مولانا یوسف اصلاحی ----از:اختر عباس

Molana-Yousaf-Islahi-300x336.jpg
آپ شروع سے اصلاحی تھے۔‘‘ میرا سوال سن کر وہ مسکرائے۔ ’’نہیں یہ اصلاحی ان معنوں میں نہیں ہے۔ مدرسہ اصلاح سے فارغ ہونے کے بعد اس مناسبت کے باعث یہ نام اختیار کیا۔ ۱۹۵۳ء کی بات ہے یہ۔ تب میں ۲۱، ۲۲ سال کا تھا، جب آدابِ زندگی لکھی، یہاں پاکستان میں آپ کے مخاطب صرف مسلمان ہیں۔ وہاں اس کو ہندو اور سکھ بھی اتنے ہی شوق سے پڑھتے ہیں۔ چونکہ اس میں براہِ راست مسلمانوں سے خطاب نہیں ہے، اس لیے پڑھنے والا ردعمل کا شکار نہیں ہوتا۔

ہم نے سید ابو اعلیٰ مودودیؒ کو پڑھا، ان کی تحریروں کو ہضم کیا۔ اپنی سوچ اور روح کا حصہ بنایا، پھر خود لکھا۔ انھوں نے بھی تو الجہاد فی الاسلام ۲۹، ۲۸ سال کی عمر میں لکھ ڈالی تھی۔‘‘ اس پر میں نے بات آگے بڑھائی۔ ’’بھارت، پاکستان کے علاوہ ان ممالک میں بھی جہاں جہاں اُردو پڑھنے والے ہیں، وہاں وہاں آپ کی کتابیں اور تحریریں شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

ایسی پذیرائی اور تعارف کا کبھی سوچا تھا۔‘‘ وہ بولے، ’’جب لوگ یوں سامنے اور غائبانہ تذکرہ کریں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ کبھی ذہن میں بھی نہیں تھا جو تحریریں اپنی بچیوں کے لیے لکھ رہا ہوں۔ وہ یوں مقبول ہوں گی۔‘‘ ٭آپ کے ہاں ایک نئی چیز، نیا ٹرینڈ دیکھنے میں آیا کہ ہندو اسلامی لیکچرز سننے کیسے آ جاتے ہیں۔ وہ بھی ہزاروں کی تعداد میں… ہمارے ہاں تو اپنے ہم مذہب کو بات سننے پر آمادہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ میری بات سن کر وہ مسکرائے ’’وہاں واقعی بہت سے ہندو بھی کھلے دل سے سوچتے ہیں۔ اسلام کو سنتے ہیں۔

اس قدر آمادگی پہلے نہ تھی۔ جماعت اسلامی ہند کا ایک اخبار جو صرف ملیا لم زبان میں ہے۔ ’’پربودھ نم‘‘ کیرالا سے نکلتا ہے۔ ۵ لاکھ سے زائد اس کی روزانہ کی اشاعت ہے۔ اس کا ایڈیٹر ایک پروفیشنل صحافی ہے اور نان مسلم ہے۔ وہاں اس طرح کے بہت بھلے لوگ ہیں۔ توہین رسالتﷺ کے مسئلے پر جب وہاں مسلمانوں کے جلوس اور ریلیاں نکلیں تو کتنے ہندو اور سکھ ہمارے ساتھ تھے۔‘‘

٭ میں نے ایک اور وضاحت چاہی ’’سنا ہے وہاں ہماری طرح کی جوشیلی اور جذباتی تقریریں نہیں ہوتیں؟…‘‘ ’’بالکل، یہ بات درست ہے۔ ہمارے موضوعات میں انسانی قدریں، اچھے رویے، سچ بولنا، چیزوں اور خدمات کی ملاوٹ و آمیزش سے پاک فراہمی، انسانی خدمت جیسی باتیں شامل ہوتی ہیں۔ وہاں حالات کی سختی اور پابندی ویسی نہیں ہے، جیسی آپ سوچتے ہیں۔ جمہوری قدروں کی پاسداری خاصی زیادہ ہے۔

