نوجوان شاعر نعیم قیصر کی شاعری

نعیم قیصر شاہدرہ، لاہور، پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے پرائیویٹ امید وار کے طور پر ایم اے اردو پاس کیا۔ "در و دیوار تیرے منتظر ہیں" ان کا پہلا غزلیات کا مجموعہ ہے۔

نعیم قیصر کی شاعری
نعیم قیصر دور حاضر کے نوجوان شاعر ہیں۔ ان کی شاعری لہو و لعب سے پاک ہے۔ اس میں ادب کے نام پر جنسی انارکی پھیلانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
ان کی پہلی کتاب "در و دیوار تیرے منتظر ہیں" سن 2009 میں شائع ہوئی۔

Title Verse ٹائٹل شعر


پرو کر ہار تیرے منتظر ہیں

میرے گل بار تیرے منتظر ہیں

اکیلا میں اذیت میں نہیں ہوں
در و دیوار تیرے منتظر ہیں


Pro kar haar teray muntazir hen
Meray gul baar teray muntazir hen

Akela main azziyat mein nahien hoon
Dar-o-Dewaar teray muntazir hen

All CopyRights are reserved

حمد

ہر شے میں نظر آتا ہے جب روپ تمہارا

آنکھوں کی طلب کیوں ہے تیرا ایک نظارا

قربان میں تیرے نام پہ، ہو ایک اشارہ
یہ جان ہے کیا چیز تو ہے جان سے پیارا

اس درجہ تیری یاد میں طاقت میرے مولا
طوفاں میں گھری کشتی کو مل جائے کنارا

ہر درد کا درماں اسے ہوتا ہے میسر
جب یاد تجھے کرتا ہے کوئی درد کا مارا

ٹھکرایا کسی نے تو تو نے مجھے سنبھالا
اس سنگ صفت دور میں تو میرا سہارا


نعت


خالق کا ہے مخلوق پہ احسان محمد

بخشش کا سر حشر ہے سامان محمد



سمجھے کوئی اتنے نہیں آسان محمد

انسان کی صورت ہیں قرآن محمد



رکھتے ہیں زمانے سے الگ شان محمد

ہے ارض و سما جسم تو پھر جان محمد



دیکھے تو کوئی حق کی ہے پہچان محمد

باطل کے لیے جنگ کا اعلان محمد



پھر یوں ہوا کہ وقت کی سانسیں ہی تھم گئیں

جب عرش بریں پہ ہوئے مہمان محمد



اک راز تھا کہ غربت کے لبادے میں بسر کی

دنیا کے سلاطین کے ہیں سلطان محمد



مجھ جیسے گنہگار کو کملی میں چھپا کر

رکھ لیں گے سر حشر میرا مان محمد



صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم


چند پسندیدہ اشعار

اس نے مجھ سے کہا تھا یہ قیصر

میں تیری رات کا سویرا ہوں

تنکوں کی باڑ نہ راہ میں ایستادہ کر
دریا کے رستے کو بدلنا محال ہے

آیا تھا جن کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
حیراں انہی کے سر پہ ہوں دستار دیکھ کر


تجھے سچ بولنے کا شوق تھا نا
صلیب و دار تیرے منتظر ہیں



 
ایک غزل

در بدر بھٹکنے کا انتقام سوچیں گے

ہم بھی گھرمیں ٹھہریں گے آج شام سوچیں گے

زندگی بھی عقدہ ہے اور دقیق ہے ساقی
زندگی کے عقدے پر پی کے جام سوچیں گے

لفظ " الوداع " مدھم ہوذرا سماعت میں
زندگی بِتانے کا اہتمام سوچیں گے

ساتھ تُو اگر ہوتا، کیسے طے سفر ہوتا؟

ایک گام چل دیں گے ایک گام سوچیں گے

دردِ دل کا باعث تُو ،تُو ھی راحتِ دل ھے

درد جب سَوا ہوگا تیرا نام سوچیں گے

کیوں لکھا تھا رازق نے اُن کا نام دانوں پر

چن کے پنچھی دانوں کو زیرِ دام سوچیں گے

پھول، چاند، ابر، اور میں آج مل کے بیٹھیں گے
اور تیرے آنے کا اہتمام سوچیں گے
 
دوسری غزل
درد کا تیرے نکھارا میں ہوا
اس لیے لوگوں کو پیارا میں ہوا
چودھویں کے چاند کی تشبیہ تو
اور غم کا استعارہ میں ہوا
کر رہا تھا درد کو یک جا کوئی
غور سے دیکھا تو سارا میں ہوا
اب کہاں بھٹکے کا غم یہ غم نہ کر
آسمان سے ہوں اتارا میں ہوا
سینکڑوں غم تب سے میرے ہو گئے
جب سے میری جان تمہارا میں ہوا
چل دیا وہ چھوڑ کر ایسے مجھے
جیسے دریا وہ، کنارہ میں ہوا
محو حیرت ہوں جو دشمن جان کے تھے
آنکھ کا ان کی بھی تارا میں ہوا
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ قادری صاحب۔

میں تو انہیں درخواست کروں گا کہ اپنی کتاب اس محفل کی زینت بنا دیں۔
 

الف عین

لائبریرین
لیکن یہ کلام نعیم قیصر نے خود کیوں پیش نہیں کیا، وہ تو ابھی ممبر بنے ہیں، لیکن عبد الرزاق تو کچھ پرانے ہو گیئے ہیں!!
 
