ ایرک کے ہاتھ سے بندوق چھوٹ گئی اور ایرک اور تیندوا ایک ووسرے سے لپٹے ہوئے گھاس کے اندر اور گہرے نالے کے بالکل کنارے پر تھے۔

اس تمام وقت ایرک چیخ چیخ کر مجھے گولی چلانے کو کہتے رہے اور تیندوا مہیب آوازیں نکالتا رہا۔ مجھے محض گھاس ہلتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ میں دوڑ کو ادھر پہنچا۔ مجھے خوف تھا کہ اگر میں نے اتنے نزدیک سے اپنی طاقتور رائفل سے گولی چلائی تو گولی تیندوے کو چھیدتی ہوئی ایرک کے بھی پار ہو جائے گی۔

اس کے بعد تیندوے نے ایرک کو چھوڑا اور کھڈ میں موجود جھاڑیوں میں گھس گیا۔ میں نے اس پر گولی چلائی اور جیسا کہ بعد میں علم ہوا، گولی تیندوے کی گردن کو چھوتی ہوئی گذری۔

میرا خیال تھا کہ ایرک بالکل نڈھال پڑے رہیں گے لیکن انہوں نے فوراً ہی جست لگائی اور ریکارڈ رفتار سے نالے کے دوسرے کنارے پر جا رکے۔ میں اس دن سے انہیں اکثر ان کی رفتار کے حوالے سے چھیڑتا رہتا ہوں اور یہ ان کی دکھتی رگ بن چکا ہے۔ تیندوے نے ان کے پہلو کو چبایا تھا۔ ایک پسلی بھی تیندوے کے دانت کی وجہ سے ٹوٹ چکی تھی۔ ان کی رانیں اور بازو بری طرح زخمی تھے۔

ہم نے مزید مہم جوئی کا ارادہ ترک کیا اور برؤنگ ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئے۔ میری کار انسانی خون سے بری طرح بھیگ چکی تھی۔ اس شام کو ہم پولیس اور دیگر سرکاری نوعیت کی الجھنوں سے نبرد آزما رہے۔

کالیہ اسی رات انتہائی کرب کی حالت میں اس دنیا سے گذر گیا۔ اس کا بھائی پپیہہ ایک مہینے کے بعد مکمل صحت یاب ہو گیا۔ خوش قسمتی سے اس کے پھپیھڑے کا زخم جلد ہی مندمل ہو گیا۔ ایرک نیو کامبے محض خوش قسمتی سے دو ہفتوں میں ہی بالکل بھلے چنگے ہو گئے۔

اگلا دن منگل کا دن تھا۔ کئی شکاری زخمی تیندوے کے پیچھے گئے۔ ان میں لائڈز ورتھ بھی تھے جو تمباکو کی فیکٹری کے مالک ہیں۔ یہ ایک مشہور شکاری ہیں جنہوں نے بہت سارے شیر اور تیندوے مارے ہیں۔ بیک، وہ بھی اتنے ہی مشہور بڑے شکاری ہیں۔ تاہم انہیں کچھ نہ ملا۔ خون کے نشانات بھی غائب ہو چکے تھے اور تیندوا بھی جیسے فضا میں تحلیل ہو چکا ہو۔

اسی شام کو تیندوے نے ایک بارہ سالہ چرواہے کو ہلاک کیا جو لاعلمی میں تیندوے کی کمین گاہ کے بہت نزدیک چلا گیا تھا۔ یہ جگہ دیگر واقعات والی جگہ سے کوئی میل بھر دور تھی۔ لڑکا بیچارہ فوراً ہی مر گیا کیونکہ تیندوے نے اس کو گلے سے پکڑا تھا اور اس کی شہہ رگ اور سانس کی نالی چبا ڈالی تھی۔

پانچویں دن صبح کو میں اس جگہ پہنچا جہاں یہ لڑکا مارا گیا تھا۔ ہم نے ہر ممکن احتیاط سے اس جانور کا پیچھا شروع کیا جو بظاہر بہت بری طرح گھائل ہو چکا تھا۔ اس کے جسم سے بیرونی طور پر خون کا بہاؤ تو اب تک تھم چکا تھا۔ میں گھنی جھاڑیوں میں گھسا اور تیندوے کی تلاش جاری رکھی۔ نصف فاصلے پر ہی تیندوے نے یا تو مجھے دیکھا یا پھر میری آہٹ سن لی اور غرانے لگا۔ خوش قسمتی سے اس نے مجھے خبردار کر دیا ورنہ جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ میں شاید تیندوے پر جا دھمکتا اور پھر مجھے وہ دکھائی دیتا۔ میں نے تیندوے کے تعاقب کا ارادہ ترک کر دیا۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ تیندوا اب ایک یا دو دن کا مہمان ہے۔

اس دن ایک عجیب واقعہ ہوا۔ بنگلور سے پولیس پہنچ گئی۔ تیس افراد ایک لاری میں سوار تھے جس کے باہر جنگلہ اور جالی لگی ہوئی تھی۔ ان سب کے پاس ان کی سرکاری رائفلیں تھیں جن میں ایک ایک گولی موجود تھی۔ ڈرائیور کو ہدایت کی گئی تھی وہ اس گاڑی میں رہتے ہوئے تیندوے کو ہلاک کر کے اس علاقے کو محفوظ بنا دیں۔ اس نے اپنی پوری کوشش کی مگر بیچارے کو علم نہیں تھا کہ وہ کس جگہ گاڑی کو لے کر جا رہا ہے۔ آخر کار اسے اس وقت احساس ہوا جب گاڑی ایک گہرے کھڈ میں پھنس گئی۔ سب کے سب افراد اندر پھنس گئے اور انہوں نے چیخ و پکار سے آسمان سر پر اٹھا لیا جیسے انہیں یہ خوف ہو کہ جو فرد پہلے نکلا، یہ "آدم خور" تیندوا اسے ہڑپ کر جائے گا۔

کچھ فاصلے پر ہم تھے کہ ہمیں یہ چیخ و پکار سنائی دی۔ ہم لوگ دوڑ کر ان کی مدد کوپہنچے اور قانون کے محافظین کو چھڑایا۔ جونہی وہ لوگ اور گاڑی نکلی، انہوں نے فوری واپسی کی ٹھانی۔ واپسی سے قبل انہوں نے بتایا کہ انہیں اس گھنی گھاس سے تیندوے کی آواز سنائی دی تھی۔ میں نے سوچا کہ یہ محض ان کا تخیل تھا۔

اب میرا یہ معمول تھا کہ روزانہ صبح سات بجے میں اس جگہ پہنچتا اور سورج ڈوبتے واپس لوٹتا۔ چھٹے دن دوپہر کے وقت میں نے آسمان پر چند گدھ دیکھے۔ دوربین کو استعمال کیا تو پتہ چلا کہ ان کا رخ وادی کے درمیان میں ایک نسبتاً خالی جگہ کی طرف ہے۔ گذشتہ دن میں نے اس طرف جانے کی کوشش کی تھی لیکن راستہ نہیں ملا تھا۔

مجھے معلوم تھا کہ یہ مردار خور پرندے کسی جانور کی لاش پر ہی اتر رہے ہیں۔ یہ جانور یا تو تیندوا ہوگا یا پھر تیندوے کا کوئی شکار۔ محتاط ہو کرمیں بمشکل تمام ان جھاڑیوں میں سے راستہ بناتا ہوا گذرا۔ اس کوشش میں میں کانٹوں سے الجھتا اور ہر لحظہ یہ دھڑکا لگا رہتا کہ اب تیندوے کی آواز سنائی دے گی اور پھر حملہ۔ تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کانٹوں نے مجھے لہولہان کر ڈالا۔ میں وادی میں پہنچ گیا۔ ابھی میں پچاس گز ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ چار گدھ زمین سے اڑے۔ آگے بڑھتے ہوئے میرے سامنے پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب آیا۔ تیندوا اس کے کنارے پانی پیتی حالت میں مردہ موجود تھا۔

بیچارہ تیندوا اندورنی جریان خون کا شکار ہوا تھا اور پیاس اور بخار کے مارے اس حال تک پہنچا تھا۔ اپنی جگہ سے نکل کر اس پانی کے تالاب تک پہنچنے کی مشقت اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ مرنے سے قبل اس نے خون کی قے کی تھی اور آدھے سے زیادہ تالاب اس کے خون سے سرخ تھا۔ خوش قسمتی سے میں وقت پر پہنچا کہ ابھی گدھوں نے اسے کھانا شروع نہیں کیا تھا اور اس کی کھال بالکل محفوظ تھی۔

جالا ہالی واپس پہنچ کر میں نے چند آدمی تلاش کئے جو میرے ساتھ جا کر تیندوے کی لاش لا سکیں۔ میں اسے یشونتا پور پولیس سٹیشن لے کر پہنچا تاکہ سرکاری طو رپر رپورٹ درج کرائی جا سکے۔ یہاں مجھے تین گھنٹے انتطار کرنا پڑا کیونکہ کچھ سرکاری آفسیران موجود نہیں تھے۔ مجھے بہت شدید غصہ آ رہا تھا کہ اس تاخیر سے تیندوے کی کھال خراب ہو سکتی تھی۔

آخر کار مجھے کھال اتارنے کی اجازت مل گئی اور میں نے فوراً ہی کھال اتارنا شروع کر دی۔کھال اتارتے ہوئے میں نے وہ معلومات اکٹھی کیں جن سے مجھے ان حقائق سے آگہی ہوئی جن کی بدولت تیندوے نے تین انسانی جانیں لی تھیں اور بہت سے افراد کو زخمی کیا تھا۔

تیندوے کی اگلی ٹانگ کا زخم موٹے پولیس دفعدار کی تھری ناٹ تھری بور کی رائفل سے لگا تھا۔ اس میں اب کیڑے رینگ رہے تھے اور اس پر گینگرین کا شکار ہو چکا تھا۔ ہفی پلنکٹ کی گولی تیندوے کے جسم سے پار ہوئی لیکن معدے سے گذرنے کے باوجود اس نے کوئی فوری مہلک زخم نہیں پہنچایا۔ ایک ایل جی کا چھرا تیندوے کی کھال کے نیچے کھوپڑی کی ہڈی میں پیوست ملا۔ اس سے تیندوا غش کھا گیا اور ہفی کو تیندوے کو چھونے کا موقع ملا۔ پپیہہ کی بندوق سے پانچ چھرے تیندوے کے پہلو میں موجود تھے لیکن وہ تمام کے تمام کسی نازک جگہ نہیں تھے۔ آخر کار میری گولی تیندوے کی گردن پر اس وقت لگی جب وہ ایرک کو چھوڑ کر بھاگ رہا تھا۔ اس سے محض خراش ہی پہنچی۔

میں نے اس کھال کو عدالت میں پیش کیا تاکہ حکومت کی طرف سے کالیہ کے خاندان کو امداد مل سکے کیونکہ کالیہ اپنے خاندان کا کفیل تھا۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ متوفی کی بہادری کو قبول کرتے ہوئے حکومت نے ایک کھیت اس کے خاندان کو دے دیا۔

دوسری جنگ عظیم کے آغاز جالا ہالی میں ڈرامائی تبدیلی ہوئی۔ اس علاقے کے مصنوعی جنگل کو کاٹ کر ہزاروں ہٹ بنائے گئے۔ ان میں پہلے اطالوی جنگی قیدیوں کو اور پھر برما اور مالے پر حملے کے لئے اس خطے میں موجود ایک بہت بڑے ہسپتال میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے بعد یہاں ہوائی فوج کے فوجیوں کی بیریکیں بنائی گئیں تاکہ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فضائی فوج کے لئے تربیت گاہ مہیا کی جا سکے۔

اس تیندوے کی کھال اب میرے بنگلے کی زینت ہے۔ میں اس جانور کے لئے دلی عزت رکھتا ہوں۔ دیگر تیندوے چھپ کر اپنے شکار کو لاعلمی میں مارتے ہیں جبکہ اس نے اپنے زخموں اور تمام تر مشکلات کے باوجود نہایت بہادری اور جرأت سے اپنے دفاع کے لئے لڑائی لڑی اور اس میں کامیاب رہا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
دیواراین درگا کی خلوت پسند

اسے خلوت پسند یا تنہائی پسند کا نام دیئے جانے کی وجہ اس کا الگ تھلگ رہنا اور اس کی عجیب و غریب عادات تھیں۔

