نظر لکھنوی نذرانۂ عقیدت بحضورِ صحابہ کرامؓ

اصحابِ نبیؐ کی باتیں ہیں گلزارِ عقیدت کھل اُٹھا
ہے روئے سخن تک تابندہ ہے لب پہ سخن اُن لوگوں کا

ہے ربِ جہاں جن سے راضی ہے خوب مقدر اُن سب کا
تو ان کا ثنا خواں کیا ہو گا باتیں وہ بڑی یہ منہ چھوٹا

بُستانِ نبوت کا جس دم دلکش وہ گلِ آخر مہکا
گِرد آئے تھے جتنے صاحبِ دل وہ سب تھے یہی مردِ رعنا

سب ایک ہی صورت رکھتے ہیں اک ماہِ مبیں کی سب کرنیں
اک بحر کی یہ سب موجیں ہیں اک سبحہ کا سب گوہر دانا

دنیائے محبت کے قصّے تم نے بھی سنے ہوں گے لاکھوں
پر ان کی طرح کا قصہ تو سننے میں نہیں آیا ہو گا

سب عشق و محبت کے پیکر ایمان و عمل میں سب مخلص
سب شمع رسالت پر قرباں ہر ایک اسی کا پروانہ

صدیقؓ و عمرؓ عثمانؓ و علیؓ منجملۂ یارانِ صادق
اس ماہِ عربؐ کے ہالے میں ہیں نجم درخشندہ کیا کیا

وہ ثور کے اندر کی خلوت محبوبِ خدا کا وہ ساتھی
وہ یارِ نبیؐ کی گھبراہٹ وہ آپؐ کا قولِ دل آرا

ہجرت میں نبیؐ کے وہ ساتھی جلوت میں وہ جلوہ گیر اس کے
ہر عیش و طرب کو ٹھکرا کر ہر قولِ نبیؐ کو اپنایا

ہو معرکۂ حق کوئی بھی سب جان بکف ہو جاتے تھے
شیرانِ وِغا یوں لڑتے تھے میدانِ وِغا کانپ اٹھتا تھا

وہ حضرت خالدؓ سیف اﷲ وہ برقِ غضب سیلِ طوفاں
دشمن کے مقابل جب نکلے سو سو کے مقابل میں تنہا

کیسے ملکوتی انساں ہیں اس بزمِ رسالت میں دیکھو
کیسی یہ انوکھی محفل ہے سیرت کے نمونے ہیں یکجا

یہ عشقِ مجسم ظلِ نبی معیارِ امامت پر کامل
وہ شوکت و حشمت کا مالک مصداقِ نبوت ہے بیٹھا

وہ کانِ مروت بحر سخا وہ شرم مجسم جانِ حیا
سرمایۂ حکمت کا مالک وہ شیرِ خدا جانِ تقویٰ

تسلیم و رضا جوہر اس کا وہ صبر سراپا بیٹھا ہے
یہ حسنِ تکلم کا مالک وہ اپنی شرافت میں اونچا

یہ اپنی شجاعت میں یکتا ہے شوقِ شہادت لاثانی
وہ زہد و اطاعت میں اعلیٰ ہے ذوقِ عبادت میں یکتا

اُس سمت کا نظّارہ دیکھو وہ تارکِ دنیا بیٹھے ہیں
مصروفِ عبادت رہتے ہیں ہر آن یہ اصحابِ صفہ

ہم کیوں نہ رہینِ منت ہوں ہم کیوں نہ ہوں دامن گیر ان کے
اسلام کی دولت ان سے ملی ایمان کا گوہر ہاتھ آیا

ہر گام ستارے روشن ہیں ہے جادۂ منزل تو واضح
گم کردۂ منزل کی شامت اپنی ہے جو ایسے میں بھٹکا

دامانِ صحابہ تھام نظرؔ سر رشتۂِ ایماں کے طالب
دامن جو کہیں ان کا چھوٹا خَسِرَ الآخر خَسِرَ الدنیا

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی ۔ نظرؔ لکھنوی
 
Top