نظریہ ارتقاء پر اٹھائے جانے والے پندرہ اعتراضات اور ان کے جوابات

زہیر عبّاس

محفلین
سائنس کی دنیا کے سینئر منتظم قدیر صاحب کی فرمائش پر
http://www.scientificamerican.com/article/15-answers-to-creationist/ کا اردو ترجمہ کیا گیا تھا وہ پیش خدمت ہے۔ تصاویر اور اس کے عناوین ویب سائٹ سے نہیں لئے گئے بلکہ انٹرنیٹ سے تلاش کرکے ان کو شامل کیا گیا ہے۔

نظریہ ارتقاء پر اٹھائے جانے والے پندرہ اعتراضات اور ان کے جوابات


جب چارلس ڈارون نے ١٤٣ برس پہلے نظریہ ارتقاء بذریعہ قدرتی چناؤ کے متعارف کروایا، تو اس دور کے سائنس دانوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا، تاہم رکازیات ، جینیات ، علم حیوانیات ، سالماتی علم الحیات اور دوسرے ذرائع سے بتدریج حاصل ہونے والے ثبوتوں نے ارتقاء کو معقولیت کی حد تک استوار کر دیا۔ آج یہ جنگ ہر جگہ جیتی جاچکی ہے۔ تاہم عوام الناس کے ذہن اب بھی اس کو قبول کرنے میں تردد کا شکار ہیں۔
n1jt4w3MqyfSepmnHoNDQGGEaTuwEtqrKjPNfhHXP4puHOH7_tzrp3LVCBJNmJbgytSp_DPM3GJ85uRHhGKtW2UZ_HFM1cIbTcRtUmC_yjNSMF7wkkQBa3wbhRKX2ut-E0wTBBGkZdDYNN67rg

خاکہ 1ذہین صورت گری اور نظریہ ارتقاء کے حامیوں کے درمیان بحث جاری ہے اور دونوں طرف سے اپنے اپنے دلائل دیئے جا رہے ہیں۔
پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی سب سے جدید اقوام پر بھی تخلیقی سیاست دانوں، قاضیوں اور عام شہریوں پر زبردست طرح سے اپنا اثرو رسوخ قائم کئے ہوئے تھے اور ان کو باور کروانے میں کامیاب رہے تھے کہ ارتقاء میں نقص ہے اور اس کے کوئی ثبوت و شواہد موجود نہیں ہیں۔ "ذہین صورت گری" جیسے تخلیقی خیالات کو نظریہ ارتقاء کے متبادل طور پر اسکولوں میں پڑھایا جاتا تھا۔ اس مضمون کی اشاعت کے وقت اوہائیو بورڈ آف ایجوکیشن ایسی کسی تبدیلی پر بحث و مباحثے میں الجھا ہوا ہے۔ کچھ ارتقاء کے مخالف جیسا کہ فلپ ای جانسن جو قانون کے پروفیسر برکلے کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور "ڈارون کی جانچ" کے مصنف ہیں تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا "ذہین صورت گری" کے نظریئے کا مقصد اسکولوں میں خدا کے ذکر کو دوبارہ عام کرنا ہے۔
نرغے میں موجود معلم اور دوسرے اپنے آپ کو ارتقاء کا دفاع اور تخلیق کا رد کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے تھے۔ تخلیقی جو دلائل دیتے تھے وہ عام طور سے خوشنما اور ارتقاء کے متعلق غلط فہمی (یا سیدھے جھوٹ)کی بنیاد پر مبنی ہوتے تھے، تاہم تعداد اور اعتراضات کے تنوع اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی کو بھی پسپائی پر مجبور کر دیتے تھے۔

ان کو اس قابل کرنے کی مدد کرنے کے لئے کہ وہ صحیح جواب دے سکیں درج ذیل فہرست کچھ عام "سائنسی " اعتراضات کا رد ہے جو ارتقاء کے خلاف اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ قاری کو مزید اطلاعات کی رسائی تک کے ذرائع بھی دیتی ہے اور بیان کرتی ہے کہ آیا کیوں تخلیقی سائنس کی اسکول کی جماعت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

1۔ ارتقاء تو صرف ایک نظریہ ہے۔ یہ کوئی حقیقت یا سائنسی قانون نہیں ہے۔
کافی لوگ ابتدائی تعلیم کے دوران پڑھتے ہیں کہ نظریہ، یقینیت کے درمیان کہیں موجود ہے - یہ ایک قیاس تو ہے تاہم کوئی قانون نہیں ہے۔ بہرحال سائنس دان اس اصطلاح کا استعمال اس طرح سے نہیں کرتے ۔ نیشنل اکیڈمی آف سائنس (ناس) کے مطابق ایک سائنسی نظریہ " اچھی طرح سے قرائن و ثبوت کی بنیاد پر کی جانے والی قدرتی جہاں کے کچھ رخ کی تشریح ہے جس میں امر واقعہ، قانون ، استنباط اور جانچے ہوئے قیاس کو شامل کیا جاتا ہے۔" نظریئے کو قانون میں بدلنے کے لئے کسی قسم کی توثیقی تبدیلی نہیں کی جاتی جو ہئیت کی عمومی کیفیت ہے۔ لہٰذا جب سائنس دان نظریہ ارتقاء کے بارے میں بات کرتے ہیں - یا جوہری نظریئے یا نظریہ اضافیت کے بارے میں – تو وہ اس کی سچائی کے بارے میں کوئی جملہ شرائط کو بیان نہیں کرتے۔
V6Zk8n8-5pWG6AtAWxLDzMld5HMiE4TvnSP9yWIXiMleZekO0a4zFkSo-2vCk9skfOCC-2XHJ6oCXGSP6w28tUllYghdNwcZrdP1j16UDWPp_Jzdhw8gMBuzrumszvX9m3H80h1Vzmukf_Anzw

خاکہ 2 نظریہ ارتقاء کے حامی از راہ تفنن قوّت ثقل کی مثال بطور نظریہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ارتقاء پر اعتراض کرنے والے اس کو کیوں قبول کرتے ہیں۔

مزید براں نظریہ ارتقاء والوں کے لئے تغیر کے ساتھ نزول کے خیال کا مطلب ارتقاء کی حقیقت کے بارے میں کہنا ہے۔ ناس امر واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے " ایک ایسا مشاہدہ جس کی بار ہا تصدق کی جاچکی ہو اور تمام عملی مقاصد کے لئے اس کو "سچا" مان لیا گیا ہو۔" رکازی نامچہ اور دوسرے کثیر تعداد کے ثبوت گواہی دے رہے ہیں کہ جاندار وقت کا ساتھ ارتقاء پذیر ہوئے ہیں۔ ہرچند کہ کسی نے اس کا مشاہدہ نہیں کیا، تاہم بالواسطہ ثبوت واضح، قطعی اور حقیقت کو قبول کرنے پر مجبور کر دینے والے ہیں۔
عموماً تمام سائنس بالواسطہ ثبوتوں پر انحصار کرتی ہے۔ مثال کے طور پر طبیعیات دان ذیلی جوہری ذرّات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کر سکتے لہٰذا وہ ان کی موجودگی کی تصدیق کے لئے ان کے غماز راستوں کو دیکھتے ہیں جو ذرّات ابر خانے میں اپنے پیچھے چھوڑتے ہیں۔ براہ راست ثبوتوں کے عدم مشاہدے کی وجہ سے طبیعیاتی نتائج کم قطعی نہیں ہو جاتے۔

2۔ قدرتی چناؤ کی بنیاد تدویری دلیل ہے یعنی کہ جو باقی رہ گئے وہ موزوں ہیں اور جو موزوں ہیں وہ باقی رہ گئے ۔
"بقائے اصلح" قدرتی چناؤ کو بیان کرنے کا ایک متنازعہ طریقہ ہے، تاہم مزید تیکنیکی توضیح بقا کی مختلف شرح اور تولیدگی کو بیان کرتی ہے۔ یعنی بجائے انواع کو موزوں اور غیر موزوں جماعت میں بیان کرنے کے اس طرح سے ان کو بیان کر سکتے ہیں کہ مخصوص حالات میں وہ کتنے بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ ایک تیز رفتار نسل بڑھانے والی چھوٹی چونچ والی سنہری چڑیا کے جوڑے اور ایک سست رفتار نسل بڑھانے والی سنہری چڑیا کے جوڑے کو ایک ایسے جزیرے پر چھوڑیں جو دانے دنکے سے بھرا ہوا ہو۔ چند ہی نسلوں میں تیز رفتار سے نسل بڑھانے والی سنہری چڑیا خوراک کے زیادہ وسائل پر قبضہ کر لیں گی۔ اگر بڑی چونچ والی سنہری چڑیا دانے کو آسانی کے ساتھ توڑ سکتی ہیں تاہم اس بات کا بھی فائدہ چھوٹی چونچ والی چڑیا کو ہی ہوگا۔ گالاپگوس جزیرے پر ہونے والی تحقیق میں پرنسٹن یونیورسٹی کے پیٹر آر جی گرانٹ نے مشاہدہ کیا کہ اس طرح کی آبادی میں اتار چڑھاؤ بے لگام ہوتا ہے [ان کا مضمون "قدرتی چناؤ اور ڈارون کی سنہری چڑیاں"؛ سائنٹفک امریکن ، اکتوبر ١٩٩٩ء میں دیکھا جا سکتا ہے ]۔
OKJK60HxP3YnshwSk5wv5GB3GDjZO0UPvmajN176oG094MfaTLc0C0TKSyIPVTX0vOZEsOaLsisuLy2gFR7ysRBOpqRV2R_SbKT6HQ2FR-C8fWiIbtE9q1u1UTjGnWAeEk6ZUb8TRSIgzQwDUg

خاکہ 3 "بقائے اصلح" قدرتی چناؤ کو بیان کرنے کا ایک متنازعہ طریقہ ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ موزونیت سے مطابقت حاصل کرنے کو بقا کے بغیر بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ بڑی چونچ والی بیچ کو توڑنے کے لئے زیادہ مطابقت پذیر تھیں اس بات سے قطع نظر کہ ان کی یہ خصوصیت مخصوص حالات میں ان کو بچانے کے کسی خاص کام آ سکی۔

3۔ ارتقا غیر سائنسی ہے کیونکہ یہ قابل جانچ یا قابل تحریف نہیں ہے۔ یہ ایسے حالات کے بارے میں بات کرتا ہے جس کا مشاہدہ نہیں کیا گیا اور اس کو کبھی بھی دہرایا نہیں جا سکتا۔
ارتقاء کی اس طرح سے برخاستگی اس اہم اختلاف کو نظر انداز کر دیتی ہے جو اس میدان کو کم از کم دو وسیع علاقوں میں بانٹتا ہے۔ اصغری ارتقاء اور اکبری ارتقاء۔ اصغری ارتقاء انواع کے درمیان ہونے والی تبدیلیوں کو گزرے وقت میں دیکھتا ہے – وہ تبدیلیاں جو آغاز انواع کا پیش خیمہ ہوتی ہیں ، نئی انواع کا ماخذ۔ اکبری ارتقاء اس کا مطالعہ کرتا ہے کہ کس انواع کی سطح کے اوپر کس طرح سے تقسیمی جماعت تبدیل ہوتی ہے۔ اس کے شواہد اکثر اوقات رکازی نامچوں اور ڈی این اے کے تقابل سے حاصل ہوتے ہیں جو مختلف جانداروں کے آپس میں باہمی نسبت کو جاننے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔
3i7jkJMzLlqXDLX3rsG0GqZUFgqqz9b7YvMB0buynNrffF-32QBHkEx5AkOczTSjP0X8TjNfLCPOpB582qnbzcowKIxuPKUp9uKA7QWBK6aTDZxzDE2_4CJ-TAmVklowfuGO6AhQVisqPaCZ_w

خاکہ 4 ۔ اصغری ارتقاء انواع کے درمیان ہونے والی تبدیلیوں کو گزرے وقت میں دیکھتا ہے جبکہ اکبری ارتقاء انواع کی سطح کے اوپر تقسیمی جماعت کی تبدیلی کا مطالعہ کرتا ہے۔

ان دنوں اکثر تخلیقی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اصغری ارتقاء تجربہ گاہ ( جیسا کہ خلیہ، پودوں اور پھل مکھی کی تحقیقات میں ) میں کی گئی جانچوں میں اور میدان (جیسا کہ گرانٹ کی گالاپگوس سنہری چڑیوں کی ارتقائی عمل سے گزرتی چونچ کی تحقیق میں ) ثابت ہو چکے ہیں۔ قدرتی چناؤ اور دوسرے طریقے - جیسا کہ لوئی جسمیہ تبدیلی، ہم زیستی اور دوغلیت - وقت کے ساتھ آبادی پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔

اکبری ارتقاء کی تحقیق کی تاریخی نوعیت میں براہ راست مشاہدات کے بجائے رکازیات اور ڈی این اے سے استنباط کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود تاریخی سائنس (بشمول فلکیات، ارضیات اور آثار قدیمہ کا علم، اور ارتقائی حیاتیات) میں قیاسات کو اس طرح سے جانچا جا سکتا ہے کہ آیا وہ طبعی ثبوتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور آیا کہ وہ مستقبل کی دریافتوں کے لئے قابل تصدیق اندازوں تک لے جاتے ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر ارتقاء کہتا ہے کہ انسانوں کے اولین آباؤ اجداد (لگ بھگ پچاس لاکھ برس پرانے) اور جدید انسان (لگ بھگ ایک لاکھ برس پہلے) کے ظہور کے درمیان انسان نما جانور جیسی خصوصیات والے جاندار ملنے چاہئیں جس میں بتدریج بندروں کی کم اور انسانوں جیسی زیادہ خاصیت ہوں، حقیقت میں رکازی نامچہ یہی چیز بیان کرتا ہے۔ تاہم کسی کو جدید انسان کے رکاز جراسی دور (چودہ کروڑ چالیس لاکھ برس پہلے) کے طبقات میں پیوستہ نہ تو ملتے ہیں نہ ہی ملنے چاہئیں۔ ارتقائی حیاتیات معمولات میں اس سے کہیں زیادہ بہتر اندازے قائم کر سکتی ہے اور محققین مسلسل اس کی جانچ کر رہے ہیں۔

ارتقاء کو دوسرے طریقوں سے بھی رد کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم مردہ مادّے سے کسی ایک پیچیدہ حیات کی خود سے بڑھوتری کا ثبوت دیکھ لیں تو ہو سکتا ہے کہ چند مخلوقات جن کو رکازی نامچوں میں دیکھا گیا ہے اس طریقے سے پیدا ہوئی ہوں گی۔ اگر فوق ذہین خلائی مخلوق نمودار ہو جائے اور زمین پر حیات کی تخلیق کا دعویٰ کرے (بلکہ کسی ایک مخصوص نوع کا بھی)، تو خالص ارتقائی توضیح بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو جائے گی۔ تاہم ابھی تک کسی نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا۔

یہ بات غور طلب ہے کہ قابل تکذیب کا تصوّر بطور سائنس کی تعریفی خاصیت کے فلسفی کارل پوپر نے ١٩٣٠ء میں پیش کیا۔ حال ہی میں اس کے تصوّر کی مزید توسیع نے اس کے اصول کی تنگ تشریح کو پھیلایا خاص طور پر اس لئے کہ یہ سائنسی جدوجہد کی کافی ساری شاخوں کو کم کر دیتی ہے۔

4۔ بتدریج سائنس دان ارتقاء کی سچائی پر متشکک ہو رہے ہیں۔
کوئی ثبوت ایسا نہیں ہے جو اس تجویز کو پیش کرے کہ ارتقاء طرفداری کو کھو رہا ہے۔ کوئی بھی ہم جماعتی تجزیہ کا حیاتیاتی جریدہ اٹھا کر دیکھ لیں اور آپ کو اس میں ایسے مضامین مل جائیں گے جو ارتقاء کے مطالعہ کی حمایت کریں گے یا پھر ارتقاء کو بنیادی تصوّر کے بیان کریں گے۔

اس کے برخلاف سنجیدہ سائنسی اشاعت جو ارتقاء کے خلاف ہوں ناپید ہیں۔ ١٩٩٠ء کے عشرے کے وسط میں یونیورسٹی آف واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے جارج ڈبلیو گلکرسٹ نے بنیادی ادب کے ہزار ہا جریدوں کا جائزہ لیا جس میں اس کی تلاش ذہین صورت گری یا تخلیقی سائنس تھی۔ سینکڑوں ہزار ہا جریدوں میں اسے ایک بھی ایسا نہیں ملا۔ گزشتہ دو برسوں کے درمیان ساؤتھ ایسٹ لوزیانا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی باربرا فوریسٹ اورکیس ویسٹرن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے لارنس ایم کراس بھی اس قسم کے جائزے میں خالی ہاتھ ہی رہے۔

تخلیقی بدلے میں جواب دیتے ہیں کہ تنگ نظر سائنسی لوگ ان کے ثبوتوں کو رد کرتے ہیں۔ اس کے باوجود نیچر ، سائنس اور دوسرے اہم جریدوں کے مدیروں کے مطابق کچھ ضد ارتقاء سے متعلق مقالاجات بھی انھیں بھیجے گئے۔ کچھ ضد ارتقاء مصنفین نے اپنے مضامین کو سنجیدہ جرائد میں بھی شایع کروایا۔ تاہم ان مقالاجات میں شاذونادر ہی ارتقاء پر کوئی براہ راست حملہ کیا گیا یا تخلیق سے متعلق اپنے دلائل دیئے گئے؛ اس کے بجائے انہوں نے اپنی پوری کوشش ارتقاء سے متعلق کچھ مسائل کو ناقابل حل اور مشکل (جس کے بارے میں کوئی انکاری نہیں ہے) ثابت کرنے میں لگا دی۔ مختصراً تخلیقیوں نے سائنسی دنیا کو کوئی ایسے اچھے دلائل نہیں پیش کئے جس سے وہ انھیں سنجیدہ لیتے۔

