میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔

جاسمن

لائبریرین
یا اللہ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے
ایک صوفی منش ہیڈ ماسٹر کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہوا، جو بہت سے لوگوں کی زبانی میں نے ان کی وفات کے بعد سنا۔ جب وہ کسی سکول میں استاد تعینات تھے تو انہوں نے اپنی کلاس کا ٹیسٹ لیا۔

ٹیسٹ کے خاتمے پر انہوں نے سب کی کاپیاں چیک کیں اور ہر بچے کو اپنی اپنی کاپی اپنے ہاتھ میں پکڑکر ایک قطار میں کھڑا ہوجانے کو کہا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جس کی جتنی غلطیاں ہوں گی، اس کے ہاتھ پر اتنی ہی چھڑیاں ماری جائیں گی۔

اگرچہ وہ نرم دل ہونے کے باعث بہت ہی آہستگی سے بچوں کو چھڑی کی سزا دیتے تھے تاکہ ایذا کی بجائے صرف نصیحت ہو، مگر سزا کا خوف اپنی جگہ تھا۔

تمام بچے کھڑے ہوگئے۔ ہیڈ ماسٹر سب بچوں سے ان کی غلطیوں کی تعداد پوچھتے جاتے اور اس کے مطابق ان کے ہاتھوں پر چھڑیاں رسید کرتے جاتے۔

ایک بچہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے اور اس سے غلطیوں کی بابت دریافت کیا تو خوف کے مارے اس کے ہاتھ سے کاپی گرگئی اور گھگیاتے ہوئے بولا:

”جی مجھے معاف کر دیں میرا توسب کچھ ہی غلط ہے۔“

معرفت کی گود میں پلے ہوئے ہیڈ ماسٹر اس کے اس جملے کی تاب نہ لاسکے اور ان کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ ہاتھ سے چھڑی پھینک کر زاروقطار رونے لگے اور بار بار یہ جملہ دہراتے:

”میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔“

روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس بچے کو ایک ہی بات کہتے
”تم نے یہ کیا کہہ دیا ہے

، یہ کیا کہہ دیا ہے میرے بچے!“

”میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"

"اے کاش ہمیں بھی معرفتِ الٰہی کا ذره نصيب ہو جاۓ اور بہترین اور صرف اللّٰه کے لۓ عمل کر کے بھی دل اور زبان سے نکلے.....میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"
(کاپی)
 

جاسمن

لائبریرین
آہ!
یہ پڑھا ہے۔۔۔۔اور میرا دل بھی رو رہا ہے۔چپکے چپکے آنسو صاف کر رہی ہوں۔جی چاہ رہا ہے کہ جلد گھر پہنچوں۔۔مصلہ بچھا لوں۔۔۔سجدے میں گر جاوں۔اور کہتی جاوں۔
یا اللہ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔
 

bilal260

محفلین
یا اللہ میرا سب کچھ ہی غلط ہے مجھے ہدایت دے اپنی محبت دے اپنی معرفت دے آمین۔اور یہ دعا سب کے لئے جو تجھ سے محبت کرتے ہیں ۔
 

جاسمن

لائبریرین
معافی مانگنے کی باری تو بعد میں آئے گی۔ابھی تو سب کچھ غلط ہونے کا احساس ہی بہت شدید ہے۔
اسلام کہتا ہے کہ دعا مانگتے ہوئے اپنی نیکیوں کا واسطہ دیں۔
لیکن میں جب بھی دعا کے لئے دامن پھیلاتی ہوں اور یکے بعد دیگرے اپنی نیکیاں گننے لگتی ہوں تو وہ سب کی سب زعم،تکبر،فخر سے لتھڑی نظر آتی ہیں۔یا اللہ کے علاوہ لوگوں کے لئے نیت کے کیچڑ میں ڈوبی ہوتی ہیں۔
مجھے دور دور تک کوئی ایک ننھی سی نیکی بھی خالص نظر نہیں آتی۔
میرا تو سب کچھ غلط ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
جی چاہتا ہے کہ اللہ کو جپھی ڈال لیں اور کہتے جائیں۔۔۔۔میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے اللہ۔
خالی ہاتھ۔۔۔خالی دامن۔
سب لوگ بھرے تھیلے لے کے جائیں۔۔۔اور میں۔۔۔گناہوں کی گٹھڑی۔۔۔
میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔
جی چاہتا ہے بندہ خود کو فنا کر لے۔نہ ہم ہونگے۔۔۔نہ اس گناہگار وجود کے ساتھ پیارے اللہ کا سامنا کر سکیں گے۔
لیکن پھر حوصلہ ملتا ہے۔۔۔۔وہ غفور ہے۔
وہ میرا۔۔۔میرا ۔۔میرا اللہ ہے۔
وہ میرا رب ہے۔
وہ رحیم ہے۔
وہ رحمان ہے۔
میں اپنی نیکیوں کا واسطہ نہیں دے سکتی۔۔چلو کوئی نہیں۔۔اس کے رحمن و رحیم ہونے کا واسطہ تو دے سکتی ہوں۔
یہاں جی کو قرار ملتا ہے۔
پھر اس روف نے مجھے میرے پیارے نبی صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو دیے ہیں۔
لوجی۔۔۔۔مجھے اب اور کیا چاہیے۔
مجھ سے زیادہ مالامال بھی کوئی ہوسکتا ہے!!!
 

