نظام سے پہلے فرد کی اصلاح

نظام سے پہلے فرد کی اصلاح
علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی (قطر)

اصلاح کے میدان میں اہم ترین ترجیحات میں سے ایک یہ ہے کہ معاشرے کی تعمیر سے پہلے فرد کی تعمیر کا اہتمام کریں۔ دوسرے الفاظ میں نظام اور اداروں میں انقلاب سے پہلے فرد میں انقلاب لانا ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ اسے ہم قرآن کے الفاظ میں بیان کر دیں، جس نے فیصلہ ہی کر دیا ہے کہ کوئی بھی انقلاب ہو اس کے لیے نفس کی تبدیلی ضروری ہے۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔ (الرعد: ۱۱)
یہ ہر اصلاح، ہر تبدیلی اور ہر اجتماعی تعمیر کی بنیاد ہے۔ فرد پوری عمارت کی بنیاد ہے۔ اس لیے آغاز یہیں سے کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک اچھی اور مضبوط عمارت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اگر اس کی اینٹیں بوسیدہ اور خراب ہوں۔
معاشرے کی دیوار میں فرد سب سے پہلی اینٹ ہے۔ اس وجہ سے فرد کی اصلاح اور اس کی ایک حقیقی مسلمان کے طور پر کامل اسلامی تربیت کے لیے جو بھی کوششیں کی جائیں اس کی دوسری چیزوں پر ترجیح ہے۔ کیونکہ یہ ہر قسم کی اصلاح اور تعمیر کے لیے ایک ضروری تمہید ہے اور اسی کا مطلب نفس کی تبدیلی ہے۔
انسان کی ایک صالح فرد کے طور پر تعمیر انبیا کا کام تھا۔ اور ان کے بعد ان کے خلفا اور وارثین بھی اسی ذمہ داری پر مامور ہیں۔
انسان کی صحیح تربیت کے لیے سب سے پہلے اس کی بنیاد ایمان پر رکھی جاتی ہے۔ اور وہ اس طرح کہ اس کے دل میں درست عقیدے کا پودا لگا دیا جائے۔ یہ عقیدہ دنیا کے بارے میں اور خود انسان کے بارے میں اس کے نظریے کو درست کردیتا ہے، زندگی کے بارے میں اور اس کے رب کے بارے میں اس کے نظریے کی تصحیح کرتا ہے جو اس کا خالق ہے، جس نے اسے زندگی بخشی ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو اس کے آغاز اور انجام کے بارے میں خبردار کرتا ہے۔ یہ انہیں ان سوالات کا جواب دیتا ہے، جو بے دین لوگوں کو ہر وقت پریشان کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ میں کون ہوں؟ میں کہاں سے آیا؟ اور مجھے کہاں جانا ہے؟ میں کس لیے پیدا کیا گیا ہوں؟ زندگی اور موت کیا ہیں؟ زندگی سے پہلے کیا تھا؟ اور موت کے بعد کیا ہوگا؟ زمین کے اس سیارے میں سمجھ بوجھ کی عمر سے لے کر مرنے تک میرا کیا پیغام ہے؟
ایمان اور صرف ایمان ہی ہے جو انسان کو اس کے انجام کے حوالے سے ان بڑے سوالات کا شافی جواب دیتا ہے۔ وہ زندگی کا ایک ہدف، اس کی ایک قیمت اور ایک معنی متعین کر دیتا ہے۔ اس ایمان کے بغیر انسان عالمِ وجود کا ایک حیران و پریشان ذرّہ یا ایک بے وقعت مادہ ہے۔ نہ حجم کے لحاظ سے یہ اس عظیم کائنات کے بڑے مجموعوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت رکھتا ہے اور نہ عمر کے لحاظ سے، یہ جیالوجی کے لمبے لمبے زمانوں اور مستقبل کے لاانتہا ادوار کے مقابلے میں کوئی وقعت رکھتا ہے۔ نہ اس کے پاس وہ قدرت ہے جس کے ذریعے وہ کائنات کے ان حوادث کا مقابلہ کر سکے جنہیں وہ ہر وقت دیکھتا رہتا ہے۔ جیسے زلزلے، آسمانی بجلیاں، آندھی اور طوفان اور سیلاب جو ہر چیز کو تہہ و بالا کر دیتے ہیں اور بہت سوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ مگر انسان اس کے سامنے عاجز ہو کر ہاتھ دھرے بیٹھا رہ جاتا ہے، باوجود یہ کہ اس وقت انسان کے پاس سائنس ہے، ارادہ ہے اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی ہے۔
