سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مسجدِ کوفہ میں منبر کا اُجالا ان سے
بول اسلام کا تھا دہر میں بالا، ان سے
تھے سخی، پاتا تھا ہر مانگنے والا، ان سے
کام جب لے چکا اللہ تعالیٰ ان سے
تیغ قاتل کی لگی تھی سرِ اطہر کے قریب
ہوئے سجادے پہ مضروب یہ منبر کے قریب
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہائے کیا وقت تھا، مسجد میں بپا تھا کہرام
سَربسر خون میں ڈوبا تھا زمانے کا امام
غش تھے حسنین، نمازی تھے پریشان تمام
واہ رے صبر کہ مولا نے لیا حِلم سے کام
اپنے قاتل کو بھی شربت کا عطا جام کیا
واہ اے صبر امامت کہ بڑا کام کیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کی یہ شبر کو وصیت کہ رہے اتنا خیال
دل شبیر کو پہنچے نہ کسی وقت ملال
صلح کی راہ ہو یا معرکہ جنگ و جدال
آنے پائے نہ کہیں دین کی عظمت پہ زوال
جب مصیبت پڑے مذہب پہ بچانا دونوں
خوفِ باطل کبھی خاطر میں نہ لانا دونوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آنے والا ہے بُرا وقت ذرا دھیان رہے
کام جو حشر میں آئے وہی سامان رہے
صرف خوشنودئ حق، زیست کا عنوان رہے
جان جاتی ہو تو جائے مگر ایمان رہے
زندگی راہِ رَضا میں جو فنا ہو جائے
زہر مل جائے تو وہ آب بقا ہو جائے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پھر کہا دوسرے فرزند سے سنئے شبیر
تھا یہی حکمِ خدا مصلحتِ رب قدیر
کی ہے شبر سے جو، آپ نے سُن لی تقریر
میں نہ ہوں جب تو رہے اتنا خیالِ ہمشیر
کسی تکلیف میں غمِ دیدہ نہ ہونے پائے
میری بیٹی کبھی رنجیدہ نہ ہونے پائے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تم سے وابستہ ہے اسلام کی عظمت کا سوال
رہے ہر حال میں قرآن و شریعت کا خیال
ہونے نہ دینا کبھی دین خدا کو پامال
تم کو معلوم ہے جو کچھ ہے حرام اور حلال
جبرِ باطل سے ذرا خوف نہ کھانا ہرگز
پیشِ باطل کبھی گردن نہ جھکانا ہرگز
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وقت پڑنا ہے جو تم پر وہ ہمیں ہے معلوم
ظلم کر دے گا مرے لعل حسن کو مسموم
دشت میں خنجرِ قاتل ہے تمہارا مقسوم
کوئی دنیا میں نہ ہو گا کبھی تم سا مظلوم
کچھ تمہارے لیے سامان کیے جاتے ہیں
جاتے جاتے تمہیں عباس دیئے جاتے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ ہمارا ہے پسر اور تمہارا بھائی
کوئی ایسا نہیں پاؤ گے کہیں شیدائی
اس نے جینے کی زمانے میں جو مُہلت پائی
اس کی انگڑائی بھی ہو شیر کی سی انگڑائی
خون ہے جسم میں اور خوف ذرا پاس نہیں
پسرِ شیرِ خدا نام کا عباس نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس طرف بند ہوئیں شیرِ خدا کی آنکھیں
ہوگئیں ظلم کے ایوان میں روشن شمعیں
دین اک کھیل بنا چلنے لگیں وہ چالیں
لبِ گفتار کو یارا نہیں اب کیسے کہیں
رہی تا دیر نہ قائم یہ نشاطِ باطل
صلح شبر نے الٹ دی تھی بساطِ باطل
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عزم شبر کی تائید ہوئی صلحِ حسن
بدکلاموں کے ہوئے بند مساجد میں دہن
کُھل کے پھیلا نہ زمانے میں مصائب کا چلن
دلِ اسلام میں باقی رہی کچھ کچھ دھڑکن
کچھ نہ کچھ کشمکش فاتح و مفتوح تو تھی
