ٹائپنگ مکمل مرثیہ: روشنی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اک شمع ضیا بار ہے یا آج قلم ہے
قرطاس، تہ دامنِ قندیلِ حرم ہے
اب جتنا اُجالا ہو سر بزم وہ کم ہے
تفسیرِ تجلی مرا انداز رقم ہے
نور احدیت کا بیاں ہے سرِ مجلس
جو لفظ ہے انوارِ فشاں، رہے سرِ مجلس

ہر گوشہ تاریک ضیا بار ہوا ہے
جو نقطہ ہے وہ مطلع انوار ہوا ہے
ہر دائرہ مہتاب شب تار ہوا ہے
الفاظ سے خورشید نمودار ہوا ہے
جو لفظ ہے وہ شعلہ بداماں ہے روش میں
کرنوں کے سے انداز ہیں حرفوں کی کشش میں

ہر شعر میں بجلی سی چمک جاتی ہے اکثر
انوار کی اک قوس جھلک جاتی ہے اکثر
ہیرے کی طرح بیت دمک جاتی ہے اکثر
پڑھتے ہوئے خود آنکھ چمک جاتی ہے اکثر
جھٹکا جو قلم کو تو شرارے نکل آئے
کاغذ کو جو دیکھا تو ستارے نکل آئے

دن ڈھلنے لگے جب تو فضا اور ہو پُرنُور
افکار کی منزل بھی چراغوں سے ہو معمور
تاریکی شب ، صبحِ معانی سے رہے دُور
تابانی اشعار سے ظلمات ہو کافور
روشن ہو ابھی عالم اسباب کی صورت
ہر شب نظر آئے شبِ مہتاب کی صورت

کیا چیز ہے یہ روشنی، کیا اس کے ہیں حالات
بے وزن ہے ،بے جسم ہے، بے جان ہے بالذات
یہ آئے تو دن آئے، چلی جائے تو ہو رات
ہے تیرہ دلوں کے لئے یہ قبلہ حاجات
جو راہ سے بھٹکے اُسے یہ راہ دکھا دے
ہو دن میں اندھیرا تو شب ماہ بنا دے

یہ روشنی رکھتی ہے زمانے میں کئی رنگ
رہتی ہے اندھیروں سے یہ آمادہ پئے جنگ
محتاج اسی کے ہیں یہاں افسر و اَورنگ
دامانِ نظر اس کے احاطے کے لئے تنگ
پردے بھی پڑیں اس پہ تو پنہاں نہیں رہتی
بن کر یہ چراغِ تہ داماں نہیں رہتی

یہ روشنی اس دہر میں ہے صبح ازل سے
مٹتی ہے قضا سے نہ کبھی دستِ اجل سے
ہوتی ہے نمایاں کبھی پانی میں کنول سے
اشعار میں ڈھل جاتی ہے شاعر کی غزل سے
مطرب کے ترنم میں، مصّور کے قلم میں
نغمات میں شادی کے یہ ہنگامہ غم میں

ہر سمت زمانے میں اسی سے ہے اُجالا
کر دیتی ہے ظلمات کا عالم تہ و بالا
سب اس کے ہیں انداز وہ نرگس ہو کہ لالہ
ہر پُھول میں ہر برگ میں اک رنگ نکالا
پھیلے تو یہ ہو چادرِ کمخواب کی صورت
سمٹے تو بنے کرمکِ شب تاب کی صورت

پردے یہ نگاہوں سے ہٹا دیتی ہے آکر
خلوت میں بھی جلوت سی بنا دیتی ہے آ کر
سوتی ہوئی دنیا کو جگا دیتی ہے آ کر
بند آنکھوں کو بھی سیر کرا دیتی ہے آ کر
تنہائی میں بھی محفل احباب دکھا دے
سو جائیں اندھیرے میں تو یہ خواب دکھا دے

یہ روشنی ہے ذاتِ الٰہی کا اُجالا
یہ نُور ہے ترتیب جہاں بخشنے والا
یہ روزِ ازل سے تھی سرِ عالمِ بالا
اس نُور نے اس منزلِ کونین کو ڈھالا
آنکھیں ہیں تو دیکھو سرِ افلاک یہی ہے
کچھ غور سے جانچو تو تہِ خاک یہی ہے