وہ غیر معمولی شیر تھا۔ اگرچہ وہ نہ تو آدم خور تھا اور نہ ہی اس نے کبھی انسانی گوشت کو چکھا تھا۔ لیکن اس کی انسانی نسل سے بے پناہ نفرت اس کی خاصیت تھی۔ اس نے کل تین انسان ہلاک کئے جن میں ایک عورت اور دو مرد شامل تھے۔ یہ تمام تر ہلاکتیں اس نے پانچ دن کے اندر اندر کیں۔ ان کا محرک صرف اور صرف نسل انسانی سے اس کا بغض تھا۔ اس کے علاوہ اس کی عادات عام شیروں سے بہت مختلف تھیں۔ وہ گاؤں کی بکریوں اور کتوں پر ہاتھ صاف کرتا تھا۔ عام شیر بالعموم بکریاں اور کتے نہیں کھاتے۔ وہ بنگلور سے پچاس میل دور اور تمکور شہر سے چھ میل دور دیواراین درگا کے ساتھ واقع جنگلات سے نکلا۔ دیواراین درگا میں کئی دہائیوں سے کوئی شیر نہیں پایا جاتا۔ یہاں چند جنگلی سور اور موروں کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں باقاعدہ جنگلات بھی نہیں پائے جاتے۔ البتہ کانٹے دار جھاڑیاں اور خودرو بیلیں یہاں بکثرت ہیں۔ اس کے علاوہ پہاڑ کی چوٹی سخت اور پتھریلی ہے جہاں چند غاریں بھی ہیں۔ ان غاروں میں کبھی کبھار تیندوے آ کر یہاں پہلے سے موجود سیہوں کو نکال کر قبضہ جما لیتے ہیں۔ تاہم یہ غاریں بالکل بھی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں اور شیر جیسا جانور یہاں چھپنے سے رہا۔ یہ سارا خاردار علاقہ چاروں اطراف سے کھیتوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایک عام شیر کبھی بھی، چاہے دن ہو یا رات، کھیتوں کو عبور نہیں کرتا۔

تاہم اس خلوت پسند شیر نے بالکل یہی کیا۔ وہ کھیتوں کو عبور کر کے اس پہاڑی پر آ کر رہنے لگا۔

پہلے پہل تو کسی کو شیر کی آمد کا علم بھی نہیں ہوا۔ آس پاس کے گاؤں میں مویشیوں کی تعداد اچانک ہی گھنٹے لگی۔ لوگوں نے اسے تیندوے کی کارستانی سمجھا۔ ایک دن انہی میں سے ایک گاؤں کے باہر ہل چلے کھیت میں شیر کے پگ دکھائی دیئے۔ اگلے دو دنوں میں ایک بڑی گائے ماری گئی جو گاؤں کے بالکل ہی پاس چرنے کے لئے رات بھر چھوڑ دی گئی تھی۔ اس گائے کی مالکن ایک بوڑھی عورت تھی۔ اسے جب گائے کی ہلاکت کی خبر ملی تو گاؤں سے نکل کر اس جگہ پہنچی جہاں گائے ہلاک ہوئی تھی۔ یہ جگہ گاؤں سے چوتھائی میل دور رہی ہوگی۔ وہ گائے کی لاش کے پاس پہنچ کر بیٹھ گئی اور اپنے غم کے اظہار کے لئے زور زور سے بین شروع کر دیا۔ اس کے خاندان کے افراد بھی اس کے ساتھ آئے تھے۔ وہ بھی کچھ دیر تک تو اس کے ساتھ بیٹھے۔ تاہم جلد ہی وہ اس غم زدہ منظر سے اکتا گئے۔ انہیں اور بھی بہت سے کام کرنے تھے۔ وہ سب ایک ایک کر کے گاؤں لوٹ گئے۔ تاہم بڑھیا گائے کی لاش پر ماتم کرتی رہی۔

گیارہ بجے دن سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ جب یہ شیر واپس آیا تو اس نے گائے کی لاش کے ساتھ بڑھیا کو ماتم کرتے پایا۔ اس نے شاید یہ سوچا ہو کہ اس شور کو اب بند ہو جانا چاہیئے۔ اس نے بڑھیا پر جست لگائی اور ایک ہی پنجے سے بڑھیا کا خاتمہ ہو گیا۔ پھر اس نے گائے کو چند گز دور گھسیٹا اور خوب پیٹ بھر کر کھایا۔ بڑھیا کی لاش ویسے کی ویسے ہی پڑی رہی جیسے شیر کو اس کا خیال ہی نہ رہا ہو۔

جب شام چار بجے تک بڑھیا واپس نہ لوٹی تو اس کے گھر والوں نے اندازہ لگایا کہ بیچاری بین کرتے کرتے تھک کر سو گئی ہوگی۔ وہ اسے واپس لانے کے لئے پہنچے تو بڑھیا کی لاش ملی۔ ان کی دہشت کی انتہا نہ رہی۔ گائے کی لاش بھی موجود تھی لیکن شیر پیٹ بھر کر واپس جنگل میں جا چکا تھا۔ سب کے سب سر پر پیر رکھ کر بھاگے اور انہوں نے گاؤں پہنچ کر سب کو خبردار کیا۔ فوراً ہی دو درجن افراد مختلف ہتھیار لے کر نمبردار کی سربراہی میں اس جگہ پہنچے۔ نمبردار کے پاس توڑے دار بندوق تھی۔ انہوں نے شیر کا پیچھا کرنے کا سوچا لیکن شیر پاس ہی موجود جنگل میں گھس گیا تھا۔ چونکہ سب ہی جنگل میں گھسنے سے ڈر رہے تھے، انہوں نے جنگل کے کنارے ہی کھڑے ہو کر خوب شور و غل کیا اور نمبردار نے اپنی بندوق سے دو ہوائی فائر بھی کئے۔ اس کے بعد وہ سب بڑھیا کی لاش اٹھانے کے لئے بڑھے۔ اتنے میں ان کے عقب سے شیر نکلا اور پارٹی کے آخری آدمی پر جھپٹا جو کہ نمبردار تھا۔ اس بیچارے کے خبردار ہونے سے قبل ہی اسے موت نے آ لیا۔

ایک بار پھر پوری پارٹی گاؤں کو بھاگی اور اگلے دن چڑھے وہ پھر بہت سے افراد کو جمع کر کے لاشیں اٹھانے پہنچے۔ رات بھر پڑے رہنے کے باوجود دونوں لاشیں بالکل صحیح و سلامت تھیں۔ تاہم شیر گائے کی لاش سے مزید گوشت کھا چکا تھا۔

اگلے دو دن تک لوگوں میں غم و غصہ بڑھتا رہا۔ تیسری صبح تمکور سے آنے والا ایک مسافر ادھر سے گذرا۔ اس کے ساتھ مختلف سامان سے لدے دو گدھے بھی تھے۔ ابھی وہ یہاں سے میل بھر ہی دور گیا ہوگا کہ شیر نے جست لگا کر اگلے گدھے کو دبوچ لیا۔ دوسرا گدھا بالکل بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ تاہم مسافر نے دہشت سے چیخ ماری اور واپس گاؤں کی طرف بھاگا۔ بظاہر اس کی چیخ اور بھاگنے کی وجہ سے شیر نے اس کا پیچھا کیا اور اسے ہلاک کر دیا۔ پھر وہ مردہ گدھے کی طرف لوٹا۔ مسافر کے پیچھے جانے اور پھر واپس آنے کے دوران وہ دوسرے گدھے کے پاس سے گذرا لیکن اسے بالکل چھوا تک نہیں۔مسافر کی لاش حسب معمول پھر ویسے کی ویسے پڑی رہی۔

بنگلور کے اتنے قریب ہونے والے یہ واقعات اخباروں کی شہ سرخیاں بنے۔ اگلی صبح میں کار میں اس طرف روانہ ہوا اور دو گھنٹے بعد ادھر پہنچ گیا۔

خوفزدہ دیہاتیوں سے پوچھنے پر جو معلوم ہوا، وہ آپ ابھی پڑھ چکے ہیں۔ موسم خشک اور راستے گرد و غبار سے بھرے ہوئے تھے۔ تمام تر نشانات اس وقت تک مٹ چکے تھے۔ تاہم کچھ دیر تک میں یہی سمجھتا رہا کہ یہ سب واقعات کسی بڑے اور مشتعل چیتے کے ہیں۔ وہ افراد جو نمبردار پر حملے وقت اس کے ساتھ تھے، نے مجھے یقین دلایا کہ یہ شیر ہی تھا۔ تاہم مجھے ابھی بھی شک تھا کیونکہ دیہاتی لوگ اس طرح کی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

مختصر سا کھانا کھا کر میں ایک خوفزدہ رہنما کے ساتھ نکلا۔ پوری دوپہر ہم نے آس پاس کی ہر ممکنہ جگہ اور غاروں کی چھان بین کی لیکن شیر تو کجا اس کا ایک ماگھ یعنی پگ تک بھی نہ ملا۔ تھکن سے میرا برا حال ہو گیا۔

چار بجے شام کو میں واپس لوٹا اور بدقت تمام ایک نو عمر بچھڑا خریدا تاکہ اسے گارے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ اس پورے علاقے میں بھینسیں نہیں تھیں۔ میں نے اسے گاؤں سے پون میل دور اس جگہ باندھا جہاں راستے میں ایک عمیق پتھریلا نالہ آتا تھا۔

چھ بجے شام کو ہم گارے کو باندھ کر فارغ ہوئے۔ اب مچان باندھنے کا وقت نہیں بچا تھا۔ میں نے سوچا کہ اب رات کو چھ میل دور تمکور جا کر فارسٹ بنگلے میں رات گذاروں۔ اگلی صبح واپسی پر مجھے امید تھی کہ شیر گارے کو مار چکا ہوگا۔

میں نے ایسا ہی کیا۔ صبح پانچ بجے اٹھا اور ساڑھے پانچ بجے میں اس جگہ پہنچ چکا تھا جہاں گارا بندھا ہوا تھا۔ اس جگہ سے نصف میل دور میں نے کار کو روکا تو اس وقت تک روشنی پھیلنے لگ گئی تھی۔ میں نے کار کو اتنی دور اس وجہ سے چھوڑا تاکہ اس کی آواز سے شیر خبردار نہ ہو جائے۔ بہت احتیاط سے آگے بڑھتے ہوئے میں پہنچا تو دیکھا کہ گارا اپنی جگہ سے غائب تھا۔ جائزہ لینے سے علم ہو اکہ شیر نے نہ صرف گارے کو ہلاک کیا بلکہ رسی کو بھی کتر کر الگ کر دیا۔ عموماً شیر رسی کو نہیں کترتے تاہم یہ عجیب ہی شیر تھا۔ ماگھ بھی موجود تھے جن سے علم ہوا کہ یہ جانور ایک نر نہیں بلکہ مادہ شیرنی ہے اور بالغ عمر کی ہے۔ اس کی جسامت عام شیرنیوں سے کچھ زیادہ بڑی ہے۔

شیرنی سے متعلق کہانیوں اور اس کے بلاوجہ حملہ کرنے کی عادت کی وجہ سے میں نے ان نشانات کا بہت احتیاط سے پیچھا کیا۔ ہر قدم پر مجھے نہ صرف اپنے سامنے بلکہ دائیں بائیں اور ہر چند منٹ کے بعد عقب میں بھی دیکھ بھال کرنی پڑ رہی تھی۔ اس طریقے سے پیش قدمی کافی سست تھی۔ نشانات بالکل واضح تھے اور ڈیڑھ سو گز پر ہی میں نے ادھ کھائے بچھڑے کو تلاش کر لیا۔ بظاہر شیرنی آس پاس موجود نہیں تھی۔

اس کم عمر بچھڑے شیر کے عمومی انداز میں گردن توڑ کر ہلاک کیا گیا تھا۔ شیرنی اسے اٹھا کر اس جگہ تک لائی تھی۔ یہاں آ کر اس نے شہہ رگ سے خون پیا جس کا ثبوت شہہ رگ میں موجود سوراخ اور ان کے گرد جما ہوا خون تھا۔ اس کے بعد شاید وہ رات کے لئے لاش کو چھوڑ کر چلی گئی تھی یا اسی وقت کھانا شروع کر دیا۔ اس نے پہلے دم کو جڑ سے کتر کر لاش سے دس فٹ دور جا پھینکا۔ یہ شیروں کی عام عادت ہے۔ بعض اوقات بڑے تیندوے بھی ایسا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے پیٹ کو چاک کیا اور آنتیں وغیرہ نکال کر دس فٹ دور لیکن دوسری طرف جا پھینکا۔ اس کے بعد اس نے عام شیروں کی طرح پچھلی ٹانگوں کے درمیان سے کھانا شروع کر دیا۔ وہ آدھا بچھڑا کھا چکی تھی۔

ان سب علامات سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ شیرنی اتنی بھی عجیب و غریب عادات کی نہیں تھی جتنا کہ اس کے بارے کہانیاں مشہور ہو چکی تھیں۔ وہ محض غصیلی شیرنی تھی۔

اس کی واپسی کا سوچ کر میں بیس گز دور ایک درخت پر چڑھ گیا۔ گارے کے آس پاس یہ واحد درخت تھا۔ یہاں میں ساڑھے نو بجے تک بیٹھا رہا لیکن شیرنی نہ آئی۔ تاہم گدھوں کی تیز نظروں نے گارے کو تلاش کر لیا۔ جلد ہی ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ نزدیک آ گئی۔

لاش کو گدھوں سے بچانے کے لئے میں نیچے اترا اور آس پاس سے جھاڑیاں اکھاڑ کر گارے پر ڈال دیں اور پھر کار کی طرف لوٹا تاکہ گاؤں پہنچ سکوں۔ یہاں میں نے چار افراد کو ساتھ لیا اور گارے کی لاش پر واپس آیا۔ یہاں میں نے انہیں ہدایت کی کہ وہ میری چارپائی مچان کو باندھیں۔ دوپہر تک مچان تیار ہو چکی تھی۔