5۔ارتقائی حیاتیات دانوں کے درمیان بھی اختلاف موجود ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کتنی کمزور سائنس ارتقاء کی بنیاد ہے۔
ارتقائی حیاتیات دان مختلف موضوعات پر گرما گرم بحث کرتے ہیں، آغاز انواع کیسے شروع ہوا، ارتقائی تبدیلیوں کی شرح، پرندوں اور ڈائنوسارس کے آباؤ اجداد میں تعلق، آیا کہ نینڈرتھال جدید انسان ہی کی کوئی قسم تھے، اور اسی طرح کے دوسرے ۔ یہ اختلافات بعینہ ایسے ہیں جیسے کہ کسی بھی دوسری سائنس کی شاخوں کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ باوجود اس کے ارتقاء کی قبولیت بطور امر حقیقی اور رہنما اصول حیاتیات میں آفاقی ہیں۔
6qP9hiNIi_ICdntND_6ENRJVYcBK7wBnPf_6eDph684odgEdSUfE8E4bT4avvGkk1X_Qh1Cdv2R13aGE9qaaaFgAMbE-wKX71xjNFoAesu5SkDYQ3mz8D7nXCqaCQQK00sZ0pfpbGUmbaQmIuw

خاکہ 5 ارتقائی حیاتیات دان مختلف موضوعات پر گرما گرم بحث کرتے ہیں جس میں یہ بات بھی شامل ہیں کہ آیا نینڈرتھال جدید انسان ہی کی کوئی قسم تھے یا نہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر ارتقاء کے مخالف اپنی حق میں ثبوت پیش کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے بد دیانت تخلیقی اکثر اوقات سائنس دانوں کے تبصروں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ بحث کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکیں۔ کوئی بھی جو ماہر رکازیات ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے اسٹیفن جے گولڈ کے کام کے بارے میں جانتا ہوں اسے معلوم ہوگا کہ اعتدال منقطع کے نمونے کے شریک مصنف کے علاوہ ، گولڈارتقاء کا دفاع کرنے والے سب سے خوش گفتار اور واضح کلام کرنے والے ہیں۔ (اعتدال منقطع رکازی نامچوں میں موجود نمونے کے بارے میں بتاتا ہے کہ اکثر ارتقائی تبدیلیاں مختصر ارضیاتی ادوار میں ہوئیں – جو اس مختصر دورانئے کے باوجود سینکڑوں نسلوں پر محیط ہو سکتی ہیں۔) تخلیقی گولڈ کے ضخیم نثری کام میں سے وہ جملے نکالنے میں خوش ہوتے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ارتقاء کے اوپر متشکک ہے، اور وہ اعتدال منقطع کو ایسے پیش کرتے ہیں جسے یہ نئی انواع کو راتوں رات پیدا کرتا ہے یا رینگنے والے جانور کے انڈوں سے پرندے پیدا ہوتے ہیں۔

جب بھی کسی سائنسی صاحب علم کے قول کا سامنا کریں جو ارتقاء پر سوال اٹھاتا نظر آئی تو کوشش کریں کہ سیاق و سباق کو بھی حاصل کرکے اس کے تناظر میں اس قول کو پڑھیں۔ تقریباً ثابت طور پر ارتقاء پر حملہ ایک دھوکہ دہی ثابت ہوگا۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
6۔ اگر انسان بندروں کی اولاد ہیں، تو اب تک بندر کیوں موجود ہیں؟
یہ سب سے عام کیا جانے والے اعتراض ہے جو ارتقاء کے بارے میں لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے۔ سب سے پہلی غلطی تو یہ ہے کہ ارتقاء یہ نہیں تعلیم دیتا کہ انسان بندروں کی اولاد ہیں؛ بلکہ یہ بیان کرتا ہے کہ دونوں کے جد ایک ہی تھے۔
MAQn8z3wCt8ZIgEYsB-fNHgmued51t4F9Y3joAQHPdw-AyepHEYbNHTle7-ssZPxM0DATQ-D3X6nypOC8TRtFd2kMxI83x67ZyiY8swbSEZ86_gLK8XCXwe5QpqtYtOP4q35FWYPcr1aZQTnfw

خاکہ 6 نئی انواع پہلے سے موجود نوع سے الگ ہو کر ہی وجود میں آتی ہیں۔
یہ اعتراض اس بات کو پوچھنے کے ہم پلہ ہے جو مزید گہری غلطی ہے ، " اگر بچے، بالغوں سے پیدا ہوتے ہیں، تب اب بھی کیوں بالغ موجود ہیں؟" نئی انواع پہلے سے موجود نوع سے الگ ہو کر ہی وجود میں آتی ہیں اور جب جانداروں کی آبادی اپنی اصل نسلی خاندان سے جدا ہو کر کافی تغیر حاصل کر لیتی ہے تب وہ ہمیشہ اپنا امتیاز باقی رکھتی ہے ۔ مورث نوع اس کے بعد لامحدود عرصے تک باقی رہ سکتی ہے یا وہ معدوم بھی ہو سکتی ہے۔
7۔ ارتقاء یہ بیان نہیں کرتا کہ حیات کا آغاز کس طرح سے زمین پر ہوا۔
حیات کا آغاز اب بھی اسرار میں لپٹا ہوا ہے، تاہم حیاتیاتی کیمیا دان یہ بات جان چکے ہیں کہ نامیاتی مرکبات(مرکزائی تیزاب اور امینو تیزاب ) اور دوسرے حیات کو بنانے کی بنیادی چیزیں خود سے بن کر اپنے آپ کو اس طرح سے تشکیل دے سکتی ہیں کہ وہ خود اپنی نقول خود پر انحصار کرنے والی بنا سکیں اور اس طرح سے انھوں نے خلیاتی حیاتیاتی کیمیا کی بنیاد ڈال دی۔ فلکی کیمیائی تجزیہ عندیہ دے رہا ہے کہ ان مرکبات کی مقدار شاید خلاء میں پیدا ہوئی ہوں اور زمین پر دم دار ستاروں کی صورت میں پہنچی ہوں، ایک منظر نامے جو شاید اس مسئلہ کو حل کر سکے کہ یہ بنیادی اجزاء کس طرح سے ان حالات میں بنے جب ہمارا سیارہ نوجوان تھا۔
yRCGNf-75OYodmqgpF502lkaZ3hMNYmu6UC1mtUJ55Q4cwDYnx-1DwLKA1grrx0jhhyP29wJpJN0i0ZFnA5QQ-oY1fXGFh_XOl2kY_1D2-ZUaSDmVP49pLMrQM_nEMWqTZimvL8hnyLfa0CtRg

خاکہ 7 حیات کا آغاز اب بھی اسرار میں لپٹا ہوا ہے۔
تخلیقی کبھی کبار کوشش کرتے ہیں کہ تمام ارتقاء کو غلط ثابت کر دیں اور اس کام کے لئے وہ سائنس کی حیات کے ماخذ کو بیان میں ناکامی کا سہارا لیتے ہیں۔ تاہم اگر زمین پر حیات کا آغاز غیر ارتقائی نکلا (مثال کے طور پر اگر خلائی مخلوق نے پہلا خلیہ آج سے ارب ہا برس پہلے متعارف کروا دیا تھا )، تب بھی ارتقاء کا عمل زور و شور سے لاتعداد صغیر و کبیر ارتقائی تحقیق سے مستحکم ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

8۔ ریاضیاتی طور پر یہ بعید الفہم ہے کہ زندہ خلیہ کی تو بات کو چھوڑ ہی دیں کوئی پروٹین جیسی پیچیدہ چیز یا انسان اتفاق کا نتیجہ ہو۔
اتفاق ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتے ہیں (مثال کے طور پر الل ٹپ تغیر نئی خصلت کو پیدا کر سکتے ہیں)، تاہم ارتقاء جانداروں، پروٹین یا دوسری ہستیوں کو بنانے کے لئے اتفاق پر انحصار نہیں کرتا۔ اس کے برخلاف قدرتی چناؤ، جو ارتقاء کا اہم معلوم نظام ہے، غیر اٹکل پچو تبدیلیوں کو قابو میں کرکے ان کے "عمدہ" (مطابقت ) خصوصیات کو محفوظ رکھتا ہے اور "ناپسندیدہ" (غیر مطابقت ) والی خصلتوں کو ختم کر دیتا ہے۔ جب تک چناؤ کی قوّت مستحکم رہتی ہے، قدرتی چناؤ ارتقاء کو ایک سمت میں دھکیل سکتا ہے اور حیرت انگیز مختصر عرصے میں ہی پیچیدہ ساختیں پیدا کر سکتے ہیں۔
bqJNpHZfEmfzXO9oDdtrr9WiBHjjLNW0sT2eUn5er3K3Io-5uMEp2qP2uPhceAgkP4BzOdd0Yg7DyyP4aaCCbGMBAijaK-wTFXg1fROL3W2TZrSc4vyspj7snARZlasT8tNvnGogVWSRpEDINg

خاکہ 8 اتفاق ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بطور تشبیہ ایک تیرہ حروف پر مشتمل سلسلہ “TOBERORNOTTBE” دیکھیں۔ وہ قیاسی کروڑوں بندر جن میں سے ہر ایک جملوں کے ڈھیر میں سے ایک جملہ فی سیکنڈ کے حساب سے نکال رہا ہوگا، ٧٨ ہزار ٨ سو برس میں 2613 سلسلوں پر مشتمل اس جملے جتنے جملوں کے درمیان سے اس کو ڈھونڈ سکتے ہیں۔ تاہم ١٩٨٠ء کے عشرے میں گلنڈیل کالج سے تعلق رکھنے والے رچرڈ ہارڈیسن نے ایک کمپیوٹر کا پروگرام لکھا جو بے تکے جملے لکھنے کے بعد ان انفرادی الفاظ کا مقام محفوظ رکھ لیتا تھا جو اتفاق سے درست جگہ پر رکھے گئے تھے (حقیقت میں اس قسم کے جملے محفوظ کر رہا تھا جو ہیملیٹ ڈرامے جیسے تھے)۔ اوسطاً پروگرام نے ٣٣٦ مرتبہ دہرا کر صرف ٩٠ سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں یہ کام کرلیا تھا۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ شیکسپیئر کا پورا کھیل صرف ساڑھے چار دنوں میں لکھ سکتا تھا۔

9۔ حرحرکیات کا دوسرا قانون کہتا ہے کہ نظام گزرتے وقت کے ساتھ زیادہ ناکارہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا حیوی خلیات غیر نامیاتی مادّوں سے ارتقاء پذیر نہیں ہو سکتے اور کثیر خلیہ والی حیات یک خلیہ سے ارتقاء نہیں پا سکتی۔
یہ دلیل دوسرے قانون کی غلط تشریح کرکے دی جاتی ہے۔ اگر ایسا درست ہوتا تو معدنی قلمیں اور برف کے گالے بننا ممکن نہ ہوتا کیونکہ وہ بھی کافی پیچیدہ ساختیں ہیں جو بے ساختہ بے ترتیب حصّوں سے بنتے ہیں۔
دوسرا قانون اصل میں یہ کہتا ہے کہ ایک بند نظام کی کل ناکارگی (ایک ایسا نظام جہاں نہ تو مادّہ یا توانائی ڈالا جا سکتا ہوں نہ اس سے باہر نکالا جا سکتا ہو) کم نہیں ہو سکتی۔ ناکارگی ایک طبیعی تصوّر ہے جس کو اکثر بے خیالی میں بے ترتیبی سے بیان کر دیا جاتا ہے تاہم یہ اس الفاظ کے روایتی استعمال سے بالکل الگ ہے۔
CXHyx14GJtkzusfRPi407QojkHhkrvjQoL0w8LtxYuHepwFqf2TCQR8uyimaL9njgEnfwsgRg8E7L2uGacdN11UW2CUq142Pe2SV1ZfUiREVZHkfVo09Xb40lEv3Gwmxm9Ar15aG0UDSrWgEgQ

خاکہ 9 ناکارگی ایک طبیعی تصوّر ہے جس کو اکثر بے خیالی میں بے ترتیبی سے بیان کر دیا جاتا ہے۔
مزید اہم بات بہرحال یہ ہے کہ دوسرا قانون نظام کے حصّے میں ناکارگی کو اس وقت تک کم کرنے کی اجازت دیتا ہے جب تک دوسرے حصّے ناکارگی میں اتنا ہی اضافہ کریں۔ لہٰذا ہمارا سیارہ بطور مجموعی زیادہ پیچیدہ ہو سکتا ہے کیونکہ سورج اس میں حرارت اور روشنی ڈالتا ہے، اور سورج کے نیوکلیائی گداخت کے عمل سے نسبت رکھنے والی ناکارگی توازن کو برابر کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ سادے جاندار دوسری حیات کی قسموں اور غیر جاندار مادّوں کا استعمال کرکے اپنی نمو کو پیچیدگی کی طرف بڑھاوا دے سکتے ہیں۔
10۔ تقلیب ارتقاء کا لازمی حصّہ ہے، تاہم تقلیب میں تو صرف خصلت ختم ہو سکتی ہے۔ اس میں نئی خصلتیں نہیں پیدا ہو سکتیں۔
اس کے برخلاف حیاتیات نے تقلیب کے ذریعہ ہونے والی (جاندار کے ڈی این اے کی مخصوص جگہ میں تبدیلی کرکے ) کئی خصلتوں کا پتا لگایا ہے۔ مثال کے طور پر ضد حیوی کے خلاف جرثوموں کی مزاحمت۔
تقلیب جو ہومیو باکس خاندان کی نمو میں ظاہر ہوا ہے - جانداروں میں جین کو قابو کرکے پیچیدہ اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ ہاکس جین اس سمت کی طرف ہدایات دیتا ہے جہاں ٹانگیں، پر، انٹینا اور جسم کے حصّوں کو بڑھنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پھل مکھی میں انٹینا پیڈیا کہلانے والی تقلیب ٹانگوں کو وہاں پھیلانے کا سبب بنتی ہے جہاں انٹینا کو بننا ہوتا ہے۔ یہ غیر ضروری انگوٹھے کام کے نہیں ہوتے تاہم ان کا وجود ثابت کرتا ہے کہ جنیاتی غلطیاں پیچیدہ ساخت بنا سکتی ہیں جس کو بعد میں قدرتی چناؤ کا عمل ممکنہ استعمال کے لئے جانچتا ہے۔
HQ2rARHLfn9uFBpFkWoJQ5ChDLpZvKEAjOoZzXdkd12MCzqDo8tag4EljiOCsvAVkKuK0-WN82pFIxWRCmRZ3vh99S77OeyGi63cBqi4gL9JJur-L0Oy4qviI47hOG5lE3LwjWMxj3rL_jFxUA

خاکہ 10 پر ضد حیوی کے خلاف جرثوموں کی مزاحمت کس طرح سے حاصل ہوتی ہے۔
مزید براں سالماتی حیاتیات نے جین کی تبدیلی کے نظام کو دریافت کیا ہے جو تقلیب کے وقت سے آگے جاتی ہے، اور یہ ان طریقوں کو بڑھاتی ہے جس میں نئی خصلتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ جین کے اندر موجود فعلی نمونے نئے طریقوں میں ایک ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ مکمل جین کی حادثاتی طور پر کسی جاندار کے ڈی این اے میں نقول بن سکتی ہیں، اور نقول اس بات کے لئے آزاد ہوتی ہیں کہ نئی پیچیدہ خصلتوں والی جین میں تبدیل ہو جائیں۔ مختلف جانداروں کے ڈی این اے کا موازنہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہی وہ طریقہ ہے جس کے نتیجے میں خون کے پروٹین کے گلوبن خاندان کروڑ ہا برسوں میں ارتقاء پذیر ہوئے۔
 
زہیر عبّاس نظریہ ارتقاء پر اعتراضات کا بہت اچھا جواب لکھا ہے۔ کریشنسٹ کو اسے جھٹلانے کا کوئی جواز نہیں رہا۔

کریئیشنسٹ ہونے کے لیے ارتقا کو جھٹلانا ضروری نہیں۔ میں ارتقا کو کریئیشنسٹ ہونے کے باوجود سچ مانتا ہوں۔ اور مجھ جیسے ہزاروں لوگ ہیں۔ سو کریئیشنسٹ کی تخصیص ضروری نہیں۔
 

arifkarim

معطل
کریئیشنسٹ ہونے کے لیے ارتقا کو جھٹلانا ضروری نہیں۔ میں ارتقا کو کریئیشنسٹ ہونے کے باوجود سچ مانتا ہوں۔ اور مجھ جیسے ہزاروں لوگ ہیں۔ سو کریئیشنسٹ کی تخصیص ضروری نہیں۔
اگر آپ ارتقا کو بھی مانتے ہیں اور کریشنسٹ بھی ہیں تو پھر آپ نے ٹھیک سے اس نظریہ کو سمجھا ہی نہیں۔ نظریہ ارتقاء تو کریشنزم کی ضد ہے۔
 
اگر آپ ارتقا کو بھی مانتے ہیں اور کریشنسٹ بھی ہیں تو پھر آپ نے ٹھیک سے اس نظریہ کو سمجھا ہی نہیں۔ نظریہ ارتقاء تو کریشنزم کی ضد ہے۔

یہ آپ کے سمجھنے کا قصور ہے۔ کرئیشن بذاتِ خود ارتقائی منازل طے کرکے کسی تخلیق کا ناتمام صورتوں سے گزر کر ایک خاص شکل کو اختیار کرلینے کا نام ہے۔ یعنی کہ ارتقا اپنے آپ میں طریقۂ تخلیق (پراسس آف کریئیشن) ہے۔
 

arifkarim

معطل
یہ آپ کے سمجھنے کا قصور ہے۔ کرئیشن بذاتِ خود ارتقائی منازل طے کرکے کسی تخلیق کا ناتمام صورتوں سے گزر کر ایک خاص شکل کو اختیار کرلینے کا نام ہے۔ یعنی کہ ارتقا اپنے آپ میں طریقۂ تخلیق (پراسس آف کریئیشن) ہے۔
ارتقاء کی کوئی حد مقرر نہیں کہ کسی خاص شکل میں تبدیل ہو کر "تخلیق" مکمل ہو گئی۔ ہر جاندار بشمول انسان مسلسل حالت ارتقاء میں ہے۔
ارتقاء میں تخلیق نہیں ہوتی کیونکہ زمین پر زندگی کی پیدائش خود ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔
 