شاہد ہیں اسی نُور کے ذرّے ہوں کہ تارے
اجرامِ سماوی میں اِسی کے ہیں اشارے
اِس نُور نے کونین میں سب رنگ نکھارے
ہیں اِس کے مظاہر وہ ہوں شعلے کہ شرارے
یوں غُلغلہ برقِ سرِطور نہ ہوتا
کچھ بھی نہیں ہوتا جو یہ اِک نُور نہ ہوتا
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تھا صبح ازل میں بھی یہی نور نمایاں
اس نُور سے ہستی کا ہوا ہے سر و ساماں
صحراؤں میں اس نور کے جلوے ہیں درخشاں
اس نور سے صد رنگ ہوا دامنِ بُستاں
صحراؤں کے پُرخار ببولوں میں یہی ہے
گلزار کے ہنستے ہوئے پھولوں میں یہی ہے

کہتے ہیں کہ ہے مُہر مُبیں نور کا مخزن
آئینہ مہتاب اسی سے ہوا روشن
بھر دیتا ہے یہ عالم اسباب کا دامن
محتاج ہے سورج کا وہ صحرا ہو کہ گلشن
آئینہ ہستی کو جلا اس سے ملی ہے
دنیا کے چراغوں کو جلا اس سے ملی ہے

لیکن کبھی اربابِ نظر نے کیا یہ غور؟
کیوں ذہن میں یہ مسئلہ آتا نہیں فی الفور
ظاہر میں تو یہ نور کا مخزن ہے بہرطور
دراصل اُسے روشنی دیتا ہے کوئی اور
یہ مہر بھی اِک پردہ ہے گر غور سے دیکھو
خود روشنی پاتا ہے کہیں اور سے دیکھو

وہ کون ہے، کیا ہے، یہ سمجھ جاؤ تو اچھا
اس بھید کو تم دل سے اگر پاؤ تو اچھا
وسواس جو اس دل میں ہیں وہ ٹھکراؤ تو اچھا
دامانِ تفکر کو جو پھیلاؤ تو اچھا
ہے برق کا خالق وہی جو طور کا خالق
جو مہر کا خالق ہے وہی نور کا خالق

ہر بزم میں ملتی ہے اُسی نور کی رونق
یہ پاس کا جلوہ ہے کبھی دُور کی رونق
کعبے کی ضیا، اوجِ سرِ طور کی رونق
ہے شکل عرق، چہرہ مزدور کی رونق
چمکاتا ہے ہر چیز کو منعم کی نظر میں
کرتا ہے اُجالا یہی مزدور کے گھر میں

یہ نور جو ہے وحدتِ باری کا تجمل
کونین میں ہے اس کے مناظر کا تسلسل
زہرہ ہو کہ مریخ ہو، وہ جزو ہو یا کُل
سوزِ دلِ بُلبل ہو کہ تابِ زرِ گُل
رونق دہ کونین ادائیں ہیں اُسی کی
گلزارِ جہاں میں یہ ضیائیں ہیں اُسی کی

مسجودِ ملائک تھا ازل میں بھی یہی نور
اس نور کے افسانے ہیں کونین میں مشہور
منکر جو تھا سجدے سے تو ابلیس ہے مقہور
ملعونِ جہاں ہو گیا وہ ظالم و مغرور
پیشانی آدم میں اسی نور کی ضو تھی
اس خاک کے پتلے میں اسی نور کی لَو تھی

آدم سے چلا سلسلہ نور جہاں میں
ہوتا رہا ضو بار بہار اور خزاں میں
یہ عزمِ خلیلی میں تھا، موسٰی کی زباں میں
ظاہر ہوا اعجازِ مسیحائی زماں میں
ہر ایک پیمبر کا تھا پیغام یہی نور
ہر صبر و رضا کا ہوا انعام یہی نور
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
طے کرتا رہا نور یونہی اپنی منازل
چھٹتی رہی ہر راہ میں تاریکی باطل
خطّہ عربستان کا صدیوں سے تھا غافل
الحاد عقائد میں جو ہوتا رہا شامل
تاریکی نے یوں رنگ جمایا تھا نظر میں
بُت خانہ بنا بیٹھے تھے اللہ کے گھر میں