bilal260

محفلین
ماشاء اللہ جزاک اللہ خیر بہت اچھی سوچ دی آپ نے ہمیں فخر ہیں ہم محبوب خدا کے امتی ہیں یا اللہ عزوجل تیرا شکر ہے۔
 

عاطف ملک

محفلین
یا اللہ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے
ایک صوفی منش ہیڈ ماسٹر کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہوا، جو بہت سے لوگوں کی زبانی میں نے ان کی وفات کے بعد سنا۔ جب وہ کسی سکول میں استاد تعینات تھے تو انہوں نے اپنی کلاس کا ٹیسٹ لیا۔

ٹیسٹ کے خاتمے پر انہوں نے سب کی کاپیاں چیک کیں اور ہر بچے کو اپنی اپنی کاپی اپنے ہاتھ میں پکڑکر ایک قطار میں کھڑا ہوجانے کو کہا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جس کی جتنی غلطیاں ہوں گی، اس کے ہاتھ پر اتنی ہی چھڑیاں ماری جائیں گی۔

اگرچہ وہ نرم دل ہونے کے باعث بہت ہی آہستگی سے بچوں کو چھڑی کی سزا دیتے تھے تاکہ ایذا کی بجائے صرف نصیحت ہو، مگر سزا کا خوف اپنی جگہ تھا۔

تمام بچے کھڑے ہوگئے۔ ہیڈ ماسٹر سب بچوں سے ان کی غلطیوں کی تعداد پوچھتے جاتے اور اس کے مطابق ان کے ہاتھوں پر چھڑیاں رسید کرتے جاتے۔

ایک بچہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے اور اس سے غلطیوں کی بابت دریافت کیا تو خوف کے مارے اس کے ہاتھ سے کاپی گرگئی اور گھگیاتے ہوئے بولا:

”جی مجھے معاف کر دیں میرا توسب کچھ ہی غلط ہے۔“

معرفت کی گود میں پلے ہوئے ہیڈ ماسٹر اس کے اس جملے کی تاب نہ لاسکے اور ان کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ ہاتھ سے چھڑی پھینک کر زاروقطار رونے لگے اور بار بار یہ جملہ دہراتے:

”میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔“

روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس بچے کو ایک ہی بات کہتے
”تم نے یہ کیا کہہ دیا ہے

، یہ کیا کہہ دیا ہے میرے بچے!“

”میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"

"اے کاش ہمیں بھی معرفتِ الٰہی کا ذره نصيب ہو جاۓ اور بہترین اور صرف اللّٰه کے لۓ عمل کر کے بھی دل اور زبان سے نکلے.....میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"
(کاپی)
الفاظ نہیں۔۔۔۔۔۔کیا کہوں؟؟؟؟
کیسے کہوں کہ میرا تو سب کچھ ہی۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کافی مسیحی کانسیپٹ ہے
"تصوف" کو مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ سرے سے "اسلامی" مانتا ہی نہیں اور اس پر ہندؤں کے سنیاس، عیسائیوں کی رہبانیت، پارسیوں کی روایات، بدھ مت کی اقدار اور یونانیوں کے نوفلاطونی فلسفے کے اثرات بتائے جاتے ہیں :)
 
کافی مسیحی کانسیپٹ ہے
شفاعت یعنی grace کو میرا سب غلط یعنی we are all sinners سے ملائیں تو Protestant Christianity کا ایک بنیادی اصول بنتا ہے
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس بات کا یہاں کیا محل ہے؟
مجھے یہ کچھ یوں نظر آ رہا ہے جیسے کوئی کہے کہ زکریا کے تصور سے یہودیت جھلکتی ہے۔ نام کے رسم‌الخط کو اسلام‌دشمنی سے ملائیں تو ایک پورا یہودی بنتا ہے۔
شفاعت اور انسانی کوتاہی کے تصورات تقریباً تمام مذاہب میں عام ہیں۔ اس لیے آپ نے جس قسم کی دلیل کا سہارا لے کر اسلام پر مسیحیت کے اثرات ثابت کرنے کی سعیِ‌نامشکور فرمائی ہے وہ منطق ہی نہیں فہمِ‌عامہ سے بھی بعید ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذاہب پر آپ کے اعتراضات کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہو گی اور ممکن ہے کہ وہ وجہ درست بھی ہو۔ مگر اس دشمنی میں آپ جس قسم کے تعصب پر اتر آئے ہیں وہ صریحاً غیر‌علمی ہے۔ اسی نوع کی غیر‌متعلقہ انٹ‌شنٹ سے جاہل ملا عوام کو الو بناتا ہے اور اسی سے آپ جیسے بزعمِ‌خویش پڑھے‌لکھے لوگ کام لیتے ہیں۔ فرق کیا رہا؟
 

محمدظہیر

محفلین
اپنی خطاؤں پر ندامت ہونے کا احساس دلا رہی ہے یہ تحریر۔ بچہ اپنے استاذ سے کس طرح ڈر جاتا ہے اپنی غلطیوں پر۔۔ ویسے ہی ہم اپنی پوری زندگی غلط جی رہے ہیں۔ میرے پاس الفاظ نہیں اس سبق کی تشریح کر سکوں!
 
Top