نظریہ ارتقاء پر اٹھائے جانے والے پندرہ اعتراضات اور ان کے جوابات

arifkarim

معطل
وہ در پردہ اللہ کی ہی بڑائی اور قدرت کو مان رہے ہوتے ہیں جانے انجانے میں ۔ کیونکہ جسے وہ فطرت یا قدرت کا نام دیتے ہیں وہ اللہ ہی توہے ۔
سائنسدان صرف سائنسی مشاہدات کو مانتے ہیں۔ انکا مذہبیات و عقیدتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔
 
ایک بات یہ ہے کہ سائنس جیسے جیسے ترقی کر رہی ہے (بلکہ بہتر ہے کہ کہا جائے کہ انسان سائنسی میدان میں ترقی کر رہا ہے) ویسے ویسے موجودات کی تخلیقی نوعیت سے پردے اٹھ رہے ہیں (ارتقاءکا نطریہ بھی اس کا محض ایک حصہ ہے)۔ان اٹھنے والے پردوں اور ظہور پذیر ہونے والے حیران کن انکشافات سے اکثرسائنسدان "قدرت" اور "فطرت" سے تو بے پناہ متاثر ہوتے ہیں لیکن "قادر" اور "فاطر" سے متاثر ہونے سے منکر ہیں ۔الا ماشاءاللہ ۔
آپ سی عظمت ان کے نصیب میں کہاں۔ بیچارے بیوقوف لوگ ہیں۔
 

arifkarim

معطل
میرے پہلے سوال کا آپ نے جو جواب دیا تھا”عین ممکن “ ہے۔ اس پر میں بعد میں بات کروں گا۔

فی الحال یہ سلسلہ ”از خود نقل پذیر“ مالیکیول پر چل رہاہے۔

اس میں ذیل کے سوال کا جواب ابھی تک آپ کی جانب سے نہیں دیا گیا۔
آر این اے ڈی این اے سے زیادہ قدیم ہے اسلئے اسکا ارتقا پہلے ہوا تھا۔ البتہ یہ انزائمز کی وجہ سے جلدی موت کا شکار ہو جاتا جو ڈی این اے نہیں ہوتا اسلئے قدرتی انتخاب یعنی ارتقا کے تحت ڈی این اے والی مخلوق قائم رہی اور آر این اے والی ناپید۔
 

آصف اثر

معطل
سائنسدان صرف سائنسی مشاہدات کو مانتے ہیں۔ انکا مذہبیات و عقیدتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔
عارف براہِ کرم آپ پہلے سائنس کے مبادیات (کم از کم اپلائڈ فزکس) کو سمجھیں پھر اگر بحث کریں تواس کا کوئی وزن بھی ہوگا۔
میرا پہلا سوال اسی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے پوچھا گیاتھا:
کیا کسی بھی قوت کے بغیر کسی شے میں حرکت پیدا ہوسکتی ہے؟
جس پر آپ کا پُرمزاح جواب مِلا(میں مضحکہ خیز کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا)۔
یہ معلوم ہونے پر کہ آپ سائنس کے ”بنیادی قوانین“ سے کتنی واقفیت رکھتے ہیں ، مزید سوالات کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ لیکن آپ کے جواب میں موجود ”ازخود نقل پذیر“ مالیکیولوں کو لے کر بات آگے بڑھانا چاہا۔
برسبیلِ تذکرہ! آپ ”خدا“ کے سوال کو ”مذہبیات“ کے پلڑے میں ڈال کر جان چھڑا نہیں سکتے کیوں کہ اسٹیفن ہاکنگ، آئن اسٹائن سمیت کئی سائنسی شخصیات ”خدا“ کے وجود پر (جداگانہ) بحث کرچکے ہیں۔ لہذا آپ کا یہ جواب سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے باطل ہے۔اس کی دوسری وجہ نیچے بیان کی جائے گی۔
یہ بات سائنس کا ایک مبتدی بھی جانتا ہے کہ کوئی بھی شے کسی بھی صورت میں بغیر کسی قوت کے حرکت پذیر نہیں ہوسکتا (نیوٹن کا پہلا قانون )۔اگر ہم کہیں کہ ابتدائی زندگی ”قدرتی طورپر“ وجود میں آئی تو سوال یہ ہے کہ ان مالیکیولز کو کس نے ”پُش“ کیا؟ اس کی مزید وضاحت ذیل میں آرہی ہے۔

