مولویت اور کتب مولویت

فرید احمد

محفلین
ایک صاحب جو تقلیدی روش کے سخت مخالف اور قرآن و سنت سے ہی دین کے فہم کا دعوی کرتے ہیں اور اس کی تبلیغ بھی کرتے ہیں ، میں ان کا حوالہ بطور نمونہ رقم کرتا ہوں ،

و آیہ کریمہ فانکحوا ما طلب لکم من النساء مثنی و ثلث و رباع بر محاورہ عرب عربا و ائمہ لغت مفید جواز نکاح دو دو و سہ سہ و چہار چہار نسائ در یک بار ست و دراں تعرضے از برائے مقدار عدد زناں نیست ۔ ۔ ۔ ۔ و اگر کسے نقل مخالف این معنی از ائمہ لغت و اعراب باشد پس مقام استفادہ از وے است ۔۔۔

عرف الجادی من حنان ہدی الہادی ص 111

یہ صاحب بھی ویسے تو احادیث کو ماننے کا دعوئ کرتے ہیں ، مگر صرف صحیح اور صریح احادیث کو۔

اب ہر کوئی سوچے کہ ان صاحب کا بیان کردہ معنی آیت کے ترجمے کے خلاف نہیں ، اس آیت سے یہ مسئلہ کہ اس سے چار تک ہی بیویاں کرنے کی اجازت ہے ، حدیث سے ثابت ہے ، اور وہ بھی اس طرح کہ اول اس آیت میں " واو " کو " او " کے معنی میں قرار دیا گیا ہے ، اور آیت کو بوقت عقد کتنی عورتوں سے بیک وقت نکاح کر سکتے ہیں اس معنی میں نہیں ، بلکہ اس آیت کے شان نزول کے طورپر مذکور احادیث کے پیش نظر سب نے اس کا معنی بیان کیا ہے ۔
مختصر یہ ہے کہ ما قبل زمانہ اسلام میں لوگ متعدد عورتوں سے نکاح کرتے اور پھر حقوق ادا نہ فرماتے، ان کو تنبیہ کی گئی اور اور چار تک کی حد بیان کی گئی ۔
یعنی یہاں یہ پس منظر بحوالہ حدیث سامنے ہے کہ پہلے چار سے زیادہ نکاح ہوتے تھے ۔
اگر اس پس منظر کا خیال نہ کریں تو مطلب یہ کہ پہلے ایک نکاح ہوتا تھا ، قرآن نے چار کی اجازت دی ۔
اور اس سے بھی ایک قدم آگے، اگر حدیث کے بیان کردہ شان نزول کو سامنے نہ رکھیں تو مطلب یہ ہوگا کہ " نکاح کرو " یعنی چار سے نکاح کرنا فرض ! ! !
ہے کوئی اس استدلال کا جواب ، بدون حدیث کے ۔ فقط قرآن سے ؟ ؟ ؟
 

باذوق

محفلین
ایرانی محدثین / ایرانی سازش ۔۔۔؟!

۔۔۔۔۔۔۔۔
'کتب روایات' یا کتب مولویت، لکھنے والے، ایرانی النسل مصنفین ہیں۔ اور دونوں کتب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ قرآن پر ہمارا ایمان ہے لیکن ان 'کتب روایات' پر کسی مسلمان کا ایمان نہیں۔ یہ صرف روایات ہیں۔
'کتب روایات' سے مطلب اگر آپ کے نزدیک 'کتب احادیث' ہیں ۔۔۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ 'کتب احادیث' کے مولفین کو ایرانی النسل مصنفین باور کرانا چاہ رہے ہیں۔
اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا جھوٹ ؟
ذرا یہ تفصیل : ایرانی محدثین / ایرانی سازش ۔۔۔؟! پڑھ لیں اور ۔۔۔ آپ سے تو ہمیں قطعاََ کوئی امید نہیں لیکن ہمارے دیگر قارئین ضرور کچھ عقل سے کام لیں گے ، ان شاءاللہ۔
 

فاتح

لائبریرین
اجمل صاحب،
السلام علیکم اور خوش آمدید۔
بہت بہت شکریہ مجھ سمیت بہت سے دوسرے احباب کی درخواست پر آپ کی واپسی کا۔ :) امید ہے آپ کا مشفق ساتھ برقرار رہے گا۔ انشاء اللہ!
 
جنابِ والا ۔ آپ اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر پھسلنے کے ماہر اور بلند پایہ عالم ہیں ۔ جس کتاب یعنی قرآن الحکیم جسے پڑھنے کی آپ نے تلقین ہے
“1” ۔ اللہ کی قسم کھا کر کہیئے کہ کیا آپ نے اسے اللہ پر پورا یقین رکھتے ہوئے پڑھا ہے ؟
“2” ۔ کیا عربی آپ کی مادری زبان ہے ؟
“3” ۔ اگر عربی آپ کی مادری زبان نہیں ہے تو کس کے لکھے ہوئے ترجمہ کو آپ نے پڑھا ہے ؟
میرے ان تین سوالوں کا جواب صرف چند سطروں میں دیجئے ۔ نوازش ہو گی

عرض یہ ہے کہ میں ایک عالم نہیں۔ قرآن کا ادنی طالب علم ہوں۔

بزرگوارم، واپسی کے لئے میری استدعا قبول کرنے کا شکریہ۔ آپ کی موجودگی، ایسے خیالات کی درست وضاحت کرنے میں مدد کرتی ہے جن سے منفی معانی نکالے جاسکتےہوں
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
“1” ۔ اللہ کی قسم کھا کر کہیئے کہ کیا آپ نے اسے اللہ پر پورا یقین رکھتے ہوئے پڑھا ہے ؟
جی، الحمد للہ۔ خلوص دل سے اور اللہ پر یقین رکھ کر پڑھا ہے اور باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ ناظرہ 7 برس کی عمر میں اور ترجموں سے 1980 سے، ہفتے میں کم از کم 6 اور زیادہ سے زیادہ آٹھ گھنٹے۔ صرف قرآن پڑھنے اور اس پر غور کرنے کے لئے باقاعدگی سے مخصوص ہیں۔ دوستوں کی درخواست پر میں اپنے ایمان کا اظہار کرچکا ہوں۔
“2” ۔ کیا عربی آپ کی مادری زبان ہے ؟
جی نہیں، البتہ قران انگریزی اور اردو ترجمے کے ساتھ۔ 1980 سے باقاعدہ پڑھ رہا ہوں۔ 1985 میں ایک 6 ماہ کا عربی زبان کا کورس کیا، جس کے اساتذہ، کی مادری زبان عربی تھی۔ عربی پڑھنے کی پروفیشی اینسی، حد درجہ بہتر ہے لیکن اب بھی قاموس اور Lane's Lexicon استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
“3” ۔ اگر عربی آپ کی مادری زبان نہیں ہے تو کس کے لکھے ہوئے ترجمہ کو آپ نے پڑھا ہے ؟
جن ترجموں‌کو پڑھ چکا ہوں، وہ میری ویب سائٹ http://www.openburhan.net پر ملاحظہ فرمائے جاسکتے ہیں۔ کیاہم میں‌سے کوئی، بنا پڑھے ہوئے کسی ترجمے پر اپنا نام لکھنا پسند کرے گا؟ آج کل قرآن آسان تحریک کے ترجمے کو حرف بہ حرف طبع شدہ متن سے مقابلہ کرکے پروف ریڈنگ کر رہا ہوں۔ آپ یا کوئی مسلمان بھائی مدد کرنا چاہتے ہیں؟ تو مجھے بتائیے۔

