معراجِ بشری

نور وجدان

لائبریرین
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں

حقیقت کبھی نظر نہ آئی مگر حقیقت محسوس ہوئی ۔ احساس میں موجود رگوں میں سرائیت کیے ہوئے کہ ہماری شہ رگ سے قریب ہے ۔بعض انسان سرپھرے ہوتے ہیں ، شاید مجھ جیسے جنکو حقیقت کو دیکھنے کی جستجو ہوتی ہے ۔ محشر کے بعد دیدار ہونا ہے تو ہر پل میرا محشر ہے۔ اس حشر کی تسلی کو ہر دوسرا پل دیدار کو لکھ دیا ہوتا ۔ میرے لیے لمحہ بھر کا درد بھلے زمانوں پر محیط ہوتا مگر وہ تو ہوتا جو درد کی شکل میں موجود ہوتے دکھتا نہیں ہے ۔ایک سانس نفی کرتی اور دوسری سانس الہ کہتے دیدار کرتی ہے ۔

اِنسان کے لیے اپنا ہونا ایک بڑے صدمے سے کم نہیں مگر ذاتِِ حق کی آگہی ہونے کے بعد ۔ انسان اپنی پُوجا کرتا ہے ، عبد ہوتے ہوئے معبود بن جاتا ہے ۔ عبدیت کی ضد میں معبودیت پر فائز ہوجانا صرف کفر ہے ۔میں خود پسند ہوں کیونکہ میں نے خاک کی شکل کو پسند کیا یا میں خود پسند ہوں کہ مجھے اپنی باطنی صورتوں سے پیار ہے ! ایک قسم کی خود پسندی جو خاکی پُتلے کو حاصل ہے ، وہ اس خود پسندی سے مختلف ہے جو روح کو دیکھنے ، سمجھنے ، سننے کے بعد حاصل ہوجاتی ہے !

جب انسان اپنی روح کا طالب ہوتے سننا ، دیکھنا اور سمجھنا شروع کردیتا ہے تب اسکو یقین کی سواری مل جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!یقین عالمِ حسیات کی جانب گامزن ہوتے احساس دِلاتا ہے کہ سانس کی ادائیگی بھی کلمہ لا سے الا اللہ کا سفر ہے ۔ جیسے جیسے اس سفر میں پاؤں میں آبلے ، دل دشت و ہشت نگر ، روح خار سے تار تار ہوجاتی ہے تب وہ اثبات کی دولت عطا کرتا ہے ۔ خلافت کی نعمت اس اثباتِ حق کے تسلیم کے وحدانیت کی جانب سفر شُروع ہوجاتا ہے ۔ سورہ الاخلاص کی عملی تفسیر بنتے انسان واحد کی شرکت میں ''لا '' کی مہر ثبت کرتے '' الا اللہ '' کی تسبیح کرتا ہے ۔ یقین سے ملی اثبات کی نعمت کے بعد مافوق العقل واقعات انسان سے سرزد ہونا شُروع ہوجاتے ہیں ۔جو ان میں کھوگیا وہ نفس کی پہچان میں دھوکا کھا گیا ، جو نکل گیا وہ خالص ہوگیا ۔دھوکا کھانے والے وہی لوگ جن کے بارے میں سورہ العصر میں بیان کیا گیا کہ جن کے اعمالات سیاہ نے عمر کا صفحہ چاک کردیا ، مہلت قلیل ہوگئی اور خسارہ بڑھ گیا ۔

کلمہ لا الہ الا اللہ '' شک '' و ''یقین '' کی جنگ سے تعبیر ہر انسان کی عملی کہانی ہے کیونکہ ہونٹ اس کو ادا کرتے ہیں جب روح اس کے ورد میں مصروف ہوتی ہے۔روح پر خاکی ملمع جب اتر جاتی ہیں تب روح کے زنگ ختم ہوتے ہیں ، رنگ ابھرتے چمکتے ہیں ۔روح کی صورتوں کو نیا شعلہِ شوق عطا کیا جاتا ہے ۔ جس جس سے انگ میں شوخیِ ہست و نمود کی چنگاریاں پیدا ہوجاتی ہیں تب درد کا صور بالخصوص ایک بار پھوُنکا جاتا ہے ، جس سے موت یقینی ہوجاتی ہے یعنی موت کو شہ مات ہوجاتی ہے ۔ یہ درد کبھی رقصِ بسمل کراتا ہے ، ننگے پاؤں خار پر چلاتا ہے ، بدن لہو لہو ہوتے سر نیزے پر لگواتا ہے ۔ یہ درد کبھی اژدہے کی صورت تو کبھی شیر کی شکل میں تو کبھی چیتے کی خونخواری لیے بوٹی بوٹی نوچتا کھسوڑتا اور خون چوستا محسوس ہوتا ہے ۔ ہر رگ کی رگ کے دس ہزار ٹکرے کر دیے جائیں اور ہر رگ میں کائنات کی دوئی کا درد رکھا دیا جائے تو روح درد سے اپنے وجود سے منکر ہوجائے یا پھر بڑھ کا سامنا کرتے کہے :
آ درد ! ہم تجھے تھام لیں کہ ہم میں اتنا حوصلہ ہے ! آ درد ! ہمارے طوفان سے مقابلہ کرلے ! ہمارے اندر طوفان ہے ! آ درد! خنجر اور تلوار کا رقص کریں ! درد ! درد ہم سے منہ چھپاتا پھرتا ہے کہ ہمارے دل کے خون کے آگے سب ہیچ ہے ! مٹی ہیچ ! آنسو ہیچ ! ہوا ہیچ ! شیشہ ہیچ کہ ٹوٹ کے بکھرجائے ! سب مایا ہے مگر بدن پر ہوس کا سایہ ہے ! ہوس نے بدن کو تھام رکھا ہے جبکہ درد کی ہوس سے شدید قسم کی کشمکش ہے تب درد شب خون مارتا ہے ! یہ کھیل ہجرت کے بعد سے شُروع ہوا اور وصل سے پہلے تک جاری رہتا ہے ! اس دنیا میں کوئی روح اس درد سے ماورا نہیں ۔سب کے اندر یہی الاؤ دہک رہا ہے جس سے جلا ہوا جل کے راکھ ہوجائے ! یہ آگ پھر بھی ختم نہ ہو تاوقتیکہ کہ گلزار ہوجائے !

