مولویت اور کتب مولویت

اس سے پہلے کہ ہم کتب مولویات کا معائنہ کریں، ۔ سب سے پہلے کچھ تعریفات: تاکہ آسانی رہے:

قران حکیم- اللہ تعالی کا کلام، ہم کو رسول اکرم صلعم کی زبان سے عطا ہوا
سنت رسول۔ حضرت محمد رسول صلعم کے اعمال مبارکہ ہیں، جیسےسنت رسول جناب غامدی صاحب نے رسول اللہ کے اعمال کی بنیاد پر بخوبی ڈاکومینٹ کی ہیں اور جیسے

سنت عیسوی - حضرت عیسی علیہ السلام کے اعمال مبارکہ ہیں
سنت موسوی - موسی علیہ السلام کی اعمال مبارکہ ہیں
سنت داؤدی - داؤد علیہ اسلام کے اعمال مبارک ہیں
سنت سلیمانی - سلیمان علیہ السلام کے اعمال مبارک ہیں
اقوالِ رسول - محمد رسول اللہ صلعم کے اقوال مبارکہ ہیں۔
حدیث : خبر - معنی کے لئے قرآن کی آیت دیکھئے

[AYAH]85:17[/AYAH] هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ
کیا آپ کے پاس لشکروں کی خبر پہنچی ہے

'کتب روایات' یا کتب مولویت کیا ہیں،
'کتب روایات' یا کتب مولویت، لکھنے والے، ایرانی النسل مصنفین ہیں۔ اور دونوں کتب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ قرآن پر ہمارا ایمان ہے لیکن ان 'کتب روایات' پر کسی مسلمان کا ایمان نہیں۔ یہ صرف روایات ہیں۔ ان روایات کی پرانی سے پرانی کتب بھی آج کل چند سو سال پرانی ہیں۔ ہزار سال پرانی 'کتب روایت' کا سراغ‌بھی نہیں ملتا۔

کتب روایات - رسول اکرم، خانوادہ رسول اور اصحابہ رسول کے ایسے 'واقعات' ، 'حدث' ، 'حادثات' ، 'حدیث' ، 'واقعات' اور 'خبروں' کے سنے سنائے مجموعات ہیں - جن کی سند و صحت کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور وفات رسول کے 250 سال تک ان کتب روایات کے لکھنے والوں یا جن سے یہ کتب منسوب کی گئی ہیں، کوئی وجود نہیں تھا۔

بیشتر کتب اہانت رسول، اہانت خانوادہ رسول اور اہانت کلام اللہ سے پر ہیں اور خلاف قرآن ہیں۔ سینکڑوں ایسی مثالوں کے لئے دیکھئے:
http://ourbeacon.com/wp-content/uploads/admin2/2007/08/criminals.pdf

ان کتب روایات پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں اور ان روایات کی ہر کتاب کی ضخامت مختلف ہوتی ہے۔ یہ 'مولویت' کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یہ کسی کو حفظ نہیں اور ان کتب کی ضخامت کا کوئی معیار نہیں۔ حتی کہ ان میں روایات کی ترتیب بھی ایک ہی کتاب کے مختلف ایڈیشن میں مختلف ہے

کتب روایات کی حقیقت:
خود امام بخاری کے مقبرہ میں حضرت عثمان کے زمانے کا قرآن تو موجود ہے لیکن انکی اپنی کتاب نہیں موجود۔ دیکھئے:
http://www.antara.co.id/en/arc/2007/...-tourist-site/
http://www.uzbektourism.uz/en/conten...ontentId=16011

غیر مستند :) روایت ہے کہ اصلی کتب روایات بھی تاتاریوں کے بغداد پر حملے کے دوران جلا کر دجلہ میں بہا دی گئی تھیں۔ اور پھر جن لوگوں کو یاد تھیں، ان کی مدد سے 'مولویت' نے کئی سو سال کے عرصے میں ترتیب دیں۔ (واللہ اعلم)

امام بخاری ایک بڑا نام ہے اور اس امام کے نام سے منسوب کتابوں‌میں ایسی روایات کا وجود جو قرآن کریم کے خلاف ہیں۔ ہمیں یہ بتاتی ہیں کے ان کتب روایات میں امام بخاری کے بعد بہت سے اضافہ ہوئے ہیں۔ یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں، توراۃ، انجیل اور زبور کے ساتھ، یہی کاروائی مولویت کرتی رہی ہے۔

موجودہ کتب روایت کے غلط بیانیوں سے پر اقتباسات دیکھئے اور دیکھئے کہ یہ اقوال رسول اللہ کی زبان سے ادا نہیں ہو رہے ہیں، تو پھر کون کہہ رہا ہے؟ ملا، مولوی، آیت اللہ؟ :

1۔غلط بیانی: ہم کو ایک ایسی آیت دی جو متروک ہو چکی تھی یا منسوخ ہو چکی تھی۔ دیکھیں:
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamen...ml#005.059.421
مقصد اس کا یہ ہے کہ شبہ دل میں ڈالا جائے کہ قران میں متروک اور منسوخ‌شدہ آیات بھی ہیں اور قران تبدیل ہوتا رہا ہے۔ نعوذ باللہ !

جبکہ قرآن اس کے برعکس یہ کہتا ہے:
سورۃ الحجر:15 , آیت:9 إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔

قران تو لوح محفوظ سے جبریل علیہ السلام ڈایریکٹ‌لاتے رہے اور رسول صلعم پڑھ کر سناتے رہے۔ تو منسوخ کرنے اور متروک کرنےکی گنجائش پہلے سے لکھی ہوئی کتاب میں کیسے رہ گئی؟
[AYAH]85:21[/AYAH] [ARABIC] بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ [/ARABIC]
بلکہ یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے
[AYAH]85:22[/AYAH] [ARABIC]فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ [/ARABIC]
(جو) لوحِ محفوظ میں (لکھا ہوا) ہے


غلط بیانی: حضور اکرم صلعم کی وفات سے پہلے، قران صرف پتوں، پتھروں، ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا۔ نعوذ‌ باللہ!
So I started locating Quranic material and collecting it from parchments, scapula, leaf-stalks of date palms .... x​
یہی کتاب روایت دوبارا یہ کہتی ہے کہ قرآن "حفاظ" نے حفظ کر رکھا تھا۔
and from the memories of men​
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.201
کون سی بات درست ہے؟

اگر قران کتاب کی شکل میں نہیں تھا تو اللہ تعالی قرآن میں 163 مرتبہ کس کتاب کا تذکرہ کرتے ہیں؟ اور ابتدا میں ہی کس کتاب کی قسم کھارہے ہیں؟
[AYAH]2:2[/AYAH][ARABIC] ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ [/ARABIC]
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے
[AYAH]2:44[/AYAH] [ARABIC]أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنْ۔تُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ [/ARABIC]
کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم (اللہ کی) کتاب (بھی) پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سوچتے؟

[AYAH]2:151[/AYAH] [ARABIC]كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ [/ARABIC]
اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اَسرارِ معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے

رسول صلعم کو اٌمی کہا جاتا ہے۔ اگر رسول کے پاس کتاب ہی نہ ہوتی تو پھر اٌمی رہ جانے کی اہمیت کیا ہوتی؟

یہ دیکھئے، سنہ اول ہجری کے قران کے صفحات،
http://www.islamic-awareness.org/Quran/Text/Mss/
http://www.islamic-awareness.org/Quran/Text/Mss/radio.html
یہ لکڑی، پتھر، پتوں پر لکھا نہیں نظر آتا۔ ممکن ہے کی کسی نے لکڑی، پتھر پر کندہ کیا ہو۔ لیکن یہ ایک کتاب کا اور حفظِ قران کا مترادف نہیں ہو سکتا۔

عموماَ مولویت، قرآن کی آیات میں ترجموں میں تبدیلی کرکے اور آیات کے ٹکڑے کرکے معصوم لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ قرآن میں کوئی آیت متضاد نہیں اور کوئی اختلاف نہیں۔ دیکھئے:

[AYAH]2:176[/AYAH] [ARABIC] ذَلِكَ بِأَنَّ اللّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ[/ARABIC]
یہ اس وجہ سے ہے کہ اﷲ نے کتاب حق (سچ) کے ساتھ نازل فرمائی، اور بیشک جنہوں نے کتاب میں اختلاف ڈالا وہ مخالفت میں (حق یعنی سچ سے) بہت دور (جا پڑے) ہیں

یہی وجہ ہے کہ جب مولویت ایسا کرتی ہے، تو تھوڑا سا ترجمہ پیش کرتی ہے، مکمل آیت اور اس کا حوالہ نہیں۔ یہی سب سے بڑی پہچان ہے مولویت کے شیطانی عمل کی۔

کتب روایات میں اقوال رسول۔ اقوال خانوادہ رسول اور اقوال اصحابہ رسول غیر مستند اور بنا صحت سنی سنائی بنیادوں پر موجود ہیں، اور مولویت ان روایات میں حسب ضرورت ترامیم کرتی رہی ہے۔ مولویت الفاظ کے معنی بدلتی رہی ہے اور روایات کے ترجمہ کی خامییاں بھی مولویت کی پیداوار ہے ۔

سوالات:
1۔ اگر حدیث، صرف رسول اللہ کے "حدث پاک"‌ یعنی "حادثات پاک" یعنی 'واقعات پاک' کا نام ہے تو "کتب روایات"‌ میں، خانوادہ رسول کی "حدثات" اور اصحابہ کرام کے "حدثات" کیا کر رہے ہیں اور ان میں‌سے کن "روایات" کی اب تک تنسیخ ہو چکی ہے؟ِ

2۔ 'منسوخ شدہ ' روایات کی لسٹ کہاں ‌ہے؟
3۔ مولوٰ‌ی کو کونسی 'روایت' سے حق ملتا ہے کہ وہ موقع کی مناسبت سے روایت کو تنسیخ‌شدہ قرار دے دے اور پھر جب ضرور ہو اس تنسیخ‌شدہ حدیث کو دوبار 'صحیح' قرار دے دے؟
4۔ وفات رسول کے 250 سال بعد سنی سنائی گواہیوں کو سند مانا جائے۔ یہ کس حدیث رسول سے ثابت ہے؟
5۔ ان 99 فی صد روایات مسترد شدہ روایات کی کتب کہاں ہیں یا مولویت نے اپنی مطلب کی روایات سنبھال لیں ہیں؟
6۔ رسول اللہ قران کی علاوہ کچھ نہیں کہتے تو کتب روایات کو بھی اللہ تعالی نے قرآن میں کیوں نہیں شامل کیا۔ کیا نعوذ باللہ، اللہ تعالی کو سمجھ نہیں تھی کہ ان روایات کو بھی شامل کرلیتے؟

مسلمان قرآن، سنت رسول اور حدیث رسول پر ایمان رکھتا ہے۔
مولویت، قرآن کے ساتھ کتبِ روایات کو شامل کرتی ہے اور شرک کا باعث بنتی ہے۔ قرآن 'احکام الہی' کا مجموعہ ہے اور فرض‌ہے۔ رسول اللہ نے ان احکام پر عمل کیا۔ اس سے فرض، سنتوں‌میں‌تبدیل نہیں ہوگئے۔ فرض‌فرض‌رہا اور اعمال رسول، اعمال رسول رہے۔

مولویت، سامنے قرآن کا اقرار کرتی ہے اور پیچھے اس میں اپنے خداؤں‌کی کتب کا اضافہ کرتی ہے۔ اور اپنی کتب روایات کو امام اور علماء اسلام کی کتب میں شامل کرکے، ہمارے بزرگوں کا کام اور نام بھی خاب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

قرآن حکیم مولویت کے لئے سم قاتل ہے۔ اپنی تعلیمات میں قرآن شامل کیجئے تاکہ مولویت کی بیماری سے بچا جاسکے۔

[AYAH]3:7[/AYAH] وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِ اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے
 

اجمل

محفلین
الوداع اے اُردو محفل میں تیرے قابل نہ تھا

ااااااااااااااااااااااااااااااا]
 

فاتح

لائبریرین
اجمل صاحب یا اجمل انکل یا بزرگوارم،
السلام علیکم!
(پہلے میں نے حسبِ عادت اجمل صاحب لکھا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ یہ طرز تخاطب تو میں ہر کسی کے لیے استعمال کرتا ہوں، آپ کی عمر اور علم کے مطابق کچھ دیگر لکھنا چاہیے اور اجمل انکل لکھا لیکن پھر یہ سوچا کہ کہیں آپ یہ نہ سوچیں کہ جان نہ پہچان میں تیرا مہمان، منہ اٹھا کر انکل کہنے کو چلے آئے ہیں تو "بزرگوارم" لکھ دیا)۔

مجھے ذاتی طور پر نہ تو آپ کا بلاگ پڑھنے کا اتفاق ہوا اور نہ ہی میری لاعلمی اور کاہلی نے مجھے کبھی آپ کی تحریرات پڑھنے کا موقع دیا لیکن آپ کی یہ پوسٹ پڑھ کر نہ صرف انتہائی دکھ ہو رہا ہے بلکہ اس سے زیادہ حیرت ہو رہی ہے کہ اگر ان صاحب (فاروق سرور خان صاحب) کا استدلال غلط ہے تو کیا آپ واقعی ہم سب کو جو آپ کے لیے بچے ہی ہیں ان کی تاویلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جا رہے ہیں؟

آپ کا دکھ اور شاک اپنی جگہ لیکن واک آؤٹ کرنا ہمارے آقا (صلی اللہ علیہ و سلم) کی سنت مبارکہ تو نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے تو دشمنان دین اور کفار کے دلائل کا بھی انتہائی تحمل مزاجی سے لیکن منہ توڑ جواب دیا تھا۔

آپ کا یوں جانا اس امر کی دلیل بھی بن سکتا ہے کہ مخالف فریق حق پر تھا اور آپ کے پاس ائمہ کرام اور احادیث نبوی (صلی اللہ علیہ و سلم) کی حمایت میں دلائل نہیں تھے جو کہ پہلے سے بھی بدتر صورتحال ہو گی۔