لوگ اعتراضات کرتے ہیں۔ سوال اٹھاتے ہیں، ہم ان کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں، یوں کبھی ہم ان کے قریب چلے جاتے ہیں، کبھی وہ ہمارے قریب آ جاتے ہیں۔ اصل میں اہلِ اسلام جب کسی طرف لگ جائیں تو نتائج ضرور برپا کرتے ہیں۔ دل کی یکسوئی اور نیت کی پختگی سے کیے گئے کام میں خدا بہت کشش اور برکت ڈال دیتا ہے۔‘‘
٭۔ ’’ہمارے ہاں پاکستان میں معاشی ترقی کے اثرات کو آپ لوگ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟‘‘ میں نے اب سوالوں کا رخ بدل کر پوچھا۔

وہ بولے: ’’آپ کے ہاں تمدنی طور پر اور معاشی طور پر بہت تبدیلی آ گئی ہے۔ بہت ارتقاء ہوا ہے۔ میں کئی سال بعد آیا ہوں اور کئی دن اٹک رہ کر آیا ہوں یوں مجھے پاکستان اور اہلِ پاکستان کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں جاپان گیا ہوا تھا۔ وہاں کاروں کے کاروبار میں ہر طرف پاکستانی چھائے ہوئے ہیں۔ خود مجھے جن صاحب نے اپنے شو روم میں افتتاح کے لیے بلوایا تھا، وہ پاکستانی تھے اور بہت سمجھداری اور دیانت داری سے کاروبار کر رہے ہیں۔ ۵۱ ملین ڈالر ان کا سالانہ ٹرن اوور تھا۔ کئی جاپانی ان کے ملازم ہیں، مگر وہ اپنی تہذیب ، زبان اور روایات کے پکے تھے۔

یہاں پاکستان میں مغربی تہذیب کی یلغار ہندوستان کی طرح کافی زیادہ ہے، مگر ہندو اپنے کلچر میں خاصے مضبوط ہیں۔ آپ کے ہاں ویسی مضبوطی نہیں ہے، یہاں مغربی کلچر کے شغف اور اثرات بے پناہ ہیں۔ اس سیلاب کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آ رہی۔ انھوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا: ’’ہندو اہل دانش اس حوالے سے اپنے ہاں باقاعدہ کام کر رہے ہیں، وہ اس کے مضمرات سے آگاہ ہیں اور اپنی قوم کو اس سے بچانے کے لیے سوچتے ہیں۔ پریشان ہیں۔‘‘

س:جب آپ بولتے ہیں تو آپ کا انداز مولانا مودودیؒ سے ملتا ہے!

ج:نقال ہوں نا ان کا، میں نے زندگی میں مولانا آزاد کی تقریر بھی سنی۔ ان کی نقل کرنے کی کوشش بھی کی۔ مگر ان کا انداز مجھے اچھا نہیں لگا۔

س:لفاظی کی وجہ سے؟

ج:لفاظی نہیں اصل میں تھوڑا سا اپنی شخصیت کو ابھارنا پڑتا ہے، نمایاں کرنا پڑتا ہے اور یہ مجھے گوارا نہیں تھا اس کے مقابلے میں دیو بند کے حلقے میں ایک عالم تھے قاری طیب صاحب ان کا حال یہ تھا کہ اگر ان کو پڑھانے پہ بٹھا دیا جائے کہ اسٹوڈنٹ بیٹھے ہیں کوئی آیت پڑھا دیجیے تو بھی وہ وہی کرتے ہیں اور اگر کہا جائے کہ یہ بہت سے لوگ سننا چاہتے ہیں آپ تقریر کر دیجیے تو بھی وہ کہتے اور کرتے تھے۔ ان کا انداز مجھے زیادہ پسند آیا۔