ایمان ہمیشہ نجات کے لیے طاقت و قدرت ثابت ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے انسان کو اندر سے تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اس طرح اس کے باطن کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ کیونکہ انسانوں کو اس طرح نہیں چلایا جاسکتا جیسا کہ جانوروں کو چلایا جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کو اس انداز میں ڈھالا بھی نہیں جاسکتا جیسا کہ لوہے، تانبے یا چاندی وغیرہ سے مختلف چیزیں بنائی جاتی ہیں۔
یہ انسان کی عقل اور دل میں تحرک پیدا کر دیتا ہے۔ پھر جب اسے قانع کیا جاتا ہے تو وہ قانع ہوتا ہے اور جب اسے ہدایت دی جاتی ہے تو یہ ہدایت لیتا ہے۔ جب اسے ترغیب و تربیت کی جاتی ہے تو اس پر ترغیب و تربیت کا اثر بھی ہو جاتا ہے۔ ایمان ہی ہے جو انسان میں حرکت پیدا کرتا ہے، اس کا رُخ سیدھا رکھتا ہے اور اس کے اندر عظیم صلاحیتیں پیدا کرتا ہے، جو اس کے بغیر ظاہر نہیں ہو سکتی تھیں۔ بلکہ وہ اسے ایک نیا جنم دے دیتا ہے، اس کے اندر ایک نئی روح پھونک دیتا ہے۔ اسے نئی عقل، نیا عزم اور نیا فلسفہ دیتا ہے۔ جیسا کہ ہم فرعون کے ساحروں کے بارے میں دیکھتے ہیں۔ وہ جب موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے تو انہوں نے فرعون کے جبر و تکبر کو چیلنج کرتے ہوئے بڑی جرأت و شجاعت کے ساتھ اس سے کہا: ’’تو جو کچھ کرنا چاہے کرلے، تو زیادہ سے زیادہ بس اسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کرسکتا ہے‘‘۔ (طٰہٰ:۷۲)
اسی طرح ہم نے نبی پاکؐ کے صحابہ میں بھی یہ شان دیکھی۔ ان کو ان کا ایمان جاہلیت سے اسلام کی طرف لایا۔ انہیں بتوں کی عبادت اور رِعَایَۃُ الْغَنَمْ (بکریاں چَرانے) کے بجائے رِعَایَۃُ الْأُمَمْ (قوموں کی قیادت کرنے) کا مقام عطا کیا۔ وہ انسانیت کو اللہ کی ہدایت کی طرف دعوت دیتے رہے اور انہیں اندھیرے سے روشنی کی طرف نکالتے رہے۔
نبیﷺ نے مکہ میں ۱۳؍سال گزارے۔ اس دوران آپؐ کی ساری جدوجہد اسی بنیاد پر تھی اور دعوت و تبلیغ کا سارا دارومدار اسی پر تھا کہ پہلی مسلمان نسل کو ایمان کے ذریعے تربیت دی جائے۔
یہ سارا دور ایسے گزرا کہ اس میں کسی قسم کے قوانین نازل نہیں ہوئے، جو معاشرے کو منظم کرتے ہیں اور لوگوں کے گھریلو اور معاشرتی تعلقات کو منضبط کرتے ہیں، یا انحراف کرنے والوں کے لیے راہِ راست پر آنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس عرصے میں قرآن اور رسول کا کام یہ تھا کہ انسان کی تربیت کریں اور صحابہ کی اس نسل کی تعمیر کریں۔ اس تربیت اور تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ اس کے بعد وہ پورے جہان کی تربیت اور تنظیم کرے۔