قرآن کی تعلیم دینے کو آپ میرے پھسلنے پر کیوں محمول کرتے ہیں؟ برادر من آپ میرا اس سے پچھلا آرٹیکل 'قرآن کیا کہتا ہے'۔ ملاحظہ فرمائیے۔

میرے ایک بہترین عرب دوست، جونسلاَ عرب شریف مکہ کے خاندان سے ہیں۔ اور سعودی عرب میں‌مقیم ہیں‌، بوقت ضرورت،َ میری لسانی مدد کرتے رہتے ہیں اور اس کے علاوہ میرے ذاتی دوستوں میں جوعرب مدد کرتے ہیں ان کی مادری زبان بھی عربی ہے۔
المساعد العربی، عربی زبان کا پہلا سوفٹ ویر اور قرآن کا روٹ انڈیکس اور قرآن کے الفاظ کا انگریزی ترجمہ (جہاں تک مل سکا) Lane's Lexicon سے مرتب کیا ہے، یہ آپ میری ویب سائٹ پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ تمام تراجم میں اپنی زوجہ کے ساتھ پروف ریڈ کرتا ہوں۔ کبھی میں پڑھتا ہوں تو وہ درست کرتی جاتی ہیں اور کبھی وہ پڑھتی ہیں تو میں درست کرتا جاتا ہوں، حال ہی میں، احمد رضا شاہ بریلوی کا ترجمہ بہت جلدی میں اکیلے پڑھا۔ اور جن متن کی غلطیوں کو دور کیا، اس کی فائل فراہمکی۔ اس کے باوجود اگر کسی ترجمے میں کوئی غلطی متن کی ملے تو مطلع فرمائیے۔

دوبارہ عرض یہ ہے کہ میں ایک عالم نہیں۔ قرآن کا ادنی طالب علم ہوں۔ ہاں البتہ آپ کو کسی وقت اگر قرانی آیات کے حوالے کی ضرورت ہو تو ضرور پوچھئے، حتی الامکان کوشش ہوگی کہ درست حوالہ انشا اللہ فراہم کرسکوں۔ میری وہ تحاریر جو قرآن کی مدد سے ترتیب دی گئی ہیں۔اب تک ایک تبصرہ بھی نہیں ہے۔ حالانکہ مقصد ہی یہاں فراہم کرنے کا تبصرات، تائید و تنقید تھا۔ آپ اس سلسلے کا چوتھا آرٹیکل بھی دیکھئے،

والسلام
 
'کتب روایات' سے مطلب اگر آپ کے نزدیک 'کتب احادیث' ہیں ۔۔۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ 'کتب احادیث' کے مولفین کو ایرانی النسل مصنفین باور کرانا چاہ رہے ہیں۔
اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا جھوٹ ؟
ذرا یہ تفصیل : ایرانی محدثین / ایرانی سازش ۔۔۔؟! پڑھ لیں اور ۔۔۔ آپ سے تو ہمیں قطعاََ کوئی امید نہیں لیکن ہمارے دیگر قارئین ضرور کچھ عقل سے کام لیں گے ، ان شاءاللہ۔
باذوق صاحب، اس مضمون کے بنیادی نکات کو سہارا دینے کے لئے، امام بخاری کا تذکرہ کیا گیا۔وہ نکات یہ تھے، یہ تھے۔
1۔ انفارمیشن ۔ کہ بخاری صاحب کس علاقے سے تعلق رکھتے تھے، کس سن میں تھے اور کس جگہ سے تھے اور ان کا مقبرہ کہاں ہے۔
2۔ انفارمیشن۔ بخاری کی اصل کتاب کا وجود نہیں ملتا، اب تک۔
3۔ بخاری کی اصل کتاب نہ ہونے کی صورت میں اس کو قصور وار نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔
4۔ بخاری کی کتاب کا استعمال 'مولویت' نے 'ملوکیت' کو سپورٹ فراہم کرنے میں کس طرح کیا۔

آپ نے پہلا نکتہ اٹھایا اور اس پر مضمون لکھ دیا لیکن آپ درج ذیل سظور حسب منشاٌ حذف کرگئے

امام بخاری ایک بڑا نام ہے اور اس امام کے نام سے منسوب کتابوں‌میں ایسی روایات کا وجود جو قرآن کریم کے خلاف ہیں۔ ہمیں یہ بتاتی ہیں کے ان کتب روایات میں امام بخاری کے بعد بہت سے اضافہ ہوئے ہیں۔ یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں، توراۃ، انجیل اور زبور کے ساتھ، یہی کاروائی مولویت کرتی رہی ہے۔

اس سے آپ کے معاندانہ رویہ پر صاف صاف روشنی پڑتی ہے۔ اور آپ کے طرز استدلال سے غیر ذمہ داری اور بے ایمانی کی بو آتی ہے۔
 
مکرمی و محترمی فاتح صاحب، ان جوابات کے دوران میرا رویہ بہت پرسکون اور عزت سے پر ہے۔ سوالات کا لہجہ نرم ہے، تلخ قطعاَ نہیں۔ ایسے ہی پڑھئے۔ آپ کے سوالات سے آپ کے علم کی پیاس کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ پیاس یقیناَ قرآن اپنے مطالعے میں شامل کرکے بجھائی جاسکتی ہے۔

مکرمی و محترمی فاتح صاحب، تمام تر خلوص سے آپ کے سوالات کے جوابات۔

مکرم خان صاحب،
السلام علیکم!
پہلا سوال: کیا آپ غامدی صاحب کو ان کی کسی بھی خصوصیت کی بنا پر امام بخاری سے بڑھ کر عظیم المرتبت ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
جی نہیں۔ بندوں کا مقابلہ نہیں ہے۔ ان کے بت کیوں تراشیں؟ میں نے ایک مصنف کے تصنیف شدہ مواد کا تذکرہ کیا۔ آپ کو اس مواد پر کسی قسم کا اعتراض‌ہے تو مصنف موجود ہے۔ مجھے یہ سنتیں درست نظر آتی ہیں لہذا اپنے مضمون کا حصہ بنایا۔

کیا آپ انسانوں کے مرتبہ اور درجہ بندی کے قائل ہیں؟ میں نہیں ہوں ، کہ انسانون کی درجہ بندی ہندوانہ نظریہ ہے۔
اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر 'فضل' ضرور فرمایا۔ لیکن درجہ بندی نہیں کی۔ کلک کرکے عربی آیات دیکھ لیجئے۔