ایک آدمی نے یہ تجویز دی کہ یہ شیرنی بکریوں کی بہت شوقین ہے۔ اگر میں گارے کی لاش کے آس پاس ایک بکری بھی باندھ دوں تو شیرنی کے مارے جانے کے امکانات بہت بڑھ سکتے ہیں۔ شیرنی اگر گارے کے لئے نہ بھی پلٹے تو بھی بکری اسے اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے۔ اس کی بات میں وزن تھا۔ میں فوراً گاؤں کی طرف پلٹا اور جلد ہی ایک نو عمر بکری لے کر واپس پہنچا۔اس عمر کی بکری بہت شور کرتی ہے۔

چند بسکٹ اور چائے سے پیٹ پوجا کر کے میں مچان پر چڑھا اور ہمراہیوں کو ہدایت کی کہ میرے چھپ جانے کے بعد وہ بکری کو باندھ کر چلے جائیں تاکہ بکری خود کو اکیلا محسوس کر کے خوب شور مچائے۔ ان کے جاتے ہی بکری نے بہت ہی بلند آواز سے غل مچانا شروع کر دیا۔

پونے چھ بجے تک بکری بولتی رہی حتٰی کہ میں نے وہ آواز سنی جو شیر چلتے وقت اکثر نکالتےرہتے ہیں۔ بکری نے بھی اس آواز کو سنا اور فوراً ہی چپ ہو گئی۔ اس کا رخ اس طرف تھا جہاں سے شیرنی کی آمد متوقع تھی۔ بیچاری کا سارا جسم دہشت کے مارے کانپ رہا تھا۔

بدقسمتی سے شیرنی میرے عقب سے آ رہی تھی۔ اگرچہ مچان اتنی کھلی تھی کہ میں اس پر آسانی سے رخ بدل سکتا تھا لیکن درخت کے تنے اور پھر ساتھ ہی موجود آلو بخارے کی گھنی جھاڑی کی وجہ سے مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔ شیرنی جس جگہ موجود تھی وہاں زمین کچھ ڈھلوان تھی۔ اس طرح شاید شیرنی نے مجھے یا مچان کو دیکھ لیا۔

ہو سکتا ہے کہ اس کی غیر معمولی چھٹی حس نے اسے خطرے سے آگاہ کر دیا ہو۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ بعض درندوں میں یہ چھٹی حس بہت تیز ہوتی ہے۔ خیر جو بھی وجہ ہو، شیرنی نے خطرہ محسوس کرتے ہی فلک شگاف دھاڑ لگائی اور غراتے ہوئے اس پورے قطعے کے گرد چکر لگانا شروع کر دیا۔ بیچاری بکری نیم جان ہو چکی تھی۔ اندھیر ا اتنا تھا کہ مجھے بکری کی جگہ ایک لرزتا ہوا دھبہ دکھائی دے رہا تھا۔

نو بجے تک شیرنی اسی طرح غراتی ہوئی جنگل کے سکون کو تہہ و بالا کرتی رہی۔ پھر آخری بار دھاڑ کر وہ چل دی۔ رات گئے درجہ حرارت حسب معمول اچانک گرا اور ٹھنڈک بہت بڑھ گئی۔ درخت کے نیچے بکری کے اور درخت کے اوپر میرے دانت بجتے رہے۔ صبح تک مزید کوئی خاص واقعہ نہ ہوا۔

صبح صادق کے وقت ہم دونوں ہی ٹھنڈک اور بے آرامی سے بے حال ہو چکے تھے۔ گذشتہ رات کے شور و غل سے بکری کا گلا بیٹھ چکا تھا اور جب وہ منہ کھولتی تو آواز نہ نکلتی۔

دوپہر کو میں نے مزید دو گھنٹے تک شیرنی کی تلاش جاری رکھی لیکن بے سود۔ اس بار میں نے ایک اور درخت اس طرح چنا کہ جو ہر طرف سے میری مچان کو ڈھانپے رکھے۔ یہاں میری مچان باندھی گئی اور چار بجے شام کو میں اس پر بیٹھ گیا۔ اس بار ایک اور بکری باندھی گئی۔ یہ بکری بہت عجیب تھی کہ بجائے شور مچانے کے زمین پر بیٹھ کر خدا معلوم کیا چبانے لگ گئی۔ تاریکی چھانے تک وہ اسی شغل میں لگی رہی۔

اس بار میں زیادہ گرم کپڑے پہن کر نکلا تھا اور کمبل بھی ساتھ تھا۔ رات گئے مجھے نیند آ گئی۔ جب اٹھا تو یہ منحوس بکری ابھی تک نہ جانے کیا چبائے جا رہی تھی۔ لگتا تھا کہ پوری دنیا سے درندے ختم ہو گئے ہیں۔

اگلے دن میں نے حسب معمول شیرنی کی تلاش جاری رکھی لیکن ناکامی ہوئی۔ تین بجے واپس میں اس مچان پر بیٹھ گیا۔ اس بارے میرے پاس ایک کم عمر بیل بطورہ چارے کے تھا۔

سات بجے تک مکمل تاریکی چھا گئی۔ اچانک غیر متوقع طور پر دیہاتیوں کا ایک گروہ لالٹینیں اٹھائے میری طرف آیا۔ انہوں نے بتایا کہ نصف گھنٹہ قبل شیرنی نے تالاب کے بند کے پاس ایک گائے ہلاک کر دی ہے۔ یہ جگہ گاؤں کے دوسری طرف فرلانگ بھر دور تھی۔ اس وقت شیرنی گائے کو کھانے میں مصروف تھی۔

یہاں مزید بیٹھنا اب بے کار تھا۔ میں نیچے اترا اور دیہاتیوں کو ہدایت کی کہ وہ بیل کو یہیں رہنے دیں تاکہ شیرنی اگر رات کو ادھر سے گذرے تو اس کے لئے گارا موجود ہو۔ اب ہم بعجلت موقعہ واردات کی طرف لپکے۔

گاؤں پہنچ کر میں نے لالٹینیں بجھوا دیں۔ ایک بندے کو بطور راہبر چن کر میں آگے بڑھا۔ باقی تمام افراد وہیں رک گئے۔ میرے ہمراہی نے بتایا کہ شیرنی نے گائے کو سڑک کے بائیں جانب ہلاک کیا ہے۔ یہ جگہ سڑک کے کنارے سے پچاس گز دور اور گاؤں سے ایک فرلانگ دور تھی۔

تاریکی گہری ہو چکی تھی اور ہمراہی اور میں ساتھ لگ کر سڑک کے درمیان میں چل رہے تھے۔ میں نے رائفل پر لگی ٹارچ جو جلا کر اس کی روشنی سڑک کے بائیں طرف ڈالی۔

پہلے غراہٹ اور پھر "آوف" کی آواز آئی۔ پھر اندازاً دو سو گز دور سے مجھے دو چمکدار آنکھیں دکھائی دیں جو بظاہر کچھ بلندی پر تھیں۔مجھے حیرت ہوئی لیکن ہمراہی نے بتایا کہ شیرنی بند پر چڑھ کر کھڑی ہوئی ہے۔

ربڑ کے جوتوں کی مدد سے اور دیہاتی ننگے پاؤں چلتے ہوئے آگے بڑھے۔ ہماری پیش قدمی بالکل بے آواز تھی۔ اس دوران شیرنی ٹارچ کو گھورتی رہی۔ اس طرح بڑھتے ہوئے ہم کوئی سو گز آگے گئے۔ اب ہم اس جگہ تھے جہاں سڑک بند سے جا ملتی ہے۔ یہاں سے ہم بائیں مڑے اور بند پر چڑھنے لگے۔

شیرنی یہاں سے سو گز دور تھی اور اب اس نے غرانا شروع کر دیا تھا۔ میں رک گیا اور رائفل ابھی شانے تک اٹھائی ہی تھی کہ شیرنی کی ہمت شاید جواب دے گئی۔ دم اٹھائے تین چار چھلانگوں میں اس نے بند کا کنارہ عبور کیا اور دوسری طرف غائب ہو گئی۔

ہم بند پر چڑھے اور میں نے ادھر ادھر ٹارچ کی روشنی پھینکنی شروع کر دی۔ یہاں ایک بڑا اور اکیلا بنیان کا درخت تھا۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے اس درخت پر کوئی پندرہ فٹ کی بلندی پر ایک دو شاخے پر شیرنی کی آنکھیں چمکتی دیکھیں۔ شیر عموماً درخت پر نہیں چڑھتے بالخصوص جب رات کو ٹارچ کی روشنی میں ان کا پیچھا کیا جا رہا ہو۔

اب مجھے شیرنی کے خد و خال دکھائی دے رہے تھے۔ وہ درخت پر کتے کی طرح بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی چمکتی آنکھوں کےد رمیان میں نے احتیاط سے نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ بھد کی آواز سے شیرنی زمین پر گری اور غراہٹ کی آواز آئی اور پھر خاموشی چھا گئی۔

ہم بند پر کچھ دور تک بڑھے اور دائیں طرف ٹارچ کی روشنی پھینکتے رہے لیکن کچھ دکھائی دیا اور نہ ہی سنائی دیا۔ مجھے علم تھا کہ شیرنی کو گولی لگی ہے۔ میں نے سوچا کہ اب جا کر سو جاؤں اور شیرنی کا پیچھا کل دن کی روشنی میں کرنا بہتر رہے گا۔ یہاں سے ہم واپس کار تک آئے۔ رات کا کھانا میں نے تمکور میں کھایا اور پھر چائے اور تمباکو سے دل بہلانے کے بعد اگلے دن کے سہانے خوابوں میں گم سو گیا۔

اگلی صبح پو پھٹتے وقت میں دوبارہ گاؤں پہنچ گیا۔ رات والے راہبر کو ساتھ لے کر میں واپس پلٹا اور بند پر آکر ہم بہت احتیاط سے نیچے اتر کر بنیان کے درخت تک پہنچے جہاں میں نے گذشتہ رات شیرنی پر گولی چلائی تھی۔

فوراً ہی ہم نے بہت بڑے رقبے پر پھیلے خون کے نشانات تلاش کر لئے جہاں شیرنی نیچے گری تھی۔ یہاں ہمیں ہڈی کا ایک ٹکڑا ملا جس پر میری اعشاریہ 405 بور کی رائفل کی گولی کے سیسے کا ٹکڑا موجود تھا۔ میرا ساتھی درخت پر چڑھا اور اس نے فوراً ہی اس دوشاخے پر خون کے چند قطرے تلاش کر لئے جہاں شیرنی بیٹھی تھی۔

یہاں سے ہم نے خون کے نشانات کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی ہمیں معلوم ہوا کہ شیرنی کو سر پر گولی لگی ہے اور وہ بری طرح زخمی ہے۔ اس کے خون کے نشانات آڑے ترچھے اور دائروں کی صورت میں ایک دوسرے سے ہو کر گذر رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے بالکل بھی احساس نہیں ہے کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔

ہمیں جمے ہوئے خون کے بکثرت بڑے بڑے دائرے ملے۔ آخر کار وہ جگہ ملی جہاں شیرنی یا تو گری تھی یا دم لینے کے لئے رکی تھی۔ شاید اس نے رات کا کچھ حصہ بھی یہاں گذارا تھا۔ یہ کوئی دس مربع فٹ کا دائرہ تھا اور خون سے بھرا ہوا۔ علی الصبح جب وہ یہاں سے نکلی تو بظاہر خون کا بہاؤ تھم چکا تھا۔ اکا دکا جھاڑیوں پر ہمیں خون کے قطرے دکھائی دے رہے تھے۔

پہلا دائرہ ہم نے بند کی جڑ سے لے کر ان جھاڑیوں تک پورا کیا۔ بند کے اوپر تک ہمیں خون کا کوئی نشان نہ ملا اور نہ ہی شیرنی کا کوئی اتہ پتہ کہ جس سے اندازہ ہو سکے کہ شیرنی نے اپنی پناہ گاہ چھوڑ دی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ شیرنی گھنی گھاس کے اسی قطعے میں چھپی ہوئی ہے جو دو سو گز لمبا اور دس سے لے کر پچہتر گز تک چوڑا تھا۔ پر کیا وہ زندہ بھی تھی؟ یہ ایک ایسا سوال تھا کہ جس کے جواب پر میری اور میرے ساتھی کی زندگی کا انحصار تھا۔

اس جگہ لوٹ کر جہاں ہم نے شیرنی کے خون کا آخری قطرہ دیکھا تھا، گھنی گھاس میں پتھر پھینکنے شروع کر دیئے۔ ان تمام کوششوں کا نتیجہ مکمل خاموشی رہا۔

ہم اس طرح گھاس کے کنارے کنارے آگے بڑھتے رہے۔ شیرنی کی موجودگی کا جائزہ لینے کے لئے میں نے گھاس میں پانچ گولیاں بھی چلائیں لیکن شیرنی کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ تین چوتھائی فاصلے کو طے کر لینے کے بعد ہمیں ایک پستہ قد درخت دکھائی دیا جو بمشکل دس یا بارہ فٹ بلند ہوگا۔ میرا ساتھی اس پر چڑھنے کی نیت سے اس کی طرف بڑھا تاکہ اس پر چڑھ کر بہتر طور پر جائزہ لے سکے۔ اچانک ہی بغیر کسی وارننگ کے شیرنی گھاس سے نکلی اور دھاڑ لگا کر میرے ساتھی کی طرف جھپٹی۔

