نا ممکن کی طبیعیات "Physics of the Impossible" از میچو کاکو

زہیر عبّاس

محفلین
یہ کتاب مشہور زمانہ نظریاتی طبیعیات دان میچو کاکو کی کتاب"Physics of the Impossible" کا ترجمہ کرنے کی کوشش ہے ۔ کسی بھی کتاب کو ترجمہ کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ ہے لہٰذا اس میں کافی زیادہ غلطیوں کا احتمال ہوگا ۔ ہرچند یہ ایک طویل کتاب ہے لیکن اس میں دلچسپی لینے والے لوگوں کی رائے میری حوصلہ افزائی کرتی رہی تو انشاء الله اس کو جلد مکمل کرکے یہاں پر شایع کرتا رہوں گا ۔

یہ کتاب تین حصّوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ پہلے حصّے میں دس باب ہیں ۔ دوسرے حصّے میں تین باب جبکہ آخری حصّے میں دو باب ہیں ۔ اس کے علاوہ ابتدائیہ اور اختتامیہ بھی ہے ۔

پوری کتاب کا ترجمہ کرتے وقت انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ اپنی جگہ ایک مسئلہ بنا رہا ہے ۔ میں نے ترجمہ کرتے ہوئے http://www.urduenglishdictionary.org سے مدد لی ہے ۔ اس کے علاوہ دوسری سائنسی کتب کا بھی فائدہ اٹھایا ہے ۔ ہر چند ہر مصنف نے ایک ہی اصطلاح کا مختلف انداز میں ترجمہ کیا ہے ۔ مثلاً "Uncertainty Principle" کا ترجمہ کسی نے "اصول تیقین" کیا ہے تو کسی نے "اصول عدم یقین "۔ "Singularity" کو کہیں "اکائیت " ترجمہ کیا گیا ہے تو کہیں "عدم "۔ بہرحال میں نے ان اصطلاحات کا استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جن کا کثرت استعمال مختلف جگہوں پر دیکھا ہے ۔ میں نے کیونکہ اس کتاب کو ترجمہ کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی مدد لی ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ بہت ساری اصطلاحات کے ترجمے موجود ہوں لیکن میری ان تک رسائی نہیں ہوسکی ہو ۔ مزید براں یہ کہ میں نے شروع میں وکی پیڈیا میں استعمال ہونے والی اردو کی اصطلاحات کا استعمال کرنے کی کوشش بھی کی ۔ لیکن بعد میں اس کوشش کو ترک کر دیا کیونکہ وہ ایسی جناتی زبان میں ہیں جو کم از کم مجھ کم علم شخص کے پلے نہیں پڑیں ۔ بہرحال جہاں کہیں اصطلاح کا مناسب ترجمہ نہیں ملا تو عربی اور فارسی کی اصطلاح کی مدد لی ۔ اور جب بہت ہی مجبوری ہوئی تو پھر انگریزی سے ہی کام چلایا ۔

کافی جگہوں پر میں نے ڈائجسٹ اور بچوں کی کہانی میں ہونے والی اصطلاحات کا استعمال کیا ہے ۔ یہ سن کر ہو سکتا ہے کہ آپ کو حیرانی ہو رہی ہو۔ عمر و عیار کی سلیمانی ٹوپی سے کون واقف نہیں ہوگا ۔ لہٰذا میں نے “Invisibility Cloak”کو سلیمانی جبہ لکھنے میں کوئی شرم نہیں کی۔ اسی طرح سے “Telepathy” کو میں نے خیال خوانی لکھا ہے ۔ آپ میں سے جنہوں نے سسپنس ڈائجسٹ پڑھا ہوگا وہ "فرہاد علی تیمور" کے نام سے تو واقف ہوں گے ۔ جو محی الدین نواب صاحب کے مشہور زمانہ "دیوتا " کا ہیرو ہوتا ہے اور خیال خوانی کی طاقت کے بل بوتے پر بین الاقوامی استعمار کو نکیل ڈال کر رکھتا ہے ۔ تو جب نواب صاحب نے ٹیلی پیتھی کو لگ بھگ ٣٤ برس تک خیال خوانی لکھا تو پھر مجھے لکھنے میں کیوں دقت ہوگی ۔

اسی طرح ناموں کی "نقل صوتی " (Transliteration ) بھی کافی پریشانی کا باعث بنی رہی ۔"Einstein" کو کوئی آئن سٹائن لکھ رہا ہے تو کسی کتاب میں آئن اسٹائن لکھا ہوا ہے تو کہیں آئینسٹاین۔ اسی طرح کسی کتاب میں"Schrödinger" کو شروڈنگر لکھا ہے تو کسی رسالے میں شروڈنجر ۔ "Neutron" کو کوئی نیوٹران لکھ رہا ہے تو کوئی نیوٹرون ۔ اسی طرح"Neutrino" کو کوئی نیوٹرینو لکھ رہا ہے تو کسی رسالے میں آپ کو نیوٹرائینو لکھا ہوا ملے گا ۔

مسئلہ صرف اصطلاحات اور نقل صوتی کا نہیں ہے بلکہ اردو کے بھی کئی الفاظ ایسے ہیں جو کچھ لوگ ایک طرح سے لکھ رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ دوسری طرح سے ۔ مثلاً کوئی "نظریے" لکھ رہا ہے تو کوئی "نظریئے"۔ کوئی "شے" لکھ رہا ہے تو کہیں "شئے" لکھا ہوا ہے ۔ کوئی "شہابیے" لکھ رہا ہے تو کہیں" شہابئے" لکھا ہوا ملے گا ۔

کمپیوٹر پر اردو لکھتے ہوئے مجھے ابھی کچھ زیادہ عرصے نہیں ہوا ۔ اور اس بات کے لئے مجھے شاید گوگل کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ اس کے “Google IME” کی بدولت ہی میں اس کتاب کا ترجمہ اتنی آسانی سے کمپیوٹر پر اردو میں لکھ سکا ۔ کم از کم میرے لئے تو یہ بات سچ ہے کہ اگر گوگل کا یہ ٹول نہیں ہوتا تو میں اس کتاب کا ترجمہ کبھی بھی کرنے کی ہمت نہیں کرتا ۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس کتاب کو تین حصّوں میں بانٹا گیا ہے ۔ اس کو تین حصّوں میں بانٹے کی وجہ تو آپ ابتدائیہ میں پڑھ لیجئے گا ۔ میں صرف ان ابواب کا ذکر کر دیتا ہوں۔ کیونکہ ان میں سے ہر باب کافی طویل ہے ۔ لہٰذا ہر باب کو تین سے چار اقساط میں شایع کرنے کو کوشش کروں گا ۔

ابتدائیہ

حصّہ اوّل

١۔ قوّتِ میدان (فورس فیلڈ)

٢۔ پوشیدگی ((Invisibility

٣۔ فیزرس اور سیارہ غارت کنندہ

٤۔ دور دراز منتقلی (Teleportation)

٥۔ خیال خوانی (Telepathy)

٦۔روحی حرکی قوّت (Psychokinesis)

٧۔ روبوٹس

٨۔ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں)

٩۔ بین النجم خلائی جہاز

١٠۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات


حصّہ دوم

١١۔ سریع از نور رفتار

١٢۔ گزرے وقت میں سفر

١٣۔متوازی کائناتیں


حصّہ سوم

١٤۔ پیش بینی (Precognition)

١٥۔ دائمی حرکی مشین (Perpetual Motion Machine)


اختتامیہ
----------------------------------------------------------------------------------------

ابتدائیہ (حصّہ اوّل )

اگر کوئی خیال شروع میں ہی فضول نہ لگے تو پھر اس سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ہے۔


- البرٹ آئن سٹائن



کیا کسی دن ممکن ہو سکے گا کہ ہم دیوار میں سے آر پار ہو کر آسانی کے گزر سکیں ؟ کیا ہم ایسے بین النجم خلائی جہاز(Starships) جو سریع از نور (Faster Than Light)رفتار سے چلتے ہوں بنا سکیں گے؟ کیا ہم حاضر ہوتے ہوئے بھی لوگوں کی نظروں کے سامنے سے غائب ہو کر غیر مرئی(Invisible) ہو سکیں گے؟کیا مستقبل میں ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ اشیاء کو صرف اپنی دماغی طاقت سے ہلا سکیں ؟کیا ہم اپنے جسموں کو فی الفور خلاء کے دور دراز کے مقام میں منتقل کر سکیں گے ؟


میں اپنے بچپن سے ہی مذکورہ بالا تمام سوالوں میں دلچسپی لیتا تھا۔دوسرے کئی طبیعیات دانوں کی طرح جب میں نے بھی شعور کی منزل میں قدم رکھا تو مجھ پر، وقت میں ممکنہ سفر (Time Travel)، اشعاعی بندوق (Ray Guns)، غیر مرئی حفاظتی ڈھال (فورس فیلڈForce Filed - )، متوازی کائناتوں (Parallel Universes)اور اسی طرح کے دوسرے خیالات کی یلغار ہوتی رہتی تھی۔ جادو ، انوکھے خیال ، سائنسی قصّے یہ سب کے سب میرے تخیل کے کھیل کے میدان ہوتے تھے۔انہوں نے میرے پوری زندگی پر مشتمل ناممکنات(Impossibilities) کے ساتھ عشق کی ابتداء کی۔


مجھے وہ وقت یاد ہے جب پرانا فلیش گورڈن (Flash Gordon) ٹیلی ویژن پر نشر مکرر کیا گیا تھا ۔ ہر ہفتے کو میں ٹیلی ویژن سیٹ کے سامنے چپک کر بیٹھ جاتا تھا اور فلیش، ڈاکٹرزرکوف (Dr. Zarkov) اور ڈیل آرڈین (Dale Arden) کے جوکھموں اور ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی مستقبل کی ٹیکنالوجی(Technology): خلائی جہاز ، غیر مرئی حفاظتی ڈھال ، شعاعی بندوق اور آسمانوں میں قائم شہروں کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتا تھا۔ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا تھا کہ جس میں اس سلسلے کی قسط نشر ہو اور میں اس کونہ دیکھوں ۔اس پروگرام نے میرے سامنے پوری ایک نئی دنیا کھول کر رکھ دی تھی ۔ یہ بات سوچ کر ہی مجھے تھر تھری آ جاتی تھی کہ میں کسی ایک دن کسی خلائی سیارے پر جا کر اس کے عجیب اجنبی میدانوں کی چھان بین کر رہا ہوں گا۔ ان تمام زبردست دریافتوں کی کشش نے یہ بات مجھ پر عیاں کردی تھی کہ میری منزل کسی طرح سے اس پروگرام میں دکھائی جانے والی سائنس کے عجوبوں میں لپٹی ہوئی ہے۔


پھر بعد میں مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ اس دشت کی سیاحی میں صرف میں ہی اکیلا نہیں تھا۔ کافی سارے اعلیٰ پائے کے سائنس دانوں نے سائنس میں دلچسپی ان سائنسی قصّوں کے ذریعہ ہی لی تھی ۔ عظیم فلکیات دان ایڈوِن ہبل(Edwin Hubble) جولیس ورن(Jules Verne) کے کام سے مسحور تھا۔ ورن کے کام کو پڑھ کر ہبل نے قانون میں امید افزا مقام کو چھوڑ کر اپنے والد کی نافرمانی کرتے ہوئے ان کی خواہش کے برخلاف اپنا مستقبل سائنس کی دنیا میں شروع کیا۔ آخر کار وہ بیسویں صدی کا سب سے عظیم فلکیات دان بنا۔ کارل ساگاں (Carl Sagan) جو ایک ممتاز فلکیات دان اور کئی ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتابوں کا مصنف تھا اس نے اپنے تخیل کی بنیاد ایڈگر رائس بروس (Edgar Rice Burroughs) کے ناول جان کارٹر آف مارس (John Carter of Mars)سے ڈالی۔ جان کارٹر کی طرح اس نے ایک دن مریخ کی مٹی کو کھوجنے کا خواب دیکھا تھا۔


جب البرٹ آئن سٹائن کی موت ہوئی تو اس وقت میں اپنے لڑکپن کے عہد سے گزر رہا تھا ، مگر مجھے یہ بات اچھی طرح سے یاد ہے کہ لوگ اس کی زندگی اور موت کے بارے میں سرگوشیاں کرتے تھے۔ آئن سٹائن کی موت کے اگلے دن میں نے اخبار میں اس کی میز کی تصویر کو دیکھا ، جس پر اس کا سب سے عظیم اور نامکمل کام کا مسودہ رکھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا ایسی کونسی اہم چیز تھی جو اپنے دور کے مشاق سائنس دان سے مکمل نہیں ہو سکی ؟ اس مضمون میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ آئن سٹائن نے ایک ناممکن چیز کا خواب دیکھا تھا ، ایک مسئلہ جو اس قدر گھمبیر تھا کہ اس کا حل کسی فانی انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے یہ بات جاننے کے لئے برسوں لگ گئے کہ وہ مسودہ کس چیز کے بارے میں تھا ؟ وہ ایک عظیم وحدتی "ہر شئےکے نظریئے " (Theory of Everything)کے بارے میں تھا۔ اس خواب نے اس کے زندگی کے آخری تین عشروں کو پی لیا تھا ،اور اسی چیز نے مجھے اپنے تخیل پر مرتکز ہونے کے لئے مدد کی۔ میں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے میں بھی اپنا تھوڑا حصّہ آئن سٹائن کی ان کوششوں میں ڈالوں جس میں طبیعیات کے تمام مروجہ قوانین کو یکجا کرکے ایک نظریئے میں پرویا جا سکے۔


جب میں نے شعور کی کچھ منازل کو طے کر لیا اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اگرچہ فلیش گورڈن ایک جانباز تھا اور ٹیلی ویژن ڈرامے میں ہمیشہ اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا ، اصل ہیرو تو سائنس دان تھے جنہوں نے ٹیلی ویژن کے اس سلسلے کو اس قابل بنایا تھا کہ اس کو نشر کیا جا سکے۔ ڈاکٹر زرکوف کے بغیر کوئی بھی خلائی جہاز نہیں بن سکتا تھا ، نہ ہی مانگو کا سفر (Trip to Mongo) کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی زمین کو بچایا جا سکتا تھا۔ جانبازی کو چھوڑ دیجئے ، سائنس کے بغیر تو سائنسی قصوں کا بھی وجود نہیں ہوتا۔



بعد میں مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ کہانیاں تو سائنس کی رو سے تقریباً ناممکن تھیں یہ تو صرف انسانی تخیل کی پرواز ہی تھیں۔ شعور کی منازل کو حاصل کرنے کا مطلب تھا کہ ایسی طلسمی کہانیوں کو اپنے ذہن سے دور کر دیا جائے۔ حقیقی دنیا میں مجھے بتایا گیا کہ ناممکنات کو چھوڑ کر قابل عمل چیزوں کو گلے لگانا ہوتا ہے۔


بہرحال میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر مجھے اپنے ناممکنات کی سحر انگیزی سے الگ نہیں ہونا تو یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب میں طبیعیات کی رو سے ان کو جاننے کی کوشش کروں۔ جدید طبیعیات کی ٹھوس معلومات کے بغیر میں صرف مستقبل کی ٹیکنالوجی کے بارے میں اندازے قائم کرتا رہوں گا اس بات کو سمجھے بغیر کہ آیا وہ ممکن بھی ہیں یا نہیں۔ میں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ مجھے جدید ریاضی میں اپنے آپ کو غرق کرنا پڑے گا اور طبیعیات کو سیکھنا ہوگا۔ اور پھر میں نے یہ ہی کیا۔


میں نے کالج کے سائنس فیئر کے پروجیکٹ میں ، اپنے گھر کے گیراج میں ایک جوہری تصادم گر(Atom Smasher) بنایا۔ میں ویسٹنگ ہاؤس کمپنی گیا جہاں سے ٤٠٠ پونڈ ٹرانسفارمر کا بچا کچا سریا حاصل کیا۔ کرسمس کے دنوں میں٢٢ میل کے تانبے کی تاروں کو کالج کے فٹبال کے میدان میں لپیٹا۔ آخر کار میں نے ٢٣ لاکھ الیکٹران وولٹ برقی مسرع (اِنتہائی تیز رفتار الیکٹرون تیار کرنے کا آلہ جو ایک ٹرانسفارمر کی طرح کام کرتا ہے جس کو انگریزی میں بیٹا ٹرون – Betatron کہتے ہیں ) کا ذرّاتی اسراع گر(Particle Accelerator) بنا لیا جو ٦ کلو واٹ پاور استعمال کرتا تھا (یہ میرے گھر کی پوری بجلی کے برابر تھا ) اور زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٢٠ ہزار گنا زیادہ مقناطیسی میدان پیدا کرتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ ایک گیما شعاعوں کی کرن کو پیدا کیا جا سکے جو اس قدر طاقتور ہو جس سے ضد مادّہ (Anti Matter)پیدا ہو جائے۔


میرے سائنس فیئر کے اس پروجیکٹ نے مجھے نیشنل سائنس فیئر میں جگہ دلوا دی اور ہار ورڈ کا وظیفہ حاصل کر کے آخرکار میرا خواب پورا ہوا جہاں میں اپنے مقصد یعنی کہ طبیعیات دان بننے کے لئے جدوجہد کر سکتا تھا اور اپنے مثالی سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کے نقش قدم پر چل سکتا تھا۔


آج مجھے سائنسی کہانیوں کے مصنفین اور فلم نگاروں کے برقی خطوط ( ای میلز ) موصول ہوتی رہتی ہیں جس میں وہ مجھ سے اپنی کہانیوں میں سچائی کا رنگ بھرنے کے لئے مدد مانگتے ہیں اور اس بات کو جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ناممکنات کی آخری حد کیا ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکنات کی طبیعیات از میچو کاکو
--------------------------------------------------------------------------------------------
ابتدائیہ - حصّہ دوم
--------------------------------------------------------------------------------------------
"ناممکن" ایک نسبتی چیز ہے


بطور طبیعیات دان ، اکثر میں نے یہ دیکھا ہے کہ ناممکن ایک نسبتی اصطلاح (Relative Term)ہے . شعور کی منازل طے کرتے ہوئے مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میری استانی نے دیوار پر لگے زمین کے نقشے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے جنوبی امریکہ اور افریقہ کی ساحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا . کیا یہ ایک عجیب اتفاق نہیں ہے کہ دونوں ساحل ایک دوسرے سے ایسے ملے ہوئے ہیں جیسے کہ آڑا کٹا معمہ(Jigsaw Puzzle)؟ کچھ سائنس دان بہرحال اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ شاید یہ کبھی ایک ہی بڑے وسیع بر اعظم کا حصّہ تھے . مگر مجھے ان کی یہ بات کافی بیوقوفانہ لگتی ہے کوئی بھی طاقت اتنی توانا نہیں ہوسکتی کہ ان دو عظیم بر اعظموں کوایک دوسرے سے دھکیل کر دور کر سکے . ایسا سوچنا ہی ناممکن ہے . انہوں نے نتیجہ بھی اخذ کر لیا تھا .


اگلے سال ہم نے ڈائنو سارس کا مطالعہ کیا .میرے استاد نے کہا ،کیا یہ بات بہت عجیب نہیں ہے کہ ڈائنو سارس زمین پر کروڑوں سال حکمرانی کرتے رہے اور ایک دن سب کے سب غائب ہو گئے ؟ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیوں مر گئے . کچھ ماہر رکازیات(Paleontologist) سمجھتے ہیں کہ شاید خلاء میں سے آتے ہوئے کسی شہابیے نے ان سب کی جان لے لی مگر یہ بات ناممکن ہے ایسا تو سائنسی قصّوں میں ہی ہوتا ہے .


آج ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ارضی سختائے ہوئے حصّوں (Plate Tectonics)کے ذریعہ بر اعظم حرکت کرتے ہیں اور غالب گمان یہ ہی ہے کہ ٦.٥ کروڑ سال پہلے ایک دیو قامت شہابیہ(Meteor) جس کا حجم چھ میل کا تھا اس نے زمین سے ٹکرا کر اس کی سطح پر رہنے والے ڈائنو سارس اور دوسری پائی جانے والی حیات کا خاتمہ کر دیا تھا . میں نے اپنی اس کوتاہ عرصہ حیات میں ناممکن نظر آنے والی چیزوں کو بار بار سائنسی حقیقت بنتے ہوئے دیکھا ہے . لہٰذا کیا یہ سوچنا ممکن ہے کہ ہم مستقبل میں کسی ایک دن اپنے آپ کو ایک جگہ سے دور دراز دوسری جگہ فی الفور منتقل (Teleport)کر سکیں ، یا کوئی ایسا خلائی جہاز بنا سکیں جو ایک دن ہمیں نوری برس (Light Year)کے فاصلوں پر موجود ستاروں پر کمند ڈالنے میں مدد کر سکے ؟


عام طور پر کوئی بھی ایسا کارنامہ آج کے طبیعیات دانوں کی نظر میں ناممکن ہے . ہو سکتا ہے کہ یہ آنے والی چند صدیوں میں ممکن ہو سکے؟ یا آنے والی دس ہزار برسوں میں جب ٹیکنالوجی اور زیادہ جدید ہو جائے ؟ یا پھر دسیوں لاکھ سال گزرنے کے بعد ؟ اس کو ذرا دوسری طرح سے سوچیں ، اگر ہمارا سامنا کسی طرح سے ایک ایسی تہذیب (Civilization)سے ہوتا ہے جو ہم سے دس لاکھ سال آگے ہو تو کیا ان کی روزمرہ کی ٹیکنالوجی ہمیں جادو لگیں گی ؟ اس کتاب کی گہرائی میں ایک سوال ہر جگہ نظر آئے گا ، کیا صرف اس لئے کوئی چیز آنے والی صدیوں یا لاکھوں برس کے مستقبل میں ناممکن رہے گی کیونکہ ہم اس کو دور حاضر میں ناممکن سمجھتے ہیں ؟


پچھلی صدی میں سائنس کی ترقی کو دیکھتے ہوئے بالعموم اور کوانٹم نظریئے(Quantum Theory) اور عمومی اضافیت(General Relativity) کی پیدائش کے بعد بالخصوص یہ بات ممکن ہو گئی ہے کہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ اگر ان ٹیکنالوجی کا ہونا ممکن ہے تو کب تک بھلا ایسا ہو سکے گا . مزید جدید نظریوں کے پیش کئیے جانے کے بعد جیسا کہ اسٹرنگ کے نظریئے نے سائنسی کہانیوں میں موجود کئی چیزوں مثلاً وقت میں سفر اور متوازی کائناتوں کے بارے میں بھی ماہرین طبیعیات کو دوبارہ سے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے . ذرا آج سے ١٥٠ برس پہلے کے دور میں ان ٹیکنالوجی کا تصوّر کیجئے جن کو اس وقت کے سائنس دانوں نے ناممکن قرار دے دیا تھا مگر آج وہ ہماری زندگی کا لازمی حصّہ بن چکی ہیں . جولس ورن نے ایک ناول ١٨٦٣ءمیں لکھا تھا جس کا نام پیرس ان دی ٹوینٹتھ سنچری تھا .یہ ناول لکھےجانے کے بعد ایک صدی تک تالے میں بندرہا اور اس وقت تک گمنامی کے اندھیروں میں ڈوبا رہا جب تک اس کو حادثاتی طور پر ورن کے پڑ پوتے نے دریافت نہیں کر لیا اور پہلی دفعہ یہ ١٩٩٤ء میں شایع ہوا. اس ناول میں ورن نے اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ پیرس ١٩٦٠ء میں کیسا دکھائی دے گا . اس کے ناول میں ان ٹیکنالوجی کی بھر مار ہے جو انیسویں صدی میں ناممکن سمجھی جاتی تھیں ، جس میں فیکس مشین ، عالمگیر مواصلاتی نظام ، شیشے کی بلند و بالا عمارتیں ، تیل سے چلنے والی خود کار گاڑیاں اور تیز رفتار بالائی گزرگاہ والی ریل گاڑیاں وغیرہ شامل ہیں .


اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ورن نے اس قدر صحت کے ساتھ پیشگوئی کیسے کر لیں تھیں . اس کی وجہ تھی وہ سائنس کی دنیا میں غرق رہتا تھا اور اپنے ارد گرد موجود سائنس دانوں کےافکار سے فائدہ اٹھانا جانتا تھا . سائنس کی بنیادی باتوں کی گہرائی میں غور و فکر کرنے سے ہی اس نے ایسی چونکا دینے والی پیش گوئیاں کی تھیں .


نہایت ہی افسوس سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ انیسویں صدی کے کچھ عظیم سائنس دانوں نے اس کے برخلاف سوچا اور بہت ساری ٹیکنالوجی کو ناامیدی کی حد تک ناممکن قرار دے ڈالا . لارڈ کیلون (Lord Kelvin)، جو شاید وکٹورین دور کے سب سے ممتاز طبیعیات دان تھے (ان کو آئزک نیوٹن کے پہلو میں ویسٹ منسٹر ، ایبی میں دفن کیا ہوا ہے ) نے اس بات کا اعلان کردیا تھا کہ "ہوا سے بھاری "کوئی بھی چیز جیسا کہ ہوائی جہاز کو بنانا ممکن نہیںہوگا . ان کا خیال تھا کہ ایکس ریز(X-rays) ایک افوہ ہے اور ریڈیو کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا . لارڈ ردرفورڈ (Lord Rutherford) جس نے جوہر کا مرکزہ دریافت کیا تھا انہوں نے جوہری بم کو چاند کی روشنی کے مماثل دے کر اس کے بنانے کے امکان کو ہی مسترد کردیا تھا . انیسویں صدی کے کیمیا دانوں نے پارس پتھر یا سنگ جادو (جس کو فلاسفر اسٹون بھی کہتے ہیں ) – ایک ایسی چیز جو سیسے کو سونے میں بدل دے - کی تلاش کے کسی بھی امکان کو مسترد کردیا تھا . انیسویں صدی کی کیمیا ان عناصر مثلاً سیسہ کے غیر متبدلانہ یا عدم تغیری کی اساس پر کھڑی تھی. لیکن آج کے جوہری تصادم گروں کی مدد سے ہم نظری اعتبار سے سیسے کے جوہروں کو سونے میں بدل سکتے ہیں . ذرا آج کے ٹیلی ویژن ، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر نظر ڈالیں اور سوچیں کہ وہ بیسویں صدی میں کیسے شاندار ہو گئے ہیں .


کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے جب سیاہ شگافوں (بلیک ہولز) کو سائنسی قصّوں سے زیادہ کچھ اور سمجھا نہیں جاتا تھا . خود آئن سٹائن نے ١٩٣٩ءمیں ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ بلیک ہولز کبھی بھی نہیں بن سکتے . اس کے باوجود ہبل خلائی دوربین(Hubble Space Telescope) اور چاندرا ایکس رے دوربین (Chandra X-ray Telescope)نے خلاء میں موجود ہزاروں بلیک ہولز کی نشاندہی کی ہے .


یہ ٹیکنالوجی اس وجہ سے ناممکن سمجھی جاتی تھیں کہ اس وقت بنیادی طبیعیاتی قوانین اور سائنس کا انیسویں صدی کے دوران اور بیسویں صدی کے اوائلی حصّے میں دریافت نہیں ہوئے تھے . اس وقت سائنس کی معلومات خاص طور پر جوہری پیمانے پر خاصی کم تھیں لہٰذا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ ان ٹیکنالوجی کو اس وقت ناممکن سمجھا گیا تھا .

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
ابتدائیہ کا آخری حصّہ پوسٹ کررہا ہوں۔ اس کے بعد کل سے انشاء الله پہلا باب بھی پوسٹ کرنا شروع کروں گا ۔ آپ لوگوں سے مشورہ درکار ہے کہ آیا پہلا باب اسی دھاگے میں جاری رکھوں یا اس کے لئے ایک نیا دھاگہ کھول دوں؟ برائے کرم اپنے مشورے سے ضرور دیجئے گا۔ اتنا بتا دوں کہ ہر باب کم از کم ٨ ہزار الفاظ پر مشتمل ہے جو میں تین چار حصّوں میں پوسٹ کروں گا۔ آپ لوگوں کی رہنمائی کا انتظار رہے گا ۔

لیجئے اب ابتدائیہ کا آخری حصّہ ملاحظہ کیجئے۔


ناممکنات کی طبیعیات از میچو کاکو
--------------------------------------------------------------------------------------------
ابتدائیہ -آخری حصّہ
--------------------------------------------------------------------------------------------


ناممکنات پر غور و فکر

تعجب انگیز بات تو یہ ہے کہ ناممکنات پر سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے سے کلی طور ناقابل توقع اور گہرے سائنسی میدان کے دروازے وا ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صدی تک دائمی حرکی مشین (Perpetual Motion Machine) کی مایوس کن اور بے ثمر تلاش نے طبیعیات دانوں کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ ایسی کوئی بھی مشین بنانا ناممکن ہے۔ لیکن اس فضول سی کوشش میں وقت برباد کرنے کے نتیجے میں انہوں نے بقائے توانائی (Conservation of Energy) اور حر حرکیات (Thermodynamics) کے تین قوانین کوحاصل کیا ۔ اس طرح سے ایک فضول دائمی حرکی مشین کی تلاش نے ایک بالکل نیا میدان حر حرکیات کا کھول دیا جو ایک طرح سے بھاپ کے انجن، مشینی دور اور جدید صنعتی سماج کی بنیادوں کا حصّہ بنا۔


انیسویں صدی کے اختتام تک سائنس دانوں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زمین کی عمر ارب ہا سال کی نہیں ہو سکتی۔ لارڈ کیلون نے اس بات کا اعلان قطعیت کے ساتھ کر دیا کہ پگھلی ہوئی زمین ٢ سے ٤ کروڑ برس میں ہی ٹھنڈی ہو سکتی ہے جو براہ راست ارضیاتی اور ڈارونی حیات دانوں کے ان دعووں کے خلاف تھا جس میں زمین کی عمر کو ارب ہا سال کا سمجھا گیا تھا۔ مادام کیوری اور دوسروں کی نیوکلیائی دریافت کے بعد ناممکن آخر کار ممکن میں بدل گیا۔ اس دریافت سے یہ معلوم ہوا کہ زمین کا مرکز کس طرح سے تابکاری تنزلی یا انحطاط (Radioactive Decay)کے نتیجے میں گرم ہوتا ہے جو حقیقت میں زمین کو ارب ہا سال تک پگھلی ہوئی حالت میں رکھ سکتا ہے۔



١٩٢٠ء اور ١٩٣٠ء کے عشروں میں جدید راکٹ کے بانی رابرٹ گوڈارڈ (Robert Goddard) کو ان لوگوں نے زبردست تنقید کا نشانہ بنایا جو یہ سمجھتے تھے کہ راکٹ کبھی بھی خلاء میں سفر نہیں کر سکے گا۔ وہ طنز ا ً اس کی جدوجہد کو" گوڈارڈ کی حماقت" کہتے تھے۔ ١٩٢١ء میں نیو یارک ٹائمز کے مدیر ڈاکٹر گوڈارڈ کے کام پر کچھ یوں برسے: "پروفیسر گوڈارڈ عمل اور رد عمل کے باہمی رشتے سے بالکل بے خبر ہیں اور ان کو خالی خلاء کے بجائے کسی ایسی چیز کی اشد ضرورت ہے جو رد عمل ظاہر کر سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس وہ بنیادی علم بھی موجود نہیں ہے جو روزانہ کالج میں طالبعلموں کو بچوں کی طرح دیا جاتا ہے۔" راکٹ بنانا ممکن نہیں ہے ، مدیر نے خفگی سے کہا ،کیونکہ وہاں خلاء میں ہوا موجود نہیں ہے جو اس کو اپنے خلاف دھکا دے سکے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایک ریاست کے سربراہ - ایڈ لف ہٹلر (Adolf Hitler)نے گوڈارڈ کے نا ممکنہ راکٹ کے مضمرات کا اندازہ لگا لیا ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ناممکن سمجھے جانے والے راکٹوں وی – ٢ نے موت و تباہی کی صورت پر لندن میں بارش کردی ، جس کے نتیجے میں انگلستان نے تقریباً گھٹنے ٹیک ہی دیئے تھے۔


ناممکنات پر غور و فکر نے شاید دنیا کی تاریخ کو ہی بدل دیا۔ ١٩٥٠ء کے عشرے میں یہاں تک کہ آئن سٹائن بھی اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ جوہری بم(Atom Bomb) بنانا ناممکن ہے۔ طبیعیات دان جانتے تھے کہ آئن سٹائن کی مساوات کے مطابق زبردست توانائی جوہر کے مرکزے میں موجود ہوتی ہے مگر ایک مرکزے سے نکلنے والی توانائی بہت ہی معمولی ہوتی ہے۔ مگر جوہری طبیعیات دان لیو زیلارڈ(Leo Szilard) نے ١٩١٤ءکے ایچ جی ویلز(H.G. Wells)کے ناول ، "دا ورلڈ سیٹ فری" کو یاد رکھا ہوا تھا جس میں ویلز نے جوہری بم کے بننے کی پیش گوئی کی تھی ۔ اس کتاب میں ویلز نے لکھا تھا کہ جوہری بم کا راز ایک طبیعیات دان نے ١٩٣٣ء میں پا لیا تھا۔ اتفاق کی بات تھی کہ زیلارڈ کے ہاتھ یہ ناول ١٩٣٢ءمیں لگا تھا۔ ناول کو پڑھ کر اس کو حوصلہ ملا ،اتفاق کی بات ہے کہ جیسا کہ ویلز نے دو دہائی قبل جوہری بم بنانے کی پیشن گوئی کی تھی ،زیلارڈ پر یہ بات منکشف ہو گئی تھی کہ کس طرح سے انفرادی جوہر کی توانائی کو زنجیری تعامل(Chain Reaction) کے ذریعہ بڑھایا جاتا ہے اس طرح سے ایک یورینیم کے مرکزے کو توڑ کر حاصل کرنے والی توانائی کو دسیوں کھرب تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ زیلارڈ نے اس کے بعد تجربات کا ایک سلسلہ شروع کیا اور آئن سٹائن اور صدر فرینکلن روز ویلٹ سے خفیہ گفت و شنید جاری رکھی جس کے نتیجے میں مین ہٹن پروجیکٹ وجود میں آیا جہاں پہلا جوہری بم بنا۔



بار ہا ہم نے دیکھا ہے کہ ناممکنات میں غور و فکر نے ہمارے لئے بالکل نئے دریچوں کو وا کیا ہے جس نے طبیعیات و کیمیا کی حدود کونہ صرف وسیع کر دیا بلکہ سائنس دانوں کو بھی ناممکن کے مطلب کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ جیسا کہ سر ولیم اوسائر(Sir William Osier) نے ایک دفعہ کہا تھا ،"ایک نسل کا فلسفہ دوسری نسل کے لئے خرافات بن جاتی ہے ، اور گزرے ہوئے کل کی بیوقوفی آنے والے کل کی دانائی بن جاتی ہے۔"


کافی طبیعیات دان ایسے ہیں جو ٹی ایچ وائٹ (T.H.White) کےاس مشہور و معروف قول کو دہراتے ہیں جو انہوں نے دی ونس اینڈ دی فیوچر کنگ میں لکھا تھا ، "کوئی بھی چیز جو ممنوع نہیں ہے وہ لازمی ہوتی ہے !" طبیعیات میں ہم نے اس کا ثبوت ہر دور میں پایا ہے۔تاوقتیکہ ہم کوئی ایسا طبیعیات کا قانون پا لیں جو واشگاف طور پر کسی نئے مظاہر کی مخالفت کرے۔(ایسا کافی دفعہ نئے ذیلی جوہری ذرّات کو تلاش کرتے ہوئے ہو چکا ہے۔) ایک منطقی نتیجہ ٹی ایچ وائٹ کے بیان کا شاید یہ ہو سکتا ہے "کوئی بھی چیز جو ناممکن نہیں ہے ، وہ لازمی ہے !"