[AYAH]2:253[/AYAH] یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کسی سے اﷲ نے (براہِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی)، اور ہم نے مریم کے فرزند عیسٰی (علیہ السلام) کو واضح نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان رسولوں کے پیچھے آنے والے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آجانے کے بعد آپس میں کبھی بھی نہ لڑتے جھگڑتے مگر انہوں نے (اس آزادانہ توفیق کے باعث جو انہیں اپنے کئے پر اﷲ کے حضور جواب دہ ہونے کے لئے دی گئی تھی) اختلاف کیا پس ان میں سے کچھ ایمان لائے اور ان میں سے کچھ نے کفر اختیار کیا، (اور یہ بات یاد رکھو کہ) اگر اﷲ چاہتا (یعنی انہیں ایک ہی بات پر مجبور رکھتا) تو وہ کبھی بھی باہم نہ لڑتے، لیکن اﷲ جو چاہتا ہے کرتا ہے

درجہ بندی نہیں کی [ARABIC]لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ[/ARABIC] اس کے لئے دیکھئے:
[AYAH]2:136[/AYAH] (اے مسلمانو!) تم کہہ دو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیھما السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرماں بردار ہیں


سوال2: کسی "عالم" کا ایرانی النسل ہونا کیا اس کے مرتبہ میں فرق ڈالتا ہے؟
جی نہیں، آپ آگے چل کر دیکھئے، میں نے کیا لکھا ہے۔ کس حقیقت کی درستگی چاہتے ہیں آپ؟

امام بخاری ایک بڑا نام ہے اور اس امام کے نام سے منسوب کتابوں‌میں ایسی روایات کا وجود جو قرآن کریم کے خلاف ہیں۔ ہمیں یہ بتاتی ہیں کے ان کتب روایات میں امام بخاری کے بعد بہت سے اضافہ ہوئے ہیں۔ یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں، توراۃ، انجیل اور زبور کے ساتھ، یہی کاروائی مولویت کرتی رہی ہے۔

انہی خیالات کا اظہار جناب بن باز نے 1999 میں کیا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنے دینی سرمائے کی حفاظت کے لئے عقاب کی طرح ہوشیار رہنا ہوگا۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ اسلام دشمن عناصر نے ہماری کتابوں کو ہدف بنا رکھا ہے۔ حیرت جب ہوتی اگر انہوں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ ہماری پناہ گا کیا ہے؟ القران۔ ]
اپنی کتاب حضور رسالت مآب صلعم کے اس قول کریم سے شروع کیجئے۔
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ:
جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔


سوال3: کیا آپ کے نزدیک "حدیثِ نبوی" (صلی اللہ علیہ و سلم) کی اصطلاح استعمال کرنا غلط ہے؟
میں نے اسکا استعال عموماَ رسول اللہ صلعم سے متعلق خبروں‌کے عمومی تذکرہ میں دیکھا ہے، لہذا اس طرح درست ثابت ہے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو تمام محدثین لکھتے ہیں 'قالَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم '۔
کیا رسول اللہ کے قول کو اقوال رسول صلعم لکھنا درست نہیں؟ خاص طور پر جب 'خانوادہ رسول' اور 'اصحابہ رسول' اور کے 'اقوال زریں' میں فرق و وضاحت مطلوب ہو؟

http://ourbeacon.com/wp-content/uploads/admin2/2007/08/criminals.pdf
درج بالا کتاب "اسلام کے مجرم" کے مصنف شبیر احمد صاحب (ایم ڈی) کی عالمانہ حیثیت کیا؟
ڈاکٹر شبیر احمد ماشاء اللہ حیات ہیں، آپ ان سے پوچھ لیں۔
میں، یہ گواہی دے سکتا ہوں کہ موصوف نے جامعۃ الازہر سے فاضل اسلامیات کیا ہے، عربی پر عبور ان تمام پاکستانیوں سے بہتر ہے، جنہیں میں جانتا ہوں، مترجم قرآن ہیں۔ خود اپنے ترجمے کو 4 بار ریویو کرکے شائع کرچکے ہیں۔پاکستان کی مسلح افواج کے ڈیکوریٹڈ بریگیڈیر ہیں۔ پیشہ سے باعزت ڈاکٹر ہیں۔ اور شاہ فیصل کے ذاتی معالج رہے۔
مزید یہ کہ ان دنیوی اور دینی علوم کا حصول سے ہم ان کو کسی بت میں نہیں ڈھال سکتے۔ ان کی مندرجہ بالا کتاب لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ جیت چکی ہے۔ ورنہ میں حوالہ دینے میں کچھ بخل سے کام لیتا۔

عالمانہ حیثیت کا تعین اور سند یافتگی کے بارے میں آپ براہ کرم میرا چوتھا آرٹیکل ملاحظہ فرمائیے۔ اب بھائی اس سند یافتگی کا دور گذر چکا۔ ایسی اسناد کی بین الاقوامی سطح پر کیا وقعت ہے؟
سوال4: نیز شبیر احمد صاحب نے اپنی اس کتاب میں لفظ "ملّا" استعمال کیا ہے لیکن آپ "مولوی" پر زور کیوں دے رہے ہیں؟
میں نے مولویت کے بارے میں لکھا ہے۔ کسی مخصوص مولوی کے بارے میں نہیں۔ آپ ذرا دوبارہ سے پڑھئے۔ ڈاکٹر شبیر احمد نے 'برصغیر کے تاریک دور مولویت' کے بارے میں کچھ نہیں‌لکھا۔ ان کا اسلام کے مجرم کا موضوع اور 'برصضیر کے تاریک دور مولویت'، دو مختلف موضوعات ہیں۔ ان کا موضوع ہے ، حدیث کی کتب میں ممکنہ اہانت کی نشاندہی۔ میرے آرٹیکل کا موضوع ہے۔ 'مولویوں' کا برصغیر میں سیاسی طریقہ کار جس سے روشنی و نور معدوم ہوکر ہم کو غلامی میں لے گئی۔
سوال5: کیا آپ کی نظر میں مولوی اور ملا میں کوئی فرق ہے؟ یعنی کیا ہر وہ شخص جس کے نام کے ساتھ مولوی کا سابقہ لگا دکھائی دے آپ کی تعریف کے زمرے میں آ جائے گا؟
آپ آج کی بات کر رہے ہیں یا اس دور کی جو 1857 میں ختم ہو گیا؟ آپ نے اس تفصیل کی طرف دھیان دیا؟

مولوی اور ملا کا نام استعمال کرنے سے یا دین کے بارے میں علم حاصل کرنے سے کوئی شخص اس 'مولویت' میں نہیں شامل ہوجاتا۔ یہ ایسا ہے جیسے 'سیاست' کا علم رکھنے والے یا پڑھانے والے 'پروفیسر؛ کو ہم سیاستدان کہنے لگیں۔

غلط بیانی: حضور اکرم صلعم کی وفات سے پہلے، قران صرف پتوں، پتھروں، ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا۔ نعوذ‌ باللہ!