نبیل صاحب کا استدلال بھی اپنی جگہ بجا کہ پوسٹ ڈیلیٹ کرنے کے ذریعے کسی کا منہ بند کرنا درست طریقہ نہیں۔ اور اگر انہوں نے خان صاحب کی پوسٹس ڈیلیٹ نہیں کیں تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ کے جوابات کو بھی وہ ڈیلیٹ نہیں کرنے والے۔

اگر آپ کی بجائے میرا کوئی دوست یا شناسا یا انکل اس طرح کرتے تو میں انہیں یوں کہتا کہ "بس آپ کہیں نہیں جا رہے، آپ یہیں ہیں اور یہیں ان تاویلات کا براہینِ قاطعہ سے جواب دیں اور بس!"
اگر آپ بھی برا نا مانیں تو ایک بچے کی اس ضد کو جو جائز بھی ہے پورا کر دیں۔

صرف یہی کہنا تھا مجھے۔ اگر اس میں سے کوئی بات یا میرا لہجہ آپ کو برا لگا ہے تو دست بستہ معذرت۔
 
اجمل صاحب یا اجمل انکل یا بزرگوارم،
السلام علیکم!
(پہلے میں نے حسبِ عادت اجمل صاحب لکھا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ یہ طرز تخاطب تو میں ہر کسی کے لیے استعمال کرتا ہوں، آپ کی عمر اور علم کے مطابق کچھ دیگر لکھنا چاہیے اور اجمل انکل لکھا لیکن پھر یہ سوچا کہ کہیں آپ یہ نہ سوچیں کہ جان نہ پہچان میں تیرا مہمان، منہ اٹھا کر انکل کہنے کو چلے آئے ہیں تو "بزرگوارم" لکھ دیا)۔

مجھے ذاتی طور پر نہ تو آپ کا بلاگ پڑھنے کا اتفاق ہوا اور نہ ہی میری لاعلمی اور کاہلی نے مجھے کبھی آپ کی تحریرات پڑھنے کا موقع دیا لیکن آپ کی یہ پوسٹ پڑھ کر نہ صرف انتہائی دکھ ہو رہا ہے بلکہ اس سے زیادہ حیرت ہو رہی ہے کہ اگر ان صاحب (فاروق سرور خان صاحب) کا استدلال غلط ہے تو کیا آپ واقعی ہم سب کو جو آپ کے لیے بچے ہی ہیں ان کی تاویلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جا رہے ہیں؟

آپ کا دکھ اور شاک اپنی جگہ لیکن واک آؤٹ کرنا ہمارے آقا (صلی اللہ علیہ و سلم) کی سنت مبارکہ تو نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے تو دشمنان دین اور کفار کے دلائل کا بھی انتہائی تحمل مزاجی سے لیکن منہ توڑ جواب دیا تھا۔

آپ کا یوں جانا اس امر کی دلیل بھی بن سکتا ہے کہ مخالف فریق حق پر تھا اور آپ کے پاس ائمہ کرام اور احادیث نبوی (صلی اللہ علیہ و سلم) کی حمایت میں دلائل نہیں تھے جو کہ پہلے سے بھی بدتر صورتحال ہو گی۔

نبیل صاحب کا استدلال بھی اپنی جگہ بجا کہ پوسٹ ڈیلیٹ کرنے کے ذریعے کسی کا منہ بند کرنا درست طریقہ نہیں۔ اور اگر انہوں نے خان صاحب کی پوسٹس ڈیلیٹ نہیں کیں تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ کے جوابات کو بھی وہ ڈیلیٹ نہیں کرنے والے۔

اگر آپ کی بجائے میرا کوئی دوست یا شناسا یا انکل اس طرح کرتے تو میں انہیں یوں کہتا کہ "بس آپ کہیں نہیں جا رہے، آپ یہیں ہیں اور یہیں ان تاویلات کا براہینِ قاطعہ سے جواب دیں اور بس!"
اگر آپ بھی برا نا مانیں تو ایک بچے کی اس ضد کو جو جائز بھی ہے پورا کر دیں۔

صرف یہی کہنا تھا مجھے۔ اگر اس میں سے کوئی بات یا میرا لہجہ آپ کو برا لگا ہے تو دست بستہ معذرت۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
یہی الفاظ میں بھی لکھنا چاہتا تھا لیکن اپ نے لکھ لی صرف اجمل صاحب جوکہ ہمارے بزرگ ہیں کہ ابھی اسلام کی مائیں بانجھ نہیں ہوئی بارود سے لیکر قلم تک اسلام کے فرزند اس کا دفاع ہر میدان میں کریں گے ان شاء اللہ
 
فاروق میاں تو آپ انکارِ حدیث کرتے ہیں؟ اتنی لمبی تاویلوں کی کیا ضرورت تھی؟ :)

جناب یہ آرٹیکلز کسی ایک شخص کی طرف قطعاَ نہیں۔ مولویت ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس کو سرسید احمد خان نے علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام سے شکست فاش دی۔ اس کا مطلب قطعاَ‌یہ نہیں کہ جو شخص بھی اقوالِ رسول استعمال کرتا ہے، وہ مولوی ہے۔ میں خود اپنے آرٹیکلز میں اقوالِ رسول استعمال کرتا ہوں اور بہت کرتا ہوں اور اس معاملہ میں درج ذیل حدیث کا قائل ہوں کہ یہ حدیث قران سے بھی مطابقت رکھتی ہے۔ ثبوت کئی بار فراہم کرچکا ہوں۔ شخصیت پرستی کا قائل نہیں لہذا درج ذیل تحاریر کے استعمال میں بخل سے کام لیتا ہوں۔ آسانی کے لئے، ذیل میں مفتی اعظم المملکۃ العربیۃ السعودیۃ بن باز کا فتوی دیکھئے۔

بھائی میں کسی قولِ رسول سے انکار نہیں کرتا۔ لیکن کتب روایات میں قولِ رسول کے علاوہ بھی بہت سی روایات شامل ہیں۔ان کو درج ذیل حدیث کی روشنی میں دیکھتا ہوں۔ دیکھئے درج ذیل حدیث جو جناب بن باز نے دہرائی ہے۔ اسی نکتہ نظر سے میں‌کتب روایات کو دیکھتا ہوں۔ کسی صاحب کو کوئی اس قولِ رسول پر اعتراض‌ہو تو بتائیں

نوٹ: اس خط کی سکین شدہ کاپی آپ میری ویب سائٹ پہ دیکھ سکتے ہیں، اصل خط انگریزی میں ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
11 اپریل 1999
مطابق 24 ذی الحجہ، 1419 ھ

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنے دینی سرمائے کی حفاظت کے لئے عقاب کی طرح ہوشیار رہنا ہوگا۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ اسلام دشمن عناصر نے ہماری کتابوں کو ہدف بنا رکھا ہے۔ حیرت جب ہوتی اگر انہوں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ ہماری پناہ گا کیا ہے؟ القران۔