میرا ساتھی دہشت کے مارے چلایا اور میں اس جگہ سے بمشکل بیس گز دور تھا۔ میں نے شیرنی پر یکے بعد دیگرے تین گولیاں چلائیں۔ شیرنی الٹ کر اسی جگہ گم ہو گئی جہاں سے وہ نکلی تھی۔ بالآخر اسے موت نے آ ہی لیا۔

یہ شیرنی جیسا کہ میرا اندازہ تھا، بوڑھی ہو چکی تھی اور اس کے دانت گھس چکے تھے۔ اس کی بوڑھی عمرنے اسے انسان کے قریب آ کر آسان شکار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہاں وہ کتے اور بکریاں آسانی سے مار سکتی تھی۔ بھوک اور ڈھلتی عمر شاید اس کے غصیلے ہونے کی وجہ تھے۔ انسان سے پیدائشی خوف اور کم ہمتی نے اسے آدم خور بننے سے روکے رکھا۔ اگرچہ میرا خیال تھا کہ اگر شیرنی کو نہ مارا جاتا تو وہ بہت جلد ہی آدم خور بن جاتی۔ گذشتہ رات کی گولی شیرنی کی ناک پر لگی تھی اور وہ اتنی اندر نہیں جا سکی تھی کہ شیرنی کو کوئی مہلک زخم پہنچاتی۔ اس طرح گولی لگنے اور ہڈی ٹوٹنے اور سیروں خون بہہ جانے کے باوجود بھی ہو سکتا تھا کہ شیرنی مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتی۔ میرے ساتھی پر حملہ کرنے کے وجہ سے اسے اپنی جان گنوانی پڑی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یماؤ ڈوڈی کا آدم خور​

یماؤ ڈوڈی کدور ضلع، میسور ریاست کے ایک جنگل میں واقع علاقہ ہے۔ اس کے ایک کنارے پر پہاڑی سلسلہ ہے جس کی سب سے بلند چوٹی ہوگر خان کے نام سے مشہور ہے۔ یہ سلسلہ ایک اور بڑے پہاڑی سلسلے بابا بُدان کی شاخ ہے۔ بابا بُدان کی بلندی 6500 فٹ تک ہے۔ یہاں ایک عظیم الشان جھیل "مدک" کے نام سے موجود ہے۔ یہ جھیل اس علاقے کے جنوب میں جنگلات پر مشتمل پہاڑوں سے گھری ہے۔ یہاں سے ایک تنگ نالہ بھی نکلتا ہے اور اس نالے کے ساتھ ساتھ پگڈنڈی بھی شروع ہوتی ہے۔ دس میل تک شمال مشرقاً چلنے کے بعد یہ نالہ بیرور سے تین میل پہلے شمال میں ایک اور جھیل میں جا گرتا ہے۔

اس علاقے میں شکار کی کثرت ہے۔ اس سے بھی زیادہ تعداد میں پالتو جانور یہاں ہیں جو دن میں جنگل چرنے کے لئے بھیج دیئے جاتے ہیں اور شام ڈھلے واپس ہانک لائے جاتے ہیں۔

اسی وجہ سے یہ علاقہ شیروں سے بھی پٹا پڑا ہے کیونکہ یہاں سانبھر، چیتل اور جنگلی سور بکثرت ہیں۔ تاہم شکار کی کثرت کے باوجود جلد یا بدیر یہ شیر لاگو ہو جاتے ہیں کیونکہ مویشیوں کا شکار جنگلی جانوروں کی نسبت بہت آسان ہے۔ چرواہے کی طرف سے ہونے والے احتجاج پر یہ توجہ ہی نہیں دیتے۔ بلا مبالغہ ہر روز ایک نہ ایک نہایت عمدہ نسل کی فربہہ گائے یا بیل کی قربانی لازم ہوتی ہے۔ تیندوے بچھڑوں، بکریوں اور آوارہ کتوں کو گاؤں کی سرحد سے پکڑ کر لے جاتے ہیں۔

درحقیقت تیندوں کی تعداد نسبتاً کم ہے اور یہ گاؤں کے آس پاس ہی موجود رہتے ہیں۔ یہ علاقے عموماً شیروں کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ تیندوں کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ شیروں کو ان کی موجودگی پسند نہیں اور اگر داؤ لگ جائے تو شیر انہیں کھانے سے نہیں چوکے گا۔

1946 کے شروع میں اس علاقے کے ایک شیر کی عجیب عادات تھیں۔ اس نے بچھڑوں اوربکریوں سے اپنی شکاری زندگی کا آغاز کیا۔ یہ حملے وہ گاؤں واپس لوٹتے ہوئے ریوڑوں پر کرتا تھا۔ پہلے پہل تو ان حملوں کا ذمہ دار تیندوں کو ٹھہرایا گیا لیکن ایک دن ایک چرواہے نے اس شیر کو حملہ کرتے دیکھ لیا۔ اس دن سے کسی کوشبہ نہ رہا کہ یہ حرکات شیر کی ہی ہیں۔لیکن اس سے قبل لوگ ان حملوں کو تیندوے کی کارستانی گردانتے تھے۔ تاہم ہر جانور کی گردن ٹوٹی ہوئی ملتی تھی جو عموماً شیروں اور چند بڑے تیندوں کی عادت ہوتی ہے۔

یہ نو عمر شیر جلد ہی جوان ہو گیا۔ اسی دوران وہ بے شمار مرتبہ معجزانہ طور پر شکاریوں کی گولیوں سے بھی بچتا رہا۔ یہ شکاری مقامی اور بیرونی، دونوں طرح کے تھے۔ ہر ناکام حملے کے ساتھ ساتھ اس کی مکاری اور چالاکی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ڈیڑھ سال کے بعد یہ شیر ایک ایسا عفریت بن چکا تھا کہ ہر ہفتے کم از کم دو بار اور اکثر تین بار حملہ کرتا اور ہر بار ریوڑ کا سب سے بہترین جانور اس کا شکار ہوتا۔

1948 کے اختتام پر میں چند دوستوں کے ہمراہ اس علاقے میں اس نیت سے آیا کہ کسی تیندوے یا شیر کو مار سکوں کیونکہ میرا ایک دوست الفی رابرٹسن جلد ہی انگلستان واپس جا رہا تھا۔وہ یہ کھال ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ مجھے اس شیر کی حرکات کی اکثر خبریں ملتی رہتی تھیں۔ میرا خیال تھا کہ چند دن بیرور میں قیام سے میں اس شیر پر بہ آسانی ہاتھ صاف کر لوں گا۔

ہم لوگ بنگلور سے بذریعہ موٹر کار روانہ ہوئے۔ یہ کوئی 134 میل کا سفر تھا۔ بدقسمتی سے میں اس روز شام گئے تک دفتر میں مصروف رہا۔ سڑکیں بدحال تھیں اور تپ تر کے نزدیک حادثہ پیش آیا۔ یہ جگہ بنگلور سے 86 میل دور ہے۔ ہم دوست کی کار پر تھےاور وہ خود کار چلا رہا تھا۔ کار کا پچھلا ٹائر ایک پوشیدہ پتھر سے گذرا اور جونہی وہیل اس کے کنارے پر پہنچا، یہ پتھر سیدھا کھڑا ہو گیا۔ اس کے تیز کنارے سے ایندھن کی ٹینکی میں 9 انچ لمبا سوراخ ہو گیا۔ یہ ٹینکی کار کے بالکل آخر پر لگی ہوئی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے 8 گیلن ایندھن بہہ گیا اور کار رک گئی۔

ہمارے پاس اضافی پیٹرول نہیں تھا لیکن تیل سے چلنے والے چولہے ہمارے پاس تھے۔ ان چولہوں کو جلانے کے لئے دو بوتیل پیرافین کا تیل موجود تھا۔ فٹ پیڈل کے ربر کی نلکی کا ایک سرا اس بوتل میں ڈال کر اور دوسرا سرا کاربوریٹر میں ڈالنے کے بعد ہم نے کاربوریٹر میں بھی تیل سے تھوڑی سی پھوہار ماری۔ اب ہم تپ تر تک پہنچ گئے۔ یہاں آ کر ہم نے علاقے کے واحد لوہار کو جگایا۔ اس نے پیرافین کے ڈبے کو کاٹ کر ٹینکی کی مرمت کر دی۔ یہ ڈبہ ایک گھر کے باہر سے ملا تھا۔

اب مسئلہ یہ کھڑا ہوا کہ بقیہ سفر کے لئے ایندھن کہاں سے لیا جائے۔ ہم نے دھکا لگایا اور گاڑی کو شہر کے واحد پیٹرول پمپ تک لے گئے۔ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ تیل ختم ہو چکا ہے اور اگلے دن دوپہر سے پہلے تیل کے آنے کے کوئی امکانات نہیں۔

بظاہر ہم تیل کی آمد تک رکنے پر مجبور تھے۔ شہر میں ایک دو لاریاں بھی تھیں۔ ان کے ڈرائیوروں کو جگا کر ہم نے بھاری رقم کے عوض ایک گیلن تیل مانگا۔ یکے بعد دیگرے سب نے انکار کیا کہ ان کے اپنے پاس تیل ختم ہو چکا ہے اور وہ اگلے دن تیل کی سپلائی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ارسیکر کا شہر یہاں سے سولہ میل دور تھا جہاں برما شیل کا پمپ موجود تھا۔

صورتحال کافی حوصلہ شکن تھی۔ میں نے تنگ آ کر انتہائی اقدام کا فیصلہ کیا۔ ساڑھے تین بج رہے تھے اور پورا شہر بہت دیر ہوئی گہری نیند سو چکا تھا۔ میں نے الفی کو پیرا فین کا ٹن لانے کو کہا جس کو کاٹ کر ہم نے ایندھن کی ٹینکی کو مرمت کروایا تھا۔ میں نے ربر کا پمپ اٹھایا ہوا تھا۔ اب ہم بیرور میں جاسوسی کی نیت سے نکلے۔ ایک جگہ میں نے اکیلی فورڈ اے ماڈل کی کار کھڑی دیکھی۔ الفی کو نگرانی پر چھوڑ کر میں کار کی دوسری طرف سے آگے بڑھابونٹ تک پہنچ کر میں نے ٹینکی کا ڈھکن کھولا اور ربر کا پائپ اس میں ڈال کر تیل نکالنا شروع کر دیا۔ اس دوران ٹن میرے گھٹنوں میں دبا ہوا تھا۔ اسی طرح دو چکر لگا کر میں نے کافی پیٹرول جمع کر لیا۔ اس پیٹرول کو پیرافین سے ملا کر ہم نے ارسیکر تک پہنچنے کا بندوبست کر لیا۔ یہاں پہنچ کر ہم نے مزید پیٹرول خریدا۔

نتیجتاً ہم لوگ ساڑھے سات بجے اپنی منزل پر جا پہنچے۔ ہم قصبے کے درمیان سے گذر کر مزید دو میل گئے ہوں گے کہ اچانک ایک کھیت میں ہمیں گدھ جمع ہوتے دکھائی دیئے۔ میرے دوست نے تصاویر بنائیں جب کہ میں تفتیش کی نیت سے ادھر گیا تاکہ گدھوں کی موجودگی کی وجہ جان سکوں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ یہ ایک نو عمر بیل تھا جسے تیندوے نے بالکل سڑک کے کنارے موجود جھاڑیوں کی باڑ نما جگہ کے ساتھ مارا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ تیندوے کا شکار ہے۔ لاش کے گلے پر موجود نشانات اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ تیندوے نے بیل کو گلا گھونٹ کر مارا تھا۔ گردن کی ہڈی صحیح و سلامت تھی۔ اگر شیر نے اسے مارا ہوتا تو یہ گردن ٹوٹی ہوئی ملتی۔ اس کے علاوہ لاش کا نچلا حصہ کھایا گیا تھا جبکہ انتڑیاں وغیرہ ابھی اندر ہی تھیں جو تیندوے کے شکار کو ظاہر کرتی ہیں۔ شیر ایک ایسا جانور ہے جو نہایت صفائی سے پیٹ بھرتا ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ پہلے جانور کے پچھلے حصے میں شگاف ڈالتا ہے اور انتڑیاں اور اوجھڑی وغیرہ نکال کر عموماً دس فٹ دور جا پھینکتا ہے تاکہ اس کی خوراک لاش کے فضلے سے خراب نہ ہو ۔

اس خوش قسمتی پر ہم بہت مسرور ہوئے اور لاش کو گدھوں سے چھپانے کے لئے ہم نے اس باڑ سے دور کچھ جھاڑیاں اور شاخیں توڑیں اور ان کی مدد سے لاش کو ڈھانپ دیا۔ اس کے بعد میں نے اس باڑ میں کمین گاہ بنائی جہاں سے شکار بالکل ہی سامنے تھا۔ گذشتہ رات کی پریشانی کے بعد اب تیندوے کو مارنے کے اتنے یقنی موقعے کی وجہ سے الفی کو سب کچھ بھول چکا تھا۔ بس صرف تیندوے کے شام کو واپس لوٹنے کی دیر تھی۔

