میں زمیں زاد ہی سہی لیکن (بحرِ خفیف)

نوید ناظم

محفلین
میں زمیں زاد ہی سہی لیکن
آسماں سے گزر کر آیا ہوں

جانتا ہوں عدم کو اچھی طرح
میں وہاں سے گزر کر آیا ہوں

بیچ میں حرفِ کُن بھی آیا تھا
میں جہاں سے گزر کر آیا ہوں

وہ جبینیں ملائکہ کی تھیں
جس نشاں سے گزر کر آیا ہوں

اب نہیں واپسی کا رستہ بھی
اب تو جاں سے گزر کر آیا ہوں​
 
مدیر کی آخری تدوین:

نوید ناظم

محفلین
بہت خوب!

یہ مصرع بہتر بنایا جا سکتا ہے مثلاََ
اب نہیں واپسی کی کوئی رہ
اب نہیں کوئی واپسی کی رہ
اب نہیں واپسی کی راہ کوئی
بہت شکریہ ریحان بھائی۔۔
"'اب نہیں واپسی کی راہ کوئی"
ممنون ہوں کہ بہت خوبصورت اور رواں مصرعہ دیا آپ نے۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ اگر ردیف میں ’کر‘ کی جگہ ’کے‘ کر دیا جائے تو کیا روانی میں اضافہ ہوتا ہے؟
ایک شعر میں مجھے خامی محسوس ہوئی۔
وہ جبینیں ملائکہ کی تھیں
جس نشاں سے گزر کر آیا ہوں
جبینیں جب جمع میں استعمال کی گئی ہیں تو دوسرے مصرعے میں بھی ’نشانوں‘ استعمال کرنا چاہئے تھا نا!!
الفاظ بدل کر دیکھو
 

نوید ناظم

محفلین
اچھی غزل ہے۔ اگر ردیف میں ’کر‘ کی جگہ ’کے‘ کر دیا جائے تو کیا روانی میں اضافہ ہوتا ہے؟
ایک شعر میں مجھے خامی محسوس ہوئی۔
وہ جبینیں ملائکہ کی تھیں
جس نشاں سے گزر کر آیا ہوں
جبینیں جب جمع میں استعمال کی گئی ہیں تو دوسرے مصرعے میں بھی ’نشانوں‘ استعمال کرنا چاہئے تھا نا!!
الفاظ بدل کر دیکھو
بہت شکر سر۔۔۔۔
"اچھی غزل ہے۔ اگر ردیف میں ’کر‘ کی جگہ ’کے‘ کر دیا جائے تو کیا روانی میں اضافہ ہوتا ہے؟"
'کے' سے روانی میں شاید فرق آئے لیکن 'کر' بہتر لگا تھا اس لیے استعمال کیا۔

ایک شعر میں مجھے خامی محسوس ہوئی۔
وہ جبینیں ملائکہ کی تھیں
جس نشاں سے گزر کر آیا ہوں
جبینیں جب جمع میں استعمال کی گئی ہیں تو دوسرے مصرعے میں بھی ’نشانوں‘ استعمال کرنا چاہئے تھا نا!!
الفاظ بدل کر دیکھو

سر یہ بات تو بالکل درست۔۔۔۔ یہ خامی تو ہے شعر میں، الفاظ بدلوں گا تو خیال بھی بدل جائے گا، میری درخواست تو یہی ہے کہ اسے رعایت ملے اور ایسے ہی قبول ہو جائے۔
 
Top