اللہ کا گھر ذوقِ عبادت کا خزینہ
یا خاتمِ انگشتِ شہادت کا نگینہ
بندوں کو جہاں آتا ہے سجدوں کا قرینہ
خود خاک کے اس فرش سے ہے عرش کا زینہ
گنجینہ ہے اسرارِ الٰہی کا یہی گھر
فانوس ہے انوارِ الٰہی کا یہی گھر

جاری ہوئی ایمان کی تعلیم یہیں سے
پھیلے تھے سب انوارِ براہیم یہیں سے
سب کو مئے عرفاں ہوئی تقسیم یہیں سے
آتی ہے نظر منزلِ تسلیم یہیں سے
ہر ایک دوائے دلِ رنجور یہیں ہے
تاریکی عالم کے لئے نور یہیں ہے

یہ ارضِ مقدس، حرم خالقِ اکبر
ذرّے بھی یہاں کے ہیں مثالِ مہ و اختر
کنکر جو یہاں کا ہے وہ ہیرے کے برابر
ہے ربِّ سماوات کا گھر اس کی زمیں پر
یہ مرکزِ انوار ہے اور نافِ زمیں ہے
جو نور یہاں ہے وہ کہیں اور نہیں ہے

اس ارضِ گرامی کو ہے کونین پہ اعزاز
گونجی تھی یہیں شوقِ براہیم کی آواز
قربانی فرزند کے منصب سے سرافراز
راضی بہ رخا ہو کے ہوئے صاحبِ اعجاز
فانوس کوئی شمع سے خالی نہیں ملتا
بے نور یقیں منصبِ عالی نہیں ملتا

تھا نسلِ براہیم میں یہ منصبِ عالی
اِس نور نے ہر تیرگی دہر اُجالی
انداز تھا اس شمع تمنّا کا مثالی
اس نور سے تھی چہرہ ایماں پہ سجالی
سوئی ہوئی دنیا میں یہ ضو جاگ رہی تھی
خوابیدہ تھے سب، شمع کی لو جاگ رہی تھی

صدیوں سے اسی خواب میں تھا سارا زمانہ
تاریکی میں بس نور کا باقی تھا فسانہ
مدفون تھا ایمان کا سینوں میں خزانہ
تھا شور میں الحاد کے وحدت کا ترانہ
پھر روشنی کا دور بہ شکلِ سحر آیا
خود آمنہ کی گود میں سورج اُتر آیا

ماتھے پہ چمکتا ہوا وہ داغِ یتیمی
وہ شرک کی ظلمت سے بری عالمِ طفلی
خوں ریز فضاؤں میں وہ اصلاح پسندی
وہ کوٹھری کاجل کی وہ بے داغ جوانی
ہونٹوں پہ لیے امن کا پیغام محمد
محمودِ خداوند مگر نام محمد

پیغمبرِ آخر کی یتیمی کے وہ ایّام
وہ محنتِ ہر روزہ وہ رنجِ سحر و شام
دن میں کہیں آرام نہ شب کو کہیں آرام
اللہ کا گھر بھی تھا تہ قبضہ اصنام
تاریکی سے خائف دلِ رنجور نہیں تھا
جُز قلبِ نبی اور کہیں نور نہیں تھا
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تھا آئینہ وحدت کا کہ سب زنگ اتاریں
ہمراہ ہوئیں اس کے، رواں نور کی دھاریں
صحرا وہ نہیں تھا کہ جہاں آتیں بہاریں
اپنی ہی صدا آئے جہاں جا کے پکاریں
بُت خانوں میں توحیدِ خداوند نہاں تھی
سینے تھے مگر روشنی قلب کہاں تھی

وہ فخرِ عرب، نازِ جہاں، زینتِ افلاک
وہ پاک سیر، پاک زباں تھا ہمہ تن پاک
اللہ نے بخشا تھا اسے جوہرِ ادراک
قندیلِ سرِ عرشِ معلّیٰ تھا سرِ خاک
یہ روشنی ظاہرہ خیرات ہے اس کی
تخلیقِ دو عالم کا سبب ذات ہے اُس کی