ارتقاء کی کوئی حد مقرر نہیں کہ کسی خاص شکل میں تبدیل ہو کر "تخلیق" مکمل ہو گئی۔ ہر جاندار بشمول انسان مسلسل حالت ارتقاء میں ہے۔
ارتقاء میں تخلیق نہیں ہوتی کیونکہ زمین پر زندگی کی پیدائش خود ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔

میں نے تو ایسا کہا ہی نہیں ہے کہ ارتقا کی کوئی حد ہے۔ یہ تو آپ نے خود میرے ذمے لگا دیا ہے۔
میں نے تو یہ عرض کیا ہے کہ ارتقا ناتمام صورتوں سے ہوتے ہوئے کسی وقت کسی خاص صورت اختیار کرلینے کا نام ہے۔
آپ نے فرمایا کہ تخلیق ارتقا کی ضد ہے۔ جب کہ میرے خیال میں آپ کو لفظ "ضد" کا مطلب بھی معلوم نہیں ہے۔
اگر میں کہوں کہ اردو محفل آٹھ سالوں کے طویل عرصے میں پے درپے ترقی کے منازل طے کرتی ہوئی (ارتقا کے نتیجے میں) اپنی موجودہ حالت میں پہنچی ہے تو کوئی معقول آدمی یہ نہیں کہے گا کہ اردو محفل اس کے بانی کی تخلیق ہے اس لیے جہاں تخلیق ہوگی وہاں ارتقا ممکن نہیں۔ کیونکہ دونوں باتیں بیک وقت درست ہیں۔ :LOL:
 

arifkarim

معطل
میں نے تو ایسا کہا ہی نہیں ہے کہ ارتقا کی کوئی حد ہے۔ یہ تو آپ نے خود میرے ذمے لگا دیا ہے۔
میں نے تو یہ عرض کیا ہے کہ ارتقا ناتمام صورتوں سے ہوتے ہوئے کسی وقت کسی خاص صورت اختیار کرلینے کا نام ہے۔
جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ارتقا ’’ناتمام‘‘ صورتوں سے ہوتے ہوئے کسی وقت کسی ’’خاص‘‘ صورت اختیار کرنے کا نام ہے تو آپ کو ارتقاء کی درست تعریف ہی معلوم نہیں۔ نظریہ ارتقاء میں جاندار کی کوئی بھی صورت ناتمام نہیں ہے۔ بلکہ تمام صورتیں اپنے ماحول کی مطابقت کی وجہ سے رونما ہونے والے تبدیلیوں کا نام ہے۔
مثال کے طور پر افریقی اقوام کا سیاہ فام اور شمالی یورپی اقوام کا سفید فام ہونا انسان کی ’’ناتمام‘‘ صورت نہیں بلکہ اپنے اپنے گرم اور سرد ماحول میں قیام پزیری کی وجہ سے قدرتی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔

آپ نے فرمایا کہ تخلیق ارتقا کی ضد ہے۔ جب کہ میرے خیال میں آپ کو لفظ "ضد" کا مطلب بھی معلوم نہیں ہے۔
ضد یہاں anti کی صورت میں استعمال کیا ہے۔ جیسے مادہ matter کا antimatter ضد مادہ بنا۔

اگر میں کہوں کہ اردو محفل آٹھ سالوں کے طویل عرصے میں پے درپے ترقی کے منازل طے کرتی ہوئی (ارتقا کے نتیجے میں) اپنی موجودہ حالت میں پہنچی ہے تو کوئی معقول آدمی یہ نہیں کہے گا کہ اردو محفل اس کے بانی کی تخلیق ہے اس لیے جہاں تخلیق ہوگی وہاں ارتقا ممکن نہیں۔ کیونکہ دونوں باتیں بیک وقت درست ہیں۔ :LOL:
ہم یہاں حیاتیاتی ارتقاء Biological Evolution کی بات کر رہے ہیں۔ جبکہ آپ مثال ایک انٹرنیٹ فارم کے ارتقاء کی دے رہے ہیں۔ ذرا سوچ سمجھ کر بحث و مباحثہ کیا کریں۔
 
آخری تدوین:
جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ارتقا ’’ناتمام‘‘ صورتوں سے ہوتے ہوئے کسی وقت کسی ’’خاص‘‘ صورت اختیار کرنے کا نام ہے تو آپ کو ارتقاء کی درست تعریف ہی معلوم نہیں۔ نظریہ ارتقاء میں جاندار کی کوئی بھی صورت ناتمام نہیں ہے۔ بلکہ تمام صورتیں اپنے ماحول کی مطابقت کی وجہ سے رونما ہونے والے تبدیلیوں کا نام ہے۔
مثال کے طور پر افریقی اقوام کا سیاہ فام اور شمالی یورپی اقوام کا سفید فام ہونا انسان کی ’’ناتمام‘‘ صورت نہیں بلکہ اپنے اپنے گرم اور سرد ماحول میں قیام پزیری کی وجہ سے قدرتی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔
حضورِ والا! میرے خیال میں مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم حیاتیات پڑھتے ہوئے کلاس روم میں بارہا کچھ اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً موسٹ سکسیس فل ٹیریسٹریل! لیس سکسیس فل ٹیریسٹریل اینیملز۔ اسی طرح ایمفیبینز کا فیلئر ہونا۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض کردوں کہ ارتقائی مراحل میں جانداروں کی تمام انواع کی ہر صورت "ناتمام" ہی ہوتی ہے۔ اس لیے آپ کا یہ کہنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ آپ نے نظریۂ ارتقا کو اکیڈمیکلی کبھی پڑھا ہی نہیں ہے۔ :)

ضد یہاں anti کی صورت میں استعمال کیا ہے۔ جیسے مادہ matter کا antimatter ضد مادہ بنا۔
"ضد" کی ایسی تعریف واقعی پہلی مرتبہ سنی ہے۔ :confused:
براہِ کرم منطق کی کسی بنیادی کتاب سے رجوع فرمالیں۔

ہم یہاں حیاتیاتی ارتقاء Biological Evolution کی بات کر رہے ہیں۔ جبکہ آپ مثال ایک انٹرنیٹ فارم کے ارتقاء کی دے رہے ہیں۔ ذرا سوچ سمجھ کر بحث و مباحثہ کیا کریں
حیاتیاتی ارتقا بذاتِ خود ایک میتھامیٹکل ریپریزینٹیشن ہے اپنی ہر آؤٹ پٹ میں۔ اور یہ مثال مجھے صرف اس لیے دینی پڑی کے آپ ارتقا کو تخلیق کی ضد کہنے پر زبردستی کر رہے ہیں۔
یا تو آپ یہ کہہ دیں کہ جب حیاتیاتی ارتقا ہوگا تو یہ تخلیق کی ضد ہوگا۔ اور عام حالت میں ارتقا تخلیق کی ضد نہیں ہوتا۔ :ROFLMAO:
 

زہیر عبّاس

محفلین
زہیر عبّاس نظریہ ارتقاء پر اعتراضات کا بہت اچھا جواب لکھا ہے۔
پسند کرنے کاشکریہ عارف بھائی!
اصل میں، میں نے تو صرف اس کا اردو ترجمہ کیا ہے ۔ لکھا ہوا تو کسی اور کا ہے۔
ویسے میں خود بھی موحد ہوں۔ تاہم مجھے خود بذات خود ارتقاء میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس سے میرے مذہبی جذبات کو کسی قسم کی کوئی ٹھیس پہنچے۔ بلکہ ان پندرہ سوالات اور ان کے جوابات میں سوائے چند ایک جگہ کے کوئی خاص قابل اعتراض بات بھی نہیں ہے جس سے کسی موحد کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔
 

arifkarim

معطل
حضورِ والا! میرے خیال میں مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم حیاتیات پڑھتے ہوئے کلاس روم میں بارہا کچھ اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً موسٹ سکسیس فل ٹیریسٹریل! لیس سکسیس فل ٹیریسٹریل اینیملز۔ اسی طرح ایمفیبینز کا فیلئر ہونا۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض کردوں کہ ارتقائی مراحل میں جانداروں کی تمام انواع کی ہر صورت "ناتمام" ہی ہوتی ہے۔ اس لیے آپ کا یہ کہنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ آپ نے نظریۂ ارتقا کو اکیڈمیکلی کبھی پڑھا ہی نہیں ہے۔ :)
حیاتیات پڑھتے وقت ہم جانداروں کی "موجودہ" حالت کو قدیم حالتوں کے ساتھ مقابلہ کر کے سمجھتے ہیں۔ ان سابقہ حالتوں کو "غیرمکمل" یا "ناتمام" کہنا ہی سراسر غلط ہے۔ کیونکہ تمام جاندار اسوقت بھی حالت ارتقاء میں ہیں۔ کئی ارب سال بعد انکی کیا ارتقائی حالت ہوگی، ہم نہیں جانتے۔ اس حساب سے انکی موجودہ حالت بقول آپکی تعریف کے "ناتمام" یا "غیرمکمل "ہوئی!

"ضد" کی ایسی تعریف واقعی پہلی مرتبہ سنی ہے۔ :confused:
براہِ کرم منطق کی کسی بنیادی کتاب سے رجوع فرمالیں۔
انگریزی ٹو اردو لغت میں دیکھ لیں اگر تسلی نہیں ہو رہی۔

حیاتیاتی ارتقا بذاتِ خود ایک میتھامیٹکل ریپریزینٹیشن ہے اپنی ہر آؤٹ پٹ میں۔ اور یہ مثال مجھے صرف اس لیے دینی پڑی کے آپ ارتقا کو تخلیق کی ضد کہنے پر زبردستی کر رہے ہیں۔
یا تو آپ یہ کہہ دیں کہ جب حیاتیاتی ارتقا ہوگا تو یہ تخلیق کی ضد ہوگا۔ اور عام حالت میں ارتقا تخلیق کی ضد نہیں ہوتا۔ :ROFLMAO:
میں نے یہ کہا تھا کہ نظریہ ارتقاء کریشنزم کی ضد ہے۔ کریشنزم بذات خود ایک تھیوری ہے جسکے مطابق تمام جاندار کسی "ذہین" ڈیزائن کی تخلیق ہیں یا اسکے تابع ہیں۔ جبکہ نظریہ ارتقا کسی ذہین ڈیزائن کو نہیں مانتا بلکہ زمین پر زندگی کی پیدائش سے لیکر اسکے اب تک کے ارتقاء اور آئندہ ہونے والی تبدیلیاں کو ارتقائی پس منظر میں دیکھتا ہے۔ نظریہ ارتقاء میں کوئی بھی جاندار "تخلیق" نہیں ہے بلکہ اربوں سال کے ارتقائی عمل کی موجودہ شکل ہے۔ یہ شکل مزید ارب ہا سال کے ارتقاء کے بعد کیا صورت اختیار کریگی وہ ہمیں معلوم نہیں۔ شاید کریشن پر یقین رکھنے والوں کو معلوم ہو۔:p
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
ویسے میں خود بھی موحد ہوں۔ تاہم مجھے خود بذات خود ارتقاء میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس سے میرے مذہبی جذبات کو کسی قسم کی کوئی ٹھیس پہنچے۔ بلکہ ان پندرہ سوالات اور ان کے جوابات میں سوائے چند ایک جگہ کے کوئی خاص قابل اعتراض بات بھی نہیں ہے جس سے کسی موحد کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔
کریشنزم ضروری نہیں مذہبی نوعیت کا ہی ہو۔ کسی بھی ذہین ڈیزائن کو ماننے والا نظریہ ارتقاء کا منکر ہے۔ ارتقاء ارتقاء ہوتا ہے، یہ کسی سمت میں بھی ہو سکتا ہے اور اسمیں کسی "ذہانت" کا کوئی عمل دخل نہیں۔ انسان کا دیگر جانداروں سے نسبتاً ذہین ہونا کسی ذہین ڈیزائن کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ بلکہ خود انسانوں میں ذہانت کے مختلف اوسط لیولز موجود ہیں۔مختلف اقوام کے آئی کیو ٹیسٹ سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں میں ذہانت یکساں نہیں پائی جاتی۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
11۔ قدرتی چناؤ شاید صغیر ارتقاء کی تشریح کر سکتا ہے، تاہم یہ نئی انواع کا آغاز اور اونچے درجے کی حیات کو بیان نہیں کر سکتا۔
ارتقائی حیاتیات دان تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے قدرتی چناؤ نئی انواع کو پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ نمونہ جو ایلوپیٹری کہلاتا ہے جس کوہارورڈ یونیورسٹی کے ارنسٹ میر نے بنایا تھا کہتا ہے کہ اگر جانداروں کی آبادی کو اپنی باقی نوع سے جغرافیائی حدود کے ذریعہ الگ کر دیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ ان پر مختلف چناؤ کا دباؤ پڑے۔ الگ ہوئی آبادی میں تبدیلیاں جمع ہو سکتی ہیں۔ اگر وہ تبدیلیاں کافی اہمیت کی حامل ہو جائیں کہ الگ ہوئی جماعت اپنی اصل کے ساتھ تولیدی عمل کو سرانجام نہ دے سکے تو الگ ہوئی جماعت تولیدی طور پر الگ ہو کر نئی نوع بننے کی راہ پر گامزن ہوگا۔


image
gSFtCSfdk14ZygIm4mfyDO3q0Pfph2D6qehSeH2hVECaEKZ7TgNSdtE91N_qCVQB5GBBs7m6JWYlDt54Bcyeb609qPTYlSKo06A7HY7esEsNyiM-GejdbYFG7JYMJxybMujnm1j-MHfGi_2EQg

قدرتی چناؤ ارتقائی نظام کے مطالعہ کا سب سے بہترین طریقہ ہے، تاہم حیاتیات دانوں نے دوسرے ممکنہ امکانات کے لئے بھی اپنی دماغ کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ حیاتیات دان مستقل انواع کے آغاز کو شروع کرنے والے یا جانداروں میں پیچیدہ خصلتوں کو پیدا کرنے والے غیر معمولی جینیاتی نظام کے امکان کو بھی جانچتے رہتے ہیں ۔ ایم ہرسٹ میں واقع یونیورسٹی آف میسا چوسٹس سے تعلق رکھنے والی لین مارگولس اور دوسرے ازراہ ترغیب دلائل دیتے ہیں کہ کچھ خلیاتی عضیہ جس طرح توانائی پیدا کرنے والے خیطی ذرّہ (مائٹو کونڈریا ) قدیمی جانداروں کے ہم زیستانہ انضمام کے عمل میں پیدا ہوئے۔ پس سائنس قدرتی چناؤ کی طاقتوں کے علاوہ بھی ممکنہ ارتقائی عمل کو خوش آمدید کہتی ہے۔ باوجود اس کے وہ طاقتیں لازمی طور پر قدرتی ہوتی ہیں؛ ان کو ان پراسرار ذی شعور تخلیقی افعال کے ساتھ جوڑا نہیں جا سکتا جس کا وجود سائنس کی اصطلاح میں غیر ثابت شدہ ہے۔


12۔کسی نے بھی کبھی نئی نوع کو ارتقاء پاتے نہیں دیکھا۔
انواع کا آغاز ممکنہ طور پر نایاب ہوتا ہے اور کئی صورتوں میں صدیوں کا عرصہ لگا دیتا ہے۔ مزید براں نوع کو اس کے بننے کے مرحلے میں شناخت کرنا مشکل ہو سکتا ہے، کیونکہ حیاتیات دان نوع کی تعریف میں ہی اختلافات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی تعریف، میر کی حیاتیاتی انواع کا تصوّر ہے ، جس میں نوع کو قابل تولید الگ آباد ہوئی مختلف گروہ کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے - ایک ایسی جانداروں کی جماعت جو عام طور پر اپنی گروہ سے باہر اپنی نسل نہیں بڑھا سکتی۔ عملی طور پر، اس معیار کا اطلاق ان جانداروں پر کیا جانا مشکل ہو سکتا ہے جو فاصلے، زمین یا سیارے کی وجہ سے الگ ہو گئے ہوں (بلاشبہ رکاز نسل نہیں بڑھاتے)۔ حیاتیات دان اسی لئے عام طور سے ان جانداروں کی طبیعی اور نفسیاتی خصلتوں کا استعمال ان کے نوع کے خاندان سے تعلق کو جوڑنے کے لئے کرتے ہیں۔
9BqDceheso3WkRp0DFsKSoG3m1vVgjq0Wn66FHoX2VAx15VGg_TULEQTiJ0Ch4yISikBiAcsC_EBMl6IMIbaz3WdQc8ELnpbehc9DGIRHqrlh5CZ6y9eiuG-hL3Q09wbZ4jFaT5utzFHzSxftw