اب کچھ دور جا کر ہم نے کھانا کھایا اور پھر سو گئے تاکہ شام کے لئے تازہ دم ہوں۔ پانچ بجے ہم لاش پر واپس لوٹے اور جھاڑیاں وغیرہ ہٹا دیں۔ الفی کمین گاہ کے اندر گھس گئے۔ ان کے پاس ٹارچ، رائفل، کمبل اور پانی کی بوتل تھیں جبکہ میرے ذمے کار کو واپس بیرور لے جانا تھا۔ ابھی میں روانہ ہونے ہی والا تھا کہ ایک چرواہا پھولی سانس کے ساتھ ہمارے پاس آیا۔ اس نے بتایا کہ اس ایک بڑی ددھیل گائے کو شیر نے نصف گھنٹہ قبل ہی مارا ہے اور یہ جگہ کوئی میل بھر دور ہے۔

میں نے فیصلہ الفی پر چھوڑا۔ کیا وہ تیندوے کا شکار کرنا چاہیں گے جو کہ یقینی تھا یا وہ شیر پر قسمت آزمائی کریں گے؟ انہوں نے یہ سوچتے ہوئے کہ اگر وہ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے، انہوں نے شیر پر قسمت آزمانے کا سوچا۔ اب ہم سب اس جگہ روانہ ہو گئے جہاں گائے ماری گئی تھی۔ نصف میل پر ہی چرواہے نے ہمیں رکنے کا کہا۔ اب ہم سارا سامان اٹھا کر اس کے پیچھے پیچھے جنگل میں گھس گئے۔

ہمیں دور نہ جانا پڑا۔ تین فرلانگ پر ہی ہمیں لاش مل گئی۔ یہ ایک عمدہ نسل کی ددھیل گائے تھی۔ اس کی گردن توڑ کر ہلاک کیا گیا تھا اور ابھی تک اس کے ناک سے خون کے بلبلے نکل رہے تھے۔ شیر نے اسے ابھی تک چکھا بھی نہ تھا، شاید چرواہے کے شور کی وجہ سے یا پھر دیگر بھینسوں نے شیر کو بھگا دیا ہو۔

چھ بج رہے تھے اور تیزی سے اندھیر اچھاتا جا رہا تھا۔ بدقسمتی سے اس جگہ پر کوئی درخت نہ تھا۔ چند منٹ کی سوچ بچار کے بعد ہم نے طے کیا کہ یا تو شکار کا خیال دل سے نکال دیں یا پھر زمین پر ہی رہ کر شیر کو گولی ماریں۔

الفی اس وقت اتنے تنک ہو رہے تھے کہ شکار کو چھوڑنے کی بات ہی کرنا فضول تھا۔ چرواہے کی مدد سے میں نے کچھ شاخیں توڑیں اور ایک کمین گاہ سی بنا لی۔ ہم سب اس میں ساڑھے چھ بجے بیٹھ گئے۔

اب تقریباً مکمل تاریکی چھا چکی تھی اور پندرہ منٹ بعد ہی پچیس گز دور موجود گائے کی لاش دھندلکے میں گم ہو گئی۔ اگرچہ آج کل چاندنی راتیں نہیں تھیں لیکن پھر بھی تاروں کی روشنی میں ہمیں کچھ دور تک دکھائی دے رہا تھا۔ البتہ گائے کی لاش ہماری نظروں سے اوجھل تھی۔ ایک گھنٹہ گذرا کہ نصف میل دور سے ہمیں اکیلے گیدڑ کی آواز سنائی دی۔ اکیلا گیدڑ جنگل کا ایک عجیب اسرار ہے۔ عموماً گیدڑ غول کی شکل میں گاؤں اور قصبوں کے آس پاس منڈلاتے پھرتے ہیں۔ ان کی آواز کورس کی شکل میں ہوتی ہے اور وہ اپنے لیڈر کی آواز کے جواب میں بولتے ہیں۔ اس آواز سے ہندوستان میں رہنے والے تمام افراد بخوبی واقف ہیں۔ یہ کچھ ایسی ہوتی ہے: اُووووہ! اوووئیر؟ اوو وئیر؟اوو وئیر وئیر وئیر؟ ہیئر! ہیئر! ہیئر! ہی ی ی ئر! ہی ی ی ی ی ر! ہی ی ی ی جاہ! ہی ی ی یاہ! ہی ی ی ی ی یاہ! ہیئر ہیئر ہیئر ہیئر ہی ی ی ی یاہ۔ یاہ! یاہ! یاہ۔

اکیلا گیدڑ تاہم ہر اعتبار سے ایک عام گیدڑ ہی ہوتا ہے۔ تاہم اس کی آواز مختلف ہوتی ہے۔ یہ آواز ایک لمبی اور اپنی نوعیت میں ایک انوکھی آواز ہوتی ہے۔ بلا آہ۔ با آ وو آہ، کی وجہ سے ہی اسے یہ شہرت ملی ہے۔ اس آواز اور جنگل کی بھوت پریت کی اور توہم پرستی کی عادات کی وجہ سے اس کے بارے کئی داستانیں مشہور ہیں۔ پہلی داستان کے مطابق یہ گیدڑ کسی شیر یا عموماً تیندوے کا ہم رکاب بن جاتا ہے۔ یہ گیدڑ اپنے ساتھی کو اپنی عجیب آواز کی مدد سے کسی شکار تک لے جاتا ہے اور اس کی آواز اس شکاری کو یہ درخواست کرتی ہے کہ جب وہ اپنا پیٹ بھر چکیں تو پھر اس گیدڑ کے لئے کچھ نہ کچھ کھانا باقی بچا دیں۔ دوسری داستان کے مطابق یہ گیدڑ خود کو کسی درندے سے منسلک کر دیتا ہے۔ پھر یہ گیدڑ اس درندے کا محتاط ہو کر پیچھا کرتا ہے تاکہ اسے باقاعدگی سے اُس درندے کے مارے ہوئے شکاروں سے غذا ملتی رہے۔ تاہم، جو بھی وجہ ہو، اس اکیلے گیدڑ کی آواز عموماً کسی شیر یا تیندوے کی آمد سے وابستہ ہوتی ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ بھی اس بات کی دلالت کرتا ہے۔

پس، اس رات بھی ہمیں اکیلے گیدڑ کی آواز نے یہ اطلاع پہنچائی کہ شیر آنے والا ہے۔ یہ بات اتنی یقینی تھی جیسے کہ ہم نے شیر کو خود آتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ دس منٹ گذرے اور پھر ہم نے "اوفا، اوف! اوف!" کی آواز بھینس کی لاش کے عقب سے آتی ہوئی سنی۔ شیر پہنچ گیا۔ آہستگی سے میں نے الفی کی ٹانگ کو ٹہوکا دیا۔ مگر الفی پہلے سے ہی تیار تھے۔ وقت گذرتا رہا اور ہمیں گھاس پھونس کی طرف سے ہلکی سی آواز سنائی اور پھر گھسیٹے جانے کی آواز آئی۔

الفی نے ٹارچ کا بٹن دبایا اور تیز روشنی ٹارچ سے نکل کر پھیل گئی۔ بدقسمتی سے انہیں یہ درست اندازہ نہ ہو سکا کہ لاش کس جگہ موجود تھی۔ انہوں نے جہاں ٹارچ کی روشنی ڈالی، وہ لاش سے کچھ بائیں جانب تھی۔ یہ تنبیہ شیر کے لئے کافی تھی۔ اس نے "ارر۔۔۔اُوف۔۔۔ ارر۔۔۔ اُوف" کی آواز نکالی اور جست لگا کر جھاڑیوں میں گھس گیا۔ ہم ایک گھنٹہ مزید رکے رہے تاہم مجھے معلوم تھا کہ ہم وقت ضائع کر رہے ہیں اور شیر اب نہیں آنے کا۔ گھنٹہ بھر کے بعد ہمیں مدھم سی "آؤنگھ، آؤنگھ، اوووں" کی آواز آئی جب شیر میل بھر دور ایک چٹان سے گذر رہا تھا۔

خود کو کوستے ہوئے ہم نے سامان سمیٹا اور واپس گاڑی کی طرف آئے تو علم ہوا کہ الفی سے گاڑی کی چابی گم ہو گئی ہے۔ اسے تلاش کرنے کے دوران لنگا دھالی سے آنے والی بس گذری۔ اس کے بعد الفی نے چابی تلاش کر لی۔ اب ہم بس کے پیچھے روانہ ہوئے۔

اس جگہ پہنچ کر، جہاں ہم نے تیندوے پر گھات لگانے کے لئے کمین گاہ بنائی تھی، دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ بس کی بتیوں کی روشنی میں ہمیں تیندوے کی آنکھیں چمکتی ہوئی دکھائی دیں۔ شاید تیندوا واپس آ کر اپنا شکار اڑا رہا تھا۔ اسی وقت ہی بس ڈرائیور نے تیندوے کی چمکتی آنکھیں دیکھیں اور زور سے بریکیں لگائیں۔ بس رک گئی اور اس کے پیچھے گرد کا بادل بھی اٹھ کر ہمارے اطراف میں چھا گیا۔

الفی اور میں نیچے اترے اور چل کر بس کی دوسری طرف پہنچے۔ یہاں ہمیں تیندوا لاش کے پیچھے چھپا ہوا کھیت کے درمیان میں نظر آیا۔ انہوں نے گولی چلائی اور "آررر۔۔ آرہ" کی آواز آئی اور تیندوا فضاء میں اچھلا۔ نیچے گرتے ہی تیندوا بجلی کی سی تیزی کے ساتھ کھیت کو عبور کر گیا۔

ہمیں بہت دیر ہو چکی تھی کہ ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ دراصل ہمیں چاہیئے تھا کہ ہم الفی کو دوبارہ کمین گاہ میں چھپا دیتے اور پھر بس اور کار دونوں روانہ ہو جاتیں۔ یقیناً چند ہی منٹ بعد تیندوا واپس آتا اور الفی کو بہت عمدہ موقع مل سکتا تھا۔ تاہم یہ میری غلطی تھی اور اب ہمارا سامنا ایک زخمی تیندوے سے تھا۔

تاہم اب افسوس کرنا بیکار ہوتا۔ ہم بیرور کو لوٹے اور رات ہم نے مسافر بنگلے میں گذاری۔ اگلی صبح ہم واپس اس جگہ پلٹے اور ہم نے مدھم سے خون کے نشانات تلاش کر لیے۔ یہ نشانات کھیت کے تقریباً دوسرے سرے سے شروع ہوئے تھے۔ جب ہم جھاڑیوں میں گھسے تو یہ نشانات زیادہ ہو گئے۔

اب ہمارے سامنے ایک بہت مشکل کام تھا۔ تیندوا کا زخم بظاہر پہلو میں تھا کیونکہ گولی لگنے کے بعد خون کے بہنے اور پھر زمین پر گرنے میں کچھ وقت لگا۔ اس کے بعد یہ بہاؤ تیز ہو گیا اور تیندوا گھنی کانٹے دار جھاڑیوں میں گھس گیا۔ یہاں تیندوے کا تعاقب جاری رکھنے کے لئے ہمیں گھنٹوں اور کہنیوں کے بل رینگنا پڑتا۔ یہاں ہمیں ایک پرانی جنگلی سوروں کی گذرگاہ ملی۔ تیندوا بھی یہاں سے گذرا تھا کیونکہ یہاں خون کے نشانات بکثرت تھے۔

کہنیوں اور گھٹنوں پر چلتے ہوئے اور اپنی اعشاریہ چار سو پانچ بور کی بھری ہوئی ونچسٹر رائفل کو دھکیلتے ہوئے میں آگے بڑھتا رہا۔ الفی میرے پیچھے تھے تاکہ وہ مجھےعقب یا اطراف سے ہونے والی حملے سے بچا سکیں۔ اسی طرح ہم کوئی پچھتر گز بڑھے ہوں گے کہ اچانک بغیر کسی تنبیہ کے ہم نے تیندوے کو حملے کے لئے اگلے موڑ پر تیار پایا۔ یہاں نشانہ خطا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ وہ بمشکل اتنی دور تھا جتنا کہ رائفل کی نال لمبی تھی۔ نرم سرے والی گولی نے اس کی کھوپڑی کو پاش پاش کر دیا اور اس کی کھوپڑی کے عقبی حصے کو اڑا لے گئی۔ وہ میرے قدموں میں موت سے ہمکنار ہوا اور اس کے سر کے زخم سے مغز بہتا رہا۔

ہم مزید دس دن تک بیرور رکے رہے تاہم اس دوران صرف ایک اور جانور مارا گیا۔ یہ واقعہ ساتویں دن کو دوپہر سے ذرا قبل ہوا۔ یہ جگہ یمائی ڈوڈی سے چھ میل دور تھی۔ جب ہمیں اطلاع ہوئی اور ہم اس جگہ پہنچے تو شام ڈھل چکی تھی۔ چونکہ انہوں نے لاش کو چھپانے کے لئے کوئی کوشش نہ کی تھی، گدھوں نے اسے چٹ کر ڈالا تھا۔ اس جگہ سے چالیس گز دور ایک درخت موجود تھا جس پر الفی نصف شب تک ٹارچ اور رائفل کے ہمراہ بیٹھے رہے لیکن شیر نہ آیا۔