وہ سرورِ کونین بھی ، سردارِ جہاں بھی
وہ حاصلِ تخلیق بھی خلقت کا نشاں بھی
وہ عالمِ اسرار بھی خود سرِّ نہاں بھی
وہ امن کا عنوان امانت کی اماں بھی
وہ گلشنِ انوار کا مہکا ہوا گل تھا
بعثت سے بہت قبل ہی وہ مصلح کُل تھا

دامن میں لیے اپنے محبت کی ضیائیں
اخلاق کی ضو ریزی امانت کی ضیائیں
بے مائیگی میں جود و سخاوت کی ضیائیں
ظلمت کدہ کفر میں وحدت کی ضیائیں
والشمس اُسی کے رُخ زیبا کا قصیدہ
والفجر اُسی طلعتِ رعنا کا قصیدہ

الفاظ میں پوشیدہ فصاحت کے خزانے
خاموش نگاہوں میں بلاغت کے خزانے
انداز میں بے داغ شرافت کے خزانے
دامن میں لیے دولتِ وحدت کے خزانے
پانی جو اُسے چشمہ وحدت سے ملا تھا
صحرائے عرب میں گُلِ توحید کھلا تھا

نظارہ عالم میں کبھی وقت گزارا
گہ کسبِ معیشت کو تجارت کا سہارا
گرویدہ اخلاق زمانہ ہوا سارا
رکھتا تھا وہ ہنگامہ بے جا سے کنارا
اب بہر تفکر ہوئی فرصت کی ضرورت
تھی میرِ جہاں تاب کو خلوت کی ضرورت

تھا غارِ حرا س کے تفکر کا جو مامن
پاتا تھا سکوں جا کے اُسی میں دل روشن
آلائش دُنیا سے بری اُس کا تھا دامن
اس جوہر نوری کے لئے غار تھا معدن
وہ روشنی پہنچی نہیں اربابِ ہوس تک
خورشید رہا سامنے چالیس برس تک

دیکھا کیا اطوارِ جہاں دیکھنے والا
تھا قوم کا انداز ہی دنیا سے نرالا
کم زور ہر اِک پست، جو بالا تھا وہ بالا
ظلمت سے بہت دور تھا وحدت کا اُجالا
انسانوں کے قابو میں رہا کرتے تھے انسان
یا آگ میں دولت کی جلا کرتے تھے انسان
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہاتھوں سے تراشے ہوئے بُت بنتے تھے معبود
جو خاک کے تودے تھے وہی بن گئے مسجود
معذور تھے اذہان تو افکار تھے محدود
دوزخ کو بنائے ہوئے سب منزلِ مقصود
جو لعل گرانمایا تھا وہ سنگ و خذف تھا
ہر ایک کا رُخ صرف جہنم کی طرف تھا

آلودہ نہ تھے جہل میں اربابِ عرب ہی
ہر ملک میں تھا شہرہ اصنام پرستی
یونان میں اوہام تھے ایراں میں مجوسی
معبود کہیں تھے فقط اجرام سماوی
تھیں تیرگی جہل میں اقوام جہاں کی
حاجت تھی زمانے کو مہِ نورفشاں کی

تھے غارِ حرا میں ابھی مصروف محمد
پتھر کا جو تکیہ تھا تو تھی خاک کی مسند
سمجھاتے تھے دنیا کو کہ کیا نیک ہے کیا بد
تمجید کے اسرار میں تھا محو ابھی امجد
اللہ کی مخصوص امانت لئے آئے
جبریلِ امیں تاجِ رسالت لئے آئے

کی عرض کہ اے نسلِ براہیم کے والی
اللہ نے بخشا ہے تمہیں منصبِ عالی
اب نذر ہے فردوس کے پھولوں کی یہ ڈالی
تم آج سے ہو گلشن ایمان کے والی
اسلام کا یہ خلعتِ زیبا ہو مبارک
اُمّی تمہیں یہ تمغہ اقرا ہو مبارک

اب اور نبی کوئی نہ آئے گا جہاں میں
قرآن بھی اترے گا تمہاری ہی زباں میں
چاہو گے جسے تم وہی جائے گا جناں میں
توحید کی دولت ہے تمہاری ہی اماں میں
سر، شرک اٹھائے تو وہیں اُس کو کچل دو
تاریکی الحاد اُجالے سے بدل دو

