میانداد، ماؤنٹین چکن اور ڈومینیکا

محمداحمد

لائبریرین
59159775d6b28.jpg

1992 کے ورلڈکپ میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں بھارت کے خلاف ہونے والے میچ میں وکٹ کے پیچھے موجود کرن مورے کی جانب سے کسے گئے فقروں کے ردعمل میں میانداد نے کئی مرتبہ مینڈک کی طرح اچھل کود کی—۔فائل فوٹو

جیسے جیسے وقت بدل رہا ہے، ویسے ہی لوگوں کی کھانے پینے کی عادات میں بھی تبدیلی آرہی ہے، اب چاہے وہ اپنے ہی ملک میں ہوں یا کسی دوسرے ملک میں۔

ایک وقت ایسا بھی تھا، جب صفائی اور حفظان صحت کے حوالے سے لوگوں کو بہت تحفظات ہوا کرتے تھے اور مذہبی ضروریات کے طور پر اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ کیا چیز کھانی چاہیئے اور کیا نہیں۔

50 سے 70 کی دہائی میں بیرون ملک سفر کرنے والی کرکٹ ٹیموں کو بھی کھانے پینے کے معاملے میں ان ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا، لیکن اب بہت سے ممالک میں منظرنامہ بدل چکا ہے اور کوئی بھی آسانی سے اپنی پسند کا معیاری کھانا اور کیٹرنگ تلاش کرسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک کا سفر کرنے والے کھلاڑی اب مختلف طرح کے پکوانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

تاہم اب بھی لوگ کچھ اُن کھانوں سے اجتناب کرتے ہیں، جو ان کے منہ کے ذائقے کے مطابق نہیں ہوتے اور کچھ ڈشز ایسی بھی ہوتی ہیں، جن کے بارے میں انھوں نے اپنے ملک میں سنا بھی نہیں ہوتا۔

چائنیز ریسٹورنٹس میں کروکوڈائل (مگرمچھ) اسٹیک اور سانپ کا گوشت بالکل اُسی طرح مشہور ہے، جس طرح آسٹریلیا میں کینگرو اسٹیک۔ گویانا میں ایک بڑی چھپکلی شوق سے کھائی جاتی ہے جبکہ جنوبی امریکا میں گھاس کھانے والے جانور کیپی بارا کا گوشت کھانے کے لیے مشہور ہے، لہذا ہر ایک کو اس حوالے سے محتاط رہنا پڑتا ہے کہ وہ ملک سے باہر کھانے کے لیے کیا آرڈر کرنے جارہا ہے۔

وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا، جب ویسٹ انڈیز کے جزیرے ڈومینیکا میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لیے جانے والے پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی اُس وقت اپنی نشستوں سے اچھل پڑے، جب انھیں کھانے کے لیے 'ماؤنٹین چکن' پیش کی گئی۔

واضح رہے کہ مشتاق احمد کی قیادت میں 77-1976 میں آسٹریلیا میں 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز ڈرا کرنے کے بعد پاکستانی ٹیم 5 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے کے لیے ویسٹ انڈیز میں موجود تھی۔

ٹور کے دوران پاکستانی ٹیم کو ان کے مینیجر کرنل شجاع الدین ڈومینیکا کے ایک بہترین ریسٹورنٹ میں کھانا کھلانے کے لیے لے گئے۔

مینیو پر نظر دوڑانے کے بعد ہر ایک نے 'ماؤنٹین چکن' منگوانے پر اتفاق کیا اور تھوڑی ہی دیر میں یہ ڈش سب کو پیش کردی گئی، لیکن اچانک ہی مینیجر شجاع الدین نے سب کو کھانے سے روک دیا کیونکہ ان پر 'انکشاف' ہوا تھا کہ ان کی پلیٹوں میں جو چیز موجود ہے، اس کا 'چکن' سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

درحقیقت وہ ایک جنگلی مینڈک تھا، جسے 'ماؤنٹین چکن' کے نام سے جانا جاتا تھا، فوری طور پر ویٹر کو بلوایا گیا اور اس سے وضاحت طلب کی گئی کہ کس طرح کھلاڑیوں کو ماؤنٹین چکن کے نام پر مینڈک پیش کردیا گیا۔

ویٹر نے جواب دیا، 'سر ہم یہاں اسے ہی ماؤنٹین چکن کہتے ہیں اور آپ نے یہی آرڈر کیا تھا'۔

