نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت

فصاعت ایک ایسی سنت ہے جو کلام کے لیے بھی ہوسکتی ہے۔ انداز گفتگو اور ہیبت تکلم کے لیے استعمال ہوسکتی ہے اور گفتگو یا کلام کے موضوع کے لیے بھی آسکتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت میں یہ تمام اوصاف موجود تھے۔ آپؐ کے کلام کی ہیئت نطق و تکلم اور موضوع کلام سب میں فصاحت موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپؐ افصح العرب تھے۔ جیسا کہ آپؐ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ میں قریش سے ہوں اور بنو سعد بن بکر میں میں نے پرورش پائی ہے۔ آپؐ کے نطق و گویائی کا جمال فصاحت بھی آپؐ کے کلامک بلیغ کی طرح پرکشش او ربے مثال تھا۔ حضرت عائشہؓ نے آپؐ کے نطق گویائی کے بارے میں فرمایا ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یونہی باتوں میں نہیں لگے رہتے تھے ‘ جس طرح تم لوگ باتیں کرتے چلے جاتے ہو بلکہ وہ ایسے انداز میں کلام کرتے تھے جو واضح نکھرا نکھرا ہوتا جیسے آپؐ کے پاس بیٹھنے والا حفظ کرلیتا تھا۔‘‘
آپؐ کی نطق گویائی حروف اور ان کے مخارج کے عیوب سے پاک تھی اور یہ کہ آپؐ ان حروف کے خوبصورت ترین اور موثر ترین طریقے سے ادا کرنے پر قدرت کاملہ رکھتے تھے۔
احیاء العلوم میں امام غزالیؒ نے فصاحت نبویؐ کے متعلق لکھا ہے ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ فصیح تھے۔ آپؐ کا کلام سب سے زیادہ شریں تھا او رکہا کرتے تھے کہ میں افصح العرب ہوں۔ اہل جنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں گفتگو کریں گے آپؐ کم بولنے والے‘ آسانی سے گفتگو کرنے والے تھے۔ جب بھی بولتے تو نہ آپؐ فضول بات کرتے نہ بیکار‘ یوں لگتا تھا کہ آپؐ کا کلام موتی ہیں جو لڑی میں پرودیے گئے ہیں۔ ‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ’’آپ ؐ سب سے زیادہ مختصر کلام کرنے والے تھے۔ یہی کچھ آپؐ کے لیے جبرئیل ؑلاتے تھے‘ اختصار کے ساتھ آپؐ کلام حسب ضرورت جامع بھی ہوتا تھا۔ آپ جوامع الکلم کے انداز میں بات کرتے تھے۔ جس میں نہ فالتو بات ہوتی نہ کوئی نقص۔ یوں لگتا تھا جیسے الفاظ ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے آرہے ہیں۔ آپؐ کے کلام میں وقفہ ہوتا تھا۔ جس سے سننے والا آپؐ کی بات حفظ کرلیتا تھا۔ آپؐ بلند آواز اور سب سے زیادہ خوش آواز تھے۔ آپؐ کافی دیر تک خاموش رہتے۔ بغیر ضرورت کے آپؐ بات نہ کرتے تھے‘ ناپسندیدہ بات آپؐ کبھی نہ کرتے۔ خوشی اور ناراضگی میں حق بات ہی کہتے تھے۔ جو شخص اچھی بات نہ کرتا اس سے آپ ؐ کنارہ کشی اختیار کرتے۔ مجبوراً کسی ناپسندیدہ چیز کا نام لینا پڑتا تو کنایات سے کام لیتے۔ آپؐ جب خاموش ہوتے تو اپؐ کے ہمنشین بات کرتے تھے۔ آپؐ کے سامنے گفتگو میں جھگڑا نہیں ہوتا تھا۔ وعظ فرماتے تو بڑی توجہ اور اخلاص سے آپؐ فرمایا کرتے تھے۔ ’’آیات قرآنی کو ایک دوسرے سے مت ٹکرایا کرو۔ کیونکہ یہ تو متعدد طریقوں سے نازل ہوا ہے۔‘‘
