سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اِن پر عطائے رحمتِ باری ہے بے شمار
اِن کی نظر کے ساتھ زمانے کی تھی بہار
اِن کی سخاوتوں کا بیاں کیا ہو بار بار
بخشے تھے اِن کو مرتبے اللہ نے ہزار
وجہِ فروغِ ذات ہیں وہ کام دے دیے
قدرت نے دستِ خاص سے انعام دے دیے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قرآن جس نے لکھا قلم وہ انھیں ملا
جس پر نبی کو فخر، حشم وہ انھیں ملا
اب تک ہے جزو اسم، کرم وہ انھیں ملا
کوئی نہ لے سکا جو علم وہ انھیں ملا
دُنیا جھکی تھی عظمتِ کردار دیکھ کر
جبریل پَر بجاتے تھے تلوار دیکھ کر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اِن کی نظر مزاجِ رسالت سے آشنا
اِن کا مزاج خلق و مروت سے آشنا
اِن کا جلال رمزِ شجاعت سے آشنا
اِن کی زبان، نہجِ بلاغت سے آشنا
وہ روشنی علمِ درونی نہ آ سکی
دُنیا میں پھر صدائے سلونی نہ آ سکی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نور نبی سے ذات علی ہے قریب تر
وہ شہر علم ہیں تو یہ اس شہر کے ہیں در
تفریق و و فصل کا نہیں ان پر کوئی اثر
اک نور حق فروغ ادھر ہے وہی ادھر
جس میں ضیائے حق ہے وہ عالی گُہر علی
احمد نہال نور خدا ہیں، ثمر علی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سرسبز ان کے خون سے اسلام کا چمن
روشن ہے ان سے علم و طریقت کی انجمن
سمٹے فضا، جبیں پہ یہ ڈالیں اگر شکن
ان کا حصار، شمع امامت کی ہے لگن
اسلام کو پناہ ملی اس حصار میں
بیت الشرف ہے ان کا مکاں روزگار میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ان کے مکاں میں سیدہ دو جہاں کا نور
ان کی نظر میں خالق کون و مکاں کا نور
ان کی زمیں پہ روشنی کہکشاں کا نور
ان کی جبیں پہ نقش عبادت فشاں کا نور
یہ سب اُجالے حسن کی تنویر بن گئے
آنکھوں کا نور شبر و شبیر بن گئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شبر دیار امن میں اک لعل شب چراغ
آیا نہ ان کے دامن عظمت پہ کوئی داغ
قلب رسول، دید سے تھا ان کی باغ باغ
خوش خو، خوش اعتماد، خوش اخلاق، خوش دماغ
ملتا ہے ان کی ذات میں ہر انجمن کا نور
پھیلا ہوا ہے آج بھی خلق حسن کا نور
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شبیر، جلوہ گاہِ شہادت کی آبرو
شبیر، حُسن روئے امامت کی آبرو
شبیر، کار گاہِ حقیقت کی آبرو
شبیر، اپنے جد کی رسالت کی آبرو
ظاہر میں پرورش ہوئی شیرِ بتول سے
اُن کو غذا ملی تھی زبانِ رسول سے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شبیر، نُورِ دیدہ سرکار دوجہاں
شبیر، اوجِ زیست پر اک مہر ضوفشاں
شبیر، صبر و شکر کے سالارِ کارواں
شبیر، ورثہ دار نبی، سید الزماں
آقائے کعبہ، صاحب طیبہ حُسین ہیں
مظلومیت کے حُسن کا جلوہ حُسین ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بے وجہ ہو جو قتل وہ بسمل نہیں حُسین
سب کی رسائی میں ہوں وہ منزل نہیں حُسین
تابندگئ دین سے غافل نہیں حُسین
بُجھ کر بھی شمع کُشتہ محفل نہیں حُسین
روشن نہ ان کے نام سے کیوں شمع غم رہے
طوفانِ خون و خاک میں ثابت قدم رہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ان کے ثباتِ پا کا ہے شاید وہ ریگزار
جس میں نہیں تھا نام طراوت کا زینہار
پُر نور جس میں تابِ سیادت سے تھا غبار
یعنی زمینِ کرب و بلا، عرشِ افتخار
دفن آفتاب جس میں ہوئے یہ وہ خاک ہے
روشن لہو پیا ہے تو کیا تابناک ہے
 
آخری تدوین:
Top