So I started locating Quranic material and collecting it from parchments, scapula, leaf-stalks of date palms .... x
یہی کتاب روایت دوبارا یہ کہتی ہے کہ قرآن "حفاظ" نے حفظ کر رکھا تھا۔

and from the memories of men
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamen...ml#006.060.201
کون سی بات درست ہے؟
فاتح صاحب:
ان دونوں باتوں میں مجھ سے کم فہم کو تو کوئی اختلاف سرے سے نظر ہی نہیں آتا۔ اور ان دونوں کے ماننے میں کیا مضائقہ ہے؟
بہت بڑا فرق ہے۔ ہر قران حکیم کے متن کی پروف ریڈنگ حفاظِ قرآن کرتے ہیں۔ اگر یہ
'لکڑی، پتھر، پارچوں اور پتھروں' پر کندہ تھا یعنی کتاب نہیں تھی،تو اس کی پروف ریڈنگ کس نے کی؟ اور ایسے پتھر کن پر یہ کندہ تھا، کس عجائب خانے میں دستیاب ہیں؟ کیا کبھی سننے مین بھی آیا کہ وہ پتھروں پر کندہ مکمل قرآن فلاں فلاں عجائب گھر میں محفوظ ہے؟ دیکھئے جبکہ مقام ابراہیم ع جو کہ پتھر پر ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے محفوظ ہیں۔ تو پتھروں پر کندہ اس تحفظ قرآن میں اتنی کوتاہی؟

یہاں میں آپ کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر قرآن اس آیت کے نزول کے وقت ظاہری کتاب کی شکل میں تھا یا نزول کے ساتھ ساتھ کتاب بھی ترتیب دی جاتی رہی۔
اگر اس استدلال کو درست مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت قرآن ایک "کتاب" کی شکل میں موجود تھا اور جب پہلی دفعہ قرآن کے لیے لفظ "کتاب" آیا اس کے بعد کم از کم 162 مرتبہ اس "کتاب" میں ترمیم کی گئی (نعوذ باللہ)؟
قران کے نازل ہونے کے ساتھ ساتھ، لکھے جانے اور حفظ کرنے کی روایت بہت اچھی طرح موجود ہے۔ اس میں آپ کو خصوصاَ کیا شک ہے اور کیوں۔

آپ کی 162 مرتبہ ترمیم کی بات۔ صاحب اللہ تعالی جوں جوں قرآن نازل فرماتے رہے۔ قرآن کی آیات کا اضافہ ہوتا گیا، حتی کہ آخری آیات نازل ہوئی۔ آپ نزول کے لئے ترمیم کا لفظ کیوں استعمال کر رہے ہیں؟
مکرمی و محترمی فاتح صاحب، ان جوابات کے دوران میرا رویہ بہت پرسکون اور عزت سے پر ہے۔ سوالات کا لہجہ نرم ہے، تلخ قطعاَ نہیں۔ ایسے ہی پڑھئے۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم
اگر آپسی برتری سے فرصت پالیں‌ تو اس لنک کی طرف بھی رجوع کیجئے بڑے مفید نسخے موجود ہیں۔
وسلام۔۔۔

کتب روایات - رسول اکرم، خانوادہ رسول اور اصحابہ رسول کے ایسے 'واقعات' ، 'حدث' ، 'حادثات' ، 'حدیث' ، 'واقعات' اور 'خبروں' کے سنے سنائے مجموعات ہیں - جن کی سند و صحت کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور وفات رسول کے 250 سال تک ان کتب روایات کے لکھنے والوں یا جن سے یہ کتب منسوب کی گئی ہیں، کوئی وجود نہیں تھا۔
 
عرض:
میں دیکھ رہا ہوں کہ زیادہ تر سوالات اور کچھحضرات کی نوعیت اور کوشش یہی ہے کہ آج بھی نئے خدا ڈھونڈ رہے ہیں۔ مضمون سے زیادہ صاحب مضمون پر زور ہے۔جو حضرات بامعنی سوالات کرتے ہیں ان کو بصد احترام، جو میرے اپنے ناقص علم میں ہے جوابات دے کر خوشی محسوس کرتا ہوں۔
کچھ لوگ میرے آرٹیکل کا تھوڑا سا حصہ اٹھا کر، بے معنی رنگ شروع دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ لیکن حوالہ نہیں دیتے نا درست کرتے ہیں یا دیتے ہیں تو غلط۔ ایک صاحب نے تو محدثین کو رسولوں کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ نعوذ باللہ!

اللہ ان کو قرآن پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ اس سے بہت سی غلظ فہمیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔
یہاں ڈسکشنز کسی کی برتری کے لئے نہیں بلکہ علم و اعلام کے حصول کے لئے ہیں۔ ایک دوسرے کی کردار کشی کے لئے نہیں۔

۔ جن لوگوں کی 'برتری' کی خواہش ہے، ان کے معروضات میں 'آپسی برتری' کا تاثر ملتا ہے، کسی قسم کی ابحاث کا نہیں۔ ایسے لوگوں کا مجموعی مقصد بس یہ ہوتاہے کہ 'صرف میری مان لو' اور اللہ کی کتاب سے بالکل دور رہو۔

ایرانی النسل مصنفیں کا حوالہ ان کی تواریخ کے ساتھ نیچے کی طرف کچھ بعد میں درج ہے۔ اور کہاں سے لیا گیا ہے، اس کا بھی اندراج ہے۔
اسلام کی مشہور شخصیتوں کے ادوار

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 570-632
حضرت ابوبکر صدیق 573-634
حضرت عمر فاروق 583-644
حضرت عثمان 583-656
حضرت علی ابن طالب 600-661

شیعہ امام:
1۔ علی ابن طالب 600-661
2۔ حسن بن علی 625-670
3۔ حسین بن علی 626-680
4۔ زین العابدین بن حسین 659-712
5۔ محمد باقر بن زین 676-731
6۔ جعفر صادق بن باقر 702-765
7۔ موسی کاظم بن جعفر 746-799
8۔ علی رضا بن موسی کاظم 765-818
9۔ محمد جواد تقی بن رضا 811-835
10۔ علی ھادی نقی بن تقی 846-868
11۔ حسن عسکری بن نقی 846-870
12- ابو القاسم محمد المنتظر امام الزماں المہدی (اثناء العشری حضرات یقین رکھتے ہیں کی و 254 یا 255 ہجری میں پیدا ہوکر4 یا 5 سال کی عمر میں غائب ہوگئے اور قیامت سے پہلے ظاہر ہونگے )

حضرت معاویہ 604-680
یزید بن معاویہ 645-683

ایرانی النسل مؤرخین اور سنی محدثین کی تاریخ وفات:
امام ابن جریر طبری -پہلا مفسر اور مؤرخ 310ھ 923ع
امام محمد اسماعیل بخاری 256ھ 870ع
امام مسلم بن حجاج القشیری 261ھ 875ع
ابو عبداللہ ابن یزید ابن ماجہ 273ھ 886ع
سلیمان ابو داؤد 275ھ 888ع
امام ابو موسی ترمذی 279ھ 883ع
امام عبدالحمٰن نسائی 303ھ 915ع

ایرانی النسل شیعہ مؤرخین اور محدثین کی تارخ‌وفات:
شیخ محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی 329ھ 941ع
شیخ صدوق ابو جعفر بن علی طبرسی 381ھ 993ع
شیخ ابو جعفر محمد ابن حسن طوسی 460ھ 1071ع

فقہہ کے امام(Jurists)، تاریخ وفات:
امام مالک ابن انس 179ھ
امام ابو حنیفہ 150ھ
امام احمد بن حنبل 241ھ
امام شافی 204ھ