خاکہ 12 جارج ڈبلیو سالٹ نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ اگر وہ پھل مکھی کے گروہ کو مختلف ماحول کے حساب سے چن کر ان کو الگ سے ٣٥ نسلوں تک بڑھائیں، تو نئی پیدا ہوئی مکھیاں دوسرے ماحول کی مکھیوں سے عمل تولید کرنے سے انکار کر دیتی ہیں۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر سائنسی علم میں بظاہر پودوں، کیڑوں اور کرم میں انواع کے آغاز سے متعلق رپورٹیں موجود ہیں۔ ان تجربات کی اکثریت میں محققین کے فاعل جاندار مختلف قسم کے چناؤ کا سامنا کرتے ہیں - اعضائے بدن کے اختلافات کے لئے، ملاپ کے برتاؤ کے لئے، رہنے کی ترجیحات کے لئے اور دوسری خصلتوں کے لئے - اور اس میں وہ پاتے ہیں کہ انہوں نے ایسی جانداروں کی آبادی پیدا کر لی ہے جو اپنے علاوہ کسی اور سے عمل تولید نہیں کر سکتی۔ مثال کے طور پر، یونیورسٹی آف میکسیکو سے تعلق رکھنے والے ولیم آر رائس اور ڈیوس میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے جارج ڈبلیو سالٹ نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ اگر وہ پھل مکھی کے گروہ کو مختلف ماحول کے حساب سے چن کر ان کو الگ سے ٣٥ نسلوں تک بڑھائیں، تو نئی پیدا ہوئی مکھیاں دوسرے ماحول کی مکھیوں سے عمل تولید کرنے سے انکار کر دیتی ہیں۔
13۔ ارتقائی کسی عبوری رکاز مثال کے طور پر ایسی مخلوق جو آدھی رینگنے والی ہو اور آدھی پرندہ ہو، کی شناخت نہیں کر سکتے۔
درحقیقت ماہرین رکازیات درمیانے رکازوں کی کافی مثالوں کے بارے میں مفصل طور پر جانتے ہیں جو مختلف تجنیسی جماعتوں کے درمیان موجود ہیں۔ ان میں سب سے مشہور زمانہ اوبی طائر (پرِندوں کی قدیم ترین صُورت و مُتحجرات کی شکل میں مِلتی ہے)ہے جس میں پروں اور مخصوص پرندوں والی ڈھانچے کی ساخت ڈائنوسارس والی خصلتوں کے ساتھ ملتی ہے۔ ایک اور جھنڈ پروں والی رکازی نوع جس میں سے کچھ زیادہ طیوری طرف اور کچھ کم طیوری طرف ہیں وہ بھی پائے گئے ہیں۔ چھوٹے ابتدائی دور کے گھوڑے سے جدید گھوڑوں کے درمیان کے ارتقائی رکازات کے سلسلے بھی پائے گئے ہیں۔ وہیل کے چار پائے والے زمین پر چلنے والے آباؤ اجداد تھے جو ایمبیلو سیٹس اور روڈھو سیٹس کے نام سے جانے جاتے ہیں اور جنہوں نے اس عبوری دور میں مدد کی تھی [ملاحظہ کیجئے "ممالئے جنہوں نے سمندر کو فتح کیا،" از کیٹ وونگ ؛ سائنٹفک امریکہ ، مئی] رکازی خول سے کروڑوں برس پر پھیلے ہوئے مختلف گھونگوں کے ارتقاء کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ شاید ٢٠ یا اس سے زائد انسان نما (جن میں سے تمام ہمارے آباؤ اجداد نہیں تھے) ان خالی جگہ کو پر کرتے ہیں جو لوسی - آسٹرل اوپتھی اور جدید انسانوں کے درمیان موجود ہیں۔
-UzAWv2qNQpjK2aThXbNarU6dqGlZr5suHBhvPrG3orcja4WlJJv_V2K7O-jSRMvW61tLWCa_aNLXS7PyRju5rAEYxEL7Nyuh8iGR8BJVasfwsfV3orA6jRU5p9M3RYeu1SZkAft0qPURAHuNQ

خاکہ 13 اوبی طائر (archaeopteryx) جس میں پروں اور مخصوص پرندوں والی ڈھانچے کی ساخت ڈائنوسارس والی خصلتوں کے ساتھ ملتی ہے۔
تخلیقی ہرچند ان رکازی تحقیق کو رد کرتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ اوّلین پرندہ (آرکیو پٹیرکس) رینگنے والے جانداروں اور پرندوں کے درمیان کوئی کھویا ہوا ربط نہیں ہے - یہ تو صرف معدوم ہوا پرندہ ہے جس میں پرندے اور رینگنے والے جانور دونوں کی خصلتیں موجود تھیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ارتقائی ایسے عجیب، خیالی عفریت نکال کر لے آئیں جنھیں کسی معلوم جماعت میں گروہ بند نہ کیا جا سکتا ہوں۔ یہاں تک کہ اگر تخلیقی کسی رکاز کو دو انواع کے درمیان قبول کرتے ہیں ، تو وہ اس بات پر اسرار کرتے ہیں کہ اس کے درمیان اور پہلے دو کے درمیان موجود دوسرے رکازات بھی دکھائے جائیں۔ یہ تنگ کرنے والی فرمائشیں ایک نہ ختم ہونے والے بحث کو جنم دیتی ہیں اور ہمیشہ نامعقول قسم کا وزن نامکمل رکازی نامچوں پر ڈالتی ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود، ارتقائی مزید واقعاتی شہادتیں سالماتی حیاتیات سے دیتے ہیں۔ تمام جاندار لگ بھگ ایک ہی جین کے شراکتی ہیں، تاہم جیسا کہ ارتقائی پیش گوئی کرتے ہیں کہ ارتقائی رشتے کو مد نظر رکھتے ہوئے اس جین کی ساخت اور اس کی پیداوار میں انواع کے درمیان تنوع ہے۔ ماہر جینیات "سالماتی گھڑی" کے بارے میں بات کرتے ہیں جو گزرے وقت کا حساب رکھتی ہے۔ یہ سالماتی اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طرح سے مختلف جاندار ارتقاء کے دوران عبوری عمل سے گزرے۔
14۔ زندہ جانداروں میں بہت ہی پیچیدہ خصائص ہوتے ہیں - اعضائے بدن، خلیاتی اور سالماتی سطح پر - جو اس وقت کام نہیں کر سکتے اگر وہ کم پیچیدہ ہوتے۔ ایک زیرک نتیجہ صرف یہی نکلتا ہے کہ یہ کسی ارتقائی عمل کی نہیں بلکہ ذہین صورت گری کی پیداوار ہیں ۔
IxkA8uE1dSgblidH6_d0Asvc50QVO7fub7A6Hmr4wRxICvCcjZpszzNKAcuaP-KIkP_lUh5z4OKJQlWjlhQOqpa7GfcBw7FyBcfXjYgKhENZjbPt-kXMxFExq_y3Yx8OAx5D1Vu-fINXqhpcoA

خاکہ 14 ارتقاء کے مخالف جاندار اجسام کی اصغری سطح پر پیچیدہ ساخت کو براہ راست ربانی کام کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
یہ " صورت گری سے متعلق دلیل" ارتقاء پر کئے جانے والے زیادہ تر حالیہ حملوں کی بنیاد ہیں تاہم یہ پرانے دلائل میں سے بھی ایک ہیں۔ ١٨٠٢ء میں عالم دین ولیم پیلے نے لکھا کہ اگر کوئی جیب گھڑی کو میدان میں پاتا ہے، تو سب سے معقول نتیجہ یہی ہوگا کہ کسی نے اس کو یہاں پر پھینکا ہے، کسی قدرتی طاقت نے اسے وہاں نہیں بنایا۔ اسی طرح پیلے دلیل دیتا ہے کہ جاندار اجسام کی پیچیدہ ساخت کو لازمی طور پر براہ راست ربانی کام کا نتیجہ ہونا چاہئے۔ ڈارون نے انواع کے ماخذ میں پیلے کے جواب کے طور پر لکھا: اس نے بیان کیا کہ کس طرح سے چناؤ کی قدرتی طاقت، قدرتی وصف پر عمل کرتی ہیں اور بتدریج مرصع نامیاتی ساختوں میں ارتقائی شکل حاصل کرتی ہیں۔
تخلیقیوں کی نسلوں نے آنکھ کی ساخت کی مثال دے کر ڈارون کو جواب دینا چاہا کہ وہ کبھی نہیں ارتقاء پا سکتی۔ آنکھ کی بصارت کی صلاحیت کا انحصار اس کے حصّوں کے بے عیب ترتیب پر انحصار کرتا ہے، یہ ناقدین کہتے ہیں۔ لہٰذا قدرتی چناؤ کبھی بھی آنکھ کے ارتقائی عمل کے دوران درکار عبوری اشکال کی مدد نہیں کر سکتا – آدھی آنکھ کا کیا فائدہ ہے؟ اس تنقید کا اندازہ لگاتے ہوئے ڈارون نے تجویز کیا کہ "نامکمل آنکھ" بھی فائدے مند ہو سکتی ہے ( جیسا کہ مخلوق کی روشنی کی طرف سمت کرنے میں مدد ) لہٰذا وہ مزید ارتقائی بہتری کے لئے باقی رہ سکتی ہے۔ حیاتیات دان ڈارون کی پر زور تائید کرتے ہیں: محققین نے قدیمی آنکھوں اور روشنی کی حس رکھنے والے اعضاء کی شناخت پورے جانداروں کے خاندان میں کی ہے بلکہ انہوں نے تو آنکھ کی ارتقائی تاریخ کا سراغ بذریعہ جینیاتی تقابل بھی کرلیا ہے۔ (اب ایسا لگتا ہے کہ جانداروں کے مختلف خاندانوں میں، آنکھ خود مختار طور پر ارتقاء پذیر ہوئی۔)
آج ذہین صورت گری کی وکالت کرنے والے اپنے پیش رو سے کافی آگے ہیں، تاہم ان کے اعتراضات اور مقصد بنیادی طور پر کوئی الگ نہیں ہیں۔ وہ ارتقاء پر تنقید کرنے کی کوشش ایسے کرتے ہیں کہ ارتقاء حیات کو اس طرح سے بیان نہیں کرتا جیسا کہ ہمیں معلوم ہے اور پھر وہ زور دیتے ہیں کہ صرف اس کا متبادل یہ ہے کہ حیات ایک غیر شناخت یافتہ ذی شعور خالق نے تخلیق کی۔
15۔حالیہ دریافتیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ خرد پیمانے پر بھی حیات اتنی ہی پیچیدہ ہے جو ارتقاء کے ذریعہ حاصل نہیں ہو سکتی۔
"ناقابل تخفیف پیچیدگی" ڈارون بلیک باکس :ارتقاء کو حیاتیاتی للکار کے مصنف اور لیہائی یونیورسٹی کے مائیکل جے بی کا طبل جنگ ہے۔ "ناقابل تخفیف پیچیدگی" کے حامی بطور روز مرہ کی مثال دینے میں بھی چوہے دان کو پسند کرتے ہیں - ایک ایسی مشین جو اس وقت کام نہیں کرے گی اگر اس کا کوئی بھی حصّہ موجود نہ ہوگا اور اس کے کسی بھی حصّے کی کوئی قدر الگ سے نہیں ہوگی بجز کہ مکمل حصّے موجود ہوں۔ چوہے دان کے بارے میں جو بات سچ ہے وہی بات جرثومے سوطہ(flagellum) پر لاگو ہوتی ہے جو ایک باریک بال نما خلوی جاندار ہے جس کا بنیادی کام دھکیلنا ہے اور جو اطراف میں لگی موٹر کی طرح کام کرتا ہے۔ وہ پروٹین جو سوطہ کو بناتے ہیں انہونی طور سے موٹر کے پرزوں کی شکل میں ترتیب پا گئے ہیں، ایک ایسے آفاقی جوڑوں اور ساختوں میں جس کو انسانی انجنیئر ہی بنا سکتے ہیں۔ اس بات کا امکان کہ اس قسم کی پیچیدہ ترتیب ارتقائی عمل کے درمیان حاصل ہو جائے مجازی طور پر ممکن نہیں ہے، بی دلیل دیتے ہیں اور یہی بات ذی شعور صورت گری کے بارے میں بذات خود بتاتی ہے۔ اسی طرح سے وہ خون کی گٹھلیوں کے نظام اور دوسرے سالماتی نظاموں کے بارے میں دلیل دیتے ہیں۔
اس کے باوجود ارتقائی حیاتیات دانوں کو ان اعتراضات کا جواب دینا ہے۔ سب سے پہلے تو سوطہ کی اس سے سادے اقسام پائی جاتی ہیں جس کا بی ذکر کرتے ہیں لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ تمام وہ اجزاء سوطہ کے لئے موجود ہونے چاہئیں جس سے وہ کام کر سکیں۔ سوطہ کے تمام پیچیدہ حصّے قدرت میں پہلے ہی سے پائے جاتے ہیں، جیسا کہ براؤن یونیورسٹی کے کینتھ آر ملر اور دوسروں نے بیان کیا ہے۔ حقیقت میں سوطہ کی تمام بناوٹ بہت حد تک خلوی جاندار یرسینیاپیسٹس کے مشابہ ہیں، بابلی طاعونی جرثومے کے جو زہر کو خلیہ میں داخل کرتا ہے۔
5oAeRfnNfKCctAjLZRCJQOqVlTs816_NIgHN2j5MGJlAnNGP6eNDqrpaNMowl5U5zy5Gb-h1cGCQRo6OILS7ggZD1KfWaa4pX2pmSBdNatiEFY_l6AajEojoyFTaooTZt20WR6y6BwlX-Syypw

خاکہ 15 ارتقاء کے مخالفین پروٹین سوطہ (flagellum)کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے موٹر کے پرزوں کی شکل میں ترتیب پانے والے آفاقی جوڑ اور ساخت کو کوئی ذی شعور انجنیئر ہی بنا سکتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ سوطہ کے حصّوں کی ساخت جن کی بی کے مطابق کوئی قدر نہیں ہے بجز دھکا دینے کے لئے ، اصل میں کثیر فعل انجام دے سکتے ہیں جو ان کے ارتقائی عمل میں مدد کر سکتے ہیں۔ سوطہ کا حتمی ارتقاء ہو سکتا ہے کہ پیچیدہ حصّوں کے نئے طریقوں سے ہی بنے ہوں جن کا شروع میں اصل مقصد کچھ اور ہو۔ اسی طرح خون کی گٹھلیوں کا نظام ایسے تغیر اور پروٹین کے صراحت کا حصّہ لگتا ہے جو اصل میں ہاضمے میں استعمال ہوتے تھے، سان ڈیاگو میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے رسل ایف ڈولٹل کی تحقیق یہ بتاتی ہے۔ لہٰذا کچھ پیچیدگی جس کو بی ذی شعور صورت گری کا ثبوت کہتے ہیں اصل میں "ناقابل تخفیف " ہے ہی نہیں۔
مختلف قسم کی پیچیدگی – "مخصوص پیچیدگی" - بیلر یونیورسٹی کے ولیم اے ڈیمبسکی کی کتاب "صورت گری انبساط اور کوئی مفت کا کھانا نہیں میں ذی شعور صورت گری کی بنیاد ہے ۔ ان کے دلائل کی روح یہ ہے کہ جاندار اجسام اس قدر پیچیدہ ہیں کہ ایک غیر سمتی، اٹکل عمل کبھی انھیں نہیں بنا سکتا۔ صرف ایک ہی منطقی نتیجہ جو ڈیمبسکی ٢٠٠ برس پہلے پیلے کی طرح نکالتے ہیں وہ یہ کہ کوئی فوق انسان ذی شعور موجود ہے جس نے حیات کو بنایا اور ترتیب دیا۔
ڈیمبسکی کی دلیل میں کافی سقم ہیں۔ ہوشیاری سے اس طرف لگانا کہ توضیح کے میدان میں صرف اٹکل عمل ہیں یا ذہین صورت گری ہے ایک غلط بات ہے۔ غیر خطی نظام اور خلوی خود حرکی پر تحقیق کرنے والے سانتا فی انسٹیٹیوٹ کے محققین اور دیگر نے یہ اس بات کا مظاہرہ کیا ہے کہ سادے غیر ارادی عمل غیر معمولی پیچیدہ نمونے پیدا کر سکتے ہیں۔ لہٰذا جانداروں میں کچھ نظر آنے والی پیچیدگی اس قدرتی مظہر کے ذریعہ ہوتی ہے جس کو ہم بمشکل سمجھ سکیں ہیں۔ تاہم یہ اس سے کہیں مختلف ہے پیچیدگی قدرتی طور پر وقوع پذیر نہیں ہو سکتی۔
"تخلیقی سائنس" اپنے اصطلاح میں ہی تضاد رکھتی ہے۔ جدید سائنس کا ایک مرکزی کلیہ طریقیاتی جبلت ہے - یہ کائنات کو خالص مشاہداتی یا قابل جانچ قدرتی نظام میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔لہٰذا طبیعیات جوہری مرکزے کو مخصوص تصوّر کے ساتھ بیان کرتی ہے جس کا اطلاق مادّے اور توانائی پر ہوتا ہے، اور یہ ان تشریحات کو تجرباتی طور پر جانچتا ہے۔ طبیعیات دان نئے ذرّات جیسے کہ کوارک کو متعارف کرواتے ہیں تاکہ اپنے نظریات کو مفہوم دے سکیں تاہم یہ کام اسی وقت کرتے ہیں جب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ تشریح مناسب طور پر مشاہدہ کئے ہوئے مظہر کو بیان نہیں کرسکتی۔ نئے ذرّات کی کوئی خود مختارانہ جبلت نہیں ہوتی، مزید یہ کہ ان کی تعریف سختی کے ساتھ قید ہوتی ہے کیونکہ نئے ذرّات کو لازمی طور پر پہلے سے موجود طبیعیات کے ڈھانچے میں اترنا ہوتا ہے۔
اس کے ذہین صورت گری کے نظری مبہم ہستیوں کو مدد کے لئے بلاتے ہیں جو آسانی کے ساتھ موجود اسرار کو بغیر کسی قید کے حل کر دیتی ہیں۔ بجائے سائنس طرز فکر کو آگے بڑھانے کے ایسے جوابات اس عمل کو ختم ہی کر دیتے ہیں۔ (کوئی کس طرح سے حکیم قادر مطلق کے وجود کا انکاری ہو سکتا ہے؟)
ذہین صورت گری کم جوابات دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کب اور کیسے ذہین صورت گری نے حیات کی تاریخ میں داخل اندازی کی؟ پہلا ڈی این اے بنا کر؟ پہلا خلیہ بنا کر؟ پہلا انسان بنا کر؟ کیا کبھی نوع کو بنایا گیا یا صرف شروع کی چند ایک بنائی گئیں؟ ذہین صورت گری کی وکالت کرنے والے اکثر ان نکات کا جواب دینے سے کتراتے ہیں۔ وہ تو کوئی کوشش بھی نہیں کرنا چاہتے کہ اپنے ذی شعور تصوّر میں پائے جانے والے تضادات کو درست بھی کرلیں۔ اس کے بجائے وہ دلیل کو خارج کرکے نافذ کرنا چاہتے ہیں - یعنی وہ ارتقائی تشریحات کو گھٹا کر دور کی کوڑی یا نامکمل کہتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ صرف صورت گر کی بنیاد پر موجود متبادل ہے باقی بچتا ہے۔
منطقی طور پر یہ گمراہ کن ہے اگر کسی قدرتی کی توضیح میں کوئی سقم بھی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے ہی ایسے ہی ہیں۔ مزید براں یہ کسی ذہین صورت گری کے نظریہ کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ معقول نہیں بنا دیتی۔ سننے والوں کو خود سے اس بات پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ خالی جگہ کو اپنے آپ پر کر لیں، اور بلاشبہ کچھ لوگ ایسا کرتے بھی ہیں اور اس میں وہ اپنے مذہبی عقائد کو سائنسی تصوّرات سے بدل دیتے ہیں۔
بار بار سائنس بتاتی ہے کہ طریقیاتی جبلت جہالت کو پیچھے دھکیل سکتی ہے، اور بڑھتے ہوئے مفصل اور معلوماتی جوابات ان پہیلیوں کو تلاش کرسکتی ہے جو کسی زمانے میں ناقابل حل سمجھے جاتے تھے: روشنی کی ہئیت، بیماریوں کی وجہ، دماغ کس طرح کام کرتا ہے۔ ارتقائی بھی ان پہیلیوں کے ساتھ وہی کام کر رہے ہیں جو حیاتی دنیا کی ساخت سے متعلق ہیں۔ تخلیقی اپنے نام کی طرح اس سعی میں کسی بھی قسم کے شعوری افادے کو نہیں شامل کر رہے ہیں۔