اپنی کتاب حضور رسالت مآب صلعم کے اس قول کریم سے شروع کیجئے۔
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ:
جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔

مع السلامۃ ،

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
مفتی اعظم، مملکۃ العربیۃ السعودیۃ

انگریزی ترجمہ: احمد علی المّری، الریاض
نظرثانی: دکتور احمد اے خالد، جدہ
اردو ترجمہ : بریگیڈیر افواجِ‌پاکستان، ڈاکٹر شبیر احمد، سابق معالج خاص ملک فیصل- الباکستانی
 
بزرگوار محترم جناب اجمل صاحب،

سب سے پہلے تو میری استدعا ہے کہ آپ یہیں رہئے اور اپنے علم حدیثِ رسول سے ہم سب کو استفادہ پہنچاتے رہئے۔

جناب آپ میرے بارے میں کسے شدید غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں۔ میرا روئے سخن کبھی آپ کی ذات کی طرف نہیں رہا۔ ذاتی طور پر اگر آپ کی دل آزاری یا کسی طور بھی ملال ہونے کا سبب بنا ہوں تو ذاتی طور پر ہی معذرت خواہ ہوں۔ آپ کی تحاریر میں کوئی ذاتی پہلو مجھے اب تک نظر نہیں آیا۔

رہا سوال قرآن، حدیث و سنت کا تو میں رسول کریم کے اس قول کے مطابق احتیاط کا قائل ہوں۔
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "

اور اسی روش پر عمل کرتا ہوں، اور اس سلسلے میں معذرت خواہانہ رویہ میرے نزدیک اس قولِ رسول کی خلاف ورزی اور تکفیرِ رسول اللہ صلعم، اور تکفیر قرآن ہے۔

آپ سے اور دیگر برادران سے استدعا ہے کہ غور کریں کہ، میرے آرٹیکلز کسی ایک شخص کے لئے نہیں ہوتے، اور کسی کی بھی دل آزاری اور بے عزتی مطلوب نہیں۔ عموماَ برادران دیکھیں گے کہ میں کسی بھی قسم کی ذاتی تنقید نظر انداز کردیتا ہوں۔

آپ سے ایک بار پھر استدعا ہے کہ، آپ محفل میں ہی ٹھیریں، آپ ہمارے لئے باعث عزت اور آپ کا علم ہمارے لئے سرمایہء صد افتخار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے علم اقوالِ رسول کی مدد سے سب کی مزید رہنمائی فرماتے رہیں گے۔

جیسا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کو اور چند برادران کو اقوالِ رسول کریم صلعم مجھ سے بہتر یاد ہیں۔ کیا ہی خوب ہو کہ آپ قرانی آیات پر ان اقوالِ رسول صلعم کو بھی لگا دیا کریں جو ان آیاتِ قرانی کی تصدیق کرتے ہیں۔ اور اگر کہیں میرا قلم بھٹک جائے اور میرا معروضہ، کسی قولِ رسولِ پرنور کے خلاف ہو تو تنقید و تائید سے اس کی درستگی دوستانہ انداز میں فرما کر شکریہ کا موقع دیجئے۔

میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ تنقید و تائید ہی خیالات کے ارتقاء کا باعث ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ مناسب تنقید و تائید سے مدد فرمائیے۔


میں یہاں ایک اور بھائی کے اس اصرار پر زور دوں گا:
بس آپ کہیں نہیں جا رہے، آپ یہیں ہیں اور یہیں ان تاویلات کا براہینِ قاطعہ سے جواب دیں اور بس!"

آپ کو برادران کی طرح اردو محفل میں دیکھتے رہنے کا خواہش مند :

والسلام۔
 
1 جناب فاروق صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گئے
جناب سے میرا تعارف تو نہیں لیکن آپ کے خیالات میرے لیے نئے نہیں۔درحقیقت اسلام کا جادہ ایسا ہے کہ بظاہر مجددین اور متجددین دونوں ہی اس پر گامزن رہتے ہیں مگر تاریخ کبھی ان کی شناخت کو ضائع نہیں کرتی بلکہ ہمیشہ ہی مجدد ، مجدد ہی کہلاتا ہے اور عزت و احترام پاتا ہے اور متجدد خسر الدنیا و الاخرۃ کا نمو نہ بن کر رہ جاتا ہے۔
2 آ پ کا پوسٹ کیا ہوا لنک دیکھا http://ourbeacon.com/wp-content/uplo.../criminals.pdf اس سے آپ کے خیالات پر کافی اچھی طرح روشنی پڑتی ہے، اور "مولویت" اور "روایات" کے پردے میں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ چیز بھی خوب عیاں ہو جاتی ہے۔
3 تاہم اس سے پہلے کہ آپ سے باقاعدہ مکالمے کی نوبت آئے (باوجود اس کے میں سخت مصروف ہوں اور میرا ڈاکٹریٹ کا مقالہ اپنے تکمیلی مراحل میں ہے) میں آپ سے کچھ سوالات کے ذریعے آپ کا موقف مزید صاف کرنا چاہوں گا اگر آپ اس پر تیار ہوں تو۔
 
میرا خیال ہے ابن حسین فاروق‌ صاحب بالکل تیار ہیں اور وہ یہ کہہ چکے ہیں اگر ان سے غلطی ہوئی ہے تو اسے درست کر دیں ۔ اس لیے آپ بلا جھجھک سوال کریں اور ہمیں سیکھنے کا موقع دیں۔
 
جناب عالی۔ میں اپنا مافی الضمیر بہت وضاحت سے بیان کرچکا ہوں۔ اور یہاں اور دیگر جگہوں پر لکھتا ہی رہتا ہوں۔آپ اپنی پر مقصد تائید و تنقید سے جہان دل چاہے نوازئے۔ چشم ما روشن ! دل ما شاد ! کوشش رکھئے کہ مباحثہ اصولوں پر ہو، حوالہ جاتی ہو اور ذاتی نہ ہو۔ کہ یہ اصول، یہ کتاب، یہ اقوالِ رسول ہم سب کی ذاتوں سے بہت اعلی و ارفع ہیں۔

میں ذاتی طور پر اپنی ذاتی تحاریر میں اقوالِ رسول کے اندراج میں درج بالا بیان کے مطابق احتیاط کا قائل ہوں تاکہ کوئی غلط بیانی نہ ہوجائے۔ اگر کوئی صاحب اپنی تحاریر میں ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھتے تو اپنی روش جاری رکھ سکتے ہیں- درست؟

برادر من - اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو مزید پیری فقیری و مشیعت اور مشیخیت و مجددیت ڈونڈھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تو بندہ کو معاف رکھئے۔ کہ اس طرح کی کوئی پیری فقیری و مشیعت و مشیخیت، و سند یافتگی نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی میں اس کا داعی ہوں۔ اپنے علم کا اظہار اپنا محاسبہ کرنے کے لئے اور شاید کسی کے کام آجائے کرتا ہوں۔

