مفروضہ

نوید ناظم

محفلین
مفروضہ ہوتا نہیں، قائم کیا جاتا ہے۔ مختلف افراد مختلف مفروضے قائم کرتے رہتے ہیں. کئی لوگ حقیقت کو مفروضہ سمجھتے ہیں اور کچھ اپنے مفروضے کو حقیقت خیال کرتے ہیں۔ زندگی کے ساتھ ساتھ کئی مفروضے چلتے رہتے ہیں اور زندگی کی رونق بحال رہتی ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہوتا ہے۔ مفروضہ بُری بات نہیں ہے بشرطیکہ زندگی صرف اسی تک محدود نہ کر دی جائے. کچھ لوگ محض مفروضے کی بنیاد پر دوسروں سے ناراض ہو جاتے ہیں. وہ دوسروں کا عمل دیکھ کر اُن کی نیت کے بارے خود ایک مفروضہ بنا لیتے ہیں۔ اور یوں اپنا فرض کیا ہوا خیال' دوسروں کی حقیقت خود پر نہیں کھُلنے دیتا۔ انسان دوسرے کا عمل دیکھ کر پریشان ہے اور یہ پریشانی اپنی بد گمانی کی وجہ سے ہے' اپنے خیال اور اپنے مفروضوں کی وجہ سے ہے۔۔۔۔ اگر کسی انسان کے متعلق کوئی مفروضہ قائم کرنا ہی ہے تو کیوں نہ اس کا رخ مثبت رکھا جائے۔۔۔۔ بے وفائی کے اس دور میں اگر کچھ فرض کرنا ضروری ہے تو '' فرض کرو کہ ہم اہلِ وفا ہوں''۔ برسوں اک دوسرے کے ساتھ رہنے والے بھی قلبی طور پر ایک دوسرے کے قریب نہیں آ رہے' دونوں طرف مفروضے ہیں۔۔۔ شکوک ہیں' بدگمانیاں ہیں۔ ہر انسان کو یہ دعویٰ ہے کہ وہ دوسرے کی حقیقت سے آگاہ ہے اور یہی وہ مفروضہ ہے جس کی اوٹ میں دوسرے کی حقیقت چھُپ کہ رہ گئی ہے۔۔۔۔ ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے چلے جاتے ہیں۔ در اصل زندگی میں صرف مفروضہ نہیں ہے بلکہ مشاہدہ بھی ہے' ادراک بھی ہے' حقیقت اور معرفت بھی ہے۔ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ کر ہم اپنے مفروضے کو حقیقت نہیں کہہ سکتے۔ زندگی کا زاویہ صرف وہی نہیں ہے جس زاویے سے ہم زندگی کو دیکھتے ہیں۔۔۔۔ ایک بات کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں، بات سے بات نکلتی رہتی ہے اس لیے کسی بات کے متعلق صرف اپنی رائے کو حتمی جاننا کوئی اٹل حقیقت بھی نہیں ہے۔ حقیقت کی طرف سفر تو سفر در سفر ہے' اس کا ادراک تو پرت در پرت ہے۔۔۔۔ اور مسافر کے لیے ضروری ہے کہ اس کا سفر کسی ایسے مفروضے کی نذر نہ ہو جائے جو اس کے لیے حقیقت کی راہوں کو مخدوش کر دے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک صاحب ہیں نوید ناظم بہت اچھا لکھتے ہیں۔ اُن کی تحریر جب بھی پڑھو دل صاد کرتا ہے۔ معاملہ فہم ہیں، مثبت سوچ کے حامل ہیں، زبان و بیان پر گرفت ہے ساتھ ساتھ مسئلوں کا حل نکالنا بھی جانتے ہیں۔

ماشاءاللہ۔

اللہ تعالیٰ اُن کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اُور اُن سے اس جہان میں اور اُس جہان میں راضی ہو جائے۔ آمین۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کچھ لوگ محض مفروضے کی بنیاد پر دوسروں سے ناراض ہو جاتے ہیں. وہ دوسروں کا عمل دیکھ کر اُن کی نیت کے بارے خود ایک مفروضہ بنا لیتے ہیں۔ اور یوں اپنا فرض کیا ہوا خیال' دوسروں کی حقیقت خود پر نہیں کھُلنے دیتا۔ انسان دوسرے کا عمل دیکھ کر پریشان ہے اور یہ پریشانی اپنی بد گمانی کی وجہ سے ہے' اپنے خیال اور اپنے مفروضوں کی وجہ سے ہے۔۔۔۔ اگر کسی انسان کے متعلق کوئی مفروضہ قائم کرنا ہی ہے تو کیوں نہ اس کا رخ مثبت رکھا جائے۔۔۔۔ بے وفائی کے اس دور میں اگر کچھ فرض کرنا ضروری ہے تو '' فرض کرو کہ ہم اہلِ وفا ہوں''

کیا کہنے۔۔۔!