بجائے اس کے کہ مقرر اپنی علمیت، اپنی نقطہ آفرینی کا رعب جمائے۔ اس کے پیش نظر یہ ہو کہ میں جو کہنا چاہتا ہوں سادہ الفاظ میں سننے والے سمجھ لیں۔ تو یہ جو دوسری بات ہے یہ پسند ہے مجھے۔ مقرر یہ نہ سوچے کہ میں نے کتنا پڑھا ہے یا کتنا رعب ڈالوں لوگوں پر اور اپنی علمیت کا کتنا اظہار کروں۔ اس کے بجائے پبلک کے سادہ انداز میں رہتے ہوئے ان کے دل میں اتر جائے تو وہ تقریر زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے، اس کا اثر بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے مجھے یہ انداز اچھا لگا اور اسے میں نے اپنایا۔ میں گفتگو کے انداز میں بات کرتا ہوں۔

ماخوز از:http://urdudigest.pk/2013/02/maulana-yousaf-elahi
 

ابن عادل

محفلین
اصلاحی صاحب کی ''آداب زندگی'' تو بلاتفریق رنگ ونسل ومذہب ایک ایسی کتاب ہے جو ہر گھر کا حصہ ہونی چاہیے اور ہے بھی ۔ ہندوستان میں ہندو بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔ ہم یہاں بھی مختلف مسلک اور مشرب کے افراد کو اس سے استفادہ کرتے پایا ہے ۔
 
اصلاحی صاحب کی ''آداب زندگی'' تو بلاتفریق رنگ ونسل ومذہب ایک ایسی کتاب ہے جو ہر گھر کا حصہ ہونی چاہیے اور ہے بھی ۔ ہندوستان میں ہندو بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔ ہم یہاں بھی مختلف مسلک اور مشرب کے افراد کو اس سے استفادہ کرتے پایا ہے ۔
مجھے اس بات کا علم نہیں کہ ہندو بھی استفادہ کرتے ہیں یا نہیں لیکن ہاں مسلمانوں میں یہ کتاب بہت مقبول ہے ۔اس کتاب کا ہندی اور انگریزی ترجمہ بھی آ گیا ہے جسے ان کے صاحبزادے سلمان اصلاحی نے کیا ہے ۔
 

ابن عادل

محفلین
مجھے اس بات کا علم نہیں کہ ہندو بھی استفادہ کرتے ہیں یا نہیں لیکن ہاں مسلمانوں میں یہ کتاب بہت مقبول ہے ۔اس کتاب کا ہندی اور انگریزی ترجمہ بھی آ گیا ہے جسے ان کے صاحبزادے سلمان اصلاحی نے کیا ہے ۔
ہندو کے استفادے والی بات غالبا ٖ خود اصلاحی صاحب نے کی ہے ۔
ویسے یہ جو ملیالم زبان میں اخبار نکلتا ہے ۔ اس کی ذرا معلومات مل سکتی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ کیا دوسرے اخبارات بھی جماعت کے تحت نکلتے ہیں وہاں !! ذرا اس حوالے سے بھی آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
 
quote="ابن عادل, post: 1441222, member: 2311"]ہندو کے استفادے والی بات غالبا ٖ خود اصلاحی صاحب نے کی ہے ۔
ویسے یہ جو ملیالم زبان میں اخبار نکلتا ہے ۔ اس کی ذرا معلومات مل سکتی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ کیا دوسرے اخبارات بھی جماعت کے تحت نکلتے ہیں وہاں !! ذرا اس حوالے سے بھی آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔[/quote]

جی کئی ایک رسالہ اخبار اور رسائل نکلتے ہیں ۔۔۔۔میرے علم کی حد تک جو میں جانتا ہوں ۔۔۔ریڈینس (انگریزی ہفت روزہ ) ،کانتی (ہندی ہفت روزہ)،سہ روزہ دعوت (اردو)،ریڈینس ماہنامہ (انگریزی)اور دیگر لوکل زبانوں میں بھی نکلتے ہیں اس کے بارے میں آپ کو اشرف علی بستوی بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں ۔
 
آخری تدوین:
Top