مصر کے ممتاز عالم استادذ محمد عطیۃ الابراستی نے ’’عظمۃ الرسول‘‘ میں آپؐ کی فصاعت کے بارے میں لکھا ہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فصیح تھی‘ کلام ملبیغ تھا۔ الفاظ پرونق ‘ عبارت عمدہ اور تکلف نہ تھا۔ آپؐ کو جو امع العلم عطا ہوئے۔ انوکھی حکمت بھری باتیں آپؐ کی خصوصیت تھی۔ عرب کی زبانوں کا آپؐ کو علم عطا ہوا تھا۔ آپؐ ہر قبیلے سے اس کی زبان میں بات چیت کرتے۔ اس کی اپنی زبان اور لہجہ میں سوال و جواب ہوتے تھے۔ چنانچہ قریش انصار‘ اہل مجاز اور اہل بخد کے ساتھ گفتگو میں جو انداز بیان اختیار کرتے وہ اس اسلوب کلام سے مختلف ہوتا تھا جو آپؐ قحطانی عربوں کے ساتھ بات چیت کے دوران اختیار کرتے تھے۔ نبی اکرمؐ تمام فصحاء سے بڑے فصیح‘ تمام بلغاء سے بڑا بلیغ اور تمام ذکی لوگوں زیادہ ذہین تھے۔ آپؐ کا اسلوب آسان‘ شیریںاور خوبصورت ہوتا تھا جسے ہر سننے اور پڑھنے والا سمجھ لیتا اور اس کی فصاحت و بلاغت سے لطف اندوز ہوتا تھا۔‘‘
امام الارب العربی ابو عثمان عمرہ بن بحرالحاحظ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہے ’’کلام نبوی ایک ایسا کلام ہے جس کے حروف کی تعداد تو قلیل ہے مگر اس کے معانی کی تعدا دکثیر ہے۔ یہ تضع سے بلند تر اور تکلف سے منزہ ہے۔ یہ کلام تو بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسا اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دیجیے کہ میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بھلا کیوں نہ ایسا ہوتاجبکہ آپؐنے باچھیں پھاڑ کر بات کرنے کو معیوب قرار دیا اور گلے کی گہرائی سے آواز نکالنے والوں سے کنارہ کشی کی ہے۔ آپؐ بات کو پھیلانے کے موقع پر بات کو پھیلاتے اور مختصر بات کی جگہ مختصر بات ہی کرتے تھے۔ آپؐ انوکھے اور نامانوس الفاظ کو ترک کرتے۔ بازاری اور رکیک الفاظ سے نفرت کرتے تھے۔آپؐ کا کلام سراپا حکمت و دانش کی میرات تھا۔ آپؐ کی گفتگو کو حاظت خداوندی اپنے جلو میں لیے ہوئے تھی۔ اس کلام کی تعمیر کو تائید الٰہی اور توفیق رہانی کی سہولت میسر تھی۔ کلام نبویؐ ایک ایسا کلام ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے محبت کی رنگت نکھار دی ہے۔ اور اسے شرف قبولیت سے سرفراز فرمایا ہے۔ اس میں ہیبت کے ساتھ شرینی و حلاوت اور حسنِ فہم کے ساتھ قلت کلمات ایک ساتھ نظر آئے گی۔‘‘ قاضی عیاض ’’سیرت نبویؐ‘‘ میں لکھتے ہیں’’جہاں تک فصاحت لسانی اور بلاغت زبانی کا تعلق ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میدان میں افضل ترین مقام کے مالک تھے۔ آپؐ کا مرتبہ فصاحت کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ طبیعت کی سلامت و روانی‘ معانی پیدا کرنے کا کمال‘ جامع و مختصر جملے بولنا‘ ستھرے اور چمک دمک والے الفاظ‘ صحت معانی اور ہر بات بے تکان اور بے تکلف و بلا تضع بولنا۔ آپؐ کی فصاحت و بلاغت کا حصہ تھا۔ انوکھی اور پُرحکمت باتیں آپؐ کے حضائص میں سے تھیں او رآپؐ کو عرب کی تمام زبانوں کا علم دیا گیا تھا۔‘‘ علامہ ابوالحسن لماوردی’’علوم النبوۃ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’آپؐ سب سے زیادہ فصیح اللسان واضع لبسیان‘ مختصر کلام تھے۔آپؐ کے الفظ سب سے زیادہ وزنی اور آپ کے معانی بھی سب سے زیادہ صحیح ہوتے۔ آپؐ کا کلام بلاغت کی تمام شرائط کا مجموعہ تھا۔ آپؐ نے نہ تو کسی سے بلاغت سیکھی اور نہ اہل بلاغت سے آپؐ کا کبھی میل جول رہا تھا۔ آپؐ کی بلاغت تو وہی ہے جو آپؐ کی جبلت اور فطرت کا تقاضا تھا۔‘‘
امام بوھیری فصاحت نبویؐ کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں’’نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معجزہ کافی تھا کہ دور جاہلیت کی تاریکیوں کو علم سے روشناس کردیا اور یتیم ہوتے ہوئے بھی آپؐ کو دستِ قدرت نے ادب سکھادیا۔‘‘
عرب کے تمام فصحاء و بلغاء نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت کی ستائش کی ہے اور سب کا اس پر اتفاق ہے کہ عربی زبان و ادب کی تاریخ میں کلام اللہ کے بعد فصاحت و بلاغت میں کلام نبویؐ کا مقام ہے۔ آپؐ کا اسلوب فیضان الٰہی کا نتیجہ ہے۔ اس لیے اس میں وحی الٰہی کے اثرات نمایاں تھے۔ آپؐ کے اسلوب تکلم و خطابت میں تکلف و تصنع نہیں تھابلکہ سادہ وسلیس پرکشش تھا۔ جاحظ نے ’’البیان‘‘ میں لکھا ہے لوگوں نے آپؐ کو ہمیشہ انتہائی راست گو‘ صائب کامل‘ صاحب فضلیت و معصومیت اور شرف ربانی کی تائید سے متعف پایا تو وہ جان گئے کہ یہ حکمت کا پھل اور توفیق ایزدی کا نتیجہ ہے۔اور یہ حکمت تقویٰ کا پھل اور اخلاص کا نتیجہ ہے۔ آپؐ کاارشادہے کہ انسان پر بیشتر آفات زبان کی بدولت آتی ہیں۔ حتی کہ سب سے بڑی آفت یعنی جہنم میں داخل ہونا بھی زبان درازی کا نتیجہ ہوگا۔’’آپؐ نے ریا کاری‘ تکلف سے تیاری کرنے اور ہر اس چیز سے منع فرمایا ہے جو دکھلاوے شہرت حاصل کرنے‘ تکبر اور بڑائی دکھانے کے مشابے ہو۔ اس طرح ایک دوسرے کو جھٹلانے ‘ جھگڑنے‘ مقابلہ کرنے اور ایک دوسرے پر غالب آنے کے لیے خطابت کو استعمال کرنے منع فرمایا ہے۔آپؐ ایک ایسی قوم میں مبعوث ہوئے تھے جس کے ہاں کمال کا معیار ہی بیان و بلاغت اور فصاحت لسانی تھی۔ ایک موقع پر حضرت اببوکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ یار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ تمام عرب کے لہجے اور مقامی بولیاں سمجھ لیتے ہیں اور ہر قبیلے سے اس کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں یہ علم و ادب آپ کو کس طرح حاصل ہوا‘‘آپؐ نے جواب میں فرمایا’’میرے رب نے مجھے سلیقہ اور ادب سکھایا ہے اور میری خوب خوب تربیت فرمائی۔‘‘
اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ جس دور میں جس چیز کا زور ہوتا ہے اسی کے مطابق انبیاء کو معجزہ عطا ہوتا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑکے زمانے میں ساحری کا چرچا تھا چنانچہ یدبیضاء اور عصا حضرت موسیٰ ؑکوعطا کیا گیا۔ حضرت عیسیٰ کا زمانہ طلب و حکمت کا عہد تھا اس لیے آپؐ کو اعجاز مسجائی عطا ہوا۔ لیکن فصاحت و بلاغت کے رسا عربوں میں قرآن کریم کے اعجاز سے کام لیا گیا۔ اس لیے آپؐصلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر اور زبان اقدس کو فصاحت و بلاغت کے تمام لوازمات کمال سے نوازا گیا۔ آپؐ کی فطرت میں خطابت کا اعجاز ودیعت کیا گیا آپؐ کا معمول یہ تھا کہ آپؐ انداز کلام اور اسلوب خطابت میں ہمیشہ اعتدال و میانہ روی اختیار فرماتے تھے ۔ حسب موقع اور بقدر ضرورت گفتگو فرماتے۔ جب تقریر فرماتے تو نہایت موزوں الفاظ اور جچا تلا۔ مگر پُر اثر انداز اختیار فرماتے۔ بات ختم کرچکے۔ تو سامعین کی تشنگی جاتی نہیں رہتی تھی۔ آپؐ کے خطبات اکثر مختصر مگر جامع ہوتے۔
آپؐ کی بودوباش ایسے قبائلی میں تھی جو خالص ترین زبان والے اور شیریں ترین بیان والے تھے۔ چنانچہ آپؐ بنو ہاشم میں پیدا ہوئے۔ قریش میں بڑے ہوئے اور بنو سعد میں پرورش پائی۔ اس لیے آپؐ فطرتاً افصح العرب تھے۔ آپؐ کی فصاحت الہام و فیضان کے مشابہ معلوم ہوتی تھی۔ جس میں آپؐ نے مشقت یا تکلف سے کچھ کام نہ لیا۔ آپؐ کی زبان سے نہ تو کبھی کوئی ناگوار لفظ ادا ہوا۔ اور نہ آپؐ کے اسلوب بیان میں ناہمواری نظر آئی۔ آپؐ کا کلام قران مجید کے بعد سب سے زیادہ فصیح و بلیغ تھا۔ آپؐ کے کلام میں نہ تکلف تھا نہ آپؐ اسے سجانے کا قصد فرماتے اور نہ تضع کے وسائل میں سے کسی وسیلے کی تلاش میں ہوتے۔
آپؐ کی بلاغت کی پانچ امتیازی خصوصیات تھیں۔
-1 کتاب اللہ کے بعد عربی فصاحت و بلاغت کی تاریخ میں کوئی ایسا خطیب نہیں ہوا جو آپؐ کی فصاحت وبلاغت کا ہم پلہ ہوسکے۔ یعنی قرآنی بلاغت کے بعد بلاغت نبویؐ کا ایک اعلیٰ و منفرد مقام ہے۔
-2 کلام نبوت میں ایسی تراکیب ہیں جو قلت لفظ کے ساتھ ساتھ کثرت معنی کا رنگت لیے ہوئے ہیں۔ گویا کوزے میں دریا بند ہے۔ چند لفظ ہیں جن میں خطابت کے وسیع سمندر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
-3 تیسری خصوصیت خلوص ہے۔ یعنی کسی قسم کا ابہام‘ مغالطہ نہیں۔ لفظ و معنی میں ایسی پختگی اور وضاحت ہے کہ سامع کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
-4 قصد و اعتدال چوتھی خصوصیت ہے یعنی لفظ و معنی میں ایجاذواقتصاء اور اسیا توازن پایا جاتا ہے جسے اقتصاد لفظی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