ابن طبری نے پہلی تاریخ،حضورپرنور(ص) کی وفات کے تقریباَ 250 سال بعد لکھی۔ اسی نے واقعہ کربلا کے 225 سال بعد اس واقعہ کوقلمبند کیا۔ اس سے پہلے اس واقعہ کی کوئی تحریر نہیں ملتی، اور اس نے اس واقعہ کا کوئی ریفرنس نہیں‌فراہم کیا، یہ سنی سنائی شہادتوں‌پر مشتمل ہے اور چشم دید گواہ ایک بھی نہیں اس تحریر کا۔

یہ نوٹ‌کرنا اہم ہے کہ ہماری کتب روایات کے تمام مصنفین، طبری/کلینی دور سے تعلق رکھتے ہیں، جوکہ حضور (ص)‌ وفات کے 250 سال بعد شروع ہوا۔ ان تمام تصنیفات کے ریفرنس 9 سے 10 نسل در نسل بعد سنے سنائے ہیں کہ اصحابہ کرام میں‌ سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ پہلے 250 سال کی سنہری تاریخ کی کسی کتاب کا سراغ نہیں‌ملتا۔ کلینی اور طبری سے پیشتر (تقریباَ سنہ 250 ھجری سے پیشتر) شیعہ اور سنی فرقہ کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ دونوں فرقہ کا ابتدائی سراغ تقریباَ‌ 250 ھجری کے قریب وجود میں آنے کا ملتا ہے۔ جبکہ واقعہ کربلا 10 محرم 61 ھجری بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680 میں پیش آیا۔

نو کے نو محدثین ایرانی النسل تھے۔ جن میں سے 6 سنی تھے، جن کی احادیث کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ اور 3 محدثین شیعہ تھے۔ ان سب کا تعلق شکست خوردہ ایرانی سلطنت سے تھا۔ان زورستانیوں (پارسی) کا زبردست اثر عباسی خلفاء پر رہا۔

مسلمانوں نے فارس 633-651 کے درمیان فتح کیا اور ساسانی سلطنت کا خاتمہ سعد ابی وقاص کی قیادت میں‌لڑی جانے والی جنگ قادسیہ سے ہوا۔ لیکن زورستانی مذہب ختم نہ ہوا بلکہ ' ایک اور ہی اسلام ' میں،تبدیل ہو گیا۔ زورستانی مذہب اور اس کی کتاب "پاژند " کے گہرے نشانات کتب روایات میں آج بھی ملاحظہ فرمائے جاسکتے ہیں۔

اس آرٹیکل کے تمام تواریخ‌ اور بیانات حوالہ جات کے ساتھ فراہم کئے گئے ہیں۔ مناسب جگہ پر کلک کرکے ان حوالہ جات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹائپنگ کی غلطی کی نشاندہی فرمائیں، بخوشی درست کردوں گا۔

والسلام
 
محترم اجمل صاحب، آپ کا تجربہ اور علم دونوں ہی قابل ستائش ہیں۔ اللہ تعالی آپ کے کام میں برکت فرمائیں۔

محترم ۔ مجھے آپ کی ویب سائٹ پر عبداللہ یوسف علی صاحب کے حوالہ سے انگریزی ترجمہ اور طاہر القادری صاحب کے حوالہ سے اُردو ترجمہ کے علاوہ اور کچھ نہ مل سکا ۔ اگر کوئی اور ہے تو بتا دیجئے ۔ طاہر القادری صاحب کا ترجمہ تو ماضی قریب کی بات ہے ۔ اب ان کا ترجمہ ان کی ویب سائت پر موجود ہے ۔ میری نااہلی سمجھ لیجئے کہ کئی جگہ ان کا ترجمہ مجھے عربی سے براہِ راست ترجمہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے جس کیلئے بعض اوقات مجھے اپنی بیوی کی مدد لینا پڑتی ہے
اجمل صاحب، بہت شکریہ آپ کے تبصرات کا۔
1۔ کسی بھی آیت پر کلک کیجئے۔ آپ کو مزید تراجم نظر آئیں گے۔
2۔ کسی بھی لفظ پر کلک کیجئے۔ آپ کو اس لفظ کے مصدر سے بنے ہوئے تمام الفاظ جو قرآن میں استعمال ہوئے ہیں نظر آئیں گے۔ جن کی پروف ریڈنگ اس وجہ سے کی کہ طبع شدہ متن میں اور ویب سائٹ پر موجود عبارت میں فرق نہ ہو۔
3۔ عربی آیات کو سعودی عرب کی وزارۃ الشؤون الاسلاميہ والاوقاف والدعوۃ والارشاد کے میڈیا سرور سے ہر آیت لنک ہے تاکہ اگر کہیں انسانی غلطی ہو تو بہ آسانی قرآت سن کے کسی بھی آیت میں ممکنہ غلطی پکڑی جاسکے۔
یہ تو ہوئے قران کے بارے میں آپ کے سوالات کے جوابات۔

اگر کسی بات کا جواب پہلے لکھ چکا ہوتا ہوں تو اگر اسی تھریڈ میں ہو تو تذکرہ کردیتا ہوں یہ سمجھتے ہوئے کہ ایک شخص جو سوال جواب کررہا ہے، کم از کم اس تھریڈ‌میں‌تو انٹریسٹڈ ہوگا اور اس نے کو تبصرہ لکھنے سے پیشتر کم از کم اس تھریڈ میں میرے اور دوسرے اصحاب کی رائے کم از کم پڑھی ہوگی۔ اور اگر کسی دوسرے تھریڈ یا ویب سائٹ پر کسی بات کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہو تو وہاں کا پوایئنٹر دے دیتا ہوں۔ آئندہ جن باتوں‌کی طرف آپ نے اشارہ کیا اس سلسلے میں مزید احتیاط روا رکھوں گا۔

اوپن برہان کے بارے میں مزید انفارمیشن یہاں ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=180075&postcount=43

مثال کے طور پر میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کس کا ترجمہ پڑھتے ہیں تو آپ نے جواب دیا کہ آپ کی ویب سائٹ دیکھ لوں ۔ کیا یہ لکھنا بہت مشکل تھا ؟ "میں فلاں صاحب کے ترجمہ سے استفادہ کرتا ہوں"
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح میں ہر آیت پر 20 عدد مترجمین سے استفادہ حاصل کرتا ہوں۔ ان کے نام یہ ہیں۔ لیکن اصل مآخذ قرآن کو تصور کرتا ہوں۔ اور اسی سے استفادہ کرتا ہوں۔

اردو: سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک۔ احمد علی، طاہر القادری، احمد رضا خان
انگریزی: محمد احمد اور سمیرا کنیڈا۔ عبد اللہ یوسف علی، محمد ممدوک پکتھال، آرتھر جان آربری، ایم ایچ شاکر، شیخ محمد سرور،، ہلالی/ ڈاکٹر محمد محسن خان (نطرثانی شدہ)، محمد فاروق اعظم مالک، ، فری مائنڈز، حسن قریب اللہ، جارج سیل، جے ایم روڈویل۔محمد اسد،
انگریزی تراجم جن پر اعتراضات اٹھائےجاتے ہیں اور جن کے پڑھنے میں احتیاط کی ضرورت ہے: ڈاکٹر محمد تقی الدین الہلالی/ ڈاکٹر محمد محسن خان (اول)، رشاد خلیفہ، ڈاکٹر شبیر احمد (فلوریڈا) ، مولانا محمد علی( احمدی ترجمہ)

