نوجوان نسل میں کتب بینی کو کیسے فروغ دیا جائے ؟

ہم وارث بھائی و دیگر اصحاب سے قطعی طور پر متفق ہیں، لیکن ہمارا مسئلہ ذرا دوسری نوعیت کا ہے۔

ہم نے اپنے گھر کو کتابوں سے بھر دیا ہے ، یہاں تک کہ بیٹھنے کے لیے بھی مناسب جگہ ملنی دشوار ہے۔ ادھر بچوں میں گھر کی کتابیں دیکھ کر کتب بینی کا شوق تو ضرور پیدا ہوگیا ہے لیکن انگلش میڈیم اسکول سے اے لیول کرنے کی وجہ سے انگلش تو فر فر پڑھ جاتے ہیں، بلکہ اسکول اور پیر پریشر ہی کی وجہ سے پاپولر فکشن کی طرف راغب ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اسکول ہی کی کوششوں کی وجہ سے ( کہ انھوں نے اردو لینگویج کے بجائے اردو لٹریچر پڑھا ہے )اور بہترین اردو بول اور لکھ پڑھ سکتے ہیں ۔
ادھر چاروں انگلش کتابوں کی طرف تو بہت زیادہ مائل ہیں لیکن اردو پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اسی طرح انگلش پاپولر فکشن کی علت سے انہیں کیسے نکالا جائے۔ بڑی بیٹی کو بڑی مشکل سے ڈیفنی ڈی موریر پڑھوایا تو وہ اسے چاٹ گئی۔ اسی طرح دونوں بیٹے اگاتھا کرسٹی کے عاشق ہوگئے اور ان کی سب کتابیں انھیں ازبر ہیں۔ ہماری چھوٹی والی ( جو ابھی تیسرے درجے میں ہیں) ابھی سے رول ڈاہل کی فین ہیں اور ان کی تمام کتابیں پڑھ چکی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ انگلش پر ماسٹری اور پیر پریشرکے ہوتے ہوئے انھیں اردو کی طرف کیسے مائل کریں؟


گفتگو اور کتاب کی ترغیب دے کر بلکہ اس پر پڑھنے سے پہلے گفتگو کرکے اور پڑھ کر اس پر تبصرے کی یقین دہانی لے کر۔

شروع میں خود کتاب کی خوبیاں بیان کریں اور اسے کسی انگریزی کتاب یا ادیب سے موازنہ کرنے کے لیے کہیں ، غیر محسوس طریقے سے دلچسپی پیدا ہونی شروع گی البتہ کتاب کا دلچسپ ہونا اشد ضروری ہے :)۔
 

زونی

محفلین
کُتب بینی پر قیمتوں کا اثرانداز ہونا میری سمجھہ میں تو نہیں آتا کہ اگر دیگر تام جھام مثال کے طورپر بازار کا کھانا، سی ڈی ، ڈی وی ڈیز، مؤبائل فون کے نئے ماڈل، نئے فیشن کی ہر ماہ ایک دو شرٹس اگر اس کے لئے ہر ماہ ہزاروں روپے خرچ کئیے جاسکتے ہیں تو ہزار پانچ سو کی کتاب کو مہنگا کہنا مناسب نہیں - بات ترجیحات کی ہے قیمت کی نہیں- کراچی میں ہر اتوار کو فرئیرہال میں کُتب بازار لگتا ہے ستمبر 2011 میں مجھے وہاں سے نئی اور پُرانی درجن بھر کُتب آٹھہ سو میں مل گئیں تھیں- بات شوق اور ترجیح کی ہے


آپ کی بات بلکل ٹھیک ھے ،،،،ترجیحات بھی اہم ہیں اور مجھے لگتا ھے کہ یہاں کتاب کلچر کو کبھی ترجیح نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی سرکاری سطح پہ فروغ دیا گیا ھے ،،،،،عوامی ترجیحات ترتیب دینے میں میڈیا کو بھی خاص مقام حآصل ھے کہ آپ نوجوان نسل کو کس سمت میں ڈال رہے ہیں جبکہ دوسری طرف مہنگی کتب بھی ایک حقیقت ھے لیکن اس کا سستا حل اتوار بازار میں سستی کتب کا حصول ھے بلکہ میرا خیال ھے ایسے بازاروں میں کافی نادر کتب بھی ہاتھ لگ جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ہم وارث بھائی و دیگر اصحاب سے قطعی طور پر متفق ہیں، لیکن ہمارا مسئلہ ذرا دوسری نوعیت کا ہے۔

