گلزیب انجم

محفلین
بڑے بھائی کو دو دن بنا بتائے باہر رہنے پر کچھ ڈوز ملی تو چھوٹے نے سرگوشی کی صورت میں پوچھا کھا آئے آو۔ دوسرے دن چھوٹا بھائی اسکول سے کچھ مرمتی کے بعد گھر لوٹا تو بڑے نے پوچھا کھا آئے او لیکن ان دونوں کی کھا آئے او بے شک الگ الگ موقع محل کی صورت میں تھی لیکن ایک بات مشاہدے سے واضح تھی کہ ایک دوسرے کی کھا آئے او کی گردان پر ان کے ہونٹوں پر تبسم سا آتا تھا ۔ مجھے اپنے تہی کھائے آئے او پر کچھ تجسس سا پیدا ہوا کہ یہ ہے کیا ؟ آخر اس میں کون سی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کی عزت آفزائی پر ہی یہ بات پوچھی جاتی ہے اور پھر جس سے پوچھی جاتی ہے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ندمت بھری ایک مسکراہٹ ضرور شئیر کرتا ہے۔ ابھی تجسس کچھ ابھر ہی رہا تھا کہ دوسرے روز(کوٹلی) شہر جانا پڑ گیا ۔

وہاں ان دنوں میں ایک تانگہ چلا کرتا تھا لوگ اس پر بیٹھتے کم لیکن دیکھتے زیادہ تھے۔ سڑک بھی کچھ خاص پختہ نہ تھی اس لیے گھوڑے کے قدموں کی ٹاپ کم اور پہیوں کی چرچراہٹ زیادہ سنائی دیتی تھی۔ لوگ خاص کر کنڈیکٹر ڈرائیور اس تانگے کے قریب سے گزرتے ہوئے تانگے والے پر "کھا آئے او " کی آوازیں کستے ، جونہی میرے کانوں سے یہ آواز ٹکرائی تو مذید سننے کی جستجو میں اپنی مصروفیت کو التواء میں ڈالتے ہوئے رک گیا۔ اتنی دیر میں ایک ویگن رکی سواری اٹھانے کے بعد اس نے تانگے والے کو متوجہ کرتے ہوئے کہا " کھا آئے او اس کی یہ آواز سن کر تانگے والے نے بے نقطے کی وہ سنائی کہ پھر ڈرائیور کو ایکسیلیٹر کا سہارا لینا پڑا ۔ ہمیں اس کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا کہ کھائے آئے او میں کیا راز پیناں ہے کہ اس کو سن کر کوئی ایسے خرافات بکتا کہ راہ چلتے بھی کانوں پر ہاتھ رکھ کر بھاگتے اور کچھ سن کر ہنسی ہنس دیتے۔ یہی سوچتے ہم اپنے کام کو چلے گے واپسی پر ایک لوکل ویگن بیھٹے اتفاق سے سیٹ ڈرائیور کے ساتھ والی ملی ۔ کچھ رسمی علیک سلیک کے بعد ہم نے اپنی بے چینی کو چین دینے کے لیے ڈرائیور بھائی سے "کھا آئے او " کے متعلق پوچھا تو اس نے ہمیں یہ کتھا سنائی کہ یہ آدمی( تانگے والا) اسی شہر کا رہنے والا ہے اس کا اپنا مکان اور کھیتی باڑی تھی بازار میں چھوٹا موٹا روزگار بھی تھا لیکن کسی کے ورغلانے پر اپنا مکان اور زرعی زمین بیچ کر پنجاب جانے کی سوچنے لگا تو محلے داروں نے اسے لاکھ سمجھایا کہ دیکھو ایسا نہ کرو لیکن اس نے کسی کی نہ سنی اور سب کچھ بیچ بیچا کر چلا گیا ۔ ناتجربہ کار آدمی تھا کوئی اچھا کاروبار کر نہ سکا اور یوں ساری جمع پونجی دو تین سالوں میں ہی ختم ہو گئی۔ جب لگے فاقہ کشی کے لالے پڑنے تو دوبارہ آبائی گاوں کو لوٹا اور آ کر اس نے وہی مکان کرائے پر لے لیا جو فروخت کر کے گیا تھا اور گھر کا خرچہ چلانے کے لیے اس نے ایک گھوڑا خرید کر تانگہ جوت لیا ۔ یوں یہ اپنے علاقے (کوٹلی آزاد کشمیر) کا پہلا کوچوان بنا ۔ اب بیچارہ پورا دن تانگہ چلاتا اور بچوں کا پیٹ پالتا۔ لیکن وہ محلے دار جو زمین اور مکان فروخت کرنے سے منع کرتے تھے یا جو اس کی کہانی سے واقف ہیں اب اسے طنزا" کہتے ہیں " کھا آئے او"۔ اور یہ تانگے والا پورا دن یہی سن سن کر دل برداشتہ ہو کر گالیاں دینے لگ جاتا ہے لیکن غصہ وہ کرتے ہیں جو اس کو یا اس کی کہانی کو نہیں جانتے۔

رفتہ رفتہ یہ "کھا آئے او" یوں زد عام ہوئی کہ سکول میں کسی کو مار پڑتی تو ساتھی طالب علم کہتا کھا آئے او ۔کسی کنڈیکٹر ڈرائیور کی ٹریفک پولیس والا ہرزہ سرائی کرتا تو سننے والا کہتا کھا آئے او ۔کوئی کسی کام کے سلسلے میں کہیں جا کر ناکام لوٹتا تو دوسرا فورا" کہتا کھا آئے او ۔ اب کچھ دنوں سے سیاست میں بھی کچھ ایسا ہی چل رہا ہے کہ ایک آنکھ آدھ موہی سی کر کے کہتے ہیں کھا آئے او ۔ یوسف رضا گیلانی جب نااہل قرار دیے گے تو ن لیگ نے بڑھ چڑھ کر کہا کھا آئے او ۔پی ٹی آئی والوں نے قادری صاحب سے مل کر طویل الوقت دھرنا دیا یہ دھرنا بھی موسم سرما کا تھا کھلی سڑکیں اور کڑاکے کی سردی میں جب لوگوں کا خون رگوں میں منجمد ہونا شروع ہوا اور بغیر کسی حاصل کے جب لوٹے تو پیپلزپارٹی اور دائیں بازوں کی جماعتوں نے پوچھا کھا آئے او ۔وقت بدلہ میاں جی اسلام آباد سے راولپنڈی پہنچے تو استقبالیوں نے پوچھا کھا آئے او ۔ یہی حال سیاسی خواتین کا ہوا جب ایک پارٹی سے دوسری میں پہنچیں تو خوش آمدید کے ساتھ ہی دھیمی آواز میں کسی نے پوچھ لیا کھا آئے او ۔

اب گردن جدھر بھی گمائی جائے تو کانوں سے یہ آواز ضرور ٹکراتی ہے کھا آئے او ۔ اب آگے دیکھیے شاہد خاقان صاحب یا ممنون صاحب کو کب ان مدھر سر لفظوں سے نوازتے ہوئے کوئی پوچھتا ہے " "کھا آئے آو"
 
Top