سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شکر صد شکر کہ پورا ہوا ارشادِ رسول
جان دینا ہمیں اِس وقت ہے سو جاں سے قبول
فخر فرمائیں گے اِس دن پہ علی اور بتول
یہ تو خوش ہونے کا ہے وقت نہ ہو دل میں ملول
اپنے بچو! یہ خدا تم کو سلامت رکھے
ہم ہوں قربان مگر دین کی عزت رکھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گفتگو ہوتی تھی یہ بھائی بہن کے مابین
شور لشکر میں اٹھا، سامنے اب آئیں حسین
قتل کر لیں جو انہیں ہم تو ملے قلب کو چین
چھپ کے بیٹھے ہیں کہاں سبطِ رسول الثقلین
یا تو بیعت کریں یا جنگ علاج اور نہیں
صرف باتوں میں گزر جائے یہ وہ دور نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سُن کے یہ شور، کہا شہ نے، کہاں ہیں عباس؟
مڑ کے دیکھا تو وہ دروازے پہ تھے بے وسواس
ہاتھ ایک سینے پہ، اِک قبضہ شمشیر کے پاس
کہا، کیا حکم؟، کہا، لائیے نانا کا لباس
کسی تاخیر کی ہم کو کوئی حاجت ہی نہیں
حیدری تیغ کو صیقل کی ضرورت ہی نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عَلم جعفرطیّار کا کھل جائے نشاں
رزم گہہ میں ابھی ہوتا ہے قیامت کا سماں
زورِ شبّیر سے واقف نہیں یہ دشمنِ جاں
سب کماندار ابھی گوشوں میں ہوتے ہیں نہاں
ہیں جو بد اصل تو اب ان سے کوئی میل نہیں
دیکھ لیں جنگ پیاسے سے کوئی کھیل نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سُن کے ارشادِ امامت کو یہ بولے عباس
سُن کے آیا ہوں ابھی اہلِ ستم کی بکواس
عرض خود لے کے یہ آیا تھا میں سرکار کے پاس
اِذن ہو رَن کا مجھے اَب تو شہِ عرش اساس
نام میدان سے فوجوں کا مٹا آؤں گا
تنِ تنہا انہیں تا شام بھگا آؤں گا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شہ نے فرمایا کہ عباس! یہ کیسا ہے کلام
ٹھیک ہی سوچا تھا بابا نے تمہارے لیے نام
تم سے لاریب گریزاں ہوں ہِزبز و ضرغام
تمہیں کرنے ہیں مرے بعد بھی لیکن کچھ کام
تم مجھے چھوڑ کے جانے کا ابھی نام نہ لو
جلد بازی سے جوانی میں ذرا کام نہ لو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کس طرح بعد مرے ہو گا یتیموں کا نباہ
ایک لے دے کے تمہیں پر تو ٹھہرتی ہے نگاہ
یوں تو ہم آلِ نبی پہ ہے بڑا فضلِ الاہ
ابنِ حیدر سَا مگر چاہیے اک پُشت پناہ
یوں تو ہر حال میں ہے فضلِ اِلٰہی درکار
ہے خزانے کی حفاظت کو سپاہی درکار
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یوں لٹا پھر یہ خزانہ کہ اُڑی دشت میں خاک
ہوئے زینب کے پسر نرغہ اعداء میں ہلاک
پہلے تو اہلِ شقاوت میں بندھی دونوں کی دھاک
پھر بھی دو بچے کہاں اور کہاں لاکھوں سفّاک
زخم کھا کھا کے پیاسوں نے شہادت پائی
جس کی دل میں تھی تمنا وہی دولت پائی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اِن میں وہ قاسمِ نوشہ نے دکھائے جوہر
شش جہت رہ گئے اندازِ وغا سے ششدر
تہ و بالا ہوا اربابِ ستم کا لشکر
بحرِ ظلمات میں تھا غرق حَسن کا دلبر
جوڑا شادی کا کٹا، سہرے کی لڑیاں ٹوٹیں
تیغوں سے سلسلہ جسم کی کڑیاں ٹوٹیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گئے میدان میں ہم شکلِ رسولِ دو سرا
کر دیا حشر سر عرصہ مقتل برپا
پشت سے نیزہ لیے پھر بنِ کاہل آیا
ہائے کیسے جگرِ اکبرِ گلفام چھدا
شور میں رُکتی ہوئی یُوں سرِ منزل پہنچی