میرا لکھا جو پسند نہ آئے، اسے نظر انداز کیجئے، یہ نہ دیکھئے کہ اشارہ کون کر رہا ہے، یہ دیکھئے کہ اشارہ کس آیت یا قولِ رسول کی طرف ہے۔

قرآن پڑھتے رہئے، اور اس سے ہدایت حاصل کرتے رہئے۔ کہ یہ ہدایت کا سرچشمہ ہے۔
والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
محترم فاروق سرور خان صاحب، آپ نے ماشاءاللہ بہت اچھا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، لوگوں کو ملائیت اور ملا ازم سے آگا کرنے کے بارے میں، جسطرح ملا ازم کوئی شخص، یا کردار، یا حلیہ نہیں ہے، بعینہ "انتہا پسندی" کا بھی کوئی حلیہ، کوئی کردار یا تشخص نہیں ہے، بلکہ ملائیت کی طرح یہ بھی ایک ذہنی رویے کا نام ہے۔

اور انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انتہا پسندی ہماری نس نس، رگ رگ میں پیوست ہوچکی ہے اور اچھے خاصے پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ بھی اسکا شکار ہیں۔

اسی انتہا پسندی کے کرشمے ہیں، کہ اپنی بات کو منوانے کیلیے ہم اچھی خاصی منطقی دلیلیں دیتے ہوئے، نہایت بھونڈے اور غلط طرزِ استدلال کو اختیار کر جاتے ہیں۔ استخراجی منطق کا شاید نقصان بھی یہی ہے کہ معلوم نتیجہ کو ثابت کرنے کیلیے ہم صحیح دعوی باندھتے ہیں لیکن دلیل انہتائی غلط دیتے ہیں، جیسے کہ آپ کی اس تھریڈ پر پہلی پوسٹ۔

معذرت کے ساتھ خان صاحب، لیکن آپ انتہا پسندی میں یہاں تک گزر گئے کہ انتہائی غلط طرزِ استدلال اختیار کیا آپ نے اپنی بات کو، جس کے حقٰی ہونے میں آپ کو پہلے ہی سے کوئی شک نہیں تھا، دوسروں کی نظر میں سچ ثابت کرنے کیلیے۔ چند امثال نیچے درج ہیں، فقط اتنی بات ذہن میں رہے کہ میں آپ کی رائے پر رائے نہیں دے رہا اور نہ ہی مجھے آپ کی رائے سے غرض ہے، بلکہ آپ کے طرزِ استدلال اور انکے استنباط پر بات کر رہا ہوں۔



'کتب روایات' یا کتب مولویت، لکھنے والے، ایرانی النسل مصنفین ہیں۔ اور دونوں کتب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔

اگر میں یہ کہوں کہ قرآن کا اتنا پرچار جو صاحب کر رہے ہیں وہ تو "خان صاحب" ہیں انکو عرب اور عربی سے کیا مطلب تو یقیناً آپ یہی فرمائیں گے کہ محمد وارث کو مالیخولیا یا "خانیخولیا" ہو گیا ہے۔:)



کتب روایات - رسول اکرم، خانوادہ رسول اور اصحابہ رسول کے ایسے 'واقعات' ، 'حدث' ، 'حادثات' ، 'حدیث' ، 'واقعات' اور 'خبروں' کے سنے سنائے مجموعات ہیں - جن کی سند و صحت کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور وفات رسول کے 250 سال تک ان کتب روایات کے لکھنے والوں یا جن سے یہ کتب منسوب کی گئی ہیں، کوئی وجود نہیں تھا۔

یہ بات مجھے لگتا ہے آپ جوشِ خطابت میں کہہ گئے یا تجاہلِ عارفانہ میں۔ علم الرجال کس چیز کا نام ہے؟ اگر یہ روایات مستند نہیں ہیں، جن سے آپ (ص) کی سیرت کا حال معلوم ہوتا ہے تو محترم کیا سیرتِ رسول کیلے ولیم میور کی "لائف آف محمد" دیکھیے گا؟

اور یہ بھی غلط طرزِ استدلال ہے کہ 250 ہجری تک ان کتب کا کوئی وجود نہیں تھا، کیا آپ (ص) کی رحلت کے بعد سب صحابہ کرام صامت ہوگئے تھے یا آپ کی پیاری باتیں کیا کرتے تھے، اور اپنی یادیں بیان کیا کرتے تھے؟ اس کی امثال تو ہمیں اپنی روزمرہ زندگی سے مل جاتی ہیں چہ جائیکہ اس انسان (ص) کی باتیں جو ان مسلمانوں کو ہر چیز سے زیادہ عزیز تھے۔



غیر مستند :) روایت ہے کہ اصلی کتب روایات بھی تاتاریوں کے بغداد پر حملے کے دوران جلا کر دجلہ میں بہا دی گئی تھیں۔ اور پھر جن لوگوں کو یاد تھیں، ان کی مدد سے 'مولویت' نے کئی سو سال کے عرصے میں ترتیب دیں۔ (واللہ اعلم)

جب آپ کو خود ہی اس بات کا یقین نہیں ہے تو اسکو یہاں بیان کرنے مطلب فقط اپنی دوسری دلیلوں کیلیے حاشیہ آرائی ہے۔


امام بخاری ایک بڑا نام ہے اور اس امام کے نام سے منسوب کتابوں‌میں ایسی روایات کا وجود جو قرآن کریم کے خلاف ہیں۔ ہمیں یہ بتاتی ہیں کے ان کتب روایات میں امام بخاری کے بعد بہت سے اضافہ ہوئے ہیں۔ یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں، توراۃ، انجیل اور زبور کے ساتھ، یہی کاروائی مولویت کرتی رہی ہے۔

یہاں پر بھی آپ مولویت کا لفظ صرف تحقیر کیلیے باندھ گئے وگرنہ آپ کا سا عالم خوب جانتا ہے کہ اصل لفظ "پاپائیت" ہے۔

بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے



غلط بیانی: حضور اکرم صلعم کی وفات سے پہلے، قران صرف پتوں، پتھروں، ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا۔ نعوذ‌ باللہ!
So I started locating Quranic material and collecting it from parchments, scapula, leaf-stalks of date palms .... x​
یہی کتاب روایت دوبارا یہ کہتی ہے کہ قرآن "حفاظ" نے حفظ کر رکھا تھا۔
and from the memories of men​
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.201
کون سی بات درست ہے؟

ارے بھائی اس میں کیا اشکال تھا، آپ سے صاحبِ علم سے اس بات کی توقع نہیں تھی۔ ایک ہی چیز کے تحریر ہونے اور حفظ ہونے میں کوئی تناقض نہیں ہے، سامنے کی بات ہے سوچیے گا۔



یہ دیکھئے، سنہ اول ہجری کے قران کے صفحات،
http://www.islamic-awareness.org/Quran/Text/Mss/
http://www.islamic-awareness.org/Quran/Text/Mss/radio.html
یہ لکڑی، پتھر، پتوں پر لکھا نہیں نظر آتا۔ ممکن ہے کی کسی نے لکڑی، پتھر پر کندہ کیا ہو۔ لیکن یہ ایک کتاب کا اور حفظِ قران کا مترادف نہیں ہو سکتا۔

