نازک مسائل اور ہمارا رویہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نور وجدان

لائبریرین
اتنی لمبی بحث ! ہم تو یہی کہتے ہیں

الف کے واسطے دل بھی ہے

الف کے لیے یہ جہاں بھی ہے۔​
الف نے رنگ سجایا ایہہ دنیا دا​
الف نے میم دے واسطے سوانگ رچایا۔​

میم ساڈے دل دی ہستی وچ سمایا ہے۔​
میم ساڈے انگ انگ وچ ،ذات نوں مست بنایا​
میم دی ہستی مستی اجی ویکھی کوئی نا​
میم نے فر وی دل وچ وسیب بنایا ہے​
 
اور چلیں آپ ہی بتا دیجئیے کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ ؟ شاید بات واضح ہو جائے
اللہ نے جیسا فرمایا کہ اس کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔ لہٰذا اس نے تمام انبیا پر یہی نازل فرمایا۔ پس جو شخص کسی بھی نبی کی شریعت پر چلتا ہے وہ مسلمان ہے۔ جو شخص کسی بھی نبی کا متبع نہیں مگر اچھائی کے انھی اصولوں پر خود اپنی عقل کی متابعت میں چلتا ہے جو فلاحِ دارین کے لیے اللہ نے سب انبیا کے وسیلے سے بتلائے اسے بھی مسلمان ہی گرداننا چاہیے۔ وجہ یہی کہ اسی مقصد کے لیے تمام انبیا بھیجے گئے تھے کہ انسان سیدھا ہو جائے۔ جو جس طرح بھی فلاح کی اس منزل کو پہنچ جائے وہ مسلمان ہے۔ ان سب باتوں کے حوالے ایک بار پھر یہ رہے:
دین اور ضابطے کے لحاظ سے اللہ تعالی قرآن کریم سورۃ آل عمران میں ارشاد فرماتے ہیں
اِنَّ الدِّینَ عِندَاللّٰہِ الاِسلَامُ
بیشک دین اﷲ کے نزدیک اسلام ہی ہے
وَاِذۡ يَرۡفَعُ اِبۡرٰهٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَيۡتِ وَاِسۡمٰعِيۡلُؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ‌ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ ﴿۱۲۷﴾ رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَيۡنِ لَ۔كَ وَ مِنۡ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسۡلِمَةً لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبۡ عَلَيۡنَاۚ اِنَّكَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿۱۲۸﴾ رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلاً مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡ‌ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿۱۲۹﴾ وَمَنۡ يَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّةِ اِبۡرٰهٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِهَ نَفۡسَهٗ‌ؕ وَلَقَدِ اصۡطَفَيۡنٰهُ فِىۡ الدُّنۡيَا‌ۚ وَاِنَّهٗ فِىۡ الۡاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿۱۳۰﴾ اِذۡ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسۡلِمۡ‌ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿۱۳۱﴾ وَوَصّٰى بِهَآ اِبۡرٰهٖمُ بَنِيۡهِ وَ يَعۡقُوۡبُؕ يٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰى لَ۔كُمُ الدِّيۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَؕ‏‏ ﴿۱۳۲﴾ اَمۡ كُنۡتُمۡ شُهَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ يَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِيۡهِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِىۡؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَآٮِٕكَ اِبۡرٰهٖمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ۖۚ وَّنَحۡنُ لَهٗ مُسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿۱۳۳﴾
اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت الله کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار، ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بےشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے ﴿۱۲۷﴾ اے پروردگار، ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھیو۔ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رہیو، اور (پروردگار) ہمیں طریق عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم کے ساتھ) توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے ﴿۱۲۸﴾ اے پروردگار، ان (لوگوں) میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان (کے دلوں) کو پاک صاف کیا کرے۔ بےشک تو غالب اور صاحبِ حکمت ہے ﴿۱۲۹﴾ اور ابراہیم کے دین سے کون رو گردانی کر سکتا ہے، بجز اس کے جو نہایت نادان ہو۔ ہم نے ان کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرہٴ) صلحا میں سے ہوں گے ﴿۱۳۰﴾ جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سر اطاعت خم کرتا ہوں ﴿۱۳۱﴾ اور ابرہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنے فرزندوں سے یہی کہا) کہ بیٹا خدا نے تمہارے لیے یہی دین پسند فرمایا ہے تو مرنا ہے تو مسلمان ہی مرنا ﴿۱۳۲﴾ بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے، تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اُسی کے حکم بردار ہیں ﴿۱۳۳﴾- سورۃ البقرۃ
ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ ہی کی آیت ۶۲:
جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست، (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے ﴿۶۲﴾
---
جو شخص نبی آخر الزمان کو نبی نہیں تسلیم.کرتا وہ کیا ہوتا ہے؟ ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں کیا گیا اور آپ پر ایمان لانے کا کہا گیا. تو جنھوں نے اپنی ہی کتاب کی بات نہ مانی وہ انکار کرنے والا نہیں؟ وہ کیا ہے؟
وہ ظالم ہوتا ہے۔ جو شخص کسی بھی نبی کی صداقت اور حقانیت کا انکار کرے وہ خدا کی بارگاہ میں مجرم ہے۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اب شریعت بھی ہمارے نبی والی مانی جائے میری دانست میں غلط ہے۔ ہر نبی اللہ کا پیغام لے کر آیا ہے۔ جس کی مان لیں فلاح پا جائیں گے۔
مرشدی! آپ نے سلام کر کے دیکھ لینا تھا۔ ;)
ہاہاہاہاہاہاہا۔ قبلہ و کعبہ، میں تو مشاہدہ کر رہا تھا۔ خود سلام کرنے لگتا تو فرق کیسے معلوم ہوتا دونوں گروہوں کا؟
یعنی خود جو اہل زبان بھی نہیں ہیں وہ قرآن کے معنی عربی کی لغات سے اور فقط تراجم سے سمجھا کریں؟ بہت خوب، دنیاوی علوم کے لیے نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یہ ستم ظریفی صرف قرآن کے ساتھ ہی کیوں؟ کوئی شخص ادویات کی فہرست دیکھ کر اگر علاج تجویز کرنے لگ جائے تو کیا آپ ایسے نیم حکیم سے کسی بھی موذی مرض کا علاج کروانا پسند کریں گے؟ یقیناً نہیں بلکہ سپیشلسٹ کو تلاش کریں گے کیونکہ جان کا معاملہ ہے، جبکہ ایمان کا معاملہ اتنا کمزور کے خود اپنے لیے دوا تجویز کرنے چلے ہیں؟ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ علما کے پابند ہو جائیں بلکہ اگر واقعی شوق اور ذوق ہے تو فقط لغات اور ترجموں سے کام نہیں چلے گا آپ کو ڈومین کا علم حاصل کرنا پڑے گا ورنہ اسی قرآن کریم میں فرما دیا گیا
یضل بہ کثیرا ویہدی بہ کثیرا
جن لوگوں نے ساری زندگی اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت کے لیے وقف کردی ہے ان کا امت پر بہت بڑا احسان ہے ان کو اس طرح حقارت سے پکارنا بے باکی سے آگے کی چیز ہے۔ کالی بھیڑیں تمام شعبوں میں ہوتی ہیں، مثلاً ہم سب کو معلوم ہے روز آئے دن ڈاکٹر حضرات کے کارنامے سننے کو ملتے ہیں، لیکن کیا کبھی کسی نے کہا کے آئندہ سے وہ ڈاکٹری کی تعلیم از خود حاصل کرے گا اور اس کے لیے پہلے سے موجود ڈاکٹروں کی رائے اور کتب کسی کام کی نہیں بلکہ سارے کے سارے نکمے تھے؟ ایسی حالت اگر کسی کی ہو تو اس کو ماہر نفسیات کے پاس لے جایا جاتا ہے۔