مثال کے طور پر ماہر کائنات ا سٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking)نے ایک نئے قانون طبیعیات کو دریافت کرنے کے بعد وقت میں سفر کو ناممکن ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جس کو اس نے "قانون تحفظ تقویم"(Chronology Protection Conjecture) کا نام دیا۔ بدقسمتی سے کافی برسوں کی سخت محنت کے بعد بھی وہ اپنے اس اصول کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے برخلاف درحقیقت طبیعیات دانوں نے اس بات کا عملی مظاہرہ کیا ہے کہ کوئی بھی قانون جو ہمیں وقت میں سفر کرنے سے روکے آج کے مروجہ ریاضی کے قوانین کی رو سے بہت دور ہے۔ کیونکہ آج کوئی بھی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو ٹائم مشین بنانے سے روکے۔ لہٰذا طبیعیات دانوں کو نہایت سنجیدگی سے وقت میں سفر کے امکان کو لینا پڑا۔


اس کتاب کا مقصد ہے کہ ان ٹیکنالوجی کا جائزہ لیا جائے جن کو آج تو ناممکن سمجھا جاتا ہے لیکن ہو سکتا ہے وہ آنے والی عشروں سے لے کر صدیوں تک ہماری روزمرہ کی زندگی کا لازمی حصّہ بن جائیں۔


پہلے ہی ایک اور "ناممکن " سمجھی جانے والی ٹیکنالوجی کا" ممکن" ہونا ثابت ہو چکا ہے :دور دراز منتقلی (دور دراز اجسام کی بغیر کسی ذریعہ کے منتقلی یعنی Teleportation - ) کا کامیاب تجربہ کم از کم جوہری پیمانے پر تو کیا جا چکا ہے۔ کچھ برسوں پہلے ہی طبیعیات دان یہ کہتے ہوئے پائے جاتے تھے کہ کسی بھی شے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر کسی واسطے کے بھیجنا کوانٹم طبیعیات کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اصل اسٹار ٹریک کا مصنف طبیعیات دانوں کی تنقید سے اس قدر ڈسا گیا کہ بالآخر اس کو ہائیزن برگ کا آلہ تثویب(Heisenberg Compensators) کو اس میں شامل کرنا پڑا تاکہ وہ دور دراز منتقلی میں موجود ایک نقص کو درست کر سکے۔ آج حالیہ دریافتوں کی بدولت ، طبیعیات دان جوہروں کو ایک کمرے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ یا فوٹون کوآسٹریا کے دریائے ڈینیوبی کے پار منتقل کرچکے ہیں۔



مستقبل کا اندازہ لگانا

مستقبل کا اندازہ لگانا ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے خاص طور پر ایک صدی سے لے کر اگلے ہزار برسوں تک۔ طبیعیات دان نیلز بوہر (Neils Bohr)اس بات کی کافی تکرار کرتا تھا ،" اندازہ لگانا بہت ہی مشکل کام ہے۔ خاص طور پر مستقبل کے بارے میں۔" مگر جولیس ورن کے دور اور حالیہ عہد میں کافی بنیادی فرق ہے۔ آج طبیعیات کے بنیادی قوانین کو سمجھا جا چکا ہے۔ ششدر کر دینے والے تینتالیس درجے کے بنیادی قوانین جو پروٹون کی اندرونی ساخت سے لے کر کائنات تک کا احاطہ کرتے ہیں آج طبیعیات دان ان کو اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں۔ نتیجتاً طبیعیات دان معقولیت کے ساتھ پر اعتماد طور پر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی کس طرح کی ہو سکتی ہیں اور ساتھ ساتھ وہ ان ٹیکنالوجی کو بھی الگ کر سکتے ہیں جن کا ممکن ہونا بعید از امکان ہے اور وہ بھی جو واقعی میں ناممکن ہیں۔


اسی لئے اس کتاب میں ناممکن چیزوں کو میں نے تین حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔


پہلی جماعت I کی ناممکنات ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہیں جو آج تو ناممکن ہیں لیکن یہ ہمارے جانے پہچانے قوانین طبیعیات سے رو گردانی کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہیں۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ یہ اس صدی میں ہی ممکن ہو جائیں یا شاید اگلی صدی میں کچھ بدلی ہوئی حالت میں ہمیں نظر آئیں ۔ اس جماعت میں جو ناممکنات شامل ہیں وہ یہ ہیں : دور رہیّت (دور دراز فوری منتقلی )، ضد مادّہ سے چلنے والے انجن ، خیال خوانی(Telepathy) کی مختلف اقسام، دماغی طاقت سے چیزوں کو حرکت دینا(Psychokinesis) اور غیر مرئیت (Invisibility)۔


دوسری جماعت وہ ہے جس کو میں نے جماعت II کی ناممکنات کہا ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہیں جہاں طبیعیاتی دنیا کی ہماری سمجھ بوجھ ابھی شروع ہوئی ہے۔ اگر وہ کسی طرح سے ممکن ہو سکتی ہیں تو بھی ان چیزوں کو پورا ہونے میں ایک ہزار سال سے لے کر دسیوں لاکھ سال تک لگ سکتے ہیں۔ اس میں ٹائم مشین ، اضافی خلاء میں سفر(Hyper Space Travel) کا امکان اور ثقف کرم(وارم ہول یعنی Wormhole - ) کے ذریعہ وقت میں سفر شامل ہیں۔


آخری قسم کو میں نے جماعت III کی ناممکنات کا نام دیا ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہیں جو مروجہ قوانین طبیعیات سے رو گردانی کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ایسی بہت ہی کم ٹیکنالوجی ہیں۔ اگر ان کا وقوع ہونا ممکن ہوا تو یہ ہماری طبیعیات کی سمجھ بوجھ میں بنیادی تبدیلی ہوگی۔



درجہ بندی اہم ہے ، میں یہ بات محسوس کرتا ہوں کہ سائنسی قصّوں میں بہت ساری ٹیکنالوجی کو سائنس دانوں نے اس لئے رد کر دیا تھا کہ ان کا پورا ہونا ناممکن تھا ، جب سائنس دان کوئی ایسی بات کرتے ہیں تو ان کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی ہماری جیسی نوزائیدہ تہذیب کے لئے ناممکن ہیں۔ مثال کے طور پر خلائی مخلوق کا زمین پر چکر لگانا عام طور پر ناممکن سمجھا جاتا ہے کیونکہ ستاروں کے درمیان فاصلہ بہت وسیع ہے۔ واضح طور پر بین النجم سفر(Interstellar Travel) ہمارے جیسی کسی بھی تہذیب کے لئے ناممکن ہے ، مگر کوئی تہذیب ہم سے جو صدیوں یا ہزاروں سال آگے ہوگی اس کے لئے ایسا سفر ممکن ہو گا۔ لہٰذا ایسی کسی چیز کو "ناممکن" کا درجہ دینا اہم ہے۔ وہ ٹیکنالوجی جو ہماری دور حاضر کی تہذیب کے لئے ناممکن ہیں ،ضروری نہیں ہیں کہ وہ دوسری جدید قسم کی تہذیبوں کے لئے ناممکن ہوں۔ کسی بھی چیز کو ممکن اور ناممکن کی گروہ بندی کرنے سے پہلے اس بات کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی ایک ہزار برس سے لے کر دسیوں لاکھ سال مستقبل میں ہم سے کس قدر جدید ہو سکتی ہیں۔


کارل ساگاں نے ایک دفعہ ہمیں دعوت فکر دیتے ہوئے لکھا تھا،" کسی بھی تہذیب کے لئے دس لاکھ برس پرانے ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ ہمارے استعمال میں ریڈیائی دوربینیں اور خلائی جہاز صرف چند عشروں سے ہی آنے شروع ہوئے ہیں ؛ ہماری فنی تہذیب صرف چند سو سال پرانی ہے۔۔۔ کوئی بھی جدید تہذیب جس کی عمر دسیوں لاکھ سال کی ہو وہ ہم سے اتنا ہی آگے ہوگی جتنا کہ آج ہم کسی بچے یا لنگور سے آگے ہیں۔"


میں نے اپنی تحقیق میں پیشہ ورانہ طور پر اس بات پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھا کہ کسی طرح سے آئن سٹائن کے خواب "ہر شئے کے نظریہ " کو مکمل کر سکوں۔ ذاتی طور پر میں اس بات میں کافی سرور محسوس کرتا ہوں کہ "آخری نظریہ "پر کام کروں جو حتمی طور پر دور حاضر کے سائنس کے سب سے مشکل ناممکن سوالوں کا جواب دے سکے، جیسا کہ وقت میں سفر ممکن ہے یا نہیں ، بلیک ہول کے قلب میں کیا ہے ، یا بگ بینگ سے پہلے کیا ہوا تھا۔ میں اب بھی اپنے زندگی بھر کے ہمسفر "ناممکن" کے بارے میں خیالی پلاؤ پکا رہا ہوتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ وہ وقت کب آئے گا جب ان میں سے کچھ ناممکنات، "ممکن" بن کر ہماری روزمرہ کی زندگی میں داخل ہو سکیں گی۔

میچو کاکو
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکنات کی طبیعیات از میچو کاکو
--------------------------------------------------------------------------------------------
1. غیر مرئی حفاظتی ڈھال (قوّتِ میدان) -پہلا حصّہ
--------------------------------------------------------------------------------------------


- جب کوئی ممتاز و جید سائنس دان کسی امر کے ممکن ہونے کے بارے میں رائے زنی کرے تو وہ یقینی طور پر صحیح ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ کہے کہ یہ امر ناممکن ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ غلط ہو۔

- ممکنات کی حد کو جاننے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ناممکنات کی سرحد کو تھوڑا سا زیادہ پار کرنے کا جوکھم اٹھایا جائے۔

- جادو او ر جدید ٹیکنالوجیمیں امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔


- آرتھر سی کلارک - تین قوانین (تھری لاز)


"خلائی جہاز کی حفاظتی ڈھال کو کھول دو!"


کپتان کرک (Kirk) اسٹار ٹریک (Star Trek) کی ان گنت اقساط میں اپنے عملے کو سب سے پہلا حکم یہ ہی دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس حکم کی تعمیل کے نتیجے میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال (فورس فیلڈ [Force Field] یا قوّت میدان) کو جہاز کے گرد حصار بنانے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ خلائی جہاز "انٹرپرائز" (Enterprise)کو دشمن کی آگ سے بچایا جا سکے۔


اسٹار ٹریک میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال (قوّتِ میدان) کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنگ میں بطور فریق اپنی طاقت و حیثیت کا اندازہ خلائی جہاز میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی باقی بچی ہوئی طاقت سے لگایا جاتا ہے۔ جب بھی غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی طاقت میں کمی ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں "انٹرپرائز" کو زیادہ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے یہاں تک کہ اس کا ہتھیار ڈالنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔


اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ غیر مرئی حفاظتی ڈھال (قوّتِ میدان) آخر میں ہے کیا چیز ؟ سائنسی قصّوں میں تو یہ بیوقوف بنانے کی حد تک سادہ سی چیز ہوتی ہے۔ جس میں ایک پتلی سی غیر مرئی مگر غیر نفوذ پذیر رکاوٹ جو اپنی جانب داغے ہوئے لیزر اور راکٹوں کو دوسری طرف موڑ دیتی ہے۔ پہلی نظر میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال دیکھنے میں اس قدر سادہ لگتی ہے جیسے کہ بس میدان جنگ میں جلد ہی بنا لی جائی گی۔ فلم میں اس کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی دن کوئی موجد اس دفاعی غیر مرئی حفاظتی ڈھال کو بنانے کا اعلان کر دے گا۔ مگر سچائی اس سے کہیں زیادہ کڑوی و تلخ ہے۔



جس طرح سے "ایڈیسن" (Edison) کے روشنی کے بلب نے جدید تہذیب میں انقلاب برپا کر دیا بالکل اسی طرح سے قوّت میدان ہماری روز مرہ کی زندگی پر نہایت ہی عمیق اثر ڈال سکتی ہے۔ افواج اس غیر مرئی حفاظتی ڈھال کو اپنے جنگی حربے کے طور استعمال کر سکتی ہے تاکہ وہ ایک غیر متداخل حفاظتی تہ دشمنوں کے میزائل اور گولیوں سے بچاؤ کی بنا کر ناقابل تسخیر ہو جائیں۔ اس بات کا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی ایجاد کے بعد پل، سپر ہائی وے اور سڑکیں بٹن دباتے ہی بنائے جا سکیں گے۔ پلک جھپکتے میں صحرا میں پورے کے پورے شہر کھڑے کیے جا سکتے ہیں جہاں کی بلند و بالا عمارتیں غیر مرئی حفاظتی ڈھال سے بنی ہوئی ہوں گی۔ شہروں کے اوپر کھڑی غیر مرئی حفاظتی ڈھال سے شہری اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنے موسموں کے اثر کو اپنی مرضی سے قابو کر سکیں۔ ان موسمی اثرات میں تیز ہوائیں، برفانی طوفان، گرد و باراں کے طوفان وغیرہ شامل ہیں۔ سمندر کے اندر محفوظ غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی چھتری تلے شہر بسائے جا سکیں گے۔ شیشہ، اسٹیل، اور موٹریں سب کچھ اس سے بدل جائے گا۔ ان تمام خوش آئند باتوں کے باوجود غیر مرئی حفاظتی ڈھال کو کسی تجربہ گاہ میں بنانا سب سے مشکل ترین کام ہے۔ درحقیقت کچھ ماہرین طبیعیات تو اس کی خصوصیات کو تبدیل کئے بغیر بنانے کو ہی ناممکن گردانتے ہیں۔

مائیکل فیراڈے (Michael Faraday)
غیر مرئی حفاظتی ڈھال کا خیال انیسویں صدی کے عظیم برطانوی سائنس دان مائیکل فیراڈے کے کام سے نکلا۔ فیراڈے ایک متوسط سفید پوش گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ لوہار تھا۔ اس نے اپنی روزی روٹی کمانے کا سلسلہ ایک چھوٹے سے کام یعنی کتاب کی جلد بندی کرنے والے کی حیثیت سے ١٨٠٠ء صدی عیسوی میں شروع کیا۔ نوجوان فیراڈے اس دور کی اہم دریافتوں سے بہت زیادہ متاثر تھا جنہوں نے دو نئی طاقتوں – برق اور مقناطیسیت - کی پراسرار خصوصیات کو بے نقاب کیا تھا۔ فیراڈے نے ان موضوعات پر جتنا کچھ مواد جمع ہو سکتا تھا، جمع کیا۔ اس کے علاوہ وہ رائل انسٹیٹیوٹ آف لندن کے پروفیسر ہمفرے ڈےوی (Humphrey Davy) کے لیکچر ز میں بھی حاضری دیتا تھا ۔

ایک دن پروفیسر ڈے وی کی آنکھ کو ایک کیمیائی حادثے کے نتیجہ میں زبردست نقصان پہنچا جس کے بعد انہوں نے فیراڈے کو اپنا سیکرٹری رکھ لیا۔ فیراڈے نے رفتہ رفتہ رائل انسٹیٹیوٹ میں موجود سائنس دانوں کا اعتماد حاصل کرنا شروع کیا۔ اگرچہ اکثر اس کو یہاں پر تجربات کرنے منع کر دیا جاتا تھا لیکن پھر بھی وہ کوشش کرکے اپنے کچھ اہم تجربات کرنے کی اجازت حاصل کر ہی لیتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پروفیسر ڈے وی اپنے نوجوان معاون کی زبردست ذکاوت سے جلنے لگا. فیراڈے اس وقت تجرباتی حلقوں میں ایک ابھرتا ہوا ستارا بن کر پروفیسر ڈے وی کو گہنا رہا تھا۔ ١٨٢٩ء میں ڈے وی کی موت کے بعد فیراڈے کو اپنے چونکا دینے والے ان تجربات کے سلسلوں کو جاری رکھنے کی کھلی چھٹی مل گئی تھی جس کے نتیجے میں جنریٹر کی ایجاد ہوئی . جنریٹر کی ایجاد نے پورے کے پورے شہروں کو فعال و روشن کرکے دنیا کی تہذیب کو بدل کر رکھ دیا تھا۔


فیراڈے کی عظیم دریافتوں کی کنجی اس کی قوّت کے میدان تھے۔ اگر لوہے کا برادہ (Iron Filings) مقناطیس کے اوپر رکھا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ لوہے کے اس برادے نے مکڑی کے جالے جیسا نمونہ بنا کر خالی جگہ کو بھر دیا ہوگا۔ یہ فیراڈے کی قوّت کی لکیریں تھیں جو ترسیمی (گرافیکلی) طور پر اس بات کو بیان کرتی ہے کہ کیسے برقی اور مقناطیسی قوّت میدان خالی جگہ میں نفوذ کر جاتے ہیں۔ اگر مثال کے طور پر کوئی زمین کے مقناطیسی میدانوں کو گراف کی شکل میں بنائے تو وہ دیکھے گا کہ لکیریں شمالی قطب سے نکل کر زمین کے جنوبی قطب میں جا کر گر رہی ہیں۔ اسی طرح سے اگر کوئی برق و باراں کے طوفان میں بجلی کی لکیروں کے برقی میدان کا گراف بنائے تو اس کو قوّت کی یہ لکیریں بجلی کش سلاخ کے اوپری حصّے پر مرتکز نظر آئیں گی۔ فیراڈے کے مطابق خالی خلاء بجائے خالی ہونے کے قوّت کی لکیروں سے بھری ہوئی ہوتی ہے جو دور دراز کے اجسام کو حرکت میں لا سکتی ہے۔ (فیراڈے نوجوانی میں غربت کی وجہ سے ریاضی سے نابلد تھا جس کے نتیجے میں اس کی نوٹ بک میں ریاضی کی مساوات بھری ہونے کے بجائے ہاتھ سے بنی ہوئی ان لکیروں کی قوّت کے خاکے تھے۔ حیرت انگیز طور پر ریاضی میں نا تجربہ کاری کے باوجود اس کی بنائی ہوئی لکیروں کی قوّت کے خوبصورت خاکے آج کی کسی بھی طبیعیات کی ٹیکسٹ بک میں ملتے ہیں۔ طبیعیات کی دنیا میں اس کو بیان کرنے کے لئے اکثر تصاویر ریاضی کی مساوات سے زیادہ اہم ہوتی ہیں۔)

مورخین نے اس بات کو جاننے کے لئے کافی جستجو کی ہے کہ کس طرح سے فیراڈے اپنی دریافت "قوت میدان" تک پہنچا جو سائنس کی دنیا میں ایک نہایت ہی اہم تصوّر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جدید طبیعیات کا اگر ہم نچوڑ لیں تو وہ فیراڈے کی غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی زبان میں ہی لکھا جائے گا۔ ١٩٨٣ء اس نے غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی وہ اہم بات دریافت کر لی تھی جس نے انسانی تہذیب کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا تھا۔ ایک دن وہ بچوں کے مقناطیس کو کسی تار کے لچھے پر گھما رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ اس طریقے میں اس نے تار کو چھوئے بغیر اس میں برقی رو پیدا کر لی ہے۔ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مقناطیس کے غیر مرئی میدان نے تار میں موجود الیکٹران کو خالی جگہ میں دھکا دے کر برقی رو پیدا کردی تھی۔


فیراڈے کی دریافت کردہ قوّت کے میدان جو پہلے فضول، بیکار اور بے مقصد سمجھے جاتے تھے وہ درحقیقت اصل میں مادّے کو حرکت دے سکتے تھے اور برق کو پیدا کر سکتے تھے۔ آج جس بجلی کی روشنی میں آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں اس نے شاید فیراڈے کی دریافت شدہ برقی مقناطیسیت سے توانائی حاصل کی ہو۔ ایک گھومتا ہوا مقناطیس ایک ایسا قوّت میدان پیدا کرتا ہے جو تار میں موجود الیکٹران کو حرکت دیتا ہے جس کے نتیجے میں برقی رو پیدا ہوتی ہے۔ تار میں موجود یہ برق کسی بلب کو روشن کرنے کے کام آسکتی ہے۔ یہ ہی اصول اس بجلی کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے جن سے آج کی دنیا کے ہمارے شہر روشن ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیم میں بہتا ہوا پانی ٹربائن میں موجود ایک بہت بڑے مقناطیس کو گھومنے پر مجبور کرتا ہے جو تار میں موجود الیکٹران کو دھکیلتا ہے جس سے برقی رو وجود میں آتی ہے جسے ہائی وولٹیج تاروں کے ذریعہ ہمارے گھروں تک پہنچایا جاتا ہے۔


دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ مائیکل فیراڈے کی قوّت کے میدان وہی طاقت ہے جس نے جدید انسانی تہذیب کی بنیاد ڈالی۔ اس کی دریافت کی بدولت ہی ہم برقی بلڈوزر سے لے کر، آج کے کمپیوٹر، انٹرنیٹ، اور آئی پوڈ استعمال کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔


فیراڈے کی قوّت میدان پچھلے ١٥٠ سال سے ماہرین طبیعیات کے لئے تشویق کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ آئن سٹائن اس کے کام سے اتنا متاثر تھا کہ اس نے اپنا قوّت ثقل سے متعلق نظریہ قوّت کے میدان کی صورت میں پیش کیا۔ میں خود بھی فیراڈے کے کام سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔ کافی سال پہلے میں نے کامیابی کے ساتھ ا سٹرنگ کا نظریہ فیراڈے کی قوّت میدان کی زبان میں لکھا جس نے بعد میں چل کرا سٹرنگ کے میدان کے نظریہ کی بنیاد ڈالی۔ اگر کبھی طبیعیات میں کوئی یہ کہے کہ وہ لکیروں کی قوّت کی طرح سوچتا ہے تو اس کا مطلب ایک زبردست داد دینا ہوتا ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکنات کی طبیعیات از میچو کاکو
--------------------------------------------------------------------------------------------
1. غیر مرئی حفاظتی ڈھال (قوّتِ میدان) - دوسرا حصّہ
--------------------------------------------------------------------------------------------

چار قوّتیں

دو ہزار برسوں پر محیط طبیعیات کی ایک شاہانہ دریافت قدرت کی بنیادی چار قوّتوں کو پہچاننا اور ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے جو کائنات پر راج کر رہی ہیں۔ یہ سب کی سب میدان کی اس زبان میں بیان کی جا سکتی ہیں جس کو فیراڈے نے متعارف کروایا تھا۔ بدقسمتی سے ان میں سے کسی میں بھی وہ قوّت میدان والی خصوصیات موجود نہیں ہیں جو زیادہ تر سائنس فکشن فلموں میں بیان کی جاتی ہیں۔ وہ طاقتیں یہ ہیں۔


١۔ کشش ثقل، ایک خاموش طاقت ہے جو ہمارے قدموں کو زمین کے اوپر رکھنے میں مدد دیتی ہے، یہ زمین اور ستاروں کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے اور نظام شمسی اور کہکشاؤں کو باندھ کر رکھتی ہے۔ قوّت ثقل کے بغیر ہم اس گھومتے ہوئے سیارے کی بدولت، زمین کی سطح سے اٹھا کر خلاء میں ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینک دیئے جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوّت کے میدان کی وہ خصوصیات جن کو سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاتا ہے، قوّت ثقل کی خصوصیات اس کے بالکل برعکس ہوتی ہیں۔ قوّت ثقل کشش رکھتی ہے دھکیلتی نہیں، جبکہ نسبتاً یہ بہت ہی زیادہ نحیف ہوتی ہے اور یہ فلکیاتی بے انتہاء فاصلوں پر کام کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ اس پتلی، چپٹی، غیر نفوذ پذیر رکاوٹ، جو لوگ سائنس فکشن میں پڑھتے اور دیکھتے ہیں ،سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پورے سیارہ زمین کی کشش ثقل ایک " پر" کو نیچے گرنے پر مجبور کرتی ہے مگر ہم اپنی صرف انگلی سے اس " پر" کو زمین کی ثقلی قوّت سے آزاد کر کے اٹھا لیتے ہیں۔ اس دوران ہماری انگلیوں نے اس پورے سیارے کی قوّت ثقل کے مخالفت میں کام کیا ہوتا ہے جس کا وزن ٦٠٠ کھرب کھرب کلوگرام ہے۔


٢۔ برقیمقناطیسیقوّت، وہ طاقت جس نے ہمارے شہروں کو روشن کیا ہوا ہے۔ لیزر، ریڈیو، ٹیلی ویژن، جدید الیکٹرانکس، کمپیوٹرز، انٹرنیٹ، برقی رو، مقناطیسیت سب کے سب برقی مقناطیسی قوّت کے کرشمے ہیں۔ شاید ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی دریافت کردہ طاقتوں میں یہ سب سے زیادہ مفید ہے۔ قوّت ثقل کے برخلاف یہ کھینچنے اور دھکیلنے دونوں کے کام کرتی ہے۔ اس کے باوجود کافی ایسی وجوہات ہیں جن کے سبب یہ قوت میدان کے طور پر کام کرنے کے لئے بالکل نامناسب قوّت ہے۔ یہ آسانی سے معتدل ہو سکتی ہے۔ پلاسٹک اور دوسرے حاجز مادّے آسانی سے طاقتور مقناطیسی میدان یا برقی میدان میں سے گزر سکتے ہیں۔ پلاسٹک کا کوئی بھی ٹکڑا مقناطیسی میدان کی طرف پھینکا جائے تو وہ آسانی سے اس کو پار کر لے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ برقی مقناطیسی قوّت لمبے فاصلوں سے کام کرتی ہیں اور آسانی کے ساتھ کسی سطح پر مرتکز نہیں ہوتی۔ برقی مقناطیسی قوّت کے قوانین جیمز کلارک میکس ویل (James Clerk Maxwell)نے وضع کر دیئے ہیں جو مساوات کی شکل میں ہیں اور یہ مساوات کسی بھی قوّت کے میدان کا حل نہیں بتاتی ہے۔


٣ اور ٤۔ کمزور اور مضبوط نیوکلیائی قوّتیں۔ کمزور نیوکلیائی قوّت تابکاری کے انحطاط کے سلسلے کی طاقت ہے۔ یہ وہ تابکار طاقت ہے جس نے زمین کے قلب کو گرم کیا ہوا ہے۔ یہ ہی وہ طاقت ہے جو آتش فشانوں، زلزلوں، اور بر اعظموں کے بہنے کی ذمہ دار ہے۔ مضبوط نیوکلیائی قوّت ایٹم کے مرکزے کو تھام کر رکھتی ہے۔ سورج اور ستاروں کی توانائی نیوکلیائی قوّت سے ہی پیدا ہوتی ہے جو کائنات کو روشن کرنے کی ذمہ دار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نیوکلیائی قوّتیں بہت ہی کم علاقے میں عمل پیرا ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں یہ صرف مرکزے کے اندر ہی کام کر سکتی ہیں۔ کیونکہ یہ مرکزے کا ساتھ بہت زیادہ جڑی ہوئی ہوتی ہے لہٰذا اس میں توڑ جوڑ کرنا نا ممکن کی حد تک مشکل کام ہے۔ اس وقت تو ہمارے پاس اس قوّت کو استعمال کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ایٹم کے ذیلی ذرّات دوسرے ایٹموں پر مار کر پھاڑ کر الگ کریں یا اس کا استعمال نیوکلیائی بم کو پھاڑنے کریں۔


اگرچہ قوّت کے میدان جن کا استعمال سائنس فکشن میں دکھایا جاتا ہے کسی بھی مروجہ طبیعیات کے قوانین سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ اب بھی ایسے کافی زیادہ نقائص موجود ہیں جو کسی بھی قوّت کے میدان کی تخلیق میں آڑے آئیں گے۔ سب سے پہلے تو ایک پانچویں طاقت موجود ہو سکتی ہے جسے ابھی تک کسی بھی تجربہ گاہ میں نمودار ہوتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ مثال کے طور پر ایسی کوئی بھی قوّت شاید فلکیاتی فاصلوں کے بجائے چند انچ سے لے کر چند فٹ تک کام کر سکے۔ (اس پانچویں قوّت کو ناپنے کی ابتدائی کوششوں نے منفی نتائج ہی دیئے۔)


دوسرے یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ پلازما کا استعمال کرتے ہوئے قوّت میدان کی کچھ خصوصیات کو بنایا جا سکے۔ پلازما " مادّے کی چوتھی" حالت ہے۔ ٹھوس، مائع اور گیس مادّے کی وہ تین حالتیں ہیں جن سے ہم زیادہ شناسا ہیں، مگر کائنات میں مادّے کی سب سے زیادہ پائی جانے والی حالت پلازما کی ہے، جو کہ برق پارہ (جس کو آئن اور روان بھی کہتے ہیں) ایٹموں پر مشتمل گیس ہوتی ہے۔ کیونکہ پلازما میں ایٹم علیحدہ علیحدہ توڑ دیئے جاتے ہیں، جس میں الیکٹران ایٹموں سے اتار لئے جاتے ہیں، اس لئے ایٹم برقی طور پر بار دار ہوتے ہیں لہٰذا ان کو آسانی سے برقی اور مقناطیسی میدانوں میں توڑا جوڑا جا سکتا ہے۔ پلازما کائنات میں دکھائی دینے والا سب سے زیادہ مادّہ ہے۔ سورج، ستارے، اور بین النجم گیسیں سب کے سب پلازما سے بنی ہوئی ہیں۔ ہم پلازما سے اس لئے زیادہ شناسا نہیں ہیں کیونکہ یہ زمین پر زیادہ نظر نہیں آتا ہے۔ مگر ہم اس کو کڑکتی بجلی میں، سورج میں اور اپنے پلازما ٹیلی ویژن کے اندر دیکھ سکتے ہیں۔



پلازمے کی کھڑکیاں

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ جب گیس کے درجہ حرارت کو کافی بڑھایا جائے تو پلازما بنتا ہے۔ جس کو مقناطیسی اور برقی میدان کے ذریعہ موڑا اور ڈھالا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کو کسی چادر (شیٹ) یا کھڑکی کی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ مزید براں اس پلازما کی کھڑکی کو ہوا کو خالی جگہ سے علیحدہ کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصولی طور پر اس پلازما کو خلائی جہاز میں موجود ہوا کو باہر نکلنے سے روکنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں ایک شفاف نقطہ اتصال باہری خلاء اور خلائی جہاز کے درمیان بنایا جا سکتا ہے۔


اسٹار ٹریک ٹیلی ویژن فلم کے سلسلے میں ایک ایسی قوّت میدان کو شٹل بے کو باہری خلاء سے الگ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ شٹل بے میں ایک چھوٹی شٹل کرافٹ موجود ہوتی ہے۔ اس طریقے میں نہ صرف چالاکی سے مداریوں سے پیسے بچائے جا سکتے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں ایک ایسا آلہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے جو کہ بنانا ممکن ہو۔


پلازما کی کھڑکی ١٩٩٥ء میں بروک ہیون نیشنل لیبارٹری جو کہ لونگ آئی لینڈ نیو یارک میں واقع ہے وہاں پر کام کرنے والے ایک ماہر طبیعیات ایڈی ہرش کاوچ (Ady Hershcovitch) نے ایجاد کی۔ اس نے ایک مسئلے سے نمٹنے کے لئے اس کھڑکی کو بنایا تھا۔ وہ مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح سے دھاتوں کو الیکٹران کی کرنوں سے ویلڈ کیا جائے۔ ایک ویلڈر کی ايسيٹيلِيَن(Acetylene) کی ٹارچ میں گرم گیسوں کے دھماکے سے دھات کو پگھلایا جاتا ہے اور پھر اس پگھلی ہوئی دھات سے ٹکڑوں کو جوڑا جاتا ہے۔ دوسرے عام طریقوں کے مقابلے میں الیکٹران کی کرن دھاتوں کو تیزی، صفائی اور سستے میں ویلڈ کر لیتی ہے۔ لیکن الیکٹران کی کرن کے ساتھ ویلڈنگ کرنے میں ایک مسئلہ جڑا ہوا تھا۔ وہ مسئلہ یہ تھی کہ ویلڈنگ صرف خالی جگہ میں ہی ہو سکتی تھی ۔ اس ویلڈنگ کے طریقے میں ایک خلاء کا خالی ڈبہ جو ایک کمرے جتنا ہو بنا نا پڑ تا ہے یعنی اس طرح کی ویلڈنگ کے لوازمات کافی زحمت زدہ ہیں۔


ڈاکٹر ہرش کا وچ نے اس مسئلہ کا حل پلازما کی کھڑکی ایجاد کر کے نکال لیا۔ صرف تین فٹ اونچی اور ایک فٹ سے بھی کم قطر میں پلازما کی کھڑکی گیس کے درجہ حرارت کو بارہ ہزار فارن ہائیٹ درجہ تک جا پہنچاتا ہے جس کے نتیجے میں پلازما، برقی اور مقناطیسی میدان کے درمیان قید ہو جاتا ہے۔ یہ ذرّات دباؤ ڈالتے ہیں جیسا کہ کسی بھی گیس میں ہوتا ہے، جو ہوا کو خالی چیمبر میں جانے سے روکتا ہے، جس سے ہوا کو خالی جگہ سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔(جب آرگان(Argon) گیس پلازما کی کھڑکی میں استعمال کی جاتی ہے تو یہ نیلے رنگ میں دہکتی ہے بعینہ ویسے ہی جیسے اسٹار ٹریک میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال میں نظر آتی ہے۔)


پلازما کی کھڑکی کا استعمال خلائی صنعت و سیاحت میں کافی وسیع پیمانے پر ہے۔ کئی موقعوں پر صنعتکاری کے عمل میں خرد بناوٹوں(Microfabrication) اور صنعتی عمل کی خشک نقش کاری(Dry Etching) کے لئے خالی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن خالی جگہ میں کام کرنا ایک مہنگا عمل ہے۔ اب پلازما کی کھڑکی کی ایجاد کے بعد اس کے ذریعہ کوئی بھی سستے طریقے میں ایک بٹن سے پلک جھپکتے میں خالی خلاء کو بنا سکتا ہے۔