ماخذ:http://www.scientificamerican.com/article/15-answers-to-creationist/
 

زہیر عبّاس

محفلین
تحریر: قدیر قریشی

ارتقاء کے بارے میں غلط فہمیاں

بدقسمتی سے لوگوں کے ذہنوں میں ارتقاء کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں – ان میں سے کچھ تو ارتقاء کے بارے میں نادانستہ طور پر غلط اطلاعات کی وجہ سے ہیں اور بعض اس وجہ سے کے ارتقاء کے مخالفین دانستہ طور پر بھی لوگوں کو ارتقاء کے بارے مٰں غلط معلومات فراہم کرتے ہیں

اس آرٹیکل میں ان میں سے کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے

1. ارتقاء سائنس نہیں ہے کیونکہ اسے نہ تو پرکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے
2. ارتقاء محض ایک تھیوری ہے
3. ارتقاء کا نظریہ غلط ہے کیونکہ یہ نامکمل ہے اور زندگی کی تمام شکلوں کی مکمل توجیہہ نہیں کرتی
4. فوسلز کے ریکارڈ میں تسلسل کا فقدان ارتقاء کو غلط ثابت کرتا ہے
5. نظریہِ ارتقاء میں سقم ہیں لیکن سائنسدان یہ بات ماننے کو تیار نہیں
6. نظریہِ ارتقاء بحران کا شکار ہے اور معدوم ہورہا ہے کیونکہ سائنس دان اب اس نظریے پر اعتماد نہیں کرتے
7. اکثر ماہرینِ حیاتیات نے ڈارونزم کو مسترد کر دیا ہے اور ڈارون کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے
8. اگر انسان کا ارتقاء بندروں سے ہوا ہے تو اب تک بندر کیوں ہیں – وہ ارتقاء کرکے انسان کیوں نہیں بن گئے
9. پہلا انسان اگر ارتقاء سے بنا تو اس کو پہلی عورت کیسے ملی جس سے انسانوں کی نسل چلی
10. جانداروں کے اعضا اتنے پیچیدہ ہیں کہ وہ ارتقاء کے ذریعے بن ہی نہیں سکتے
11. اساتذہ کو ارتقاء کے مسئلے کے 'دونوں پہلو' اجاگر کرنے چاہیئں اور ارتقاء اور تخلیقیت کو ایک جیسا وقت دینا چاہیئے تاکہ طلباء خود فیصلہ کر سکیں کہ کونسا نظریہ درست ہے
12. ارتقاء کا نظریہ زمین پر زندگی کے آغاز کے بارے میں ہے
13. ارتقاء کا نظریہ یہ کہتا ہے کہ زندگی بے ہنگم طور پر یا اتفاقی طور پر ارتقاء پذیر ہوئی
14. ارتقاء سے جانور ہمیشہ پہلے کی نسبت بہتر بنتے ہیں
15. ایک انفرادی جانور اپنی زندگی میں ارتقاء پذیر ہوسکتا ہے
16. ارتقاء ہمشہ انتہائی سست رفتاری سے ہوتا ہے
17. بہت سے جانور کروڑوں سال سے ایک ہی حالت میں موجود ہیں جو ارتقاء کو غلط ثابت کرتے ہیں
18. جینیاتی انحراف (genetic drift) صرف کم آبادی میں ہی ممکن ہوتا ہے
19. انسان موجودہ دور میں ارتقاء پذیر نہیں ہورہے
20. سپیشیز (انواع) قابلِ شناخت فطری وجود رکھتے ہیں جنہیں ہر شخص آسانی سے پہچان سکتا ہے
21. فطری چناؤ کی وجہ یہ ہے کہ انواع خود ماحول سے موافقت پیدا کرنا چاہتے ہیں
22. فطری چناؤ جانوروں کو ایسا بناتا ہے جیسا ان کے لیے بہتر ہو
23. انسان ماحولیاتی نظام پر منفی اثر نہیں ڈال سکتا کیونکہ جانور خود بخود نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرلیتے ہیں
24. فطری چناؤ جانوروں کی بھلائی کے لیے کوشاں ہے
25. فطرت سے مطابقت وہ جانور رکھتے ہیں جو سب سے مضبوط، صحت مند، سب سے تیز یا/اور سب سے بڑے ہوں
26. فطری چناؤ جانوروں کی آبادی سے صرف انہیں منتخب کرتی ہے جو ماحول سے سب سے زیادہ مطابقت رکھتے ہوں
27. فطری چناؤ ایسے جانور پیدا کرتی ہے جو مکمل طور پر اپنے ماحول سے مطابقت رکھتے ہین
28. جانوروں کی تمام خاصیتیں ماحول سے مطابقت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں
29. ہر خاصیت ایک خاص جین کی وجہ سے ہوتی ہے
30. ہر جین کی صرف دو مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں





1. ارتقاء محض ایک تھیوری ہے جو ابھی تک ثابت نہیں ہوئی

ارتقاء کے بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ محض ایک تھیوری یا نظریہ ہے جو ابھی تک ثابت نہیں ہوا یا یہ کہ ارتقاء محض ایک تھیوری ہے لیکن حقیقت نہیں ہے – اس کی بڑی وجہ یہ ہے لوگ سائنس میں لفظ تھیوری کے معنی سے واقف نہیں ہیں - روزمرہ انگریزی میں تھیوری کا مطلب ہوتا ہے اندازے سے بات کرنا جس کا ثبوت نہ ہو – لیکن سائنس دان اس لفظ کو ان معنوں میں استعمال نہیں کرتے – سائنس کا آغاز ہی حقائق کے مشاہدے سے ہوتا ہے – بہت سے حقائق اور مشاہدات کی روشنی میں سائنس دان ایک مفروضہ (hypothesis) پیش کرتے ہیں جو ان تمام مشاہدات کی توجیہہ کرے – اس مفروضے سے مزید پیش گوئیاں کی جاتی ہیں – سائنسی تھیوری اس وقت بنتی ہے جب کسی مفروضے کی حمایت میں بہت سے مشاہدات ہوں، اس مفروضے کی بنا پر کی گئی تمام پیش گوئیاں صحیح ثابت ہوں اور اس مفروضے کے خلاف ایک بھی مشاہدہ موجود نہ ہو – چنانچہ ایک تھیوری بہت سے مشاہدات کو ایک منطقی توجیہہ کی لڑی میں پرو دیتی ہے - ارتقاء کی تھیوری ان تمام شرائط کو پورا کرتی ہے اور حیاتیات کے تمام مشاہدات کی وسیع توجیہات پیش کرتی ہے – یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ارتقاء ایک حقیقت بھی ہے اور ایک نظریہ بھی – ارتقاء کی حقیقت وہ تمام مشاہدات ہیں جو پچھلے دو سو سے زیادہ سالوں سے کیے جارہے ہیں جن میں فوسلز، مختلف جانوروں کی جسمانی ساخت کا تقابلی جائزہ، اور جینیات شامل ہیں – ارتقاء کا نظریہ ان تمام حقائق کی توجیہہ کرتا ہے – ارتقاء کے علاوہ ایسی کوئی تھیوری موجود نہیں جو حیاتیات کے ضمن میں کیے گئے تمام مشاہدات کی ایک توجیہہ پیش کرے


2. ارتقاء کا نظریہ غلط ہے کیونکہ یہ نامکمل ہے اور زندگی کی تمام شکلوں کی مکمل توجیہہ نہیں کرتا

یہ غلط فہمی بھی سائنس کے نظریات کے بارے میں کم علمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے – نظریہِ ارتقاء کی طرح سائنس کے دوسرے نظریات بھی وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے رہتے ہیں – جیسے جیسے نئے مشاہدات ہوتے ہیں اور نئی دریافتیں ہوتی ہیں کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ میں اضافہ ہوتا ہے - نئے مشاہدات کی روشنی میں سائنسی نظریات میں ترامیم کی جاتی ہیں

ہمیں کائنات کی ہر شے کے بارے میں مکمل علم نہیں ہے – اسی طرح ارتقاء کے حوالے سے بھی ہمیں ہر شے کا مکمل علم نہیں ہے - زمین پر زندگی کی تاریخ کے بارے میں البتہ ہمیں بہت کچھ معلوم ہے – ہم جانتے ہیں کہ جانوروں کی نسلیں وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح بدلتی ہیں اور ان تبدیلیوں کے محرکات کیا ہیں – مستقبل میں اس بارے میں ہمارے علم میں مزید اضافہ ہوگا – اگرچہ ارتقاء کا نظریہ زندگی کے بارے میں ہر ممکن چیز کا احاطہ نہیں کرتا لیکن اس نظریے کی مدد سے زندگی کے بارے میں بہت سی گتھیاں سلجھائی جاچکی ہیں مثلاً بیکٹیریا میں اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت، پھولوں اور انہیں pollinate کرنے والے حشرات کے درمیان مطابقت وغیرہ – ہزاروں تجربات میں ارتقاء کا نظریہ درست ثابت ہوا ہے اور آج تک اسے غلط ثابت نہیں کیا جاسکا


3. فوسلز کے ریکارڈ میں تسلسل کا فقدان ارتقاء کو غلط ثابت کرتا ہے

اگرجہ یہ درست ہے کہ فوسلز میں تسلسل نہیں پایا جاتا اور ان کی تاریخ میں شگاف (gaps) پائے جاتے ہیں لیکن پچھلے تیس چالیس سالوں میں بہت سے فوسلز ملے ہیں جن سے ان میں سے کئی gaps پر ہوچکے ہیں لہٰذا اس امر کو ارتقاء کے نظریہ کی تردید کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا - اسے اس طرح سمجھیے کہ اگر کسی ساحل پر آپ کو پاؤں کے کچھ نشان ملیں تو آپ نہ صرف یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ کوئی شخص یہاں سے گذرا ہے بلکہ یہ بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ شخص کس سمت میں گیا ہے – اس کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کو اس شخص کے قدموں کا ہر نشان میسر ہو – اگر کوئی شخص یہ اصرار کرے کہ جب تک آپ کو قدموں کے تمام نشان میسر نہ ہوں تب تک آپ کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتے تو آپ اس شخص کی ذہانت پر یقناً شک کریں گے

یہ ذہن میں رکھیے کہ سائنس میں نظریات کو پیش گوئیاں کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اگر یہ پیش گوئیاں غلط ثابت ہوں تو نظریات میں ترمیم کی ضرورت پیش آتی ہے – اگر ارتقاء کا نظریہ درست ہے تو ہمیں بہت سے انتقالی فوسلز ملنے چاہئیں جو دو انواع کے درمیان کے انتقال (transition) اور اجداد سے اگلی پشتوں کے انتقال کو ظاہر کریں – ارتقاء کی ایسی پیش گوئیاں ہزاروں دفعہ ثابت ہوچکی ہیں اور ہزاروں انتقالی فوسلز دریافت کیے جاچکے ہیں - دیکھنے میں آتا ہے کہ ہر روز نت نئے فوسلز دریافت ہوتے ہیں – اس کی ایک مثال ٹک ٹالک ہے جو کہ مچھلی اور amphibians (جو کہ پانی اور خشکی دونوں میں رہ سکتے ہیں مثلاً مگرمچھ، مینڈک وغیرہ) کے درمیان کی کڑی ہے – سائنس دانوں نے نہ صرف یہ پیش گوئی کی کہ اس قسم کے جانور کا فوسل موجود ہونا چاہئے بلکہ اس کی جسمانی ساخت کی بھی پیش گوئی کی اور یہ بھی بتایا کہ یہ فوسل کس قسم کی فارمیشن (یعنی زمین کی پرتوں کی ساخت) میں پایا جانا چاہئے – اس پیش گوئی کی بنا پر سائنس دانوں نے کینیڈا میں ایک فارمیشن کی کھدائی کی اور وہاں پیش گوئی کے عین مطابق ٹک ٹالک نامی جانور کے فوسلز ملے

ہر مرنے والے جانور کا جسم فوسل میں تبدیل نہیں ہوتا – فوسل بننے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جانور مرنے کے فوراً بعد مٹی میں دب جائے تاکہ اس کا جسم اور ہڈیاں محفوظ رہیں – تاہم فطرت میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی جانور مرے اور خونخوار جانور اسے فوراً ہی نہ کھا جائیں – جو لاشیں بچ رہیں وہ مردار خور جانور چٹ کر جاتے ہیں اور جو ان سے بھی بچ رہیں انہیں بیکٹیریا نیست و نابود کردیتے ہیں – ایسے میں کسی جانور کی لاش بچ رہنا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے – جو جانور زمین میں دب کر فوسل بن گئے ان تک کسی انسان کا پہنچ جانا بھی ایک معجزے سے کم نہیں – دنیا کے ہر کونے سے فوسلز ملے ہیں جو کہ زمین کی سطح سے لے کر ہزاروں فٹ گہرے کنووں اور کانوں میں پائے گئے ہیں – زیادہ تر فوسلز اتفاقاً ملتے ہیں (عموماً کانیں معدنیات کے لیے کھودی جاتی ہیں فوسلز ڈھونڈنے کے لیے نہیں) –کانوں میں موجود 99 فیصد سے زیادہ فوسلز غالباً دھماکوں اور کھدائی کے دوران ضائع ہوجاتے ہیں – فوسلز کو پہچاننے کے لیے ایک ماہر paleontologist کی ضرورت ہوتی ہے جن کا کھدائی کے موقع پر موجود ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے - اس کے علاوہ ایسے جانور جن کی ہڈیاں نہیں ہوتیں ان کے فوسلز بننے کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے – یہی وجہ ہے کہ کیمبرین دور سے پہلے کے جانوروں کے فوسلز بہت کم ملتے ہیں (ان جانوروں کے جسم میں ہڈیاں نہیں تھیں) – چنانچہ فوسلز کے ریکارڈ میں کچھ شگاف ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں – ویسے بھی جینیات کی سائنس کے بعد اب ارتقاء کے حوالے سے فوسلز کی اہمیت بہت کم رہ گئی ہے


4. ارتقاء سائنس نہیں ہے کیونکہ اسے نہ تو پرکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے

اس غلط فہمی کی وجہ لوگوں کے ذہن میں سائنس کے حوالے سے دو غلط تصورات ہیں – ایک تو یہ کہ سائنس صرف لیبارٹری میں تجربات سے آگے بڑھتی ہے اور دوسرا یہ کہ ارتقاء کی سائنس کو لیبارٹری میں نہیں پرکھا جاسکتا – ارتقاء کے علاوہ بھی سائنس کے بہت سے شعبے ایسے ہیں جن میں لیبارٹری میں تجربہ کرنے کا تصور موجود نہیں – کاسمولوجی کے ماہرین کائنات پر ریسرچ کرتے ہیں لیکن کسی کہکشاں کا لیبارٹری میں تجزیہ نہیں کرسکتے – جیالوجسٹ ماضی میں جا کر زمین کی ہئیت نہیں دیکھ سکتے لیکن اس پابندی سے ان دونوں شعبوں میں ترقی کی رفتار متاثر نہیں ہوتی – سائنس دان مشاہدے اور تقابلی جائزے سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں –ارتقاء کے ماہرین بھی زمین پر زندگی کے ارتقاء کے بارے میں تقابلی مشاہدات سے بہت کچھ سیکھ پاتے ہیں – ہم لیبارٹری میں ایسے تجربات تو نہیں کرسکتے جن سے ہم یہ جان سکیں کہ ڈائنوسارز کا ارتقاء کیسے ہوا لیکن ہم لیبارٹری میں اس بات کا تجزیہ یقیناً کرسکتے ہیں کہ جینز میں میوٹیشن کیونکر ہوتی ہے اور اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں – (جیسے جیسے ٹیکنالوجی بہتر ہورہی ہے ویسے ویسے ہم ڈائنوسارز کے فوسلز سے مزید معلومات حاصل کر رہے ہیں – ڈائنوسارز کے کچھ فوسلز میں نرم ٹشو بھی پائے گئے ہیں جن سے ڈی این اے کے ٹکڑے حاص کیے گئے ہیں جن کا تجزیہ کیا جارہا ہے) - ایسے جانوروں کا مشاہدہ کرکے جن کی زندگی کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے (جیسے بیکٹیریا یا پھلوں کی مکھیاں) ہم نہ صرف ارتقاء کو ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں بلکہ ارتقاء کی سمت کو کنٹرول بھی کرسکتے ہیں – اس کے علاوہ ماہرینِ حیاتیات نے فطرت میں (یعنی لیبارٹری سے باہر) کئی پودوں اور جانوروں کے ارتقاء کا مشاہدہ کیا ہے