یہ دلیل اکثر دی جاتی ہے اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس کا نقص کسی پر واضح نہیں ہوتا۔ بھائی، زہر کو انسان غلطی سے کھا لے تو زہر کے اثرات سے محفوظ نہیں ہو جاتا۔ دنیا کا یہی معاملہ ہے۔ اس کا قانون اندھا ہے۔ اس لیے علم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ مگر خدا کی بارگاہ نعوذ‌باللہ معاذ‌اللہ ایسی نہیں۔ وہاں انسان خطا کرے تو توبہ کی گنجائش ہے (النساء-۱۱۰)۔ بھول کا شکار ہو جائے تو معافی ہے (آلِ عمران-۱۳۵)۔ جان پر بنی ہو تو سؤر کھانے والے کو بھی سزا نہیں (المائدہ-۳)۔ جس کے پاس قربانی کا گوشت نہیں بلکہ ہمارا تقویٰ پہنچتا ہے (حج-۳۷)۔ جو پکار پکار کے کہتا ہے کہ میں نے قرآن کو سمجھنے والوں کے لیے آسان کر دیا ہے (القمر-۱۷) جو کہتا ہے کہ ہر کوئی اپنا بوجھ خود اٹھائے گا (الانعام-۱۶۴)۔ گویا اس کے ہاں ہر چیز علم نہیں بلکہ نیت کی بنیاد پر ہے۔ اب اگر اس کے قرآن کو سمجھنے کے لیے اخلاص کے سوا کوئی اور شرط رکھی جائے تو اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا؟ اس کا تقابل اگر طب سے کیا جائے تو میں اسے غلط ہی کہوں گا۔ دین کسی مہارت یا علم کا نام نہیں ہے۔ یہ تو پیشہ‌ور لوگوں نے اسے بنا ڈالا ہے ورنہ یہ خدا کے حضور اس کے بندوں کی بندگی کا نام ہے جو صریح ذاتی معاملہ ہے۔ ان حوالوں کے بعد بھی آپ کو میری ذہنی حالت پر شبہ ہے تو آپ بے‌شک مجھے لے جائیے ماہرِ نفسیات کے پاس اور اپنی تسلی کر لیجیے۔
اس آیت کو پورا بیان کیا جاتا تو جواب اسی میں موجود ہے
وانۡزلۡناۤ الیۡک الۡکتٰب بالۡحق مصدقا لما بیۡن یدیۡہ من الۡکتٰب ومہیۡمنا علیۡہ‌ فاحۡکمۡ بیۡنہمۡ بماۤ انۡزل اللٰہ ولا تتبعۡ اہۡوآءہمۡ عما جآءک من الۡحق‌ؕ لکل جعلۡنا منۡکمۡ شرۡعة ومنۡہاجا‌ؕ ولوۡ شآء اللٰہ لجعلکمۡ امة واحدة ولٰکنۡ لیبۡلوکمۡ فىۡ ماۤ اٰتٰٮکمۡ فاسۡتبقوۡا الۡخیۡرٰت‌ؕ الى اللٰہ مرۡجعکمۡ جمیۡعا فینبئکمۡ بما کنۡتمۡ فیۡہ تخۡتلفوۡنۙ‏
اور (اے نبئ مکرّمﷺ!) ہم نے آپ کی طرف سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے۔
بات ویسے تو ترجمے سے واضح ہے لیکن پھر بھی تسلی نہ ہو تو مستند تفسیر دیکھیے۔
میں نے پوری ہی آیت کا حوالہ دیا ہے، بھائی۔ اور مجھے وہی واضح نظر آ رہا ہے جو میں عرض کر چکا ہوں۔ اس کی مزید تائید کے لیے بھی وہی آیات ہیں جن کا حوالہ میں دے چکا ہوں:
سورۂ بقرہ ہی کی آیت ۶۲:
جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست، (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے ﴿۶۲﴾
---
جی لیکن شریعت محمدیﷺ ہی رائج ہے اب قیامت تک کوئی مانے یا نہ مانے۔
قرآن سے اس مانے یا نہ مانے کا کوئی ثبوت؟ یا قرآن آپ کی مذہبی کتاب ہی نہیں؟
میں آپ کو دیوانہ معلوم ہوتا ہوں کہ ہر ہر بات پر آیت کا حوالہ دیے جا رہا ہوں اور آپ فرماتے ہیں کہ کوئی مانے یا نہ مانے بات وہی ہے جو آپ کا عقیدہ ہے؟ پھر نام تو کم از کم قرآن کا نہ لیں۔
اگر آپ اسلام اور مذہب کی تعریف کو اتنا وسیع کر رہے ہے کہ اس میں یہود اور نصاری کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں (حضورﷺ کی بعثت کے بعد) تو یہ وسعت آقا ﷺ کے سیرت میں تو نظر نہیں آتی، بلکہ ان ﷺ کی تو خواہش ہوتی ہے کہ قبلہ بھی مسلمانوں کا مختلف ہو، روزہ رکھوں تو اس میں بھی تفریق ہو کے یہود کی مماثلت اختیار کرنے میں قباحت ہوتی ہے۔ اس پر یہ کہنا کے تمام اہل کتاب (حضورﷺ کے بعثت کے بعد) بھی مسلمان ہیں عجیب بات ہے۔
بھائی میرے، میں نے یہ سب نہیں کہا۔ قرآن نے کہا ہے۔ میں صرف اس پر ایمان لایا ہوں۔ اگر آپ کو یہ عجیب معلوم ہوتا ہے تو مجھے اچنبھا نہیں۔ مجھے ایک عرصے سے اندازہ ہو چکا ہے کہ قرآن اس وقت غیر‌مسلموں سے زیادہ مسلمانوں کے لیے اجنبی ہے۔ گردش کے ماروں کو معلوم ہی نہیں کہ یہ کہتا کیا ہے!