ترجموں کی کوالٹی کے لئے یہ عرض‌ہے۔
تراجم۔
ترجمہ، کسی ایک مترجم کی تعلیمی درجے پر مبنی ہے، گو کہ قرآن کے تمام مترجمین بہترین عالم قرآن رہے ہیں اور ہم سب کی عزت کرتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مترجم نے ترجمہ کرتے ہوئے کسی نہ کسی وصف پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اور ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک دوسرا مترجم اسی آیت کے دوسرے وصف پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ میں نے (کئی دوسروں کی مدد سے) ان تراجم کو جمع کیا اور سب کو یکجا کردیا تاکہ ہم سب ان تمام مترجمین کے کام سے استفادہ حاصل کرسکیں۔

میں ذاتی طور پر عربی متن، الفاظ کے معانی اور مزید دوسرے تراجم کی روشنی میں پرکھتا ہوں۔ اگر آپ کسی ترجمے کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو حکم کیجئے، انشاء اللہ مہیا کرنے کی کوشش کروں گا۔

موضوع سے ہٹنے کے بارے میں آپ کے تبصرات پر غور کررہا ہوں، اس کا سد باب کرنے کی کیا صورت بہتر ہے۔

اگر کسی بات کا جواب رہ گیا ہے یا مزید وضاحت درکار ہے تو فرمائیے۔

والسلام
طالب علم قرآن،
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم محترم،

آپ کی اوپر کی ایک پوسٹ میں کچھ "تاریخی" غلطیاں نظر آئیں تو پھر مجبور ہوا کچھ لکھنے پر۔

لیکن اس سے پہلے ایک جملہ معترضہ آپ کے مہیا کردہ حوالہ جات کے بارے میں، جو سارے کے سارے وکیپیڈیا کے ہیں، اور وکیپیڈیا کے متعلق عرض کرتا چلوں کہ یہ Informative ضرور ہے لیکن Authoritative ان کیلیے بھی نہیں ہے جن کی زبان میں لکھا گیا ہے۔ مثلاً کچھ ماہ پہلے میں نے ڈیلی ٹائمز، اسلام آباد میں ایک خبر پڑھی کہ امریکہ میں کچھ پروفیسر صاحبان نے اپنے طالب علموں کو منع کیا کہ وہ وکیپیڈیا کے حوالہ جات اپنے ٹرم پیپیرز وغیرہ میں مت دیں ورنہ وہ قابلِ قبول نہیں ہونگے، اور ابھی حال میں یہ ایشو بھی چلا کہ اسکی انٹریز، سی آئی اے وغیرہ نے عراق، افغانستان اور اس طرح کے دوسرے موضوعات پر اپنے نقطہ نظر سے ایڈٹ کی ہیں۔

اب ایک نظر ان حقائق کی طرف جو کہ آپ نے غلط رنگ سے پیش کئے ہیں۔


ایرانی النسل مؤرخین اور سنی محدثین کی تاریخ وفات:
امام ابن جریر طبری -پہلا مفسر اور مؤرخ 310ھ 923ع
امام محمد اسماعیل بخاری 256ھ 870ع
امام مسلم بن حجاج القشیری 261ھ 875ع
ابو عبداللہ ابن یزید ابن ماجہ 273ھ 886ع
سلیمان ابو داؤد 275ھ 888ع
امام ابو موسی ترمذی 279ھ 883ع
امام عبدالحمٰن نسائی 303ھ 915ع
والسلام


آپ نے طبری کو پہلا مفسر اور مؤرخ قرار دیا ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔

مفسر، سے مراد اگر، (قرآن کو) کھولنا اور بیان کرنا ہے، تو مفسرِ اول تو بذات خود حضورِ اقدس (ص) کی ذاتِ مبارکہ تھی۔ اور انکے بعد صحابہ کرام میں سے جو "مفسر" مشہور ہوئے ان میں چاروں خلفۂ راشدین، ابنِ مسعود، ابنِ عباس، ابنِ کعب، ابنِ ثابت، ابنِ زبیر کے نام مشہور ہیں۔

اور اگر مفسر سے آپکی مراد، بفرضِ محال، "صاحبِ کتابِ تفسیر" ہے تو پھر بھی طبری پہلے مفسر نہیں ہیں۔ تفسیر ابنِ کعب، اور تفسیرِ ابنِ عباس باقاعدہ کتابی شکل میں موجود ہیں اور مؤخرالذکر تو عام ملتی ہے۔

اب آئیے مؤرخ کی طرف تو یہاں بھی بہت بڑا دھوکہ کھا گئے آپ۔

اسلامی تاریخ نگاری کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

۔ابتدائے تاریخ نگاری سے تیسری صدی ہجری تک
۔تیسری سے چھٹی ہجری
۔چھٹی سے دسویں
۔دسویں سے تا حال

طبری کا دور اسلامی تاریخ نگاری میں دوسرا دور ہے۔ طبری سے پہلے، پہلے دور کے چند مؤرخین جن کی تصانیف مشہور ہوئیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

۔ ابو عبداللہ محمد بن اسحاق بن یساز (معروف بہ ابنِ اسحاق) وفات 150 ہجری۔ سیرت نبوی، دو جلدوں میں "المبتدا" کے نام سے لکھی۔ دوسری کتاب کا نام "الخلفاء" ہے۔ مدینہ میں پیدا ہوئے۔

۔ ابو محمد عبدالملک بن ہشام، وفات 218 ہجری۔ سیرۃ ابنِ ہشام، سیرت اور تاریخ کی مستند ترین کتابوں میں سے ہے۔ انہوں نے سیرہ ابنِ اسحاق کو نئے سرے سے لکھا۔ بصرہ میں پیدا ہوئے۔

۔ محمد بن عمر واقدی، وفات 207 ہجری۔ تاریخ کی پانچ، چھ کتابوں کا مصنف ہے۔ سب سے مشہور "کتاب التاریخ والمغازی" ہے۔ یہ بالکل بھی ثقہ نہیں سمجھا جاتا لیکن یہاں اس سے بحث نہیں ہے، بلکہ اس سے ہے کہ یہ (غیر ثقہ) مؤرخ، طبری سے پہلے تھا۔ مدینہ میں پیدا ہوئے۔

۔ ابو عبداللہ محمد بن سعد، وفات 230 ہجری۔ "طبقاتِ ابنِ سعد" کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ عام ملتی ہے۔ واقدی کے نائب تھے لیکن استاد کے مقابلے میں ثقہ سمجھے جاتے ہیں۔ بصرہ میں پیدا ہوئے۔


ابن طبری نے پہلی تاریخ،حضورپرنور(ص) کی وفات کے تقریباَ 250 سال بعد لکھی۔ اسی نے واقعہ کربلا کے 225 سال بعد اس واقعہ کوقلمبند کیا۔ اس سے پہلے اس واقعہ کی کوئی تحریر نہیں ملتی، اور اس نے اس واقعہ کا کوئی ریفرنس نہیں‌فراہم کیا، یہ سنی سنائی شہادتوں‌پر مشتمل ہے اور چشم دید گواہ ایک بھی نہیں اس تحریر کا۔