اس کے علاوہ مزید کچھ نہ ہوا۔ گیارہویں دن ہم بنگلور واپس لوٹے۔

وقت گذرتا رہا۔ ایک تاریک رات تھی جب لنگا ڈھالی سے آنے والی سڑک پر کار شکاری گشت پر تھے۔ یہ شکاری کار میں بیٹھے ہوئے نہایت طاقتور برقی سرچ لائٹوں کی مدد سے شکار کرتے تھے۔ انہیں جنگل، قدرت اور قدرتی مناظر کی الف بے کا علم بھی نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس بارے کچھ جاننا چاہتے تھے۔ ان کے لئے شکار کی اصل روح یہی تھی کہ جنگل میں سڑک پر گذرتے ہوئے ٹارچ کی روشنی ڈالتے جاتے تھے۔ جہاں بھی انہیں انتہائی طاقتور برقی سرچ لائٹوں سے کوئی چمکتی ہوئی آنکھیں دکھائی دیتیں، وہ اپنی بندوقیں اور رائفلیں اس پر خالی کر دیتے۔ انہیں یہ غرض نہ تھی کہ وہ کسی مادہ کو مار رہے ہیں یا کسی بچے کو۔ انہیں یہ بھی غرض نہ ہوتی تھی کہ ان کی گولی سے جانور مرا ہے یا زخمی ہو کر نکل گیا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ شکار کے قوانین اس طرح کی حرکات کی ہرگز اجازت نہیں دیتے لیکن یہ حرکات ہوتی رہی ہیں۔

اس رات انہوں نے ایک جگہ بیرور سے چار میل دور شیر کی چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھیں جو سڑک کے کنارے جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔

دو گولیاں چلیں اور شیر نے جست لگائی اور یہ جا وہ جا۔ ایک گولی سے اس کا جبڑہ ٹوٹ چکا تھا جبکہ دوسری گولی خالی گئی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان شکاریوں نے نیچے اتر کر دیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور آگے روانہ ہو گئے تاکہ کہیں اور کوئی آنکھیں دکھائی دیں تو وہ انہیں مار سکیں۔ اگلے دن واپس آ کر انہوں نے شیر کا پیچھا کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔

یقیناً اگلے دو ماہ اس زخمی شیر نے انتہائی کرب میں گذارے ہوں گے اور نہ ہی وہ پیٹ بھر کر کھا سکا ہوگا۔ اس کا جبڑے کا زخم مندمل تو ہو چکا تھا لیکن اس کی مدد سے وہ اب جانوروں کو ہلاک کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔ اس لئے وہ اب جانوروں اور مویشیوں سے اپنا پیٹ بھرنے سے معذور ہو چکا تھا۔

تین ماہ بعد، ایک دن اس نے ایک ریوڑ سے ایک بکری مارنے کی کوشش کی۔ یہ ریوڑ چرنے کے لئے جنگل میں بھیجا گیا تھا۔ اس نے نہایت احتیاط سے گھات لگائی اور جب وہ ایک موٹی تازی بکری پر جھپٹا ہی تھا، اس نے بکری کو گردن توڑ کر مارنے کی بجائے پنجہ مار کر ہلاک کیا۔ اتفاق سے چرواہا نزدیک ہی موجود تھا اور اس نے اپنی لاٹھی شیر پر پھینک ماری۔ لاٹھی اتفاق سے شیر کو جا لگی۔ غصے سے پاگل شیر نے چرواہے پر چھلانگ لگائی اور اس کو بھی پنجہ مارا اور اس کی کھال چھیل دی۔ اس کی درد میں ڈوبی ہوئی چیخ ادھوری ہی رہ گئی کہ دوسرے پنجے میں شیر نے اس کا کام تمام کر دیا۔ اس بار اس کے پنجے کی ضرب سے چرواہے کی کھوپڑی انڈے کی طرح پچک گئی۔

چرواہے کے مرتے ہی اب شیر کے سامنے دو شکار تھے۔ ایک انسانی لاش اور ایک بکری کی لاش۔ اس نے انسان کو کھانے سے کچھ گریز کیا۔ اس نے بکری کا رخ کیا اور اسے گردن سے پکڑ کر جنگل کی طرف چلا۔ چند ہی قدم چلنے کے بعد، بغیر کسی معقول وجہ کے، شیر واپس پلٹا اور بکری چھوڑ کر آدمی کو اٹھا کر گھنی جھاڑیوں میں گھس گیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس طرح یمائی ڈوڈی کے خوفناک آدم خور کا جنم ہوا۔ پورے علاقے میں خوف اور دہشت کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے بعد اڑھائی سو مربع میل کے رقبے میں اس نے انسانی جانوں کا خراج لینا شروع کر دیا۔ یہ علاقہ شمال میں بیرور، لنگا ڈھالی اور بھگواڈ کٹے، مغرب میں سنتاویری جو کہ بابا بدان کے سلسلے کے پہاڑوں میں تھا، جنوب میں آئرن کیری جھیل سے ہوتا ہوا سیکری پنتہ اور پھر بیرور تک پھیلا ہوا تھا۔

چونکہ انسانی ہلاکتیں باقاعدگی سے ہونے لگیں، ان کے درمیان بالعموم یکساں فاصلہ ہوتا اور ہر شکار گردن توڑنے سے نہیں بلکہ پنجے کی ضرب سے مارا جاتا۔ اس کے علاوہ وہ لاشیں جن پر شیر دوبارہ نہ لوٹا، ان کے معائینے سے صاف ظاہر تھا کہ ان سے گوشت اس طرح سے کھایا گیا ہے کہ شیر کا اوپری جبڑا تو ٹھیک تھا لیکن نچلا جبڑہ بالکل کام کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔ یعنی شیر گوشت اتارنے کا کام اب منہ سے نہیں بلکہ پنجوں کی مدد سے کرتا تھا۔

آدم خور کے ظہور کے ساتھ ہی اس علاقے میں نہایت سرگرم مویشی خور کی حرکات اچانک ہی بند ہو گئیں۔ ظاہر تھا کہ یہ مویشی خور ہی زخمی ہو کر آدم خور بنا ہے۔ کچھ عرصے تک تو کار شکاریوں کے شیر کو زخمی کرنے کی خبر کسی کو نہ ہوئی۔ تاہم پھر ان میں سے ہی ایک کسی دن یہ بک دیا کہ انہوں نے ہی بیرور لنگا ڈھالی سڑک پر شیر پر گولی چلائی تھی اور اسے زخمی کر دیا تھا۔ ان تمام حقائق کو اکٹھا کرنے سے جو کہانی ترتیب پائی، وہ آپ نے ابھی پڑھی۔

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، اس شیر کی سرگرمیاں ان علاقوں میں باقاعدگی سے ہوتی تھیں۔ وہ دیہاتوں اور وادیوں کی بیرونی حدوں میں شکار کرتا۔ یہ معلومات میں نے مقامی اخباروں میں شیر کی ہلاکت خیزی کو پڑھ کر اور پھر اپنے بنائے ہوئے مقامی نقشے پر ہر ہلاکت کے مقام اور تاریخ درج کرنے سے اخذ کی تھیں۔

اس علاقے کے مرکز کو شیر نے اپنی سرگرمیوں کا محور بنایا ہوا تھا۔ یہ جگہ پتھریلی اور گھنے جنگلات سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے اوپر ہوگر خان نام کا سارھے چار ہزار فٹ بلند پہاڑ ہے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ یہ ڈھلوان ہی شیر کی رہائش گاہ ہے اور یہاں کوئی انسان نہیں آباد۔ یہاں سے وہ آس پاس کے آباد علاقوں میں جا کر شکار کرتا ہے۔ نقشے کو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ہر تیسرے یا چوتھے مہینے یہ شیر واپس اسی جگہ لوٹتا ہے جہاں اس نے پہلے شکار کیا ہوتا تھا۔ اس وقت تک کل ہلاکتیں ستائیس ہو چکی تھیں۔

اسے مارنے کے سلسلے میں میں نے ہوگر ہالی نامی گاؤں کو مستقر بنانے کا سوچا۔ یہ جگہ بیرور اور لنگا ڈھالی کے تقریباً درمیان میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ یہ جگہ ہوگر خان سے ساڑھے تین میل دور ہے۔ ہوگر خان کے دامن سے ڈھلوانی جنگل یہاں تک پہنچتا ہے۔ میں نے اس جگہ کو اس وجہ سے چنا کہ میں اس جنگل اور آس پاس کے علاقے کی جغرافیائی صورتحال سے بخوبی واقف تھا۔ اس کے علاوہ میں مقامی افراد کو بھی اچھی طرح جانتا تھا اور ان کا تعاون پا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ہوگر ہالی کا گاؤں ہوگر خان سے نزدیک تھا جہاں میرے اندازے کے مطابق شیر رہتا تھا۔ ہر بار جب شیر یہاں سے گذرا تو اس نے ایک نہ ایک انسانی جان کی قیمت اس گاؤں سے وصول کی۔ یعنی اس طرح بھی یہ گاؤں آدم خور کی یقینی واپسی کا امکان رکھتا تھا۔

میں اس گاؤں شیر کے سہ ماہی چکر سے پورے دو ہفتے قبل پہنچا۔ دو سے چھ ہفتے کے دوران شیر کا ادھر سے گذر یقنی تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اس دوران اس علاقے سے اچھی طرح واقفیت پیدا کر لوں اور لوگوں سے بھی ہر ممکن معلومات لے سکوں تاکہ اس آدم خور کو مارنے کی ہر ممکن کوشش کر سکوں۔

یہ گاؤں نسبتاً بڑا ہے لیکن اس کی آبادی اتنی زیادہ نہیں۔ یہاں لوگ مستقل بنیادوں پر رہتے ہیں۔ یہ سرخ رنگ کے پتھر اور مٹی سے بنائے جاتے ہیں جو یہاں عام ملتے ہیں۔ یہ پتھر ہتھیلی سے لے کر کئی فٹ تک سائز کے ہوتے ہیں۔ یہ گھر چھوٹے بڑے ہر قسم کے سائز کے ہوتے ہیں۔ ہوگر ہالی بہت قدیم آبادی ہے اور یہاں دو پرانے مندر بھی موجود ہیں۔ اس کے مغرب، شمال مغرب اور جنوب مغرب میں گھنے جنگلات ہوگر خان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے جنوب میں ایک خوبصورت اور بڑی جھیل ہے جو سردیوں میں مرغابیوں، جنگلی بطخوں اور ٹیلوں سے بھری ہوتی ہے۔ اس کے جنوب میں ایک راستہ تین میل دور یمائی ڈوڈی کے نالے تک جاتا ہے۔ جنوب مغرب میں کیلے اور ناریل کا ذخیرہ ہے۔ سارے ذخیرے میں پان کی گھنی بیلیں بھی ہیں جس کے پتوں کو پورے ہندوستان میں چبایا جاتا ہے۔ یہ علاقہ نمدار زمین سے بھرا ہوا ہے اور جنوب سے جھیل کا پانی یہاں آبپاشی کے لئے آتا ہے۔ ہوگر ہالی سے مزید جنوب میں چاول کے چند کھیت ہیں۔ مزید جنوب مشرق اور مشرق کی جانب بنجرکھیت ہیں جہاں صرف برسات میں ہی کاشت ہوتی ہے۔ یہ کھیت ڈیڑھ میل دور بیرور لنگا ڈھالی سڑک تک پھیلے ہوئے ہیں۔

جیسا کہ آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ زیادہ تر وارداتیں مغرب، جنوب مغرب اور شمال مغرب میں ہوئی تھیں۔ دو وارداتیں اس ذخیرے کے عین درمیان میں ہوئی تھیں جن میں سے ایک ذخیرے کے مالک کا کزن تھا۔ زیادہ کھلے علاقے سے آدم خور نے احتراز کیا تھا۔ اس کے علاوہ زیادہ تر وارداتیں دن ڈھلے ہوئی تھیں۔ ان کے بعد سے مقامی لوگوں نے دن ڈھلے سے ہی خود کو گھروں میں مقید کر دینا شروع کر دیا تھا۔ شیر کے بکثرت پگ بھی دکھائی دیتے تھے جب وہ علی الصبح گاؤں میں داخل ہوتا تھا۔ تاہم مضبوط بنے ہوئے گھروں اور لکڑی کی موٹے دروازوں کی وجہ سے ابھی تک شیر کسی سوئے ہوئے فرد کو نقصان نہ دے پایا تھا۔

ان حالات میں کوئی خاص منصوبہ بنانا ناممکن تھا۔ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ ایک بار آدم خور نے یہاں کسی کو لقمہ بنا لیا، پھر وہ تین چار ماہ کے لئے گم ہو جائے گا۔ بطور ایک انسان، میرے لئے یہ اندازہ کرنا نا ممکن تھا کہ اب کے شیر کس جگہ اور کسے ہلاک کرے گا۔ واحد حل یہ تھا کہ میں خود کو شیر کے لئے بطور چارہ پیش کرتا۔ آپ کے خیال کے عین مطابق میں اس طریقہ کار کو اپنانے کے لئے گریز کر رہا تھا۔ تاہم یہ واحد راستہ بچا تھا۔