ہم نے اپنے گھر کو کتابوں سے بھر دیا ہے ، یہاں تک کہ بیٹھنے کے لیے بھی مناسب جگہ ملنی دشوار ہے۔ ادھر بچوں میں گھر کی کتابیں دیکھ کر کتب بینی کا شوق تو ضرور پیدا ہوگیا ہے لیکن انگلش میڈیم اسکول سے اے لیول کرنے کی وجہ سے انگلش تو فر فر پڑھ جاتے ہیں، بلکہ اسکول اور پیر پریشر ہی کی وجہ سے پاپولر فکشن کی طرف راغب ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اسکول ہی کی کوششوں کی وجہ سے ( کہ انھوں نے اردو لینگویج کے بجائے اردو لٹریچر پڑھا ہے )اور بہترین اردو بول اور لکھ پڑھ سکتے ہیں ۔
ادھر چاروں انگلش کتابوں کی طرف تو بہت زیادہ مائل ہیں لیکن اردو پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اسی طرح انگلش پاپولر فکشن کی علت سے انہیں کیسے نکالا جائے۔ بڑی بیٹی کو بڑی مشکل سے ڈیفنی ڈی موریر پڑھوایا تو وہ اسے چاٹ گئی۔ اسی طرح دونوں بیٹے اگاتھا کرسٹی کے عاشق ہوگئے اور ان کی سب کتابیں انھیں ازبر ہیں۔ ہماری چھوٹی والی ( جو ابھی تیسرے درجے میں ہیں) ابھی سے رول ڈاہل کی فین ہیں اور ان کی تمام کتابیں پڑھ چکی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ انگلش پر ماسٹری اور پیر پریشرکے ہوتے ہوئے انھیں اردو کی طرف کیسے مائل کریں؟
کتب بینی کی اہمیت اپنی جگہ ہے نا۔ چاہے وہ انگریزی ہو یا اردو۔ بات ہے کتاب کو پڑھنے کی عادت ڈالنے کی۔ اگر بچوں کو انگریزی میں پڑھنے کی عادت ہے تو جس دن انہیں اردو کی چند اچھی کتب ہاتھ لگ گئیں، وہ اردو اور انگریزی دونوں سے ہی فائدہ اٹھائیں گے
 

زونی

محفلین
کتب بینی کو واقعی فروغ دینا چاہیئے اور اس کے لئے والدین کی مثال اہم ہے. البتہ اس بات کا کوئ ثبوت نہیں ہے کہ نئی نسل میں مطالعہ کم ہوا ہے.

دوسری بات یہ کہ پاکستان میں اکثر والدین کورس کی کتابوں کے علاوہ بچوں کا کتابیں خاص طور پر فکشن پڑھنا پسند نہیں کرتے



آپ کی بات درست ھے مجھے یاد ھے میٹرک سے فراغت کے بعد میں نے ٹائم پاس کیلئے اپنی سسٹر کے ڈائجسٹ پڑھنے شروع کیے تو انہوں نے سختی سے منع کیا اور کہا کہ دوسرے میگزینز پڑھا کرو۔۔۔۔اس بات کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مجھے تجسس ہوا کہ ایسا کیا ھے جو مجھے منع کیا جا رہا ھے:D ،،، اب یہی بات میں ان سے کہتی ہوں کہ ڈائجسٹ پڑھنے سے بہتر مجھ سے کوئی ڈھنگ کی کتاب لیکن پڑھ لیا کریں ۔۔۔:p
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے میرا محفلین سے سوال ہے کہ پائیریٹ کتابوں سے علم حاصل کرنا کیسا ہے؟

شاید ایسا ہی ہے جیسے پائیریٹڈ سوفٹویرز کا استعمال کرنا، ہمارے ہاں پائیریٹڈ سوفٹویرز کا استعمال بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ پائیریٹڈ ای بکس پڑھنے والے تو بہت کم ہوں گے لیکن پھر بھی پڑھی جاتی ہیں۔ میں بھی ایسی کتابیں پڑھتا ہوں۔

وجہ اس کی یہی ہے کہ :

ایک تو باآسانی مل جاتی ہے اور دوسرے کرنسی ایکسچینج میں بہت زیادہ فرق ہونے کے باعث قیمت ناقابلِ خرید ہو جاتی ہے۔ بہر کیف ہے تو غلط ہی۔ اب اس سے حاصل کردہ علم کی کیفیت کیا ہوگی یہ مجھے بھی نہیں پتہ۔