یہ نوٹ‌کرنا اہم ہے کہ ہماری کتب روایات کے تمام مصنفین، طبری/کلینی دور سے تعلق رکھتے ہیں، جوکہ حضور (ص)‌ وفات کے 250 سال بعد شروع ہوا۔ ان تمام تصنیفات کے ریفرنس 9 سے 10 نسل در نسل بعد سنے سنائے ہیں کہ اصحابہ کرام میں‌ سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ پہلے 250 سال کی سنہری تاریخ کی کسی کتاب کا سراغ نہیں‌ملتا۔ کلینی اور طبری سے پیشتر (تقریباَ سنہ 250 ھجری سے پیشتر) شیعہ اور سنی فرقہ کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ دونوں فرقہ کا ابتدائی سراغ تقریباَ‌ 250 ھجری کے قریب وجود میں آنے کا ملتا ہے۔ جبکہ واقعہ کربلا 10 محرم 61 ھجری بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680 میں پیش آیا۔

ان میں سے کچھ باتوں کا صحیح ریفرنس اوپر میں نے دے دیا کہ طبری اور کلینی سے پہلے کوئی کتاب نہیں ملتی۔

اور یہ کہنا کہ کلینی اور طبری کی کتب کی وجہ سے شیعہ سنی فرقے پیدا ہوئے، عرفِ عام میں قیاس مع الفارق کہلاتا ہے۔

سنی کتب کی فہرست میں نے اوپر دی، جو طبری سے پہلے تھے۔ شیعہ کتب میں سے احمد بن ابو محمد بن علی اعثم کوفی (معروف بہ ابنِ اعثم کوفی) وفات 314 ہجری کی کتب "الفتوح" اور "تاریخِ اعثم کوفی" شیعہ کتبِ تاریخ میں مستند ہیں جو کہ کلینی سے پہلے کی ہیں۔

انکی "تاریخ" میرے پاس موجود ہے اور اس میں انہوں نے شرح و بسیط کے ساتھ کربلا کے واقعات لکھے ہیں، اس لیے آپ کا یہ دعوٰی بھی غلط ہے کہ کربلا کے واقعات پہلی دفعہ طبری نے لکھے۔

اور آخر میں سخن ہائے نا گفتنی، آپ بے شک فرمائیں کہ مضمون سے زیادہ صاحبِ مضمون زیرِ بحث ہے، تو بھائی ہم تحریر سے ہی تو مصنف کے ذہن تک پہنچیں گے نا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے روزِ روشن کی طرح حقائق کو اس طرح توڑ موڑ کر کیوں پیش کیا ہے۔

اگر یہ سب آپ کے علم میں نہیں تھا تو تعجب کی بات ہے کہ قرآن کا طالب علم اور بنیادی چیزوں سے لا علم۔

اور اگر یہ حقائق آپ کے علم میں تھے تو پھر میں بھلا "ادب" کی وجہ سے آگے کیا عرض کر سکتا ہوں سوائے اس کے کہ

بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔


۔
 
اس آرٹیکل میں صرف اور صرف ایک تاریخ رسول صلعم کی وکیپیڈیا سے لی گئی ہے۔ دوسری تاریخوں کی مد میں اس ڈاکومینٹ سے مزید ویریفائی کیا گیا ہے۔ آپ تاریخوں کا مشاہدہ فرمالیجئے:
http://www.beacon2005.com/KARBALA.pdf
جو تواریخ درست نہیں، ان کو درست کرنے کا شکریہ۔ جو شیعہ حضرات اس دور تاریکی کے شرکا رہے وہ طبری اور کلینی کو زیادہ مستند سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جو سنی حضرات اس دور تاریکی کے شرکاء رہے وہ صحاح ستہ کو زیادہ مستند سمجھتے ہیں۔ یہ وجہ ہے اس مخصوص مکتبہ فکر نے جن کتب کا استعمال کیا اس پر ہی نکتہ ارتکاز محدود رکھا۔ میری حتی الامکان کوشش یہ رہی ہے کہ کسی کتاب کا نام اور کسی شخص کا نام اصل آرٹیکل میں نہ ہو۔

جن حضرات کی کتب کا حوالہ برادر من آپ نےدیا، درست دیا۔ بہت شکریہ۔ ان کتب میں سے کوئی کتب تاریخ، ان سنی اور شیعی کتب روایات میں شامل نہیں جو ان 4 آرٹیکل کا بنیادی موضوع ہے۔ لہذا میں نے ان تواریخ اور تفاسیر کی کتب کو شامل نہیں کیا۔ کسی بھی شخص کو ان کتب پر بحث کرنے پر 'تارک ۔۔۔' کے القابات سے نہیں نوازا گیا۔ لہذا ان کو اس لسٹ میں شامل کرنا گو کہ تاریخی نکتہ نگاہ سے درست ہے، لیکن ان کتب کو اس مقاصد کے لئے نہیں استعمال کیا گیا جن کا تذ کرہ نیچے کیا ہے۔

موضوع :‌مولویت کا دور تاریکی۔
مولویت ان کتب کا حوالہ ( جو آپ نےفراہم کی ہیں) بہت کم دیتی ہے۔
آج بھی کچھ لوگ آپ کو بہ آسانی، برصغیر میں مل جائیں گے جو مدرسہ کی تعلیم کو اسکول کی تعلیم پر ترجیح‌دیتے ہیں۔ حق حاکمیت اور حق ملکیت کو ایک سمجھتے ہیں۔ عام شخص کو عبادات میں الجھا کر رکھنے کے قائل ہیں اور بادشاہ کو ہر ظلم اور گناہ سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ سیاست میں بذریعہ جبر اجماع اور دھوکہ بازی کے قائل ہیں۔ اور اس کے لئے کتب روایات سے دلائل پیش کرتے ہیں۔ آپ اس موضوع پر کسی خیال کا اظہار کیجئے۔

یہ لوگ اس دور مولویت کی یادگار ہیں، جس سے برصغیر پاک ہند میں دور تاریکی پھیلا۔ اور اجتماعی کمزوریوں عروج پر پہنچی۔ میں اس Clergy یعنی مولویت کو ان آرٹیکلز میں انحطاط علم کا قصور وار ٹھیراتا ہوں۔ اس تھریڈ‌کا یہ موضوع ہے۔ اس نظام کی سیاسی وجوہات کیا تھیں۔ اس کے کیا نتائج نکلے۔ ان کے ہتھیار کیا تھے۔ اپنے سیاسی مقاصد کا حاسل کرنے کے طریقے کیا تھے۔ اگر آپ کے سوچوں کے ارتقا میں یہ داخل ہوتا ہے تو خیلات کا اظہار فرمائیے۔

معصوم مولوی جو ہم کو قرآن، سنت اور علم و اعلام کی تعلیم دیتے ہیں، اس کی زد میں آئے اور ایک سے زیادہ بار ائے۔ کیا ایسا ہوتے رہنا چاہئیے؟ اس کا سد باب کیونکر ہو، وہ چوتھے آرٹیکل میں ہے۔ دیکھئے
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=8224

