بھائی یہ تو اولاد کی تربیت ہر منحصر کہ وہ رائے کی قدر قیمت جانے اور اُسے حکم کا درجہ سمجھ کر اپنے اوپر لاگو کرے۔
دراصل اس سے آگے رویے تشکیل پاتے ہیں. اس پر تفصیل سے لکھنا تھا لیکن مصروفیت کے سبب نہ ہو پایا. سوچا ضمنا سوال کر لیا جائے
 

محمدظہیر

محفلین
احباب ایک سوال ہے. والدین کو کب تک اور کس حد تک بچوں کی زندگی کے فیصلے کرنے چاہیے یا اپنی مرضی شامل کرتے رہنا چاہیے؟؟؟
ماں باپ کو ایک عمر تک اختیار ہے ۔ بچے جب بڑے ہوں تو ان کے فیصلوں میں رکاوٹ پیدا کرنے کا اختیار والدین کو نہیں ہے۔ اس لیے والدین کی ذمداری ہے کہ بچپن سے ہی صحیح تربیت کریں، تاکہ بچے بڑے ہو کر غلط فیصلے لینے والے نہ بنیں۔
 

عثمان

محفلین
ظاہر ہے کہ آپ اپنے بچے کے سرپرست ہونگے۔
اور آپ احباب بار بار قانونی طور پر کی بات کر رہے ہیں. میں معاشرتی ضرورت کے اعتبار سے پوچھ رہا ہوں بالخوص پاکستان کے کنٹکسٹ میں.
قانون معاشرتی ضرورت اور مسائل کے مدنظر ہی بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قانون میں بچے کے سرپرست کی جو حدود و شرائط مقرر کی گئی ہیں ظاہر ہے ان کے مطابق ہی چلنا ہوگا اور تمام حقوق و فرائض انہی خطوط پر طے ہونگے۔
 

محمدظہیر

محفلین
اور آپ احباب بار بار قانونی طور پر کی بات کر رہے ہیں. میں معاشرتی ضرورت کے اعتبار سے پوچھ رہا ہوں بالخوص پاکستان کے کنٹکسٹ میں.
انڈیا اور پاکستان میں والدین کا مزاج کچھ الگ طرح کا ہے۔ یہاں بیشتر والدین چاہتے ہیں اپنی وفات تک بچے صرف ان کی بات سنتے رہیں۔
بچہ پیدائش سے لے کر جوانی تک مشکلوں میں گھرا رہتا ہے
تعلیم میں اسے کیئریر چوس کرنے نہیں دیتے ، کاروبار یا پروفیشن میں بھی اپنی مرضی کو دخل دیتے ہیں اور شادی کا حال تو سب کے سامنے ہے۔ اگر لڑکا یا لڑکی کبھی اپنی پسند سے کرلے تو کبھی قبول نہیں کرتے ۔
سب والدین ایسے نہیں ہوتے ، لیکن اکثر ہوتے ہیں۔
 
ظاہر ہے کہ آپ اپنے بچے کے سرپرست ہونگے
لیکن ابھی تو میں خود بچہ ہوں میں اسی تناظر میں پوچھ رہا تھا خیر.
قانون معاشرتی ضرورت اور مسائل کے مدنظر ہی بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قانون میں بچے کے سرپرست کی جو حدود و شرائط مقرر کی گئی ہیں ظاہر ہے ان کے مطابق ہی چلنا ہوگا اور تمام حقوق و فرائض انہیں خطوط پر طے ہونگے
بات آپ کی درست ہے. اور اسلامی قانون میں سن بلوغت تک ہی کا احکام ہیں. لیکن یہاں کی روایات مختلف ہیں. یہاں تعامل کچھ اور کہتا ہے...
 
انڈیا اور پاکستان میں والدین کا مزاج کچھ الگ طرح کا ہیں۔ یہاں بیشتر والدین چاہتے ہیں اپنی وفات تک بچے صرف ان کی بات سنتے رہیں۔
بچہ پیدائش سے لے کر جوانی تک مشکلوں میں گھرا رہتا ہے
تعلیم میں اسے کیئریر چوس کرنے نہیں دیتے ، کاروبار یا پروفیشن میں بھی اپنی مرضی کو دخل دیتے ہیں اور شادی کا حال تو سب کے سامنے ہے۔ اگر لڑکا یا لڑکی کبھی اپنی پسند سے کرلے تو کبھی قبول نہیں کرتے ۔
سب والدین ایسے نہیں ہوتے ، لیکن اکثر ہوتے ہیں۔
درست
 

عثمان

محفلین
لیکن ابھی تو میں خود بچہ ہوں میں اسی تناظر میں پوچھ رہا تھا خیر.
اگر آپ کے والدین آپ کے اب تک قانونی طور پر سرپرست ہیں اور آپ ان کے Dependent، تو ظاہر ہے آپ کو ان کی اطاعت کرنا ہوگی۔ ماسوائے اس کے معاملہ قانونی حدود سے تجاوز کرے۔
جب آپ Independent ہو جائیں تو والدین اور ان کے مشورے کا احترام کریں، باقی آپ قانوناً خودمختار ہیں اپنی زندگی کے فیصلوں پر۔
بات آپ کی درست ہے. اور اسلامی قانون میں سن بلوغت تک ہی کا احکام ہیں. لیکن یہاں کی روایات مختلف ہیں. یہاں تعامل کچھ اور کہتا ہے...
اگر ریاستی قوانین معاشرتی رواج سے ہم آہنگ نہیں تو ظاہر ہے تب بھی فوقیت قانون ہی کی ہونگی، ورنہ آپ مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔
 