ویسے میں سوچتا ہوں اس پر ایک الگ موضوع پر بات ہونی چاہیے۔
 
کتابوں سے دوری کی بنیاد گھر کے ماحول سے ہی شروع ہوتی ہے۔ والدین جب بچوں کو بغل میں بیٹھا کر ٹی وی دیکھے گے تو کس کے پاس وقت ھے کتاب پڑھنے کا۔ بچوں کی پاکٹ منی سے بجاے کتاب خریدنے کی ترغیب دینے کے شاورمے ۔آیس کریم۔ فالودہ۔ وغیرہ منگواے جاے تو کتاب تو مہنگی ھی لگے گی۔
گھر کو خوبصورت بنانے کے لیے لاکھوں و کڑوڑوں روپے خرچ کردے جاتے ھیں لیکن ایک چھوٹی سی لائیبری نہیں بنائ جاتی۔۔۔ کتاب سے دوستی والدین کی تربیت سے ھی ھوتی ھے۔ چاھے کتاب کی قیمت لاکھوں میں ہوں یا روپوں میں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہاں جہاں میں پہلے رہتا تھا، اس گاؤں کی آبادی 5000 ہے۔ میری آمد کے سال ہی پرانی لائبریری کی جگہ نئی لائبریری کی عمارت کی تعمیر شروع ہوئی۔ شاید 16 لاکھ یورو سے زیادہ اس عمارت پر لگے۔ زمین کی قیمت اور کتب اور کمپیوٹرز کی قیمت الگ۔ 2006 کے اواخر اور 2007 کے اوائل کی بات کر رہا ہوں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کتاب بہترین دوست ہوتی ھے یہ مقولہ ہم نے بارہا سنا ھے لیکن موجودہ دور میں جیسے جیسے عام آدمی کیلئے جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن ہوتی جا رہی ھےپاکستان میں کتب دوستی دم توڑتی جا رہی ھے ،،،کتابوں کی جگہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن معلومات کا فوری ذریعہ بن چکے ھے ،،،تفریح کے جدید ذرائع کی موجودگی میں کتب بینی صرف لائبریریوں یا چند اہل ذوق تک محدود ہو گئی ھے خاص طور پہ نوجوان نسل اور بچوں میں کتب بینی سے لا تعلقی اور غیر سنجیدہ رویہ پایا جاتا ھے ،،، میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا نوجوان نسل وقت کی کمی کے باعث اس لا تعلقی کا شکار ھے یا کتابوں سے دوری بھی اقدار سے دوری کی طرح ہمارا قومی رویہ بنتا جا رہا ھے ؟؟؟؟ اس ضمن میں آپ کی رائے درکار ھے کہ نوجوان نسل اور خصوصی طور پہ بچوں کو اس طرف لانے کے لیے کتب کو عملی زندگی کا جزو بنانے کیلئے کیا اقدامات کیے جائیں کہ انفرادی رویوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے ؟؟؟؟

بہت اچھا موضوع شروع کیا ہے زونی۔ میرے خیال میں کتابوں سے دوری کی ایک بڑی وجہ لائف سٹائل کا تبدیل ہو جانا ہے۔ ہم لوگوں کی زندگیاں بہت مصروف ہو گئی ہیں۔ اپنے لئے کوالٹی ٹائم نکالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے لوگوں میں مثبت مشاغل اپنانے یا ان کو جاری رکھنے کا ٹرینڈ ختم ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری وجہ الیکٹرونک میڈیا پر ضرورت سے زیادہ انحصار بھی کتب بینی سے دوری کا سبب ہے۔ یا شاید انحصار نہیں کہنا چاہئیے دلچسپی کہنی چاہئے۔ کیونکہ ہم انٹرنیٹ یا ٹیلی ویژن کو صرف شغل میلہ کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔
تیسری وجہ شاید کسی حد تک قوتِ خرید میں کمی ہونا بھی ہے۔ جب آپ کو اپنی آمدن میں سے زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں مشکل پیش آئے تو لوگ چاہتے ہوئے بھی بہت سے کام نہیں کر پاتے۔ سو ایسے حالات میں کتاب خرید کر پڑھنا ایک لگژری ہے جس کے بارے میں ایک عام انسان بس صرف سوچ کر ہی رہ جاتا ہے۔
پھر ہمارے یہاں لائبریری کلچر نہیں ہے۔ چند ایک بڑے شہروں کے علاوہ لائبریریاں یا تو ہے ہی نہیں یا اس قدر مخدوش حالت میں ہیں کہ جانا نہ جانا برابر ہی ہے۔