تنِ مذہب میں توانائی نہ تھی رُوح تو تھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
رُوح جس جسم میں موجود ہو مرتا تو نہیں
زیست کا رہتا ہے کچھ چارہ گروں کو بھی یقیں
کچھ دوا دے کے بھی ہو جاتی دل کو تسکیں
ترکِ دَرماں بھی کیا کرتے ہیں ایسے میں کہیں
رُخ مرض کا اگر اُمید شفا دیتا ہے
چارہ گر ایسے میں خود جاں لڑا دیتا ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زہر جو خون میں مذہب کے ہوا تھا شامل
بے علاج اُس کا نکلنا تھا نہایت مشکل
چارہ سازی پہ تھا آمادہ حسن سا کامل
اپنی جانب سے نہ تھا دشمن جاں بھی غافل
دشمنی کا یہ عجب رنگ نکالا آخر
چارہ گر ہی کو دیا زہر کا پیالا آخر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آہ مسموم ہوئے شبر معصوم آخر
پورا ہو کر ہی رہا زیست کا مقسوم آخر
جبر کے دور کی پھر ہونے لگی دھوم آخر
اب جو ہونا ہے وہ سب کو ہوا معلوم آخر
فسق کے جام چلے، جور کے پیمانے چلے
مسجدوں میں جنہیں جانا تھا وہ میخانے چلے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میکشی کے لئے مخصوص ہوا وقتِ نماز
سیر و تفریح و شکار اور شراب و تگ و تاز
بدلے جمہور، حکومت کا جو بدلا انداز
دب گئی شور میں مطرب کے اذاں کی آواز
ذوقِ عصیاں کے جو ساماں بہم رکھے تھے
تخت پر بیٹھ کے قرآں پہ قدم رکھے تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہی قرآن جسے لائے تھے جبریل امیں
وہی قرآن کہ مثل اُس کا زمانے میں نہیں
اسی قرآن کے احکام پہ ہنستے تھے لعیں
وہی قرآن جو ہے مصحفِ آیاتِ مبیں
کہتے تھے وحی و فرشتہ ہیں خیالی باتیں
بنی ہاشم کی بھی ہیں سب سے نرالی باتیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صرف قوت ہے جو انسان کو دیتی ہے نجات
قوت و زر کے سوا اور ہیں بے سود صفات
عیش کرنے کے لیے پائی ہے انساں نے حیات
کیا ضروری ہے عبادت میں بسر ہوں اوقات
حق زمانے میں ضعیفوں کو نہیں جینے کا
زور جس میں نہیں وہ زنگ ہے آئینے کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہو جہاں اہل حکومت کا یہ اندازِ نظر
اُن فضاؤں میں پنپ سکتا ہے ایماں کیونکر
دلِ اسلام میں پیوست ہوا خنجر زر
جھک گئے جبر کی قوت پہ مسلمانوں کے سر
دین جب قوتِ باطل سے ہم آغوش ہوا
اُسوہ احمدِ مختار فراموش ہوا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ایسے عالم میں نہ اٹھتے جو حسین ابن علی
مٹ گیا ہوتا زمانے سے وہیں دینِ نبی
نام لیوا کوئی اسلام کا ملتا نہ کبھی
وارثِ دیں تھے مگر سبطِ رسولِ عربی
اٹھے اسلام کی فریاد کو سُن کر شبیر
بن گئے چارہ گرِ دینِ پیمبر شبیر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آئے میدان میں انوارِ سیادت لے کر
آئے فرمانِ خدا حکمِ رسالت لے کر
صبر ایوب کا، حیدر کی شجاعت لے کر
دلِ حق کوش میں ارمانِ شہادت لے کر
نرغہ جہل میں عرفاں کے خزانے لائے
اپنے ہمراہ تمام اپنے یگانے لائے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ساتھ عباس کے سب ان کے برادر آئے
نور ِایماں لیے ہم شکلِ پیمبر آئے
قاسم آنکھوں میں لیے سطوتِ شبر آئے
مُسکراتے ہوئے گہوارے میں اصغر آئے
بنتِ حیدر کے جو تھے لخت جگر ساتھ آئے
زینب آئیں تھیں تو زینب کے پسر ساتھ آئے
 
Top