کیا پلازما کی کھڑکی کو نفوذ ناپذیر ڈھال بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کیا وہ کسی توپ سے داغے گئے گولے کو روکنے کے قابل ہے؟ مستقبل میں ہم اس بات کی امید کر سکتے ہیں کہ پلازما کی کھڑکی بہت زیادہ طاقتور اور اونچے درجہ حرارت والی ہو سکتی ہے، جو باہر سے آنے والی کسی بھی چیز کو آسانی سے نقصان پہنچا سکتی ہے یا پھر اسے تحلیل بھی کر سکے گی۔ بہرحال اس قسم کی غیر مرئی حفاظتی ڈھال جیسی کہ سائنس فکشن فلموں میں دکھائی جاتی ہے بنانے کے لئے کئی قسم کی مہارتوں کو جمع کرکے تہ در تہ رکھ کر ہی ایسی کوئی حقیقی چیز بنائی جا سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہر تہ اس قابل نہیں ہو کہ توپ کے گولے کو روک سکے مگر تمام تہیں مل کر شاید اس کو روک سکیں گی۔


ہو سکتا ہے کہ باہری پرت زبردست بار (Charge)والی پلازما کی کھڑکی ہو جس کا درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہوگا کہ وہ دھاتوں کو پگھلا سکے گی۔ دوسری تہ میں اونچے درجے کی توانائی والی لیزر کی کرنیں ہوں گے۔ اس تہ میں ہزاروں لیزر کی کرنیں آڑھی ترچھی ہو کر ایک جالی کی سی صورت بنا دیں گی جو تہ میں سے گزرنے والے کسی بھی جسم کو گرم کرکے تحلیل کر دیں گی۔ میں لیزر پر اگلے باب میں مزید بات کروں گا۔


اور اس لیزر کے پردے کے پیچھے ایک کاربن نینو ٹیوبز سے بنی جالی بھی موجود ہو سکتی ہے۔ کاربن نینو ٹیوبز ننھی سی نلکیاں ہوتی ہیں جو کاربن کے انفرادی ایٹموں سے مل کر بنتی ہیں ان کی چوڑائی ایک ایٹم جتنی ہوتی ہے اور یہ سٹیل سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔ کاربن نینو ٹیوبز کی لمبائی کا ابھی تک کا عالمگیر ریکارڈ صرف ١٥ ملی میٹر لمبا ہی ہے۔ مگر اس بات کا تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ہم اپنی مرضی کے مطابق ان کو لمبا بنا سکیں گے۔ فرض کریں کہ کاربن نینو ٹیوبز کو اس جال میں پرویا جا سکتا ہو تو اس کے ذریعہ ایک ایسی انتہائی طاقتور اسکرین بنائی جا سکے گی جو زیادہ تر چیزوں کو دور پھینکنے کے قابل ہوگی۔ یہ اسکرین ایک طرح سے غیر مرئی ہوگی کیونکہ ہر کاربن نینو ٹیوب صرف ایک ایٹم پر ہی مشتمل ہوگی اس کے باوجود کاربن نینو ٹیوبز پر مشتمل یہ جال کسی بھی دوسرے مادّے سے بنے ہوئے جال سے زیادہ مضبوط ہوگا۔


لہٰذا پلازما کی کھڑکی کے ساتھ مل کر، لیزر کا پردہ اور کاربن نینو ٹیوبز کی اسکرین ایک غیر مرئی دیوار بنا سکتی ہیں جو ایک طرح سے کافی سارے اجسام کے لئے پار کرنا تقریباً ناممکن ہی ہوگا۔


اس کے باوجود یہ مختلف تہوں پر مشتمل حفاظتی ڈھال بھی مکمل طور پر سائنس فکشن میں دکھائی جانے والی قوّت میدان کی خصوصیات پوری نہیں کر پائے گی۔ کیونکہ یہ شفاف ہوں گی اور لیزر کی گزرنے والی کرنوں کو نہیں روک پائے گی۔ لہٰذا ایک ایسی جنگ میں جہاں لیزر کے گولے داغے جا رہے ہوں، مختلف تہوں پر مشتمل حفاظتی ڈھال بیکار ہو جائے گی۔


لیزر کی شعاعوں کو روکنے کے لئے ڈھال کو ایک جدید ضیا لونی (Photo chromatics) طریقے کی ضرورت ہوگی۔ یہ وہ عمل ہے جو دھوپ سے بچنے کے لئے چشموں کو بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طریقے میں بننے والے دھوپ کے چشمے بالائے بنفشی شعاعوں(Ultra Violet Radiation) کے پڑتے ہی گہرے رنگ کے ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ضیا لونی (فوٹو کرومٹکس) کی بنیاد ان سالموں پر ہوتی ہے جو کم از کم دو حالتوں میں رہ سکتے ہیں۔ اپنی ایک حالت میں وہ سالمات شفاف ہوتے ہیں مگر جب ان پر بالائے بنفشی شعاعیں پڑتی ہیں تو وہ فوراً دوسری حالت میں آ جاتے ہیں جو کہ غیر شفاف ہوتی ہے۔


ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ہم ایک دن اس قابل ہو جائیں کہ نینو ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا مادّہ پیدا کر لیں جو کاربن نینو ٹیوبز جتنا مضبوط ہو اور جس میں وہ بصری خصوصیات موجود ہوں جو ضیا لونی میں ہوتی ہیں تاکہ جب اس پر کوئی لیزر کی شعاع پڑے تو وہ تبدیل ہو جائے۔ اس طرح ایک ایسی ڈھال بن سکے گی جو اس صلاحیت کی حامل ہوگی کہ لیزر کی بوچھاڑ کو روکنے کے ساتھ ساتھ ذرّات کی بوچھاڑ اور توپ کے گولے کو بھی روک سکے۔ فل الحال ایک ایسا ضیا لونی (فوٹو کرومٹکس) جو لیزر کی شعاع کو روک سکے وجود نہیں رکھتا۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
لیجئے جناب کتاب کے پہلے باب کے ترجمے کا تیسرا اور آخری حصّہ ملاحظہ فرمائیے۔ کل سے انشاء الله دوسرے باب کی پہلی قسط ارسال کرنا شروع کروں گا۔ آپ احباب کی رائے کا انتظار رہے گا۔

ناممکنات کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1. غیر مرئی حفاظتی ڈھال (قوّتِ میدان) - تیسرا اور آخری حصّہ
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------



مقناطیسی ارتفاع(Magnetic Levitation)

سائنس افسانوی فلموں میں قوّت میدان کا مقصد شعاعی گنوں کی بوچھاڑ کو پرے دھکیلنے کے علاوہ ایک ایسی مچان کا بھی کردار ادا کرنا تھا جو قوّت ثقل کو للکار سکے۔" بیک ٹو دا فیوچر" فلم میں مائیکل جے فاکس (Micheal J Fox)ایک معلق تختے (ہوور بورڈ) پر سواری کرتا ہے جس کی شکل ا سکیٹ بورڈ سے ملتی ہے بس صرف فرق اتنا ہوتا ہے کہ وہ سڑک سے اوپر معلق ہو کر چلتا ہے۔ اس قسم کا آلہ جو قوّت ثقل کے مخالف کام کرتا ہو ہمارے جانے پہچانے طبیعیاتی قوانین کے تحت بنانا ممکن ہے(اس بات کی مزید تفصیل باب نمبر ١٠ میں بیان کی جائے گی۔) لیکن اس طرح کے مقناطیسی افزوں معلق تختے اور معلق کاریں مستقبل میں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں بشرط یہ کہ ہم بڑے اجسام کو اپنی مرضی سے ہوا میں اڑا سکیں۔ مستقبل میں اگر کمرے کے عام درجہ حرارت پرفوقی موصل (سپر کنڈکٹر) حقیقت کا روپ دھار لیں تو مقناطیسی میدان کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے چیزوں کو ہوا میں معلق کرنا ممکن ہو سکے گا۔


اگر ہم دو مقناطیسی پٹیاں ایک دوسرے کے قریب رکھیں جس میں دونوں کے شمالی قطبین ایک دوسرے کے مخالف ہوں تو وہ دونوں مقناطیس ایک دوسرے کو دھکیلیں گے(اگر ہم مقناطیسی پٹی کو گھما کر اس طرح سے دوسرے مقناطیسی بار کی طرف کر دیں کہ اس کا جنوبی قطب دوسرے کے شمالی قطب کی طرف ہو جائے تو وہ ایک دوسرے کو کھینچ لیں گے۔) اس اصول کا استعمال کرتے ہوئے جس میں ایک جیسے قطبین ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں زمین سے بڑی بھاری چیزیں اٹھائی جا سکتی ہیں۔ پہلے ہی کافی قومیں جدید مقناطیسی معلق ریل گاڑیاں (میگ لو ریلیں)بنا چکی ہیں جو عام مقناطیس کا استعمال کرتے ہوئے ریل کی پٹری سے تھوڑا سا اوپر رہتے ہوئے ہوا میں معلق رہتی ہیں۔ اس طرح سے انھیں رگڑ کی قوّت سے نبرد آزما ہونا نہیں پڑتا اور وہ ہوا کے اوپر تیرتی رہتی ہیں جس کے نتیجے میں ان کی رفتار سابقہ ریل گاڑیوں کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے۔


١٩٨٤ء میں دنیا کی پہلی تجارتی خودکار معلق ریل (میگ لو ٹرین) نے اپنا نظام برطانیہ میں چلانا شروع کیا جو برمنگھم ایئرپورٹ سے شروع ہو کر قریبی برمنگھم ریلوے ا سٹیشن تک جاتی تھی۔ میگ لو ریل جرمنی، جاپان اور کوریا میں بھی چلائی گئیں اگرچہ ان میں سے زیادہ تر کو تیز سمتی رفتار کے لئے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا۔ سب سے پہلی تجارتی میگ لو ریل جو تیز سمتی رفتار پر چلنے کے لئے بنائی گئی ہے وہ انیشل آپریٹنگ سیگمنٹ (آئی او ایس)ڈیمونسٹریشن لائن ان شنگائی ہے جس کی زیادہ سے زیادہ رفتار ٢٦٨ میل فی گھنٹہ ہے۔ جاپانی میگ لو ریل نے یاما ناشی(Yamanashi) میں٣٦١ میل فی گھنٹہ کی سمتی رفتار حاصل کر لی ہے جو عام پہیے والی ریل سے زیادہ ہے۔

مگر یہ میگ لو گاڑیاں بہت زیادہ مہنگی ہیں۔ ان کی استعداد کو بڑھانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فوقی موصل کا استعمال کیا جائے۔ جب فوقی موصل کو مطلق صفر درجہ حرارت کے قریب ٹھنڈا کیا جاتا ہے تو ان کی برقی مزاحمت ختم ہو جاتی ہے۔فوقی موصل ١٩١١ء میں ہیک اونس(Heike Onnes) نے دریافت کیا تھا۔ اگر کچھ مادّے ٢٠ کیلون درجہ حرارت سے نیچے ٹھنڈے کیے جائیں تو ان میں موجود ساری برقی مزاحمت ختم ہو جاتی ہے۔ عام طور سے جب ہم کسی دھات کو ٹھنڈا کرتے ہیں تو اس کی مزاحمت بتدریج کم ہوتی رہتی ہے(یہ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ ایٹموں کی بے ترتیب ارتعاش الیکٹران کے بہاؤ میں مزاحم ہوتی ہے۔ درجہ حرارت کے کم کرنے پر ایٹموں کی یہ حرکت کم ہو جاتی ہے لہٰذا برق کم مزاحمت کے ساتھ گزر سکتی ہے۔) اونس کو اس وقت بہت ہی حیرت ہوئی جب اس نے دیکھا کہ کچھ مادوں میں یہ مزاحمت ایک دم فاصل درجہ حرارت (Critical Temperature)پر جا کر ختم ہو گئی۔

ماہرین طبیعیات نے اس دریافت کی اہمیت کو فوراً سمجھ لیا تھا۔ برقی موصل کی تاروں میں توانائی کی اچھی خاصی مقدار بجلی کی لمبے فاصلوں میں ترسیل کے دوران ضائع ہو جاتی ہے۔ اگر اس ساری مزاحمت کو ختم کر دیا جائے تو برقی قوّت تقریباً مفت میں ہی پہنچائی جا سکتی ہے۔ در حقیقت بجلی اگر تاروں کے لچھے میں بنا کر چھوڑ دی جائے تو بجلی دسیوں لاکھوں سال تک تاروں کے لچھے میں کم ہوئے بغیر ہی گھومتی رہے گی۔ مزید براں زبردست طاقت کے مقناطیس تھوڑی سی کوشش کے ذریعہ اس عظیم برقی رو سے بنائے جا سکتے ہیں۔ ان مقناطیسوں کے ذریعہ زبردست وزن آسانی کے ساتھ اٹھائے جا سکتے ہیں۔

اپنی ان تمام تر معجزاتی طاقت کے باوجود فوق ایصالیت کا مسئلہ یہ ہے کہ ان جسیم مقناطیسوں کو زبردست ٹھنڈے مائع میں ڈبو کر رکھنا بہت ہی زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔ مائع کو زبردست ٹھنڈا رکھنے کے لئے بہت بڑے ریفریجریشن پلانٹس درکار ہوں گے جس کے نتیجے میں بننے والے کامل موصل مقناطیس بہت زیادہ مہنگے پڑیں گے۔

ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ماہرین طبیعیات اس قابل ہو جائیں گے کہ عام کمرے کے درجہ حرارت پر ٹھوس جامد طبیعیات (Solid-State- Physics)کی دنیا کے شجر ممنوع فوقی موصل کو بنانے سکیں۔ فوقی موصل کی تجربہ گاہ میں ایجاد دوسرا صنعتی انقلاب برپا کر دے گا۔ طاقتور مقناطیسی میدان جو گاڑیوں اور ریل گاڑیوں کو اٹھانے کے قابل ہوں گے اس قدر سستے ہو جائیں گے کہ زمین کے اوپر منڈلاتی ہوئی گاڑیاں معاشی طور پر قابل عمل ہو سکیں گی۔ عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرتے ہوئے فوقی موصل، بیک ٹو دی فیوچر، منور ٹی رپورٹ(Minority Report) اور اسٹار وارز میں دکھائی جانے والی اڑتی ہوئی گاڑیاں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں۔

حقیقت میں کوئی بھی فوقی موصل سے بنی ہوئی بیلٹ پہن کر بغیر کچھ کئے آسانی کے ساتھ زمین سے اٹھ کر ہوا میں معلق ہو سکتا ہے۔ اس بیلٹ کے سہارے کوئی بھی سپرمین کی طرح اڑ سکتا ہے۔ عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل اس قدر غیر معمولی ہیں کہ یہ کئی سائنسی افسانوی ناولوں میں بھی دکھائے دیئے ہیں (جیسا کہ رنگ ورلڈ سیریز جو ١٩٧٠ء میں لیری نیوِن [Larry Niven] نے لکھی تھی۔)

کئی دہائیوں سے ماہرین طبیعیات عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کی تلاش میں ہیں جس میں انھیں ابھی تک ناکامی ہوئی ہے۔ ایک مادّے کے بعد دوسرے مادّے کو جانچنے کا یہ کام بہت زیادہ تھکا دینے والا اور آر یا پھر پار والا کام ہوتا ہے۔ ١٩٨٦ء میں ایک مادّے کی نئی جماعت تلاش کر لی گئی جو مطلق صفر درجے سے ٩٠ ڈگری اوپر فوقی موصل جیسا برتاؤ کرنے لگتی ہے۔ اس مادّے کو اونچے درجے کے فوقی موصل کا نام دیا گیا تھا۔ اس دریافت نے طبیعیات کی دنیا میں سنسنی پھیلا دی۔ ایسا لگا جیسے کہ نلکا کھول دیا گیا ہو۔ ہر گزرتے مہینے، ماہرین طبیعیات نے ایک کے بعد ایک کم درجہ حرارت پر فوقی موصل حاصل کرنے کا ریکارڈ توڑنے کی دوڑ لگا دی۔ تھوڑے عرصے کے لئے ایسا لگا کہ شاید کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل سائنسی افسانوی ناولوں میں سے چھلانگ لگا کر حقیقت کی دنیا میں آ جائیں گے۔ مگر کچھ سال کی تیزی کے بعد اونچے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل پر تحقیق میں کمی ہو گئی۔

سر دست تو اونچے درجے پر فوقی موصل کا ریکارڈ جس مادّے کو حاصل ہے اس کا نام ہے "مرکری تھلیم بیریم کیلشیم کاپر آکسائڈ " جو فوقی موصل منفی ١٣٥ ڈگری پر بن جاتا ہے۔ عام کمرے کے درجہ حرارت سے یہ اب بھی کافی زیادہ ہے اس کو کمرے کے درجہ حرارت پر آنے میں ابھی کافی لمبا سفر طے کرنا پڑے گا۔ مگر یہ منفی ١٣٥ ڈگری درجہ حرارت کافی اہم ہے۔ نائٹروجن منفی ١٩٦ ڈگری درجہ حرارت میں مائع کی حالت میں بدل جاتی ہے اور اس کی قیمت عام بکنے والے دودھ جتنی ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا عام مائع نائٹروجن ان اونچے درجہ حرارت والے فوقی موصل کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سستے میں استعمال کی جا سکتی ہے(بے شک کمرے کے درجہ حرارت پر فوقی موصل کو کام کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی ٹھنڈ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔)

کافی شرمندگی کی بات ہے کہ ابھی تک کوئی بھی نظریہ اونچے درجے والے فوقی موصل کی خصوصیات کو بیان نہیں کر سکا۔ نوبل پرائز اس بات کی انتظار میں ہے کہ کوئی اولوالعزم ماہر طبیعیات اس بات کو بیان کر سکے کہ کس طرح سے یہ اونچے درجہ والی فوقی موصل کام کرتے ہیں۔(یہ اونچے درجے حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل ایٹموں کی جداگانہ تہوں کو لگا کر بنائے جاتے ہیں۔ کئی ماہر ین طبیعیات نے اس بات کو پیش کرنے کی کوشش کی کہ ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ سفالی[سرامک] مادّے کی تہیں الیکٹران کے ایک تہ سے دوسرے تہ تک کے آزادانہ بہنے کو ممکن بناتی ہوں جس کے نتیجے میں یہ فوقی موصل بن جاتے ہوں۔ لیکن یہ عمل ہوبہو کیسا ہوتا ہے یہ ابھی تک ایک معمہ ہی ہے۔)

بدقسمتی سے اس علم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہی ماہرین طبیعیات نئے اونچے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کی تلاش میں اسی آر یا پھر پار والے عمل کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہو سکتا ہے کہ افسانوی عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کل دریافت ہو جائے، یا پھر اگلے سال یا پھر کبھی نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کو حاصل کرنے میں کتنا وقت لگے گا نا ہی یہ معلوم ہے کہ کیا کوئی ایسے مادّے کا وجود بھی ہے کہ نہیں جو فوقی موصل کے طور پر عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کر سکتا ہے۔

کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والی فوقی موصل دریافت ہو گئے تو تجارتی پیمانے پر اشیاء کا سیلاب آ جائے گا۔ زمین کے مقناطیسی میدانوں سے دس لاکھ گنا زیادہ طاقتور مقناطیسی میدان ہر جگہ نظر آئیں گے۔ فوق ایصالیت کی ایک خاصیت کو "میسیئر کا اثر" (Meissner effect) کہتے ہیں۔ اگر آپ مقناطیس کو فوقی موصل کے اوپر رکھ دیں تو مقناطیس ہوا میں معلق ہو جائے گا ایسا لگے گا جیسے کہ کسی غیر مرئی طاقت نے اس کو تھام کر رکھا ہوا ہے۔ (میسیئر اثر میں ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ مقناطیس اپنا عکسی مقناطیس فوقی موصل کے اندر بنا لیتا ہے جس کے نتیجہ میں اصل مقناطیس اور اس کا عکسی مقناطیس ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں۔ اس بات کو ایک دوسرے طریقے سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ مقناطیسی میدان فوقی موصل میں داخل نہیں ہو سکتے اس کے بجائے فوقی موصل مقناطیسی میدان کو دھکیلتے ہیں۔ لہٰذا اگر مقناطیس کسی فوقی موصل کے اوپر رکھا جائے گا اس کے لکیروں کی قوّت کو فوقی موصل دفع کرے گا جس کے نتیجے میں لکیروں کی قوّت مقناطیس کو اوپر کی جانب دھکیلتی ہوئی اس کو ہوا میں معلق کر دے گی۔

میسیئر کے اثر کے ذریعہ ہم مستقبل میں اس بات کا تصوّر کر سکتے ہیں کہ ہائی ویز اس خصوصی سفال (سیرامکس) سے بنے ہوں گے۔ ہماری بیلٹ یا گاڑی کے پہیوں میں لگے ہوئے مقناطیس ہمیں ہماری منزل کی طرف جادوئی طریقے سے تیرتے ہوئی بغیر رگڑ یا توانائی کے زیاں کے پہنچا دیں گے۔

میسیئر کا اثر صرف مقناطیسی مادّوں پر ہی ہوتا ہے جیسے کہ دھاتیں۔ مگر یہ بات بھی ممکن ہے کہ کامل موصلیت والے مقناطیسوں کو غیر مقناطیسی مادّوں کو معلق کرنے میں استعمال کیا جا سکے۔ غیر مقناطیسی مادّوں کو پیرا مقناطیسی(Paramagnet) مادّے اور ارضی مقناطیسی(Diamagnet) مادّہ بھی کہتے ہیں۔ ان مادّوں کی اپنی مقناطیسی خاصیت نہیں ہوتی مگر یہ اپنی مقناطیسی خاصیت صرف داخلی مقناطیسی میدان کی موجودگی میں ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ پیرا مقناطیسی مادّے مقناطیس کی طرف کھینچتے ہیں جب کہ ارضی مقناطیسی مادّے مقناطیس کو دھکیلتے ہیں۔

مثال کے طور پر پانی ارضی مقناطیس ہے۔ کیونکہ تمام جاندار پانی سے بنے ہیں لہٰذا وہ طاقتور مقناطیسی میدان کی موجودگی میں معلق ہو سکتے ہیں۔ ١٥ تسلا کے مقناطیسی میدان میں (جو زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٣٠ ہزار گنا زیادہ ہے) سائنس دانوں نے چھوٹے جانوروں جیسے کہ مینڈک کو ہوا میں اٹھا لیا ہے۔ اگر کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل حقیقت بن گئے تو بڑی غیر مقناطیسی اشیاء کو ان کی ارضی مقناطیسی خصوصیت کی بناء پر اٹھانا ممکن ہو جائے گا۔

قصہ مختصر سائنسی افسانوں میں بیان کیے جانے والی قوّت کے میدان کائنات کی بنیادی چار قوّتوں میں کہیں پوری نہیں اترتیں۔ اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ قوّت کے میدان کی بیان کی جانی والی کئی خصوصیات کی نقل کی جا سکے۔ یہ نقل کئی تہوں والی ڈھال جو پلازما کی کھڑکی، لیزر کے پردے، کاربن نینو ٹیوبز کی اسکرینوں اور ضیا لونی (فوٹو کرومٹکس) پر مشتمل ہو کر بنائی جا سکتی ہے۔ لیکن اس قسم کی غیر مرئی ڈھال کو بنانے میں کئی دہائیاں یا ہو سکتا ہے کہ پوری صدی بھی لگ جائے۔ لیکن عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل تلاش کر لئے گئے تو ان کے ذریعہ طاقتور مقناطیسی میدان سائنسی افسانوی فلموں میں دکھائی جانے کاروں اور ریل گاڑیوں کو زمین سے بلند کرکے ہوا میں معلق کر سکیں گے۔

ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے قوّت میدان کو ناممکنات کی جماعت I میں رکھا ہے۔ یعنی کہ جو چیز آج کی ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ناممکن ہے وہ اگلی ایک صدی یا اس سے زیادہ کے عرصے میں اپنی شکل کو بدلتے ہوئے ممکن ہو سکتی ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکنات کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
2۔ پوشیدگی (Invisibility) - حصّہ اوّل
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

جب تک آپ کا تخیل مرتکز نہ ہو، اس وقت تک آپ اپنی آنکھوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔


- مارک ٹوئن (Mark Twain)




اسٹار ٹریک IV: دی وائیج ہوم(Star Trek IV: The Voyage Home) فلم سیریز میں،" کلنگون"(Klingon) کے ایک گشتی جنگی جہاز کو"انٹرپرائز" کا عملہ اغواء کر لیتا ہے ۔ فیڈریشن اسٹار فلیٹ کے خلائی جہازوں سے ہٹ کر کلنگون ریاست کے خلائی جہازوں کے پاس ایک خفیہ "سلیمانی جبے نما آلہ" ہوتا ہے جو اس کو ریڈار کی پہنچ سے غائب کردینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طرح سے کلنگون کے خلائی جہاز فیڈریشن کے خلائی جہازوں کے پیچھے ان کی بےخبری میں جا پہنچتے ہیں اور وہاں سے ان پر شب خون مارتے ہیں۔ اس سلیمانی جبے نے کلنگون ریاست کو سیاروں کی ریاست پر ایک تزویراتی برتری دی ہوتی ہے۔


سوال یہ ہے کہ کیا سلیمانی جبہ بنانا ممکن ہے؟ سائنسی افسانوں اور خیالی دنیا میں" پوشیدہ آدمی " (The Invisible Man)کے صفحات سے لے، ہیری پوٹر ناول کے جادوئی سلیمانی جبے تک، اور"دا لارڈ آ ف دا رنگس "(The Lord of the Rings) کی انگوٹھی تک ایک لمبے عرصے سے" پوشیدگی" (Invisibility) ایک عجوبہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ایک صدی تک ماہرین طبیعیات نے سلیمانی جبے جیسی کسی چیز کے ہونے کویہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ایسی کسی بھی چیز کا وجود بصری قوانین کے برخلاف ہوگا۔ مزید براں یہ کہ مادّے کی کوئی بھی خصوصیت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔


کل کی ناممکن چیز آج ممکن ہو سکتی ہے۔ میٹا مٹیریل کے میدان میں پیش قدمی نے بصریات سے متعلق کتابوں میں انقلاب برپا کر دیا۔ تجرباتی بنیادی پراس مٹیریل کے ابتدائی نمونے ( پروٹو ٹائپ) تجربہ گاہوں میں بنائے جا چکے ہیں جنہوں نے ظاہر کو پوشیدہ بنا دیا ہے۔ ظاہر کو پوشیدہ کرنے کی اس خاصیت نے ذرائع ابلاغ، صنعت، اور افواج کی زبردست توجہ حاصل کر لی ہے۔


پوشیدگی تاریخ کے آئینے میں

پوشیدگی یا غیر مرئی ہونا شاید قدیمی دیومالائی تصوّرات میں ایک سب سے پرانا تصوّر ہے۔ جب سے تاریخ لکھنا شروع ہوئی ہے، تنہا اور اکیلے لوگ غیر مرئی روحوں سے ڈرتے رہے ہیں جو بہت عرصے پہلے مرنے والوں کی آتما کی شکل میں رات کی تاریکی میں گھات لگا کر بیٹھی ہوئی ہوتی تھیں۔ یونانی ہیرو "پر سیس" (Perseus) سلیمانی ٹوپی کے سہارے شیطانی میڈوسا (Medusa) کا سر قلم کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔فوج کے سپا سالاروں کے لئے سلیمانی ٹوپی جیسا کوئی آلہ ایک خواب رہا ہے۔ پوشیدہ رہ کر کوئی بھی دشمن کی صفحوں میں گھس کر آسانی کے ساتھ انھیں بے خبری میں پکڑ سکتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد پوشیدگی کا فائدہ اٹھا کر زبردست قسم کے ڈاکے ڈال سکتے ہیں۔


"پلاٹو"(Plato) کے "نظریئے حسن عمل اور ضابطہ اخلاق"(Theory of Ethics and Mortality) میں پوشیدگی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس فلسفیانہ شاہکار "دی ریپپلک"(The Republic)میں پلاٹو نے جائیجیس (Gyges) کی انگوٹھی کے قصّے کو بیان کیا ہے۔ جس میں غریب مگر دیانت دار چرواہا جائیجیس جو "لیڈیا" (Lydia) میں رہتا تھا وہ کسی طرح سے ایک خفیہ غار میں پہنچ جاتا ہے جہاں اس کو ایک مقبرے میں موجود لاش ملتی ہے جس نے ایک سونے کی انگوٹھی پہنی ہوئی ہوتی ہے۔ جائیجیس کو جلد ہی پتا چل جاتا ہے کہ یہ سونے کی انگوٹھی ایک جادوئی اثر رکھتی ہے جو اس کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کر سکتی ہے۔ جلد ہی غریب چرواہا اس طاقت کے نشے میں چور ہو جاتا ہے جو اس جادوئی انگوٹھی کے نتیجے میں اس نے حاصل کی تھی۔ بادشاہ کے محل میں چوری چھپے گھسنے کے بعد جائیجیس اپنی طاقت ملکہ کو لبھانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔بعد میں ملکہ کی مدد سے وہ بادشاہ کو قتل کرکے لیڈیا کا اگلا بادشاہ بن جاتا ہے۔


اس کہانی سے جو پلاٹو سبق دینا چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جس میں ان کو جب طاقت اور موقع ملتا ہے وہ بغیر کسی دباؤ کے قتل اور چوری کرنے سے باز نہیں آتے۔ اس میں امیر و غریب کی کوئی قید نہیں ہے۔ زیادہ تر انسان آسانی سے شیطان کے بہکاوے میں آ سکتے ہیں۔ ضابطہ اخلاق ایک ایسی معاشی عمارت ہے جسے زبردستی بنا کر نافذ کیا جاتا ہے۔ آدمی عوام الناس کے درمیان نیک بن سکتا ہے تاکہ اس کی نیک نامی، دیانت داری اور ایمانداری کی بدولت لوگوں میں برقرار رہے۔ لیکن ایک دفع اس کے پاس پوشیدگی کی طاقت آ جائے تو اس طاقت کا استعمال ناقابل مزاحمت ہو جاتا ہے۔(کچھ لوگوں کے خیال میں یہ حسن اخلاق کی کہانی "جے آر آر ٹولکن" (J۔R۔R۔ Tolkien)کی لارڈ آ ف دا رنگ کی مثلث سے متاثر ہو کر لی گئی ہے جس میں انگوٹھی اس کے پہننے والے کو پوشیدگی کے ساتھ ساتھ شیطانی مخرج بھی بنا دیتی ہے۔


پوشیدگی سائنس فکشن میں ایک عام سی چیز ہوتی ہے۔١٩٣٠ء کی فلیش گورڈن کی سیریز میں، ایک کردار جس کا نام فلیش تھا وہ پوشیدہ ہو جاتا ہے تاکہ بے رحم منگ کے فائرنگ اسکواڈ سے فرار حاصل کر سکے۔ ہیری پوٹر کے ناولوں اور فلموں میں ہیری ایک سلیمانی جبہ پہن لیتا ہے جس کی مدد سے وہ "ہوگورٹ"(Hogwart) کے محل میں بغیر کسی کی نظر میں آئے ہوئے آوارہ گردی کرتا ہے۔



ایچ جی ویلز نے اس دیومالائی خواہش کو اپنے کلاسک ناول "پوشیدہ آدمی " میں ٹھوس شکل میں پیش کیا۔ اس ناول میں ایک طب کا طالبعلم حادثاتی طور پر چوتھی جہت کی طاقت دریافت کر لیتا ہے اور اس کی مدد سے پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے وہ اس زبردست طاقت کو اپنے ذاتی فائدے کے لئے استعمال کرتا ہے، وہ جرائم کرنا شروع کرتا ہے اور آخر کار بے بسی کی موت میں اس وقت مارا جاتا ہے جب وہ پولیس سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔



میکسویل کی مساوات اور روشنی کا راز

جب تک ا سکاٹ لینڈ کے رہائشی - ماہر طبیعیات جیمزکلارک میکسویل کا کام منظر عام پر نہیں آیا اس وقت تک طبیعیات دانوں کی بصری قوانین پر گرفت کافی کمزور تھی۔ یہ ماہر طبیعیات انیسویں صدی کے طبیعیات دانوں میں ایک بڑا نام تھا۔ ایک طرح سے میکسویل، مائیکل فیراڈے کا برعکس تھا۔ فیراڈے کا تجرباتی وجدان شاندار قسم کا تھا مگر اس نے باضابطہ کوئی تربیت حاصل نہیں کی تھی، میکسویل، جو فیراڈے کا ہم عصر تھا اس نے ریاضی پر مکمل عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس نے کیمبرج میں طبیعیاتی ریاضی میں بطور طالبعلم نہایت ممتاز مقام پایا تھا جہاں پر آئزک نیوٹن نے دو صدی قبل ہی اس کا کام آسان کر دیا تھا۔


نیوٹن نے" علم الا حصا ء"(Calculus) کو ایجاد کیا تھا جو "تفرقی مساوات" (Differential Equations)کی زبان میں بیان کیا گیا تھا ۔یہ اس بات کو بیان کرتا ہے کہ کس طرح اشیاء یکسانی کے ساتھ صغاری تبدیلیوں کو زمان و مکان میں جھیلتی ہیں۔ سمندروں کی موجوں کی حرکت، سیال، گیسیں، اور توپ کے گولے یہ سب چیزیں تفرقی مساوات کی صورت میں بیان کی جا سکتی ہیں۔ میکسویل نے بڑے واضح مقصد کے ساتھ فیراڈے کی انقلابی دریافتوں اور اس کی قوّت کے میدان کو انتہائی درستگی کے ساتھ تفرقی مساوات کی صورت میں بیان کیا۔


میکسویل نے فیراڈے کی اس دریافت سے شروعات کی کہ برقی میدان، مقناطیسی میدان میں بصورت معکوس تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس نے فیراڈے کی قوّت کے میدان کی نقشہ کشی لی اور اس کو دوبارہ سے ہوبہو تفرقی مساوات میں لکھا جس کے نتیجے میں جدید سائنس کی دنیا میں ایک سب سے اہم مساوات کا سلسلہ وجود میں آیا۔ وہ ایک آٹھ سلسلوں کی انتہائی خوفناک لگنے والی تفرقی مساوات تھیں۔ دنیا میں موجود ہر طبیعیات داں اور انجنیئر جب وہ برقی مقناطیسیت کے شعبے میں کسی یونیورسٹی سے ماسٹر کی سند لیتا ہے تو وہ اس پر عہد لیتا ہے۔


اس کے بعد میکسویل نے خود سے نتیجہ خیز سوال کیا: اگر مقناطیسی میدان بصورت معکوس برقی میدان میں تبدیل ہو سکتے ہیں تو اس وقت کیا ہوگا جب وہ کبھی ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں ایک دوسرے میں تبدیل ہوتے رہیں؟ میکسویل نے یہ بات معلوم کر لی تھی کہ برقی مقناطیسی میدان سمند کی موجوں کی طرح کی موجیں پیدا کرتے ہیں۔ اپنے تحیر کی خاطر اس نے ان موجوں کی رفتار کو ناپا اور ان کو روشنی کی رفتار کے برابر پایا! ١٨٦٤ء میں اس بات کو جاننے کے بعد اس نے پیش بینی کے طور پر لکھا :"یہ سمتی رفتار روشنی کی رفتار سے اس قدر نزدیک ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے پاس اس بات کا نتیجہ نکالنا کی مضبوط دلیل ہے کہ روشنی خود سے۔۔۔۔۔برقی مقناطیسی خلل ہے۔"