ہاں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ تعلیمی اداروں میں لائبریریاں عموماً بہت اچھی حالت میں ہیں۔ جب ہم پرائیویٹ سسٹم کی بات کرتے ہیں تو وہاں کسٹمرز کو راغب کرنے کے لئے لائبریری اور سپورٹس کے ایریا کو بہت فوکس کرتے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی عموماً اچھی لائبریریاں ہوتی ہیں۔ جہاں نہیں ہوتیں وہاں سرکار کا قصور نہیں بلکہ انتظامیہ کا قصور ہوتا ہے۔ ان کو فنڈز ملتے ہیں جو ویسے کے ویسے پڑے رہتے ہیں اور پھر مالی سال ختم ہونے کے بعد ضائع ہو جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں نوجوانوں اور بچوں میں لائبریری کے استعمال کی طرف یا کتب بینی کی عادت کی طرف۔ مسئلہ یہ ہے ہمارے یہاں لائبریری جانے کا مطلب صرف یہ لیا جاتا ہے کہ اسائمنٹ مکمل کرنے کے لئے اساتذہ نے کچھ کتابوں کا نام دے دیا ہے جن کا ذکر اگر اسائمنٹ میں نہیں کیا تو نمبر کٹ جائیں گے۔ اگر یہ ڈر نہ ہو تو چند لوگ لائبریری میں نظر آتے ہیں ان میں بھی واضح کمی نظر آئے گی۔
یہ تو ہوئی بڑی جماعتوں کی بات۔ چھوٹی جماعتوں میں اساتذہ کبھی بچوں کو کتب بینی کی طرف لگاتے ہی نہیں۔ بلکہ وہ خود لائبریری کو بطور ریسورس سنٹر نہیں استعمال کرتے۔ جب ان کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ سکول کالج لائبریری میں کون سی کتابیں موجود ہیں تو وہ بچوں کو کیسے کچھ ریکومنڈ کریں گے۔
ایک اور مسئلہ لائبریریوں میں موجود مواد کا ہے۔ اساتذہ سمیت ہمارے یہاں زیادہ تر لوگ فکشن ناولز میں دلچسپی لیتے ہیں سو لائبریری میں بھی ایسا ہی مواد دیکھنے کو ملتا ہے جس میں وصی شاہ، فرحت عباس شاہ اور اسی کلیبر کے شعراء کے مجموعے اور رضیہ بٹ یا عمیرہ احمد کے ناولز ہوں گے۔ یا ایلیمنٹری سکول کی لائبریری میں آپ کو راجہ گدھ اور اداس نسلیں جیسے ناولز ملیں گے جو ظاہر ہے ان بچوں کے کسی کام کے نہیں تو لائبریری جا کر بھی ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ میں اکثر اداروں میں یہی سوال پوچھتی ہوں کہ آپ لائبریری کے لئے کتابوں کا چناؤ کیسے کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ سب اپنی اپنی پسند کی کتابیں لکھ دیتے ہیں ہم منگوا لیتے ہیں۔ اب ان اپنی اپنی پسند کی کتابوں میں بچوں کے لیول اور ضرورت کی کتابیں کہاں ہیں یہ کسی کو دردِ سر نہیں ہے۔ سو غیر متعلقہ مواد بھی طلبہ اور نوجوانوں کو پُٹ آف کر دیتا ہے۔
گھر میں ہم نے بچوں کو بہت مصروف کر دیا ہے۔ ایک بچہ صبح سکول کالج کے لئے نکلتا ہے۔ دوپہر میں واپس آتا ہے۔ تو ٹیوشن اور درس کا وقت ہو جاتا ہے۔ وہاں سے واپس آتا ہے تو چھوٹے بچے تو بیچارے تھکے ہارے سو جاتے ہیں اور بڑوں کو ہم نے موبائل اور نیٹ دے دیا وہ اس کو کیسے اور کتنا استعمال کرتے ہیں، یہ دیکھنے کی ہم زحمت نہیں کرتے۔ نتیجتاَ ان کی دلچسپیاں اور مشاغل ایک ہی طرز کے ہوتے جاتے ہیں۔ سو کتابوں سے دوری کی وجہ اصل میں ہم سب خود ہی ہیں۔
بچوں کو اس طرف کیسے راغب کیا جا سکتا ہے۔ اس پر پھر لکھوں گی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
نتیجتاَ ان کی دلچسپیاں اور مشاغل ایک ہی طرز کے ہوتے جاتے ہیں۔ سو کتابوں سے دوری کی وجہ اصل میں ہم سب خود ہی ہیں۔