:hatoff:
 

محمداحمد

لائبریرین
برسوں اک دوسرے کے ساتھ رہنے والے بھی قلبی طور پر ایک دوسرے کے قریب نہیں آ رہے' دونوں طرف مفروضے ہیں۔۔۔ شکوک ہیں' بدگمانیاں ہیں۔ ہر انسان کو یہ دعویٰ ہے کہ وہ دوسرے کی حقیقت سے آگاہ ہے اور یہی وہ مفروضہ ہے جس کی اوٹ میں دوسرے کی حقیقت چھُپ کہ رہ گئی ہے۔۔۔۔ ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے چلے جاتے ہیں۔ در اصل زندگی میں صرف مفروضہ نہیں ہے بلکہ مشاہدہ بھی ہے' ادراک بھی ہے' حقیقت اور معرفت بھی ہے۔ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ کر ہم اپنے مفروضے کو حقیقت نہیں کہہ سکتے۔ زندگی کا زاویہ صرف وہی نہیں ہے جس زاویے سے ہم زندگی کو دیکھتے ہیں۔۔۔۔ ایک بات کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں، بات سے بات نکلتی رہتی ہے اس لیے کسی بات کے متعلق صرف اپنی رائے کو حتمی جاننا کوئی اٹل حقیقت بھی نہیں ہے۔ حقیقت کی طرف سفر تو سفر در سفر ہے' اس کا ادراک تو پرت در پرت ہے۔۔۔۔ اور مسافر کے لیے ضروری ہے کہ اس کا سفر کسی ایسے مفروضے کی نذر نہ ہو جائے جو اس کے لیے حقیقت کی راہوں کو مخدوش کر دے۔

بہت خوب!

انگریزی کے دو لفظ ہیں۔

ایک consideration
اور دوسرا Empathy

اگر ہم لوگوں کے بارے میں سوچتے ہوئے ان دو چیزوں سے کام لیں تو شاذ ہی کبھی ہم بدگمانی کا شکار ہوں۔
 
مفروضہ ہوتا نہیں، قائم کیا جاتا ہے۔ مختلف افراد مختلف مفروضے قائم کرتے رہتے ہیں. کئی لوگ حقیقت کو مفروضہ سمجھتے ہیں اور کچھ اپنے مفروضے کو حقیقت خیال کرتے ہیں۔ زندگی کے ساتھ ساتھ کئی مفروضے چلتے رہتے ہیں اور زندگی کی رونق بحال رہتی ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہوتا ہے۔ مفروضہ بُری بات نہیں ہے بشرطیکہ زندگی صرف اسی تک محدود نہ کر دی جائے. کچھ لوگ محض مفروضے کی بنیاد پر دوسروں سے ناراض ہو جاتے ہیں. وہ دوسروں کا عمل دیکھ کر اُن کی نیت کے بارے خود ایک مفروضہ بنا لیتے ہیں۔ اور یوں اپنا فرض کیا ہوا خیال' دوسروں کی حقیقت خود پر نہیں کھُلنے دیتا۔ انسان دوسرے کا عمل دیکھ کر پریشان ہے اور یہ پریشانی اپنی بد گمانی کی وجہ سے ہے' اپنے خیال اور اپنے مفروضوں کی وجہ سے ہے۔۔۔۔ اگر کسی انسان کے متعلق کوئی مفروضہ قائم کرنا ہی ہے تو کیوں نہ اس کا رخ مثبت رکھا جائے۔۔۔۔ بے وفائی کے اس دور میں اگر کچھ فرض کرنا ضروری ہے تو '' فرض کرو کہ ہم اہلِ وفا ہوں''۔ برسوں اک دوسرے کے ساتھ رہنے والے بھی قلبی طور پر ایک دوسرے کے قریب نہیں آ رہے' دونوں طرف مفروضے ہیں۔۔۔ شکوک ہیں' بدگمانیاں ہیں۔ ہر انسان کو یہ دعویٰ ہے کہ وہ دوسرے کی حقیقت سے آگاہ ہے اور یہی وہ مفروضہ ہے جس کی اوٹ میں دوسرے کی حقیقت چھُپ کہ رہ گئی ہے۔۔۔۔ ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے چلے جاتے ہیں۔ در اصل زندگی میں صرف مفروضہ نہیں ہے بلکہ مشاہدہ بھی ہے' ادراک بھی ہے' حقیقت اور معرفت بھی ہے۔ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ کر ہم اپنے مفروضے کو حقیقت نہیں کہہ سکتے۔ زندگی کا زاویہ صرف وہی نہیں ہے جس زاویے سے ہم زندگی کو دیکھتے ہیں۔۔۔۔ ایک بات کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں، بات سے بات نکلتی رہتی ہے اس لیے کسی بات کے متعلق صرف اپنی رائے کو حتمی جاننا کوئی اٹل حقیقت بھی نہیں ہے۔ حقیقت کی طرف سفر تو سفر در سفر ہے' اس کا ادراک تو پرت در پرت ہے۔۔۔۔ اور مسافر کے لیے ضروری ہے کہ اس کا سفر کسی ایسے مفروضے کی نذر نہ ہو جائے جو اس کے لیے حقیقت کی راہوں کو مخدوش کر دے۔
صد فی صد متفق۔ بہت خوبی سے بیان کیا ہمارے معاشرے میں رچی بسی ایک موذی بیماری کا حل۔
اگر یوں کہا جائے کے ہمارے معاشرے میں خاندانی جھگڑوں اور مسائل کی سب سے بڑی وجہ بد گمانی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
 