مینڈک کھانے کے تصور پر جاوید میانداد مینڈک کی طرح ہی اپنی نشست سے اچھل پڑے، جبکہ باقیوں نے بھی یہی کیا، یہ الگ بات کہ بعد میں اس واقعے کو یاد کرکے وہ سب خوب ہنسے تھے۔

ڈومینیکا میں ماؤنٹین چکن کا تجربہ کرنے والے تمام کھلاڑیوں میں سے میانداد پر اس کا سب سے گہرا اثر پڑا، جو 1992 کے ورلڈ کپ تک بھی جاری رہا، جب آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں 4 مارچ کو بھارت کے خلاف ہونے والے میچ میں وکٹ کے پیچھے موجود کرن مورے کی جانب سے کسے گئے فقروں کے ردعمل میں میانداد نے کئی مرتبہ مینڈک کی طرح اچھل کود کی۔

خیر یہ کہانی تو ایک طرف لیکن ڈومینیکا اب اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ پاکستان کے 2 عظیم کھلاڑی مصباح الحق اور یونس خان یہاں اپنا الوادعی ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں۔

یہ رپورٹ 12 مئی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی
 

محمد وارث

لائبریرین
اس ماؤنٹین چکن والے واقعے کا ذکر اقبال قاسم نے اپنی کتاب "میں اور کرکٹ" میں کیا ہے۔ یہ کتاب پچھلی صدی کی اسی کی دہائی کے آخر میں شائع ہوئی تھی۔ ان کے بقول کچھ کھلاڑی 'لیگ پیس' کا سائز دیکھ کر پریشان ہوئے تھے اور کچھ نے تو کھا بھی لیا تھا اور بعد میں الٹیاں کرتے رہے :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اس ماؤنٹین چکن والے واقعے کا ذکر اقبال قاسم نے اپنی کتاب "میں اور کرکٹ" میں کیا ہے۔ یہ کتاب پچھلی صدی کی اسی کی دہائی کے آخر میں شائع ہوئی تھی۔ ان کے بقول کچھ کھلاڑی 'لیگ پیس' کا سائز دیکھ کر پریشان ہوئے تھے اور کچھ نے تو کھا بھی لیا تھا اور بعد میں الٹیاں کرتے رہے :)

ہاہاہاہا۔۔۔!

وہ بھی کیا منظر ہو گا۔

ہم تو تصور بھی نہیں کرتے چکن کے نام پر مینڈک کھانے کا۔ :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
مینڈک کھانے کے تصور پر جاوید میانداد مینڈک کی طرح ہی اپنی نشست سے اچھل پڑے، جبکہ باقیوں نے بھی یہی کیا، یہ الگ بات کہ بعد میں اس واقعے کو یاد کرکے وہ سب خوب ہنسے تھے۔

ڈومینیکا میں ماؤنٹین چکن کا تجربہ کرنے والے تمام کھلاڑیوں میں سے میانداد پر اس کا سب سے گہرا اثر پڑا، جو 1992 کے ورلڈ کپ تک بھی جاری رہا، جب آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں 4 مارچ کو بھارت کے خلاف ہونے والے میچ میں وکٹ کے پیچھے موجود کرن مورے کی جانب سے کسے گئے فقروں کے ردعمل میں میانداد نے کئی مرتبہ مینڈک کی طرح اچھل کود کی۔

ویسے میانداد نے شاید یہ ڈش کچھ زیادہ ہی تناول کر لی تھی جو بعد تک سائیڈ ایفیکٹس ہوتے رہے۔ :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک واقعہ انضمام الحق کا سینیٹر انور بیگ نے جیو ٹی وی پر سنایا تھا۔
اںضمام الحق نے انگریزی زبان کے چند فقرے رٹے ہوئے تھے جسے وہ میچ کے بعد انٹرویو کے آغاز پر بولا کرتا تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
first of all thanks to Allah, the credit goes to all guys.