ٹھیک کہا آپ نے۔

بچوں کو اس طرف کیسے راغب کیا جا سکتا ہے۔ اس پر پھر لکھوں گی۔

ضرور لکھیے گا تاکہ اس موضوع کو مزید آگے بڑھایا جا سکے اور کچھ نہ کچھ نتائج حاصل ہوسکیں۔
 

محمد اسلم

محفلین
ایک اور با ت ہے کہ اردو زبان میں ناولوں کی کوئی کمی نہیں لیکن اگر آپ سیلف ہیلپ ور موٹییویشنل کتابیں ڈھونڈیں گے تو آپ کو اردو زبان میں بہت کم ملیں گی۔جبکہ انگلش میں ان کتابوں کی بھرمار ہوتی ہے۔
mashalbooks.org
 

شمشاد

لائبریرین
آجکل نوجوان نسل کو نئے نئے موبائل فون کی سہولت میسر ہے اور ان موبائل فون میں اتنے زیادہ فنکشن ہیں کہ سارا سارا دن اسی میں مصروف رہتے ہیں، مزید یہ کہ ایسے سوفٹوئیر آ گئے ہیں کہ چیٹنگ اور فری فون کی مفت سہولتیں میسر ہیں تو کتاب کی طرف کس کا دھیان جائے گا۔
 
کتاب بہت مہنگی ہو گئی ہے صاحب! عام آدمی کی رسائی میں رہی نہیں۔
اور خاص طور پر دو شعبے ہیں جہاں کتاب سستی ہونی چاہئے، ایک تعلیم اور نصاب اور دوسرے ادب۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انہی دونوں شعبوں میں کتاب کی قیمت غیر معمولی طور پر بلند ہے۔ نہ جانے کیوں؟
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا​
۔۔
 
یہاں ایک دوست نے بات کی ہے؛ کہ تین دوست ایک ایک کتاب خریدتے ہیں اور مل کر یا باری باری سب کو پڑھتے ہیں۔
بہت اچھی مثال ہے۔ ہمارے یہاں بھی بالکل ایسا تو نہیں اس سے ملتا جلتا سلسلہ چل رہا ہے۔ دوست ایک دوسرے سے کتاب مانگ کے لے جاتے ہیں، اور پڑھنے کے بعد ’’اگر موڈ ہو‘‘ تو واپس بھی لے آتے ہیں! نہیں تو ہنسی میں ٹال دیتے ہیں: ’’چھوڑو یار، اتنی اچھی کتاب واپس کرنا تو کفرانِ نعمت ہے‘‘۔
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی​
۔۔۔
 
ایک زمانے میں سستی کتابوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا، شہکار کتابیں یا کچھ ایسا نام تھا اس کا۔ ادب کی مجلد اور ’’دیدہ زیب‘‘ کتاب تب اوسطاً بیس روپے میں ملتی تھی اور ’’غریبی دعوے کی‘‘ شہکار کتاب کی اوسط قیمت چار روپے تھی۔ مگر یار لوگوں کی ’’دیدہ زیبی‘‘ کے مقابلے میں وہ خرقہ پوش بغیر جلد کی کتاب کہاں ٹکتی!
 
کتاب کی ترویج کے لئے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کچھ سرپھرے جمع ہوں اور سستی کتابوں کا شہکار سے ملتا جلتا سلسلہ چلائیں۔

’’ای کتب‘‘ کی افادیت سے انکار نہیں تاہم یہ طریقہ بہت زیادہ قابلِ اعتماد نہیں ہے۔ خلا میں کسی بھی وقت کچھ بھی ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ کتاب تک رسائی نہ پا سکیں۔ کتاب آپ کے ہاتھ میں ہو، سرہانے رکھی ہو، الماری میں ہو اس کو آپ جب چاہیں پڑھ تو سکتے ہیں نا۔ بجلی پر بجلی گر جائے تو الگ بات۔
 
Top