آپ ثابت کیجیے کہ یہ اول ہجری کے ہی ہیں اور کتاب کی شکل میں ہیں اور یہ بھی ثابت کیجیے بلکہ دکھائیے کہ وہ "کتاب" کہاں ہے جو آنحضرت (ص) کی رحلت سنہ گیارہ ہجری کے وقت بعینہ ہی موجود تھی جیسی کہ لوحِ محفوظ میں ہے یا مسلمانوں کے پاس ہے۔

اور اگر نہ مل سکے آپ کو، تو آپ کی اس دلیلِ باطل سے کیا میں یہ نتیجہ اخذ نہ کروں، نعوذ باللہ، کہ اسکی حفاظت کرنے والا کیا ہوا۔ محترم ایک غلط دلیل بہت سارے غلط دعوں کو جنم دیتی ہے۔



مسلمان قرآن، سنت رسول اور حدیث رسول پر ایمان رکھتا ہے۔
مولویت، قرآن کے ساتھ کتبِ روایات کو شامل کرتی ہے اور شرک کا باعث بنتی ہے۔ قرآن 'احکام الہی' کا مجموعہ ہے اور فرض‌ہے۔ رسول اللہ نے ان احکام پر عمل کیا۔ اس سے فرض، سنتوں‌میں‌تبدیل نہیں ہوگئے۔ فرض‌فرض‌رہا اور اعمال رسول، اعمال رسول رہے۔

لیجیے آپ نے تو سارا قضیہ ہی پاک کردیا۔ خود ہی اقرار فرما گئے کہ مسلمان، قرآن، سنتِ رسول اور حدیثِ رسول پر ایمان رکھتا ہے۔

اب میں اگر آپ سے اسی دلیل کے سہارے یہ پوچھوں کہ ارے بھائی خان صاحب آپ مسلمان ہیں، تو بتائیے گا بھلا کہ کونسی سنت اور کونسی حدیث؟ کیا وہ احادیث جو 250 سال بعد مدون ہوئیں۔ قبلہ اتنا بڑھا اجتماعِ نقیضین ایک ہی پوسٹ بلکہ ایک ہی سانس میں۔ شاید پوسٹ کرنے سے پہلے اپنی تحریر کا مطالعہ سود مند ثابت ہو۔


میں ایک دفعہ پھر آپ سے استدعا کروں گا کہ ان باتوں کو ذاتی مخاصمت پر محمول مت کیجیے گا اور نہ ہی یہ سمجھیے گا کہ میں آپ کی رائے کا نقاد ہوں، آپ کی مرضی ہے محترم جو چاہیئے لکھیے لیکن جب قرآن کے داعی اور اصحابِ علم ہی غلط طریقے اور غلط دلائل اور غلط استدلال و استنباط اختیار کرکے "انتہا پسندی" پر اتر آئیں تو پھر "دو رکعت کے امام" سے کیا توقع رکھیے گا۔

جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

امید ہے میری یہ گذارشات گراں نہیں گزریں گی، اور اگر کوئی تلخ بات کہہ دی ہے تو اس کیلیے معذرت خواہ ہوں۔
 
جناب عالی و محترمی، بہت اچھی تنقید ہے۔ (‌اس جواب میں کوئی جملہ بہ نیتِ طنز نہیں لکھا گیا، تمام معروضہ کا انداز اور نیت مخلصانہ ہے۔ ایسے ہی پڑھئے) میں نے اپنی تحریر کے ان حصوں کی وضاحت کی ہے جہاں آپ نے وضاحت کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا ہے اور جہاں میری تحریر سے منفی معانی بنتے ہیں۔

عرض‌یہ ہے:

اگر میں یہ کہوں کہ قرآن کا اتنا پرچار جو صاحب کر رہے ہیں وہ تو "خان صاحب" ہیں انکو عرب اور عربی سے کیا مطلب تو یقیناً آپ یہی فرمائیں گے کہ محمد وارث کو مالیخولیا یا "خانیخولیا" ہو گیا ہے۔
ایرانی مصنفین اور ان کی تاریخ وفات کا حوالہ موجود ہے۔ کلک کرکے دیکھ لیجئے اگر درست نہیں تو درستگی فرما دیں۔ مقصد یہ بتانا ہے کہ ان کہ اصل کتب روایات اب تک مجھے باوجود کوشش کہ نہیں‌مل سکی ہیں۔ یہ بھی نہیں‌ پتہ کہ اصل کتب روایت کیا تھیں۔ لہذا کسی غلطی کے لئے، ان مصنفین کو ذمہ دار نہیں ٹھیرایا جاسکتا اور آیا کہ ان مصنفین نے ہی موجودہ کتب لکھی تھیں‌ یا موجودہ کتب میں بعد میں اضافہ کیا گیا۔ اس روشنی میں آپ اپنے دوسرے معروضات کو دیکھئے۔ اس سلسلے میں کیا مدد فرما سکتے ہیں۔ کوئی ریفرینسز عنایت فرمائیے۔ میرے سوالات تشنہ کیوں چھوڑ دیتے ہیں‌ سب اصحاب۔

مخلصانہ عرض‌ہے کہ تمام معروضات، حوالہ جات کے ساتھ پیش کئے گے ہیں۔ علم کا ارتقا, ریسرچ سے ہی ہوتا ہے۔ اگر آج سب نے ہی سب باتیں غلط کہی ہیں اور سب علما ، ججز، مفتی ، ریسرچرز اور قران اور اقوالِ رسول غلط ہیں تو مجھے درست کتب کی طرف پوائنٹرز فراہم کردیجئے۔ تاکہ آپ کے حسب منشا ریفرنسز دے سکوں۔

یہاں پر بھی آپ مولویت کا لفظ صرف تحقیر کیلیے باندھ گئے وگرنہ آپ کا سا عالم خوب جانتا ہے کہ اصل لفظ "پاپائیت" ہے۔

یہ درست فرمایا آپ نے، اس ہر میرا موقف یہ ہے کہ مولویت کی جڑیں "پاپائیت" میں ہیں اور اس "پاپائیت" سے پہلے 2500 سال قبل بھی بابل و نینوا اور زورستانی مذہب میں ملتی ہیں۔ اس پر میرا مضمون:

مولویت کیا ہے؟ مولویت کی تاریخ اور اس کے اغراض و مقاصد؟
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=8123
دیکھیے۔


یہ بات مجھے لگتا ہے آپ جوشِ خطابت میں کہہ گئے یا تجاہلِ عارفانہ میں۔ علم الرجال کس چیز کا نام ہے؟ اگر یہ روایات مستند نہیں ہیں، جن سے آپ (ص) کی سیرت کا حال معلوم ہوتا ہے تو محترم کیا سیرتِ رسول کیلے ولیم میور کی "لائف آف محمد" دیکھیے گا؟

جی نہیں، اس پر بھی ریفرینس فراہم کیا ہے۔ آپ ملاحظہ فرما لیں۔ امام بخاری کی کتاب کی صحت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، اس کی منطقی وجوہات تو سب دیتے ہیں، لیکن فزیکل ریفرنس معدوم ہے۔ اگر آپ یا کوئی برادر مہیا کرسکیں تو عنائت ہوگی۔