باب وولمر کی اچانک موت کے بعد میڈیا والے جب انضمام الحق سے اس کے تاثرات پوچھنے کے لئے پہنچے تو انضمام نے جواب کا آغاز یوں کیا،
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
first of all thanks to Allah, the credit goes to all guys
 

فرقان احمد

محفلین
اس ماؤنٹین چکن والے واقعے کا ذکر اقبال قاسم نے اپنی کتاب "میں اور کرکٹ" میں کیا ہے۔ یہ کتاب پچھلی صدی کی اسی کی دہائی کے آخر میں شائع ہوئی تھی۔ ان کے بقول کچھ کھلاڑی 'لیگ پیس' کا سائز دیکھ کر پریشان ہوئے تھے اور کچھ نے تو کھا بھی لیا تھا اور بعد میں الٹیاں کرتے رہے :)
یہ کتاب کسی زمانے میں زیرِ مطالعہ رہی ہے۔ خاصی دلچسپ کتاب تھی جس میں اسی طرح کے کئی مزے دار واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب پڑھ کر اقبال قاسم کی شخصیت اور پاکستانی کرکٹ سے متعلق بہت کچھ جاننے کو ملا ۔۔۔!!!
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ کتاب کسی زمانے میں زیرِ مطالعہ رہی ہے۔ خاصی دلچسپ کتاب تھی جس میں اسی طرح کے کئی مزے دار واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب پڑھ کر اقبال قاسم کی شخصیت اور پاکستانی کرکٹ سے متعلق بہت کچھ جاننے کو ملا ۔۔۔!!!
مجھے خوشی ہوئی یہ جان کر :) میرے پاس ابھی بھی پڑی ہوئی ہے اور جب کبھی ادق کتابیں پڑھ کر تھک جاتا ہوں تو اس کی ورق گردانی شروع کر دیتا ہوں :)
 

محمداحمد

لائبریرین
تو بھیا کھوتے کون سا صرف لاہور تک محدود رہے تھے ۔ پورے پاکستان نے کم از کم ایک دفعہ تو ذائقہ چکھا ہی ہے :D
میرے کولوں پُچھو تے ہلکا جیئا مٹھا ہوندا اے :p

ہاہاہاہا۔۔۔!

پاکستانی سب ہی گریٹ ہیں۔ :)

آپ تو شناخت بھی کرنے لگے ہیں۔ :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ کتاب کسی زمانے میں زیرِ مطالعہ رہی ہے۔ خاصی دلچسپ کتاب تھی جس میں اسی طرح کے کئی مزے دار واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب پڑھ کر اقبال قاسم کی شخصیت اور پاکستانی کرکٹ سے متعلق بہت کچھ جاننے کو ملا ۔۔۔!!!

آپ کی اور وارث بھائی کی باتوں سے لگتا ہے کہ یہ کافی دلچسپ کتاب ہوگی۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
آپ کی اور وارث بھائی کی باتوں سے لگتا ہے کہ یہ کافی دلچسپ کتاب ہوگی۔ :)
احمد بھیا! خاصی دل چسپ کتاب ہے۔ کافی عرصہ پہلے پڑھی تھی۔ اس میں کچھ تصاویر بھی تھیں۔ ایک تصویر میں اقبال قاسم نے غالباً سندھی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ جو کچھ یاد ہے، وہ یہ ہے کہ اس کتاب میں پاکستانی ٹیم کے دورہء ہندوستان کا تفصیلی بیان ہے۔ جو سب سے زبردست بات محسوس ہوئی، وہ اقبال قاسم کی سادہ نثر تھی جس میں تصنع کا شائبہ تک نہ تھا ۔۔۔ یوں بھی اقبال قاسم نہایت سیدھے سادے انسان تھے؛ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے اندر حد درجہ عاجزی تھی اور یہی عاجزی تحریر میں بھی جھلکتی معلوم ہوئی۔ کچھ کچھ یہ بھی یاد آ رہا ہے کہ ویسٹ انڈیز کے باؤلرز کا سامنا کرنے سے وہ کچھ گھبرائے ہوئے تھے اور یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ مذہب کی طرف ان کا خاصا رجحان تھا ۔۔۔ تاہم یہ سب کچھ یاداشت کے زور پر ہی لکھ رہا ہوں؛ یہ کتاب غالباً پندرہ برس قبل پڑھی تھی۔ بعدازاں، ایک دوست نے پڑھنے کے لیے لی اور اڑنچھو ہو گئے ۔۔۔ پھر یہ کتاب کبھی ہاتھ نہ آئی ۔۔۔ :) :) :) ۔۔۔ مجھے امید ہے کہ وارث بھیا اس کتاب میں سے ایک دو اقتباس تو یہاں پیش فرما ہی دیں گے ۔۔۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
حمد بھیا! خاصی دل چسپ کتاب ہے۔ کافی عرصہ پہلے پڑھی تھی۔ اس میں کچھ تصاویر بھی تھیں۔ ایک تصویر میں اقبال قاسم نے غالباً سندھی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ جو کچھ یاد ہے، وہ یہ ہے کہ اس کتاب میں پاکستانی ٹیم کے دورہء ہندوستان کا تفصیلی بیان ہے۔ جو سب سے زبردست بات محسوس ہوئی، وہ اقبال قاسم کی سادہ نثر تھی جس میں تصنع کا شائبہ تک نہ تھا ۔۔۔ یوں بھی اقبال قاسم نہایت سیدھے سادے انسان تھے؛ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے اندر حد درجہ عاجزی تھی اور یہی عاجزی تحریر میں بھی جھلکتی معلوم ہوئی۔ کچھ کچھ یہ بھی یاد آ رہا ہے کہ ویسٹ انڈیز کے باؤلرز کا سامنا کرنے سے وہ کچھ گھبرائے ہوئے تھے اور یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ مذہب کی طرف ان کا خاصا رجحان تھا ۔۔۔