یہ شاید انسانیت کی تاریخ میں سب سے عظیم دریافت تھی۔انسانی تاریخ میں پہلی دفع روشنی کا راز ظاہر ہوا تھا۔ میکسویل نے اچانک اس بات کو محسوس کیا کہ طلوع سورج کی تابانی سے لے کر ہر چیز، غروب آفتاب، قوس و قزح کے خیرہ کناں رنگ، فلک میں موجود سماوی ستاروں تک ہر چیز کو ان موجوں کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے جس کو اس نے کاغذ کے پنے پر مساوات کی شکل میں لکھا تھا۔ آج ہم اس بات کو جان چکے ہیں کہ برقی مقناطیسی طیف - ریڈار سے لے کر ٹیلی ویژن تک، "زیریں سرخ روشنی"(Infrared)، بصری روشنی، بالائے بنفشی روشنی (Ultraviolet Light)،ایکس ریز، خرد موجیں(Microwaves)، اور گیما اشعاع یہ سب میکسویل کی موجیں ہی تو ہیں جو دوسرے الفاظ میں فیراڈے کی قوّت میدان کی تھرتھراہٹ ہیں۔


میکسویل کی مساوات کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے آئن سٹائن نے لکھا ہے کہ "یہ وہ سب سے زیادہ گہرا اثر ڈالنے والی اور فائدہ مند دریافت ہے جس کو طبیعیات کی دنیا نے نیوٹن کے بعد سے لے کراب تک جانا ہے۔"


(افسوس کہ میکسویل جو انیسویں صدی کا ایک عظیم طبیعیات دان تھا وہ عہد شباب میں جب اس کی عمر صرف ٤٨ برس کی تھی ؛معدے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کر گیا تھا۔ شاید یہ وہی وجہ تھی جس کے نتیجہ میں اس کی ماں کا بھی انتقال اسی عمر میں ہوا تھا۔ شاید اگر وہ زندہ رہتا، تو وہ اس بات کو دریافت کر لیتا کہ اس کی مساوات زمان و مکان میں خلل ڈالنے کی اجازت دیتی ہے جو سیدھی آئن سٹائن کی نظریے اضافت کی طرف جاتی ہے۔ یہ بات بہت زیادہ متحیر کر دینے والی ہے کہ اگر میکسویل لمبی عمر پاتا تو اضافیت کا نظریہ ممکنہ طور پر امریکہ کی سول وار کے دوران ہی دریافت ہو سکتا تھا۔)


میکسویل کی روشنی کے نظرئیے اور ایٹمی نظرئیے نے بصریات اور پوشیدگی کی سادہ تشریح کردی تھی۔ ٹھوس چیزوں میں ایٹم کس کر بندھے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ مائع اور گیس میں سالموں کے درمیان کافی فاصلہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر ٹھوس اشیاء غیر شفاف ہوتی ہیں کیونکہ روشنی کی اشعاع ٹھوس اجسام میں ایٹموں کے کثیف میٹرکس میں سے نہیں گزر سکتیں جو اس کے لئے اینٹوں کی دیوار کا کام کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف کئی مائع اور گیسیں شفاف ہوتی ہیں کیونکہ روشنی تیزی سے ان ایٹموں کے درمیان موجود بڑی خالی جگہوں میں سے پاس ہو سکتی ہے۔ ان ایٹموں کے درمیان یہ خالی جگہ بصری روشنی کی موجوں سے بڑی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جیسا کہ مائع مثلاً پانی، الکحل، امونیا، ایسٹوں، ہائیڈروجن پیرا آکسائڈ، گیسولین وغیرہ شفاف ہوتے ہیں بعینہ ایسے ہی گیسیں بھی شفاف ہوتی ہیں جن میں آکسیجن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائڈ، میتھین وغیر ہ شامل ہیں۔


یہاں پر اس اصول کی کچھ اہم استثناء بھی موجود ہیں۔ کئی قلمیں ٹھوس ہونے کے باوجود شفاف ہوتی ہیں۔ مگر قلموں میں ایٹم ہوبہو ایک جالی کی صورت میں ترتیب وار انبار کی صورت میں صف بند ہوتے ہیں جن کے درمیان یکساں خالی جگہ ہوتی ہے۔ لہٰذا قلموں میں کئی ایسے راستے موجود ہو سکتے ہیں جہاں روشنی کی کرن جالی کے درمیان کی خالی جگہ سے نکل جاتی ہے۔ لہٰذا قلم اتنے ہی کسے ہوئے ایٹموں سے بندھی ہوئی ہوتی ہے جتنا کہ ایٹم کسی ٹھوس مادّے میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں اس کے باوجود روشنی قلم میں سے گزرنے کا راستہ بنا سکتی ہے۔


کئی طرح کی صورتحال میں ٹھوس اشیاء بھی شفاف بن سکتی ہیں اگر ان میں موجود ایٹم بے ترتیب ہوں۔ ایسا کئی مادّوں کو بلند درجہ حرارت پر گرم کرکے تیزی سے ٹھنڈا کرنے کے بعد کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر شیشہ ٹھوس ہے مگر اس میں مائع کی کئی خصوصیات موجود ہیں کیونکہ اس میں ایٹم کسی خاص ترتیب سے نہیں مرتب ہوتے ہیں۔ کئی قسم کی ٹوفیاں اس طریقے کی مدد سے شفاف بنائی جا سکتی ہیں۔


میکسویل کی مساوات ہمیں بتاتی ہے کہ واضح طور پر پوشیدگی ایک ایسی خاصیت ہے جو کہ ایٹمی پیمانے پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا پوشیدگی کو عام مادّے میں حاصل کرنا حد درجہ مشکل ضرور ہوگا مگر یہ ناممکن نہیں ہے۔ ہیری پوٹر کو غائب ہونے کے لئے پہلے تو سیال میں تبدیل ہونا ہوگا، اس کے بعد اس کو ابلنا ہوگا تاکہ وہ بھاپ بن سکے ، پھر اس کی قلم بنانی ہوگی، جس کے بعد اس کو دوبارہ گرم کرکے ٹھنڈا کرنا ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے ہیری پوٹر کو غائب کرنے کے لئے یہ سب کچھ کرنا کسی جادوگر کے لئے بھی آسان نہیں ہوگا۔



فوج ابھی تک غیر مرئی جہاز بنانے کو قابل نہیں ہوئی ہے اگرچہ فوجی اداروں نے اس سے ملتی جلتی سب سے بہتر چیز بنانے کی کوشش ضرور کی ہے: یعنی در پردگی کی طرزیات (Stealth Technology)، جو ہوائی جہاز کو ریڈار کی نظروں سے اوجھل کر دیتی ہے۔ در پردگی کی ٹیکنالوجی میکسویل کی مساوات پر تکیہ کرتے ہوئے چالوں کا ایک سلسلہ شروع کرتی ہے۔ در پردگی کی صلاحیت کا حامل لڑاکا طیارہ مکمل طور پر انسانی آنکھ سے دکھائی دیتا ہے لیکن دشمن کے ریڈار کی اسکرین پروہ صرف کسی بڑے پرندے جیسا نظر آتا ہے۔(در پردگی کی ٹیکنالوجی اصل میں مختلف ترکیبوں کی کھچڑی ہوتی ہے۔ لڑاکا طیارے کے اندر کے مادّے میں رد و بدل کیا جاتا ہے، مثلاً طیارے میں ا سٹیل کی مقدار کو کم کرکے پلاسٹک اور لاکھ(Resins) کا استعمال کیا جاتا ہے، طیارے کے جسم کو بنانے کے لئے مختلف زاویوں کا استعمال کیا جاتا ہے،اس طیارے میں دھوئیں کے اخراج کے پائپوں کی ترتیب بھی بدل دی جاتی ہے اور اسی طرح سے دوسری کئی تبدیلیاں کی جاتی ہیں ۔اس طرح سے دشمن کے ریڈار سے نکلنے والی شعاعیں جہاز سے ٹکرا کر ہر سمت پھیل جاتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ دشمن کے ریڈار کی اسکرین پر کبھی واپس نہیں جاتی۔ مگر اس در پردگی کی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود لڑاکا طیارہ مکمل طور پر غائب نہیں ہوتا اس کے بجائے وہ ریڈار سے آنے والی شعاعوں کو جتنا تکنیکی طور پر ممکن ہو سکتا ہے اتنا موڑ کر پھیلا دیتا ہے۔)

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکنات کی طبیعیات از میچو کاکو
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
2۔ پوشیدگی (Invisibility) - حصّہ دوم
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


میٹامٹیریل اور پوشیدگی

شاید مخفی رہنے کے سلسلے میں سب سے زیادہ امید افزا پیش رفت مادّے کی ایک نئی پراسرار قسم میں ہوئی ہے جس کو میٹا مٹیریل کہتے ہیں۔ یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ ایک دن اشیاء کو صحیح معنی میں غائب کیا جا سکے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں میٹا مٹیریل کی تخلیق کو ناممکن سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہ طبیعیات کے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کرتا تھا۔ ٢٠٠٦ء میں امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں واقع ڈیوک یونیورسٹی اور برطانوی شہر لندن میں موجود امپیریل کالج میں محققین نے کامیابی کے ساتھ روایتی سوچ کا مقابلہ کیا اور ایک ایسا میٹامٹیریل بنایا جو خرد موجی شعاعوں (Microwave Radiation)کے لئے غیر مرئی رہتا ہے۔ اگرچہ ابھی بہت سے مسائل پر قابو پانا باقی ہے لیکن تاریخ میں پہلی بار ہم نے کسی عام مادّے کو خرد امواج سے پوشیدہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔(اس تحقیق کے لئے مالی تعاون پینٹاگون کی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹ ایجنسی [دارپا] نے کیا ہے۔)


ناتھن میہر ولڈ(Nathan Myhrvold) مائیکروسافٹ کے سابق چیف ٹیکنالوجی افسر ہیں وہ کہتے ہیں " میٹامٹیریل میں موجود انقلابی صلاحیت مکمل طور پر ہماری بصریات اور برقی اشیاء کے ہر پہلو کو سمجھنے کی سوچ کو تبدیل کر دے گی۔۔۔۔کچھ میٹامٹیریل تو اس قسم کے کرتب دکھا سکتے ہیں جو آج سے کچھ دہائیوں قبل تک معجزاتی لگتے تھے۔"


یہ میٹامٹیریل آخر میں ہیں کیا؟ یہ وہ مادّے ہیں جن میں وہ بصری خصوصیات موجود ہیں جو قدرتی طور پر نہیں پائی جاتی ہیں۔ میٹامٹیریل بنانے کے لئے اس مادّےکے اندر ہی چھوٹے امپلانٹ نصب کیے جاتے ہیں تاکہ وہ برقی مقناطیسی موجوں کو مسلمہ راستے سے مڑنے پر مجبور کریں۔ ڈیوک یونیورسٹی میں سائنس دانوں نے چھوٹے برقی سرکٹ تانبے کی تاروں کے جتھے میں گھسا دئیے جو ہموار ترتیب میں رکھے ہوئے مرتکز دائروں کی شکل میں تھے(کچھ ان کی شکل برقی بھٹی میں موجود لچھوں جیسی تھی)۔ نتیجے میں انتہائی پیچیدہ سفل گری (سرامک)،مومی مادّہ ( ٹیفلون)،ریشے کے مرکبات ( فائبر کمپوزٹ) اور دھاتی اجزاء کا آمیزہ وجود میں آیا۔ تانبے کی تاروں میں لگے ہوئے ننھے امپلانٹ نے خرد موجوں کو ایک خاص طریقے سے انضباط کرکے ایک مخصوص راستے پر خم دے کر گزرنے کے عمل کو ممکن بنایا۔ ذرا تصور کریں کہ دریا کسی پتھر کی سل کے ارد گرد سے ہوتا ہوا بہہ رہا ہو۔ کیونکہ پانی تیزی سےپتھر کی سل کے گرد لپٹتا ہے لہٰذا سل پانی کے بہاؤ کی طرف گر جائے گی۔ اسی طرح سے میٹامٹیریل مسلسل خرد امواج کے راستے کو تبدیل اور خم دیتے رہتے ہیں تاکہ وہ سلنڈر کے آس پاس بہہ سکے جس کے نتیجے میں سلنڈر کے اندر موجود ہر چیز خرد موجوں کے لئے پوشیدہ ہوگی۔ اگر میٹامٹیریل تمام انعکاس اور سائیوںکو حذف کر دیں تو اس وقت یہ کسی بھی اشیاء کو ہر قسم کی اشعاع سے مکمل طور پر مخفی رکھ سکیں گے۔


سائنس دانوں نے اس اصول کا کامیابی سے مظاہرہ ایک ایسے آلے کی مدد سے کیا جس کو دس فائبر گلاس کے چھلوں سے بنایا تھا جن کے گرد تانبے کا مرکب لپیٹا ہوا تھا۔ آلے کے اندر موجود تانبے کے چھلے خرد موجی اشعاع کے لئے تقریباً غائب ہی تھے انہوں نے صرف چھوٹا سا سایہ ہی بنایا تھا۔


میٹامٹیریل کا اصل کمال جوڑ توڑ کرنے کی وہ قابلیت ہے جس کو "انعطاف نما"(Index of Refraction) کہتے ہیں۔ انعطاف شفاف ذریعہ میں سے گزرتی ہوئی روشنی کے جھکاؤ کو کہتے ہیں۔ اگر آپ اپنا ہاتھ پانی میں رکھیں یا آپ اپنے چشمے کے عدسے سے دیکھیں تو آپ کو پانی اور چشمہ عام روشنی کے راستے کو خم دیتے ہوئے بگاڑتا ہوا نظر آئے گا۔


پانی یا چشمے کے عدسے میں سے گزرتی روشنی کے خم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ روشنی کی رفتار کسی کثیف شفاف شئے میں داخل ہونے کے بعد آہستہ ہو جاتی ہے۔ روشنی کی رفتار خالص خلاء میں ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے۔ مگر پانی یا گلاس کے اندر دوڑتی ہوئی روشنی کو دسیوں کھرب ایٹموں میں سے گزرنا پڑتا ہے لہٰذا اس کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے۔(روشنی کی رفتار کو کسی شئے کے اندر موجود دھیمی روشنی کی رفتار سے تقسیم کرنے کا عمل انعطاف نما کہلاتا ہے۔ کیونکہ روشنی ہمیشہ شیشے میں صفر کرتی ہوئی آہستہ ہو جاتی ہے لہٰذا انعطاف نما ہمیشہ ١ سے زیادہ ہی ہوگا)۔ مثال کے طور پر خلاء میں انعطاف نما ١ ہوگا، ہوا میں ١۔٠٠٠٣،شیشے میں ١۔٥ اور ہیرے میں ٢۔٤ ہوگا۔ عام طور سے جتنی زیادہ کثیف چیز ہوگی اتنا درجہ زیادہ ہی اس کا جھکاؤ اور انعطاف نما ہوگا۔

انعطاف نما کی مشہور زمانہ مثال سراب Mirage)کی ہے۔ اگر کبھی آپ کسی گرم دن میں گاڑی چلاتے ہوئے سیدھا افق کی جانب دیکھیں گے تو آپ کو سڑک جھلملاتی ہوئی نظر آئے گی جس کے نتیجے میں آپ کو ایک دمکتی ہوئی جھیل دکھائی دے گی۔ صحرا میں تو لوگوں کو دور دراز کے شہر اور پہاڑوں کے سائے بھی افق پر نظر آتے ہیں۔ سراب بننے کی وجہ سڑک یا ریگستان پر سے اٹھتی ہوئی گرم ہوا کی کثافت ہے جو عام ہوا کی با نسبت کم ہوتی ہے لہٰذا اس کا انعطاف نما آس پاس کی ٹھنڈی ہوا کے مقابلے میں کم ہوتا ہے لہٰذا دور دراز کے اجسام سے آتی ہوئی روشنی سڑک سے منعطف(Refreacted) ہو کر ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے جس سے ہمیں دھوکہ ہوتا ہے کہ ہم دور دراز پر واقع ان چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔

عام طور سے انعطاف نما مستقل ہوتا ہے۔ روشنی کی ایک تنگ کرن جب شیشے میں داخل ہوتی ہے تو خم کھاتی ہے لیکن خم کھانے کے بعد پھر سے وہ خط مستقیم پر سفر کرنے لگتی ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے فرض کریں کہ ہم انعطاف نما کو اپنی مرضی سے منضبط کر سکتے ہیں لہٰذا ہم اسے شیشے میں ہر نقطہ پر مسلسل تبدیل کر سکتے ہیں۔ جیسے ہی روشنی اس نئے مادّہ میں داخل ہوگی روشنی کو نئے راستوں پر خمیدہ اور گھمایا جا سکے گا جس کے نتیجے میں وہ سانپ کی چال کی طرح اس پورے مادّے میں آوارہ گردی کرتی پھرے گی۔

اگر ہم انعطاف نما کو کسی میٹامٹیریل میں اپنی مرضی کا تابع کر لیں جس سے روشنی اس شئے آس پاس سے گزر جائے تو وہ شئے نظروں سے مخفی ہو سکے گی۔ اس امر کو ممکن بنانے کے لئے میٹامٹیریل کے انعطاف نما کو منفی ہونا پڑے گا جس کو طبیعیات کی ہر ٹیکسٹ بک ناممکن کہتی ہے۔(میٹامٹیریل کا نظریہ سب سے پہلے روسی طبیعیات دان وکٹر ویس لوگو (Victor Veselago)نے ١٩٦٧ میں پیش کیا جس میں اس نے عجیب بصری خصوصیات جیسے کہ منفی انعطاف نما اور ڈوپلر اثر(Doppler Effect) کے متضاد جیسی چیزیں بیان کی تھیں۔ میٹامٹیریل اتنی عجیب اور خلاف عقل لگتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان کی تخلیق ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ لیکن پچھلے چند سال میں میٹامٹیریل کو تجربہ گاہوں میں بنا لیا گیا ہے اور اس چیز نے متذبذب ماہرین طبیعیات کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بصریات سے متعلق تمام ٹیکسٹ بکس کو دوبارہ سے لکھیں۔)

میٹامٹیریل پر تحقیق کرنے والے محققین ان صحافی حضرات سے اکثردق ہوئے رہتے ہیں جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سلیمانی جبہ کب بکنے کے لئے تیار ہوگا۔ اس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ اس میں ابھی کافی وقت درکار ہوگا۔

ڈیوک یونیورسٹی کے ڈیوڈ سمتھ کہتے ہیں " صحافی حضرات اکثر فون کرتے ہیں اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم انھیں کسی طرح سے وقت مہینوں اور برسوں میں بتا دیں۔ وہ اتنا تنگ کرتے ہیں آخر آپ مجبوراً کہہ دیتے ہیں کہ پندرہ سال لگیں گے۔ اس کے بعد آپ کی کہی ہوئی بات شہ سرخی بن کر کچھ اس طرح سے اخبار میں نظر آتی ہے۔ ہیری پوٹر کے سلیمانی جبے کے آنے میں صرف پندرہ سال۔" یہ ہی وجہ ہے کہ اب وہ کسی واضح ٹائم ٹیبل کو دینے سے ہمیشہ صاف انکار کر دیتے ہیں۔ ہیری پوٹر یا اسٹار ٹریک کے مداحوں کو ابھی کافی انتظار کرنا ہوگا۔ اگرچہ حقیقی سلیمانی جبہ طبیعیات کے قوانین کی رو سے بنانا ممکن ہے اور کافی سارے ماہرین طبیعیات اس سے متفق بھی ہیں لیکن سخت فنی رکاوٹیں ابھی اس طرزیات کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ خرد موجی اشعاع سے بڑھ کر بصری روشنی پر اس کام کے دائرے کو پھیلانا ہوگا۔

دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میٹامٹیریل کے اندر پیوستہ آلات (امپلانٹڈ ڈیوائسوں) کے اندرونی ڈھانچے کو اشعاع کی طول موج (Wave Length)سے لازماً چھوٹا ہونا ہوگا۔ مثال کے طور پر خرد امواج کی طول موج لگ بھگ ٣ سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ لہٰذا اس میٹامٹیریل کے لئے اس میں لگے ان ننھے پیوستہ آلات کا ٣ سینٹی میٹر سے چھوٹا ہونا ضروری ہے۔لیکن کسی شئے کو سبز روشنی - جس کا طول موج ٥٠٠ نینو میٹر ہوتا ہے - میں نظر نہ آنے کے لئے میٹامٹیریل کو اس طرح سے بنا نا ہوگا کہ اس میں لگائے ہوئے آلات صرف ٥٠ نینو میٹر لمبے ہوں ۔یہ بات دھیان میں رہے کہ نینو میٹر ایٹمی پیمانے کی لمبائی ہوتی ہے اور اس پر کام کرنے کے لئے نینو طرزیات کی ضرورت ہوتی ہے۔(ایک نینو میٹر ایک میٹر کے ایک اربویں حصّے کے برابر ہوتا ہے۔ لگ بھگ ٥ ایٹم ایک نینو میٹر میں سما سکتے ہیں۔ شاید یہ ہی وہ اہم رکاوٹ ہے جو کامل سلیمانی جبہ کو بنانے کی راہ میں حائل ہے۔ میٹامٹیریل میں موجود ہر ایک ایٹم کو اس طرح سے بدلنا پڑے گا کہ وہ روشنی کی کرن کو سانپ کی چال کی طرح خم کر سکے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکنات کی طبیعیات از میچو کاکو
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
2۔ پوشیدگی (Invisibility) - حصّہ سوم
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بصری روشنی کے لئے میٹامٹیریل

کھیل شروع ہو چکا ہے۔

جب سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ تجربہ گاہ میں میٹامٹیریل بنائے جا سکتے ہیں اس وقت سے اس میدان میں بھگدڑ سی مچ گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر چند مہینوں کے گزرنے کا بعد نئی بصیرت اور چونکا دینے والی اہم دریافتیں سامنے آ رہی ہیں۔ مقصد بالکل واضح ہے :نینو طرزیات کا استعمال کرتے ہوئے ایسے میٹامٹیریل بنائے جائیں جو خرد موجوں کو نہیں بلکہ بصری روشنی کو خم کر سکیں۔ اس سلسلے میں کئی طریقے تجویز کیے گئے ہیں جو سب کے سب کافی حوصلہ افزا ہیں۔


ایک تجویز تو یہ ہے کہ پہلے سے موجود سیمی کنڈکٹر صنعت میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی یعنی جس کو ہم پہلے سے جانتے ہیں کو استعمال کرتے ہوئے نئے میٹامٹیریل کو بنایا جائے۔ ایک تکنیک جس کا نام "سنگی طباعت" (فوٹو لتھوگرافی )ہے جو کمپیوٹر کو مختصر کرنے کی روح ہے اور اس ہی کے نتیجے میں کمپیوٹر کا انقلاب آیا ہے۔ اس طرزیات کے ذریعہ ہی انجنیئر ز اس قابل ہوئے ہیں کہ کروڑوں چھوٹے ٹرانسسٹر سلیکان کی اس پرت پر لگائے جاتے ہیں جو ہمارے انگوٹھے جتنی ہوتی ہے۔


کمپیوٹر کی رفتار اور طاقت ہر ١٨ مہینے کا بعد دگنی ہو جاتی ہے(جس کو "مور کا قانون" بھی کہتے ہیں ) اس کو وجہ یہ ہے کہ سائنس دان بالائے بنفشی اشعاع کا استعمال کرتے ہوئے چھوٹے سے چھوٹے حصّے سلیکان کی چپ پر "نقش"(Etch) کرتے ہیں ۔ یہ بالکل اس تیکنیک جیسی ہے جس میں رنگین ٹی شرٹس بنانے کے لئے ا سٹینسل کا استعمال کیا جاتا ہے۔(کمپیوٹر انجنیئر ز پتلی سی ویفر کے اوپر مختلف اجزاء پر مشتمل ننھی سی پرت چڑھاتے ہیں۔ اس کے بعد پلاسٹک کا ماسک ویفر کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے جو ایک طرح سے ملمع کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس میں تاروں کے پیچیدہ نقشے، ٹرانسسٹر ز اور کمپیوٹر کے کچھ حصّے ہوتے ہیں جو سرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس ویفر کو بالائے بنفشی اشعاع میں نہلایا جاتا ہے جن کا طول موج بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے، اور یہ اشعاع نمونے کو ایک "ضیائی حساس"( Photosensitive) ویفر پر نقش کر دیتی ہیں۔ ویفر کو خصوصی گیسوں اور تیزابوں سے دھونے کے بعد، ماسک پر چھپ جانے والی پیچیدہ سرکٹری ویفر پر چھاپی جاتی ہے جہاں اس پر بالائے بنفشی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک ایسا ویفر بنتا ہے جس میں کروڑوں چھوٹے کھانچے موجود ہوتے ہیں جو ٹرانسسٹر کے لئے بنیادی نقشے کا کام دیتے ہیں۔ اس وقت، چھوٹے سے چھوٹا حصّہ جو اس نقش کاری کے عمل میں بنایا جا سکتا ہے وہ ٣٠ نینو میٹر (یا تقریباً ١٥٠ ایٹم ) جتنا ہے۔


پوشیدگی حاصل کرنے کی جستجو میں ایک اور سنگ میل اس وقت آیا جب اس سلیکان ویفر کی نقش کاری کی ٹیکنالوجی، سائنس دانوں کے ایک گروپ نے اس پہلے پہل میٹامٹیریل کو بنانے میں استعمال کی جو روشنی کے "مرئی طیف "(Visible Spectrum)کا احاطہ کرتی ہے۔ ٢٠٠٧ء کی شروعات میں جرمن اور یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف انرجی میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے تاریخ میں پہلی بار اس بات کا اعلان کیا کہ انہوں نے ایک ایسا میٹامٹیریل بنا لیا ہے جو سرخ روشنی میں بھی کام کرتا ہے۔ بہت ہی قلیل عرصے میں ایک "ناممکن "چیز کو حاصل کر لیا گیا۔


آئی اوا ہ (Iowa)میں واقع ایمس لیبارٹری کے طبیعیات دان کوسٹاس سوکولس(Costas Soukoulis) نے، یونیورسٹی آف کارلزرو (University of Karlsruhe)، جرمنی کے ا سٹیفن لینڈن(Stefan Linden)، مارٹن ویگنر(Martin Wegener)، اورگونار ڈولنگ(Gunnar Dolling) کے ساتھ مل کر ایک ایسا میٹامٹیریل بنایا جس کا انعطاف نما سرخ روشنی کے لئے اشاریہ منفی ٦ تھا جس کا مطلب ٧٨٠ نینو میٹر طول موج ہے۔(اس سا پہلے میٹامٹیریل کو ١٤٠٠ نینو میٹر کی طول موج والی اشعاع کو خم کرنے کا ورلڈ ریکارڈ تھا، اپنے اس طول موج کی وجہ سے وہ مرئی روشنی کے احاطے سے باہر لیکن سرخ زیریں روشنی کے طول موج کے اندر تھی۔)


شروعات سائنس دانوں نے شیشے کی شیٹ سے کی، جس کے اوپر انہوں نے نہایت سی باریک چاندی، میگنیشیم فلورائیڈ اور ایک چاندی کی تہ چڑھائی، جس کے نتیجے میں فلورائیڈ کا ایک ایسا سینڈوچ بن گیا جو صرف ١٠٠ نینو میٹر پتلا تھا۔ اس کے بعد اسی نقش کاری کی تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے جنگلے(Grid) کا نمونہ مچھلی کے جال جیسا بنا دیا۔(اس میں سوراخ صرف ١٠٠ نینو میٹر چوڑے تھے جو سرخ روشنی کے طول موج سے کہیں زیادہ چھوٹے تھے۔) اس کے بعد انہوں نے اس میں سے سرخ روشنی کی کرن کو گزارا اور پھر اس کا " اشاریہ" (Index)ناپا جو کہ منفی ٦ نکلا۔


طبیعیات دان اس ٹیکنالوجی کا استعمال کافی جگہوں پر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔" ہو سکتا ہے کہ ایک دن میٹامٹیریل ان چپٹے فوقی عدسوں (سپرلینس) کی تیاری میں استعمال ہوں جو مرئی طیف میں کام کر سکے۔" ڈاکٹر سوکولس نے کہا۔" ایسا کوئی بھی عدسہ روایتی طرزیات کے مقابلے میں بہت ہی عمدہ کارکردگی کا حامل ہوگا ، جو ہمیں باریک بینی سے ایک طول موج سے بھی کم کی جزئیات فراہم کر سکے گا۔" فوری طور پر اس کا استعمال خرد بینی چیزوں کی بے نظیر صراحت کے ساتھ تصویر کشی کرنے میں ہوگا۔ مثال کے طور پر زندہ انسانی خلیہ کے اندرون کی جھانک یا پھر رحم مادر میں موجود بچے کی بیماری کی تشخیص کرنے میں استعمال کیا جا سکے گا۔ ڈی این اے سالموں کی تصویر بے ڈھنگی ایکس رے قلمیات کو استعمال کئے بغیر لی جا سکے گی۔


ابھی تک ان سائنس دانوں نے صرف سرخ روشنی کے انعطاف کے منفی اشاریے کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا اگلا قدم اس طرزیات کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا میٹامٹیریل بنانا ہے جو پوری سرخ روشنی کو کسی جسم کے گرد خم کر دے تاکہ وہ روشنی کے لئے غیر مرئی ہو جائے۔


مستقبل میں ہونے والی پیش رفت اسی طرح سے" ضیائی قلموں "(Photonic Crystal)میں بھی ہو سکتی ہے۔ ضیائی قلموں کا مقصد ایک ایسی چِپ بنانا ہے جو برق کے بجائے روشنی کو استعمال کرتے ہوئے اطلاعات پر عمل کاری (انفارمیشن پراسیس) کرے۔ اس سے نینو طرزیات کو استعمال کرتے ہوئے ننھے اجزاء ویفر پر نقش کیے جائیں گے جس کے نتیجے میں انعطاف نما ہر اجزاء کے ساتھ تبدیل ہو جائے گا۔ ٹرانسسٹر ز میں بجلی کے بجائے روشنی کا استعمال کئی قسم کے فوائد کا حامل ہوگا۔ مثال کے طور پر ضیائی قلموں کے استعمال سے حرارت کا زیاں بہت ہی کم ہوگا۔( جدید سلیکان چپس میں پیدا ہونے والی حرارت اتنی ہوتی ہے کہ اس سے ایک انڈا آسانی کے ساتھ پکایا جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے ان کو مسلسل ٹھنڈا کرنا پڑتا ہے بصورت دیگر وہ خراب ہو سکتی ہیں اور ان کو ٹھنڈا رکھنا بھی ایک مہنگا طلب کام ہے۔) اس میں کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ضیائی قلموں کی سائنس میٹامٹیریل کے لئے انتہائی موزوں ہے کیونکہ دونوں روشنی کے انعطاف نما کے جوڑ توڑ کو نینو پیمانے پر کرتی ہیں۔

پوشیدگی بذریعہ پلازمونک

اگرچہ یہ طرزیات مفصلہ بالا طرزیات سے بہتر تو نہیں ہے۔لیکن بالکل ایک الگ طرح کی نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے گروپ نے ٢٠٠٧ء کے درمیان اس بات کا اعلان کیا کہ انھوں نے ایک ایسا میٹامٹیریل بنا لیا جو روشنی کو خم کر سکتا ہے۔یہ نئی طرزیات پلازمونک کہلاتی ہے۔ کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں طبیعیات دان "ہنری لیزک"(Henry Lezec)،" جینیفر ڈیون"(Jennifer Dionne) اور "ہیری ایٹ واٹر"(Harry Atwater) نے اعلان کیا کہ انہوں نے ایک ایسا میٹامٹیریل تیار کیا ہے جس کا منفی اشاریہ مزید مشکل نیلی-ہری مرئی روشنی کے بصری طیف میں بن سکتا ہے۔


پلازمونک کا مقصد روشنی کو اس حد تک دبانا ہے کہ کسی شئے پر پڑتی ہوئی روشنی کو نینو پیمانے پر، خاص طور پر دھاتوں کی سطح پر توڑا جوڑا جا سکے۔ کیونکہ دھاتوں کے ایٹموں پر الیکٹران ڈھیلے ڈھالے انداز میں بند ہوتے ہیں لہٰذا وہ دھاتوں کی سطح پر موجود جالی میں سے آسانی سے حرکت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان میں سے برقی رو آسانی سے گزر جاتی ہے۔ ہمارے گھروں کے تاروں میں دوڑتی ہوئی بجلی ان ڈھیلے ڈھالے بندھے ہوئے دھاتوں کی سطح پر موجود الیکٹران کا ہی بہاؤ ہوتا ہے۔ لیکن کچھ شرائط کے ساتھ جب روشنی کی کرن دھات کی سطح سے ٹکراتی ہے تو الیکٹران اصل روشنی کی کرن کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر تھر تھرا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں دھات کی سطح پر موجود الیکٹران موجوں کی طرح حرکت میں آ جاتے ہیں (جن کو پلازمونک کہتے ہیں)، اور یہ موجوں کی طرح کی حرکت اصل روشنی کی کرن کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ٹکرانے لگتی ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان پلازمونک کو بھینچا بھی جا سکتا ہے اس طرح سے ان کی تعدد ارتعاش(فریکوئنسی ) اصل روشنی کی کرن جتنی ہو سکتی ہے (اور بعینہ ویسی ہی معلومات لے جا سکتی ہے)لیکن اس کی طول موج کافی چھوٹی ہوتی ہے۔ اصولی طور پر ان بھینچی ہوئی موجوں کو نینو تاروں پر ٹھونسا جا سکتا ہے۔ پلازمونک کا بھی حتمی مقصد ضیائی قلموں کی طرح کمپیوٹر کی چپس کو ہی بنانا ہے تا کہ وہ حساب کتاب بجلی کے بجائے روشنی سے کیا جا سکے۔


کالٹک کے اس گروپ نے اپنا میٹامٹیریل چاندی کی دو تہوں سے بنایا ہے جن کے درمیان سلیکان نائٹروجن کا "حاجز"(Insulator) درمیان میں موجود ہے (جس کی موٹائی صرف ٥٠ نینو میٹر ہے)، یہ حاجز ایک طرح سے "موجی رہنما" کا کام کرتے ہوئے پلازمونک موجوں کی حفاظت کرے گا۔ لیزر کی روشنی آلے میں آنے اور نکلنے کے لئے دو درزوں کا استعمال کرتی ہیں جو میٹامٹیریل کے اوپر کندہ کی ہوئی ہیں۔ اس زاویہ کا تجزیہ منفی اشاریہ کے ذریعہ اس وقت معلوم کیا جا سکتا ہے جب لیزر کی روشنی میٹامٹیریل میں سے گزرتے ہوئے خم کھاتی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکنات کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
2۔ پوشیدگی (Invisibility) - حصّہ چہارم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
میٹامٹیریل کا مستقبل