باپ تک بیٹے کی فریاد بہ مشکل پہنچی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جب سنی باپ نے فریاد پسر کی آواز
آئے مقتل میں جگر تھام کے سُلطانِ حجاز
باپ تھے کیسے بھر آتا نہ بھلا قلبِ گداز
جھک گیا بار گہِ رب میں سرِ عجز و نیاز
لاشہ اکبرِ گلرو کو اٹھا لائے حسین
آہ، یہ عمر، یہ افتاد، یہ غم، ہائے حسین
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پانی لینے جو گئے نہر پہ عباسِ جَری
آ گئے گھاٹ پہ، فوجوں سے لڑے مشک بَھری
اور کچھ پیاس بڑھی دیکھ کے ساحل کی تَری
کر دیا آبِ رواں فرطِ وفا سے نظری
گِھر گئے آ کے ترائی میں تو مجبور ہوئے
کٹ گئے ہاتھ، چِھدی مشک تو معذور ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گِر گیا آہ علم خاک پہ، دل خُون ہوا
گرز، سر پہ جو لگا، گھوڑے پہ سنبھلا نہ گیا
شیر نے نعرہ لگایا کہ ہوا فرض ادا
رنج اتنا ہے کہ پانی نہ حَرم تک پہنچا
غم یہ ہے سبطِ شہنشاہِ امم پیاسے ہیں
میں تو کوثر کو چلا اور حَرم پیاسے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
غمِ عباس میں شبیر ہوئے یوں بے حال
آنکھیں خوں بار ہوئیں رنج سے اور رُوح نڈھال
لاشہ و مشک و علم خیمے تک آنا تھا محال
پھر بھی ملتی نہیں شبیر کی ہمت کی مثال
بھائی کے آخری دیدار کو ہو آئے حسین
علم و مشکِ سکینہ کو اٹھالائے حسین
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہو گئے اصغرِ معصوم بھی پیکاں کے ہدف
گئی حضرت کی نظر عرشِ الٰہی کی طرف
دیکھا موجود فرشتے ہیں اِدھر صف در صف
چاہتے ہیں کہ کہیں کچھ پسرِ شاہِ نجف
ان فرشتوں کو جو شبیر اشارا کرتے
عین ممکن تھا کہ دنیا ، تہ و بالا کرتے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جب نہ باقی رہا کوئی کہ وہ میدان میں جائے
سَر جھکائے ہوئے شہ، عابدِ بیمار تک آئے
لبِ معصوم سے اسرارِ امامت سمجھائے
پیچ و خَم ، راہِ الٰہی میں ہیں جتنے وہ بتائے
کام اب گھر کا نہ تھا کچھ شہِ مظلوم کے پاس
آئے رخصت کے لیے زینبِ مغموم کے پاس
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیسے رخصت ہوئے زینب سے ، یہ لکھنا ہے محال
نہ زباں کو ہے یہ طاقت ، نہ قلم کو ہے مجال
غمِ بے وارثی سے قلب ، بہن کا پامال
بھائی کے سامنے ایمان کی عظمت کا سوال
بنتِ حیدر کی نگاہوں میں تھی ویراں دنیا
ابنِ حیدر کے لیے جنگ کا میداں دنیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
درِ خیمہ پہ تھا موجود جو ،رہوارِ قدیم
ساتھ زینب بھی وہاں تک رہیں با قلبِ دو نیم
آ گئے پشتِ فرس پر جو شہِ عرش مقیم
آخری بار کہا جھک کےبہن نے تسلیم
چھوڑ کر اہلِ حرم جنگ کو جاتے ہیں حسین
شور، اعداء میں بپا ہو گیا، آتے ہیں حسین
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
غل اٹھا ہے کہ جری ابن جَری آتا ہے
چاند یثرب کا پئےجَلوہ گری آتا ہے
کیسا رہوار اڑا شکلِ پری آتا ہے
دشت میں مثلِ نسیمِ سحری آتا ہے
دیکھیے کس کے قدم جمتے ہیں رو میں اس کی
غالباً موت کا دریا ہے جلو میں اس کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میمنہ ہو گیا پامال ہوا سے اس کی
میسرہ ہو گیا بَد حال ہوا سے اس کی
قلب میں آ گیا بھونچال ہوا سے اس کی
ظلم کے ٹوٹ گئے جال ہوا سے اس کی
گرد ہر گام پہ اڑتی ہے بیابانوں کی
ایسی رفتار نہ آندھی کی ، نہ طوفانوں کی
 
Top