5. نظریہِ ارتقاء میں سقم ہیں لیکن سائنسدان یہ بات ماننے کو تیار نہیں

99٪ سے زیادہ ماہرینِ حیاتیات ارتقاء کی سائنس کو تسلیم کرتے ہیں – یہ دعویٰ غلط ہے کہ سائنس دان ارتقاء کو تسلیم نہیں کرتے – کچھ سائنس دان یقیناً ایسے ہیں جو ارتقاء کو اپنے عقائد سے متصادم سمجھتے ہیں لہٰذا اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں لیکن ایسے سائنس دانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے – یہ سائنس دان ارتقاء کی مخالفت ضرور کرتے ہیں لیکن ارتقاء کے خلاف کبھی بھی کوئی مشاہدہ یا کوئی سائنسی سٹڈی آج تک شائع نہیں کر پائے

سائنس دانوں نے ارتقاء کے مخالفین کے بہت سے دعووں کا تجزیہ کیا ہے اور ہر دفعہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ دعوے غلط ہیں اور ارتقاء کے بارے میں غلط فہمیوں کا نتیجہ ہیں – بعض اوقات ارتقاء کے خلاف 'ثبوت' جان بوجھ کر توڑ موڑ کر پیش کیے جاتے ہیں تاکہ سائنس سے ناآشنا لوگوں کو ارتقاء سے متنفر کیا جاسکے – جیسے جیسے نئے شواہد ملتے ہیں ویسے ویسے ارتقاء کا نظریہ بھی بہتر سے بہتر ہورہا ہے لیکن اس تبدیلی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ نظریہ غلط ہے – سائنس کے میدان میں نظریات کا سخت مقابلہ ہوتا ہے اور یہی مقابلہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ غلط نظریات کو رد کردیا جائے گا یا ان میں ترمیم کر کے انہیں درست کر لیا جائے گا

اگر ارتقاء میں سقم موجود ہیں تو ارتقاء کے مخالفین کے لیے بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ اس پر سائنسی پیپرز چھاپے جائیں جن میں مشاہدات کے ساتھ یہ دکھایا جائے کہ ارتقاء کی پیش گوئیاں غلط ہیں – ارتقاء کے مخالفین یہ سکہ بند سائنسی طریقہ استعمال نہیں کرتے بلکہ صرف ایسے فورم پر ارتقاء کے خلاف مضامین چھاپتے ہیں جہاں سائنس دان نہیں بلکہ عوام موجود ہوں – عوام کی اکثریت سائنس کے بنیادی اصولوں اور طریقہِ کار سے نابلد ہوتی ہے اور ان مضامین کی فاش غلطیوں کا احاطہ نہیں کر پاتی


6. نظریہِ ارتقاء بحران کا شکار ہے اور معدوم ہورہا ہے کیونکہ سائنس دان اب اس نظریے پر اعتماد نہیں کرتے

ارتقاء کا نظریہ کسی بحران کا شکار نہیں ہے – سائنس دان نظریہِ ارتقا کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے زندگی کی پیچیدگی اور تنوع کی بہترین توجیہہ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس کے شواہد بے اندازہ ہیں، یہ تمام حیاتیاتی مظاہر کی توجیہہ کرتا ہے اور اس کی تمام پیش گوئیاں صحیح ثابت ہوئی ہیں – سائنس دان اب اس بات پر بحث نہیں کرتے کہ یہ نظریہ صحیح ہے یا غلط کیونکہ تمام سائنس دان اسے درست تسلیم کرتے ہیں –اس بات پر البتہ ضرور بحث ہوتی ہے کہ ارتقاء کے محرکات کیا تھے اور مختلف حالات میں اس کے کیا کیا نتائج نکلے – ارتقاء کے مخالفین بعض اوقات اس بحث سے یہ غلط نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ سائنس دان ارتقاء کے نظریے پر متفق نہیں ہیں – ارتقاء ایک مضبوط نظریہ ہے اور دنیا بھر میں سائنس دان اور فلاسفر اسے سائنسی نظریے کے طور پر ہی تسلیم کرتے ہیں


7. اکثر ماہرینِ حیاتیات نے ڈارونزم کو مسترد کر دیا ہے اور ڈارون کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے

نظریہِ ارتقاء اس لیے درست نہیں مانا جاتا کہ اسے ڈارون نے پیش کیا بلکہ اس لیے درست مانا جاتا ہے کہ بہت سے مشاہدات اس نظریے کی تائید کرتے ہیں اور اب تک ایک بھی ایسا مشاہدہ نہیں ہے جو واضح طور پر اسے غلط ثابت کرے - ڈارون کو گذرے ایک سو سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے - اس دوران سائنس نے حیاتیات کے میدان میں بہت ترقی کی ہے – آج کل ہم وراثت کے قوانین کو جینیات کے تناظر میں بخوبی سمجھتے ہیں، فوسل ریکارڈ کی تاریخ کا صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں اور مالیکیول کی سطح پر ارتقاء کے اثرات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں – ڈارون شاید اس قسم کی ترقی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا – اس تمام تر ترقی کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا مشاہدہ نہیں کیا گیا جو فطری چناؤ کے نظریے کی نفی کرے - اس کے برعکس، اس ترقی نے ارتقاء کے نظریے کو انتہائی مضبوط بنیادوں پر استوار کردیا ہے – سائنس کی ترقی کی وجہ سے سائنسی نظریات کی مزید توجیہہ، ترمیم، اور پھیلاؤ ایک فطری عمل ہے اور یہ عمل نظریہِ ارتقاء میں بھی جاری ہے

ڈارون کے کچھ مفروضات غلط بھی ثابت ہوئے ہیں جنہیں جدید نظریہِ ارتقا میں درست کر لیا گیا ہے – مثال کے طور پر ڈارون کو جینیات کا علم نہیں تھا کیونکہ جینیات کا علم ڈارون کے مرنے کے سالوں بعد دریافت کیا گیا - چنانچہ ڈارون یہ نہیں سمجھ پایا کہ اوصاف ماں باپ سے اگلی نسل تک کیسے منتقل ہوتے ہیں – اس کا خیال تھا کہ ماں باپ جو کچھ اپنی زندگی میں سیکھتے ہیں وہ علم بچوں میں بھی منتقل ہوجاتا ہے – تاہم اب ماہرین یہ جانتے ہیں کہ یہ تصور غلط ہے – ماں باپ اپنی زندگی میں جو کچھ سیکھتے ہیں اس سے ان کے جینز میں کوئی تغیر نہیں آتا چنانچہ یہ علم بچوں میں منتقل نہیں ہوسکتا – لہٰذا ہم ڈارون کی یہ توجیہہ مسترد کر سکتے ہیں کہ ماں باپ کا علم بچوں میں خود بخود منتقل ہوجاتا ہے


8. اگر انسان کا ارتقاء بندروں سے ہوا ہے تو اب تک بندر کیوں ہیں – وہ ارتقاء کرکے انسان کیوں نہیں بن گئے
پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھیے کہ انسان کا ارتقاء بندروں سے نہیں ہوا – آج کل جو بندر موجود ہیں (خاص طور پر چمپنزی اور بونوبو بسل کے بندر) ان کا اور انسان کا ارتقاء ایک ایسے ape کی نسل سے ہوا ہے جو اب ناپید ہے – اس نسل کی کچھ آبادی افریقہ کے میدان میں باقی آبادی سے کٹ گئی اور آہستہ آہستہ ارتقاء کرتی ہوئی لاکھوں سالوں میں موجودہ انسان کی شکل اختیار کرگئی جبکہ باقی نسل ارتقاء کرتے کرتے موجودہ دور کے بندر بن گئے – ان دونوں آبادیوں پر فطری چناؤ کے دباؤ مختلف تھے جس وجہ سے ان کا ارتقاء مختلف طریقے سے ہوا -

اگلے لاکھوں کروڑوں سالوں میں یہ بندر کس طرح سے ارتقاء پذٰر ہوں گے اس کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ مستقبل میں ان پر چناؤ کے کیسے دباؤ ہوں گے – چونکہ اس بات کی پیش گوئی ناممکن ہے کہ لاکھوں سال بعد کسی بھی جانور کی نسل پر کس قسم کے سیلیکشن پریشرز ہوں گے اس لیے یہ کہنا ناممکن ہے کہ آج سے لاکھوں سال بعد یہ بندر کس قسم کے جانور ہوں گے – یہ بات البتہ کہی جاسکتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی حیئت بدلتی رہے گی

9. پہلا انسان اگر ارتقاء سے بنا تو اس کو پہلی عورت کیسے ملی جس سے انسانوں کی نسل چلی
ارتقاء ایک فرد میں نہیں ہوتا بلکہ ایک آبادی میں ہوتا ہے – اگر آبادی پر سیلیکشن پریشر زیادہ ہو تو وہ آبادی زیادہ تیزی سے ارتقاء پذیر ہوتی ہے - جو افراد بدلتے ہوئے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے وہ زیادہ بچے پیدا نہیں کر پاتے جبکہ جو افراد ماحول سے مطابقت رکھتے ہیں (خواہ وہ نر ہوں یا مادہ) وہ زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں اور ان کی نسل بڑھتی چلی جاتی ہے – قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ نر اور مادہ دونوں ارتقاء پذیر ہورہے ہوتے ہیں چنانچہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی مادہape نے ایک دن اچانک ایک انسان کو جنم دے دیا ہو – جس طرح کوئی شخص یکدم جوان نہیں ہوتا بلکہ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کا سفر دھیرے دھریے طے کرتا ہے اسی طرح ارتقاء بھی دھیرے دھیرے ہوتا ہے – چنانچہ انسان کے ارتقاء کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صرف ایک جنس موجود ہو دوسری نہ ہو

10. جانداروں کے اعضا (مثلاً آنکھیں) اتنے پیچیدہ ہیں کہ وہ ارتقاء کے ذریعے بن ہی نہیں سکتے
یہ درست ہے کہ سطحی طور پر آنکھیں ایک ایسا معجزہ معلوم ہوتی ہیں جن کے بارے میں یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ ارتقاء کے نتیچے میں وجود میں آسکتی ہیں – نہ صرف آنکھوں کی اپنی ساخت انتہائی پیچیدہ ہے بلکہ آنکھوں سے دماغ کا رابطہ اور دماغ میں آںکھوں سے پیدا ہونے والے سگنل کی پراسسنگ ایک مکمل نظام ہے جو بعض لوگوں کے مطابق حادثاتی طور پر ظہور پذیر نہیں ہوسکتا – اس سوچ میں سقم یہ ہے کہ ہم انسانی آنکھ کو ایک مکمل ارتقاء شدہ حالت میں دیکھ رہے ہیں لیکن ان سینکڑوں درجات کو نہیں دیکھ رہے جن سے انسانی آنکھ ارتقاء کے سفر کے دوران گذری ہے – آج سائنس دان لاکھوں سپیشیز کے بارے میں جانتے ہیں جن میں کچھ کی آنکھیں انتہائی سادہ ہیں، کچھ کی انتہائی پیچیدہ اور بہت سے جانوروں کی آنکھیں پیچیدگی کے لحاظ سے ان دونوں کے درمیان کہیں واقع ہیں – سب سے سادہ آنکھیں ان کیڑوں یا ورمز (worms) کی ہیں جن کی جلد کے کچھ حصے روشنی کو محسوس کر سکتے ہیں لیکن واضح شبیہہ نہیں بنا سکتے – یہ جانور صرف دن اور رات کا فرق محسوس کرسکتے ہیں – ان سے کچھ زیادہ پیچیدہ آنکھیں ایسے جانوروں کی ہیں جن میں ان جلد کے ان حصوں میں گڑھے ہیں جو روشنی محسوس کرسکتے ہیں اور سادہ سا اعصابی نظام ہے جو روشنی کی سمت کا تعین کر سکتا ہے – مزید کچھ جانوروں میں ان گڑھوں کے اوپر ایک چھوٹا سا سوراخ ہے جس میں سے روشنی گذر کر گڑھوں پر موجود photo sensitive cells پر پڑتی ہے – ان جانوروں کی آنکھیں گویا سادہ کیمرے کی مانند ہیں - مزید کچھ جانور ایسے ہیں جن میں اس سوراخ میں لینز بھی موجود ہے اور یہ لینز روشنی کو ریٹنا پر فوکس کرتا ہے - اسی طرح بہت سے جانور ہیں جن میں مختلف پیچیدگی کی آنکھیں پائی جاتی ہیں – ان تمام جانوروں کو سٹڈی کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آنکھ کا ارتقاء ان مختلف مرحلوں سے گذر کر ہی ہوا ہے چنانچہ یہ کہنا کہ پیچیدہ اعضا کا ارتقاء ممکن نہیں ان تمام حقائق کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے

آنکھ کی طرح انسان کے دیگر اعضا کے ارتقائی مرحلے بھی مختلف جانوروں میں دیکھے جاسکتے ہیں – ان میں نظامِ انہضام، گردے، پھیپھڑے، سونگھنے اور چکھنے کی حسیات وغیرہ سب شامل ہیں


11. اساتذہ کو ارتقاء کے مسئلے کے 'دونوں پہلو' اجاگر کرنے چاہیئں اور ارتقاء اور تخلیقیت کو ایک جیسا وقت دینا چاہیئے تاکہ طلباء خود فیصلہ کر سکیں کہ کونسا نظریہ درست ہے

چونکہ نظریہِ ارتقاء کے 'دونوں پہلو' (یعنی اس کی حمایت میں دلائل اور اس کی مخالفت میں دلائل) سائنس کی رو سے ایک جیسے نہیں ہیں اور سائنس ارتقاء کو مکمل طور پر سپورٹ کرتی ہے تو پھر سائنس کی تعلیم میں ارتقاء کے مخالفیں کے اعتراضات پڑھانے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا – جو نظریات سائنس غلط ثابت کرچکی ہے انہیں سائنس کی تعلیم میں شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں – ایک زمانہ تھا جب زمین کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا – اب ہم یہ جانتے ہیں کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے – اگر کوئی شخص اپنے عقائد کی بنا پر دعویٰ کرے کہ زمین ہی کائنات کا مرکز ہے اور پھر اصرار کرے کہ زمین کی حیثیت کے حوالے سے 'دونوں پہلو' طلباء کو پڑھانے چاہئیں تاکہ طلبہ خود یہ فیصلی کریں کی کون سا نظریہ صحیح ہے تو کیا ہم اس کی بات مان لیں گے؟

سائنس کی تعلیم میں عقائد کا عمل دخل نہیں ہونا چاہئے – طلباء کو ہر سائنسی نظریے کا جائزہ سائنس کے تناظر میں ہی لینا چاہیے – مثال کے طور پر طلباء کو اس بات پر بحث کرنی چاہیے کہ پرندے زندگی کے درخت میں ڈائنوسارز سے پہلے ہی ایک الگ شاخ بن چکے تھے یا ڈائنوسارز کے بعد بنے - اس کے برعکس سائنسی نظریات کا عقائد کے تناظر میں جائزہ لینا سائنس کی تعلیم کہ حصہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ایسا کرنا طلباء کو ذہنی الجھنوں میں ڈال دے گا – اس کے علاوہ اگر ہم عقائد کو سائنسی تعلیم میں شامل کر لیں تو لامحالہ یہ سوال اٹھے گا کہ کس کے عقائد کو شامل کیا جائے اور کس کے عقائد کو غلط کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے – چونکہ عقائد کے پرکھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اس لیے اس سوال کا جواب ناممکن ہے


12. ارتقاء کا نظریہ زمین پر زندگی کے آغاز کے بارے میں ہے

نظریہِ ارتقاء میں اس بات پر ضرور بحث ہوتی ہے کہ زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا ہوگا (مثلاً یہ کہ آیا زندگی سمندر کی گہرائیوں میں موجود گرم پانی کے چشموں میں پیدا ہوئی، کونسے حیاتیاتی مالیکیول پہلے وجود میں آئے وغیرہ) لیکن یہ نظریہِ ارتقا کا بنیادی نکتہ نہیں ہے – ارتقائی حیاتیات بنیادی طور پر اس بات پر بحث کرتی ہے کہ آغاز کے بعد زندگی میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں – اس بات سے قطع نظر کہ زندگی کا آغاز کیسے ہوا، آغاز کے بعد زندگی بہت سی شاخوں میں تقسیم ہوگئی اور ارتقاء کی زیادہ تر توجہ ان محرکات پر ہے جن کو وجہ سے زندگی پھلی پھولی


13. ارتقاء کا نظریہ یہ کہتا ہے کہ زندگی حادثاتی یا اتفاقی طور پر ارتقاء پذیر ہوئی