وہ نورِ حرا سے جو چلا نورِ خُدا تھا
جب غار سے نکلا تو سرِ کوہِ صفا تھا
تاریکی عالم میں اجالا ہی نیا تھا
ظلمت کدہ کفر میں طوفان بپا تھا
پڑنے لگیں خورشید ِ نبوّت کی شعاعیں
دنیا کو نظر آگئیں وحدت کی شعاعیں

مکّے میں پیمبر نے گزارے جو مہ و سال
اربابِ نظر سے نہیں پوشیدہ وہ احوال
کیا کیا نہ سہے جور و ستم کیا نہ ہوا حال
کانٹے جو بچھے راہ میں وہ ہو گئے پامال
منظور حفاظت جو تھی نُورِ ازلی کی
فانوس خُدا نے دیا صورت میں علی کی
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فانوسِ چراغِ نبوی ذاتِ علی ہے
ایمان کا عنوان ِ جلی ذاتِ علی ہے
ہاں واقفِ اسرارِ خفی ذاتِ علی ہے
جو نازِ رسالت ہے وہی ذاتِ علی ہے
آغوش پیمبر میں پلا ہے وہ علی ہے
جو نُور کے پیکر میں ڈھلا ہے وہ علی ہے

ہر سلسلہ جذب و ولایت ہے علی سے
ہر مرحلہ دورِ طریقت ہے علی سے
تا حدِّ اَبد بزمِ سیادت ہے علی سے
سجادہ علی سے ہے ، امامت ہے علی سے
ہے مثلِ علی کوئی زمانے میں بشر بھی
تلوار بھی اسلام کی ایماں کی سپر بھی

اللہ کا گھر ان کی ولادت کے لیے تھا
تحفہ یہی آغوشِ رسالت کے لیے تھا
کعبہ انھی آنکھوں کی زیارت کے لیے تھا
گھر ان کا ہی قرآں کی حفاظت کے لیے تھا
ان کے لیے نزدیک تھا ہر دُور کا جلوہ
ہر ذرّے میں تھا برقِ سرِ طور کا جلوہ

تکمیل محمد پہ ہوئی نعمت دیں کی
توقیر بڑھی قبلہ ایمان و یقیں کی
افلاک سے اب لڑنے لگی آنکھ زمیں کی
ہر ذرّے پہ اِک چھوٹ پڑی نورِ مبیں کی
فردوس کے جو پُھول تھے سارے اُتر آئے
کیا خاک تھی گردوں کے ستارے اُتر آئے

آغوش میں زہرا کی پلے شبّر و شبیر
یوں سورہ کوثر کی نمایاں ہوئی تفسیر
ایوانِ رسالت کی بڑھی اور بھی تنویر
باطل کے جو دل میں تھی وہ ابتر ہوئی تدبیر
پُھولا پھلا ایسے چمن اولادِ نبی کا
دنیا سے اثر دور ہوا تیرہ شبی کا