-5 آپؐ کے کلام کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ سننے والے کے دل میں کوئی تشنگی یا طلب باقی نہیں رہتی۔ لفظ و معنی اس کی تسلی کردیتے ہیں۔
آپؐ کے بے حد و بے شمار حکمت آگیں‘ فصاحت نظام و بلاغت کلام کے نمونے موجود ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔
-1 لوگ کنگھی کے دانوں کی طرح ہیں۔
-2 بیٹا اس کا جس کے بستر پر پیدا ہوا۔
-3 سنی ہوئی بات دیکھی ہوئی بات کی طرح نہیں ہے۔
-4 جو مخلوق پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔
-5 قوم کا سردار وہ ہے جو اس کی خدمت کرے۔
-6 شر کا ترک کرنا بھی صدقہ ہے۔
-7 انسان اس کی ساتھ ہے جس کو وہ محبوب رکھے۔
-8 لوگ کانیں ہیں۔
-9 جس سے مشورہ لیا جائے اس کے امانت ضروری ہے۔
-10 انسان مختار ہے جب تک کلام نہ کرے۔
-11 وہ شخص ہلاک نہیں ہوتا جو خود شناس ہے۔
-12 اللہ تعالیٰ نے اس بندے پر رحم فرمایا جس نے اچھی بات کہی تو فائدہ اٹھایا یا خاموشی اختیا رکرکے محفوظ ہوگیا۔
-13منہ دیکھ کر بات کرنے والا‘ اللہ تعالیٰ کے حضور میں باعزت نہیں ہے۔
-14میانہ روی اچھی چیز ہے۔
-15 اسلام قبول کر‘ محفوظ ہوجا۔
-16 اللہ سے ڈر تو جہاں کہیں بھی ہو۔
-17 اپنے دوست کو را زکم بائو ممکن ہے وہ تمہارا کسی روز دشمن ہوجائے۔
-18 تم کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر آگے ہوئے سبزے سے بچو (یعنی انسانی زندگی کی ایسی ظاہری خوشنمائی اور چکاچوند سے بچنا چاہیے‘ جس کی تہہ میں فکر و نظر اور اخلاق کی گندگی اور عفونت ہو۔)
-19 اب تنور بھڑکا ہے۔ (یعنی معرکۂ کارزار اب گرم ہوا ہے)
-20 دعا انبیاء کا ہتھیار ہے۔
21 ۔ پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر اللہ پر توکل کرو (یعنی ہر معاملے میں پہلے اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہیے پھر اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔)
-22 تم کبھی کبھار ملنے جائو محبت مین اضافہ ہوگا۔(یعنی کبھی کبھار کی ملاقات سے باہمی محبت بڑھتی ہے)
-23 نہ کسی کو نقصان پہنچانا روا ہے نہ کس کو انتقام کی خاطر تکلیف دینا روا ہے۔
-24 آبگینوں کو ٹھیس مت پہنچائو۔ یعنی عورتوں سے محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آئو۔
-25 کامیابی صبر کے ساتھ وابستہ ہے۔
-26 انسان دوست سے پہچاناجاتا ہے۔
-27 جس نے کوشش کی وہ کامیاب ہوا۔
-28 جو دوسروں پر ہسنتا ہے دنیا اس پر ہنسے گی۔
29 ۔ لڑائی ایک چال ہے۔ یعنی میدان جنگ میں چال چلنا بھی لڑائی ہے۔
30۔ حیا ایمان مین سے ہے۔
-31 اچھا خلق بہترین عبادت ہے۔
-32 شگون لینا شرک ہے۔
-33 اپنے ہاتھ کو قابو میں رکھو‘ یعنی تمہارا ہاتھ کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرے۔
-34 ۔ اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔
-35 غصہ سے اجتناب کرو۔
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/50604
 