نوید ناظم

محفلین
ایک صاحب ہیں نوید ناظم بہت اچھا لکھتے ہیں۔ اُن کی تحریر جب بھی پڑھو دل صاد کرتا ہے۔ معاملہ فہم ہیں، مثبت سوچ کے حامل ہیں، زبان و بیان پر گرفت ہے ساتھ ساتھ مسئلوں کا حل نکالنا بھی جانتے ہیں۔

ماشاءاللہ۔

اللہ تعالیٰ اُن کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اُور اُن سے اس جہان میں اور اُس جہان میں راضی ہو جائے۔ آمین۔
کیا کہہ سکتا ہوں احمد بھائی۔۔۔۔ باالعموم اپنی تعریف اور باالخصوص ایسی تعریف کے سامنے بندہ بے بس سا ہو جاتا ہے، آپ کے گداز دل کی خیر۔۔۔!!!
 

نوید ناظم

محفلین
ایک صاحب ہیں نوید ناظم بہت اچھا لکھتے ہیں۔ اُن کی تحریر جب بھی پڑھو دل صاد کرتا ہے۔ معاملہ فہم ہیں، مثبت سوچ کے حامل ہیں، زبان و بیان پر گرفت ہے ساتھ ساتھ مسئلوں کا حل نکالنا بھی جانتے ہیں۔

ماشاءاللہ۔

اللہ تعالیٰ اُن کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اُور اُن سے اس جہان میں اور اُس جہان میں راضی ہو جائے۔ آمین۔
تحریر کے آغاز سے لگا آپ بھی کوئی مفروضہ قائم کرنے لگے ہیں :) :):)
 
