سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سر بسر ہیچمداں ہوں تو زباں کیا کھولوں
فوج الفاظ ہے باغی تو نشاں کیا کھولوں
فکر سے مہر بلب ہوں تو دہاں کیا کھولوں
مال ہی پاس نہیں ہے تو دکاں کیا کھولوں
مدح کرنے کا طریقہ نہیں آتا مجھ کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں آتا مجھ کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
علم سے دور ہوں میں فن سے خبردار نہیں
جادہ فکر میں سو پیچ ہیں ، ہموار نہیں
تاب تحریر نہیں ، طاقت گفتار نہیں
اوجِ منبر کا بہ ایں جہل سزاوار نہیں
حکمِ اصحاب کی تعمیل میں لب کھولے ہیں
عیب سب اپنے سرِ بزم ادب کھولے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میں کہ مداحئ شبیر عبادت میری
آلِ اطہار سے ثابت ہے محبت میری
کھینچ لائی مجھے مجلس میں مودت میری
اوجِ منبر جو ملا ہے تو یہ قسمت میری
کیوں نہ اس خوبئ تقدیر پہ نازاں ہوں میں
آج منبر پہ سرِ تختِ سلیماں ہوں میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہی منبر تھا جہاں سے ہوئی جاری توحید
اسی منبر سے ہوا کرتی ہے حق کی تائید
اسی منبر سے ہوئی عدل کی سب کو تاکید
اسی منبر کی زمانے کو ضرورت ہے مزید
یہیں خطباتِ پیمبر سے فضا گونجی تھی
اسی منبر سے سلونی کی صَدا گونجی تھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اسی منبر سے اُٹھائی گئی آوازِ جہاد
اسی منبر سے دبا کفر و معاصی کا فساد
یہی منبر تو ہے ایوانِ عمل کی بنیاد
اس کو تاحشر رکھے رحمتِ باری آباد
یہیں ایثار و عزیمت کا بیاں ہوتا ہے
چشمہ فیض اسی منبر سے رَواں ہوتا ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس کی تشکیل جو تھی روزِ ازل سے مقصود
متعین سرِ افلاک ہوئے اِس کے حدود
اِس کی تکمیل ہوئی ایسے بہ حکمِ معبود
اس کی رفعت پہ فرشتوں نے بھی بھیجا ہے درود
رحمتِ حق کی بچھائی گئی مسند اِس پر
تھا سرِ عرشِ بریں نورِ محمد اس پر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اسی منبر سے اٹھا طینت آدم کا خمیر
یہی منبر تو ہے دیباچہ کُن کی تفسیر
اسی منبر کے لیے ہو گئی دنیا تعمیر
یہی منبر تو ہے عرفان گہ ربِ قدیر
دائرے ہو گئے قائم اسی محور کے لیے
یہ جہاں خلق ہوا تھا اسی منبر کے لیے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
"میم" ہے آئینہ نورِ محمد اس میں
"نون" ہے نسبتِ توحید کی اِک حد اِس میں
"با "ہے بنیادِ عبادت کی مؤید اِس میں
"را" ہے تاکیدِ ریاضت کی بھی مفرد اِس میں
اِس میں جو حرف ہے انوار کا گنجینہ ہے
قدرتِ خالقِ کونین کا آئینہ ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اِسی منبر سے اُبھرتے تھے رسولانِ کرام
اِسی منبر سے سُنایا گیا اللہ کا نام
اِسی منبر کو کیا آ کے فرشتوں نے سلام
اِسی منبر پہ رسول اور اِسی منبر پہ امام
بحرِ ہستی میں معارف کا سفینہ ہے یہ
اس کو منبر نہ کہو عرش کا زینہ ہے یہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیوں نہ ہو، صاحبِ لولاک کے چومے ہیں قدم
جَلوہ فرما اِسی منبر پہ تھے سُلطانِ اُمم