میٹامٹیریل کے میدان میں پیش رفت مستقبل میں سرعت سے ہوگی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ لوگوں کی زبردست دلچسپی پہلے سے ہی ٹرانسسٹر میں بجلی کے بجائے روشنی کے استعمال کرنے کی ہے۔ ضیائی قلموں اور پلازمونک میں جاری تحقیق جس کا مقصد سلیکان چپس کا متبادل پیدا کرنا ہے، مخفی رہنے کی تحقیق کو جاری رکھے گا۔ کروڑوں ڈالر پہلے ہی سلیکان کے متبادل کو بنانے میں لگائے جا چکے ہیں اور میٹامٹیریل میں ہونے والی تحقیق کولا محالہ طور پر ان کے تحقیقی کاموں سے فائدہ ہوگا۔

ہرچند مہینوں میں اس میدان میں ہونے والی تیز رفتار ایجادات کی بدولت کچھ طبیعیات دان عملی قسم کی غیبی ڈھال کو تجربہ گاہوں میں شاید اگلی کچھ دہائیوں میں نمودار ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگلے چند سال میں سائنس دان اس بات کے لئے پر اعتماد ہیں کہ وہ ایسے میٹامٹیریل بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے جو کسی بھی شئے کو مکمل طور پربصری روشنی کی کسی ایک تعدد ارتعاش پر کم از کم دو جہتوں میں غیر مرئی کر دے گی۔ اس بات کو قابل عمل بنانے کے لئے ننھے نینو پیوستہ آلات کو باقاعدہ ترتیب وار لگانے کے بجائے پیچیدہ نمونوں میں ایسے لگایا جائے گا جس سے روشنی کسی بھی جسم کے گرد آسانی سے مڑ سکے گی۔

اس کے بعد سائنس دانوں کو ایسا میٹامٹیریل بنانا ہوگا جو روشنی کو صرف دو جہتی چپٹی سطح کے بجائے سہ جہت میں موڑ سکے۔" سنگی طباعت"(Photolithography) چپٹے سلیکان کے ویفر بنانے کے لئے بالکل موزوں ہے، مگر سہ جہتی میٹامٹیریل بنانے کے لئے ویفر کے انبار پیچیدہ انداز میں لگانے ہوں گے۔

اس کے بعد سائنس دانوں کو اس مسئلہ کا حل نکالنا ہوگا جس میں میٹامٹیریل روشنی کی کسی ایک تعدد ارتعاش کے بجائے کئی کو خم دے سکے۔ شاید یہ کام سب سے زیادہ مشکل ہوگا کیونکہ ابھی تک بنائے ہوئے ننھے پیوستہ آلات صرف ایک درست تعدد ارتعاش کی روشنی کو خم دینے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ سائنس دانوں کو شاید میٹامٹیریل تہوں کی صورت میں بنانے ہوں گے جس میں ہر تہ ایک مخصوص تعدد ارتعاش کو خم کرے گی۔ اس مسئلے کا حل ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اس تمام باتوں سے قطع نظر ایک دفعہ یہ غائب ہونے کی ڈھال یا سلیمانی ٹوپی بنا لی گئی تو یہ کافی بھاری آلے کی طرح ہوگی۔ ہیری پوٹر کا سلیمانی جبہ پتلے، لچکدار کپڑے سے بنا تھا جو کسی بھی چیز کو اپنے اندر آنے کے بعد غائب کر دیتا تھا۔ مگر اس بات کو ممکن بنانے کے لئے جبے کے اندر انعطاف نما کو مسلسل پیچیدگی کے ساتھ اس وقت تبدیل ہونا پڑے گا جب وہ پھڑپھڑائے گا جو کہ ایک ناممکن سی بات ہے۔ سلیمانی جبے کو بنانے کے لئے میٹامٹیریل کے ٹھوس سلنڈر کو شروع میں استعمال کرنا پڑے گا۔ اس طرح سے انعطاف نما کو سلنڈر کے اندر ہی ٹھیک کرلیا جائے گا۔( میٹامٹیریل کے مزید جدید ورژن میں ایسی چیزیں شامل کی جا سکتی ہیں جو اتنی لچکدار ہوں کہ انھیں موڑا بھی جا سکے اور اس کے باوجود روشنی کو میٹامٹیریل میں سے ٹھیک راستے سے گزرنے دیں۔ اس طرح سے سلیمانی جبے کے اندر تھوڑی سی ہل جل کرنے کی اجازت مل جائے گی۔)

کچھ لوگوں نے سلیمانی جبے کی ایک خامی کی طرف بھی اشارہ کیا: سلیمانی جبے کے اندر موجود کوئی بھی شخص ظاہر ہوئے بغیر باہر نہیں دیکھ سکے گا۔ ذرا تصّور کریں کہ ہیری پوٹر مکمل غائب ہو بس اس کی آنکھیں ہوا میں تیرتی ہوئی نظر آرہی ہوں۔ آنکھوں کے لئے بنایا جانے والا سوراخ مکمل طور پر باہر سے نظر آئے گا۔ اگر ہیری پوٹر مکمل طور پر غائب ہوگا تو وہ سلیمانی جبے کے اندر اندھوں کی طرح بیٹھا رہے گا۔(اس مسئلہ کا ایک ممکنہ حل یہ ہے کہ دو چھوٹے شیشوں کی پلیٹس آنکھوں کے سوراخوں کے پاس لگا دی جائیں۔ یہ شیشے کی پلیٹیں ایک طرح سے کرنوں کو توڑنے کے طور پر پلیٹوں پر پڑنے والی روشنی کے چھوٹے سے حصّے کو توڑ دیں گی اور پھر اس روشنی کو آنکھوں تک جانے دیں گی۔ لہٰذا اس طرح سے زیادہ تر سلیمانی جبے سے ٹکرانے والی روشنی اس کے ارد گرد بہ جائے گی جس کے نتیجے میں وہ شخص غائب رہے گے مگر بہت تھوڑا سا روشنی کا حصّہ اس کی آنکھوں کی طرف چلا جائے گا۔)

یہ مشکلات جتنی بھی حوصلہ شکن ہوں، سائنس دان اور انجینیرز بہت زیادہ پر امید ہیں کہ کسی قسم کا سلیمانی جبہ آنے والی دہائیوں میں بنایا جا سکتا ہے۔


پوشیدگی اور نینو ٹیکنالوجی

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ پوشیدگی کی اصل کنجی نینو ٹیکنالوجی میں چھپی ہے، نینو ٹیکنالوجی کا مطلب ہے کہ ایک میٹر کے ایک ارب حصّے جتنے ایٹمی حجم کی چیز میں جوڑ توڑ کیا جا سکے۔

نینو ٹیکنالوجی کی ابتداء اس ١٩٥٩ کے اس لیکچر سے ہوئی جو نوبل انعام یافتہ رچرڈ فینمین نے امریکن فزیکل سوسائٹی میں " تہ میں کافی گنجائش ہے " کے معنی خیز عنوان سے دیا۔ اپنے اس لیکچر میں اس نے قوانین طبیعیات کی روشنی میں اس بات کا تصوّر پیش کیا کہ چھوٹی مشینیں کیسی دکھائی دیں گی۔ اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ مشینیں چھوٹی سے چھوٹی بنائی جا سکیں گی یہاں تک کہ وہ ایٹم کے جتنی چھوٹی ہو جائیں اور اس وقت ایٹم کے ذریعہ دوسری مشینیں بنائی جا سکیں گی۔ ایٹمی مشینیں جیسا کہ چرخی، بیرم (لیور) اور پہیہ سب کے سب طبیعیات کے اندر رہتے ہوئے بنائے جا سکیں گے۔ اگرچہ ان کو بنانا بہت ہی زیادہ مشکل ہوگا، اس نے نتیجہ اخذ کیا۔

نینو ٹیکنالوجی کافی عرصے تک گمنامی کے اندھیرے میں پڑی رہی کیونکہ انفرادی ایٹموں سے کھیلنا اس وقت کی ٹیکنالوجی کے بس کی بات نہیں تھی۔ پھر ١٩٨١ میں طبیعیات دانوں نے تقطیعی سرنگی خردبین ( اسکیننگ ٹنلینگ مائکرو سکوپ )کی ایجاد کے ساتھ ایک زبردست مرحلے کو عبور کیا، جس کے نتیجے میں طبیعیات کا نوبل انعام زیورخ میں واقع آئی بی ایم لیب میں کم کرنے والے گرڈ بنیگ اور ہینرچ روہرر نے جیتا۔

اچانک سے طبیعیات دان اس قابل ہو گئے کہ متحیر کر دینے والی انفرادی ایٹموں کی قطار در قطار کیمیاء کی کتابوں میں موجود جیسی تصاویر حاصل کر سکیں یہ وہ چیز تھی جو ایک موقع پر ایٹمی نظریے کے ناقدین ناممکن سمجھتے تھے۔ قلموں یا دھاتوں میں موجود قطاروں میں لگے ہوئے نفیس ایٹموں کی تصاویر لینا اب ممکن ہو گیا تھا۔

وہ کیمیائی فارمولا جو سائنس دان استعمال کرتے تھے، جس میں ایٹموں کے پیچیدہ سلسلے سالموں میں لپٹے ہوتے تھے اپ خالی آنکھ سے دیکھے جا سکتے تھے۔ مزید براں یہ کہ تقطیعی سرنگی خردبین نے اس بات کو بھی ممکن بنا دیا تھا کہ انفرادی ایٹموں کے ساتھ جوڑ توڑ بھی کی جا سکے۔ درحقیقت "آئی بی ایم" کے حروف تہجی انفرادی ایٹموں کے ذریعہ ہجے کیے گئے جس نے سائنس کی دنیا میں کھلبلی مچا دی۔

سائنس دان اب اندھوں کی طرح انفرادی ایٹموں کے ساتھ جوڑ توڑ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اصل میں انھیں دیکھ کر ان کے ساتھ کھیل بھی سکتے تھے۔ تقطیعی سرنگی خردبین مغالطے کی حد تک سادہ ہے۔ گرامو فون کی سوئیاں جس طرح سے قرص پر تقطیع کا عمل سر انجام دیتی ہیں اسی طرح سے ایک تیز دھار کھوجی آہستگی کے ساتھ مادّے کے اوپر سے اس کا تجزیہ کرنے کے لئے گزارا جاتا ہے۔(اس کی نوک اس قدر نوکیلی ہوتی ہے کہ وہ صرف ایک ایٹم پر حس مشتمل ہوتی ہے۔) ایک چھوٹا سا برقی بار کھوجی کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے، پھر کھوجی میں برقی رو دوڑائی جاتی ہے جو اس میں سے ہوتی ہوئی مادّے میں سے گزر کر سطح کے نیچے تک چلی جاتی ہے۔ جیسی ہی کھوجی ایک انفرادی ایٹم کو پاس کرتا ہے، کھوجی میں سے گزرنے والی بہتی ہوئی رو بدلتی رہتی ہے اور اس بدلاؤ کو ریکارڈ کر لیا جاتا ہے۔ جب سوئی کسی ایٹم کے پاس سے گزرتی ہے تو برقی رو بڑھتی اور گھٹتی ہے جس کے نتیجے میں غیر معمولی طریقے سے گہرائی میں اس کا نقشہ حاصل ہو جاتا ہے۔ کئی دفعہ کھوجی کے گزرنے کے بعد برقی رو کی تبدیلیوں کو پلاٹ کرنے پر انفرادی ایٹموں کی جالی کو بناتی ہوئی خوبصورت تصاویر حاصل کی جا سکتی ہیں۔(تقطیعی سرنگی خردبین کو بنانا کوانٹم طبیعیات کے عجیب و غریب قوانین کی بدولت ممکن ہوا۔ عام طور سے الیکٹران کے پاس اتنی توانائی نہیں ہوتی کہ وہ کھوجی میں سے ہوتے ہوئے رکھے ہوئے مادّے کی سطح میں سے گزر سکے، مگر اصول عدم یقین کی رو سے اس بات کا تھوڑا سا امکان ہے کہ رو میں موجود الیکٹران رکاوٹ میں سے گھس جائیں گے اگرچہ یہ نیوٹن کے نظریے کے مخالف بات ہے۔ لہٰذا کھوجی میں سے بہتی رو مادّے میں موجود چھوٹے کوانٹم اثر کے لئے حساس ہوتی ہے۔ کوانٹم نظریے کے اثر کو میں آگے تفصیل میں بیان کروں گا۔)

کھوجی اتنا حساس ہوتا ہے کہ وہ مختلف ایٹموں کے درمیان گھوم سکتا ہے جس کے ذریعہ وہ سادی انفرادی ایٹموں پر مشتمل مشین بن سکتی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی اب اس قدر جدید ہو گئی ہے کہ ایٹموں کے جتھے کمپیوٹر کی اسکرین پر دیکھے جا سکتے ہیں اور اس کے بعد صرف کمپیوٹر کرسر کی حرکت سے ایٹموں کو کہیں بھی اپنی مرضی سے حرکت دی جا سکتی ہے۔ ایٹموں کو ایسے جوڑا توڑا جا سکتا ہے جیسے کہ لیگو بلاکس کے کھیل میں کیا جاتا ہے۔ حروف تہجی کو ایٹموں سے لکھنے کے علاوہ ایٹمی کھلونے بھی بنائے جا سکتے ہیں جیسا کہ ابا کس انفرادی ایٹموں سے بنایا جا سکتا ہے۔ ایٹموں کو سطح پر عمودی قطار میں لگایا جاتا ہے۔ ان عمودی قطاروں میں کاربن کی بکی بال (جن کی شکل فٹبال کی گیند کی طرح کی ہوتی ہے مگر وہ کاربن کے انفرادی ایٹموں سے مل کر بنتی ہیں۔) یہ کاربن کی گیندیں پھر ہر کھانچے میں اوپر نیچے کی جا سکتی ہیں جس کے نتیجے میں ابا کس بن جاتا ہے۔

یہ بات بھی ممکن ہے کہ الیکٹران کی شعاعوں سے ایٹمی آلات کو کندہ کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر کارنیل یونیورسٹی میں موجود سائنس دانوں نے دنیا کا سب سے چھوٹا گٹار بنا لیا ہے جو انسانی بال سے بھی ٢٠ گنا زیادہ چھوٹا ہے جس کو کرسٹلائن سلیکان سے بنایا گیا ہے۔ اس میں ٦ تار ہیں جن میں سے ہر ایک ١٠٠ ایٹموں کی موٹائی جتنا ہے اور ان تاروں کو ایک ایٹمی قوّت کے مائیکروسکوپ سے کھینچا جا سکتا ہے (یہ گٹار اصل میں بجایا جا سکتا ہے مگر اس کی آواز جس تعدد ارتعاش میں نکلتی ہے وہ انسانی کانوں کی پہنچ سے دور ہے۔)

ابھی تک تو زیادہ تر نینو مشینیں کھلونے ہی ہیں۔ پیچیدہ مشینیں جیسے کہ گیر اور بال بیرنگ بنانا ابھی باقی ہیں۔ مگر کافی ساری انجینیرز اس بات کے لئے پر اعتماد ہیں کہ آنے والے وقتوں میں وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ اصل ایٹمی مشینیں بنا سکیں(ایٹمی پیمانے کی مشینیں قدرتی طور پر پائی جاتی ہیں۔ خلیہ پانی میں اس لئے تیر سکتے ہیں کہ وہ اپنی چھوٹے بالوں کو باقاعدہ جنبش دیتے ہیں۔اگر کوئی ان کے بال اور خلیہ کے درمیان جوڑوں کا تجزیہ کرے گا تو اسے پتا چلے گا کہ وہ اصل میں ایک ایٹمی مشین ہے جو اس کے بالوں کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ ہر سمت میں حرکت کر سکے۔ لہٰذا ایک طریقہ نینو مشین بنانے کا یہ ہے کہ قدرت کی نقل کی جائے جس نے ایٹمی مشینیں بنانے میں ارب ہا سال پہلے کمال حاصل کرلیا تھا۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکنات کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
2۔ پوشیدگی (Invisibility) - حصّہ پنجم (آخری حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہالو گرام اور پوشیدگی

ایک دوسرا طریقہ کسی شخص کو غائب کرنے کا یہ ہے کہ اس کے پیچھے والے منظر کی تصویر کشی کی جائے اور پھر پس منظر خاکہ براہ راست اس انسان کے کپڑوں یا اس کے آگے موجود کسی اسکرین پر بنایا جائے۔ سامنے سے دیکھنے پر ایسا لگے گا کہ وہ انسان شاید شفاف ہوگیا ہے کیونکہ روشنی کسی طرح سے اس کے جسم میں سے گزر گئی ہے۔ یونیورسٹی آف ٹوکیو میں واقع ٹاچی لیبارٹری میں ناوکی کا واکامی اس کام میں جس کا نام "بصری بہروپ"ہے،کافی سخت محنت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے "اس کے ذریعہ پائلٹ کو کاکپٹ میں سے زمین پر موجود رن وے کو دیکھنے میں مدد مل سکے گی، یہ ڈرائیوروں کو بھی مڈگارڈ (ٹائروں کے اوپر کیچڑ سے بچاؤ کے لئے لگائی جانے والی پٹی ) میں سے دیکھتے ہوئے گاڑی کو پارک کرنے میں آسانی ہوگی۔" کا واکامی کا جبہ چھوٹی روشنی کو انعکاس کرنے والی دانوں سے بھرا ہے جو ایک سنیما کی اسکرین کی طرح کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایک ویڈیو کیمرہ جبے کے پیچھے کی تصویر لے لیتا ہے۔ جس کے بعد اس تصویر کو ویڈیو پروجیکٹر میں ڈال دیا جاتا ہے جو جبے کے اگلے حصّے پر روشنی پھینکتا ہے جس سے ایسا لگتا ہے جیسے کہ روشنی اس شخص میں سے گزر رہی ہے۔

بصری بہروپ کے ابتدائی نمونے اصل میں لیب میں موجود ہیں۔ اگر آپ براہ راست اس شخص کو دیکھیں جس نے یہ اسکرین کے جیسے جبہ پہنا ہے تو آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے وہ شخص غائب ہو گیا ہے کیونکہ آپ اس شخص کے پیچھے والی تصویر ہی دیکھ رہے ہوں گے۔ مگر جب آپ اپنی آنکھوں کو تھوڑا سے جھپکیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پیچھے والی تصویر ہل نہیں رہی ہے جس سے آپ کو اس کے جعلی ہونے کا اندازہ ہوگا۔ مزید حقیقت سے قریب تر بصری بہروپ بنانے کے لئے سہ جہتی سراب بنانا ہوگا۔ اس کام کے لئے ہالو گرام کی ضرورت ہوگی۔

ہالو گرام ایک سہ جہتی خاکہ ہوتا ہے جو لیزر کے ذریعہ بنایا جاتا ہے (جس طرح سے سہ جہتی تصویر شہزادی لیا کی اسٹار وار میں تھی)۔ کوئی بھی شخص پوشیدہ ہو سکتا ہے اگر پس منظر کی تصویر خصوصی ہالو گرافک کیمرے کے ذریعہ اتار کر اس شخص کے سامنے موجود خصوصی ہالو گرافک اسکرین پر ڈالی جائے۔ اس شخص کے سامنے موجود دیکھنے والا شخص کے بجائے ہالو گرافک اسکرین کو دیکھے گا جس میں ایک سہ جہتی تصویر اس شخص کے پیچھے کے منظر کی ہوگی اس طرح سے ایسا لگے گا کہ جیسے وہ شخص غائب ہو گیا ہے۔ اگر اس شخص کی جگہ پر ہوبہو اس کے پیچھے کا منظر موجود ہوگا تو آنکھوں کو حرکت دینے کے باوجود بھی یہ بتانا ممکن نہیں ہوگا کہ آپ جو دیکھ رہے ہیں وہ ایک فریب نظر ہے۔

سہ جہتی تصاویر لینا اس لئے ممکن ہوا کہ لیزر کی روشنی "مربوط" ہوتی ہے مطلب کہ تمام موجیں ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تی ہیں۔ ہالو گرام مربوط لیزر کی اس کرن سے جو دو حصّوں میں ہوتی ہے بنایا جاتا ہے۔ لیزر کی کرن کا ایک حصّہ فوٹوگرافک فلم پر چمکتا ہے جبکہ دوسرا حصّہ کسی بھی جسم پر پڑ کر اس کو منور کرتا ہوا واپس فوٹوگرافک فلم پر پڑتا ہے۔ جب یہ دونوں کرنیں فلم پر ایک دوسرے کی راہ میں حائل ہوتی ہیں تو اس سے ایک مدا خلتی نمونہ بنتا ہے جو اصل سہ جہتی موج کی تمام معلومات کو رمز بند (انکوڈ) کر دیتا ہے۔ اس فلم کو جب ڈیولپ کیا جاتا ہے تو وہ ایک پیچیدہ سے مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ اور نظر نہیں آتی جس میں گھومتی ہوئی لکیروں کے نمونے نظر آتے ہیں۔ مگر جب لیزر کی کرن اس فلم پر پڑتی ہے تو ہوبہو سہ جہتی نقل اصل شئے کی اچانک جادوئی طریقے سے نمودار ہو جاتی ہے۔

بہرحال ہالو گرافک پوشیدگی کے تیکنیکی مسائل کافی مشکل ہیں۔ ایک چیلنج تو ہالو گرافک کیمرے کو بنانا ہے جو اس بات کا اہل ہو کہ کم از کم ٣٠ فریم پر سیکنڈ سے تصاویر لے سکے۔ دوسرے مسئلہ ان اطلاعات کا ذخیرہ کرنا اور اسے معنی خیز بنانا ہے۔ آخر میں اس حاصل کی گئی تصویر کو اسکرین پر پھینکنا ہے تاکہ وہ تصویر اصل لگ سکے۔

پوشیدگی بہ ذریعہ چوتھی جہت

ہمیں یہ بات بھی بتانی چاہئے کہ غائب ہونے کی ایک اور زیادہ ثقیف صورت جو ایچ جی ویلز نے "پوشیدہ آدمی "، میں بیان کی ہے جس میں چوتھی جہت کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے غائب ہونا ممکن تھا۔(اس کتاب میں آگے مزید تفصیل سے ممکنہ بلند جہتوں پر بات کروں گا۔) کیا ہم اپنی سہ جہتی کائنات میں رہتے ہوئے چوتھی جہت کے تفوق والے مقام سے اس دنیا میں معلق رہ سکتے ہیں؟ جیسے کہ سہ جہتی تتلی دو جہتی کاغذ کی شیٹ پر اڑتی نظر آتی ہے، ہم کائنات میں اپنے سے نیچے رہنے والی کسی بھی شخص کے لئے مخفی ہو جائیں گے۔ اس تصوّر کے ساتھ صرف ایک مسئلہ ہے کہ ابھی تک بلند جہتوں کا موجود ہونا ثابت نہیں ہوا ہے۔ مزید براں یہ کہ بلند جہتوں کا خیالی سفر جتنی توانائی کا متقاضی ہے وہ توانائی حاصل کرنا ہماری موجودہ ٹیکنالوجی کے بس سے باہر ہے۔ پوشیدگی حاصل کرنےکا یہ طریقہ واضح طور پر ہماری قابلیت اور علم سے کوسوں دور ہے۔ پوشیدگی حاصل کرنے کے لئے جتنی کوششیں کی گئی ہیں ان کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ یہ آسانی سے ہماری اس جماعت میں شامل ہو سکتی ہے جس کو ہم نے جماعت "I" کی ناممکنات کا نام دیا ہوا ہے۔ آنے والی چند دہائیوں میں یا کم از کم اس صدی میں ہو سکتا ہےکہ پوشیدگی معمولی سی چیز ہو۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکنات کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - پہلا حصّہ

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ریڈیو کا مستقبل تاریک ہے۔ ہوا سے بھاری اڑنے والی مشینیں بنانا ممکن نہیں ہیں۔ ایکس ریز ایک ڈھکوسلہ ثابت ہوگی۔

- طبیعات دان لارڈ کیلون(Physicist Lord Kelvin) ، ١٨٩٩ء

ایٹم بم کبھی نہیں پھٹے گا۔ یہ بات میں ایک آتش گیر ماہر کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں۔

- ایڈمرل ولیم لیہے (Admiral William Leahy)


١ ،٢ ، ٣ ، ٤ فائر !

"اسٹار وارز" میں دکھایا جانے والا غارت گر ستارہ (ڈیتھ اسٹار) ایک جسیم ہتھیار ہوتا ہے ، جس کا حجم چاند جتنا ہوتا ہے۔ فلم میں وہ شہزادی "لیا" (Lea) کے مستقر ایک بےبس سیارے، "ایلڈی ران "(Alderaan) کی طرف نشانہ باندھ کر فائر کرتا ہے نتیجتاً وہ سیارہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ سیارے کے جلنے سے ایک عظیم دھماکہ رونما ہوتا ہے جو ستارے کا ملبہ پورے نظام شمسی میں دھکیل دیتا ہے ۔ ایک ارب روحوں کی تکلیف دہ چیخوں سے" فورس " میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور اس بربریت کی داستان کی بازگشت پوری کہکشاں میں سنائی دیتی ہے۔


کیا "اسٹار وارز" میں دکھایا جانے والا ہتھیار حقیقت حال میں بنانا ممکن ہے؟ کیا ایسا ہتھیار لیزر کے گولے برسا کر پورے سیارے کو تحلیل کر سکتا ہے؟ ان مشہور زمانہ "روشنی کی تلواروں"(Light Sabers) کے بارے میں کیا خیال ہے جو "لیوک ا سکائی والکر"(Luke Skywalker) اور ڈارتھ ویڈر (Darth Vader)نے بنائی تھی۔ یہ تلواریں جو روشنی کی کرنوں سے بننے کے باوجود مضبوط اسٹیل کو کاٹ کر رکھ دیتی تھیں۔ کیا اسٹار ٹریک میں دکھائی جانے والی فیزرس جیسی شعاعی گن مستقبل کی نسل انسانی کے قانون نافذ کرنے والے افسران اور فوجیوں کے لئے ایک کارآمد ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکے گی؟

اسٹار وارز کی فلمیں دیکھنے والے لاکھوں لوگ اس فلم میں دکھائے گئے اصلی خصوصی اثرات کی چمک دمک سے متاثر ہوتے ہیں ، مگر ناقدین کے آگے اسٹار وارز والوں کی بولتی بند ہو جاتی ہے، جو ان میں عیب جوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں دکھائی جانے والی چیزیں بطور تفریح تو ٹھیک ہے لیکن ان کا حقیقت کی دنیا سے کوسوں دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ ناقدین کے خیال میں چاند کے حجم جتنا، سیاروں کو ختم کرنے والا شعاعی ہتھیار انتہائی خیالی اور بے ڈھنگا ہے۔ اسی طرح سے ٹھوس روشنی کی کرنوں والی تلوار دور دراز کی کہکشاؤں میں بھی اتنی ہی انوکھی چیز ہوگی جتنی کہ ہماری حقیقی دنیا میں یہ ہیں۔ "جارج لوکاس"(George Locas) ، جو خصوصی اثرات کے ماہر ہیں ، اس کام کو کرتے ہوئے شاید بہت زیادہ بہک گئے ہیں اور انہوں نے تخیل کی سرحدوں کو پار کرنے کی کوشش کی ہے۔

اگرچہ اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے ، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی کوئی طبیعی حد موجود نہیں ہے جو خالص توانائی کو روشنی کی کرن میں ٹھونسنے سے روکے۔ طبیعیات کا کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو غارت گر ستارے یا پھر روشنی کی ٹھوس تلوار بنانے سے روک سکے۔ درحقیقت سیارے کو تباہ کرنے والی گیما شعاعیں کائنات میں موجود ہیں۔ کائنات کے دور دراز گوشوں میں ہوتے ہوئے گیما اشعاع کے عظیم انفجار خلائے بسیط میں وہ دھماکے پیدا کرتے ہیں جن کا نمبر بگ بینگ کے بعد آتا ہے۔ کوئی بھی بدقسمت سیارہ جو گیما شعاعوں کی لپیٹ میں آ جائے اس کا بھننا یا ٹکڑوں میں بٹنا لازمی ہے۔


شعاعی ہتھیار تاریخ کے آئینے میں

شعاعی ہتھیار بنانے کا خواب کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں قدیم دیو مالائی کہانیوں اور داستانوں میں موجود ہیں۔ یونانی دیوتا" زیوس"(Zeus) انسانوں پر بجلی کی کڑک سے اپنا قہر ڈھالنے کے لئے بدنام تھا۔" نورس"(Norse) دیوتا "تھور"(Thor) کے پاس ایک جادوئی ہتھوڑا "میالنیر" (Mjolnir)تھا ، جو بجلی کی کڑکیں پھینک سکتا تھا ، جبکہ ہندوؤں کا دیوتا "اندرا"(Indra) اپنے جادوئی نیزے سے توانائی کی کرنیں پھینکنے کے لئے مشہور تھا۔

شعاعوں کے استعمال کا نظریہ بطور عملی ہتھیار شاید عظیم یونانی ریاضی دان "ارشمیدس"(Archimedes) کے کام سے شروع ، ارشمیدس شاید عہد عتیق کا سب سے عظیم سائنس دان تھا ، جس نے ادھورا علم الاحصاء دو ہزار برس قبل نیوٹن اور "لئبنیز "(Leibniz)سے پہلے دریافت کیا تھا۔ ایک افسانوی جنگ جو رومی جنرل" مارسیلس"(Marcellus) کی فوجوں کے خلاف دوسری پیو نک جنگ(رو میوں ا ور کار تھیجوں کے دو میان ہونے والی تین جنگوں کو پیونک جنگیں کہتے ہیں )٢١٤ قبل مسیح میں ہوئی، ارشمیدس نے ریاست "سیراکیوز "(Syracuse) کے دفاع میں مدد کی اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے کافی بڑے شمسی عاکس بنائے جو سورج کی شعاعوں کو دشمنوں کے جہاز پر مرتکز کرتے تھے نتیجتاً ان میں آگ لگ جاتی تھی۔(سائنس دانوں کے درمیان یہ بحث اب بھی جاری ہے کہ آیا ایسا کام کرنے والا شعاعی ہتھیار عملی طور پر بنا نا ممکن ہے۔ سائنس دانوں کی کئی ٹیموں نے اس کی نقل کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے مختلف نکلے۔)

شعاعی بندوق کا سائنس فکشن میں نظر آنا ١٨٨٩ء میں ایچ جی ویلز کے کلاسک ناول "وار آف دا وورلڈز" سے شروع ہوا ، جس میں مریخ کی خلائی مخلوق پورے کے پورے شہروں کو تپائی میں نصب ہتھیاروں سے نکلتی ہوئی حرارتی شعاعوں سے تباہ کر دیتی ہے۔ دوسرے جنگ عظیم کے دوران نازی ہمیشہ سے نئی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ دنیا کو فتح کرنے کے دیوانے رہے ہیں ، انہوں نے کئی قسم کی شعاعی بندوقوں کے تجربے کیے۔ اس میں شامل ایک صوتی آلہ ایسا تھا جو مکافی آئینوں پر مشتمل تھا اور شدید آواز کی شعاعوں کو مرتکز کر سکتا تھا۔ مرتکز روشنی کی شعاعوں سے بنائے گئے ہتھیار عوام کے تصوّر میں جیمز بانڈ کی فلم" گولڈ فنگر" سے آنے شروع ہوئے، جو ہالی ووڈ کی وہ پہلی فلم تھی جس میں لیزر دکھائی گئی تھی۔(فلم میں دکھایا گیا ہے کہ افسانوی برطانوی جاسوس دھاتی میز پر بندھا ہو ا ہے اور زبردست طاقت والی لیزر کی کرنیں آہستہ آہستہ بتدریج میز کو پگھلاتی ہوئی اس کی ٹانگوں کی طرف بڑھتی ہوئی اس کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کی دھمکی دے رہی ہوتی ہے۔)

طبیعیات دانوں نے ویلز کے ناول میں متعارف ہوئی شعاعی بندوق کا مذاق اڑنا شروع کر دیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں وہ طبیعیات کے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہی تھی۔ میکسویل کی مساوات کے مطابق ، جس روشنی کو ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں وہ تیزی سے پھیلتی ہے اور بے ربط ہوتی ہے۔(یعنی یہ گڈمڈ موجوں والی مختلف تعدد ارتعاش اور مرحلوں والی ہوتی ہیں) ایک زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ مربوط ، مرتکز اور ایک جیسی روشنی کی کرنیں ، جس طرح سے لیزر میں موجود ہوتی ہیں ، بنانی نا ممکن ہوتی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - دوسرا حصّہ
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کوانٹم کا انقلاب

کوانٹم کے نظریئے کے آتے ہی بہت سے بت مسمار ہو گئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہی یہ بات عیاں ہو گئی تھی کہ اگرچہ نیوٹن کے قوانین اور میکسویل کی مساوات نہایت شاندار اور کامیابی کے ساتھ سیاروں کی حرکت اور روشنی کا برتاؤ بیان کرتی ہیں ،لیکن وہ تمام مظاہر قدرت کو صحیح طرح سے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ کچھ باتوں کو بیان کرنے سے بری طرح ناکام ہو جاتی ہیں مثلاً کچھ مادّے برق کے موصل کیوں ہوتے ہیں، دھاتیں کیوں ایک مخصوص درجہ حرارت پر پگھل جاتی ہیں، گرم ہوتی گیسیں روشنی کیوں چھوڑتی ہیں ، کیوں کچھ مادّے نچلے درجہ حرارت پر فوقی موصل بن جاتے ہیں ، ان تمام باتوں کو جاننے کے لئے ایٹم کے اندرون کی حرکیات کا جاننا نہایت ضروری تھا۔ انقلاب رونما ہونے کے لئے وقت بالکل مناسب تھا۔ لوہا بالکل گرم تھا بس ایک چوٹ مارنے کی دیر تھی۔٢٥٠ سال کی نیوٹن کی طبیعیات شکست کھانے کو تھی اور درد زہ نئی طبیعیات کا پیامبر بن کر آیا تھا۔