اتفاقی یا حادثاتی محرکات ارتقاء کا حصہ ہیں جو زندگی کی تاریخ پر مختلف طرح سے اثر انداز ہوتے رہے ہیں – البتہ ارتقاء کے کچھ اہم پہلو حادثاتی نہیں ہیں اور ان کی وجہ سے ارتقاء مجموعی طور پر حادثاتی نہیں ہے – مثال کے طور پر فطری چناؤ کے عمل کو ہی لیجیے جس کی وجہ سے جانوروں میں موافقت (adaptation) پیدا ہوتی ہے – جانوروں کے وہ خصائص جن کی وجہ سے جانور اپنے ماحول میں بہتر طور پر فِٹ ہوتا ہے (مثلاً پھول اور ان کا پولن ڈھونے والے کیڑوں مکوڑوں کے آپسی تعلقات، جانوروں کے مدافعتی نظام کا جراثیم کے خلاف مشترکہ محاذ، چمگادڑوں کا ایکولوکیشن کے ذریعے راستہ ڈھونڈنا وغیرہ) موافقت کہلاتا ہے – یہ تمام مطابقتیں حادثاتی طور پر پیدا نہیں ہوگئیں بلکہ اتفاقی اور باترتیب (یعنی غیراتفاقی) محرکات کی مجموعی پیداوار ہیں – میوٹیشنز کا عمل یقیناً اتفاقی ہے جو کہ جانوروں میں جینیاتی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے لیکن ان میں سے بہتر تبدیلیوں کا چناؤ اتفاقی نہیں ہے – یہ فطری چناؤ ایسی تبدیلیوں کو ترجیح دیتا ہے جن کی وجہ سے جانور دوسروں کی نسبت بہتر طریقے سے بچ رہنے اور بچے پیدا کرنے کے قابل ہوں (مثال کے طور پر ایسی تبدیلیاں جو جراثیم کے خلاف بہتر مدافعت پیدا کریں یا جانور کو رات کے وقت دیکھنے میں مدد دیں) – بہت سی پشتوں سے جمع ہوتی ایسی چھوٹی چھوٹی اتفاقی میوٹیشنز اور ان میں سے بہتر تبدیلیوں کے چناؤ کی وجہ سے جانوروں میں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ماحول سے پیچیدہ موافتت پیدا ہوتی ہے – یہ کہہ دینا کہ ارتقاء محض اتفاقات کا نتیجہ ہے اس پیچیدہ عمل کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے -

14. ارتقاء سے جانور ہمیشہ پہلے کی نسبت بہتر بنتے ہیں

ارتقاء کا ایک اہم جزو فطری چناؤ ہے جس کی وجہ سے عمومی طور پر جانوروں میں اپنے زندہ رہنے اور بچے پیدا کرنے کی صلاحیت بہتر ہوجاتی ہے – لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ارتقاء کا مقصد جانوروں میں مسلسل ترقی پیدا کرنا ہے – اس کی بہت سی وجوہات ہیں – فطری چناؤ کامل مطابقت نہیں پیدا کرتا بلکہ محض ایسی خصوصیات عطا کرتا ہے جن سے جانور دوسروں کی نسبت قدرے بہتر طور پر زندہ رہ سکتے ہیں – یہ ضروری نہیں کہ جانوروں کی نسل کے برقرار رہنے کے لیے ان میں مسلسل تبدیلیاں ہوتی رہیں – بہت سے جانور کروڑوں سالوں سے موجود ہیں اور ان میں محض معمولی تبدیلیاں ہوئی ہیں – ان میں فنگس (fungus)، شارک، پوسم، اور کرے مچھلیاں (crayfish) شامل ہیں

اس کے علاوہ ارتقاء کے اور بھی طریقہِ کار ہیں جن میں ضروری نہیں کہ موافقت ہی پیدا ہو – میوٹیشن، جانوروں کا ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونا، اور جینیاتی انحراف (genetic drift) کی وجہ سے یہ عین ممکن ہے کہ ایسی تبدیلیاں پیدا ہوں جو جانور کی نسل کے لیے مضر ہوں یا ان کی موافقت میں کمی کردیں – مثال کے طور پر افریقہ کے ایک قبیلے کے لوگوں میں ہنٹنگٹن کی بیماری بہت زیادہ پائی جاتی ہے – اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قبیلہ ایک زمانے میں قحط کی وجہ سے تقریباً معدوم ہوگیا تھا – جو چند لوگ بچ رہے ان میں اتفاق سے اس بیماری کی میوٹیشن موجود تھی – قحط کے خاتمے کے بعد اس قبیلے کی آبادی چند پشتوں میں بحال ہوگئی لیکن ان میں سے اکثر لوگوں کے جینز میں وہ میوٹٰیشن پائی جاتی ہے جو اس مہلک بیماری کا باعث بنتی ہے

حقیقت یہ ہے کہ ارتقاء کے حوالے سے 'ترقی' کا تصور ہی غلط ہے – موسم کی تبدیلی، دریاؤں کا رخ بدل لینا، نئے جانوروں کی آمد جو غذا ڈھونڈھنے میں موجودہ جانوروں کا مقابلہ کریں، اور ایسے جانور جن کے خصائص ایک مخصوص ماحول کے لیے تو ٹھیک ہوں لیکن تبدیل شدہ ماحول میں نقصان دہ ثابت ہوں ایسی مثالیں ہیں جن میں ارتقاء تنزلی کا باعث بن سکتا ہے –اگر ہم ایک علاقے اور ایک ماحول پر ہی توجہ مرکوز رکھیں تو بھی 'ترقی' کا تصور مختلف نکتہ ہائے نظر سے مختلف ہوسکتا ہے – ایک پودے کے لیے ترقی کا بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ وہ فوٹو سینتھیسیس کے عمل کو بہتر بنائے – ایک مکڑی کے نکتہِ نظر سے اپنے شکار کو زہر سے جلد مار دینا ترقی ہوگا، انسان کے لیے عقل کا استعمال ترقی ہے – بعض اوقات ہم انسان کی عقل کو ہی ارتقائی ترقی کی معراج سمجھ بیٹھتے ہیں جو کہ درست نہیں – ارتقاء زندگی کا پورا درخت ترتیب دیتا ہے اور انسان اس درخت کی محض ایک چھوٹٰ سی شاخ ہے


15. ایک انفرادی جانور اپنی زندگی میں ارتقاء پذیر ہوسکتا ہے

ارتقاء کی بنیاد یہ ہے کہ جانوروں کی کل آبادی میں وقت کے ساتھ ساتھ جینیاتی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں – ایک فرد ارتقاء نہیں کرتا بلکہ کل آبادی میں ارتقاء ہوتا ہے – ایک فرد کے جسم میں وقت کے ساتھ جو تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ ارتقاء کے حوالے سے نہیں بلکہ عمر کے ساتھ ہونے والی تبدیلیاں ہوتی ہیں (مثلاً ایک نر پرندہ جب بلوغت کو پہنچتا ہے تو اس کے پروں میں بہت سے رنگ ابھر آتے ہیں) یا یہ تبدیلیاں ماحول کے زیرِ اثر ہوسکتی ہیں (مثال کے طور پر ایک پرندے کے پر کسی بیماری کی وجہ سے جھڑ سکتے ہیں) لیکن یہ تبدیلیاں جینز میں تبدیلی کی وجہ سے نہیں ہوتیں اس لیے یہ تبدیلیاں ارتقاء کے عمل کا حصہ نہیں بنتیں – جینز میں نئی تبدیلیاں اتفاقی میوٹیشنز کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور بہت سی پشتوں میں فطری چناؤ کی وجہ سے ان میں سے کچھ ایسی میوٹیشنز جو اس جانور کی نسل کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں مدد دیتی ہیں قائم رہتی ہیں اور آہستہ آہستہ پوری آبادی صرف ایسے افراد پر ہی مشتمل رہ جاتی ہے جس میں یہ کارآمد میوٹیشنز ہوں


 

زہیر عبّاس

محفلین
16. ارتقاء ہمشہ انتہائی سست رفتاری سے ہوتا ہے

یہ درست ہے کا عام طور پر ارتقاء کا عمل انتہائی سست رفتار ہوتا ہے لیکن بعض اوقات ارتقاء تیزی سے بھی ممکن ہے – ہمارے پاس سست ارتقاء کی تو بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسے زمین پر رہنے والے ممالیہ جانوروں سے وہیل کا ارتقاء جس کا ثبوت کئی فوسلز ہیں جو ان کی درمیانی کڑیوں والے جانوروں کے ہیں – لیکن ہمارے پاس بہت سی ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں ارتقاء انتہائی تیزی سے ہوا – مثلاً فوسلز کا ریکارڈ یہ دکھاتا ہے کہ کس طرح ایک خلیے والے جانور جنہیں foraminiferans کہا جاتا ہے پلک جھپکتے میں ارتقاء کر کے نئے جسموں کے مالک بن گئے

اسی طرح ہم آج کل بھی اپنے چاروں طرف تیزی سے ارتقاء پذیر جانور دیکھ سکتے ہیں – پچھلے پچاس سالوں میں ہی ہم نے کچھ گلہریوں کو موسم کی تبدیلی کے باعث اپنے چگنے کے اوقات کو بدلتے دیکھا ہے، دریائے ہڈسن میں مچھلیوں کو زہریلے مواد (جو کہ کارخانے دریا میں پھینکتے رہے ہیں) کے خلاف مزاحمت پیدا کرتے دیکھا ہے، اور بہت سے جراثیم نے ارتقاء کی بدولت ادویات کے خلاف مدافعت پیدا کرلی ہے – بہت سے عوامل ارتقاء کی رفتار کو تیز کرسکتے ہیں جن میں آبادی کا بہت کم ہونا، نئی پشتوں کی کم وقت میں پیدائش، ماحول میں اچانک اور بڑی تبدیلی وغیرہ شامل ہیں – ہمیں اس بات کے بہت سے شواہد ملتے ہیں کہ تیز رفتار ارتقاء کئی بار ہوچکا ہے


17. بہت سے جانور کروڑوں سال سے ایک ہی حالت میں موجود ہیں جو ارتقاء کو غلط ثابت کرتے ہیں

یہ درست ہے کہ ارتقاء کی بدولت جانور وقت سے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن اس تبدیلی کی رفتار چناؤ کے دباؤ پر منحصر ہوتی ہے اور یہ دباؤ ماحول کی تبدیلی سے پیدا ہوتا ہے – اگر ایک جانور کا ماحول کروڑوں سالوں سے یکساں ہے تو اس جانور پر چناؤ کا کوئی دباؤ نہیں ہے – ایسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ محض جینیاتی انحراف کی وجہ سے جانور میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں کروڑوں سال تک کوئی قابلِ مشاہدہ تبدیلی نہ ہو – اگر جینیاتی انحراف جسم کے ڈھانچے مٰں تبدیلی نہیں لا رہا بلکہ خون کی کیمیائی خصوصیات میں تبدیلی لارہا ہے تو یہ تبدیلی فوسل ریکارڈ میں ظاہر نہیں ہوگی اور فوسل ریکارڈ کے موجودہ جانوروں سے تقابلی جائزے سے یوں محسوس ہوگا گویا اس جانور میں کروڑوں سال سے کوئی تبدیلی نہیں آئی – چنانچہ ایسے کچھ جانوروں کی موجودگی جو ظاہراً کروڑوں سال میں تبدیل نہیں ہوئے ارتقاء کو غلط ثابت نہیں کرتی


18. جینیاتی انحراف (genetic drift) صرف کم آبادی میں ہی ممکن ہوتا ہے

جینیاتی انحراف ان جینیاتی تبدیلیوں کو کہتے ہیں جو فطری چناؤ کے دباؤ کی غیر موجودگی میں پیدا ہوتی ہیں - جینیاتی انحراف چھوٹی سی آبادی میں بہت زیادہ تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے لیکن جینیاتی انحراف ایسے جانوروں میں بھی ممکن ہے جن کی آبادی بہت زیادہ ہو – جینیاتی انحراف کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچے کبھی بھی ماں باپ کی ہوبہو کاپی نہیں ہوتی بلکہ ہر بچے میں ماں باپ کی نسبت کچھ نہ کچھ جینیاتی فرق ضرور ہوتا ہے – اس کے علاوہ ہر جانور جو بچے پیدا کرتا ہے اس کے جینز آبادی کے باقی جانوروں کی نسبت مختلف ہوسکتے ہیں – مثال کے طور پر اگر کچھ پالتو چوہوں میں سے بھورے بالوں والے چوہے محض اتفاقاً سفید چوہوں کے نسبت زیادہ بچے پیدا کر سکتے ہوں تو چند پشتوں بعد ہی بھورے بالوں کے جینز اس آبادی میں پھیل جائیں گے – اس کی وجہ محض اتفاق ہی ہوگی کیونکہ بھورے بال چوہوں کو کوئی ارتقائی فائدہ نہیں دے رہے

یہی عمل بہت بڑی آبادی میں بھی کارفرما ہوتا ہے – بعض انفرادی جانور بہت سے بچے پیدا کرتے ہیں جبکہ اسی نسل کے کچھ دوسرے جانور بچے پیدا کرنے سے قاصر رہتے ہیں – ان اتفاقات کی وجہ سے کچھ جینز کے حامل افراد کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور اگلی پشت میں وہ مزید بچے پیدا کر کے ان جینز کو مزید پھیلا دیتے ہیں – یوں آبادی میں جینز کی مختلف شکلوں کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے – عام طور پر بہت بڑی آبادی میں یہ کمی بیشی معمولی ہوتی ہے لیکن بہت چھوٹٰی آبادی میں اس کمی بیشی کے اثرات نمایاں ہوسکتے ہیں – جینیاتی انحراف کے اثرات کم ہوں یا زیادہ، لیکن یہ انحراف ہر چھوٹی اور بڑی آبادی میں ہر نئی پشت کے ساتھ چلتا رہتا ہے - یہ جینیاتی انحراف ارتقاء کے دوسرے عوامل (فطری چناؤ، جانوروں کی ہجرت وغیرہ) کے ساتھ ساتھ موجود ہوتا ہے


19. انسان موجودہ دور میں ارتقاء پذیر نہیں ہورہے

انسان آج کل ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے ماحول کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال سکتا ہے – ہم نے بیماریوں کے نت نئے علاج دریافت کیے ہیں، زرعی ٹیکنالوجی ایجاد کی ہے، اور ایسے نظام بنائے ہیں جن کی وجہ سے انسان کی شرحِ اموات میں نمایاں کمی ہوئی ہے – مثال کے طور پر چند صدیوں پہلے تک ذیابیطس کے مریض کم عمر میں مر جاتے تھے لہٰذا ذیابیطس کے جینز کے حامل افراد کی تعداد بہت کم تھی - اب چونکہ ذیابیطس کا علاج ممکن ہے لہٰذا وہ جینز جو ذیابیطس کی بیماری کا باعث ہوتے ہیں نہ صرف ترقی یافتہ ملکوں میں ختم نہیں ہوسکتے بلکہ ترقی پذیر ملکوں کی آبادی میں بھی مسلسل موجود رہتے ہیں – کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس ترقی کی وجہ سے ہم نے ارتقاء کے بنیادی اصول یعنی فطری چناؤ سے چھٹکارا پالیا ہے چنانچہ انسانوں میں ارتقاء رک گیا ہے – لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے – ٹیکنالوجی کی وجہ سے فطری چناؤ کا دباؤ ختم نہیں ہوا اگرچہ اس کی صورت بدل گئی ہے – بڑے شہروں میں رہنے کی وجہ سے آج انسان چھوت کی وباؤں سے پہلے کی نسبت زیادہ متاثر ہوتا ہے کیونکہ چند ہزار سال پہلے انسان چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں رہتا تھا اور چھوت کی بیماری ایک قبیلے کے چند سو افراد تک ہی محدود رہتی تھی – اس وجہ سے آج کی انسانی آبادی میں وہ جینز بہت تیزی سے پھیلتے ہیں جو انسانوں کو بیماریوں کے خلاف مزاحمت فراہم کرتے ہیں – ماہرین نے انسانوں میں ایسی کئی میوٹیشنز کا مشاہدہ کیا ہے جو ماضی قریب میں ہوئیں اور بہت تیزی سے آبادی میں پھیل گئیں


20. سپیشیز (انواع) قابلِ شناخت فطری وجود رکھتے ہیں جنہیں ہر شخص آسانی سے پہچان سکتا ہے

ہم میں سے بہت سے لوگ انواع کے تصور سے واقف ہیں – ایک نوع کے جانور وہ ہیں جو آپس میں جنسی ملاپ سے بچے پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں – بظاہر نوع کی یہ تعریف سادہ اور درست معلوم ہوتی ہے - بہت سے جانوروں کے لیے یہ تعریف درست ہے لیکن بہت سے دوسرے جانورں کے لیے یہ تعریف مناسب معلوم نہیں ہوتی – مثال کے طور پر بہت سے بیکٹیریا غیر جنسی طریقے سے بچے پیدا کرتے ہیں (یعنی اپنے آپ کو دو حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں اور دونوں حصے مکمل بیکٹیریا بن جاتے ہیں) – ان بیکٹیریا کے لیے انواع کی تعریف نامکمل محسوس ہوتی ہے – بہت سے پودے اور جانور دو انواع سے مل کر مخلوط النسل بچے پیدا کرسکتے ہیں اگرچہ وہ زیادہ تر اپنی نسل کے جنسِ مخالف کے ساتھ ہی نسل کَشی کرتے ہیں – ایسے جانوروں کو ایک ہی نوع سمجھنا چاہیے یا دو الگ الگ کے انواع؟ حقیقت یہ ہے کہ انواع کا تصور ہی مبہم ہے کیونکہ انواع کا تصور انسان کا تخلیق کردہ ہے تاکہ جانوروں کی پہچان میں مدد ملے – اس مبہم تصور کو زندگی کی پیچیدگی پر لاگو کرنا مشکل اسی لیے ہے کہ اس تصور میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ مختلف اقسام کے جانور ایک دوسرے سے واضح طور پر مختلف ہوتے ہیں لیکن اب ہم یہ جانتے ہیں کہ زندگی ایک مسلسل عمل ہے، ارتقاء جانوروں کی آبادیوں میں جینیاتی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے اور یوں تمام جانور ایک دوسرے کے جینیاتی رشتہ دار ہیں


