مشاعرہ (احتجاج)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
زلفی صاحب کے گھر ہم نے ایک ملاقات رکھی۔ جس کو مشاعرے کا نام دے دیا ۔ ہم نے کوئی مشاعرہ نہیں کرنا تھا بس بہار صاحب آ رہے تھے زلفی صاحب کے پاس تو ہم نے سوچا سب دوستوں کو دعوت دے دیتے ہیں ۔ کچھ کلام بھی ہو جائے گا اور ملاقات بھی۔
وقت دن 12 بجے کا رکھا گیا اور میں 11 بجے زلفی صاحب کے گھر موجود تھا ۔ سردی کے دن تھے اس لے چھت پر بیٹھنے کا پروگرام بنایا گیا ۔ بہار صاحب (بہار صاحب پنجابی کے مشہور شاعرہ ہیں اس وقت ان کا پورا نام ذہن میں نہیں آ رہا ) 12 منٹ پہلے آ گے ۔ ان کے آنے سے پہلے میں نے سب تیاریاں مکمل کر لیں تھی۔ اب میں زلفی صاحب اور بہار صاحب باقی سب دوستوں کا انتظار کرنے لگے ۔ سب سے پہلے گل نازک صاحب کی کال آئی اور انھوں نے بتایا وہ کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں آ سکتے ۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے سب کا فون آیا اور اس دن اتفاق سے سب کو کوئی نا کوئی کام اجانک پڑ گیا ۔ مجھے جہاں بہار صاحب سے ملاقات پر خوشی ہو رہی تھی وہاں شرمندگی بھی ہو رہی تھی۔ زلفی صاحب تو پہلے ہی پرشان تھے۔ اتنے میں بہار صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا ۔ اگر کوئی نہیں آ رہا تو کوئی بات نہیں ہم تین موجود ہیں انشاءاللہ اس ملاقات کو مشاعرہ ہی بنائیں گے۔ پھر انھوں نے ایک بات سنائی جو سن کر مجھے تو بہت خوشی ہوئی اور اب شرمندگی ختم ہو رہی تھی۔ یہ بات چلیئے بہار صاحب کی زبانی سنتے ہیں۔

ہم نے بھی ایک ادبی تنظیم بناتھی ۔ خرم آپ کی طرح تھا میں اس وقت جب ہم نے تنظیم بنائی، میں تنظیم کا جنرل سیکٹری تھا ۔ ہم ہر ہفتے ایک تنقیدی نشیست رکھتے تھے۔ ایک ہوٹل کے ہال میں ،ہر جمعہ کی شام وہ حال ہمارے لیے خالی کیا جاتا تھا ۔ ایک جمعہ کو بہت تیز بارش ہو رہی تھی ۔ تنقیدی نشیست کا وقت ہونے والا تھا۔ میں نے برساتی پہنی اپنے کاغذات اٹھائے اور ہال کی طرف چل پڑا۔ میں اپنے وقت پر وہاں پہنچ گیا تھا ۔ بارش اس وقت بھی بہت تیز ہو رہی تھی ۔ مجھے امید تھے کوئی نا کوئی تو ضرور آئے گا ۔ لیکن ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی کوئی نا آیا ۔ میں وہاں اکیلا تھا۔ سامنے ایک ٹیبل تھا اس پر ایک جگ پڑا تھا میں نے ٹیبل کے ساتھ دو کرسیاں لگائی ایک صدر صاحب کے لیے ، ایک کلام پیش کرنے والے کےلیے اور ایک اپنے لیے ۔ جگ کو میں نے صدارت دی اور صدارت والی کرسی پر رکھ دیا ساتھ والی کرسی خالی رہنے دی۔ صدر صاحب کی اجازت تھے گزری نشیت کی کاروائی پڑھ کر سنائی ۔ موجودہ کاروائی کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔ اور اس طرح تنقیدی نشست مکمل کی اور گھر آ گیا۔ آج تو پھر بھی ہم تین ہیں۔


مشاعرہ​

اعوذباللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم


حمدِ باری تعالیٰ

تصور سے بھی آگے تک درو دیوار کُھل جائیں
میری آنکھوں پہ بھی یا رب تیرے اسرار کُھل جائیں

میں تیری رحمتوں کے ہاتھ خود کو بیچنے لگوں
مری تنہائیوں میں عشق کے بازار کُھل جائیں



نعت

نہ میرے سخن کو سخن کہو
نہ مری نوا کو نوا کہو
میری جاں کو صحنِ حرم کہو
مرے دل کو غارِ حرا کہو

میں لکھوں جو مدحِ شہہِ اُمم
اور جبرائیل بنیں قلم
میں ہوں ایک ذرہء بےدرہم
مگر آفتابِ ثناء کہو


حمد و نعت کے بعد تمام خواتین و حضرات کو میری جانب سے اور اردو محفل کی جانب سے السلام علیکم اور خوش آمدید۔ امید ہے آپ سب صحت اور ایمان کی بہتریں حالت میں ہونگے۔ اس مشاعرے کی خاص بات یہ ہے کہ اس مشاعرے میں نا تو صدرِ مشاعرہ ہونگے ، نا مہمانِ خصوصی ، یہاں صرف اور صرف نظامت کے لیے یہ خاکسار ہو گا اور مہمانِ اعزازی جناب محمد احمد صاحب ہونگے لیکن ان کو بھی کلام پیش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ اور جب مہمانِ اعزازی کو کلام پیش کرنے اجازت نہیں ہوگی ، تو پھر کسی کو بھی نہیں ہو گی اس مشاعرے کی ایک خاص بات یہ ابھی شروع ہو گا اور انشاءاللہ ابھی ختم ہو جائے گا۔
اور میرا خیال ہے اب مشاعرہ ختم کرنے کا وقت ہو گیا ہے انشاءاللہ آئندہ پھر کوئی مشاعرہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہونگے اللہ حافظ
 

محمداحمد

لائبریرین
تصور سے بھی آگے تک درو دیوار کُھل جائیں
میری آنکھوں پہ بھی یا رب تیرے اسرار کُھل جائیں

میں تیری رحمتوں کے ہاتھ خود کو بیچنے لگوں
مری تنہائیوں میں عشق کے بازار کُھل جائیں


سبحان اللہ خرم بھائی
بہت عمدہ کلام ہے۔


اور یہ طرزَ مشاعرہ بھی بہت خوب ہے بڑی آسانی سے جان چھوٹ گئی ورنہ شاعر حضرات کے آگے اگر شمعَ محفل رکھ دی جائے تو شمع پروانوں سمیت اللہ کو پیاری ہو جاتی ہے پر یہ حضرات نہیں جان چھوڑتے ۔ :grin:
 

مغزل

محفلین
شاباش ، میرے یار، وہ کیا کہتے ہیں موئی انگریزی میں۔۔ ہاں۔۔ یاد آیا۔۔۔ ’’ گڈ گوئنگ ‘‘
 

مغزل

محفلین
اور جناب ، اب اس مشاعرے کا باقائدہ اختتام کیا جاتا ہے ، اللہ حافظ،
( چائے پی کر جائے گا)
 
Top