١٩٠٠ء میں" میکس پلانک"(Max Planck) نے جرمنی میں اس بات کا نظریہ پیش کیا کہ توانائی مسلسل نہیں ہوتی جیسا کہ نیوٹن نے سوچا تھا بلکہ یہ چھوٹے اور مجلد بنڈلوں کی صورت میں ہوتی ہے جن کو "کوانٹا" کہتے ہیں۔ اس کے بعد ١٩٠٥ء میں آئن سٹائن نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ روشنی چھوٹے مجلد بنڈلوں پر مشتمل ہوتی ہے اس کو بعد میں "ضیائیہ"( فوٹون) کہا گیا۔ اس سادے مگر زوردار مفروضے کی بدولت آئن سٹائن اس قابل ہوا کہ وہ "ضیائی برقی اثر"(Photo Electric Effect) کو بیان کر سکے۔ ضیائی برقی اثر بتاتا ہے کہ جب کسی دھات پر روشنی پڑتی ہے تو وہ کیوں اس وقت الیکٹران خارج کرتے ہیں۔ آج کے دور میں ضیائی برقی اثر اور فوٹون کی بنیاد پر ہی ٹیلی ویژن ، لیزر، شمسی سیل اور بہت سارے دوسرے جدید آلات بنے ہیں۔(آئن سٹائن کا فوٹون کا نظریہ بہت زیادہ انقلابی تھا۔ میکس پلانک جو عام طور سے آئن سٹائن کا پرجوش حامی رہا تھا اس کو بھی پہلی بار میں اس نظریئے پر یقین نہیں آیا تھا۔ آئن سٹائن کے بارے میں لکھتے ہوئے پلانک کہتا ہے " وہ کبھی اپنے ہدف سے ہٹ جاتا ہے۔۔۔ مثال کے طور پر ، روشنی کے کوانٹاکے مفروضے کو لے لیجئے ، بہرحال اس مفروضے کو اس کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔)

پھر ١٩١٣ء میں ڈنمارک کے طبیعیات داں" نیلز بوہر"(Niels Bohr) نے ایٹم کی بالکل ایک نئی تصویر پیش کی جس میں وہ ایک چھوٹے سے نظام شمسی کی طرح نظر آتے ہیں۔ لیکن خلاء میں موجود نظام شمسی کے برخلاف ، الیکٹران صرف علیحدہ مداروں یا خولوں میں مرکزے کے اطراف میں چکر لگاتے ہیں۔ جب الیکٹران ایک خول سے دوسرے چھوٹے خول کی طرف چھلانگ لگاتے ہیں تو اس وقت وہ توانائی کا ایک فوٹون خارج کرتے ہیں۔ جب الیکٹران ایک فوٹون جذب کرتے ہیں تو وہ بڑے خول کی طرف زیادہ توانائی کے ساتھ چھلانگ لگاتے ہیں۔

ایٹم کا نظریہ ١٩٢٥ء میں نمودار ہوا۔ جس کے ساتھ کوانٹم میکینکس اور"ایرون شروڈنگر" (Erwin Schrodinger)،" ورنر ہائیزن برگ" (Werner Heisenberg)اور دوسروں کے انقلابی کام بھی منظر عام پر آئے۔ کوانٹم کے نظریئے کے مطابق ، الیکٹران ایک ذرّہ تھا، لیکن اس کے ساتھ ایک موج بھی ہمنشیں ہوتی تھی۔ اس طرح سے اس میں دونوں ذرّے اور موج کی خصوصیات موجود ہیں۔ موج ایک مساوات کے تابع ہے جس کو "شروڈنگر موجی مساوات "کہتے ہیں ، اس مساوات سے ایٹم کی خاصیت کو ناپنے میں مدد ملتی ہے جس میں وہ تمام مفروضی چھلانگیں شامل ہیں جو بوہر نے بیان کی تھیں۔

١٩٢٥ء سے پہلے ایٹم پراسرار اجسام سمجھے جاتے تھے اور فلسفیوں کی اکثریت مثلاً " ارنسٹ ماک"(Ernst Mach) تو ان کے وجود کے ہی قائل نہیں تھے۔ ١٩٢٥ء کے بعد لوگ نا صرف ایٹم کے اندر جھانکنے کے قابل ہو گئے تھے بلکہ اس کے خصائص کو بھی بیان کر سکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ کے پاس کافی بڑا اور طاقتور کمپیوٹر موجود ہو تو آپ کیمیائی عناصر کی صفتیں بھی کوانٹم کے قوانین کی بدولت اخذ کر سکتے ہیں۔ جس طرح سے نیوٹن کی طبیعیات ایک بڑے اور طاقتور کمپیوٹر کی مدد سے کائنات میں موجود تمام فلکی اجسام کی حرکت کا حساب کتاب لگا سکتی ہے بعینہ ایسے ہی کوانٹم طبیعیات کا دعویٰ ہے کہ وہ بنیادی اصول کے مطابق کائنات میں موجود تمام کیمیائی عناصر کے خصائص کا پتا لگا سکتی ہے۔ اگر ہمارے پاس کافی بڑا کمپیوٹر موجود ہو تو وہ پورے انسان کی موجی خاصیت کو لکھ سکتا ہے۔



میزرز (Masers) اور لیزر ز

١٩٥٣ء میں برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں پروفیسر" چارلس ٹاؤنز "(Charles Townes)اور ان کے رفقائے کاروں نے پہلی "مربوط"(Coherent)شعاع خرد موجوں کی شکل میں بنائی۔ جس کو میزر (یعنی "برائے خرد موج توسیع بذریعہ تحریکی شعاعی اخراج"[For Microwave Amplification through Stimulated Emission of Radiation]) کا نام دیا گیا۔ اس نے روسی طبیعیات دان - "نکولائی باسوف"(Nicolai Basov) اور "الیگزینڈر پروخورف" (Alexander Prokhorov) کے ساتھ آخر کار طبیعیات کا نوبل انعام ١٩٦٤ء میں حاصل کیا۔ جلد ہی ان کے کام کا دائرہ کار بصری روشنی تک پھیل گیا ، جس کے نتیجے میں لیزر کی پیدائش ہوئی۔( فیزر بہرحال ایک خیالی آ لہ ہے جو اسٹار ٹریک فلم میں بہت زیادہ مشہور ہے۔)

لیزر میں شروعات ایک ایسے خاص ذریعہ سے کی جاتی ہے جو لیزر کی شعاع کو بعد میں نشر کرتا ہے مثلاً خصوصی گیس، قلم یہ پھر ڈائیوڈ۔ اس کے بعد اس میں باہر سے توانائی کو بھرا جاتا ہے، جو برق ، ریڈیائی، روشنی یا کیمیائی تعامل کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ اچانک تیزی سے آتی ہوئی یہ توانائی اس ذریعہ کے ایٹموں میں جذب ہو جا تی ہے، اس طرح سے الیکٹران اس توانائی کو جذب کرکے باہر ی خول میں چھلانگ لگاتے ہیں۔

اس ہیجان زدہ توانائی سے بھری ہوئی حالت میں وہ ذریعہ غیر پائیدار ہو جاتا ہے ، اگر اس دوران کوئی روشنی اس ذریعہ میں سے گزرے گی ، تو فوٹون ہر ایٹم سے ٹکرائے گا ، جس سے وہ یک دم اپنے نچلے خول میں چلا جائے گا اس عمل سے مزید فوٹون خارج ہوں گے ، جس سے ایک کے اوپر ایک منہدم ہوتے ہوئے ایٹم، کھرب ہا کھرب فوٹون ایک کرن کی صورت میں اچانک خارج کر دیں گے۔ اس عمل کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ کچھ مادّوں سے فوٹون کا یہ طوفان جب نکلتا ہے تو نکلتے ہوئے فوٹون ایک ہم آہنگی کے ساتھ مربوط اور تھر تھرا تھے ہوئے نکلتے ہیں ۔

(ذرا ڈومینوز کے ایک خط کا تصوّر کریں۔[ڈومینو ایک کھیل ہوتا ہے جس کے ۲۸پانسہ نُما لمبوترے مہروں یا ٹکلیوں میں صِفر تا ۶کے نِشان ہوتے ہیں۔] ڈومینوز اپنی ادنیٰ ترین توانائی کی حالت میں ایک میز پر رکھے ہوئے ہیں۔ ڈومینوز بلند توانائی کی حالت میں ، توانائی سے بھرپور حالت میں عمودی کھڑی ہوتی ہے ، بالکل ایسے جیسے توانائی سے بھرپور ایٹم ذریعہ میں موجود ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایک ڈومینو کو دھکا دیں گے تو اس میں موجود تمام منہدم ہوتی توانائی اچانک ایک ساتھ نکلے گی ، جیسے لیزر کی شعاع نکلتی ہے۔)

کچھ ہی مادّے لیزر میں استعمال ہو سکتے ہیں ، یعنی کچھ خاص مادّوں میں جب فوٹون توانائی سے بھرپور ایٹموں سے ٹکراتے ہیں تو فوٹون کا اخراج ہوتا ہے جو اصل فوٹون سے مکمل مربوط ہوتا ہے۔ نکلنے والے مربوط فوٹون کے سیلاب میں تمام فوٹون ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تھے ہیں جس کے نتیجے میں ایک پنسل جتنی پتلی لیزر کی شعاع بنتی ہے۔(تصور کے برعکس ، لیزر کی شعاع ہمیشہ کے لئے پنسل جیسی پتلی نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر چاند پر پھینکی جانے والی لیزر کی شعاع بتدریج پھیلتی جائے گی تاوقتیکہ وہ چند میل جتنا نشان چاند پر بنا دے۔

ایک سادہ گیسی لیزر ہیلیئم اور نیون گیس کی نلکی پر مشتمل ہوتی ہے۔ جب برق نلکی کے ذریعہ بھیجی جاتی ہے تو وہ ایٹموں کو توانا کر دیتی ہے۔ اب اگر توانائی اچانک سے چھوڑی جائے تو روشنی کی ایک مربوط شعاع اس سے نکلے گی۔ اس شعاع کو دو آئینوں کے ذریعہ افزوں کیا جاتا ہے ، جو اس کے نکڑ پر لگے ہوتے ہیں ، لہٰذا شعاع ان کے درمیان آگے پیچھے ٹپے کھاتی ہے۔ ایک آئینہ مکمل طور پر غیر شفاف ہوتا ہے جبکہ دوسرا تھوڑی سی روشنی کو ہر مرتبہ اپنے پاس سے گزرتے ہوئے فرار ہونے کا موقع دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں شعاع ایک حصّے سے باہر نکل جاتی ہے۔

دور حاضر میں پرچون کی دکانوں کے چیک آ وٹ اسٹینڈ سے لے کر انٹرنیٹ میں استعمال ہونے والی فائبر آپٹک تاروں تک ، اور لیزر پرنٹر اور سی ڈی سے لے کر جدید کمپیوٹر تک لیزر زندگی کے ہر میدان میں نظر آتی ہیں۔ لیزر کا استعمال آنکھوں کی سرجری میں، ٹیٹو کو ہٹانے میں یہاں تک کہ بیوٹی سیلون تک میں اس کا استعمال ہو رہا ہے۔ ٢٠٠٤ء میں ٥۔٤ ارب ڈالر سے زیادہ کی لیزر مصنوعات پوری دنیا میں فروخت ہوئی ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - حصّہ سوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

لیزر اور گداخت (Fusion)کی قسمیں

لیزر میں استعمال ہونے والے نئے نئے مادّوں کی دریافت کے ساتھ تقریباً روزانہ ہی نئی قسم کی لیزر اور ان میں توانائی بھرنے کے نئے طریقے بھی دریافت ہو رہے۔


سوال یہ ہے کہ کیا ان میں سے کوئی بھی ٹیکنالوجی شعاعی بندوق یا روشنی کی تلوار بنانے میں استعمال ہو سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اس قدر طاقتور لیزر بنائی جا سکے جو غارت گر ستارے جیسے کسی ہتھیار کو توانا کر دے؟ دور حاضر میں لیزر کی اتنی قسمیں موجود ہیں کہ انسان پریشان ہو جائے۔ ان مختلف اقسام کی لیزر کی طاقت کا انحصار دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ انھیں کس مادّے سے بنایا گیا ہے اور دوسرے ان میں کونسی توانائی (مثال کے طور پر برق، شدید روشنی کی شعاع یا پھر کیمیائی دھماکا ) ڈالی جا رہی ہے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:

گیس لیزر۔ اس قسم کی لیزر میں ہیلیئم – نیون پر مشتمل لیزر شامل ہیں۔ یہ بہت ہی زیادہ عام ہیں، جو شناسا سرخ شعاع بناتی ہیں۔ ان کو توانا کرنے کے لئے ریڈیائی موجیں یا پھر بجلی استعمال کی جاتی ہے۔ ہیلیئم - نیون لیزر کافی کمزور ہوتی ہے۔ مگر کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کی لیزر دھماکہ کرنے ، چیزوں کو کاٹنے، اور بھاری صنعتوں میں ہونے والی ویلڈنگ میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ زبردست طاقت کی مکمل غیر مرئی شعاع بھی بنا سکتی ہے۔

· کیمیائی لیزر۔ یہ طاقتور لیزر کیمیائی عمل کے نتیجے میں توانا ہوتی ہیں، مثلاً اس توانائی کو ایتھائلین اور نائٹروجن ٹرائے فلورائیڈ کی پھواروں کو جلا کر حاصل کیا جائے۔ ایسی لیزر اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ ان کا حربی استعمال ہو سکتا ہے۔ کیمیائی لیزر یو ایس افواج کے لڑاکا طیاروں اور زمینی فوجی ٹھکانوں کے استعمال میں ہیں جو دسیوں لاکھوں واٹ کی توانائی پیدا کر سکتی ہیں۔ ان کو بنانے کا مقصد چھوٹے فاصلوں تک مار کرنے والے میزائل کو گرانا ہے۔

ایکسائیمر(Excimer) لیزر۔ یہ لیزر بھی کیمیائی عمل کے نتیجے میں کام کرتی ہیں ، اس میں اکثر وہ گیسیں استعمال ہوتی ہیں جو انتہائی سست ہوتی ہیں (مثال کے طور پر آر گون ، کرپٹون اور زینون ) ان کے ساتھ فلورین اور کلورین بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ بالائے بنفشی شعاعیں پیدا کرتی ہیں۔ ان کا استعمال چھوٹے ٹرانسسٹر ز کو سیمی کنڈکٹر صنعت میں چپس پر نقش کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ یا پھر ان کا استعمال نازک "لیزیک"(Lasik) جراحی میں بھی ہوتا ہے۔

ٹھوس حالت والی لیزر۔ سب سے پہلی کام کرنے والی لیزر جو بنی تھی وہ کرومیم – نیلم یاقوت کی قلموں سے بنائی گئی تھی۔ انواع و اقسام کی کافی تعداد میں مختلف قلمیں- ایٹریم ، ہولمیم، تھیلیئم اور دوسرے کیمیائی مادّوں کے ساتھ مل کر اس لیزر کی شعاع کو بنانے میں استعمال ہو سکتی ہیں۔ یہ بلند توانائی کی نہایت ہی چھوٹی نبضی لیزر کی شعاعیں پیدا کرتی ہیں۔

سیمی کنڈکٹر لیزر۔ ڈائیوڈ ، جو سیمی کنڈکٹر صنعت میں عام استعمال میں ہیں ، وہ زبردست طاقت والی شعاعیں پیدا کر سکتے ہیں جن کا استعمال صنعتوں میں کاٹنے اور ویلڈ کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ یہ اکثر پرچون کی دکان میں چیک آ وٹ پائنٹ پر اسٹینڈ کی صورت میں لگی ہوتی ہیں جن کا کام جنس کی چیزوں پر موجود بار کوڈ پڑھنا ہوتا ہے۔

· رنگی لیزر۔ یہ لیزر نامیاتی رنگ اپنے آلے میں استعمال کرتی ہیں۔ یہ بہت ہی چھوٹی روشنی کی نبضوں کو بنانے کے لئے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں جو ایک سیکنڈ کے دس کھربویں حصّہ میں بن کر ختم ہو جاتی ہیں۔

لیزر اور شعاعی بندوق

اس قدر انواع و اقسام کی تجارتی لیزر اور طاقتور حربی لیزر کے باوجود اب تک ہمارے پاس لڑائیوں اور جنگوں میں استعمال کرنے کے لئے شعاعی بندوق کیوں نہیں ہے؟ کسی بھی قسم کی شعاعی بندوق سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جانے والا ایک معیاری ہتھیار ہوتا ہے۔ ہم ان کو بنانے کے لئے کام کیوں نہیں کر رہے ہیں؟


اس بات کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ بآسانی توانائی کا ذخیرہ کرنے والے کسی ذریعہ کی عدم دستیابی اس کی تیاری میں اہم رکاوٹ ہے۔ توانائی کو ذخیرہ کرنے والی بہت چھوٹے ذریعہ کی ضرورت ہے جو ہماری ہتھیلی سے بھی چھوٹی ہو اور بہت بڑے برقی پاور اسٹیشن کی توانائی کو اپنے اندر سما لے۔ سردست تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اس طرح کے بڑے تجارتی پاور اسٹیشن کی توانائی کو قابو کرنے کے لئے اس کو بنا لیا جائے۔ فی الوقت سب سے چھوٹا حربی آلہ جو وسیع توانائی کا ذخیرہ اپنے اندر رکھتا ہے وہ چھوٹا ہائیڈروجن بم ہے جو ہدف کے ساتھ ساتھ اس کے چلانے والے کو بھی ختم کر دے گا۔


دوسرا مسئلہ جو اس سے جڑا ہوا ہے وہ اس میں استعمال ہونے والے مادّے کی پائیداری کا ہے۔ اصولی طور پر لیزر کی شعاع میں توانائی مرتکز کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ مسئلہ ہاتھ سے چلنے والی لیزر کی بندوق میں موجود مادّے کا ہے جو پائیدار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر قلمی لیزر میں بہت زیادہ توانائی مرتکز کی جائے گی تو وہ چٹخ جائے گی۔ لہٰذا ایک طاقتور لیزر، جو کسی شئے کو تحلیل کردے یا دشمن کا خاتمہ کردے، کو بنانے کے لئے دھماکے کی طاقت کو استعمال کرنا پڑے گا۔ اس طرح سے لیزر میں استعمال ہونے والے مادّے کی پائیداری کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوگی کیونکہ اس قسم کی لیزر صرف ایک ہی مرتبہ استعمال کی جا سکے گی۔


آسانی سے استعمال میں آنے والے توانائی کے ذخیرے کو بنانے کی مشکلات اور مادّے کی غیر پائیداری کو مد نظر رکھتے ہوئے ہاتھ کے استعمال والی شعاعی گن آج کی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر بنانا ممکن نہیں ہے۔ شعاعی بندوق کا بنانا صرف اس وقت ممکن ہے جب اس کو تار کے ذریعہ پاور کی رسد گاہ سے جوڑ دیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم نینو بیٹریز کی مدد سے صغاری بیٹریاں بنا سکیں جو اتنی توانائی کو ذخیرہ کر سکیں یا پھر وہ اتنی توانائی پیدا کر سکے جو شدید توانائی کی بوچھاڑ اس ہاتھ سے چلانے والے ہتھیار کو درکار ہو۔ فی الوقت ہمیں معلوم ہے کہ نینو طرزیات ابھی اپنے ابتدائی دور میں ہے۔ ایٹمی پیمانے پر سائنس دان ایسے ایٹمی آلے بنا چکے ہیں جو کافی اچھے تو ہیں مگر عملی زندگی میں قابل استعمال نہیں ہیں جیسے کہ ابا کس اور ایٹمی گٹار۔ لیکن اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ اس صدی یا آنے والی صدی میں ، نینو طرزیات کی بدولت ہم صغاری بیٹریاں بنا سکیں گے جو توانائی کی بے انتہاء مقدار اپنے میں ذخیرہ کر سکیں گی۔


روشنی کی ٹھوس تلواریں کو بھی انہیں مسائل کا سامنا ہے۔ پہلی دفع جب اسٹار وارز ١٩٧٠ء میں آئی تو اس وقت روشنی کی تلواریں پچوں کے سب سے زیادہ بکنے والے کھلونے تھے۔ کئی ناقدین نے اس بات کی پیشگوئی کر دی تھی کہ ایسا کوئی آلہ بنانا کبھی بھی ممکن نہیں ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ روشنی کو ٹھوس کرنا ممکن نہیں ہے۔ روشنی ہمیشہ نور کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس کو ٹھوس نہیں بنایا جا سکتا۔ دوسرے، روشنی کی کرن کو ہوا میں ختم نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ٹھوس روشنی کی تلواریں اسٹار وارز میں کرتی ہیں۔ روشنی کی شعاعیں ہمیشہ محو سفر رہیں گی۔ اصل روشنی کی تلوار تو آسمان تک کھنچ جائے گی۔


اصل میں ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعہ روشنی کی تلوار کو پلازما یا انتہائی گرم برق پارہ گیسوں کے ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ پلازما اتنا گرم کیا جا سکتا ہے جس سے وہ اندھیرے میں روشن ہو سکتا ہے ، وہ سٹیل کو بھی کاٹتا ہوا اس میں سے نکل سکتا ہے۔ پلازما سے بنی ہوئی روشنی کی تلوار باریک، خالی راڈ پر مشتمل ہو سکتی ہے جو اس کے ہتھے سے اس طرح سے باہر نکل سکے جس طرح سے دوربین نکلتی ہے۔ اس نلکی کے اندر گرم پلازما چھوڑا جا سکتا ہے جو بعد میں راڈ میں لگے ہوئے چھوٹے چھوٹے سوراخوں میں سے مسلسل باقائدگی کے ساتھ نکل سکتا ہے۔ اوپر نکلی ہوئی راڈ میں سے پلازما ہتھے سے نکلتا ہوا چلا جائے گا جہاں سے اس نلکی کے سوراخوں سے باہر نکل کر وہ ایک لمبی ، چمکدار گرم گیس کی شکل لیتے ہوئے اتنا طاقتور ہوگا کہ اسٹیل کو بھی پگھلا سکے۔ اس قسم کے آلے کو کبھی کبھار "پلازما مشعل" سے بھی پکارا جاتا ہے۔


لہٰذا اونچی توانائی والی روشنی کی تلوار جیسے آلے کو بنانا ممکن ہے۔ لیکن شعاعی بندوق کی طرح یہاں پر بھی اونچی توانائی کا ذخیرہ کرنے والی ، استعمال میں آسان بیٹری درکار ہوگی۔ یا پھر ہمیں لمبی تاریں درکار ہوں گی جو تلوار سے جڑ کر اس کو مسلسل توانائی فراہم کرتی رہیں ، یا پھر نینو طرزیات کا استعمال کرتے ہوئے ننھے بجلی گھر درکار ہوں گے جن میں زبردست توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو۔


لہٰذا شعاعی بندوق اور روشنی کی تلوار آج بھی کسی شکل میں بنانا ممکن ہیں ، مگر ہاتھ کے استعمال والے اس قسم کے حربی ہتھیار جیسا کہ سائنسی فلموں میں دکھایا جاتا ہے ہماری موجودہ طرزیات کے بس سے باہر ہیں۔ لیکن اس صدی کے اواخر میں یا نئی صدی میں ، سائنس کی دنیا میں نئے مادّے اور نینو طرزیات میں پیش رفت کے ساتھ شعاعی بندوق کی کسی قسم کو بنانا ممکن ہو گا۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس کو جماعت "I" کی ناممکنات میں رکھ رہا ہوں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
------------------------------------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - دوسرا چہارم
------------------------------------------------------------------------------------------------------------

توانائی برائے غارت گر ستارہ

اسٹاروارز میں دکھائی جانے والی غارت گر ستارہ نما لیزر توپ بنانے کے لئے اب تک کی بنائی گئی سب سے طاقتور لیزر سے بھی زیادہ طاقتور لیزر بنانی ہوگی۔ فلم میں دکھائی جانے والی غارت گر ستارہ نما توپ کسی بھی سیارے کو مکمل طور پر تباہ و برباد کرکے اس کا نام و نشان مٹا کر پوری کہکشاں میں دہشت پھیلا دیتی ہے۔ فی الوقت زمین پر موجود سب سے زیادہ طاقتور لیزر جو استعمال میں ہے وہ کسی ستارے کے قلب میں موجود حرارت کے جتنا درجہ حرارت پیدا کر سکتی ہے۔ گداختی ری ایکٹر کی شکل میں ایک دن یہ ستاروں کے قلب میں موجود جتنی توانائی کو زمین پر حاصل کر سکیں گی۔


گداختی مشین فضائے بسیط میں پیدا ہونے والے ستارے کے ماحول کو نقل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ستارہ ایک عظیم ہائیڈروجن کی بے شکل گیند کی صورت میں اس وقت بننا شروع ہوتا ہے جب قوّت ثقل گیس کو دبا اور گرما کر درجہ حرارت کو فلکیاتی پیمانے پر لے جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ستارے کے قلب کی گہرائی میں درجہ حرارت ٥ سے ١٠ کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے ، جو ہائیڈروجن کے ایٹموں کے مرکزے کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے نتیجتاً ہیلیئم کے ایٹمی مرکزے اور توانائی کے جھکڑ پیدا ہوتے ہیں۔ ہائیڈروجن کی ہیلیئم کے گداختی عمل کے دوران معمولی سی کمیت دھماکہ خیز توانائی میں بدلتی ہے۔ یہ وہی عمل ہے جس کو آئن سٹائن کی شہرہ آفاق مساوات E=mc2 کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ ستاروں کو توانائی حاصل کرنے کا ذریعہ یہ ہی گداختی عمل ہے۔


دو طریقے ایسے ہیں جن کے ذریعہ سائنس دان اس گداختی عمل کو زمین پر دہرانے کے کوشش کر رہے ہیں۔ مگر دونوں ہی طریقے ان کی امید سے بڑھ کر کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوئے ہیں۔



جمودی پابندی(Inertial Confinement) برائے گداخت

پہلا طریقہ جمودی پابندی کا کہلاتا ہے۔ تجربہ گاہ میں سورج کا ایک چھوٹا سا حصّہ بنانے کے لئے یہ طریقہ سب سے زیادہ طاقتور لیزر کو استعمال کرتا ہے۔ ایک نیوڈیمیئم شیشہ کی ٹھوس حالت والی لیزر، سورج کے قلب میں موجود جھلسا دینے والے درجہ حرارت کی نقل کرنے کے لئے مثالی طور پر موزوں ہے۔ یہ لیزر کے نظام بہت بڑے کارخانے کے جتنے ہوتے ہیں جس میں لیزر کی بیٹریاں موجود ہوتی ہیں جو متوازی لیزر شعاعوں کے سلسلے کو ایک لمبی سرنگ میں پھینکتی ہیں۔ یہ اونچی طاقت والی لیزر کی شعاعیں اس کے بعد چھوٹے شیشوں کے سلسلے سے ٹکراتی ہیں جن کو ایک کرۂ کی ترتیب میں لگایا ہوا ہوتا ہے ، وہ شیشے انتہائی احتیاط سے لیزر کی شعاعوں کو مرتکز کرکے یکساں طور پر ہائیڈروجن سے بھرپور ایک چھوٹی سی گیند (جو کسی ایسے مادّے سے بنی ہوتی ہے جیسا کہ لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈ جو ہائیڈروجن بم کا سب سے اہم جز ہے ) پر مارتے ہیں۔ اس چھوٹی سی گولی کا حجم کسی سوئی کی نوک کے جتنا صرف ١٠ ملی گرام ہوتا ہے۔

لیزر کی روشنی کا دھماکہ اس چھوٹی سی گیند کی سطح کو خاکستر کر دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سطح تحلیل ہو جاتی ہے اور اس ننھی گیند کو اور دبا دیتی ہے۔ جیسے ہی وہ چھوٹی سی گیند منہدم ہوتی ہے ایک صدماتی موج اس چھوٹی سی گیند کے قلب کی طرف روانہ ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں درجہ حرارت کروڑوں ڈگری تک جا پہنچتا ہے ۔ یہ درجہ حرارت اتنا ہوتا ہے جس میں ہائیڈروجن کے ایٹم ایک دوسرے میں ضم ہو کر ہیلیئم بنا سکتے ہیں۔ درجہ حرارت اور دباؤ اتنا فلکیاتی پیمانے کا ہوتا ہے کہ "لاء سن کا معیار" پورا ہو جاتا ہے ، یہ وہ ہی معیار ہے جو ہائیڈروجن بم کے بنانے میں اور ستاروں کے قلب میں درکار ہوتا ہے۔(لاء سن کا معیار کہتا ہے مخصوص درجہ حرارت ، کثافت، اور وقت کی قید ہائیڈروجن بم میں گداختی عمل کو شروع کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں چاہئے یہ گداختی عمل ستاروں کے قلب میں ہو یا گداختی مشین میں۔)

اس جمودی قید کے عمل میں توانائی کی وسیع مقدار نکلتی ہے جس میں نیوٹران بھی شامل ہیں۔(لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈکا درجہ حرارت ١٠ کروڑ ڈگری تک بھی جا سکتا ہے اور اس کی کثافت سیسے کی کثافت سے ٢٠ گنا زیادہ تک ہو سکتی ہے۔) نیوٹران کا انفجار اس چھوٹی سی گیند سے نکلتا ہے ، پھر نیوٹران کروی مادّے کے کمبل سے ٹکراتے ہیں جو خانے کے گرد لپیٹا ہوا ہوتا ہے ، نتیجتاً وہ مادّے کا کمبل گرم ہو جاتا ہے ، یہ گرم کمبل پھر پانی کو گرم کرتا ہے جس کے نتیجے میں بننے والی بھاپ سے ٹربائن چلا کر بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ مسئلہ ابھی تک اس بات میں اٹکا ہوا ہے کہ اتنی شدید قوّت کو اتنی چھوٹی سی کروی گیند کے اوپر مرتکز کیسا کیا جائے۔ اس سلسلے کی ابتدائی کوششیں" شیوا"(Shiva) لیزر سے کی گئیں جس میں لیزر کے ذریعہ گداختی عمل شروع کیا گیا۔ شیوا لیزر ایک ٢٠ شعاعی لیزر کا نظام ہے جو لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری ، کیلی فورنیا میں واقع ہے اس نے ١٩٧٨ء سے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔(شیوا ایک ہندو دیوی کا نام ہے جس کے کافی سارے بازو ہیں ، لیزر کا یہ نظام ایک طرح سے اسی کی نقل ہے۔) شیوا لیزر نظام کی کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ، بہرحال اس نے یہ بات تو ثابت کردی کہ لیزر سے گداختی عمل فنی اعتبار سے قابل عمل ہے۔ شیوا لیزر نظام بعد میں" نوا"(Nova) لیزر سے بدل گیا جس کی توانائی شیوا سے ١٠ گنا زیادہ تھی۔ مگر نوا لیزر بھی چھوٹی گیند میں گداخت کا عمل شروع کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اس بات سے قطع نظر اس نے نیشنل اگنیشن فیسلٹی میں ہونے والی حالیہ تحقیق کے لئے راہ ہموار کردی۔ یہ جو ١٩٩٧ء میں لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری میں بننا شروع ہوئی تھی۔


نیشنل اگنیشن فیسلٹی نے ٢٠٠٩ء سے کام کرنے کی شروعات کرنی ہے۔ یہ ایک دیو ہیکل مشین ہے ، جس میں ١٩٢ لیزر کی شعاعوں کی بیٹریاں لگی ہوئی ہیں ، اس کی بجلی پیدا کرنے کی طاقت ٧ ہزار کھرب واٹ ہے (توانائی کی ایک بوچھاڑ میں ٧ لاکھ بڑے نیوکلیائی بجلی گھروں کے برابر کی طاقت مرتکز ہے۔) یہ فن کے درجہ کمال کو پہنچا ہوا لیزر کا نظام ہے جس کو خاص اس طور پر بنایا گیا ہے کہ یہ ہائیڈروجن سے بھرپور گیند کو مکمل خاکستر کر سکے۔(ناقدین نے اس کے عیاں حربی استعمال پر نکتہ چینی کی ہے ، کیونکہ یہ ہائیڈروجن بم کی نقل کر سکتا ہے اور شاید اس کے ذریعہ نیوکلیائی بم بھی بنانا بھی ممکن ہو سکے، جو خالصگداختی بم ہوگا ، جس میں گداختی عمل کو شروع کرنے کے لئے یورینیم یا پلوٹونیم کے ایٹمی بم کی ضرورت نہیں ہوگی۔)


مگر نیشنل اگنیشن فیسلٹی کی لیزر گداختی مشین ، جو کرۂ ارض پر موجود تمام لیزر مشینوں سے طاقتور ہے ، وہ بھی" اسٹار وارز" کے غارت گر ستارے کی تباہ کن طاقت کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اس قسم کے ہتھیار کو بنانے کے لئے ہمیں دوسرے توانائی کے ذرائع ڈھونڈنے ہوں گے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - حصّہ پنجم
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
"مقناطیسی قید"(Magnetic Confinement) برائے گداخت

غارت گر ستارے کو بنانے کے لئے دوسرا طریقہ جو سائنس دان ممکنہ طور پر استعمال کر سکتے ہیں وہ "مقناطیسی قید" کہلاتا ہے، یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ہائیڈروجن گیس کا گرم پلازما مقناطیسی میدان میں موجود ہوتا ہے. درحقیقت یہ طریقہ اصل میں پہلے پروٹو ٹائپ تجارتی گداختی ری ایکٹر کو بنا سکتا ہے. دور حاضر کے اس قسم کے سب سے جدید گداختی پروجیکٹ کا نام انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر ہے. ٢٠٠٦ء میں مختلف اقوام کے اتحاد (جس میں یوروپی یونین، ریاست ہائے متحدہ ، چین، جاپان، کوریا، روس اور ہندوستان شامل تھے ) نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر کو جنوبی فرانس میں واقع" کداراکی"(Cadarache) میں بنایا جائے. یہاں پر ہائیڈروجن گیس کو ١٠ کروڑ ڈگری درجہ حرارت تک گرم کیا جا سکے گا . یہ وہ پہلا گداختی ری ایکٹر بننے کا اعزاز اپنے نام کر سکتا ہے جو اپنے سے زیادہ صرف شدہ توانائی پیدا کرے گا. اس کو ٥٠٠ میگا واٹ طاقت کو ٥٠٠ سیکنڈ تک بنانے کے لئے وضع کیا گیا ہے.(فی الوقت کا ریکارڈ ١٦ میگا واٹ ایک سیکنڈ تک کا ہے .). انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر اپنا پہلا پلازما ٢٠١٦ء تک پیدا کر پائے گا. جب کہ یہ مکمل طور پر کام کرنا ٢٠٢٢ء سے شروع کرے گا. مین ہٹن پروجیکٹ اور انٹرنیشنل ا سپیس ا سٹیشن کے بعد ١٢ ارب ڈالر کے ساتھ یہ سائنس کی تاریخ کا سب سے مہنگا پروجیکٹ ہے .


انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر ایک بڑے سے ڈونَٹ کی طرح دکھائی دے گا، جس کے اندر ہائیڈروجن گیس گشت کر رہی ہوگی اور بہت بڑے تاروں کے لچھے سطح کے چاروں طرف لپٹے ہوں گے. لچھوں کو اس وقت تک ٹھنڈا کیا جائے گا جب تک وہ فوقی موصل نہیں بن جاتے اور اس کے بعد بہت بڑی مقدار میں برقی رو ان میں دوڑائی جائے گی جس سے مقناطیسی میدان بنیں گے جو ڈونَٹ میں موجود پلازما کو قید رکھیں گے. اب برقی رو ڈونَٹ کے اندر داخل کی جائے گی ، تو اس سے گیس نجمی درجہ حرارت پر گرم ہوگی .


