ساتویں سالگرہ محفلِ مشاعرہ 10 جولائی 2012

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اعوذباللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حمد​
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے

تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں ، وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے

وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب ، سفر کریں سب اُسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ، وہی خدا ہے

کسی کو سوچوں نے کب سراہا ، وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے ، وہی خدا ہے

نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ، وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانہء لاشعور میں جگمگا رہا ہے ، وہی خدا ہے

کسی کو تاجِ وقار بخشے ، کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ماتھے پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے ، وہی خدا ہے

سفید اُس کا سیاہ اُس کا ، نفس نفس ہے گواہ اُس کا
جو شعلہء جاں جلا رہا ہے ، بُجھا رہا ہے ، وہی خدا ہے

مظفر وارثی​
نعت​
یارحمتہ العالمین​
الہام جامہ ہے تیرا​
قرآں عمامہ ہے تیرا​
منبر تیری عرشِ بریں​
یا رحمتہ العالمیں​
آئینہ ء رحمت بدن​
سانسیں چراغِ علم و فن​
قربِ الہٰی تیرا گھر​
الفقرو فخری تیرا دھن​
خوشبو تیری جوئے کرم​
آنکھیں تیری بابِ حرم​
نورِازل تیری جبیں​
یا رحمتہ العالمیں​
مظفر وارثی​
بعد حمد و نعت کے میں دل کی گہرائیوں سے تمام خواتین و حضرات کو اردو محفل کے اس عظیم و شان مشاعرے میں خوش آمدید کہتا ہوں۔جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں اردو محفل کی سالگرہ کی تقریبات کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ مشاعرہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اردو محفل میں پہلی دفعہ مشاعرہ 17 جولائی 2008 کو منعقد کیا گیا تھا۔جس میں اردو محفل کے بے شمار شعراء اکرام نے حصہ لیا تھا اور اُس مشاعرے کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ اس مشاعرے کو بھی وہی پزیرائی ملے گی جو پہلے مشاعرے کو ملی تھی۔آج کی بزم کے صدرجناب استادِ محترم اعجاز عبید صاحب ہیں اور مہمانِ خصوصی جناب شاکر القادری صاحب ۔میں جناب صدرِ مشاعرہ کی اجازت سے اس مشاعرے کا باقاعدہ آغاز مشاعرے کی روایات کے مطابق اپنے کلام سے کرتا ہوں اور پھر اس کے بعد باری باری تمام شعرائے اکرام کو دعوتِ کلام دیتا رہوں گا۔ شعرائے اکرام کی فہرست میں نے اپنے ناقص علم اور عقل کے مطابق تیار کی ہے اگر کسی سینئیر شاعر حضرات کی شان میں گستاخی ہو جائے یعنی کسی جونئیر شاعر سے پہلے سینئیر شاعر کو پڑھا دیا جائے تو اس کے لیے پیشگی معذرت۔ مشاعرہ شروع کرنے سے پہلے میں خاص طور پر جناب @خلیل الرحمٰن صاحب، جناب محمداحمد صاحب، جناب محمد بلال اعظم صاحب ، جناب @مہدی نقوی حجاز صاحب، جناب مزمل شیخ بسمل صاحب اور خاص طور پر جناب استادِ محترم محمد وارث صاحب کا ممنون ہوں کہ جن کی کاوشوں سے آج اس مشاعرے کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ مشاعرے میں سامعین (قارئین) سے درخواست ہے کہ داد دینے کے لیے، پسند کی ناب (بٹن) کا ہی سہارا لیں۔ اور تبصرہ جات کے لیے جو الگ سے لڑی کا اہتمام کیا گیا ہے اس پر خوب خوب تبصرے کیے جائیں۔ تمام شعراء حضرات سے درخواست ہے کہ وقت کی پابندی فرمائیں تاکہ مشاعرے میں کسی طرح کا خلل پیدا نہ ہو۔​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جنابِ صدر کی اجازت سے مشاعرے کا آغاز کرتا ہوں اپنے ہی کلام سے۔​
لوگ کہتے ہیں بہت غم خوار رہتے تھے یہاں​
میں یہ کہتا ہوں مرے اغیار رہتے تھے یہاں​
چاند سورج رات دن بارش زمیں بادل فلک​
اِن سے بڑھ کر بھی بہت کردار رہتے تھے یہاں​
اب جہاں دیکھوں نظر آتے ہیں میخانے وہاں​
شہر میں بس عشق کے بیمار رہتے تھے یہاں​
کچھ تو ایسے جن کی کوئی مثل بھی ملتی نہ تھی​
کچھ مرے جیسے بہت بے کار رہتے تھے یہاں​
کس گلی میں اب ہیں جانے ان کی جلوہ ریزیاں​
میں کہاں تھا جب مرے سرکار رہتے تھے یہاں​
کاغذی کشتی سمندر کے کنارے دیکھ کر​
یوں لگا خرم کہ میرے یار رہتے تھے یہاں​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت بہت شکریہ خرم بھائی۔ ایک غزل پیشِ خدمت ہے:

