ناموسِ رسالت ﷺ کو بلند کیجئے

ناموسِ رسالت ﷺ کو بلند کیجئے

ناک کو انسانی چہرے پر اونچا اور نمایامقام رکھتا ہے ‘ چہرے کو سڈول اور خوبصورت بناتا ہے ۔
ناک کا اصل کام تو سونگھنا اور سانس لینا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ ناک اونچی رکھنے یعنی جھوٹی شان و شوکت‘ عزت و آبرو اور غرور و تکبر جتانے میں استعمال ہوتا ہے ۔
ہر دور میں مغرور و متکبر لوگ اللہ کے بندوں کو تحقیر و تذلیل اور ظلم و زیادتی کا نشانہ بناکر اپنی ناک اونچی رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور دنیا میں دردناک‘ وحشت ناک‘ افسوس ناک‘ تشویش ناک‘ ہیبت ناک ‘ غم ناک‘ خوف ناک‘ خطرناک‘ شرمناک ‘ عبرت ناک انجام سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ اور آج بھی ہو رہے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے۔
اللہ رب العزت تو اپنے ادنٰی ترین بندے کی بھی تحقیر و تذلیل برداشت نہیں کرتے چہ جائکہ کہ کوئی اللہ کے محبوب ترین ہستی کو اہانت کا نشانہ بنائے۔ جب مکہ کے قریش سرداروں نے آنحضرت ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی تو اللہ نے انہیں دنیا میں ہی عبرت کا نمونہ بنا دیا۔ ابوجہل و ابو لہب کے عبرتناک انجام سے کون واقف نہیں۔ اور ولیدبن مغیرہ جو کہ بڑا بدذات تھا۔ اس کی بدذاتی یہ تھی کہ جھوٹا‘بات بات پر قسمیں کھانے والا‘ چغل خور‘ نیک کاموں سے روکنے والا‘ بد مزاج‘ سرکش حرامی تھا۔ مال و اولاد کا بڑا گھمنڈ تھا۔ اس بد بخت نے اللہ کے پیارے نبی ﷺ کو دیوانہ کہا تھا جس سے مقصود نبوت کا ابطال تھا۔ اس کے جواب میں اللہ سبحانہ و تعالٰی نے پہلے اپنے حبیب ﷺ کی نبوت ‘ آپ ﷺ کے اخلاق حمیدہ اور اجرِ آخرت بڑی واضح دلائل سے ثابت کرکے جنون کی نفی کی:

ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ ﴿١
ن، قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں
مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ ﴿٢
)اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیں،
وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ ﴿٣
اور بے شک آپ کے لئے ایسا اَجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا،
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿٤
اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)،
فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ ﴿٥
پس عنقریب آپ (بھی) دیکھ لیں گے اور وہ (بھی) دیکھ لیں گے،
بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ ﴿٦
کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے،
﴿٦ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴿٧
بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے، اور وہ ان کو (بھی) خوب جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں، ( سورة القلم)

پھر آپ ﷺ کے خلق عظیم کے مقابلے اس بدبخت کے دس عیوب بیان فرما دیئے:

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ﴿١٠﴾
اور آپ کسی ایسے شخص کی بات نہ مانیں جو بہت قَسمیں کھانے والا اِنتہائی ذلیل ہے،
هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ﴿١١﴾
)جو) طعنہ زَن، عیب جُو (ہے اور) لوگوں میں فساد انگیزی کے لئے چغل خوری کرتا پھرتا ہے،
مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾
)جو) بھلائی کے کام سے بہت روکنے والا بخیل، حد سے بڑھنے والا سرکش (اور) سخت گنہگار ہے،
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿١٣﴾
)جو) بد مزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی) ہے
أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ ﴿١٤﴾
اِس لئے (اس کی بات کو اہمیت نہ دیں) کہ وہ مال دار اور صاحبِ اَولاد ہے،
إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿١٥﴾ سورة القلم
جب اس پر ہماری آیتیں تلاوت کی جائیں (تو) کہتا ہے: یہ (تو) پہلے لوگوں کے اَفسانے ہیں، ( سورة القلم)

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جتنے ذِلت آمیز اَلقاب باری تعالیٰ نے اس بدبخت (ولید بن مغیرہ) کو دئیے کلامِ اِلٰہی میں کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ اُس نے حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ اَقدس میں گستاخی کی، جس پر غضبِ اِلٰہی بھڑک اٹھا۔ ولید نے حضور نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کا ایک کلمہ بولا تھا، جواباً باری تعالیٰ نے اُس کے دس رذائل بیان کیے اور آخر میں نطفۂ حرام ہونا بھی ظاہر کر دیا، اور اس کی ماں نے بعد ازاں اِس اَمر کی بھی تصدیق کر دی۔ (تفسیر قرطبی، رازی، نسفی وغیرھم)