ایک ہفتہ انہی معلومات کو اکھٹا کرنے، ہر واردات کی تفاصیل اور پھر جائے واردات کے معائینے میں ہی گذر گیا۔ آدم خور کے اگلے چکر کے لئے وقت بہت تیزی سے قریب آتا جا رہا تھا۔

مجھے معلوم ہوا تھا کہ مغرب کی جانب ہونے والے زیادہ تر شکار یا تو لکڑہارے تھے یا پھر چرواہے جو اپنے مویشی چرا رہے تھے۔ تاہم کسی بھی مویشی کو آدم خور نے چھوا تک نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھار مقامی تیندوا مویشیوں سے اپنا حصہ وصول کرتا رہتا تھا۔ اسی دوران ایک نیا خیال میرے ذہن میں ابھرا۔ بلا شبہ یہ ایک انتہائی دانش مندانہ خیال تھا۔ گھنی جھاڑیوں میں نصف میل دور میں نے ایک مضبوط درخت چنا تاکہ اس پر ایک کرسی کو شاخوں کے درمیان پندرہ فٹ کی بلندی پر بندھوائی جا سکے۔یہ اتنی بلندی ہے کہ شیر کی جست بھی اس تک نہ پہنچ سکے۔ اس کے بعد میں نے لکڑی کا ایک مضبوط ٹکڑا لیا جو چھ فٹ لمبا اور تین انچ موٹا تھا۔ اس کو زمین پر ایک سرا ٹکا کر دوسرے کو درخت کے تنے سے ٹکا کر رسی سے اپنے پاؤں سے باندھ دیتا۔ اس طرح میں بالکل تیار ہو کر بیٹھتا اور میرے پاؤں کی معمولی سی حرکت سے یہ لکڑی درخت کے تنے سے ٹکرا کر ایسی آواز پیدا کرتی جو عموماً لکڑہارے پیدا کرتے ہیں اگرچہ یہ آواز نسبتاً نیچی ہوتی۔ جب ایک پاؤں تھک جاتا تو میں دوسرا پاؤں اس مقصد کے لئے استعمال کرتا۔ جب چاہتا میں رسی کو ہاتھ میں لے کر میں اسے زیادہ دور تک کھینچ کر زیادہ آواز پیدا کر سکتا تھا۔ خود کو دھوپ سے بچانے کے لئے میں نے اپنے اوپر موجود شاخوں کو ویسے ہی رہنے دیا۔ اس طرح میرے اوپر ایک کنوپی سی بن گئی۔ اس میں میں آرام سے بیٹھ سکتا تھا، کھا، پی، تمباکو نوشی، کھانسی وغیرہ بھی کر سکتا تھا اور کسی قسم کی جسمانی تکلیف نہ ہوتی۔ اس طرح خود کو بطور چارہ پیش کرتے ہوئے میں جتنا شور کرتا، اتنا ہی آدم خور کے اس طرف آنے اور گھات لگانے اور حملہ کرنے کے امکانات بڑھ جاتے۔

ہوگر خان گاؤں کے پٹیل یعنی نمبردار نے مجھے بھرپور تعاون دینے کا وعدہ کیا۔ میں نے اسے اپنا منصوبہ وضاحت سے پیش کیا۔ میں نے اس پر واضح کیا کہ جب میں اپنے منصوبے پر کام شروع کروں تو یہ اس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ کسی کو بھی اس علاقے میں اور نہ ہی کسی کو ذخیرے میں یا جنگل میں گھسنے دے۔ اس سے شیر کو شکار تلاش کرنے میں مشکل پیش آتی۔ اس نے ایسا ہی کرنے کا وعدہ کیا۔ اس نے فوراً ہی گاؤں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں اعلان کرا دیا کہ کوئی بھی شخص دوپہر کے بعد اور مغربی جنگل اور ذخیرے کی طرف ہرگز نہ جائے۔ خلاف ورزی پر اس نے سخت دھمکیاں بھی دیں۔ اس وقت گاؤں میں بھوسہ وغیرہ اتنی مقدار میں موجود تھا کہ تین ہفتوں کے لئے مویشیوں کی طرف سے کوئی فکر نہ تھی۔ مجھے امید تھی کہ اس عرصے میں شیر اپنی آمد کا اظہار کر چکا ہوگا۔ پٹیل کے اعلان کا سب نے خیر مقدم کیا کیونکہ کوئی بھی شیر کے پنجوں کا نشانہ بننے کو تیار نہیں تھا۔ ویسے بھی تین ہفتے بیکار گذارنا کسے برا لگتا ہے۔

ہوگر ہالی میں میری آمد کے ٹھیک دسویں دن میں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔ قبل از وقت کھانا کھا کر میں گیارہ بجے سے ذرا قبل درخت تک پہنچ گیا۔ میرے ساتھ پانی کی بوتل، سینڈوچ، پائپ اور اعشاریہ 405 بورکی رائفل تھیں۔ اب میرا پہلا دن درخت پر شروع ہوا۔ جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ پاؤں کی حرکت سے آواز پیدا کرنا کتنا اکتا دینے والا کام ہے۔ اس کے علاوہ دوپہر کے وقت سورج کی جھلسا دینے والی شعائیں بہت تکلیف دے رہی تھیں۔ اس دھوپ میں چاروں طرف مسلسل گھورتے رہنا بھی آنکھوں کے لئے بہت تکلیف دہ تھا۔ سورج ڈوبنے تک میں اپنی جگہ پر رہا اور اگلا سارا ہفتہ میں نے ایسے ہی گذارا۔ تاہم مجھے شیر کی آمد کا کوئی نشان تک نہ مل سکا۔ اس دوران میں نے درخت کے ارد گرد تمام علاقے اور آس پاس کی تمام بڑی جھاڑیوں کو اچھی طرح چھان لیا اور شیر کے آنے کے تمام ممکنہ راستے بھی فرض کر لئے۔

ایک ہفتہ بیکار گذرنے کے بعد میں نے خود کو سکون دینے کے لئے بیرور ریلوے سٹیشن کے چھوٹے سے بک سٹال سے دو سستے ناول خریدلیئے جنہیں میں درخت پر بیٹھے ہوئے پڑھتا رہتا اور اس دوران میرا تمام تر انحصار قوت سماعت پر تھا جو مجھے کسی بھی آواز سے آگاہ کرتی۔ اسی طرح دوسرا ہفتہ بھی گذرا لیکن ابھی تک شیر کی واپسی کی کوئی خبر نہیں ملی۔

اب میں کافی بے صبرا ہو رہا تھا۔ خود عائد کردہ بیکاری مجھے کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی۔ میں نے کسی دوسرے منصوبے کے لئے بہت ذہن مارا لیکن تقریباً اسی طرح کے منصوبے ہی ذہن میں آتے۔

چوتھا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور اگر شیر اپنے عمومی رویے کو تبدیل نہ کرتا تو شیر کی آمد کسی بھی وقت متوقع تھی۔چمک مگلور کے ڈپٹی کشنر سے میں نے طے کیا تھا کہ وہ اس سارے علاقے میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں کی تفصیل سے اپنے ماتحت کدور کے عملدار کے ذریعے مجھے آگاہ رکھیں۔ جونہی کسی انسانی ہلاکت کی خبر ملتی، میری طرف ہرکارہ بھیج دیا جاتا۔ دو دن بعد ایک ہرکارہ آن پہنچا کہ چار دن قبل چک مگلور سیکری پنٹا سڑک پر واقع ایک وادی میں شیر نے انسانی جان لی ہے۔ اگلے روز پھر وہی ہرکارہ آیا کہ اس بار شیر نے آئرن کیری جھیل کے شمالی کنارے پر مویشیوں کے ایک ریوڑ میں قتل عام کیا ہے۔ یہ جگہ مدک جھیل سے پانچ میل دور تھی جو ہوگر ہالی سے مزید نو میل دور تھی۔

اب تک ملنے والی تمام اطلاعات تسلی بخش تھیں۔ ان سے اندازہ ہو رہا تھا کہ شیر اپنے معمول کے مطابق آگے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ دو دن قبل شیر اس جگہ سے چودہ میل دور تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ شیر اب ہوگر ہالی نہیں پہنچا تو پھر اس کے آس پاس ہی موجود ہے۔ اسے پچھلا شکار کھائے تین دن ہو رہے تھے۔ اب اس کے حملے کا وقت قریب تھا۔

اسی شام میں نے مودلا گیری کو بتایا کہ وہ ہوگر ہالی اور آس پاس کے تمام باشندوں کو خبردار کردے کہ شیر آن پہنچا ہے۔ اب انہیں جنگل اور ذخیہرے سے ہر ممکن طور پر دور رہنا ہوگا۔

اگلی صبح معمول سے ذرا پہلے میں پھر اپنی جگہ براجمان تھا۔ اس بار میں اپنے ساتھ ناول نہیں لایا تھا تاہم میں نے لکڑی کے تنے پر زور سے مارنے، کھانسنے اور شاخوں پر ادھر ادھر حرکت کرتے رہنے کی ہر ممکنہ کوشش جاری رکھی۔ اس شام گاؤں واپس لوٹتے وقت میں نے کسی بھی غیر متوقع حملے کے پیش نظر ہر ممکنہ احتیاط اپنائے رکھی۔ تاہم دو دن مزید گذر گئے اور کچھ نہ ہوا اور نہ ہی مجھے آدم خور کے بارے کوئی اور اطلاع ملی۔

اب مجھے خیال ہوا کہ شیر اپنی پرانی رہائش گاہ یعنی ہوگر خان کے دامن میں پہنچ چکا ہے یا پھر وہ ہوگر ہالی کو چھوڑ کر شمال مغرب کی طرف لنگا ڈھالی اور بگواڈکٹی کی طرف نکل گیا ہے یا عین ممکن ہے کہ وہ اس سے مزید مغرب کی طرف سنتاویری کی طرف چلا گیا ہو۔

چونکہ موسم نسبتاً گرم تھا اور چاند بھی آدھا ہو چکا تھا۔ میں نے اگلے دو دن تک دوپہر سے لے کر اگلے دن صبح تک درخت پر رہنے کا فیصلہ کیا۔ ہو سکتا تھا کہ اس طرح میں شیر کو اپنی طرف زیادہ آسانی سے متوجہ کر سکتا جو تاریکی چھانے کے بعد شکار کی تلاش میں نکلا ہوا ہوگا۔ اس سے میرے اعصاب پر یقیناً اضافی بوجھ پڑتا کیونکہ میں پہلے ہی پندرہ دن سے بیکار وقت گذار رہا تھا۔ تاہم میں نے ایسا ہی کرنے کا سوچا۔

اگلے دن میں دن چڑھے واپس اپنی جگہ پر پہنچ چکا تھا۔ اس بارے میرے ساتھ ایک ٹوکری میں کھانے کا سامان، گرم چائے کا تھرماس، ایک کمبل، پانی کی بوتل، ٹارچ اور دیگر ضروریات کی چیزیں تھیں جو رات گذاری میں مجھے ضرورت پڑتیں۔ اس کے علاوہ میں نے بینزیڈرائین کی تین گولیاں بھی خریدیں تاکہ سونے کا کوئی امکان نہ باقی رہے۔

سارا دوپہر اور پھر سہہ پہر حتٰی کہ رات گئے تک میں نے اسی طرح آواز پیدا کرنے میں گذاریں۔ جنگل میں الو کی آواز کے سوا بالکل خاموشی تھی۔ اسی طرح دور کہیں سے کاکڑ کی آواز بھی آ رہی تھی۔ چاند ڈیڑھ بجے غروب ہو گیا اور اس کے بعد اچانک تاریکی چھاگئی اور سردی بہت بڑھ گئی۔ تین بجے کے قریب میں غنودگی محسوس کرنے لگا تو میں نے تین میں سے دو گولیاں کھا لیں۔ نصف گھنٹے بعد گھصٹنے کی آواز سنی اور اس کے بعد لگڑ بگڑ نے یا تو مجھے دیکھا یا پھر میری بو سونگھ کر چلایا۔ ہا ہا ہا ہا ہا۔ اس کے بعد وہ تاریکی میں گم ہو گیا۔

اس کے بعد خاموشی اور تاریکی رہی حتٰی کہ صبح کاذب کی زرد روشنی نمودار ہوئی جو کہ سورج نکلنے سے گھنٹہ بھر پہلے آتی ہے۔ پھر وہ گھنٹہ گذرا اور جنگلی مرغ کی آواز گونجی۔ میں بعجلت نیچے اترا تاکہ ہوگر ہالی جا کر چار گھنٹے کی نیند لے سکوں۔

گیارہ بجے دن کو میں دوبارہ اسی جگہ واپس پہنچ گیا تاکہ دوبارہ سے مہم شروع کرسکوں۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں اس کو مزید جاری نہیں رکھ سکتا۔ گرم دوپہر حسب معمول گذری، کسی پرندے کی ٹک ٹک ٹک ٹک کی آواز آئی اور پھر کوئل کی کوو کووسنائی دی۔ شام آئی اور کوئی پرندہ پاس کسی جگہ پتے کھدیڑنے لگا۔ اس کے بعدشام کو گھونسلوں کو لوٹتے پنچھی بولنے لگے۔