مادے کی بنیاد(جدیدترین مشاہدات و تجربات کی روشنی میں )اساسی ذرات پر قائم ہے (جن میں کوارکس اور لیپٹان شامل ہیں ) ۔ جو کہ کسی بھی طرح ازخود وجود میں نہیں آسکتے ۔ ہم شاید یہ ”کہہ“ سکے کہ ان کی بنیاد بھی مزید ذیلی ذرات پر ہے(آپ ”بنیادی ترین“ ذرات کی اساس توانائی تک بھی لے کر جاسکتے ہیں)لیکن چوں کہ آخر کار ہمیں کسی جگہ رکنا ہوگا(آپ یہاں بِگ بینگ سے پہلے کے نقطے کو تصورکرسکتے ہیں)۔لہذا وہی وہ مقام ہوگا جہاں ہمیں خالق کے وجود کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی ”خالق“ نے اس نقطے کو وجود دینے کے لیے وہ ”ابتدائی قوت“ مہیا کی جو( بِگ بینگ نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے) اُس وقت سے لے کر اب اور آنے والے وقت تک ظہور پذیر ہونے والے تمام قوتوں اور ان قوتوں کے نتیجہ میں بننے والی توانائی اور مادےکے مختلف اقسام کا مبدا بنی(جن میں کائنات کا ہر شے شامل ہیں)۔یعنی جس طرح ہم ریڈ شفٹ کی مددسے خود کو جب13 ارب سال پہلے لے جاتے ہیں تو ایک نقطے پر رُک جاتےہیں اسی طرح تمام مادے کے وجود اور حرکت کے پیچھے بھی ”ایک “ہی قوت کارفرماہوئی۔

لیکن آخر ”خدا“ کے وجود اور اس کے انکار کا نظریہ کیوں اتنا اہم ہے؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ آپ خدا کے وجود کا انکار کردیں ، روحانیت، فرشتوں، انبیاء اور آسمانی کتابوں اور مذاہب سے آپ بری ہوگیے۔ آپ خدا کے وجود کا اقرار کریں ، تو لامحالہ یہ سب آپ کو ماننا پڑیں گے۔جب کہ نظریۂ ارتقاء (خصوصاً انسانوں او ر بندروں کے ایک جد امجد ) کی بحث کا خدا کے وجود سے بہت گہرا تعلق ہے۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
فی الحال یہاں تک مزید گفتگو محفوظ رکھ کر بات کو سمیٹتا ہوں۔ موجودہ نظریۂ ارتقاء اور کچھ دیگر اہم نکات پر پھر کبھی بات کروں گا۔ ان شاء اللہ۔
 
