مرے دل مرے مسافر (کتاب) از فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
دلِ من مسافرِ من

مرے دل، مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یارِ نامہ بر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتا تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے ناشنایاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمھیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا

لندن 1978ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
پھول مرجھا گئے سارے

پھول مرجھا گئے ہیں سارے
تھمتے نہیں ہیں آسماں کے آنسو
شمعیں بے نور ہو گئی ہیں
آئینے چور ہو گئے ہیں
ساز سب بج کے کھو گئے ہیں
پایلیں بُجھ کے سو گئی ہیں
اور اُن بادلوں کے پیچھے
دور اِس رات کا دلارا
درد کا ستارا
ٹمٹما رہا ہے
جھنجھنا رہا ہے
مسکرا رہا ہے

لندن 1978ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
کوئ عاشق کسی محبوبہ سے!

گلشنِ یاد میں گر آج دمِ بادِ صبا
پھر سے چاہے کہ گل افشاں ہو، تو ہو جانے دو
عمرِ رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد
پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو، تو ہو جانے دو
جیسے بیگانے سے اب ملتے ہو، ویسے ہی سہی
آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
گر چہ مل بیٹھیں گے ہم تم، تو ملاقات کے بعد
اپنا احساسِ زیاں اور زیادہ ہوگا
ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں، تو ہر بات کے بیچ
ان کہی بات کا موہوم سا پردہ ہوگا
کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا، نہ تم
کوئ مضموں وفا کا ، نہ جفا کا ہوگا
گرد ِایّام کی تحریر کو دھونے کے لیے
تم سے گویا ہوں دمِ دید جو میری پلکیں
تم جو چاہو تو سنو، اور جو نہ چاہو، نہ سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو کہو اور جو نہ چاہو نہ کہو

لندن 1978ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
دو غزلیں

مخدوم کی یاد میں

(1)
"آپ کی یاد آتی رہی رات بھر"
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر

گاہ جلتی ہوئی، گاہ بجھتی ہوئی
شمعِ غم جھلملاتی رہی رات بھر

کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر

پھر صبا سایہء شاخِ گُل کے تلے
کوئی قِصہ سناتی رہی رات بھر

جو نہ آیا اسے کوئی زنجیرِ در
ہر صدا پربلاتی رہی رات بھر

ایک امید سے دل بہلتا رہا
اک تمنا ستاتی رہی رات بھر


ماسکو، ستمبر 1978ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
(2)

"اسی انداز سے چل بادِ صبا آخرِ شب"

یاد کا پھر کوئی دروازہ کھُلا آخرِ شب
دل میں بکھری کوئی خوشبوئے قبا آخرِ شب

صبح پھوٹی تو وہ پہلو سے اُٹھا آخرِ شب
وہ جو اِک عمر سے آیا نہ گیا آخرِ شب

چاند سے ماند ستاروں نے کہا آخرِ شب
کون کرتا ہے وفا، عہدِ وفا آخرِ شب

لمسِ جانانہ لیے، مستیِ پیمانہ لیے
حمدِ باری کو اٹھے دستِ دعا آخرِ شب

گھر جو ویراں تھا سرِ شام وہ کیسے کیسے
فرقتِ یاد نے آباد کیا آخرِ شب

جس ادا سے کوئی آیا تھا کبھی اوؐلِ شب
"اسی انداز سے چل بادِ صبا آخرِ شب"

ماسکو اکتوبر، 1978ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک دکؐنی غزل

کچھ پہلے اِن آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا
کیا روشن ہو جاتی تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا

تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی
سب پو چھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا

اب کے خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے
جب موسمِ گُل ہر پھیرے میں آ آ کے دوبارا گزرے تھا

تھی یاروں کی بہتات تو ہم اغیار سے بھی بیزار نہ تھے
جب مل بیٹھے تو دشمن کا بھی ساتھ گوارا گزرے تھا