جب سورج ہوگر خان کے پیچھے چھپ گیا تو رات کے پرندے جاگ گئے۔ جب کوئی الو اوپر سے گذرتا تو اس کی آواز سنائی دیتی۔ جب وہ زمین پر یا درخت پر بیٹھتے تو ان کے پروں کی آواز آتی۔

دس بج گئے اور اس کے فوراً بعد چیتلوں کی آواز آنے لگی۔ ان کی آواز میں ایک تنبیہ پوشیدہ تھی۔

یقیناً انہوں نے کسی درندے کو دیکھا تھا۔ یہ درندہ کوئی تیندوا یا عام شیر یا آدم خور بھی ہو سکتا تھا لیکن اس بارے وقت ہی کچھ بتا سکتا ۔ تھا۔ میں نے لکڑی کو اور زیادہ زور سے تنے پر مارنا شروع کر دیا، مجھے امید ھتی کہ آدم خور یہ نہیں سوچے گا کہ کون لکڑ ہارا رات کو جنگل میں لکڑیاں کاٹنے آیا ہوا ہے۔

منٹ گذرتے گئے، اچانک ہی سانبھر کی "پونک! ویی اونک۔۔۔ وی اونک" سنائی دی۔ اس نے ہوگر خان کی جاتے ہوئے مزید آوازیں نکالیں۔

اس کے بعد اچانک موت کی سی خاموشی چھا گئی۔ لکڑی کو تنے پر مارتے ہوئے میں نے ہر ممکنہ جھاڑی کا جائزہ لینا جاری رکھا جو مجھے دکھائی دے رہی تھی تاکہ اگر شیر گھات لگا رہا ہو تو مجھے دکھائی دے جائے۔ کہیں دور سے سانبھر کی پونک کے بعد سے کوئی آواز نہ سنائی دی اور نہ ہی کچھ حرکت کرتا دکھائی دیا۔

اچانک ایک عجیب سا احساس طاری ہونے لگا۔ مجھے محسوس ہونے لگاکہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں نے لکڑی سے آواز پیدا کرتے ہوئے عام بھارتی انداز میں کھانسا اور پھر تھوک پھینکا۔ کچھ بھی نہیں سنائی دیا۔ اچانک، جیسے آسمان پر بجلی کا کوئی کوندہ لپکا ہو، وہ آیا

"ووف، ووف" وہ غرایا اور بہت بڑا بھورا سا جسم، اتنا بڑا جیسے شیٹ لینڈ پونی ہوتا ہے، مجھ سے دس گز دور جھاڑی سے ایسے نکلا جیسے جادوگر کے ہیٹ سے کبوتر تاکہ وہ درخت کے تنے تک پہنچ کر مجھ پر جست لگا سکے۔

ایک بہت بڑا بھورا سر مجھ سے تین گز دور بالکل میرے نیچے تھا، میں نے ٹارچ جلا کر دو جلتی ہوئی آنکھوں کے درمیان گولی چلائی۔ رائفل کے دھماکے کے ساتھ ہی وہ اچھل کر نیچے گرا اور حواس مختل کر دینے والی دھاڑ لگائی۔ میں نے دوسری گولی چلائی۔ اس نے اس پر ایک اور دھاڑ لگائی اور اگلے ہی لمحے وہ گم ہو گیا۔ سو گز دور جھاڑی سے اس کی آخری بار :وررف" سنائی دی اور پھر مکمل خاموشی چھا گئی۔

مجھے معلوم تھا کہ میری کوئی بھی گولی خطا نہیں گئی لیکن پھر بھی میں نے خود کو کوسا کہ دوسری گولی سے بھی میں شیر کو گرانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ تاہم مجھے یقین تھا کہ شیر شدید زخمی ہو چکا ہے اور زیادہ دور نہیں جا پائے گا۔ بقیہ رات میں آرام سے سوتا رہا اور صبح ہوتے ہی میں ہوگر ہالی لوٹا تاکہ زخمی درندے کے تعاقب کے منصوبے بنا سکوں۔

مودلاگری نے بہترین کام کیا۔ جب تک میں نے مختصر سا آرام کیا، گرم چائے، ٹوسٹ اور بیکن کھائے، اس نے بھینسوں کے ریوڑ اور اس کے مالک کو زخمی شیر کی تلاش میں ہمارے ساتھ چلنے پر تیار کر لیا ۔ ہمیں امید تھی کہ بھینسوں کو دیکھ کر شیر اپنی کمین گاہ سے غرائے گا۔

نو بجے میں، دو سکاؤٹ، مودلاگری اور پندرہ بھینسیں بمع مالک اس درخت تک پہنچ گئے۔ سب سے پہلے میں درخت پر چڑھا تاکہ شیر کو تلاش کر سکوں۔ شیر کہیں دکھائی نہیں دیا۔ درخت کی جڑ پر خوش کے نشانات کھال پر تھے جیسے وہ شیر کے سر یا چہرے سے نکلے ہوں۔ یہ میری پہلی گولی کا اثر تھا۔ جب وہ جھاڑی کے پیچھے گھسا تو ہم نے بہت زیادہ خون دیکھا۔ ظاہر تھا کہ دوسری گولی نے بھی اپنا اثر دکھایا تھا۔

اس کے بعد ہم نے بھینسوں کو آہستگی سے اس طرف بھیجا جہاں خون کی لکیر جا رہی تھی۔ ہم نے بھینسوں کو دور دور تک ایک قطار کی سی شکل میں پھیلا دیا تھا۔ میں بھینسوں کےپیچھے اور دونوں سکاؤٹ میرے پیچھے تھے۔ مودلاگری اور بھینسوں کا مالک درخت پر اس جگہ چڑھے ہوئے تھے جہاں میں بیٹھتا تھا۔

ابھی ہم دو سو گز ہی گئے ہوں گے کہ ایک بہت زوردار دھاڑ سنائی دی۔ اسی وقت ساری بھینسیں بھی رک گئیں اور انہوں نے سر نیچے کر دیئے اور ان کے سینگ سامنے کی طرف ہو گئے جہاں سے آواز آئی تھی۔

میرے ذرا بائیں جانب ایک درخت موجود تھا۔ میں نے ایک سکاؤٹ سے کہا کہ وہ اس پر چڑھ کر شیر کو تلاش کرے۔ اس نے اوپر جا کر اشارہ کیا کہ اسے کچھ نہیں دکھائی دیا۔ اسی دوران بھینسیں اس جگہ سے واپس آنے لگ گئی تھیں۔ ہم انہیں واپس نہیں بھیج سکتے تھے۔ انہیں وہیں چھوڑ کر اور پہلے سکاؤٹ کو درخت پر ہی رہنے کا کہہ کر میں نے دوسرے سکاؤٹ کو ساتھ لیا اور واپس مودلاگری تک پہنچا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ گاؤں جا کر چند کتوں کو لے آئے جو ہماری مدد کر سکیں گے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد جب وہ واپس لوٹا تو اس کے ساتھ دو دیسی کتے بھی تھے۔ اس نے بتایا کہ وہ یہی دو کتے ہی تلاش کر پایا۔ ہم نے کتوں کو بھینسوں کے پیچھے لگایا تاکہ وہ آگے بڑھیں۔ ابھی ہم پچیس گز ہی گئے ہوں گے کہ شیر نے انتہائی غضب ناک انداز میں غرانا شروع کر دیا۔ بھینسیں ایک دم رک گئیں جبکہ کتوں نے دیوانہ وار بھونکنا شروع کر دیا۔

اگلی دو بھینسوں کے پیچھے چھپ کر رینگتے ہوئے میں نے ان کی ٹانگوں کے درمیان سے شیر کو دیکھنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ پھر میں نے انہیں آگے بڑھنے کے لئے ہانکا تو ایک بھینس اچانک مجھ پر الٹ پڑی۔ اس کے لمبے سینگ سے میں بال بال بچا۔

اب میری پوزیشن بہت خطرناک ہو گئی تھی۔ ایک زخمی شیر میرے سامنے چھپا ہوا تھا جو کسی بھی لمحے حملہ کر سکتا تھا اور دوسری طرف گھبرائی ہوئی بھینسیں میرے اردگرد۔ انہوں نے مل کر اپنا دفاع کرنا تھا چاہے وہ میرے خلاف ہوتا چاہے شیر کے خلاف۔ میں چند قدم پیچھے ہٹا اور پھر درخت پر چڑھے سکاؤٹ سے نیچے اترنے کا کہا۔ پھر دونوں سکاؤٹوں کی مدد سے میں نے بھینسوں کے اوپر سے اس جگہ پتھر برسانے شروع کر دیئے جہاں سے شیر کے غرانے کی آواز آئی تھی۔ فوراً ہی شیر دھاڑا۔ مگر ہم مزید کچھ نہ کر سکتے تھے کہ شیر اپنی جگہ چھوڑ کر باہر نکلتا۔ نہ ہی شیر اپنی جگہ چھوڑ رہا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بری طرح زخمی ہے۔

مزید پتھراؤ بیکار معلوم ہوا۔ میں نے بھینسوں کو وہیں چھوڑا اور دونوں سکاؤٹوں اور کتوں کو لے کر میں لمبا چکر کاٹ کر شیر کے عقب سے پہنچا۔ جب ہم تین سو گز دور رہ گئے تو ہم بہت احتیاط سے آگے بڑھنے لگے۔ ہر درخت پر سکاؤٹ چڑھ کر دیکھتے کہ کیا شیر موجود ہے یا نہیں۔ ابھی ہم دو سو گز ہی بڑھے ہوں گے کہ ایک سکاؤٹ نے اشارہ کیا کہ اسے اس جگہ سے کچھ دکھائی دے رہا ہے جہاں وہ موجود تھا۔ نیچے اتر کر اس ے سرگوشی میں بتایا کہ اس نے سفید اور بھورے رنگ کی کوئی چیز دیکھی ہے جو یہاں سے پچاس گز دور جھاڑی کے نیچے تھی۔

میرے ساتھ درخت پر چڑھتے ہوئے اس نے جھاڑیوں کی طرف اشارہ کیا جہاں پہلے پہل تو مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ پھر اچانک مجھے وہ سفید اور بھورے رنگ کی چیز دکھائی دے گئی۔ اس پر نشانہ لے کر میں نے گولی چلائی اور شیر ہماری آمد کی سمت کا غلط اندازہ کرتے ہوئے بھینسوں پر غراتے ہوئے چڑھ دوڑا۔ سب سے آگے والی بھینس کو شیر نے جا لیا۔ باقی سب نے سر جھکا لئے تاکہ شیر سے بچ سکیں۔ اسی دوران جس بھینس پر شیر نے حملہ کیا تھا، درد کی شدت سے چلا رہی تھی اور شیر بھی برابر دھاڑے اور غرائے جا رہا تھا۔

اس جگہ سے میں شیر کو واضح طو رپر دیکھ سکتا تھا لیکن گولی چلاتا تو یا تو زخمی بھینس یا ریوڑ کی دیگر بھینسیوں میں سے کسی کے مرنے کا اندیشہ تھا۔

دیگر بھینسیں فوراً ہی پہنچ گئیں اور پھر اٹھتے گرتے سینگ اور ہل چل دکھائی دی۔ اپنی نازک پوزیشن کو محسوس کرتے ہوئے شیر بھاگا اور پچیس گز دور ایک جھاڑی میں گھس گیا۔ میں اسے صاف دیکھ سکتا تھا کہ وہ جست لگانے کی حالت میں تھا۔ بائیں شانے کے پیچھے لگنے والی گولی سے وہ وہیں کا وہیں رہ گیا۔

بعد ازاں معائینہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ رات والی پہلی گولی شیر کے گال پر اس کی آنکھ سے دو انچ نیچے اور دائیںں طرف لگی اور اس کی گال کی ہڈی کو توڑ گئی۔ دوسری گولی اس کے پیٹ کو کاٹتی ہوئی گذری اور نکلتے ہوئے اس نے بڑا سوراخ کیا جہاں سے شیر کی انتڑیاں لٹک رہی تھیں۔ تیسری اور آخری گولی اس کے دل میں ترازو ہو گئی تھی۔ مہینوں قبل کار شکاریوں کی گولی سے زخمی ہونے والا جبڑہ بہت بری طرح مندمل ہوا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ شیر مناسب طریقے سے چبا نہیں سکتا تھا اور اس وجہ سے آدم خور بنا۔

جس بھینس پر شیر نے حملہ کیا تھا،پنجوں کے زخم سے بری طرح زخمی تھی۔ مالک کو معاوضے کی ادائیگی نے خاموش کرا دیا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بھینس زخموں سے صحت یاب ہوگئی ہوگی کیونکہ دیگر مویشیوں کی بہ نسبت یہ بھینسیں زیادہ گہرے زخم بھی برداشت کر لیتی ہیں۔

اس طرح یمائی ڈوڈی کےآدم خور کا خاتمہ ہوا۔ اس کے آدم خور بننے کا بنیادی سبب کار شکاریوں کی طرف سے لاپرواہی اور ظالمانہ انداز میں چلائی گئی گولی تھی۔ اس طرح ان کی گردن پر انتیس انسانوں کا خون تھا۔
 
Top