اس سے حاصل ہونے والی سستی توانائی کے حصول کی وجہ سے سائنس دان اس انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر کے بارے میں اتنے زیادہ ہیجان میں مبتلا ہیں. گداختی ری ایکٹر کا ایندھن عام سمندری پانی ہوگا. جو ہائیڈروجن سے بھرپور ہوتا ہے. کم از کم کاغذوں کی حد تک تو شاید یہ ہمیں نہ ختم ہونے والی سستی توانائی فراہم کر سکتا ہے.


اب سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے پاس ابھی یہ گداختی ری ایکٹر کیوں نہیں ہے؟ اس نے بننے میں اتنا لمبا عرصہ کیوں لیا جبکہ ہم نے گداختی عمل کو ١٩٥٠ء میں ہی جان لیا تھا؟ مسئلہ اس شیطان صفت مشکل کا تھا جس میں دبا کر یکساں ہائیڈروجنی ایندھن کو حاصل کرنا تھا. ستاروں میں یہ کام قوّت ثقل کرتی ہے وہ ہائیڈروجن گیس کو مکمل کرۂ کی شکل میں بھینچتی ہے جس سے گیس یکساں اور صفائی سے گرم ہوتی ہے.


انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر میں واقع گداختی لیزر میں ، لیزر روشنی کی ہم مرکز شعاعیں جس چھرے کی سطح کو خاکستر کریں گی اس کی سطح کو بے عیب طور پر یکساں ہونا چاہیے ، اور یہ یکسانیت حاصل کرنا ناممکن کی حد تک مشکل ہے. اس مقناطیسی قیدی مشین ، میں مقناطیسی میدانوں کے شمالی قطب اور جنوبی قطب دونوں موجود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے گیس کو کرۂ میں یکساں دبانا نہایت مشکل ہوتا ہے . اس مسئلہ سے جان چھڑانے کے لئے سب سے بہتر حل یہ ہے کہ ایک ڈونَٹ کی شکل کا مقناطیسی میدان بنایا جائے. گیس کو دبانا ایسا ہے جیسے کہ کسی غبارے کو دبانا. ہر دفع جب آپ غبارے کو ایک طرف سے دباتے ہیں تو ہوا دوسری طرف غبارے کے گومڑ سا بنا دیتی ہے . غبارے کو یکساں ہر طرف سے ایک ساتھ دبانا بہت مشکل کام ہے. گرم گیس عام طور سے مقناطیسی بوتل سے رس جاتی ہے، جس سے وہ ری ایکٹر کی دیواروں تک جا پہنچتی ہے اور اس کے نتیجے میں گداختی عمل کو بند کرنا پڑتا ہے. یہ ہی وجہ ہے کہ ہائیڈروجن کی گیس کو ایک سیکنڈ سے بھی زیادہ دبانا نہایت مشکل ہے.


دور حاضر کی نسل کے انشقاقی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے مقابلے میں گداختی ری ایکٹر میں بڑی مقدار میں نیوکلیئر فضلہ نہیں نکلتا .(ہر روایتی انشقاقی پلانٹ سال میں ٣٠ ٹن زبردست اونچے درجے کی سطح کا نیوکلیئر فضلہ پیدا کرتا ہے. اس کے برخلاف گداختی مشین میں پیدا ہونے والا نیوکلیئر فضلہ زیادہ تر ریڈیائی تابکار اسٹیل پر مشتمل ہوتا ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ری ایکٹر کو آخر میں ختم کیا جاتا ہے.)


گداختی عمل مستقبل قریب میں مکمل طور پر زمین سے توانائی کا بحران ختم نہیں کر سکےگا، پیئرجول ڈی ژن(Pierre-Gilles de Gennes) جو فرانسیسی نوبل یافتہ طبیعیات دان ہیں فرماتے ہیں " ہم کہتے ہیں کہ ہم نے سورج کو ایک ڈبے میں رکھ دیا ہے. خیال تو بہت اچھا ہے . مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس ڈبے کو کیسے بنایا جائے." لیکن سب کچھ ٹھیک رہا تو محققین پر امید ہیں کہ اگلے ٤٠ برسوں کے دوران انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر تجارتی استعمال کے لئے گداختی توانائی کے لئے راہ ہموار کر دے گا اور اس سے حاصل کردہ توانائی بجلی کی صورت میں ہمارے گھروں میں آ سکے گی. ایک دن گداختی ری ایکٹر شاید ہماری توانائی کے بحران کو نمٹانے میں مدد کرکے محفوظ طریقے سے سورج کی قوّت کو زمین پر منتقل کر سکیں گے .


مگر یہ مقناطیسی قیدی گداختی عمل بھی اتنی توانائی مہیا نہیں کر سکتا کہ غارت گر ستارے جیسے کسی ہتھیار کو فعال کر سکے. اس کے لئے ہمیں بالکل ایک نیا نمونہ بنانا پڑے گا.



نیوکلیائی فائر ڈ ایکس رے لیزر

دور حاضر میں صرف ایک طرزیات ایسی ہے جس کے ذریعہ غارت گر ستارے کی لیزر توپ کی نقل کی جا سکتی ہے اور وہ ہے ہائیڈروجن بم. ایک ایسی بیٹری جو ایکس رے کو پیدا کرکے نیوکلیائی ہتھیار کی قوّت کو ایک نقطے پر مرتکز کر سکے اصولی طور پر اتنی توانائی پیدا کر سکتی ہے جس سے ایک ایسا آلہ بنایا جا سکتا ہے جو پورے سیارے کو جلا کر خاکستر کر دے.


نیوکلیائی توانائی کا مقابلہ کیمیائی توانائی سے کیا جائے تو ایک پونڈ نیوکلیائی توانائی ایک پونڈ کیمیائی توانائی کے مقابلے میں ١٠ کروڑ گنا زیادہ توانائی پیدا کرے گی. افزودہ یورینیم کا ایک بیس بال کی حجم کا ٹکڑا کسی بھی شہر کو مکمل جلا کر خاکستر کر دینے کے لئے کافی ہوگا .اس تمام تر بربادی کے باوجود اس کی کمیت کا صرف ایک فیصد ہی توانائی میں تبدیل ہوگا. جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ لیزر میں توانائی کو بھرنے کے کافی طریقے ہیں. مگر سب سے زیادہ طاقتور طریقہ اس قوّت کو استعمال کرنے کا ہے جو کسی نیوکلیائی بم کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے.


ایکس رے لیزر ز کی سائنسی اور حربی دنیا میں بہت ہی زیادہ اہمیت ہے. نہایت مختصر طول موج ہونے کی وجہ سے ان کو ایٹمی فاصلے پر بطور کھوجی استعمال کیا جا سکتا ہے اور پیچیدہ سالموں کی ایٹمی ساخت کی رمز کشائی کی جا سکتی ہے ، اگر ایسا ممکن ہو گیا تو یہ ایک ایسا کارنامہ ہوگا جو عام طریقوں سے حاصل کرنا ناممکن کی حد تک مشکل ہے. کیمیائی تعاملات کا ایک پورا نیا جہاں کھل جائے گا. ہم ایٹموں کو خود سے حرکت کرتے ہوئے دیکھ سکیں گے اور سالموں کے اندر ان کی درست ترتیب بھی دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے.


کیونکہ ہائیڈروجن بم بڑی مقدار میں توانائی ایکس رے کی شعاعوں کی صورت میں خارج کرتا ہے ، اس لئے ایکس رے نیوکلیائی ہتھیاروں کو فعال بنا سکتی ہے . وہ انسان جو ایکس رے کو سب سے قریب سے جانتا ہے وہ ماہر طبیعیات بابائے ہائیڈروجن بم - "ایڈورڈ ٹیلر"(Edward Teller) ہیں.


ٹیلر وہ طبیعیات دان ہیں جن کو کانگریس نے اپنے سامنے ١٩٥٠ میں گواہی کے لئے طلب کیا تھا .انہوں نے کانگریس کے آگے گواہی دی کہ مین ہٹن پروجیکٹ کے اس وقت کے سربراہ " رابرٹ اپن ہائیمر "(Robert Oppenheimer) کی سیاست کی وجہ سے ان پر ہائیڈروجن بم بنانے کے کام پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا. ٹیلر کی گواہی نے اپن ہائیمر کو رسوا کرکے اس کا ضمانتی پروانہ منسوخ کروا دیا گیا تھا ، کئی ممتاز و نامور طبیعیات دان ٹیلر کی اس حرکت پر اس کو کبھی معاف نہیں کریں گے.


(میرا ٹیلر سے رابطہ اس وقت سے ہے جب سے میں ہائی ا سکول میں تھا . اسکول کے دوران میں نے تجربات کا ایک سلسلہ "ضد مادّہ"(Antimatter) کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے کیا تھا اور سان فرانسسکو کا سائنس فیئر ایوارڈ اور ایک تفریحی سفر نیشنل سائنس فیئر ان البقرقی ، نیو میکسیکو کا جیتا تھا . میں ایک مقامی ٹیلی ویژن کے پروگرام پر ٹیلر کے ساتھ آیا تھا جو اس وقت ابھرتے ہوئے طبیعیات دانوں میں دلچسپی رکھتا تھا. آخر کار مجھے ٹیلر کی ہرٹز انجینئرنگ کا وظیفہ ملا ، جس نے میرے کالج کی پڑھائی اور ہارورڈ کے اخراجات ادا کیے. میں اس کے گھرانے کو کافی اچھی طرح جاننے لگ گیا تھا کیونکہ میرا ان کے گھر جو برکلے میں واقع تھا سال میں کافی دفعہ آنا جانا ہوتا تھا . )


اصل میں ٹیلر کی ایکس رے ایک چھوٹا نیوکلیائی بم تھا جو تانبے کی راڈوں میں گھرا ہوا تھا. نیوکلیائی ہتھیار کے احتراق کے نتیجے میں ایکس ریز کی شدید کروی صدماتی موجیں نکلتی تھیں. یہ توانائی سے بھرپور شعاعیں تانبے کی راڈوں سے گزرتی تھیں جو ایک طرح سے لیزر کے مادّہ کا کام انجام دیتے تھے ، اور ایکس ریز کی قوّت کو شدید شعاعوں میں مرتکز کر دیتے تھے. یہ ایکس ریز کی شعاعیں دشمن کے بم کی طرف کی جا سکتی تھیں. ظاہر سی بات ہے کہ یہ آلہ ایک ہی دفع استعمال ہو سکتا تھا ، کیونکہ نیوکلیائی دھماکہ ایکس ریز کو خود سے تباہ کر دے گا.


ابتداء میں نیوکلیائی قوّت سے چلنے والی ایکس ریز کی جانچ " کیبرا جانچ"(Cabra Test) کہلائی جو ایک زیر زمین کان میں ١٩٨٣ء میں کی گئی تھی. ایک ہائیڈروجن بم کو پھاڑا گیا تاکہ اس سے نکلتی ہوئی غیر مربوط ایکس ریز کو ایک مربوط ایکس ریز شعاع میں مرتکز کر دے . شروع میں اس جانچ کو کامیاب قرار دیا. درحقیقت ١٩٨٣ء میں اس جانچ سے صدر رونالڈ ریگن اس حد تک متاثر ہوئے کہ انہوں نے ایک تاریخی تقریر میں اپنی اس اسٹار وارز جیسی کوئی حفاظتی ڈھال بنانے کی چاہت کا اعلان کر دیا. اس تقریر نے کئی ارب ڈالر کی ان کوششوں کا آغاز کیا جو آج تک جاری ہیں. ان کوششوں میں ایسے آلات کو ترتیب وار بنانا تھا جیسا کہ نیوکلیائی طاقت سے چلنے والی ایکس رے لیزر جو اس صلاحیت کی حامل ہو کہ دشمن کے بین البر اعظمی میزائل کو تباہ کر سکیں.(بعد کی تحقیقات نے یہ بات ثابت کردی کہ کیبرا جانچ میں استعمال ہونے والے سراغ رساں (ڈیٹیکٹر) کو تباہ کر دیا گیا . ان سراغ رساں آلات کو اس جانچ کی ریڈنگ کو ناپنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا . لہٰذا ان ریڈنگ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا.)


عملی دنیا میں کیا آج ایسا متنازع آلہ بین البر اعظمی میزائلوں کو گرانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ شاید ایسا کیا جا سکتا ہے ، لیکن دشمن کے پاس اس کے توڑ کے کافی سارے سادہ اور کم خرچ طریقے موجود ہیں جن سے ایسے کسی بھی ہتھیار کو بیکار کیا جا سکتا ہے(مثال کے طور پر دشمن سستی دھوکا دینے والی لاکھوں کی تعداد میں کسی بھی شئے کو چھوڑ سکتا ہے تاکہ ریڈار کو دھوکا دیا جا سکے، یا اپنے بم کو گھما دے تاکہ ایکس ریز پھیل جائیں ، یا کوئی ایسی کیمیائی کھرنڈ خارج کرے جو ایکس ریز سے اس کی حفاظت کر سکے.) یا شاید دشمن کافی تعداد میں بم بنا کر اسٹار وار ز کی حفاظتی ڈھال میں داخل ہو جائے.


لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج نیوکلیائی قوّت سے چلنے والی لیزر ، میزائل کو مار گرانے والے، نظام عملی طور پر ناقابل عمل ہیں . مگر کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے غارت گر سیارے کو بنایا جا سکے جس کو ہم اپنی طرف آتے ہوئی سیارچے کے خلاف استعمال کر سکیں یا اس سے پورے سیارے کو فنا کر دیں؟

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - حصّہ ششم (آخری حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
سیارہ غارت گر کی طبیعیات

کیا اسٹار وارز میں دکھائے جانے والے ہتھیار کو بنانا ممکن ہے ؟ جو پورے سیارے کو تباہ کر دیتا ہے. مفروضے کے اعتبار سے اس کا جواب ہاں میں ہے. کئی ایسے طریقے موجود ہیں جس سے سیارہ غارت گر کو بنایا جا سکتا ہے .


سب سے پہلے ، ہائیڈروجن بم سے نکلنے والی توانائی کی کوئی طبیعیاتی حد نہیں ہے. آگے ہم اس کے کام کرنے کے طریقہ کار کو دیکھیں گے. (ہائیڈروجن بم بنانے کا ہوبہو خاکہ امریکی حکومت کی طرف سے آج بھی ٹاپ سیکرٹ اور زمرہ بند ہے مگر واضح خاکہ سب کو معلوم ہے .) ہائیڈروجن بم کافی مرحلوں میں بنتا ہے . ان مرحلوں کو ٹھیک سے یکے بعد دیگرے پار کرتے ہوئے کسی بھی مقدار کا نیوکلیائی بم بنایا جا سکتا ہے.


ہائیڈروجن بم بنانے کا پہلا مرحلہ تو معیاری "انشقاقی بم"(Fission Bomb) کو بنا کر مکمل کیا جاتا ہے، یورینیم - ٢٣٥ کا استعمال کرتے ہوئے ایکس ریز کا ایک دھماکہ چھوڑا جاتا ہے ، جس طرح سے ہیروشیما پر گرائے گئے بم میں ہوا تھا. ایک سیکنڈ کے کچھ ہی حصّے میں اس سے پہلے کہ جوہری بم پھٹ کر ہر چیز کو تہس نہس کر دے ،پھیلتی ہوئی ایکس ریز کا کرۂ دھماکے کی طرف سے نکلتا ہوا دوڑے گا (ایکس ریز روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں) اور پھر لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈ کے خانے پر مرتکز ہوگا ، جو ہائیڈروجن بم کا ایک عامل جز ہے .(ہوبہو یہ کیسے ہوگا یہ بات آج بھی رمزہ بند ہے .) ایکس ریز لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈسے ٹکرا کر اس کو منہدم کر دیں گی جس سے درجہ حرارت کروڑوں ڈگری تک جا پہنچے گا نتیجتاً ایک اور دھماکا ہوگا جو پہلے سے کہیں بڑا ہوگا . اس دھماکے سے حاصل ہونے والی ایکس ریز کو دوبارہ دوسرے لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈ کے ٹکڑے پر مرتکز کیا جا سکتا ہے. جس کے نتیجے میں ایک تیسرا دھماکا ہوگا . اس طرح سے لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈ کو یکے بعد دیگرے ایک قطار میں رکھ کر ایک ایسا ہائیڈروجن بم بنایا جا سکتا ہے جس کا حجم ناقابل تصوّر حد تک کا ہو سکتا ہے. در حقیقت اب تک کا بنائے جانے والا سب سے بڑا ہائیڈروجن بم بھی دو مرحلوں والا تھا جو روس نے ١٩٦١ میں پھاڑا تھا. اس بم سے ٥ کروڑ ٹن ٹی این ٹی کے برابر توانائی خارج ہوئی تھی ، اگرچہ اصولی طور پر وہ اس قابل تھا کہ ١٠ کروڑ ٹن ٹی این ٹی (یا لگ بھگ ٥ ہزار گنا ہیروشیما پر گرائے جانے والے بم جتنا طاقتور)سے بھی زیادہ توانائی کا اخراج کر سکے.


پورے سیارے کو خاکستر کرنے کے لئے بہرحال ایک الگ حجم کا بم درکار ہوگا. اس کام کے لئے غارت گر ستارے کو ہزار ہا لیزر خلاء سے پھینکنی پڑیں گی اور سب کی سب کو بیک وقت داغنا بھی ہوگا.(موازنے کے لئے اس بات کو یاد رکھیں کہ سرد جنگ کے عروج پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین ہر ایک نے ٣٠ ہزار نیوکلیائی بم جمع کر رکھے تھے.) اس زبردست قسم کے ایکس ریز سے نکلنے والی اجتماعی توانائی اس قابل ہوگی کہ پورے سیارے کی سطح کو جلا ڈالے. لہٰذا ایسا یقیناً ممکن ہے کہ کوئی نجمی ریاست مستقبل میں سینکڑوں ہزاروں سال میں کوئی اس طرح کا ہتھیار بنا لے.


کسی بھی جدید تہذیب کے لئے ایک دوسرا انتخاب موجود ہے :غارت گر ستارے کو گیما شعاعوں کی توانائی استعمال کرکے بنا لیا جائے. ایسا کوئی بھی غارت گر ستارہ ان شعاعوں کی بوچھاڑ کو نشانے پر مار سکے گا جن کا نمبر طاقت و توانائی میں بگ بینگ کے بعد آتا ہے. گیما شعاعوں کے انفجار قدرتی طور پر خلاء میں ہوتے رہتے ہیں، لیکن کسی بھی جدید تہذیب کا اس طرح کی وسیع قوّت پیدا کرنا قابل فہم ہے. کسی بھی ستارے کے منہدم ہو کر ہائپر نووا بننے سے پہلے اس کے گھماؤ کو منضبط کرکے گیما شعاعوں کے انفجار کو خلاء میں کسی بھی نقطے کی طرف پھینکا جا سکتا ہے.



گیما شعاعوں کا انفجار

گیما شعاعوں کا انفجار پہلی مرتبہ ١٩٧٠ء میں دیکھا گیا، جب یو ایس فوج نے "ویلا" مصنوعی سیارچہ خلاء میں ایٹمی دھماکے کی چمک(غیر قانونی ایٹمی دھماکے کے ثبوت ) کا سراغ لگا نے کے لئے چھوڑا . غیر قانونی جوہری دھماکوں کے بجائے ویلا نے خلاء میں بہت بڑے اشعاع کے انفجار درج کیے . شروع میں اس دریافت نے پینٹاگون میں کھلبلی مچا دی : کیا سوویت یونین خلاء میں جا کر ایٹمی دھماکے کر رہا تھا؟ بعد میں یہ پتا چلا کہ یہ اشعاع خلاء میں آسمان پر ہر جگہ سے یکساں طور پر آ رہی تھیں . اس کا مطلب تھا کہ یہ کہکشاں سے بھی دور سے آ رہی تھیں. اگر وہ بین النجم اشعاع تھیں تو انھیں بہت ہی عظیم الشان فلکیاتی قدروں کی قوّت کو پیدا کرنا ہوگا ، ان کو اتنا روشن ہونا تھا کہ تمام قابل مشاہدہ کائنات کو منور کر سکیں.


جب سوویت یونین ١٩٩٠ء میں ٹوٹ کر بکھر گیا تو عظیم فلکیاتی ڈیٹا پینٹاگون نے غیر مخفی کیا. پینٹاگون کے فراہم کئے گئے مواد نے فلکیات دانوں کو مبہوت کر دیا تھا. یکدم سے فلکیات دانوں کے سامنے ایک نیا پراسرار مظاہر قدرت نمودار ہو کر کھڑا ہو گیا ہے. اس نے ہمیں اپنی سائنس کی نصابی کتابوں کو دوبارہ سے لکھنے پر مجبور کر دیا تھا .


گیما شعاعوں کا دورانیہ چند سیکنڈوں سے کچھ منٹوں تک کا ہوتا ہے جس کے بعد وہ غائب ہو جاتی ہیں . لہٰذا حساس آلات کا ایک مفصل نظام ان کی تلاش اور تجزیہ کرنے کے لئے درکار ہوگا. پہلے تو سیارچے کو ابتدائی اشعاع کے دھماکے کو پکڑنا ہوگا اور پھر دھماکے کے ایک دم صحیح متناسق (کورڈ ینیٹ) ہندسے زمین پر بھیجنے ہوں گے جہاں سے ان کو بصری یا ریڈیائی دوربینوں کو بھیجا جائے گا جو اپنا رخ ہدف یعنی گیما اشعاع کے پھٹنے کی بالکل صحیح جگہ پرکریں گی .


اگرچہ ابھی بھی بہت کچھ واضح نہیں ہے لیکن گیما شعاعوں کے پھٹنے کا ایک نظریہ بتاتا ہے کہ یہ زبردست قوّت والے ہائپر نووا ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے بلیک ہول کو بنتے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں. ایسا لگتا ہے کہ جیسے گیما شعاعوں کے یہ دھماکے پیدا ہوتے ہوئے بلیک ہول عفریتوں کے ہوتے ہیں. مگر بلیک ہول گھومتے ہوئے لٹو کی طرح سے دو شعاعوں کے فوارے ایک شمالی قطب سے اور دوسرا جنوبی قطب سے چھوڑتے ہیں . زمین سے نظر آنے والی اشعاع دور دراز کی گیما شعاعوں کا وہ فوارہ ہوتا ہے جس کا رخ عین زمین کی طرف ہوتا ہے. اگر خدانخواستہ کسی گیما شعاع کا انفجار سیدھا زمین کی طرف رخ کرکے ہمارے پڑوس میں کسی کہکشاں میں واقع ہو (جو ہم سے صرف چند نوری برس دور ہو ) تو اس انفجار کی قوّت اتنی ہوگی کہ وہ ہمارے سیارے پر موجود تمام زی حیات کو معدوم کر سکتی ہے .


شروع میں گیما شعاعوں کے انفجار سے نکلنے والی ایکس ریز ایک برقی مقناطیسی ارتعاش پیدا کرے گی جو تمام برقی آلات کو زمین پر سے صفحہ ہستی سے مٹا دے گی. اس کی زبردست ایکس ریز اور گیما ریز کی شعاعیں زمین کے کرۂ فضائی کو ختم کرنے کے لئے کافی ہوں گی ، جس کے نتیجے میں ہماری حفاظت کرنے والی اوزون کی تہ تباہ ہو جائے گی . گیما شعاعوں کے انفجار سے نکلنے والے فوارے زمین کی سطح پر درجہ حرارت کو بڑھا دیں گے جس کے نتیجے میں آگ کا بے قابو عفریت پورے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا. ہو سکتا ہے کہ گیما شعاعوں کا انفجار پورے سیارے کو پھاڑ کر ریزہ ریزہ نہیں کرے جس طرح سے اسٹار وارز کی فلم میں دکھایا تھا ، مگر یہ یقینی طور پر زمین پر موجود تمام حیات کو تباہ کر دے گا اور اپنے پیچھے صرف ایک سلگتا ہوا بنجر سیارہ ہی چھوڑے گا.


اندازاً ، آج سے کچھ ہزاروں سے لاکھوں سال کے بعد ہم سے زیادہ کوئی ترقی یافتہ تہذیب ہو سکتا ہے کہ اس قابل ہو جائے کہ کسی بلیک ہول کو اپنی مرضی سے کسی بھی سمت میں حرکت دے کر ہدف کا نشانے لے سکے . یہ کسی سیارے کا راستہ موڑ کر اور نیوٹرون ستارے کا راستہ خم کرکے اس کو مرتے ہوئے ستارے کی طرف منہدم ہونے سے پہلے درست زاویے کی طرف موڑ سکتی ہے . یہ خمیدگی اتنی ہو سکتی ہے کہ ستارے کی محوری گردش کو اس طرح سے تبدیل کیا جا سکے کہ اس کا نشانہ کسی بھی سمت میں موڑا جا سکے. ایک مرتے ہوئے ستارے سے ہمارے گمان سے بھی زیادہ بڑی شعاعی بندوق بنائی جا سکتی ہے.


مختصراً طور پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ طاقتور لیزر آسانی سے استعمال میں آنے والی یا ہاتھ کے استعمال والی شعاعی بندوق اور روشنی کی ٹھوس تلوار کو ہم جماعت "I" کی ناممکنات کے زمرہ میں ڈال سکتے ہیں یعنی کہ کوئی ایسی چیز جو مستقبل بعید میں یا آنے والی اگلی ایک صدی میں ممکن ہو. لیکن کسی ستارے کو بلیک ہول سے بننے سے پہلے اس کو غارت گر ستارہ بنا کر اپنی مرضی سے اس سے ہدف کو نشانہ بنا نے میں زبردست قسم کی مشکلات موجود ہیں اس لئے سے اسے ہم جماعت "II" کی ناممکنات کے زمرے میں ڈالتے ہیں یعنی کوئی ایسی چیز جو طبیعیات کے معلوم قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہو (جیسا کہ گیما شعاعوں کے انفجار موجود ہیں ) لیکن یہ چیز آج سے ہزار ہا سال یا لاکھوں سال کے بعد مستقبل میں ممکن ہو سکتی ہے.
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
4۔ دور دراز منتقلی (Teleportation) - حصّہ اوّل
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


یہ کتنی اچنبھے کی بات ہے کہ ہم نے متناقص باتوں کی سچائی کو پا لیا۔ اب ہم آگے بڑھنے کی امید کر سکتے ہیں۔


- نیلز بوہر


میں قوانین طبیعیات کو بدل نہیں سکتا، کپتان !


- اسکوٹی ، چیف انجنیئر اسٹار ٹریک



دور دراز منتقلی یا کسی شخص یا شئے کو فی الفور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ٹیکنالوجی انسانی تہذیب کا راستہ اور اقوام کی منزل تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ ناقابل تردید طور پر جنگی اصولوں کو بدل دے گی: افواج اپنے دستوں کو دشمن کو بے خبر رکھتے ہوئے ان کی صفوں کے پیچھے بھیج سکتی ہیں یا صرف دشمن کی قیادت کو دور دراز منتقل کرکے ان کو قید بھی کر سکتی ہیں۔ دور حاضر کے ذرائع نقل و حمل کار سے لے کر پانی کے جہاز تک اور ہوائی جہاز سے لے کر ریل گاڑی تک ، اور بہت ساری صنعتیں جو ان نظاموں کو اپنی خدمات دیتی ہیں سب متروک ہو جائیں گی، ہم ان کو استعمال کرنے کے بجائے اپنے آپ کو دفتر یا کام کرنے کی جگہ پر اور اشیاء کو مارکیٹوں میں آسانی سے منتقل کر دیں گے۔ چھٹیاں گزرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوگا کیونکہ ہم اپنے آپ کو اپنی منزل پر بغیر کسی ذریعہ کے استعمال کے منتقل کر لیں گے۔ دور دراز منتقلی ہر چیز کو بدل دے گی۔


سب سے قدیم دور دراز منتقلی مذہبی کتابوں میں ملتی ہے مثلاً بائبل ، جہاں روحوں کا خاموشی کے ساتھ افراد کو لے جانا بیان کیا گیا ہے۔ یہ عہد نامہ جدید میں سے لی ہوئی سطریں ہیں جس میں لگتا ہے کہ فلپس کی دور دراز منتقلی غزہ سے اشدُود تک کی گئی تھی۔"جب وہ پانی میں سے نِکل کر اُوپر آئے تو خداوند کا رُوح فلپس کو اُٹھا لے گیا اور خوجہ نے اُسے پھر نہ دیکھا کیونکہ وہ خُوشی کرتا ہُوا اپنی راہ چلا گیا۔اور فلپس اشدُود میں آ نِکلا اور قیصریہ میں پہنچنے تک سب شہروں میں خُوشخبری سُناتا گیا۔(ایکٹس ٨ : ٣٦ – ٤٠ )


دور دراز منتقلی ہر جادوگر کی زنبیل کے کرتبوں اور نظر بندی کا حصّہ ہوتا ہے :مثلاً خرگوش کو ٹوپے سے نکالنا ، تاش کے پتوں کو آستیں میں سے نکالنا اور کسی کے کان کے پیچھے سے سکّہ نکالنا وغیرہ۔ دور حاضر کا سب سے جرات مند جادوئی کمال ہاتھی کو حیرت کے مارے تماشائیوں کے سامنے سے غائب کرنا ہے۔ اس کام کے عملی مظاہرہ میں ایک کافی ٹن وزنی بڑے ہاتھی کو ایک پنجرے میں رکھا جاتا ہے ۔ اس کے بعد جادوگر کی جادوئی چھڑی کے گھومنے کے ساتھ ہی ہاتھی تماشائیوں کو حیرت و استعجاب میں ڈالتا ہوا غائب ہو جاتا ہے۔(ظاہر سی بات ہے کہ حقیقت میں ہاتھی کہیں نہیں جاتا۔ یہ کرتب آئینوں کے ذریعہ دکھایا جاتا ہے۔ لمبے پتلے عمودی آئینوں کی پٹیاں پنجرے کے ہر طرف رکھی ہوتی ہیں۔ دروازے کی طرح یہ عمودی پٹیاں مڑتی بھی ہیں۔ جادوئی کرتب کے شروع میں جب یہ عمودی پٹیاں پنجرے کے اطراف میں اس کے پیچھے رکھ دی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں آئینہ نظر نہیں آتا اور ہاتھی دکھائی دیتا ہے ، مگر جب آئینوں کو ٤٥ ڈگری زاویے پر تماشائیوں کے سامنے سے موڑا جاتا ہے تو ہاتھی غائب ہو جاتا ہے اور تماشائی پنجرے کے ایک طرف کی منعکس شدہ تصویر دیکھتے ہیں۔



دور دراز منتقلی اور سائنس فکشن

سب سے پہلی دور دراز منتقلی جو سائنس فکشن میں ملتی ہے وہ" ایڈورڈ پیج مچل"(Edward Page Mitchell) کی کہانی "بغیر جسم کے آدمی " (The Man Without the Body)میں موجود ہے جو ١٨٧٧ء میں چھپی تھی۔ اس کہانی میں سائنس دان ایک بلی کے جسم کے ایٹموں کو علیحدہ کرکے اس کو ٹیلی گراف وائر کے ذریعہ دور منتقل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے جب سائنس دان اپنے آپ کو بغیر ذریعے کے منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے تو عین اس وقت بیٹری ختم ہو جاتی ہے۔ صرف اس کا سر ہی کامیابی کے ساتھ منتقل ہو پاتا ہے۔


"سر آرتھر کونان ڈوئیل"(Sir Arthur Conan Doyle) ، جو اپنے شرلاک ہومز کے ناولوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ، ان کو دور دراز منتقلی کے تصوّر نے بہت لبھا لیا تھا۔ برسوں تک جاسوسی ناول اور مختصر کہانیاں لکھ کر وہ شرلاک ہومز سلسلے سے اکتا گئے اور آخر کار اپنے اس سراغ رساں کو پروفیسر "موریارٹی"(Moriarty) کے ساتھ آبشار سے نیچے گرا کر موت سے ہمکنار کرا دیا۔ مگر عوام کے شدید اسرار نے ڈوئیل کو شرلاک ہومز کو دوبارہ زندہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ شرلاک ہومز کو مارنے میں ناکامی سے دلبرداشتہ ہو کر ڈوئیل نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ، جس میں پروفیسر" چیلنجر"(Challenger) شرلاک ہومز کے ہم رتبہ تھے۔ دونوں حاضر جواب اور گتھیوں کو سلجھانے کے ماہر تھے۔ جہاں مسٹر ہومز پیچیدہ معموں کو حل کرنے کے لئے ٹھنڈے اور منطقی استنباط سے کام لیتے تھے ، وہیں پروفیسر چیلنجر شیطانیت کی تاریک اور مافوق الفطرت دنیا کی مدد لیتے ہیں اور اس س میں دور دراز منتقلی بھی شامل تھی۔


١٩٢٧ء میں ایک ناول "انتشاری مشین"(The Disintegration Machine) میں پروفیسر کا ٹکراؤ ایک ایسے بھلے مانس آدمی سے ہوا جو ایک ایسی مشین کا موجد تھا جو کسی بھی شخص کو علیحدہ کرکے دور درز منتقل کرنے کے بعد دوبارہ سے جوڑ دیتی تھی۔ لیکن اس وقت پروفیسر چیلنجر کے پیروں تلے زمین نکل گئی جب اس کے خالق نے شیخی بگھارتے ہوئے اسے بتایا کہ اگر مشین کسی غلط ہاتھ میں چلی جائے تو پورے کے پورے لاکھوں افراد کے شہر کو صرف ایک بٹن کے دبانے سے ختم کر دے گی۔ پروفیسر چیلنجر نے اس مشین کا استعمال کرتے ہوئے اس کے موجد کو علیحدہ کیا اور اس کو دوبارہ جوڑے بغیر ہی تجربہ گاہ سے باہر نکل آیا۔


زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہالی ووڈ نے دور دراز منتقلی کو دریافت کیا۔١٩٥٨ء میں فلم "مکھی "(The Fly) میں اس بات کا تجزیہ کیا گیا کہ اگر دور دراز منتقلی خطرناک طور پر غلط راہ پر گامزن ہو جائے تو اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ فلم میں جب ایک سائنس دان کامیابی کے ساتھ اپنے آپ کو کمرے میں منتقل کرتا ہے تو اس کے جسم کے ایٹم ایک مکھی کے ایٹم سے مل جاتے ہیں جو حادثاتی طور پر دور دراز منتقلی کے خانے میں داخل ہوئی تھی ، اس طرح وہ سائنس دان مضحکہ خیز تقلیبی عفریت میں تبدیل ہو جاتا ہے جو آدھا انسان اور آدھی مکھی ہوتا ہے۔ (اس فلم کا ایک ریمیک جس میں "جیف گولڈبلم" (Jeff Goldblum)نے مرکزی کردار ادا کیا تھا وہ ١٩٨٦ء میں ریلیز ہوئی تھی۔)