مفروضہ ہوتا نہیں، قائم کیا جاتا ہے۔ مختلف افراد مختلف مفروضے قائم کرتے رہتے ہیں. کئی لوگ حقیقت کو مفروضہ سمجھتے ہیں اور کچھ اپنے مفروضے کو حقیقت خیال کرتے ہیں۔ زندگی کے ساتھ ساتھ کئی مفروضے چلتے رہتے ہیں اور زندگی کی رونق بحال رہتی ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہوتا ہے۔ مفروضہ بُری بات نہیں ہے بشرطیکہ زندگی صرف اسی تک محدود نہ کر دی جائے. کچھ لوگ محض مفروضے کی بنیاد پر دوسروں سے ناراض ہو جاتے ہیں. وہ دوسروں کا عمل دیکھ کر اُن کی نیت کے بارے خود ایک مفروضہ بنا لیتے ہیں۔ اور یوں اپنا فرض کیا ہوا خیال' دوسروں کی حقیقت خود پر نہیں کھُلنے دیتا۔ انسان دوسرے کا عمل دیکھ کر پریشان ہے اور یہ پریشانی اپنی بد گمانی کی وجہ سے ہے' اپنے خیال اور اپنے مفروضوں کی وجہ سے ہے۔۔۔۔ اگر کسی انسان کے متعلق کوئی مفروضہ قائم کرنا ہی ہے تو کیوں نہ اس کا رخ مثبت رکھا جائے۔۔۔۔ بے وفائی کے اس دور میں اگر کچھ فرض کرنا ضروری ہے تو '' فرض کرو کہ ہم اہلِ وفا ہوں''۔ برسوں اک دوسرے کے ساتھ رہنے والے بھی قلبی طور پر ایک دوسرے کے قریب نہیں آ رہے' دونوں طرف مفروضے ہیں۔۔۔ شکوک ہیں' بدگمانیاں ہیں۔ ہر انسان کو یہ دعویٰ ہے کہ وہ دوسرے کی حقیقت سے آگاہ ہے اور یہی وہ مفروضہ ہے جس کی اوٹ میں دوسرے کی حقیقت چھُپ کہ رہ گئی ہے۔۔۔۔ ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے چلے جاتے ہیں۔ در اصل زندگی میں صرف مفروضہ نہیں ہے بلکہ مشاہدہ بھی ہے' ادراک بھی ہے' حقیقت اور معرفت بھی ہے۔ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ کر ہم اپنے مفروضے کو حقیقت نہیں کہہ سکتے۔ زندگی کا زاویہ صرف وہی نہیں ہے جس زاویے سے ہم زندگی کو دیکھتے ہیں۔۔۔۔ ایک بات کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں، بات سے بات نکلتی رہتی ہے اس لیے کسی بات کے متعلق صرف اپنی رائے کو حتمی جاننا کوئی اٹل حقیقت بھی نہیں ہے۔ حقیقت کی طرف سفر تو سفر در سفر ہے' اس کا ادراک تو پرت در پرت ہے۔۔۔۔ اور مسافر کے لیے ضروری ہے کہ اس کا سفر کسی ایسے مفروضے کی نذر نہ ہو جائے جو اس کے لیے حقیقت کی راہوں کو مخدوش کر دے۔
خوبصورت تحریر۔
 
صد فی صد متفق۔ بہت خوبی سے بیان کیا ہمارے معاشرے میں رچی بسی ایک موذی بیماری کا حل۔
اگر یوں کہا جائے کے ہمارے معاشرے میں خاندانی جھگڑوں اور مسائل کی سب سے بڑی وجہ بد گمانی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
بدگمانی اور شے ہے اور مفروضہ اور شے۔
منطق و فلسفہ میں مفروضہ ایک ضروری شے ہے، اس کے بغیر سماجیات، اخلاقیات، مذہبیات کی بہت سی باتیں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔
اس کے متوازی ایک اصطلاح ادراک ہے۔ ادراک صرف ان باتوں کا کیا جا سکتا ہے جن کو ہمارے تجربات اور ہمارے حواس کے دائرے میں آ سکیں۔ جو موضوعات یا معاملات تجربات یا حواس سے ماورا ہیں، ان کی تشریح کیلئے مفروضہ لازمی ہے۔ اس کے بعد کی منزل مفروضہ کو پرکھنا ہے کہ وہ ان سوالوں کے تشفی جواب دے سکتا ہے جن کی جواب معروضی طور پہ حاصل نہیں کئے جا سکتے۔
 
بدگمانی اور شے ہے اور مفروضہ اور شے۔
منطق و فلسفہ میں مفروضہ ایک ضروری شے ہے، اس کے بغیر سماجیات، اخلاقیات، مذہبیات کی بہت سی باتیں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔
اس کے متوازی ایک اصطلاح ادراک ہے۔ ادراک صرف ان باتوں کا کیا جا سکتا ہے جن کو ہمارے تجربات اور ہمارے حواس کے دائرے میں آ سکیں۔ جو موضوعات یا معاملات تجربات یا حواس سے ماورا ہیں، ان کی تشریح کیلئے مفروضہ لازمی ہے۔ اس کے بعد کی منزل مفروضہ کو پرکھنا ہے کہ وہ ان سوالوں کے تشفی جواب دے سکتا ہے جن کی جواب معروضی طور پہ حاصل نہیں کئے جا سکتے۔
بد گمانی بھی مفروضہ ہی ہے اور صاحبِ تحریر نے بھی اسی کو موضوعِ بحث بنایا ہے.
 
Top