ارے بھائی اس میں کیا اشکال تھا، آپ سے صاحبِ علم سے اس بات کی توقع نہیں تھی۔ ایک ہی چیز کے تحریر ہونے اور حفظ ہونے میں کوئی تناقض نہیں ہے، سامنے کی بات ہے سوچیے گا۔

اہمیت اس بات کی یہ ہے کہ اگر قران حفاظ کے پاس محفوظ تھا تو پھر کسی لکڑی، پتھر اور ہڈی کی کیا وقعت؟

آپ ثابت کیجیے کہ یہ اول ہجری کے ہی ہیں اور کتاب کی شکل میں ہیں اور یہ بھی ثابت کیجیے بلکہ دکھائیے کہ وہ "کتاب" کہاں ہے جو آنحضرت (ص) کی رحلت سنہ گیارہ ہجری کے وقت بعینہ ہی موجود تھی جیسی کہ لوحِ محفوظ میں ہے یا مسلمانوں کے پاس ہے۔

دیکھئے، پواینٹرز ایک کاربن ڈیٹنگ کی ریسرچ کے ہیں۔ آپ قبول نہ کیجئے۔ میں ان لکڑیوں، پتھروں اور ہڈیوں کی تلاش میں ہوں جن پر قرآن پورے کا پورا محفوظ تھا اور اتارا گیا تھا۔ کوئی برادر من، ایسا ریفرینس یا اگر چشم دید گواہ ہوں ‌کسی جگہ پر موجود ہونے کے تو ضرور مطلع فرمائیں تاکہ میں اپنے اور ان ریسرچ کرنے والوں کے تصحیح‌کر سکوں۔ کاغذ کی نسبت ہڈی، لکڑی اور پتھر زیادہ آسانی سے محفوظ رہتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ 600 صفحات کا قرآن، جسے ہم دل سے لگاتے ہیں، پتھروں پر کندہ تھا (جیسا کہ دعوی کیا جاتا ہے) ‌اور اس کی ایک بھی شیٹ محفوظ نہیں؟

لیجیے آپ نے تو سارا قضیہ ہی پاک کردیا۔ خود ہی اقرار فرما گئے کہ مسلمان، قرآن، سنتِ رسول اور حدیثِ رسول پر ایمان رکھتا ہے۔
درست فرمایا آپ نے۔ اس (قرآن، سنت، اقوالِ رسول کے ) سلسلے میں بحث ہی کوئی نہیں۔۔۔۔ میں اپنی تحاریر میں جو احتیاط کرتا ہوں اور جس احتیاط کے لئے سب مجھ سے بحث کرتے ہیں اس کا ماخذ یہ حدیث ہے۔ اگر کوئی صاحب یہ احتیاط نا مناسب سمجھتے ہیں تو وجوہات سے مطلع فرمائیں۔

"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "

یہ مضمون آپ جس مکتبہ فکر نے جدید تعلیم کی مخالفت کی اور جن ہتھیاروں کا استعمال کیا،( اس طبقہ کو میں "مولویت" کا خطاب دیتا ہوں۔) اس تناظر میں دیکھئے کہ ہماری ہی دینی کتب کو ہمارے خلاف استعمال کرنے والا طبقہ اپنے آپ کو کیا کہلواتا تھا؟ اگر وہ ہماری آپ کی موجودہ تعلیم کی مخالفت کرتے تھے اور اپنے آپ کو "مولوی" کہلاتے تھے تو ان کا کیا نام بہتر رہے گا؟

میں ایک دفعہ پھر آپ سے استدعا کروں گا کہ ان باتوں کو ذاتی مخاصمت پر محمول مت کیجیے گا اور نہ ہی یہ سمجھیے گا کہ میں آپ کی رائے کا نقاد ہوں،

آپ کی تنقید بہت مناسب اور سوالات بہت ہی اعلی ہیں۔ میں اصل مقصد سے نہیں ہٹا۔

مقصد اس آرٹیکل کا یہ تھا کہ امام بخاری کو بری الذمہ قرار دیا جائے ان روایات سے جو ممکنہ طور پر مزید احتیاط کی متقاضی ہیں۔ اور روشنی ڈالی جائے اس مکتبہ فکر پر جو جدید علوم، علم قرآن اور علم اقوالِ رسول کے حصول کی مخالفت کرتا رہا اور کرتا ہے۔ اور اس کے لئے ہماری ہی دینی کتب کا استعمال کرتا ہے ۔ اگر میری تحریر میں کوئی ریفرنس درست نہیں تو درست ریفرنس اور تصحیح کا خواہاں ہوں۔

ہم کو چاہئے کہ مضمون اور موضوع کی وضاحت طلب کریں۔ نہ کہ ایک دوسرے کی کردار کشی پر توجہ ہو۔

والسلام
 

فاتح

لائبریرین
مکرم خان صاحب،
السلام علیکم!
آپ کا عالمانہ و ناقدانہ مضمون پڑھ کر مجھ سے کم فہم کے دماغ میں کچھ سوالات جنم لے رہے ہیں جن کی آپ سے وضاحت درکار ہے۔ یہ سوالات میں باری باری پوسٹس کرتا رہوں گا۔ امید ہے سادہ اور آسان فہم طرز پر جوابات دیں گے۔

پہلا سوال: کیا آپ غامدی صاحب کو ان کی کسی بھی خصوصیت کی بنا پر امام بخاری سے بڑھ کر عظیم المرتبت ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
سوال2: کسی "عالم" کا ایرانی النسل ہونا کیا اس کے مرتبہ میں فرق ڈالتا ہے؟
سوال3: کیا آپ کے نزدیک "حدیثِ نبوی" (صلی اللہ علیہ و سلم) کی اصطلاح استعمال کرنا غلط ہے؟
http://ourbeacon.com/wp-content/uploads/admin2/2007/08/criminals.pdf
درج بالا کتاب "اسلام کے مجرم" کے مصنف شبیر احمد صاحب (ایم ڈی) کی عالمانہ حیثیت کیا؟
سوال4: نیز شبیر احمد صاحب نے اپنی اس کتاب میں لفظ "ملّا" استعمال کیا ہے لیکن آپ "مولوی" پر زور کیوں دے رہے ہیں؟
سوال5: کیا آپ کی نظر میں مولوی اور ملا میں کوئی فرق ہے؟ یعنی کیا ہر وہ شخص جس کے نام کے ساتھ مولوی کا سابقہ لگا دکھائی دے آپ کی تعریف کے زمرے میں آ جائے گا؟

غلط بیانی: حضور اکرم صلعم کی وفات سے پہلے، قران صرف پتوں، پتھروں، ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا۔ نعوذ‌ باللہ!
So I started locating Quranic material and collecting it from parchments, scapula, leaf-stalks of date palms .... x​
یہی کتاب روایت دوبارا یہ کہتی ہے کہ قرآن "حفاظ" نے حفظ کر رکھا تھا۔
and from the memories of men​
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.201
کون سی بات درست ہے؟
ان دونوں باتوں میں مجھ سے کم فہم کو تو کوئی اختلاف سرے سے نظر ہی نہیں آتا۔ اور ان دونوں کے ماننے میں کیا مضائقہ ہے؟