احباب ایک سوال ہے. والدین کو کب تک اور کس حد تک بچوں کی زندگی کے فیصلے کرنے چاہیے یا اپنی مرضی شامل کرتے رہنا چاہیے؟؟؟
یہ ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے۔ یہاں پر چند اشارے ہی دئے جاسکتے ہیں:
بچوں کی تربیت ، خاص کر موجودہ دور میں انتہائی مشکل ہے ۔
والدین ہمیشہ اولاد کی بہتری ہی سوچتے ہیں۔ اور والدین ، اولاد جس عمر میں بھی پہنچ جائے ، کی شفقت ہمیشہ یہ تقاضہ کرتی رہتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی راہنمائی کریں۔
اب بچے کی تربیت میں تین کردار بہت اہم ہوتے ہیں۔:
والدین
معاشرہ
تعلیمی ادارے
سب سے زیادہ اہم کردار والدین کا ہوتا ہے ۔
اب یہ ساری صورت حال تربیت پر منحصر ہے۔
کہ بچے کی سوچ ، عادت اور رویہ کیسا ہے
مثلاؑ
اس میں کتنی برداشت ہے
کتنا با اد ب ہے
وغیرہ وغیرہ
والدین کو بھی چاہیے کہ بچے کی عمر اور ماحول کے مطابق اس سے بات کریں
باقی قوانین تو معاشروں کے ماحول کے مطابق ترتیب دئے جاتے ہیں۔
محبت اور شفقت کا فرق تو ہوتا ہی ہے خواہ کوئی بھی معاشرہ ہو
میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی حسن معاشرت کا رنگ ہی سب رنگوں میں زیادہ دلکش ہے بشرطیکہ ہم اگر دے سکیں تو
اسلام میں توحید کے بعد والدین کے ساتھ نیک حسن سلوک کا درجہ ہے
کہا گیا کہ اف تک بھی نہ کہو
اولاد اور والدین کا رشتہ عمروں کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ جذبوں کا ہوتا ہے۔ ایک طرف شفقت ہوتی ہے اور دوسری طرف محبت
 
خاندان کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتی ہے۔ اور بجوں کا رویہ اور عادات گھر کے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔
بجوں کی تربیت کا بہترین طریقہ ان کو اجھا ماحول مہیا کرنا ہے۔
بچوں کی تربیت فن ہے اور انتہائی حساس مسئلہ ہے مگر بہت ہی کم گھروں میں اس کی باقائدہ تربیت کی جاتی ہے۔ چائیے تو یوں کہ جب پہلا بچہ پیدا ہو تو بجے کے ساتھ ساتھ بجے کی ماں کی کو بھی ٹریننگ دی جائے۔ اور یہ کام لڑکی کی ماں یا ساس کو چاہیے کہ اس کی مکمل ٹریننگ کرے۔
جب ایک بجے کی تربیت ٹھیک ہو جائے گی تو باقی بچوں کو اچھا ماحول مل جائے گا اور اس طرح ایک سلسلہ چل پڑے گا
اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات یہاں شئیر کرنا چاہوں گا
آجکل معاشرے میں بڑا بننے کے شوق نے معاشرہ تباہ کر دیا ہے۔
ہماری حالت یہ ہے کہ جب تک ہمارے گھر میں نوکرانی نہ ہو گھر ہمیں نا مکمل لگتا ہے۔ اور اکثر ایسے گھروں میں ان ملازموں کے ساتھ اچھا رویہ اور سلوک نہیں اپنایا جاتا
کیوں کہ اپنے آپ کو بڑا اور ان کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔
اور ان گھروں میں جہالت کی انتہا دیکھئے کہ انہہں لوگوں سے اسی ماحول کے اندر اپنے بچوں کی تربیت کروائی جا رہی ہوتی ہے۔
پھر سب سے بڑی یلغار اس دور کا میڈیا ہے جس پر کوئی چیک نہیں اور ہم اس کے اتنے اڈکٹ ہو چکے ہیں کہ جس گھر میں کیبل نہ ہو اس گھر کو دقیانوس سمجھا جاتا ہے اور اس مادر پدر آزاد میڈیا نے ہمیں تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔ بس آخر میں اتنا ہی کہوں گا
تسخیر مہر و ماہ مبارک تجھے مگر
دل میں نہیں اگر تو کہیں روشنی نہیں
 
آخری تدوین:

مقدس

لائبریرین
چائیے تو یوں کہ جب پہلا بچہ پیدا ہو تو بجے کے ساتھ ساتھ بجے کی ماں کی کو بھی ٹریننگ دی جائے۔ اور یہ کام لڑکی کی ماں یا ساس کو چاہیے کہ اس کی مکمل ٹریننگ کرے۔
جب ایک بجے کی تربیت ٹھیک ہو جائے گی تو باقی بچوں کو اچھا ماحول مل جائے گا اور اس طرح ایک سلسلہ چل پڑے گا
ویسے ماں اور ساس کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی تربیت ایسے کریں کہ بعد میں دخل اندازی کی زیادہ ضرورت نہ پڑے۔۔ سوری ٹو سئے کہ مجھے اپنے بیٹے کی پرورش میں بے جا دخل اندازی بالکل پسند نہیں، چاہے وہ میری امی کی طرف سے ہو یا میری ساس کی طرف سے۔۔ :)
 
Top