ہر وہ علم جو انسان کو مذہب سے بیزار کردے یا بیزار ہونے پر آمادہ کردے علم نہیں جہالت ہے۔ علم وہ ہے جو انسان کو خدا تک لے جائے نہ کہ خدا سے بلکہ خدا کے تصور سے بھی دور لے جائے۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کو جدید علوم یا عصری تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ علم ضرور پڑھیں بس اس کے اثرات سے بچنے کی کوشش بھی کریں۔ علم اس لیے پڑھیں کہ آپ دنیا میں دوسری اقوام کا مقابلہ کرسکیں اس میدان میں اور غلط باتوں کی طرف نشاندہی کر کے درست سمت کو تعین کر سکیں۔ اثرات سے محفوظ رہنا اس لیے ضروری ہے کہ اکثر جو لوگ عصری تعلیم کی طرف مکمل توجہ دیتے ہیں اور جن کا مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہوتا ان کی عام طور پر انتہا مذہب سے بیزاری پر ہوتی ہے جسے دہریت بھی کہا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ یہ بیزاری دل میں بیٹھ جائے بس پھر مذہب کی ہر بات پر اعتراض شروع ہوجاتا ہے۔
حالانکہ اگر جدید علوم سے نابلد شخص کوئی کھڑا ہو کر یہ کہے کہ میں فلاں سائنسدان کی تھیوری کو نہیں مانتا تو اپنے آپ کو پڑھا لکھا کہنے والے اس پر ہنستے ہیں مذاق اڑاتے ہیں کہ تمھیں کیا معلوم سائنس کیا ہے اور یہ تھیوری کیوں پیش کی گئی ہے۔ لیکن یہ ہی لوگ مذہب کے معاملے میں بالکل کورے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی حدود اللہ پر اعتراض کرنے سے باز نہیں آتے پھر اس پر دلیل بھی سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ یعنی نعوذ باللہ اللہ تعالی نے احکام فطرت کے مطابق نہیں بھیجے یا احکام بھیجنے تھے تو ان سے پہلے پوچھ لیتا یا پھر جن لوگوں نے ساری زندگی دین اور اسلام کا علم حاصل کرنے میں کھپا دی وہ درست بات نہیں سمجھ سکے بلکہ یہ کل کے چھوکرے امریکہ اور انگلینڈ سے کافر استادوں سے جو اسلام سیکھ کر آئے ہیں وہ درست ہے۔ اس طرح کا طرزِ تعلیم اکثر انسان کو اسقدر بے باک کردیتا ہے کہ وہ خدا کے احکام پر اعتراض کرنے لگتا ہے بلکہ خود خدا کے وجود کا ہی منکر ہوجاتا ہے۔
میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ دوہرا تعلیمی نظام ہے جس کی وجہ سے علیحدہ علیحدہ نظریات کے حامل انسان معاشرے میں موجود ہیں۔ ایک کے نزدیک مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے بنیاد پرست، جاہل اور شدت پسند ہیں، معاشرے پر بوجھ ہیں۔ دوسرے کے نزدیک کالج، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے سارے کفر اور الحاد کا شکار ہے یا کم از کم فاسق اور فاجر تو ہیں ہی۔ یہ دونوں رویے انتہائی خطرناک ہیں۔
اللہ تبارک تعالی نے ہر انسان میں الگ الگ صلاحیتیں رکھی ہیں اور پھر حالات و واقعات ہر انسان کے اکثر مختلف ہوتے ہیں۔ جن کی بنیاد پر انسان اپنا ایک مزاج بنا لیتا ہے جو عمومی طور پر ساری زندگی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جن لوگوں کو مذہبی اور جدید علوم دونوں سے اللہ تعالی نے نوازا ہے ان کو آگے آنا چاہیے اور ان دو انتہا پسند رویوں کو ختم کر کے آپس میں ہم آہنگی کا درس دینا چاہیے۔
یہ چند الفاظ محض اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے لکھے ہیں، بحث میں حصہ لینے کا ہر گز مقصد نہیں۔ اگر کوئی صاحب اتفاق نہیں کرتے تو شوق سے اختلاف رکھ سکتے ہیں اور اختلاف ہونا کوئی ناپسندیدگی کی علامت نہیں ہاں البتہ بے جا مخالفت انسان کو کہیں سے کہیں لے جاتی ہے۔ اللہ تعالی مجھے ہم سب کو سمجھ نصیب فرمائے۔ آمین
 