الف نظامی

لائبریرین
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت
اہل عرب فصاحت و بلاغت میں تمام اقوام عالم سے برتر اور افضل تھے۔ انہیں اپنے اس وصف پر اتنا ناز تھا کہ وہ اپنے سوا تمام اقوام عالم کو عجمی (گونگا) کہتے تھے۔ ان فصحاء و بلغاء میں بھی حضور ﷺ کی شانِ فصاحت عدیم المثال تھی۔حضور کی شانِ فصاحت کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا تھا۔ حضور کے کلام میں بلا کی سلاست و روانی تھی۔ یوں معلوم ہوتا کہ کلمات نور کے سانچے میں ڈھل کر زبان اقدس سے ادا ہو رہے ہیں۔ جو بات زبان مبارک سے نکلتی وہ ہر عیب سے پاک ہوتی ، اس میں تکلف کا شائبہ تک نہ ہوتا۔

اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو جوامع الکلم سے نوازا تھا ۔ یعنی الفاظ قلیل ہوتے لیکن لطائف اور معانی کا ایک سمندر ان میں موجزن ہوتا تھا۔حضور کی زبان مبارک سے ایسے حکیمانہ جملے صادر ہوتے جو حکمت و دانائی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔عرب کے مختلف خطوں میں جو عربی بولی جاتی تھی اس میں بڑا تفاوت ہوتا تھا۔ سرکار دوعالم ﷺ کا وطن مبارک اگرچہ حجاز تھا لیکن حضور ﷺاہل حجاز کی لغت میں بھی جب گفتگو فرماتے تو فصاحت و بلاغت کے چمن آباد ہوجاتے اور عرب کے دیگر علاقوں کی علاقائی زبانوں میں بھی اس سلاست و قادرالکلامی سے گفتگو فرماتے کہ سننے والی حیران ہوجاتے۔ حضور ﷺجب بھی کسی کو مخاطب فرماتے تو اس کی علاقائی زبان میں خطاب فرماتے۔ اسی زبان کے محاورے استمعال فرماتے۔ انہیں کی شان فصاحت کا مقابلہ کرتے ، یہاں تک کہ صحابہ کرام جب کسی دوسرے علاقہ کی زبان میں حضور کو گفتگو کرتے سنتے تو کئی الفاظ کی تشریح و وضاحت کیلیے اپنے آقا کی طرف رجوع کرتے۔

ذوالمعشار ہمدانی سے اس وقت ملاقات ہوئی جب حضورﷺ تبوک سے واپس تشریف لائے تھے۔ بنی نہد کے خطیب طہفہ النہدی ، قطن بن حارثہ ، اشعت بن قیس ، وائل بن حجر الکندی اور حضرموت کے قبیلوں کے روسا اور یمن کے بادشاہوں سے گفتگو فرماتے تو انہیں کی زبان اور انہیں کے لہجہ سے۔بطور مثال ہادی برحقﷺ کا ایک مکتوب یہاں پیش کررہا ہوں جو سرکار نے قبیلہ ہمدان کے سردار ذوالمعشار الہمدانی کی طرف اس کی زبان میں لکھا تھا

ان لکم فراعھا و وھاطھا و عزازھا۔ تاکلون علافھا و ترعون عفاءفھا لنا من دفئھم و صرامھم ما سلموا بالمیثاق والامانۃ و لھم من الصدقۃ الثلب والناب والفصیل۔ والفارض والداجن و الکبش الحوری و علیھم فیھا الصالغ و لقارح(الشفا،)​

(اس کے ترجمہ کی ضرورت نہیں یہ سارے جملے اہل عرب کے لیے بھی غریب اور مشکل ہیں)

قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع پر متعدد علاقائی زبانوں کے نمونے تقل کئے ہیں۔

بنی نہد قبیلہ کے سردار طہفہ کے لیے حضور کے ارشادات ، وائل بن حجر کے نام حضور ﷺ کاگرامی نامہ ، مختلف قبائل کے روسا اور سلاطین کے طرف حضور ﷺ کے مکتوبات