اور آخر میں اللہ اس کی ناک کو خاک ملا کر عبرتناک انجام تک پہنچایا:

سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ ﴿١٦﴾
’’اب ہم اس کی سونڈ جیسی ( اونچی) ناک پر داغ لگا دیں گے ‘‘ ( سورة القلم)

اللہ اس متکبر کو اور بھی سزا دے سکتا تھا‘ لیکن ناک پر داغ لگانے کی سزا کیوں تجویز کی ؟
کیونکہ ناک ہی جھوٹی عزت و آبرو اور غرور و تکبر کا نشان ہے ۔
اس لئےاس کی کفر خبیثانہ کی پاداش میں اس کے چہرے اور ناک کو داغدار کرکے اس کی جھوٹی عزت و آبرو اور غرور و تکبر کو خاک میں ملا دینا ہی شانِ رسول ﷺ میں گشتاخی اور اللہ کے ساتھ سرتابی‘ سرکشی کی مناسب سزا تھی ۔

یہ سزا ہر خبیث و کمینہ گستاخِ رسول اللہ ﷺ کے حق میں عام ہے۔

اور اس کے علاوہ دنیا اور آخرت میں لعنت اور ذلیل کرنے والا عذاب بھی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّ۔هَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّ۔هُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿٥٧﴾
’’بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صل اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ، اللہ ان پر دنیا اور اخرت میں لعنت کرتا ہے۔اور انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘(سورۃ احزاب)

ہم بھی بے شمار لعنت کرتے ہیں ایسے جھوٹے‘ خبیث‘ کمینے‘ بدذات‘ بد کار و بد کردار اور سرکش لوگوں پر جو ملحد‘ دہریہ‘ سیکولر اور اینکر وغیرہ کا روپ دھارے آنحضرت ﷺ کی شانِ اَقدس میں گستاخی کررہے ہیں اور مسلمانوں کے جذبات سے تمسخر کررہے ہیں۔ ان میں بعض سوشل میڈیا پر چھپ کر تو بعض الیکٹرونک میڈیا پر کھلے عام ان کی معاونت کرکے گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
اور حکومت میں بیٹھے لوگ اپنی ناک اونچی رکھنے اور اپنی حکومت بچانے کیلئے خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں بلکہ یہود ونصاریٰ اور قادیانیوں کو راضی کرنے کیلئے ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کرنے کی سوچ رہے ہیں۔
ایسا کبھی نہیں سوچئے۔
بلکہ قانون کے مطابق توہینِ رسالت کے گستاخوں کو سزائیں دیکر ناموسِ رسالت کی حفاظت کیجئے۔
ورنہ ملعون ملحد‘ دہریے اور سیکولر وغیرہ نے گستاخیٔ رسول اللہ ﷺ کی جو روش اپنائے ہوئے ہیں اس کا خمیازہ دنیا اور آخرت دونوں میں بھگتنا پڑے گا۔اللہ کی پکڑ جب آئے گی تو نہ حکومت رہے گی اور نہ ناک اونچی رہے گی۔

لہذا ناک اونچی کرنے کے بجائے ناموسِ رسالت ﷺ کو بلند کیجئے اور دونوں جہاں میں کامیاب ہو جایئے۔

آج کسی کی حکومت شہنشاہ فارس کسریٰ (خسرو پرویز ) کی حکومت سے بڑھ کر نہیں ہے ۔ جب اس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے آپ ﷺ کا خط پھاڑ دیا تو اللہ رب العزت نے اس کے بیٹے کے ہاتھوں ہی اسے قتل کروا کر اسے عبرت کا نمونہ بنا دیا اور س کی حکومت کو پارہ پارہ کر دیا۔ اورناموسِ رسالت کی حفاظت کرنے والوں کو اس ملک فارس )ایران( کا وارث بنا دیا۔

وطن عزیز پاکستان بھی ناموسِ رسالت کی حفاظت کرنے والوں کا ہے‘ ناموسِ رسالت پر مر مٹنے والوں کا ہے۔
یہ ملک مسلمانوں کا ہے۔ اسے کلمہ ’ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ‘ کی بنیاد پر اور کملی والے ﷺ کے نام پر ہی حاصل کیا گیا ہے۔
اگر ہم اس ملک میں ناموس محمد مصطفی ﷺ کی حفاظت نہیں کریں گے تو اللہ ہمارا نام بھی مٹا دے گا‘ جس طرح اندلس سے مٹا دیا۔

لہذا ناموس رسالت کی حفاظت کیجئے۔
شان ِمحمد مصطفی ﷺ کو سمجھئے۔
عظمتِ رسول اللہ ﷺ کو اپنے دل میں جگہ دیجئے۔
اپنے دل میں ایمان کی دیا جلایئے ‘ حب رسول ﷺ سے اپنے دل کو معمور کیجئے۔

اور ناک اونچی کرنے کے بجائے ناموسِ رسالت ﷺ کو بلند کیجئے۔​
 
Top