اگر قران کتاب کی شکل میں نہیں تھا تو اللہ تعالی قرآن میں 163 مرتبہ کس کتاب کا تذکرہ کرتے ہیں؟ اور ابتدا میں ہی کس کتاب کی قسم کھارہے ہیں؟
[AYAH]2:2[/AYAH][ARABIC] ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ [/ARABIC]
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے
یہاں میں آپ کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر قرآن اس آیت کے نزول کے وقت ظاہری کتاب کی شکل میں تھا یا نزول کے ساتھ ساتھ کتاب بھی ترتیب دی جاتی رہی۔
اگر اس استدلال کو درست مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت قرآن ایک "کتاب" کی شکل میں موجود تھا اور جب پہلی دفعہ قرآن کے لیے لفظ "کتاب" آیا اس کے بعد کم از کم 162 مرتبہ اس "کتاب" میں ترمیم کی گئی (نعوذ باللہ)؟
 
برادرم فاتح، سوالات کے لئے شکریہ۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ مضامین ایک سیاسی نظام کی شناخت کرتے ہیں اور کسی فرد کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ آپ کو اپنے کچھ سوالات کا جواب میرے اگلے آرٹیکل میں‌ انشاء اللہ ملے گا۔

والسلام۔
 

فرید احمد

محفلین
تقی عثمانی کی ایک کتاب ہے اردو میں نام ہے حجیت حدیث ۔
اصل انگلش ہی ہے ، اردو اس کا ترجمہ ہے ، The Authority Of Sunnah مطالعہ فرما لیں تو کرم ہوگا ،
کسی کتاب کے مصنف کے ایرانی نسل ہونے سے وہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ، ہر مصنف نے کتاب میں بیان کردہ حدیث کس سے لی ، اس نے کس سے ، اس نے کس سے ، یہاں تک کہ صحابی اور اور صحابی نے بھی رسول سے سنا یا نہیں اس کی تحقیق موجود ہے ، علم الرجال اسی کا نام ہے ۔
جناب قرآن کے نام پر مسلمانوں کو اس زنجیز سے کاٹ رہے ہیں ، جس نے قرآن مسلمانوں تک پہنچایا ۔
 
برادر من - اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو مزید پیری فقیری و مشیعت اور مشیخیت و مجددیت ڈونڈھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تو بندہ کو معاف رکھئے۔ کہ اس طرح کی کوئی پیری فقیری و مشیعت و مشیخیت، و سند یافتگی نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی میں اس کا داعی ہوں۔ اپنے علم کا اظہار اپنا محاسبہ کرنے کے لئے اور شاید کسی کے کام آجائے کرتا ہوں۔

دیکھ رہا ہوں کہ مضمون سے زیادہ صاحب مضمون میں انٹریسٹ ہے۔ اگر بغور پڑھیں تو واضح طور پر لکھا ہے کہ بندہ کے خیالات کو نظر انداز کیجئے اور حوالہ میں دی ہوئی آیات کی تفسیر من پسند مصنف سے پڑھ لیجئے۔ مولویت کے تعلیم کردہ عام آدمی کی طریقہ کردار کشی سے آگے بڑھ کی ' رب زدنی علماَ ' کی دعا کیجئے اور اس کتاب (قرآن) کا خود مطالعہ کیجئے جو ہدایت راہ ہے۔
جن بہترین کتابوں کا آپ نے تذکرہ فرمایا ہے، ان کتب کو اعلی درجے کی کلاسز میں شامل کرنے کی تجویز چوتھے اور آخری مضمون میں پیش کی ہے۔ آپ دیکھئے اور اپنی رائے دیجئے۔
والسلام۔
 

فرید احمد

محفلین
دیکھ رہا ہوں کہ مضمون سے زیادہ صاحب مضمون میں انٹریسٹ ہے۔ اگر بغور پڑھیں تو واضح طور پر لکھا ہے کہ بندہ کے خیالات کو نظر انداز کیجئے اور حوالہ میں دی ہوئی آیات کی تفسیر من پسند مصنف سے پڑھ لیجئے۔

پھر ایرانی مصنفین کو بھی چھوڑیے ۔
مولویوں کو بھی چھوڑیے ،
اور کیا قرآن کا اجتماعی نظام آپ کو مستثنی کر کے چل رہا ہے ؟

اسلام میں انفرادی اعمال کی کوئی جگہ ہی نہیں ؟

جس مترجم کا چاہو ترجمہ لے لو ، تو پھر کیا بھان متی کا کنبہ جوڑنا ہوا ؟

اور پھر آیات کا مطلب ؟

بطور مثال ایک سوال

قرآن میں بیک وقت کتنی بیویاں رکھنے کی اجازت ہے ؟

ذرا اہل تشیع کے تراجم بھی دیکھ لیں ۔
 
اہل تشیع کے ترجمے کا لنک عنائت فرمائیے۔ اور بتایئے کے کس فرق کی طرف آپ کا اشارہ ہے۔

http://www.shiadownload.com/index.php?view=ArtistByGenre&genre_id=1

انفرادی فرائض‌پر بہت کچھ ماشاء اللہ لکھا جاچکا ہے۔ اجتماعی ذمہ داریوں کی آیات کے حوالہ جات میرے آرٹیکلز میں شامل ہیں۔ آپ وہ ترجمہ و تفسیر پڑھئے جو آپ کو پسند ہو تاکہ آپ کا اطمینان قلب رہے۔ یہ اس وجہ سے کہ آپ کو یقین رہے کہ فراہم شدہ ترجمہ آپ پر ٹھونسا نہیں جا رہا۔ مناسب تراجم کا جن سے بہت سارے لوگ متفق ہیں ایک جگہ پر لنک فراہم کیا گیا ہے۔ اور کنٹراسٹ‌کے لئے ایسے تراجم جو قابل قبول نہیں، بھی 'مارک' کرکے فراہم کئے گئے ہیں۔

آپ کی 'وجوہات' روایئتی اور تقلیدی ہیں۔ ذرا ایک ماؤس کلک کرکے تراجم دیکھنے کی زحمت گوارا کیجئے۔ تقریباَ‌ تمام سوالات کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے۔ ااجتماعی فرائض جن کی قرآن میں‌نشاندہی ہے، آپ کو مناسب نہیں لگتے تو نشاندہی فرمائیے اور جو مناسب لگتے ہیں ان پر آپ خود بھی لکھئے۔

قرآن کا باقاعدہ مطالعہ کیجئے تاکہ با معنی وجوہات کا احاطہ بآسانی کرسکیں۔ دیکھ رہا ہوں کہ آپ کو آسان نظریات کو سمجھنے میں بھی بہت دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

آپ کے تبصرات اور تنقید کا بہت ہی شکریہ۔ اس سے خیالات کے بہتر اظہار میں مدد ملتی ہے۔
 
Top