دور دراز منتقلی کی مقبولیت پہلی دفع عمومی ثقافت میں اسٹار ٹریک سلسلہ کے ساتھ نمایاں ہونا شروع ہوئی۔ "جین روڈن بیری" (Gene Roddenberry)، جو اسٹار ٹریک کے خالق ہیں ، انہوں نے دور دراز منتقلی اس ڈرامائی سلسلے میں اس لئے متعارف کرائی کیونکہ پیراماؤنٹ ا سٹوڈیو کا بجٹ مہنگے خصوصی اثر پیدا کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ جس میں دور دراز کے سیاروں پرسے اڑتے اور اترتے ہوئے خلائی جہازوں کی نقل کی جاتی۔یہ ایک نسبتاً سستا نسخہ تھا کہ انٹرپرائز کے عملے کو ان کی منزل تک روانہ کر دیا جائے۔


وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں نے دور دراز منتقلی کے ممکن ہونے پر کئی قسم کا اعتراضات داغ دیئے۔کسی شے کو دور دراز منتقل کرنے کے لئے سب سے پہلے تو کسی بھی جاندار کے جسم میں موجود ایٹموں کی بالکل صحیح جگہ معلوم ہونی چاہئے۔ شاید یہ بات ہائیزن برگ کے" اصول عدم یقینی"(Uncertainty Principle) کی خلاف ورزی ہوگی (اس اصول کے مطابق کسی بھی الیکٹران کی صحیح جگہ اور بالکل ٹھیک سمتی رفتار کو بیک وقت معلوم نہیں کیا جا سکتا۔) "اسٹار ٹریک" کو پیش کرنے والے نے ناقدین کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے "ہائیزن برگ کا آلہ تثویب" ترسیلی کمرے میں متعارف کروایا ، اور کمرے میں ایک ترکیب طراز آلے کا اضافہ کر دیا جو کوانٹم طبیعیات کے قوانین کا ازالہ کر دیتا تھا۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ہائیزن برگ کے آلہ تثویب کی ضرورت قبل از وقت تھی۔ اس وقت کے سائنس دان اور ناقدین شاید غلط تھے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
4۔ دور دراز منتقلی (Teleportation) - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

دور دراز منتقلی اور کوانٹم نظریہ

نیوٹن کے مفروضے کے مطابق ، دور دراز منتقلی واضح طور پر ناممکن ہے۔ نیوٹن کے قوانین اس بات پر تکیہ کرتے ہیں کہ مادّہ چھوٹی ساخت کی گیندوں سے بنا ہے ، کوئی چیز اس وقت تک حرکت نہیں کرتی جب تک اس کو دھکا نہ دیا جائے۔ چیزیں اچانک غائب ہو کر کہیں اور نمودار نہیں ہوتیں۔


مگر کوانٹم نظریئے میں بعینہ ذرّات ایسا ہی کرتے ہیں۔ نیوٹن کے قوانین جو ڈھائی سو برس سے حکمرانی کر رہے تھے ان کا تختہ ١٩٢٥ء میں اس وقت الٹ دیا گیا جب ورنر ہائیزن برگ ، ایرون شروڈنگر اور ان کے ساتھیوں نے کوانٹم کے نظریئے کو پایا تکمیل تک پہنچایا۔ جب ایٹموں کے عجیب خصائص کا تجزیہ کیا گیا ، تو اس وقت طبیعیات دانوں نے دریافت کیا کہ الیکٹران موجوں کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں اور وہ ایٹم کے اندر بے ربط نظر آنے والی حرکتوں میں رہتے ہوئے کوانٹم کی چھلانگیں لگا سکتے ہیں۔


کوانٹم کی موجوں کے ساتھ سب سے زیادہ قریبی تعلق ویانوی طبیعیات داں ایرون شروڈنگر کا تھا جس نے وہ شہرۂ آفاق مساوات لکھی تھی جو اس کے نام سے منسوب ہے۔یہ مساوات کیمیاء اور طبیعیات کی دنیا میں سب سے زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے۔ سند فضلیت حاصل کرنے والے تعلیمی اداروں نے پورے کے پورے کورس اس مشہور زمانہ مساوات کو حل کرنے کے لئے مختص کئے ہوئے ہیں، طبیعیات کی لائبریریاں ان کتابوں سے بھری ہوئی ہیں جو اس سے حاصل کردہ نتائج کا جائزہ پیش کرتی ہیں۔ اصولی طور پر کیمیاء کے پورا علم کم ہو کر اس مساوات کے حل جتنا ہو سکتا ہے۔


١٩٠٥ء میں آئن سٹائن نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ روشنی کی موجیں ذرّات جیسے خصائص کی حامل بھی ہو سکتی ہیں یعنی ان کو توانائی کے بنڈلوں میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے جن کو فوٹون کہتے ہیں۔ ١٩٢٠ء میں شروڈنگر پر یہ بات آشکار ہو گئی تھی کہ اس کے برخلاف ہونا بھی ممکن ہے یعنی کہ الیکٹران جیسے ذرّات بھی موج جیسا برتاؤ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ خیال سب سے پہلے ایک فرانسیسی طبیعیات داں" لوئس دی بروگلئی"(Louis de Broglie) نے پیش کیا۔ اپنے اندازہ پر اس نے نوبل انعام جیتا۔( اس بات کو ہم اپنے سند فضیلت حاصل کرنے والے طلبہ پر جامعہ میں واضح کرتے ہیں۔ ہم الیکٹران کو "منفیری شعاعی نلکی "(Cathode Ray Tube) میں ڈالتے ہیں ،یہ نلکی عام طور سے ٹیلی ویژن میں پائی جاتی ہے۔جب الیکٹران ایک ننھے سے سوراخ سے گزرتے ہیں ،تو اس جگہ جہاں الیکٹران ٹیلی ویژن کی اسکرین پر ٹکراتے ہیں وہاں پر چھوٹے نقطے دکھائی دینے چاہیں لیکن اس کے برخلاف ہمیں مرتکز موجی حلقے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مرتکز موجی حلقے اس وقت دیکھے جاتے ہیں جب ذرّات کے بجائے موج اس سوراخ میں سے گزرتی ہے ۔)


ایک دن شروڈنگر اس پر تجسس غیر معمولی بات پر لیکچر دے رہا تھا تو اس کے رفیق طبیعیات دان ، "پیٹر ڈبیی"(Peter Debye) نے اس کو للکارتے ہوئے پوچھا :اگر الیکٹران موج کی صورت میں بیان کیے جا سکتے ہیں تو ان کی مساوات کیا ہے؟


جب سے نیوٹن نے "علم الاحصاء"(Calculus) کو ایجاد کیا تھا ، طبیعت داں موجوں کو "تفرقی مساوات "(Differential Equations)میں بیان کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔ لہٰذا شروڈنگر نے ڈیبی کے سوال کو ایک چیلنج کی طرح لیا۔ اس چیلنج میں اسے سرخ رو ہونے کے لئے الیکٹران کی موجوں کو تفرقی مساوات میں بیان کرنا تھا۔ اس مہینے جب شروڈنگر چھٹیوں پر گیا تو واپسی پر اس کے ساتھ وہ شہرہ آفاق مساوات موجود تھی۔ لہٰذا اس سے پہلے جیسے میکسویل نے فیراڈے کی قوّت میدان کو لے کر اس سے روشنی کی مساوات اخذ کی تھی ، بعینہ ایسے ہی شروڈنگر نے ڈی بروگلئی کی "مادّے کی موجوں "کو لے کر "شروڈنگر مساوات برائے الیکٹران" بنا لی۔


(دنیائے سائنس کے مورخوں نے اس بات کو جاننے کی تھوڑی سعی کی ہے کہ اس وقت شروڈنگر کیا کر رہا تھا جب اس نے اپنی یہ مساوات دریافت کی تھی ،جس نے ہمیشہ کے لئے جدید طبیعیات اور کیمیاء کی دنیا کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ بظاہر طور پر شروڈنگر ایک آزاد منش آدمی تھا اور ان چھٹیوں کے دوران اس کے ساتھ اس کی محبوبہ اور بیوی بھی موجود تھے۔ بلکہ وہ تو ایک ڈائری بھی لکھتا تھا جس میں اس نے اپنی تمام محبوباؤں کی تفصیلات درج کی ہوئی تھیں ، ہر تفصیل کے ساتھ ایک رمز بھی لکھتا تھا جو ہر الگ ملاقات کے لئے مختلف ہوتا تھا۔ مورخین کو یقین ہے کہ جب اس نے یہ مساوات دریافت کی تھی تو وہ "الپس"(Alps) میں واقع "قصر ہرویگ"(Villa Herwig) میں اپنی معشوقہ کے ساتھ اختتام ہفتہ والے دن موجود تھا۔)


جب شروڈنگر نے اپنی مساوات سے ہائیڈروجن کے ایٹم کو حل کرنے کی شروعات کی تو اس نے خلاف توقع ہائیڈروجن کی توانائی کے ہوبہو وہ ہی مدارج پائے جو انتہائی احتیاط کے ساتھ پرانے طبیعیات دانوں نے فہرست کی صورت میں منظم کئے ہوئے تھے۔ تب اس کو احساس ہوا کہ نیلز بوہر کے ایٹم کی پرانی تصویر اصل میں غلط تھی جو الیکٹرانوں کو مرکزے کے گرد بھوں بھوں کرتی دکھاتی ہے (یہ تصویر آج بھی کتابوں اور جدید سائنس کو بیان کرنے کی کوشش میں دیئے جانے والے اشتہاروں میں دکھائی جاتی ہے۔)۔ ان مداروں کو ان موجوں سے بدلا جانے چاہئے تھا جو مرکزے کے گرد موجود ہیں۔


شروڈنگر کے کام نے طبیعیاتی دنیا میں ایک بھونچال مچا دیا۔ یکدم سے طبیعیات دان ایٹم کے اندر جھانکنے کے قابل ہو گئے تھے۔ اب وہ ایٹم کے الیکٹرانی خول بنانے والی موجوں کی تفصیل سے جانچ پڑتال کر سکتے تھے۔ اب وہ مدار میں موجود تو انائی کے مدارج کی بالکل درست پیش گوئی کر سکتے تھے جو نگینے کی طرح فٹ تھیں۔


مگر آج بھی پریشان کن سوال اپنی جگہ پر موجود ہے جو طبیعیات دانوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ اگر الیکٹران کو موج کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے تو پھر وہ موج کیا ہے؟ اس کا جواب ایک طبیعیات دان" میکس بورن"(Max Born) نے دیا جس نے کہا کہ یہ موجیں اصل میں امکانی موجیں ہیں۔ یہ موجیں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت صرف الیکٹران کے موجود ہونے کے اتفاق کو بیان کر تی ہیں۔ با الفاظ دیگرے ، الیکٹران ذرّے ہیں، مگر اس ذرّے کو پانے کا امکان شروڈنگر کی موج نے دیا ہے۔ جتنی بڑی موج ہوگی اتنا ہی زیادہ امکان ذرّے کو اس نقطے پر تلاش کرنے کا ہوگا۔


درست طور پر ہوبہو پیش گوئی کرنے والی طبیعیات جو ستاروں ، سیار چوں سے لے کر توپ کے گولے کی تفصیلی خط پرواز کو بیان کرتی تھی۔ اچانک ہی اس پیش رفت کے ساتھ ہی بدل گئی تھی۔ یکدم سے احتمال اور امکان سیدھے اس کے قلب میں متعارف ہو گئے تھے۔



یہ غیر یقینی قطعی طور پر ہائیزن برگ کے "اصول عدم یقین" کو پیش کرنے کے ساتھ ہی تدوین ہو گئی تھی ، اس مفروضے میں الیکٹران کی سمتی رفتار اور اس کے مقام کو بیک وقت نہیں جانا جا سکتا تھا۔ کوانٹم کے پیمانے پر عقل عامہ پر کام کرنے والے قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ :الیکٹران غائب ہو کر کہیں پر بھی ظاہر ہو سکتے ہیں اور الیکٹران بیک وقت کئی جگہ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔


(آئن سٹائن جس کو کوانٹم نظریئے کا باپ کہتے ہیں وہ بنیادی طبیعیات میں امکان اور احتمال کو متعارف کروانے سے انتہائی خائف تھا۔ اس نے ١٩٠٥ء میں شروڈنگر کا ساتھ دے کر اس انقلاب کو شروع کرنے میں مدد کی تھی جس میں ہمیں موجی مساوات حاصل ہوئیں۔ آئن سٹائن نے لکھا "کوانٹم میکانیات کی میں بہت زیادہ عزت کرتا ہوں ، مگر دل کی آواز کہہ رہی ہے کہ یہ سچا جیکب نہیں ہے۔ نظریہ کافی جاندار ہے ، مگر بمشکل ہمیں بوڑھے آدمی کے راز کے قریب لے جاتا ہے۔ کم از کم میں اس بات سے مطمئن ہوں کہ وہ [خدا]پانسے نہیں پھینکتا۔")


ہائیزن برگ کا نظریہ انقلابی اور متنازعہ دونوں ہی تھا لیکن وہ کام کرتا تھا۔ اس کی بدولت طبیعیات ایک ہی ہلے میں کئی الجھا دینے والے مظاہر کو بیان کر سکتی ہے، جس میں کیمیائی قوانین بھی شامل ہیں۔ میں اپنے پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کو اکثر کوانٹم نظریئے کے انوکھے پن سے متاثر کرنے کے لئے اکثر سوال کرتا ہوں کہ ذرا حساب لگا کر بتائیں کہ ان کے جسم میں موجود تمام ایٹموں کو اچانک حل ہو کر اینٹوں سے بنی دیوار کے دوسری جانب ظاہر ہونے کا کیا امکان ہے۔ ایسی کوئی بھی دور دراز منتقلی نیوٹن کی طبیعیات میں ناممکنات میں سے ہے لیکن کوانٹم میکانیات اس مظاہر کی اجازت دیتی ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے کسی بھی مظاہر کے وقوع پذیر ہونے کے لئے کائنات کی عمر سے بھی زیادہ انتظار کرنا پڑے گا۔(اگر آپ اپنے جسم کی شروڈنگر موج کو کمپیوٹر گراف کے ذریعہ بنائیں تو اس موج کی تمام خصوصیات آپ کے جسم سے مشابہ ہوں گی سوائے اس کے کہ گراف تھوڑا سا دھندلا ہوگا اور آپ کے جسم کی کچھ موجیں ہر اطراف میں پھوار کی شکل میں نکل رہی ہوں گی۔اصل میں تو آپ کے جسم کی کچھ موجیں تو دور دراز کے ستاروں تک جا پہنچ رہی ہوں گی۔ لہٰذا اس بات کا بہت ہی کم احتمال ہے کہ ایک دن جب آپ نیند سے بیدار ہو کر اٹھیں تو خود کو کسی دور دراز کے سیارے پرپائیں۔)


کیمیاء کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ الیکٹران ایک ہی وقت میں کئی جگہوں پر ہو سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ الیکٹران مرکزے کے گرد دائرے میں ہوتے ہیں، جیسا کہ ایک صغاری نظام شمسی۔ مگر ایٹم اور نظام شمسی میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اگر دو نظام شمسی خلاء میں ٹکرا جائیں ، تو نظام ہائے شمسی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور سیارے خلائے بسیط میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ اس کے برخلاف جب ایٹم ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو وہ اکثر الیکٹران کو آپس میں بانٹ کر پائیدار سالمات بناتے ہیں۔ کالج کی کیمیاء کی جماعت میں اکثر اساتذہ اس بات کو چپکے ہوئے الیکٹران سے بیان کرتے ہیں جو ایک فٹ بال سے مشابہ ہوتا ہے جس میں دو ایٹم آپس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔لیکن کیمیاء کے اساتذہ جس بات کا ذکر گول کر جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ الیکٹران دو ایٹموں کے درمیان چپکے ہوئے نہیں ہوتے۔ یہ فٹ بال اصل میں اس امکان کو ظاہر کرتی ہے کہ الیکٹران کئی جگہ پر ایک ساتھ اس فٹ بال میں موجود ہو سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ تمام کیمیاء جو ہمارے جسم کے اندر موجود سالموں کو بیان کرتی ہے اس کی بنیاد اس پر منحصر ہے کہ الیکٹران بیک وقت میں کہیں بھی کسی بھی جگہ پر موجود ہو سکتے ہیں اور یہ ان الیکٹران کی دو ایٹموں کے درمیان شراکت داری ہی ہے جس نے ہمارے جسم کے سالموں کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ کوانٹم نظریئے کے بغیر ہمارے جسم کے ایٹم اور سالمات فی الفور تحلیل ہو جائیں گے۔


کوانٹم نظریئے کی اس مخصوص لیکن انتہائی عمیق خصوصیت (یعنی کہ سب سے زیادہ عجیب و غریب چیز وقوع پذیر ہونے کا امکان محدود ہے ) کا استحصال" ڈگلس ایڈم" (Douglas Adams)نے اپنی مزاحیہ ناول "دی ہیچ چکر س گائیڈ ٹو دی گیلیکسی "(The Hitchhiker's Guide to the Galaxy) میں کیا۔ اس کو ایک کہکشاں میں تیزی سے گزرنا تھا لہٰذا اس نے ایک لامحدود بعید از قیاس ڈرائیو کو ایجاد کیا "ایک زبردست حیران کن تھکا دینے والی غلیظ اضافی خلاء کو استعمال کئی بغیر لمحوں میں بین النجم فاصلے طے کرنے کا بالکل نیا طریقہ۔" اس کی بنائی ہوئی مشین آپ کو اس قابل کر دیتی تھی کہ آپ اپنی مرضی سے کوانٹم واقعات کو تبدیل کر دیں اس طرح سے بہت زیادہ نا قابل اعتبار واقعات بھی عام واقعات بن جاتے تھے۔ لہٰذا اگر آپ قریبی نظام ہائے شمسی کی طرف جانا چاہتے ہیں تو آپ صرف امکان کو تبدیل کریں اور بتائیں کہ آپ کس ستارے پر جانا چاہتے ہیں اور یہ لیں !!! آپ فی الفور وہاں پر منتقل کر دیئے گئے ہیں۔


حقیقت میں ایٹم کے اندر کوانٹم کی چھلانگیں بہت زیادہ عام ہیں لیکن ان کو بڑے اجسام مثلاً انسانوں پر آسانی سے لاگو نہیں کیا جا سکتا جن میں کھرب ہا کھرب ایٹم موجود ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے جسم میں موجود ایٹم ناچتے اور چھلانگیں مارتے ہوئے اپنے مرکزے کے گرد حیرت انگیز سفر میں مصروف بھی رہیں تو کافی دوسرے ایٹم ایسے موجود ہوں گے جو ان کے اس اثر کو زائل کر دیں گے۔ یعنی ہم ایسا کہنے میں بالکل بجا ہیں کہ بڑے پیمانے پر چیزیں ٹھوس اور پائیدار اسی لئے نظر آتی ہیں کہ دوسرے ایٹم ان کوانٹم چھلانگوں کا اثر زائل کر دیتے ہیں۔


لہٰذا دور دراز منتقلی کی ایٹمی پیمانے پر تو اجازت ہے لیکن بڑے پیمانے پر اس عجیب و غریب اثر کے وقوع پذیر ہونے اور اس کا مشاہدہ کرنے کے لئے کائنات کی عمر سے بھی زیادہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ مگر کیا کوئی کوانٹم قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ایسی مشین بنا لے جس کے ذریعہ کسی بھی شئے کو اپنی مرضی سے دور منتقل کیا جا سکتا ہو جیسا کہ سائنس فکشن میں دکھایا جاتا ہے؟ حیرت انگیز طور پر اس کا جواب مثبت ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
4۔ دور دراز منتقلی (Teleportation) - حصّہ سوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

ای پی آر کا تجربہ

کوانٹم دور دراز منتقلی کی کنجی اس مقالے میں موجود ہے جو ١٩٣٥ء میں البرٹ آئن سٹائن اور اس کے ساتھیوں جس میں "بورس پوڈول اسکائی"(Boris Podolsky) اور" ناتھن روزن" (Nathan Rosen) شامل تھے پیش کیا۔ جس کا نام ای پی آر تجربہ تھا (اس کا نام تینوں مصنفین کے شروع کے ناموں کے حروف تہجی کو لے کر بنایا یعنی Einstein Podolsky Rosen )اس مقالے کا مقصد ہمیشہ کے لئے طبیعیات میں سے امکانات کا خاتمہ کرنا تھا۔ کوانٹم نظریئے کی ناقابل تردید تجرباتی کامیابی پر ماتم کرتے ہوئے آئن سٹائن لکھتا ہے "کوانٹم کا نظریئے جتنا زیادہ کامیاب ہوگا اتنا زیادہ ہی مضحکہ خیز لگے گا۔"


اگر دو الیکٹران شروع میں ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھر آئیں (وہ حالت جو "اتصال"[[Coherence کہلاتی ہے ) تو وہ موج جیسی "ہم وقت کاری"(Synchronization)کی حالت میں اس وقت بھی رہیں گے جب ان کے درمیان ایک طویل فاصلہ جدائی ڈال دے۔ اگرچہ وہ دو الیکٹران ایک دوسرے سے دور کچھ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہیں لیکن اس وقت بھی ایک غیر مرئی شروڈنگر موج ان دونوں کو "حبل سری"(Umbilical Cord) کی طرح سے جوڑے ہوئے ہوگی۔ اگر کسی ایک الیکٹران میں کچھ تبدیلی ہوگی تو اس کی کچھ اطلاع فوراً ہی دوسرے الیکٹران کو ہو جائے گی۔ یہ" کوانٹم کا الجھاؤ"(Quantum Entanglement) کہلاتا ہے ، اس تصوّر میں وہ ذرّات جو ایک دوسرے کے ساتھ اتصال میں رہ کر تھر تھرا تھے ان میں کسی قسم کا گہرا رابطہ ہوتا ہے جو ان کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے۔


اس کو سمجھنے کے لئے چلیں ان دو اتصالی الیکٹران سے شروع کرتے ہیں جو ہم آہنگی کے ساتھ جھول رہے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ان کو مخالف سمتوں میں بھگا دیتے ہیں۔ ہر الیکٹران ایک گھومتے ہوئے لٹو کی طرح ہے۔ ہر الیکٹران کا گھماؤ اوپر یا نیچے کی جانب کیا جا سکتا ہے۔ فرض کریں کہ اس نظام کا مکمل گھماؤ صفر ہے لہٰذا اگر ایک الیکٹران کا گھماؤ اوپر کی جانب ہوگا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دوسرے الیکٹران کا گھماؤ نیچے کی جانب ہونا چاہئے۔ کوانٹم نظریئے کے مطابق اس گھماؤ کو ناپنے سے پہلے ، وہ الیکٹران نہ تو اوپر کی طرف گھوم رہا ہوگا نہ ہی نیچے کی طرف بلکہ وہ ایک ایسی حالت میں ہوگا جس میں وہ اوپر نیچے دونوں اطراف میں بیک وقت گھوم رہا ہوگا۔(ایک دفعہ اگر آپ نے اس کا مشاہدہ کر لیا ، موجی فعل منہدم ہو جائے گا اور ذرّہ ایک معین حالت میں آ جائے گا۔)


اگلا مرحلہ الیکٹران کے گھماؤ کو ناپنے کا ہے ۔ فرض کریں کہ ایک الیکٹران اوپر کی طرف گھوم رہا ہے تو فوری طور پر آپ کو دوسرے الیکٹران کا معلوم ہو جائے گا کہ وہ نیچے کی جانب گھوم رہا ہوگا۔ اب اگر ان الیکٹرانوں کو آپس میں کئی نوری برس دور پر کر دیا جائے تو آپ اس دور والے الیکٹران کے گھماؤ کو پہلے والے الیکٹران کے گھماؤ کو ناپنے کے ساتھ ہی معلوم کر سکتے ہیں۔در حقیقت آپ کو یہ بات روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے معلوم ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ دونوں الیکٹران اتصالی ہیں یعنی ان کا موجی فعل ایک ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا رہا ہے ، ان کا موجی فعل ایک غیر مرئی دھاگے یا حبل سری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک پر جو گزرے گی دوسرے پر اس کا اثر خود کار طریقے سے ہوگا۔(اس کا مطلب ایک طرح سے یہ بھی ہوا کہ ہم پر جو گزرتی ہے یہ بات خود بخود فی الفور کائنات کے دور دراز مقام پر بھی اثر انداز ہوتی ہوگی کیونکہ شاید ہمارا موجی فعل وقت کی شروعات سے حالت اتصال میں ہے۔ ایک طرح سے اتصال کا ایک جال کائنات میں پھیلا ہوا ہے جو کائنات کے دور دراز کے مقامات کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے جس میں ہم بھی شامل ہیں۔) آئن سٹائن اس کا مذاق "دور دراز میں پراسرار عمل"(Spooky-action-at-distance) کہہ کر اڑاتا تھا اور یہ ہی وہ مظہر تھا جس نے آئن سٹائن کو مجبور کیا کہ وہ اس نظریئے کو غلط سمجھے۔ کیونکہ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی۔


آئن سٹائن کے ای پی آر تجربے کا مقصد کوانٹم نظریئے کو ہمیشہ صفحہ ہستی سے مٹانا تھا۔ لیکن ١٩٨٠ء میں "ایلن اسپیکٹ"(Alan Aspect) اور ان کو رفقائے کاروں نے فرانس میں اس تجربے کو دو سراغ رساں آلات کے ذریعہ کیا جو ایک دوسرے سے تیرا میٹر کے فاصلے پر رکھے ہوئے تھے۔ اس میں انہوں نے کیلشیم کے ایٹموں سے خارج ہونے والے فوٹون کے گھماؤ کو ناپا۔ اس تجربے کا نتیجہ ہوبہو کوانٹم نظریئے سے ہم آہنگ نظر آیا۔ ایسے نظر آنے لگا جیسے خدا کائنات سے پانسوں سے کھیل رہا ہو۔


کیا اطلاعات واقعی روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر سکتی ہیں ؟کیا آئن سٹائن روشنی کے رفتار کے بارے میں غلط تھا جس میں وہ اس رفتار کو کائنات میں موجود کسی بھی چیز کی رفتار سے تیز سمجھتا تھا ؟ ایسا نہیں ہے۔ اطلاعات سریع از نور رفتار سے تیز سفر کر سکتی ہیں لیکن یہ اطلاعات بے ربط اور ناقابل استعمال ہوں گی۔ ہم کوئی معنی خیز اطلاع یا مورس کا ضابطہ (فصلوں یا ان کے مماثل آوازوں یا اشاروں کا نظام جو اشاراتی پیغام رسانی میں استعمال ہوتا ہے) اس ای پی آر تجربے کے ذریعہ نہیں بھیج سکتے چاہے وہ اطلاع روشنی کی رفتار سے تیز ہی کیوں نا ہو۔


یہ اطلاع کہ کائنات کے دوسری جانب موجود الیکٹران کا گھماؤ نچلی طرف ہے ، ہمارے لئے بیکار ہوگی۔ ہم اس کے ذریعہ آج کے بازار حصص کی قیمتیں نہیں بھیج سکتے۔ اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں، فرض کریں کہ ایک دوست ہمیشہ ایک لال اور ایک سبز جرابیں کبھی ایک پیر میں تو کبھی دوسرے پیر میں پہنتا ہے۔ فرض کریں کہ آپ اس کا ایک پیر دیکھتے ہیں جس میں اس نے سرخ جراب پہن رکھی ہے اس کے ساتھ ہی آپ کو روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے معلوم ہو جائے گا کہ دوسرا موزہ ہرا ہے۔ اطلاع نے اصل میں روشنی کی رفتار سے تیز سفر کیا ہے لیکن یہ اطلاع بیکار ہے ۔ کوئی بھی ایسی اطلاع جو بے ترتیب ہو اس کو اس طریقے سے نہیں بھیجا جا سکتا۔


کافی برسوں تک ای پی آر کے تجربے کی کامیابی کا ڈھول کوانٹم نظریئے کے مخالفین کے سامنے پیٹا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی کامیابی ہے جس کا کوئی عملی کام نہیں ہے۔ سردست تو ایسا ہی ہے۔



کوانٹم دور دراز منتقلی

١٩٩٣ء سے بہت کچھ اس وقت بدل گیا جب آئی بی ایم کے سائنس دانوں نے "چارلس بینیت "(Charles Bennett) کی سرکردگی میں اس بات کو ثابت کیا کہ کم از کم جوہری پیمانے پر ای پی آر تجربے کو دہراتے ہوئے جسمانی طور پر اشیاء کو دور دراز طور پر منتقل کرنا ممکن ہے۔(اس بات کو زیادہ درست طور پر ایسا کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ تمام اطلاعات جو ذرّہ میں موجود ہیں ان کو دور دراز منتقل کیا جا سکتا ہے۔) تب سے طبیعیات دان فوٹون کو بلکہ سیزیم کے پورے ایٹموں کو دور دراز منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے چند عشروں میں سائنس دان پہلا ڈی این اے کا سالمہ اور جرثومے کو دور دراز منتقل کر نے کے قابل ہو جائیں۔


کوانٹم دور دراز منتقلی ای پی آر تجربے کی کچھ عجیب و غریب خواص سے استفادہ اٹھاتی ہے۔ اس دور دراز منتقلی کا تجربہ طبیعیات دان دو ایٹموں سے شروع کرتے ہیں جن کو ہم الف اور ج کہہ سکتے ہیں۔ فرض کریں کہ ہم اطلاع کو الف سے لے کر ج تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ایک تیسرے ایٹم ب سے شروع کرنا ہوگا۔ اس ب ایٹم کو ج ایٹم کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہوگا تاکہ ب اور ج دونوں مربوط ہو جائیں۔ اب ایٹم الف ب کے ساتھ اپنا رابطہ قائم کرتا ہے۔ الف ، ب کا معائنہ کرتا ہے تاکہ الف میں موجود اطلاع ب میں منتقل ہو جائے۔ اس عمل میں الف اور ب ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ لیکن کیونکہ شروع میں ب اور ج ہم آہنگ تھے اس لئے الف میں موجود اطلاع اب ج میں موجود ایٹم میں منتقل ہو جاتی ہے۔ مختصراً طور پر ایٹم الف ایٹم ج میں منتقل ہو جاتا ہے یعنی کہ الف میں موجود اطلاع اب ج میں موجود اطلاع کے برابر ہو گئی ہے۔


یہ بات غور طلب ہے کہ ایٹم الف میں موجود اطلاع ختم ہو گئی (لہٰذا منتقلی کے بعد ہمارے پاس اطلاع کی دو نقول موجود نہیں ہوں گی )۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو بھی دور دراز منتقل ہوگا اس کو اس عمل میں ختم ہونا ہوگا۔ لیکن اس کے جسم میں موجود اطلاعات کہیں دوسری جگہ پر ظاہر ہو جائیں گی۔یہ بات بھی توجہ طلب ہے ایٹم الف اپنی جگہ بدل کر ایٹم ج کی طرف نہیں چلا جائے گا۔ یہ تو ایٹم الف میں موجود اطلاع ہوگی(مثلاً اس کا گھماؤ اور تقطیب[Polarization] )جو ج کو منتقل ہوگی۔( اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایٹم الف تحلیل ہو کر کسی دوسری جگہ پر بھیج دیا جائے گا بلکہ اس کا مطلب ہوگا کہ ایٹم الف میں موجود اطلاع ایک اور ایٹم ج میں منتقل ہو جائے گا۔)


اس دریافت کے اعلان کے بعد سے اس میدان میں ہونے والا مقابلہ انتہائی سخت ہو گیا تھا اور مختلف سائنس دانوں کی جماعتیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششوں میں لگی ہوئی تھیں۔ سب سے پہلی تاریخی کوانٹم دور دراز منتقلی١٩٩٧ء میں یونیورسٹی آف انسبرک میں ہوئی جس میں بالائے بنفشی فوٹون کو دور دراز منتقل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اگلے سال ہی کیلٹیک میں زیادہ درستگی کے ساتھ ایک تجربہ کیا گیا جس میں فوٹونوں کو دور دراز منتقل کیا گیا۔


٢٠٠٤ء میں یونیورسٹی آف ویانا کے طبیعیات دانوں نے روشنی کے ذرّے کو چھ سو میٹر دریائے ڈینیوبی کے نیچے سے فائبر –آپٹکس تاروں کے ذریعہ منتقل کرکے ایک نیا ریکارڈ بنا لیا تھا۔(یہ تار بذات خود آٹھ سو میٹر لمبی تھی اور عوامی نکاسی نالے میں ڈالی گئی تھی جو دریائے ڈینیوبی کے نیچے موجود تھا۔ بھیجنے والا اس کے ایک سرے پر کھڑا تھا۔ جبکہ وصول کنندہ دوسرے حصے پر موجود تھا۔


ان تجربات کو اکثر یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس میں روشنی کے ذرّے استعمال کئے گئے ہیں۔ جو سائنسی قصوں سے کہیں دور ہیں۔ لہٰذا جب ٢٠٠٤ء میں کوانٹم دور دراز منتقلی روشنی کے ذرّوں کے بجائے ایٹموں پر کی گئی تو یہ ایک انتہائی اہم سنگ میل تھا جو ہمیں مستقبل کے کسی بھی دور دراز آلے کی جناب نزدیک کر رہا تھا۔واشنگٹن ڈی سی میں واقع نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹینڈرڈس اینڈ ٹیکنالوجی کے طبیعیات دانوں نے کامیابی کے ساتھ بیریلیئم کے تین ایٹموں کو آپس میں الجھا کر ایک ایٹم کے خصائص دوسرے ایٹم میں منتقل کر دیئے تھے۔ یہ تجربہ اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ اس نے نیچر میگزین کے سرورق پر جگہ بنائی۔ دوسرے ایک اور گروپ نے بھی کامیابی کے ساتھ کیلشیم کے ایٹموں کو دور منتقل کر دیا تھا۔


٢٠٠٦ء میں ایک اور نہایت ہی شاندار پیش قدمی ہوئی جس میں پہلی دفعہ کسی بڑی شئے کا استعمال کیا گیا تھا۔ کوپن ہیگن میں واقع نیلز بوہر انسٹیٹیوٹ اور جرمن میں واقع میکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں طبیعیات دان روشنی کی کرن کو سیزیم کی گیس کے ایٹموں کے ساتھ اتصال کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس میں کھرب ہا ایٹم شامل تھے۔ پھر انہوں نے اطلاعات کو لیزر کی ضربوں میں منتقل کرکے اس اطلاع کو آدھے گز کے فاصلے پر سیزیم کے ایٹموں میں منتقل کر دیا۔ "یوجین پولزک" (Eugene Polzik) جو دور دراز منتقلی پر کرنے والی تحقیق کرنے والوں میں سے ایک ہیں انہوں نے کہا ، " پہلی دفعہ کوانٹم دور دراز منتقلی روشنی - جو اطلاعات کو لے کر جا رہی تھی - اور ایٹموں کے درمیان حاصل کر لی گئی ہے۔"

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 
Top