زیک

مسافر
ہر وہ علم جو انسان کو مذہب سے بیزار کردے یا بیزار ہونے پر آمادہ کردے علم نہیں جہالت ہے۔ علم وہ ہے جو انسان کو خدا تک لے جائے نہ کہ خدا سے بلکہ خدا کے تصور سے بھی دور لے جائے۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کو جدید علوم یا عصری تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ علم ضرور پڑھیں بس اس کے اثرات سے بچنے کی کوشش بھی کریں۔ علم اس لیے پڑھیں کہ آپ دنیا میں دوسری اقوام کا مقابلہ کرسکیں اس میدان میں اور غلط باتوں کی طرف نشاندہی کر کے درست سمت کو تعین کر سکیں۔ اثرات سے محفوظ رہنا اس لیے ضروری ہے کہ اکثر جو لوگ عصری تعلیم کی طرف مکمل توجہ دیتے ہیں اور جن کا مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہوتا ان کی عام طور پر انتہا مذہب سے بیزاری پر ہوتی ہے جسے دہریت بھی کہا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ یہ بیزاری دل میں بیٹھ جائے بس پھر مذہب کی ہر بات پر اعتراض شروع ہوجاتا ہے۔
حالانکہ اگر جدید علوم سے نابلد شخص کوئی کھڑا ہو کر یہ کہے کہ میں فلاں سائنسدان کی تھیوری کو نہیں مانتا تو اپنے آپ کو پڑھا لکھا کہنے والے اس پر ہنستے ہیں مذاق اڑاتے ہیں کہ تمھیں کیا معلوم سائنس کیا ہے اور یہ تھیوری کیوں پیش کی گئی ہے۔ لیکن یہ ہی لوگ مذہب کے معاملے میں بالکل کورے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی حدود اللہ پر اعتراض کرنے سے باز نہیں آتے پھر اس پر دلیل بھی سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ یعنی نعوذ باللہ اللہ تعالی نے احکام فطرت کے مطابق نہیں بھیجے یا احکام بھیجنے تھے تو ان سے پہلے پوچھ لیتا یا پھر جن لوگوں نے ساری زندگی دین اور اسلام کا علم حاصل کرنے میں کھپا دی وہ درست بات نہیں سمجھ سکے بلکہ یہ کل کے چھوکرے امریکہ اور انگلینڈ سے کافر استادوں سے جو اسلام سیکھ کر آئے ہیں وہ درست ہے۔ اس طرح کا طرزِ تعلیم اکثر انسان کو اسقدر بے باک کردیتا ہے کہ وہ خدا کے احکام پر اعتراض کرنے لگتا ہے بلکہ خود خدا کے وجود کا ہی منکر ہوجاتا ہے۔
میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ دوہرا تعلیمی نظام ہے جس کی وجہ سے علیحدہ علیحدہ نظریات کے حامل انسان معاشرے میں موجود ہیں۔ ایک کے نزدیک مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے بنیاد پرست، جاہل اور شدت پسند ہیں، معاشرے پر بوجھ ہیں۔ دوسرے کے نزدیک کالج، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے سارے کفر اور الحاد کا شکار ہے یا کم از کم فاسق اور فاجر تو ہیں ہی۔ یہ دونوں رویے انتہائی خطرناک ہیں۔
اللہ تبارک تعالی نے ہر انسان میں الگ الگ صلاحیتیں رکھی ہیں اور پھر حالات و واقعات ہر انسان کے اکثر مختلف ہوتے ہیں۔ جن کی بنیاد پر انسان اپنا ایک مزاج بنا لیتا ہے جو عمومی طور پر ساری زندگی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جن لوگوں کو مذہبی اور جدید علوم دونوں سے اللہ تعالی نے نوازا ہے ان کو آگے آنا چاہیے اور ان دو انتہا پسند رویوں کو ختم کر کے آپس میں ہم آہنگی کا درس دینا چاہیے۔
یہ چند الفاظ محض اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے لکھے ہیں، بحث میں حصہ لینے کا ہر گز مقصد نہیں۔ اگر کوئی صاحب اتفاق نہیں کرتے تو شوق سے اختلاف رکھ سکتے ہیں اور اختلاف ہونا کوئی ناپسندیدگی کی علامت نہیں ہاں البتہ بے جا مخالفت انسان کو کہیں سے کہیں لے جاتی ہے۔ اللہ تعالی مجھے ہم سب کو سمجھ نصیب فرمائے۔ آمین
اتنا لمبا مذہبی لیکچر جھاڑنے سے قبل ارتقا کی سائنس سے متعلق بنیادی پوسٹس ہی پڑھ لیتے تو آپ کے علم میں بھی اضافہ ہو جاتا اور ہمیں یہ لیکچر بھی نہ سننا پڑتا۔
 
اتنا لمبا مذہبی لیکچر جھاڑنے سے قبل ارتقا کی سائنس سے متعلق بنیادی پوسٹس ہی پڑھ لیتے تو آپ کے علم میں بھی اضافہ ہو جاتا اور ہمیں یہ لیکچر بھی نہ سننا پڑتا۔
مشورے کا بہت شکریہ، حیرت ہے کہ آپ کو یہ مذہبی لیکچر لگا۔ معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کی طبع ناز پر گراں گزرا۔
 
ا ب اگر یہ کہا جائے کہ اللہ ہر چیز پہ قادر ہے ۔ سب کچھ کر سکتا ہے ۔ وہ بغیر مٹائے پہلے بندر اور پھر اسے انسان بنا سکتا ہے تو پھر بحث ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ اللہ ہر چیز پہ قادر ہے ۔اُسے کیا ضرورت ہے اشرف المخلوقات کو جانور بنا کے پھر سے انسان بنانے کی ۔
دن کے بغیر رات، موت کے بغیر زندگی، کالے کے بغیر سفید بنانا، کس بھی قادر مطلق کے لئے ممکن نہیں۔ لہذا یہ بحث بے کار ہے۔ اس کے معانی کسی کائنات کے سپریم آرکیٹیکٹ کی موجودگی سے انکار نہیں
 
Top