قرآن اور حدیث کا موآزنہ بہت سے لوگوں کا دلچسپ مشغلہ ہے اس دھاگہ کا موضوع نہیں۔ اس پر میں نے ایک الگ تھریڈ‌کھول دیا ہے۔ اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کردیا ہے، اس سلسلے کی بیان وہاں زیادہ بہتر ہیں، وہاں فرما لیجئے۔ میری بھی کوشش رہے گی کہ جہاں ممکن ہو اپنے ناقص رائے کا اظہار کرسکوں۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=8264

ایک بار پھر شکریہ، اس طرف توجہ دلانے کا اور اپنے علم سے سب کو فیضیاب فرمانے کا۔
 
اجمل صاحب، بہت شکریہ آپ کی نگارشات کا۔ آپ کی ذاتی نصیحتیں میں نے نوٹ کرلی ہیں۔
صرف اتنی وضاحت کروں گا کہ
یہ تمام کچھ 1857 سے پہلے پہلے کے دور کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ اس کے اثرات ہمارے موجودہ معاشرے پر بھی ہیں۔ لیکن ہم اس کو ایسا کا ایسا ہی منطبق نہیں کرسکتے ہیں۔

میں ابھی تک انفرادی مسائل کے بارے میں نہیں لکھتا۔ اور توجہ صرف انسٹی ٹیشنز تک محدود ہے۔ لہذا انفرادی مسائل جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا اب تک نہیں لکھا، انشااللہ اس پر سوچوں گا۔

اب تک کسی نے بھی چوتھے آرٹیکل پر اپنے خیال کا اظہار نہیں کیا، جس میں انہی خیالات کا کا نکتہ ارکاز ہے اور Conclusion میں، قرآن مع ترجمہ بنیادی تعلیم کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔

لفظ مولویت، Clergy کے لئے استعمال کیا۔ دوسرا زیر غور لفظ 'مذہبی بادشاہ گر' تھا۔ لیکن اسے میں نے ڈراپ کردیا۔

جن صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مصنف سے رابطہ قائم کریں،انکا سوال تھا کا اس ڈاکٹر کی اسناد کیا ہیں۔ نکتہ نظر کے بارے میں نہیں پوچھا تھا۔ لہذا ان کو وہیں جانے کا مشورہ دیا۔

ہم اب تک حکیم الامت، 'وہ ایک شخص'، ؛ایک مسیحا' ڈھونڈ رہے ہیں۔ شاید اسی لئے لوگ ہر شخصیت کا بت تراشنے کی فضول کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت کم لوگ متن کی طرف توجہ دیتے ہیں اور یہی پوچھتے رہتے ہیں کہ لکھا کس نے ہے۔
ایسے لوگوں سے سوال ہے کہ
1۔ فوج کون سا والا 'بندہ واحد' چلاتا ہے؟
2۔ یونیورسٹیز کون سا والا 'بندہ واحد' چلاتا ہے؟
3۔ اسکول کون سا والا 'بندہ واحد' چلاتا ہے
4۔ طرح طرح کی مذہبی و غیر مذہبی سیاسی جماعتیں کون سا والا 'بندہ واحد' چلاتا ہے۔

جو سسٹمز یا انسٹی ٹیوشنز ایک بندہ چلاتا ہے، وہ اس بندہ کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن ایک فرد واحد کی موت سے کسی انجمن یا تنظیم یعنی Institution کی موت واقع نہیں ہوتی۔ لہذا افراد پر تنقید کرنےکے بجائے، مناسب Constructive Feedback کی مدد سے Institutions کو سدھارنے سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ اسی Constructive Feedback کو میں تنقید و تائید کا نام دیتا ہوں۔

اسی لئے میں زور دیتا ہوں کہ اگر ہم ایک اسلامی نظام پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں امیر المومنین کا انتظار نہیں کرنا چاہئیے بلکہ وہ اسلامی تعلیم بنیادی جماعتوں میں شامل کرنی چاہئیے جس سے ایسی سٹار فیکٹری بنے کہ ایسے لوگوں کی لائین لگ کائے جو اس نظام کی تعمیر و تشکیل کے لئے ضروری ہیں۔

آپ نے خود ہی فرمایا کہ
دورِ حاضر میں سکولوں میں جو تعلیم و تربیت مسلمانوں کے بچوں کو مل رہی ہے اسے دیکھ کر برصغیر مسلمان جائز طور پر پریشان ہیں ۔ انہی میں سے بعض مدرسہ کی تعلیم کو اسکول کی تعلیم پر ترجیح‌دیتے ہیں۔
اس کا حل کیا ہے۔ کیا قرآن مع ترجمہ بنیادی جماعتوں میں شامل کرنے سے کوئی فائیدہ ہوگا؟

میں نہیں سمجھتا کہ قرآن پڑھے بنا، ہم 5 فرائض اور 4 سزاوں کے محدود دائرے سے نکل کر ہم انصاف، مساوات، خوشی، بہتر معیشیت اور دیگر سینکڑوں امور کے اسلامی عالمگیر اصولوں کی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں؟

والسلام
 

فرید احمد

محفلین
فاتوق صاحب کہتے ہیں :
جن صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مصنف سے رابطہ قائم کریں،انکا سوال تھا کا اس ڈاکٹر کی اسناد کیا ہیں۔ نکتہ نظر کے بارے میں نہیں پوچھا تھا۔ لہذا ان کو وہیں جانے کا مشورہ دیا۔

میں نے کسی ڈاکٹر کی اسناد کا سوال نہیں کیا !‌کہاں کی الزام تراشی کر کھی ہے ؟ اگر کچھ لکھنے پڑھنے فورم پر تشریف لاتے ہو تو دوسروں کی بات بغور پڑھا کرو ۔
 
فاروق صاحب کہتے ہیں :
میں نے کسی ڈاکٹر کی اسناد کا سوال نہیں کیا !‌کہاں کی الزام تراشی کر کھی ہے ؟ اگر کچھ لکھنے پڑھنے فورم پر تشریف لاتے ہو تو دوسروں کی بات بغور پڑھا کرو ۔

آپ سے کیا کسی سے بھی کوئی معاندانہ رشتہ نہیں۔ آپ سب قابل عزت و احترام ہیں۔

درج ذیل سوال فاتح صاحب کا تھا، آپ کا نہیں۔
درج بالا کتاب "اسلام کے مجرم" کے مصنف شبیر احمد صاحب (ایم ڈی) کی عالمانہ حیثیت کیا؟
جس کے جواب یہ عرض تھی کہ عالمانہ حیثیت ان سے ہی دریافت فرمالیں۔ بات نکلے ہے تو عرض کرتا چلوں کہ موصوف اب تک 13000 سے زائد لوگوں کو مسلمان کرچکے ہیں۔ 40 کے قریب اسلامی تصنیفات ہیں۔ جامعہ الازہر سے فاضل دینیات ہیں۔ مزید ان کے متعلق ان سے ہی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ یہ معلومات ان کے بارے میں اخباروں سے ملتی رہتی ہیں۔ التماس یہ ہے کہ میرا انداز کچھ قدیمانہ سہی، معاندانہ نہیں۔

والسلام
 
Top