اس میں دارارقم بھی اپنی ذمہ داری انجام دے رہا تھا۔ اور قرآن پاک جو رسول اللہﷺ پر واقعات اور حالات کے مطابق تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہو رہا تھا… تاکہ وہ اسے لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کے پڑھ کر سنائیں، اس پر ان کا دل بھی جما رہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر ایمان لاچکے ہیں، اور اس کے ذریعے مشرکین کے ان سوالات کا جواب دیں اور ان کے خیالات پر تنقید کریں… وہ بھی اس مومن جماعت کی تربیت اور اس کے حسن کردار اور پختگی رفتار میں اپنا عظیم کردار ادا کر رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے، تاکہ تم ٹھہر ٹھہر کر اسے لوگوں کو سنائو، اور اسے ہم نے (موقع موقع سے) بتدریج اُتارا ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: ۱۰۶)
’’منکرین کہتے ہیں، اس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اُتار دیا گیا؟‘‘ (الفرقان: ۳۲۔۳۳)
ہاں، ایسا اس لیے کیا گیا کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں اور (اِسی غرض کے لیے) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزا کی شکل دی ہے۔
اس وقت ہمارے کرنے کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ اپنی حالت درست کریں اور اس کے لیے ایک درست آغاز کریں۔ یہ اس طرح ہوگا کہ ہم فرد کی تعمیر کریں۔ ظاہری تعمیر نہیں بلکہ حقیقی تعمیر۔ اس کی عقل، روح، جسم اور اخلاق کی تعمیر۔ متوازن تعمیر، جس میں کمی بیشی نہ ہو۔ ہم اس کو عقلاً علم سے، روحاً عبادت سے، جسماً ورزش سے اور اخلاقاً فضائل سے تعمیر کریں۔ اسے عسکری طور پر سختی سے، معاشرتی طور پر میل جول سے اور سیاسی طور پر سمجھ داری کے ذریعے تربیت یافتہ بنائیں۔ ہم اس کو بیک وقت دین اور دنیا دونوں کے لیے تیار کریں۔ وہ خود بھی نیک بنے اور دوسروں کی اصلاح بھی کرے، تاکہ وہ دنیا اور آخرت میں نقصان سے بچے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۂ عصر میں فرماتا ہے: ’’زمانے کی قسم! انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘۔
اور یہ کام اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ نظام کائنات کا ایک کُلّی تصور، زندگی کا ایک واضح فلسفہ، تہذیب و تمدن کا ایک مکمل منصوبہ پیش کیا جائے، جس پر یہ امت ایمان رکھتی ہو اور ہمارے بیٹوں اور بیٹیوں کو اس پر یقین کرنے، اس کی حکمتوں کے مطابق کام کرنے، اور اس کے منہج پر چلنے کی تربیت دیتی ہو۔ اور سارے ادارے: جامع مسجد اور یونیورسٹی، کتاب اور اخبار، ٹی وی اور ریڈیو اس پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ان میں سے ایک ادارہ مشرق کی طرف لے جائے اور دوسرا مغرب کی طرف اور ایک ادارہ کوئی ڈھانچہ بنائے اور دوسرا اسے منہدم کر دے۔ آجکل تو ہم پر کسی قدیم شاعر کی یہ بات صادق آتی ہے کہ:
کیا وہ عمارت کبھی مکمل ہو سکے گی، جسے آپ تعمیر کرتے رہیں اور اور کوئی دوسرا اسے ڈھاتا رہے۔
 
Top