اب تو ہاتھ سجھائی نہ دیوے، لیکن اب سے پہلے تو
آنکھ اٹھتے ہی ایک نظر میں عالمَ سارا گزرے تھا



ماسکو اکتوبر 1978ء
 

الف عین

لائبریرین
ابھی دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ کتاب مکمل نہیں ہوئی ہے۔ اس کو مکمل کرنے کی کوئی سبیل؟ کیا اجتماعی کام کیا جا سکتا ہے؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
منظر

آسماں آج اِک بحرِ پُر شور ہے
جس میں ہر سُو رواں بادلوں کے جہاز
ان کے عر شے پہ کرنوں کے مستول ہیں
بادبانوں کی پہنے ہوئے فرغلیں
نیل میں گنبدوں کے جزیرے کئی
ایک بازی میں مصروف ہے ہر کوئی
ابابیل کوئی نہاتی ہوئی
کوئی چیل غوطے میں جاتی ہوئی
کوئی طاقت نہیں اس میں زور آزما
کوئی بیڑا نہیں ہے کسی ملک کا
اِس کی تہ میں کوئی آبدوزیں نہیں
کوئی راکٹ نہیں، کوئی توپیں نہیں
یوں تو سارے عناصر ہیں یاں زور میں
امن کتنا ہے اِس بحرِ پُرشور میں

سمرقند، مارچ 78
 

فرخ منظور

لائبریرین
دو نظمیں
قفقار کے شاعر قاسن علی سے ماخوذ​

(۱)
ہر اک دور میں ہر زمانے میں ہم
زہر پیتے رہے، گیت گاتے رہے
جان دیتے رہے زندگی کے لیے
ساعتِ وصل کی سرخوشی کے لیے
فقر و فاقہ کا توشہ سنبھالے ہوئے
جو بھی رستہ چنا اس پہ چلتے رہے
مال والے حقارت سے تکتے رہے
طعن کرتے رہے ہاتھ ملتے رہے
ہم نے اُن پر کیا حرفِ حق سنگ زن
جن کی ہبیت سے دنیا لرزتی رہی
جن پہ آنسو بہانے کو کوئی نہ تھا
اپنی آنکھ ان کے غم میں برستی رہی
سب سے اوجھل ہوئے حکمِ حاکم پہ ہم
قید خانے سہے، تازیانے سہے
لوگ سنتے رہے سازِ دل کی صدا
اپنے نغمے سلاخوں سے چھَنتے رہے
خونچکاں دہر کا خونچکاں آئینہ
دکھ بھری خلق کا دکھ بھرا دل ہیں ہم
طبعِ شاعر ہے جنگاہِ عدل و ستم
منصفِ خیر و شر، حق و باطل ہیں ہم​
 

فرخ منظور

لائبریرین
(۲)

شوپیں* کا نغمہ بجتا ہے

چھلنی ہے اندھیرے کا سینہ، برکھا کے بھالے برسے ہیں
دیواروں کے آنسو ہیں رواں، گھر خاموشی میں ڈوبے ہیں
پانی میں نہائے ہیں بوٹے
گلیوں میں ہُو کا پھیرا ہے
شوپیں کا نغمہ بجتا ہے

اِک غمگیں لڑکی کے چہرے پر چاند کی زردی چھائی ہے
جو برف گری تھی اِس پہ لہو کے چھینٹوں کی رُشنائی ہے
خوں کا ہر داغ دمکتا ہے
شوپیں کا نغمہ بجتا ہے

کچھ آزادی کے متوالے ، جاں کف پہ لیے میداں میں گئے
ہر سُو دشمن کا نرغہ تھا، کچھ بچ نکلے، کچھ کھیت رہے
عالم میں اُن کا شہرہ ہے
شوپیں کا نغمہ بجتا ہے

اِک کونج کو سکھیاں چھوڑ گئیں آکاش کی نیلی راہوں میں
وہ یاد میں تنہا روتی تھی، لپٹائے اپنی باہوں میں
اِک شاہیں اس پر جھپٹا ہے
شوپیں کا نغمہ بجتا ہے