فخرِ داؤد و سلیمان و مسیح و آدم
نورِ کونین، سراجِ عرب و عرش ِحشم
اس کے رُتبے کو بڑھایا، یہ شرف کیا کم ہے
ان کے قدموں نے نوازا ، یہ شرف کیا کم ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مختلف شکلوں میں مل جاتی ہے اس کی تصویر
کہیں مسجد میں اک انداز سے اس کی تعمیر
کہیں میدانِ وغا میں سرِ مرکب تکیبر
کہیں ناقے کا کجاوہ ہے سرِ خُمِ غدیر
جب کبھی جانبِ کعبہ سے ہوا آتی ہے
آج تک خطبہ آخر کی صَدا آتی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صاف سنتے ہیں یہ ارشادِ رسولِ دو سَرا
جس کا مولا ہوں میں، اُس کے ہیں علی بھی مولا
آج سے کوئی کسی شخص کا دشمن نہ رہا
آل و قرآں ہیں مرے بعد وسیلہ سب کا
یوں بھلا مقصدِ ایمان کو کیا سمجھو گے؟
آل کو چھوڑ کے قرآن کو کیا سمجھو گے؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وارثِ قصرِ رسالت ہیں جنابِ حیدر
صاحبِ تاجِ ولایت ہیں جنابِ حیدر
بانئ بزمِ امامت ہیں جنابِ حیدر
شاملِ نورِ نبوت ہیں جنابِ حیدر
ہر مسلمان کے ہیں مالک و آقا حیدر
جس کے مولا ہیں نبی ، اس کے ہیں مولا حیدر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ وہ ہیں بدر میں چمکی تھی انہیں کی تلوار
یہ وہ ہیں مرحب و عنتر بھی ہوئے جن کے شکار
یہ وہ ہیں روزِ اُحد کاٹی تھی دشمن کی قطار
یہ وہی ہیں کہ کیا قلعہ خیبر مسمار
جو کسی نے نہیں پایا ، وہ حشم پایا تھا
دستِ سرکارِ رسالت سے عَلم پایا تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کی تھی تفویض رسَالت نے امانت ان کو
دی گئی محفلِ ایماں کی صدارت ان کو
پا کے شائستہ آدابِ امامت ان کو
اپنا بستر بھی دیا تھا شبِ ہجرت ان کو
جان پر کھیل گئے حفظِ رسَالت کے لیے
اور کیا چاہیے تکمیل فضیلت کے لیے؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ان کا گھر ماہِ رسَالت کی ضیا سے روشن
حضرت فاطمہ زہرا کی ریاضت کا چَمن
ان کے گلہائے حسیں ،زینب و شبیر و حسَن
باغِ فردوس کے پھولوں سے بھرا تھا دامن
رُوح انوار الٰہی سے ضیا پائے ہوئے
قلب تعلیمِ محمد سے جِلا پائے ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ سمجھتے تھے کہ مقصود مشیت کیا ہے
ان کو معلوم تھا سب فرضِ محبت کیا ہے
تھا انہیں علم، خدا کیا ہے ،رسَالت کیا ہے
جانتے تھے کہ زمانے کی حقیقت کیا ہے
تھی خبر، شیفتہ دینِ مبیں کتنے ہیں
خوب پہچانتے تھے، دُشمنِ دیں کتنے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تجربے ذہنیتوں کے بھی ہوئے بعدِ رسول
صبر کرتے رہے، ہونے نہ دیا دل کو ملول
گھر تھا ویران جو رخصت ہوئیں دنیا سے بتول
خدمتِ دینِ محمد میں رہے یہ مشغول
کبھی کوفے کے خطاکاروں کو ٹوکا جا کر
کبھی صفین میں طوفان کو روکا جا کر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
حفظِ قرآن میں دن رات بسَر ہوتے تھے
مسئلے دین کے حل ،آٹھ پہر ہوتے تھے
معرکے عشقِ الٰہی کے بھی سَر ہوتے تھے
جو کڑی پڑتی تھی یہ سینہ سپر ہوتے تھے
ہو اگر جنگ کا میدان تو غازی تھے علی
جن سے قائم ہے نماز، ایسے نمازی تھے علی
 
Top