سوال یہ ہے کہ آیا ایک.لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں پر نازل ہونے والی تمام شریعتیں آج بھی اسی حالت میں موجود ہیں جیسی ان پیغمبروں کو دی گئیں؟ ؟؟
سوال یہ بھی ہے کہ شریعتِ محمدی اس حالت میں موجود ہے جس میں یہ پیغمبرِ اسلام کو دی گئی تھی؟ میں نے اوپر قرآنی عقائد کے حوالے دیے ہیں۔ غور فرمائیے کہ کتنے مسلمان ان عقائد پر قائم ہیں۔ اور حوالے دوں گا تو مارا جاؤں گا۔ مگر یہ عرض کرنی ضروری سمجھتا ہوں کہ میری رائے میں جسے زیادہ تر لوگ آج کے زمانے میں اسلام سمجھتے ہیں اس کا نوے فیصد کے قریب حصہ مصنوعی اور موضوع ہے۔
کیا اللہ نے نہیں کہا کہ بے شک اس قرآن کہ ہم نے نازل کیا ور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.
جناب. اگر تو انجیل اور تورات اپنی اصلی شکل میں موھود ہیں تو ان میں آپ صلی اللہ عیلہ وسلم پہ ایمان لابے کے احکام.بھی موجود ہوں گے. اعر اگر یہ احکام.موجود ہیں تو ان با اخلاق غیر مسلموں کو انھیں ماننے میں تأمل کیوں؟ ؟؟
بی‌بی، اللہ نے یہ کہا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی صحائف معاذ‌اللہ غلط ہو گئے۔ وہ بار بار کہہ رہا ہے کہ قرآن اپنے سے پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ ان میں ہدایت اور نور ہے۔ توراۃ والوں کے لیے توراۃ کے مطابق حکم ہونا چاہیے اور انجیل والوں کے لیے انجیل والوں کے مطابق (المائدہ-آیات۴۴ تا ۴۷)۔ اب اگر قرآن سچا ہے تو یہ کیسے ممکن ہوا کہ معاذ‌اللہ وہ کسی تحریف شدہ کتاب کی تصدیق فرما دے؟ پھر اس میں ہدایت اور نور ہونے کا فرمان جاری کرے؟ پھر یہاں تک آگے بڑھے کہ اس کے ماننے والوں پر اسی کے مطابق حکم کرنے پر بھی مجبور کرے؟ کس دنیا میں رہتے ہیں آپ لوگ؟
یہ سب باتیں میری نہیں ہیں۔ قرآن کی ہیں۔ جو میں نے نہیں لکھا بلکہ خدا تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ جس پر صرف میں نہیں آپ لوگ بھی ایمان رکھتے ہیں۔ جسے پڑھنے کی ذمہ داری صرف میری نہیں آپ لوگوں کی بھی ہے۔ جس کے مطابق روزِ محشر فیصلہ میرا ہی نہیں آپ کا بھی ہو گا۔ میں پھر کہوں گا کہ میں دیوانہ نہیں ہوں جو بار بار قرآن سے حوالے دیے جا رہا ہوں۔ اسے ذہن کی کھڑکیاں کھول کےپڑھیں۔ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top