مداوا (نظم )

کیا وجود کی کوکھ سے وجود جنم نہیں لیتا ؟ یقیناً لیتا ہے . کیا عدم کی کوکھ میں کسی وجود کا پلنا ممکن ہے ؟ بالکل ممکن ہے . اگر آپ آدم اور آدم زاد کی تخلیق کے مابین فرق کو ذہن میں رکھیں گے تو با آسانی سمجھ جائیں گے کہ میں نے" ہمیشہ" کی بجائے "بارہا" کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے . اس سے مفر نہیں کہ ہر ہست پہلے نیست تھا لیکن ہر وجود کو جنم کوئی دوسرا وجود ہی دے یہ ضروری نہیں .

اللہ آپ کو جزا دے۔ بہت ہی خوبصورت نظم ہے۔
موضوع ایسا چھڑ گیا ہے کہ کچھ کہے بغیر رہا نہیں جا رہا اور نازک بھی اتنا ہے کہ ڈر بھی لگتا ہے۔ اس لیے کوشش کرو گا کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیرعرض کروں۔

ایک نظرسے"نیست" سے "ہست" کا جنم تو کئی بارہوا ہے اور دوسری نظر سے کبھی بھی نہیں ہوا ۔

اگر "ہست" کو صورت کہتے ہیں تو نئی صورتیں روز پیدا ہوتی ہیں۔

ہر صورت کو منفرد جانا جائے تو "ہست" ہمیشہ "نیست" سے ہی ہے۔ "نہیں تھا" اور "اب ہے"۔

صورت کو جمع کر دیں تو "بار ہا" کا اطلاق بہت اچھے سے ہوتا ہے۔ جیسے مٹی سے انسان کا ہونا۔

اور "ہست" کو وجود کہتے ہیں تو "نیست" سے "ہست" کبھی نہیں ہوا ۔ "جب کچھ نہیں تھا، تو تو تھا" ۔ سائنس بھی یہ گتھی سلجھا نہیں پائی کہ " کچھ نہیں سے کچھ" کیسے ہو سکتا ہے۔

اللہ پاک خوش رکھے۔ آباد رکھے۔ آمین
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
اللہ آپ کو جزا دے۔ بہت ہی خوبصورت نظم ہے۔
موضوع ایسا چھڑ گیا ہے کہ کچھ کہے بغیر رہا نہیں جا رہا اور نازک بھی اتنا ہے کہ ڈر بھی لگتا ہے۔ اس لیے کوشش کرو گا کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیرعرض کروں۔


ایک نظرسے"نیست" سے "ہست" کا جنم تو کئی بارہوا ہے اور دوسری نظر سے کبھی بھی نہیں ہوا ۔

اگر "ہست" کو صورت کہتے ہیں تو نئی صورتیں روز پیدا ہوتی ہیں۔

ہر صورت کو منفرد جانا جائے تو "ہست" ہمیشہ "نیست" سے ہی ہے۔ "نہیں تھا" اور "اب ہے"۔

صورت کو جمع کر دیں تو "بار ہا" کا اطلاق بہت اچھے سے ہوتا ہے۔ جیسے مٹی سے انسان کا ہونا۔

اور "ہست" کو وجود کہتے ہیں تو "نیست" سے "ہست" کبھی نہیں ہوا ۔ "جب کچھ نہیں تھا، تو تو تھا" ۔ سائنس بھی یہ گتھی سلجھا نہیں پائی کہ " کچھ نہیں سے کچھ" کیسے ہو سکتا ہے۔

اللہ پاک خوش رکھے۔ آباد رکھے۔ آمین
نظم کی پسندیدگی اور آپ کے قیمتی تبصرے کے لیے ممنون ہوں .
فکر کی کئی جہات اور زاویے ہوتے ہیں . اور یہی مختلف النوع قسم کے نظریات اور آئیڈیالوجیز کی اساس ہیں . جو بات ایک مذہب پرست کے لیے قانون اور اصول کا درجہ رکھتی ہے ممکن ہے وہی بات کسی اور مکتبہِ فکر کے پیروکار کے لیے فقط ایک مفروضہ ہو . اگر مذہبی doctrine کو زندگی سے منہا کر دیا جائے تو مروجہ دینی علوم کی اہمیت ایک myth سے زیادہ نہیں رہتی . اور پھر کچھ بھی حتمی نہیں رہتا .
آپ بجا فرما رہے ہیں کہ ابھی تک تو وجودِ خدا ہی متنازعہ
ہے . لہٰذا ہست اور نیست، عدم اور وجود کو لے کر سب کا کسی ایک نقطے پر مرتکز ہونا انتہائی مشکل ہے . کسی بھی نظریے کی قبولیت کا ایک معیار pragmatism بھی ہے .دیکھتے ہیں عدم اور وجود کی گتھیاں سائنس کس طرح سلجھاتی ہے .
 
Top