مولانا رومؒ اور شمس تبریز رحمہما اللہ کا شان دار واقعہ:

مولانا طارق جمیل صاحب نے کراچی اجتماع میں بہت قیمتی باتیں ارشاد فرمائیں، کوشش ہوگی کہ چیدہ چیدہ اقتباسات من و عن یہاں نقل کروں:

مولانا رومؒ اور شمس تبریز رحمہما اللہ کا شان دار واقعہ:
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
’’مولوی روم مولانا رومؒ تب بنے جب شمس تبریزؒ کے ہاتھوں میں ہاتھ دیا، ورنہ فلسفہ اور منطق میں گم ہوکے مرجاتے۔ کبھی فلسفہ اور منطق بھی اللہ تک پہنچاتا ہے؟ کبھی فلسفہ اور منطق سے بھی کسی نے اللہ کو پایا؟ سب سے پہلے اس فن کو اُمت میں مامون لایا تھا، وہی گم راہ ہوگیا اور خلق قرآن کا قائل ہوگیا! بشر مریثی کے عقلی دلائل سے متاثر ہوکر پوری اُمت کو پچاس سال تک اتنی خوف ناک آزمائش سے گزرنا پڑا!
مولانا رومؒ منطق اور فلسفہ کے امام تھے، مسجد میں سبق پڑھارہے تھے، کتابیں حوض کے ساتھ رکھی ہوئی تھیں، ایک دیہاتی آیا، ننگے پاؤں، میلا سا عمامہ اور کہتا ہے مولانا ایں چیست؟ یہ کیا ہے؟ انہوں نے دیکھا ایک دیہاتی ہے، گنوار ہے، ان پڑھ ہے، جاہل ہے، تو انہوں نے بڑے طنب کے کہا: ایں آں است کہ تو نمی دانی! یہ وہ ہے جو تو نہیں جانتا بھائی، چل اپنا کام کر۔ وہ ایک دم آگے بڑھا اور ساری کتابوں کو دھکا دیا، ساری کتابیں حوض میں جاگریں، او ہو ہو! مولانا روم نے سر پکڑ لیا، ارے تو نے مجھے برباد کردیا، ارے ظالم تو نے میری ساری زندگی کی کمائی تباہ کردی، یہ کوئی تھوڑا تھا کہ پریس سے دوبارہ چھپوالو نکلوالو ، ہاتھ کے قلمی نسخے، کہنے لگے کہ تو نے مجھے ختم کردیا، وہ مسکرایا اور حوض میں ہاتھ ڈال کر ایک ایک کتاب کو نکالتا اس میں سے مٹی اور غبار نکل رہا ہوتا، مٹی اور غبار سمیت کتاب حوض سے باہر رکھ دیتا، ساری کتابیں خشک نکال کے باہر رکھ دیں! مولانا روم پر حیرت طاری ہوئی اور کہا کہ ایں چیست؟ یہ کیا ہے؟ تو اُس دیہاتی نے کہا: ایں آں است کہ تو نمی دانی! یہ وہ ہے جو تو نہیں جانتا! بس پھر کیا ہوا:
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامے شمس تبریز نہ شد
پھر ان کے ہاتھوں میں ہاتھ دیا،
سبحان اللہ! ہماری جماعت دو سال پہلے گئی، ان کے مزار پر حاضری ہوئی، وہاں اتنے زائرین آتے ہیں کہ آٹھ سو روپے کا ٹکٹ ہے، اور جتنے مسلمان اتنے ہی غیر مسلم۔ اللہ نے کیا محبت ڈالی سات سو سال ہوگئے دنیا سے گئے ہوئے لیکن آج بھی ان کے مزار پر ایک میلہ کی کیفیت ہے۔
(ماخوذ از بیان، مولانا طارق جمیل، کراچی اجتماع، 2017، تحریر: سید محمد زین العابدین)
 
Top