ہر سمت ہوا وحدتِ باری کا اُجالا
پروانہ صفت ہو گیا ہر چاہنے والا
کعبے سے پیمبر نے بتوں کو جو نکالا
تھا دوشِ محمد پہ علی کا قد بالا
تاریکیاں سب رہ گئیں گوشوں میں سمٹ کر
پھر نورِ ازل آ گیا دنیا میں پلٹ کر
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس نورِ ازل سے جو اندھیروں کو تھا کینہ
وہ کینہ اترتا ہی رہا سینہ بہ سینہ
ڈھونڈا کیے سب اس کو مٹانے کا قرینہ
ہیرے کو بتانے لگا شیشے کا نگینہ
پیہم تھی لگن دشمنی آلِ نبی کی
اک آگ سُلگتی ہی رہی بو لہبی کی
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دشمن جو نبی کے تھے ، ہوئے آل کے دشمن
خصلت کے برے ، صحتِ اعمال کے دشمن
نکبت زدہ تھے عزت و اقبال کے دشمن
ماضی کے جو دشمن تھے ہوئے حال کے دشمن
تھیں نیّتیں تاریک جو اربابِ ستم کی
مقصد تھا کہ روشن نہ رہے شمع حرم کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تھے گلشنِ فردوس میں حیدر بھی نبی بھی
شبّر نے زہراب سے پھر پیاس بجھائی
باقی تھی مدینے میں جو اولاد نبی کی
تاریکی اذہان میں بس اُن کی خلش تھی
تھا قبرِ محمد کا چراغ آج بھی روشن
شبّیر سے ہوتے تھے دماغ آج بھی روشن
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ناگاہ سوئے شام سے اک ابر سا اٹھا
چھانے لگا انوارِ شریعت پہ اندھیرا
طوفانِ ستم چاروں طرف ہو گیا برپا
اک مرکزِ انوار تھا دم ابنِ علی کا
تھے جتنے سیہ قلب وہ آمادہ شر تھے
شبّیر تھے طوفان میں جو سینہ سپر تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شبّیر تھے قرآن و شریعت کے نگہباں
شبّیر سے تھی رونق و رنگینی ایماں
شبّیر کی نظروں میں تھا بے وقریہ طوفاں
شبّیر بچائے تھے چراغِ تہِ داماں
جتنی بھی ہوا تیز چلی جور و ستم کی
لَو اور بڑھاتے رہے یہ شمع حرم کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر جور گوارا کیا ، ہر ظلم سہارا
تھا آسرا ایمان کا قرآں کا سہارا
لیکن کیا نہ طاعتِ باطل کو گوارا
امداد کو پہنچے جہاں امت نے پکارا
گھر اور وطن چھوڑ دیا راہِ خُدا میں
یہ چاند مدینے سے گیا کرب و بلا میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ کرب و بلا، دشتِ ستم، عرصہ آفات
غربت کا وہ دن اور مصائب سے بھری رات
انصارِ گرامی کی محبّت کے کمالات
ہر ایک کی جاں عظمتِ شبّیر کی خیرات
وہ شام کی افواجِ سیہ کار کا عالم
وہ ابنِ یداللہ کے انوار کا عالم
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ اکبر و عباس کے انوارِ جلالت
وہ قاسمِ نوخیز، وہ شبّر کی امانت
مسلم کے وہ بھائی پئے امداد و اطاعت
ہر ایک کے سینے میں بھڑکتی ہوئی حدّت
باطل کے عدو، صدق و صداقت کے فدائی
زینب کے پسر شمع امامت کے فدائی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر ایک کا دل الفتِ شبّیر سے سرشار
ہر ایک کی نظروں میں جوانمردی کے آثار
ہر ایک کی خواہش کہ کھلے خلد کا گلزار
سو جان سے ہر ایک فدائے شہ ِ ابرار
آنچ آئے نہ سبطِ شہِ کونین کے دم پر
سر کاٹ کے خود ڈال دیں حضرت کے قدم پر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کوفے میں تھے مامور شقی اور ستمگار
حضرت کو مدینے سے بلایا تھا بہ اصرار
یثرب میں تو شبیر کے لاکھوں تھے مددگار
نرغے میں سیہ کاروں کے اب تھے شہ ابرار
اشرار کا رُخ کعبے کی جانب سے پھرا تھا
مہتاب سیادت کا بلاؤں میں گھرا تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آئی تھی نئے رُخ پہ شقاوت کی کہانی
اولادِ محمد کو نہ دانہ تھا ، نہ پانی
خواہش تھی کہ مٹ جائے پیمبر کی نشانی
حیرت سے رُکی جاتی تھی دریا کی روانی
افواجِ سیہ کیش کے آنے لگے بادل
کالے جو علم کُھل گئے چھانے لگے بادل
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُس سمت سے اصرار تھا بیعت طلبی کا
اِس سَمت تھا وہ عزم و یقیں سبطِ نبی کا
اُس سَمت اندھیرا ہی رہا تیرہ شبی کا
تھا نور اِدھر سبطِ رسولِ عربی کا
اُس سَمت بجھے جاتے تھے دل اہلِ جفا کے
اِس سمت بَہتّر تھے چراغ اہلِ وفا کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
طالع ہوئی میداں میں جو صبح شب عاشور
سامانِ جدل کرنے لگے ظالم و مغرور
ظُلمت کی تھی یلغار اُدھر اور اِدھر نور
آئینے میں منہ دیکھ رہی تھی شبِ دیجور
آندھی سی سیاہی کی اٹھی شام کے بن میں
خورشید امامت کا اب آیا تھا گہن میں
 
Top