واہ خوب!

یعنی یہ کتاب اردو زبان میں تھی؟
۔ تاہم یہ سب کچھ یاداشت کے زور پر ہی لکھ رہا ہوں؛ یہ کتاب غالباً پندرہ برس قبل پڑھی تھی۔
ماشاءاللہ۔

کیا کہنے۔

بعدازاں، ایک دوست نے پڑھنے کے لیے لی اور اڑنچھو ہو گئے ۔۔۔ پھر یہ کتاب کبھی ہاتھ نہ آئی ۔۔۔ :) :) :) ۔۔۔

ہاہاہاہا۔۔۔!

ہمیں ایک بار ایک صاحب نے ایک کتاب پڑھنے کے لئے دی اور ساتھ میں کہنے لگے کہ جو شخص کسی کو پڑھنے کے لئے کتاب دے اور واپسی کی اُمید بھی رکھے وہ بہت بڑا بے وقوف ہوتاہے اور اُس سے بھی بڑا بے وقوف وہ ہوتا ہے جو کتاب پڑھ کر واپس بھی کر دے۔ :)

تاہم کتاب دینے کے دو تین دن بعد ہی اُنہوں نے اتنی شد و مد سے اُس کی واپسی کے تقاضے کیے کہ ہم نے بغیر پڑھے ہی وہ کتاب واپس کر دی۔سو اس طرح ہم اور وہ دونوں ہی سند یافتہ ہو گئے۔ :) :) :)

مجھے امید ہے کہ وارث بھیا اس کتاب میں سے ایک دو اقتباس تو یہاں پیش فرما ہی دیں گے ۔۔۔

تو کیا ہم بھی اُمید لگا لیں؟ :sneaky:
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ رہا کتاب میں سے اصل واقعہ۔ کتاب کا صحیح نام "اقبال قاسم اور کرکٹ" ہے اور اس کتاب کو لکھنے میں اقبال قاسم کی مدد اردو کرکٹ میگزین "اخبارِ وطن" کے ایڈیٹر، اردو کمینٹری کے لیجنڈری منیر حسین مرحوم نے کی تھی۔

IMG_20170517_181040.jpg
 
ایک واقعہ انضمام الحق کا سینیٹر انور بیگ نے جیو ٹی وی پر سنایا تھا۔
اںضمام الحق نے انگریزی زبان کے چند فقرے رٹے ہوئے تھے جسے وہ میچ کے بعد انٹرویو کے آغاز پر بولا کرتا تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
first of all thanks to Allah, the credit goes to all guys.

باب وولمر کی اچانک موت کے بعد میڈیا والے جب انضمام الحق سے اس کے تاثرات پوچھنے کے لئے پہنچے تو انضمام نے جواب کا آغاز یوں کیا،
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
first of all thanks to Allah, the credit goes to all guys
یہ تو سراسر گھڑا ہوا واقعہ معلوم ہوتا ہے. :)
 

فرقان احمد

محفلین
یہ رہا کتاب میں سے اصل واقعہ۔ کتاب کا صحیح نام "اقبال قاسم اور کرکٹ" ہے اور اس کتاب کو لکھنے میں اقبال قاسم کی مدد اردو کرکٹ میگزین "اخبارِ وطن" کے ایڈیٹر، اردو کمینٹری کے لیجنڈری منیر حسین مرحوم نے کی تھی۔

IMG_20170517_181040.jpg
شکریہ محترم :) خاصا دلچسپ واقعہ ہے :)
 
Top