لیکن یہ کلام نعیم قیصر نے خود کیوں پیش نہیں کیا، وہ تو ابھی ممبر بنے ہیں، لیکن عبد الرزاق تو کچھ پرانے ہو گیئے ہیں!!
سر میں انہیں یہاں لے کر بھی آیا۔ وہ میرے استاد جی ہیں نا سکول کے ! تو سعادت مندی کے لیے بطور عاشق طالب علم یہ اقدام وقوع پذیر ہوا جی۔
 
بہت شکریہ قادری صاحب۔

میں تو انہیں درخواست کروں گا کہ اپنی کتاب اس محفل کی زینت بنا دیں۔
سر جی طریقہ بتا دیں۔ میں ہی لکھ لکھ کر پوسٹ کروں گا۔ نعیم صاحب کا لاڈلا شاگرد ہوں نا۔ ویسے میں تمام زمروں کے اطوار سمجھنے کی آج کوشش کروں گا۔ ان شا ءاللہ
 

Naeem Qaiser

محفلین
نعیم قیصر شاہدرہ، لاہور، پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے پرائیویٹ امید وار کے طور پر ایم اے اردو پاس کیا۔ "در و دیوار تیرے منتظر ہیں" ان کا پہلا غزلیات کا مجموعہ ہے۔


نعیم قیصر کی شاعری
نعیم قیصر دور حاضر کے نوجوان شاعر ہیں۔ ان کی شاعری لہو و لعب سے پاک ہے۔ اس میں ادب کے نام پر جنسی انارکی پھیلانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
ان کی پہلی کتاب "در و دیوار تیرے منتظر ہیں" سن 2009 میں شائع ہوئی۔
Title Verse ٹائٹل شعر
پرو کر ہار تیرے منتظر ہیں
میرے گل بار تیرے منتظر ہیں

اکیلا میں اذیت میں نہیں ہوں
در و دیوار تیرے منتظر ہیں


Pro kar haar teray muntazir hen
Meray gul baar teray muntazir hen
Akela main azziyat mein nahien hoon
Dar-o-Dewaar teray muntazir hen
All CopyRights are reserved
حمد
ہر شے میں نظر آتا ہے جب روپ تمہارا
آنکھوں کی طلب کیوں ہے تیرا ایک نظارا
قربان میں تیرے نام پہ، ہو ایک اشارہ
یہ جان ہے کیا چیز تو ہے جان سے پیارا
اس درجہ تیری یاد میں طاقت میرے مولا
طوفاں میں گھری کشتی کو مل جائے کنارا
ہر درد کا درماں اسے ہوتا ہے میسر
جب یاد تجھے کرتا ہے کوئی درد کا مارا
ٹھکرایا کسی نے تو تو نے مجھے سنبھالا
اس سنگ صفت دور میں تو میرا سہارا
نعت
خالق کا ہے مخلوق پہ احسان محمد
بخشش کا سر حشر ہے سامان محمد
سمجھے کوئی اتنے نہیں آسان محمد
انسان کی صورت ہیں قرآن محمد
رکھتے ہیں زمانے سے الگ شان محمد
ہے ارض و سما جسم تو پھر جان محمد
دیکھے تو کوئی حق کی ہے پہچان محمد
باطل کے لیے جنگ کا اعلان محمد
پھر یوں ہوا کہ وقت کی سانسیں ہی تھم گئیں
جب عرش بریں پہ ہوئے مہمان محمد
اک راز تھا کہ غربت کے لبادے میں بسر کی
دنیا کے سلاطین کے ہیں سلطان محمد
مجھ جیسے گنہگار کو کملی میں چھپا کر
رکھ لیں گے سر حشر میرا مان محمد
صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم
چند پسندیدہ اشعار
اس نے مجھ سے کہا تھا یہ قیصر
میں تیری رات کا سویرا ہوں
تنکوں کی باڑ نہ راہ میں ایستادہ کر
دریا کے رستے کو بدلنا محال ہے
آیا تھا جن کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
حیراں انہی کے سر پہ ہوں دستار دیکھ کر
تجھے سچ بولنے کا شوق تھا نا
صلیب و دار تیرے منتظر ہیں
محترم قیصرانی صاحب ،محترم متلاشی صاحب ،عزیزی حسیب صاحب ،محترم شمشاد صاحب ،لاڈلے جگر کے ٹکڑے عبدالرزاق قادری اورمحترم الف ۔عین۔اعجازصاحب میری بے ربظ و مہمل گفتگو کو شاعری کے زمرے میں شمار کرنے اور اسے سراہنے کا از حد شکریہ میں آپکی اس کرم فرمائی کا آفتاب زیست کے غروب ہونے تک مقروض رہوں گا ( شکریہ)
 

الف عین

لائبریرین
میں منتظر ہوں، عبد الرزاق قادری کو اپنا ای میل آئی ڈی ذاتی پیغام میں بھیج دیا ہے ۔یعنی مکالمہ شروع کیا ہے)
 
Top