اگرچہ ہم ان کلمات میں سے اکثر کو نہیں سمجھ سکتے لیکن ان میں جو روانی اور سلاست، جو جزالت اور فصاحت ہے ، پڑھنے والا سمجھے بغیر اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔جب عرب کی ان علاقائی زبانوں میں ،جو متداول نہ تھیں، حضور ﷺ کی فصاحت و بلاغت کا سمندر یوں ٹھاٹھیں مار رہا ہو کہ پڑھنے اور سننے والے سمجھے بغیر ان کی فصاحت و جزالت سے لطف اندوز ہوتے تو روزمرہ زبان میں جو شیرینی اور دلکشی ہوگی اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔

کئی ادباء نے سرور عالم ﷺ کے جوامع الکلم اور حکیمانہ اقوال کے مجموعے تالیف کیے ہیں جو عربی زبان کا طرہ امتیاز ہیں اور اہل عرب کے لیے فخر و مباہات کا باعث ہیں۔ جوامع الکلم اور اقوال حکمت کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ “المسلمین تتکافا دمآءھم”
تمام مسلمانوں کا خون مساوی ہےیعنی قصاص و دیت میں کسی شخص کو اس کی ثروت اور اس کے خاندان کے پیش نظر ترجیح نہیں دی جائے گی بلکہ سب کا قصاص یکساں ہوگا۔

2۔”یسعی بذمتھم ادناھم”
اگر کوئی کم درجے والا مسلمان کسی قوم کو امان دے گا یا عہد کرئے گا تو سب مسلمانوں پر اس کی پابندی لازمی ہوگی۔

3۔”وھم ید علی من سواھم”
تمام مسلمان دشمن کے مقابلہ میں یکجان ہوں گے۔

یہ تین چھوٹے چھوٹے جملے ہیں لیکن اگر ان میں غور کیا جائے تو ان میں علم و حکمت کے چشمے ابلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی تشریح میں بڑے بڑے دفاتر لکھے جاسکتے ہیں۔

حضور ﷺ کے متعدد ارشادات جو جوامع الکلم میں سے ہیں اور ان کا دامن حکمت کے انمول موتیوں سے معمور ہے ان میں سے چند یہاں درج کیے جاتے ہیں۔

1۔ “الناس کاسنان المشط”
تمام انسان اس طرح برابر ہیں جس طرح کنگھی کے دندانے

2۔”والمر مع من احب”
ہر انسان کو اس کی معیت حاصل ہوگی جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے

3۔ “لاخیر فی صحبۃ من لایری لک ما تری لہ”
اس شخص کی ہم نشینی میں کوئی فائدہ نہیں کہ تو اس کے بارے میں خیرکی تمنا کرے اور وہ تمہیں زک پہنچانے کے منصوبے بناتا رہے۔

4۔ “والناس معادن”
لوگوں کے مزاج مختلف قسم کے ہوتے ہیں جس طرح زمین میں مختلف قسم کی معدنیات ہوتی ہیں

5۔ “وما ھلک امرو عرف قدرہ”
جو اپنی قدر پہچانتا ہے وہ ہلاک نہیں ہوتا

6۔ “المستشار موتمن و ھو بالخیار مالم یتکلم”
جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہے۔ جب تک وہ اپنی رائے کا اظہار نہ کرے بلکہ خاموش رہے اسے اختیار ہے کہ وہ مشورہ دے یا نہ دے

7۔”رحم اللہ عبدا قال خیرا مغنم اوسکت فسلم اللہ تعالی”
اس شخص پر رحم فرمائے جو اچھی بات زبان سے نکالتا ہے اور اس سے فائدہ پہنچتا ہے یا سکوت اختیار کرتا ہے اور تمام لوگوں کی ایذارسانی سے محفوظ رہتا ہے۔

یہاں علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے حضور پرنور علیہ الصلوۃ والسلام کی جوامع الکلمات کی بہت سے نادر مثالیں درج کی ہیں۔ ان کے پڑھنے سے یقینا نورِبصیرت میں اضافہ ہوتا ہے

۔اقتباس از ضیاالنبی جلد پنجم صفحہ 275 از جسٹس پیرمحمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ​
 
آخری تدوین:
Top