21. فطری چناؤ کی وجہ یہ ہے کہ جانور خود ماحول سے موافقت پیدا کرنا چاہتے ہیں

فطری چناؤ جانوروں کو وقت کے ساتھ ساتھ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے لیکن اس سارے عمل میں جانوروں کی اپنی خواہش یا کوشش شامل نہیں ہوتی – فطری چناؤ جانوروں کی آبادی میں جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے کچھ جانور زیادہ بچے پیدا کرنے پر قادر ہوجاتے ہیں اور کچھ بچے پیدا کرنے کی عمر سے پہلے ہی مر جاتے ہیں – جینیاتی تبدیلیاں اتفاقی میوٹیشنز کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں چنانچہ اس میں جانور کی خواہش کا عمل دخل نہیں ہوتا – مثال کے طور پر جراثیم جب اینٹی بایوٹیک ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کرتے ہیں تو وہ مزاحمت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہوتے – جراثیم میں اتفاقی میوٹیشنز کی وجہ سے کچھ جرثومے اینٹی بایوٹیک میں زندہ بچنے پر دوسروں کی نسبت زیادہ قادر ہوتے ہیں اور یہ جرثومے تقسیم ہو کر اپنے جیسے مزید جرثومے بناتے ہیں – اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صرف وہ جرثومے بچ رہتے ہیں جن پر اینٹٰی بایوٹیک اثر نہیں کرتی


22. فطری چناؤ جانوروں کو ایسا بناتا ہے جیسا ان کے لیے بہتر ہو

فطری چناؤ کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا – یہ شعور نہیں رکھتا اور نہیں جانتا کہ کسی جانور کو پھلنے پھولنے کے لیے کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے – فطری چناؤ کسی آبادی میں موجود جینیاتی تغیر پر کام کرتا ہے جو کہ اتفاقی میوٹیشنز سے پیدا ہوتا ہے – یہ سارا عمل اس بات پر منحصر نہیں کہ جانور کو کیا چاہئیے – اگر جانوروں کی آبادی میں اتفاق سے کچھ جانور ایسے جینز رکھتے ہیں جو انہیں دوسروں کی نسبت ماحول سے بہتر مطابقت فراہم کرتے ہیں تو یہ جانور زیادہ بچے پیدا کر کے اپنی نسل بڑھا سکیں گے اور یوں یہ آبادی ارتقاء کرتی رہے گی – اگر اس آبادی میں جینیاتی تغیر نہ موجود ہو تو بھی اس بات کا امکان رہے گا کہ یہ آبادی موجود رہے گی لیکن اس میں ارتقاء رک جائے گا - لیکن اس بات کا بھی امکان ہے کہ ماحول اچانک بدل جائے، یہ آبادی جینیاتی تغیر کے نہ ہونے کی وجہ سے ماحول سے مطابقت نہ پیدا کرسکے اور یوں اس جانور کی نسل ہی معدود ہوجائے – ہر دو حالتوں میں فطری چناؤ بغیر کچھ دیکھے بھالے صرف انہی جانوروں کو چنے گا جو ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں گے


23. انسان ماحولیاتی نظام پر منفی اثر نہیں ڈال سکتا کیونکہ جانور خود بخود نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرلیتے ہیں

انسان کی بے پناہ ترقی کا ایک منفی نتیجہ گلوبل وارمنگ کی صورت میں سامنے آ رہا ہے – اگر انسان کی وجہ سے ماحول تیزی سے بدل رہا ہے تو بھی ارتقاء کے محرکات وہی رہیں گے جو عمومی طور پر ہوتے ہیں یعنی اتفاقاً کچھ جانور ایسے خصائص کے مالک ہوں گے جو ان میں ماحول کی مطابقت پیدا کر دیں گے اور ایسے جانور پھلے پھولیں گے – اس کے برعکس اگر جانوروں کی ایک آبادی میں چند فیصد بھی ایسے نہیں جن میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں ہوں جو انہیں ماحول کے مطابق بنائے تو عین ممکن ہے کہ وہ آبادی ناپید ہوجائے – مثال کے طور پر گلوبل وارمنگ کی وجہ سے قطبین کی برف پگھل رہی ہے اور قطبی ریچھ کے لیے خوراک ڈھونڈنا مشکل ہوتا جارہا ہے – اگر قطبی ریچھ کی آبادی میں ایسے جینیاتی تغیرات نہیں ہیں جو انہیں نئے ماحول میں شکار کرنے کے قابل بنا سکیں تو عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں جنگلی قطبی ریچھ ناپید ہوجائیں اور محض چڑیاں گھروں میں موجود چند ریچھ ہی بچ رہیں


24. فطری چناؤ جانوروں کی بھلائی کے لیے کوشاں ہے

جب ہم جانوروں میں آپسی ہمدردی کی داستانیں سنتے ہیں (جیسے ڈولفنز مل کر بیمار ڈولفن کی تیمارداری کرتے ہیں یا میرکیٹس ایک دوسرے کو آوازوں کے ذریعے درندوں کی موجودگی کی خبر دیتے ہیں حالانکہ اس میں ان کی اپنی جان کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے) تو اس بات پر یقین کرنے کو دل چاہتا ہے کہ ایسے رویے ارتقاء کے دوران اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ ارتقاء جانوروں کی مجموعی بھلائی کے لیے کوشاں ہے بھلے ہی اس میں انفرادی طور پر جانوروں کا نقصان ہو – لیکن یہ تاثر غلط ہوگا – فطری جناؤ میں کوئی پلاننگ یا دور رس سوچ شامل نہیں ہوتی – عمومی طور پر فطری چناؤ صرف ان افراد کو چن رہا ہوتا ہے جن کے خصائص ان میں دوسرے جانوروں کی نسبت ماحول سے بہتر مطابقت پیدا کرتے ہیں – اصولی طور پر یہ ممکن ہے کہ کوئی درندہ شکار کرنے میں اتنا ماہر ہوجائے کہ اس سے کوئی جانور بچ کر نہ جانے پائے – اگر ایسا ہوجائے تو ایسا درندہ چند نسلوں میں ہی ناپید ہوجائے گا کیونکہ اس کی آئندہ نسلیں تمام دوسرے جانوروں کو چٹ کر جائیں گی اور یوں اپنی خوراک کے تمام راستے خود ہی مسدود کر دیں گی –

اگر جانوروں میں ہمدردی کے ارتقاء کی وجہ یہ نہیں ہے کہ فطری چناؤ نے ہمدرد جانوروں کا چناؤ کیا ہے تو پھر یہ جذبہ کیوں موجود ہے؟ یہ جذبہ بہت سی صورتوں میں ارتقاء پذیر ہوسکتا ہے – مثال کے طور پر اگر ہمدردی کے اعمال کی وجہ سے دوسرے جانور بھی جواب میں ہمدردی دکھاتے ہیں تو اس سے ایک نوع کے تمام جانوروں کے بچنے کا امکان زیادہ ہوجاتا ہے – اسی طرح ہمدردی سے ایک چانور کے نزدیکی رشتہ داروں کی کامیانی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے جانوروں کے جینز اگلی نسل تک منتقل ہوپاتے ہیں


25. فطرت سے مناسبت (fitness) وہ جانور رکھتے ہیں جو سب سے مضبوط، صحت مند، سب سے تیز یا/اور سب سے بڑے ہوں

ارتقاء کے حوالے سے فِٹنس (fitness) یا مناسبت کے معنی عام زبان میں اس لفظ کے معنوں سے بالکل مختلف ہیں – ایک جانور کے ارتقاء میں مناسبت یعنی فٹنس کا تعلق جانور کی صحت سے نہیں بلکہ اس بات سے ہے کہ وہ جانور اپنے جینز اگلی نسل تک پہنچانے کے قابل ہے یا نہیں – جو جانور جتنے زیادہ بچے پیدا کرکے انہیں جوان کر پائے گا (تاکہ وہ نسل کو آگے بڑھا سکیں) وہ اتنا ہی فٹ ہوگا – اس فٹنس کا صحت، طاقت، رفتار یا جسامت سے کئی تعلق نہیں – مثال کے طور پر ایک کمزور سا نر جس کی دم کے پر لمبے اور رنگین ہوں اس نر کی نسبت زیادہ بچے پیدا کرسکتا ہے جو مضبوط ہو لیکن دیکھنے میں مادہ کو نہ بھائے – اسی طرح ایک چھوٹا سا پودا جو بہت سے بیج بناتا ہو وہ اس دیوہیکل پودے کی نسبت زیادہ نئی پود پیدا کرے جو کم بیج بناتا ہو


26. فطری چناؤ جانوروں کی آبادی سے صرف انہیں منتخب کرتا ہے جو ماحول سے سب سے زیادہ مناسبت رکھتے ہوں

اگرچہ عام طور پر ارتقاء کو survival of the fittest (یعنی سب سے زیادہ مناسبت رکھنے والے جانور ہی زندہ رہ پاتے ہیں) کہا جاتا ہے، زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ اسے survival of the fit enough (یعنی ماحول سے محض اتنی مناسبت رہنے والے جانور کہ وہ زندہ رہ پائیں) کہا جائے – جانوروں کی کسی بھی آبادی میں بہت سے جانور جو مختلف جینیاتی تغیرات کے حامل ہوں بچے پیدا کرتے ہیں اور یوں اپنے جینز اگلی نسل کو منتقل کرتے ہیں – ایسا نہیں ہے کہ آبادی میں سے صرف بہترین جانور ہی بچے پیدا کر پاتے ہیں – اس کی مثال ہم اپنے ارد گرد بخوبی دیکھ سکتے ہیں – مثلاً ایک پودا خشک سالی میں زندہ رہنے کے قابل نہ ہو تو بھی وہ اچھے موسموں میں ہرا بھرا ہی رہے گا صرف اگر کبھی خشک سالی آئے تو زندہ نہیں رہ پائے گا - ایک درندہ جو دوسروں کی نسبت سست رفتار ہے اپنے بہت سے شکار پکڑ نہیں پائے گا لیکن پھر بھی اتنے شکار پکڑ ہی لے گا کہ بھوکا نہ مرے – یہ جاندار ہو سکتا ہے بہت زیادہ فٹ نہ ہوں لیکن اس کے باوجود یہ اتنے فٹ ضرور ہیں کہ اکثر اوقات زندہ رہتے ہیں اور بچے بھی پیدا کرتے ہیں


27. فطری چناؤ ایسے جانور پیدا کرتی ہے جو مکمل طور پر اپنے ماحول سے مطابقت رکھتے ہیں

فطری چناؤ اس قابل نہیں ہے کہ ایسے جانور پیدا کرے جو مکمل طور پر اپنے ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں – جانوروں کی خاصیتیں بہت سے ایسے محرکات سے پیدا ہوتی ہیں جو آپس میں ہم آہنگ نہیں ہوتے – چنانچہ ایک خاصیت کے بہتر ہونے میں ہو سکتا ہے دوسری خاصیتیں پہلے سے بھی بدتر ہوجائیں – مثال کے طور پر اگر کسی پرندے کی مادہ لمبی دم والے نر پسند کرتی ہے تو لمبی دم والے نر زیادہ بچے پیدا کریں گے لیکن لمبی دم والے نر اڑنے میں اتنے پھرتیلے نہیں ہوں گے جتنے چھوٹی دم والے چنانچہ ان کے کسی درندے کا لقمہ بننے کا امکان بھی زیادہ ہوگا – چونکہ جانوروں کا ارتقاء ایک پیچیدہ تاریخ کا مرہونِ منت ہے جو اس بات کی ضمانت نہیں دیتی کہ جانور ہر طرح سے کامل ہونگے اس وجہ سے مستقبل میں ان کا ارتقاء بھی اس بات کا پابند رہے گا کہ صرف ان خصوصیات پر ہی عمل کر سکے جو ارتقائی تاریخ نے اس جانور کو عطا کی ہیں – مثال کے طور پر سانپ کے لیے یہ بہت بڑی مشکل ہے کہ وہ جب تک پرانی کینچلی نہ اتارے اس کا جسم نہیں بڑھ سکتا - سانپ کے لیے یہ بات بہت فائدہ مند ہوگی اگر اس کی کھال انسانی کھال کی طرح خودبخود جسم کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہے لیکن سانپ کی ارتقائی تاریخ نے اس کے جینز میں یہ لکھ دیا ہے کہ سانپ کینچلی اترے بغیر بڑا نہیں ہو پائے گا


28. جانوروں کی تمام خاصیتیں ماحول سے مطابقت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں

چونکہ جانوروں کی ماحول سے مطابقت بعض اوقات حیرت انگیز حد تک ہوتی ہے (بہترین کیموفلاج، شکار کرنے کے عجیب و غریب طریقے، پھول جو ایک مخصوص بھنورے کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں وغیرہ) اس لیے کچھ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جانوروں کے تمام خصائض صرف ماحول سے مطابقت کی وجہ سے ہی ترتیب پاتے ہیں – اگرچہ جانوروں کی بہت سی خاصیتیں ماحول کی مطابقت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ کسی جانور کے تمام خصائص مطابقت کی وجہ سے ہی ہوں – کئی خصوصیات محض اتفاقاً بھی پیدا ہوجاتی ہیں – مثال کے طور پر ڈی این میں ایک لڑی GGC گلیسین نامی امینو ایسڈ بناتی ہے - یہ میوٹیشن ہمارے کسی مشترکہ جدِ امجد کے ڈی این اے میں اتفاقاً ہوئی – GGC اور گلیسین میں کوئی خاص تعلق نہیں ہے – یہ محض ایک تاریخی حادثہ ہے جو ہمارے ڈی این اے میں ابھی تک موجود ہے – اسی طرح خون کے رنگ کا مطابقت سے کوئی لینا دینا نہیں – لال رنگ کا خون، نیلے یا پیلے رنگ کے خون سے بہتر نہیں ہے – خون کی کیمسٹری کا ضمنی اور اتفاقی نتیجہ یہ ہے کہ یہ لال رنگ کے فوٹونز کو منعکس کرتا ہے اس لیے دیکھنے میں سرخ نظر آتا ہے – خون کی کیمسٹری یقیناً مطابقت کی وجہ سے ہے لیکن خون کا رنگ مطابقت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ محض ایک اتفاقی حادثہ ہے


29. ہر خاصیت ایک خاص جین کی وجہ سے ہوتی ہے

عام طور پر طلباء کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جانداروں کے خصائص کسی مخصوص جین کی وجہ سے ہوتے ہیں مثلاً مٹر کے دانے کا ہموار یا جھریوں بھرا ہونا، پھولوں کا سفید یا بنفشی رنگ، سبز یا پیلی کلیاں ایک خاص جین سے کنٹرول ہوتی ہیں – شاید اس وجہ سے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ تمام خصائص کے لیے الگ الگ جینز ہیں اور ایک جین ایک خصوصیت کو کنٹرول کرتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے – طلبہ کو محض سکھانے کے لیے صرف ان سادہ خصائص کی مثال دی جاتی ہے جو ایک جین سے کنٹرول ہوتے ہیں – زیادہ تر خصائص ایک جین سے نہیں بلکہ جینز کے گروپس سے کنٹرول ہوتے ہیں اور ان جینز کی آپس کی interaction بہت پیچیدہ ہوسکتی ہے


30. ہر جین کی صرف دو مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں

طلباء کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ اگر ایک جین میں ایک میوٹیشن ہو جائے تو جین کی ایک نئی صورت بن جاتی ہے جس کا نتیجہ خصائص کی تبدیلی کی صورت میں نکلتا ہے – اس سے بعض لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ کسی بھی جین کی صرف دو صورتیں ہوسکتی ہیں - ڈی این اے مالیکیول انتہائی پیچیدہ مالیکیول ہے جس کے ایک جین میں کئی میوٹیشنز ہوسکتی ہیں - یوں ایک جین کی بہت سی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جن میں سے ہر صورت کا نتیجہ خصائص میں تبدیلی کی شکل میں ہوتا ہے

اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئی

http://evolution.berkeley.edu/evolibrary/misconceptions_faq.php
http://www.pbs.org/wgbh/nova/blogs/education/2015/05/biggest-evolution-misconceptions-part-1/
http://www.pbs.org/wgbh/nova/blogs/education/2015/05/biggest-evolution-misconceptions-part-2/
http://listverse.com/2008/02/19/top-15-misconceptions-about-evolution/
 

زیک

مسافر
کریئیشنسٹ ہونے کے لیے ارتقا کو جھٹلانا ضروری نہیں۔ میں ارتقا کو کریئیشنسٹ ہونے کے باوجود سچ مانتا ہوں۔ اور مجھ جیسے ہزاروں لوگ ہیں۔ سو کریئیشنسٹ کی تخصیص ضروری نہیں۔
کیا آپ theistic evolution کہنا چاہتے تھے؟
 
کیا آپ theistic evolution کہنا چاہتے تھے؟
کیا تھئیسٹک ایوولیوشن الگ سے کوئی چیز ہے؟ اور پھر اس کے مقابلے میں ایتھئیسٹک ایوولیوشن؟
میرے خیال میں سائنس ایک ہی چیز ہے۔ ہر کسی کے لیے۔ اس میں مذہبیت، تشکیک اور الحاد کا فلیور سب اپنی ترجیحات کے مطابق ڈال لیتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
کیا تھئیسٹک ایوولیوشن الگ سے کوئی چیز ہے؟ اور پھر اس کے مقابلے میں ایتھئیسٹک ایوولیوشن؟
میرے خیال میں سائنس ایک ہی چیز ہے۔ ہر کسی کے لیے۔ اس میں مذہبیت، تشکیک اور الحاد کا فلیور سب اپنی ترجیحات کے مطابق ڈال لیتے ہیں۔
سائنس کے حساب سے کوئی فرق نہیں۔ مذہبی لوگ اکثر یہ واضح کرنا پسند کرتے ہیں کہ وہ ارتقاء کو مانتے ہیں مگر یہ بھی خدا کے حکم سے سب کچھ ہوا۔ دوسرے وہ کریئشنزم سے بھی خود کو علیحدہ کرنا چاہتے ہیں۔
 
Top