سیدہ شگفتہ

لائبریرین
راہِ خدا میں کون تھا اِن کا سا جانفروش
سربر کف و رجز بہ زبان و کفن بدوش
ایک اک نفس میں خدمتِ دینِ نبی کا جوش
حق کوش حق پسند حق آگاہ حق نیوش
ہمت کو رزم گہہ میں نہیں ہارتے ہیں یہ
وقتِ جہاد موت کو للکارتے ہیں یہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُن کی نظر میں موت حیاتِ ابَد کا نام
اُن کی نگاہ واقفِ اسرارِ صبح و شام
تھا اُن کے مشوروں پہ ہی اسلام کا نظام
ذات اُن کی تھی حبیبِ رسولِ فلک مقام
شانِ خلوص و رنگِ ریا جانتے تھے یہ
کھوٹے کھرے کے فرق کو پہچانتے تھے یہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دُنیا بدل گئی تھی جو بعد رسُولِ پاک
گلزارِ دیں میں چاروں طرف اُڑ رہی تھی خاک
حیدر کو تھا حفاظت قرآں میں انہماک
اظہارِ حق میں کوئی تکلف نہ کوئی باک
کوئی خلافِ شرع اگر لَب کُشا ہوا
نعرہ بلند حق کا کیا گونجتا ہوا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جاری منافقوں سے رہی تا حیات جنگ
دَبنے نہ پائی خدمتِ اسلام کی اُمنگ
باطل کے رُخ کی پردہ دری میں نہ تھا درنگ
مذہب کے تھے محافظ ناموس و نام و ننگ
ایماں کی سمت سے کبھی آنکھیں نہ بند کیں
ہر مرحلے پہ حق کی صدائیں بُلند کیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اہلِ غرض جو بعدِ نبی دیکھتے تھے خواب
ناپاک جن کے عزم تھے اور نیّتیں خراب
مقصد یہ تھا کہ پھر سے وہی آئے انقلاب
حدِّ گناہ ختم ہو بہنے لگے شراب
ایمان لائے تھے جو دکھانے کے واسطے
اُٹھے خدا کا دین مٹانے کے واسطے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لیکن ابھی زمانے میں موجود تھے علی
وارث رسولِ پاک کے اسلام کے ولی
حق بین نگاہ آئینہ قلب منجلی
باطل کی بات سامنے اُن کے نہیں چلی
چہرہ منافقوں نے پھر اپنا دکھا دیا
مسجد میں اُن کو جامِ شہادت پلا دیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آیا جہاں میں جب حَسنِ با صفا کا دور
اربابِ ظلم ہونے لگے بے نقاب اور
کچھ حال پر نگاہ نہ کچھ عاقبت پہ غور
دیکھے امامِ دیں نے بدلتے ہوئے جو طور
اپنا کمال حلم و بصیرت دکھا دیا
کچھ دن کو صلح کر کے یہ فِتنہ دبا دیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اپنی جگہ پہ ظلم کے دِل کو نہ تھا قرار
باقی ابھی تھی گلشنِ اسلام میں بہار
پایا نہ کچھ بصیرتِ ایماں پہ اختیار
آئی منافقت کی ادا پھر بروئے کار
ظاہر نفاق و ظلم کا مضمون ہو گیا
زہراب سے امام کا دل خون ہو گیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سمجھے کہ اب محافظِ ایماں نہیں رہا
اسلام کے چمن کا نگہباں نہیں رہا
حامی دیں محافظِ قرآں نہیں رہا
انساں کے درد کا کوئی پُرساں نہیں رہا
فسق و گنہ پہ ٹوکنے والا کوئی نہیں
ظلم و ستم سے روکنے والا کوئی نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
باقی ہیں اب رسول نہ موجود ہیں امیر
اب ذہن ظلم فکر حسن میں یہیں اسیر
کوئی جگا سکے گا نہ اب قوم کا مسیر
شبیر تو مزار پہ جد کے ہیں گوشہ گیر
دیکھیں گے صرف اپنے ہی انجام کی طرف
یہ کیوں نظر اُٹھائیں گے اسلام کی طرف
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہم غلط میں اپنے ادھر ظلم مُبتلا
اور اس طرف حسین دل و جانِ مصطفٰے
دیکھا کیے زمانے کی بدلی ہوئی ہوا
قبرِ نبی پہ منتظرِ حکمِ کبریا
سُنتے ہوئے صدائے فُغاں کائنات کی
تصویر صبر و شکر کی عزم و ثبات کی
 
Top