غم نے سانچے میں ڈھالا ہے
اِک باپ کے پتھر چہرے کو
مردہ بیٹے کے ماتھے کو
اِک ماں نے رو کر چوما ہے
شوپیں کا نغمہ بجتا ہے

پھر پھولوں کی رُت لوٹ آئی
اور چاہنے والوں کی گردن میں جھولے ڈالے باہوں نے
پھر جھرنے ناچے چھن چھن چھن
اب بادل ہے نہ برکھا ہے
شوپیں کا نغمہ بجتا ہے

ماسکو 79ء
-------------------------
* شوپیں Chopin پولینڈ کا ممتاز نغمہ ساز
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

امریکہ، جنوری 1979ء
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
لاؤ تو قتل نامہ مرا

سننے کو بھیڑ ہے سرِ محشر لگی ہوئی
تہمت تمہارے عشق کی ہم پر لگی ہوئی
رندوں کے دم سے آتشِ مے کے بغیر بھی
ہے مے کدے میں آگ برابر لگی ہوئی
آباد کرکے شہرِ خموشاں ہر ایک سو
کس کھوج میں ہے تیغِ ستمگر لگی ہوئی
آخر کو آج اپنے لہو پر ہوئی تمام
بازی میانِ قاتل و خنجر لگی ہوئی
لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی

 

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

سہل یوں راہِ زندگی کی ہے
ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے

ہم نے دل میں سجا لیے گلشن
جب بہاروں نے بے رُخی کی ہے

زہر سے دھو لیے ہیں ہونٹ اپنے
لطفِ ساقی نے جب کمی کی ہے

تیرے کوچے میں بادشاہی کی
جب سے نکلے گداگری کی ہے

بس وہی سرخرو ہوا جس نے
بحرِ خوں میں شناوری کی ہے

"جو گزرتے تھے داغ پر صدمے"
اب وہی کیفیت سبھی کی ہے

لندن 79ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
تین آوازیں

ظالم

جشن ہے ماتمِ امّید کا آؤ لوگو
مرگِ انبوہ کا تہوار مناؤ لوگو
عدم آباد کو آباد کیا ہے میں نے
تم کو دن رات سے آزاد کیا ہے میں نے
جلوۂ صبح سے کیا مانگتے ہو
بسترِ خواب سے کیا چاہتے ہو
ساری آنکھوں کو تہ تیغ کیا ہے میں نے
سارے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا ہے میں نے
اب نہ لہکے گی کسی شاخ پہ پھولوں کی حنا
فصلِ گُل آئے گی نمرود کے انگار لیے
اب نہ برسات میں برسے گی گہر کی برکھا
ابر آئے گا خس و خار کے انبار لیے
میرا مسلک بھی نیا راہِ طریقت بھی نئی
میرے قانوں بھی نئے میری شریعت بھی نئی
اب فقیہانِ حرم دستِ صنم چومیں گے
سرو قد مٹی کے بونوں کے قدم چومیں گے
فرش پر آج درِ صدق و صفا بند ہوا
عرش پر آج ہر اِک بابِ دعا بند ہوا
۔۔۔۔۔۔۔
مظلوم

رات چھائی تو ہر اک درد کے دھارے چھوٹے
صبح پھوٹی تو ہر اک زخم کے ٹانکے ٹوٹے
دوپہر آئی تو ہر رگ نے لہو برسایا
دن ڈھلا، خوف کا عفریت مقابل آیا
یا خدا یہ مری گردانِ شب و روز و سحر
یہ مری عمر کا بے منزل و آرام سفر
کیا یہی کچھ مری قسمت میں لکھا ہے تو نے
ہر مسرت سے مجھے عاق کیا ہے تو نے
وہ یہ کہتے ہیں تو خوشنود ہر اک ظلم سے ہے
وہ یہ کہتے ہیں ہر اک ظلم ترے حکم سے ہے
گر یہ سچ ہے تو ترے عدل سے انکار کروں؟
ان کی مانوں کہ تری ذات کا اقرار کروں؟
۔۔۔۔۔۔
ندائے غیب