لا الہ الا اللہ کے بعد سے عروج انجم تک کا سفر ۔۔۔۔۔۔ فرش سے عرش تک کا سفر ہے ۔ الم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس عرش کی کہانی اسی ' الم ' کی کہانی ہے ۔ رحمت ِ خاص جو حضرت محمدﷺ پر ہے وہی رحمانیت ہے جبکہ بندوں پر جو عطا سیدنا سرکارِ دو عالم ﷺ کی ہے وہ رحیمی ہے ! جہاں پر تقسیمِ عمل لائی جاتی ہے وہ خانہ کعبہ ہے مگر جہاں سے تقیسم شُروع ہوتی ہے وہی جگہ مسجد نبوی ہے اور جہاں پر معراج بخشی جاتی ہے وہی جگہ مسجد ِ اقصی ہے ! اسی طرح عشق کے بھی تین مقامات ہیں ، عشق کا عین : مقامِ لا ، عشق کی شین : مقامِ لا سے الہ (بالخصوص ذات میں گم ہوجانے کے بعد ) ، عشق کا ق : مقامِ الا اللہ ! تقسیمِ خاص سے تقسیمِ عام سے ہوتے معراج کا سفر ہی انسانی روح کا کائنات میں معین سفر ہے !
 
اللہ کریم آپ کے قلم میں اور زیادہ روحانیات اور کلمہ حق لکھنے کی طاقت عطا فرمائیں۔آمین
بہت اعلی اور خوبصورت تحریر لکھنے پر آپ کو میری طرف سے مبارکباد
 
آپ نے اپنی تحریر میں جو ذکر اللہ کابیان کیا ہے اس کو ذکر خفی کہتے ہیں یہ ذکر سانس کے ساتھ کیا جاتا ہے۔آواز پیدا کرے بغیر اور ذکر خفی حضرت بابا فریدالدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ سے ثابت ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ نے اپنی تحریر میں جو ذکر اللہ کابیان کیا ہے اس کو ذکر خفی کہتے ہیں یہ ذکر سانس کے ساتھ کیا جاتا ہے۔آواز پیدا کرے بغیر اور ذکر خفی حضرت بابا فریدالدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ سے ثابت ہے۔
ذکرِ خفی کیا ہوتا ہے ، اس بارے میں لا علم ہوں
 
ذکرِ خفی کیا ہوتا ہے ، اس بارے میں لا علم ہوں
ذکرِ خفی سے مراد چھپا ہوا ،خفیہ ہے۔ذکر خفی کرتے وقت کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ آپ کہاں مشغول ہو۔دیکھنے والا صرف یہ محسوس کرے گا کہ آپ سانس لیے رہے ہو اورچلتی سانس زندگی کی علامت ہے۔ذکر خفی چلتے ،پھرتے،اٹھتے ،بیٹھتے ،ہر جائز کام کرتے وقت کیا جاسکتا ہے۔باوضو ہونا ضروری ہے۔ذکر کرنے سے دل میں روحانیت پیدا ہوتی ہے۔ذکر خفی کے وقت معملات اللہ تعالیٗ اور بندے کے درمیان ہوتے ہیں۔صرف اللہ کریم جانتا ہے کہ میرا بندہ میری حمد و ثناء میں مشغول ہے۔اولیاء اکرام کے نزدیک ذکر خفی کے وقت ہمارے ساتھ ڈیوٹی پر موجود فرشتے بھی لاعلم ہوتے ہیں۔
ذکرِ خفی کرنے کا طریقہ !
ذکر کرنے سے پہلے ذکر کرنے کی نیت کریں ۔اول میں 3 دفعہ درود شریف پڑھ لیں۔ سانس لیتے ہوے
"لا الہ "کے کلمے کی ضرب لگانی ہے اور سانس خارج کرتے وقت"الا اللہ "کے کلمے کی ضرب لگانی ہے۔ذکر خفی کرتے وقت وقفے وقفے سے محمدرسول اللہﷺ ادا کرتے رہیں۔
یعنی معملات کچھ اس طرح سے ہیں کہ سانسوں کی مالا پہ میں لو تیرا نام۔۔۔۔۔​
 
Top