ہر اِک اُولیِ الامر کو صدا دو
کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے
اُٹھے گا جب جَمِّ سرفروشاں
پڑیں گے دارو رَسن کے لالے
کوئی نہ ہوگا کہ جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی
یہیں عذاب و ثواب ہوگا
یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہوگا

سمرقند، مئی 79
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ ماتمِ وقت کی گھڑی ہے

ٹھہر گئی آسماں کی ندیا
وہ جا لگی افق کنارے
اداس رنگوں کی چاندنیّا
اتر گئے ساحلِ زمیں پر
سبھی کھویّا
تمام تارے
اکھڑ گئی سانس پتیوں کی
چلی گئیں اونگھ میں ہوائیں
گجر بچا حکمِ خامشی کا
تو چپ میں گم ہوگئی صدائیں
سحر کی گوری کی چھاتیوں سے
ڈھلک گئی تیرگی کی چادر
اور اس بجائے
بکھر گئے اس کے تن بدن پر
نراس تنہائیوں کے سائے
اور اس کو کچھ بھی خبر نہیں ہے
کسی کو کچھ بھی خبر نہیں ہے
کہ دن ڈھلے شہر سے نکل کر
کدھر کو جانے کا رخ کیا تھا
نہ کوئی جادہ، نہ کوئی منزل
کسی مسافر کو اب دماغِ سفر نہیں ہے
یہ وقت زنجیرِ روز و شب کی
کہیں سے ٹوٹی ہوئی کڑی ہے
یہ ماتمِ وقت کی گھڑی ہے

یہ وقت آئے تو بے ارادہ
کبھی کبھی میں بھی دیکھتا ہوں
اتار کر ذات کا لبادہ
کہیں سیاہی ملامتوں کی
کہیں پہ گل بوٹے الفتوں کے
کہیں لکیریں ہیں آنسوؤں کی
کہیں پہ خونِ جگر کے دھبّے
یہ چاک ہے پنجۂ عدو کا
یہ مہر ہے یارِ مہرباں کی
یہ لعل لب ہائے مہوشاں کے
یہ مرحمت شیخِ بد زباں کی

یہ جامۂ روز و شب گزیدہ
مجھے یہ پیراہن دریدہ
عزیز بھی، ناپسند بھی ہے
کبھی یہ فرمانِ جوشِ وحشت
کہ نوچ کر اس کو پھینک ڈالو
کبھی یہ اصرارِحرفِ الفت
کہ چوم کر پھر گلے لگا لو

تاشقند، 79ء
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
ہم تو مجبورِ وفا ہیں

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کرے
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں

تیرے ایوانوں میں پرزے ہوے پیماں کتنے
کتنے وعدے جو نہ آسودۂ اقرار ہوے
کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بدخواہوں کی
خواب کتنے تری شاہراہوں میں سنگسار ہوے

"بلاکشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
جو مجھ پہ گزری مت اس سے کہو، ہوا سو ہوا
مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
لہو کے داغ تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا" ٭

ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشّاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے، ہمارا کیا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں سبھی کلفتیں
کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں کبھی قربتیں

یہ سخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سب ورق تری یاد کے
کوئی لمحہ صبحِ وصال کا کئی شامِ ہجر کی مدتیں

جو تمہاری مان لیں ناصحا، تو رہے گا دامنِ دل میں کیا
نہ کسی عدو کی عداوتیں، نہ کسی صنم کی مروّتیں

چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم، جو بچا ہے مقتلِ شہر میں
یہ مزار اہلِ صفا کے ہیں، یہ ہیں اہلِ صدق کی تربتیں

مری جان، آج کا غم نہ کر، کہ نہ جانے کاتبِ وقت نے
کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں

بیروت، 79 ؁
 
Top