میں اب زخم اپنے دکھانے لگا ہوں
جو گزری ہے دل پر، سنانے لگا ہوں

محبت پہ نفرت کی بنیاد رکھ کر
میں مکتوبِ الفت جلانے لگا ہوں

کبھی تو بھی تربت پہ آکر یہ دیکھے
ترے ہجر میں جاں سے جانے لگا ہوں

عجب زخم الفت نے مجھ کو دیے ہیں
میں زخموں پہ مرہم لگانے لگا ہوں

کنارا کشی کر مری ذات سے تُو
میں خود ہی سے خود کو چھپانے لگا ہوں

مقدر ہے میرا فنا ہونا تجھ پر
میں اک رسمِ دنیا نبھانے لگا ہوں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میں اب زخم اپنے دکھانے لگا ہوں​
جو گزری ہے دل پر، سنانے لگا ہوں​
کبھی تو بھی تربت پہ آکر یہ دیکھے​
ترے ہجر میں جاں سے جانے لگا ہوں​
یہ تھے جناب محترم محمد بلال اعظم صاحب جو اپنا کلام پیش کر رہے تھے۔​
اب جن شاعر کو میں دعوتِ کلام دینے لگا ہوں ان کا کہنا ہے کہ​
نالہ و شور و فغاں کیا کیجے،​
دل نہیں لگتا یہاں، کیا کیجے​
اور کہتے ہیں​
شب سی تاریکی سرِ شام ہے کیوں،​
دل مرا ڈوب گیا، کیا کیجے​
جناب محترم محمد امین صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ تشریف لائیں اور اپنا کلام پیش فرمائے​
 

محمد امین

لائبریرین
السلام علیکم جنابِ والا۔ بہت ممنون ہوں مجھ ناچیز کو اس بزم میں دعوت دینے کی۔ سب سے پہلے یہ عرض کروں کہ میں "شاعر" نہیں ہوں۔ نیا کلام لکھنے کا موقع نہ مل سکا، باسی کلام پر ہی گزارا کیجیے :) :) :)

سب سے پہلے صدرِ مشاعرہ کی اجازت سے یہی غزل پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ جس کے دو اشعار مکرمی خرم بھائی نے ارشاد فرمائے۔ ملاحظہ ہو:

رہتا ہوں اب بوجھل بوجھل،
کاندھوں کاندھوں گویا دلدل،
نظروں سے ہے اوجھل اوجھل،
میری آنکھوں کا وہ کاجل،
زوروں پر رہتا ہے اکثر،
غم کا دریا، بہتا کاجل،
برسا تھا وہ عرصہ پہلے،
اب تک من ہے سارا جل تھل،
افسانے کا آخر طے ہے،
دل میں ہے پھر کیسی ہلچل؟
گھر سے نکلے ایسے میں جب،
گھِر کر آئے کالے بادل۔

------------------

اس کے بعد آپ صاحبان کی اجازت سے میری پہلی آزاد نظم، جو کہ آپ دوستوں میں سے اکثر کی نظروں سے گزری ہوگی- تو عرض کیا ہے:

فراغت کیسی ہوتی ہے؟؟
فراغت جب بھی ملتی ہے،
خوشی سے جھوم جاتا ہوں،
طَرَب کے نغمے گاتا ہوں،
ہزاروں کام ہوتے ہیں،
جنہیں عرصے سے کرنا ہو،
مگر جو وقت نہ ملنے پہ اکثر چھوڑ دیتا ہوں،
فراغت جب بھی ملتی ہے،
بس اک یلغار ہوتی ہے،
وہ سارے کام جو میں نے،
ادھورے چھوڑے ہوتے ہیں،
مجھے سب یاد آتے ہیں،
فراغت میں بھی اکثر پھر،
بہت مصروف ہوتا ہوں،
مگر پھر تھک کے میں بستر پہ اپنے بیٹھ جاتا ہوں،
تذبذب اور تھکن سے پھر،
بہت مجبور ہو کر تب،
وہ سارے کام میں یکبارگی میں چھوڑ دیتا ہوں!!!
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
فراغت کیسی ہوتی ہے؟؟​
فراغت جب بھی ملتی ہے،
خوشی سے جھوم جاتا ہوں،
طَرَب کے نغمے گاتا ہوں،
ہزاروں کام ہوتے ہیں،
جنہیں عرصے سے کرنا ہو،
مگر جو وقت نہ ملنے پہ اکثر چھوڑ دیتا ہوں،
فراغت جب بھی ملتی ہے،​
آپ نے کلام پڑھا جناب محمد امین صاحب کا اور ان کے بعد اب میں دعوت دیتا ہوں جن کا کہنا ہے کہ​
خِراماں خِراماں چلا جا رہا ہوں​
کہ الفت کی راہوں سے ناآشنا ہوں​
یہ صحرا کا بستر، وہ چھت آسماں کی​
فلک کی نوازش کا پیکر بنا ہوں​
جناب محترم ذیشانصاحب جو اردو محفل پر @zeesh کے نام سے جانے جاتے ہیں​
 

سید ذیشان

محفلین
بہت شکریہ اس محفل میں دعوت دینے کا۔ میں مبتدی ہوں اس لئے تازہ کلام نہ پیش کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔

ایک غزل پیش خدمت ہے:

خِراماں خِراماں چلا جا رہا ہوں​
کہ الفت کی راہوں سے ناآشنا ہوں​
مِری خاک بننے کو یہ مر مٹے ہیں​
فلک کے کواکب کی میں ارتقا ہوں
یہ صحرا کا بستر، وہ چھت آسماں کی​
فلک کی نوازش کا پیکر بنا ہوں​
میں نکلا تھا سورج کی منزل کو پانے​
پہ اس کی چمک میں مگن ہو گیا ہوں​
عصا، آبلے اور پوشاکِ خستہ​
یہ ساماں ہے باقی، پہ میں چل رہا ہوں​
تِرے دل کے تاروں کو پھر میں نے چھیڑا​
میں یادِ گزشتہ کی بھٹکی صدا ہوں​
میں تب تھا میں اب ہوں، یہاں بھی وہاں بھی​
خرد کے قفس سے تو میں ماورا ہوں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جناب ذیشان صاحب نے اپنا کلام پیش کیا یقناَ میری طرح آپ سب کو بھی بہت پسند آیا ہوگا۔​
اب باری آتی ہے جناب محترم محمد اظہر نذیر صاحب کی۔ میں ان سے ملتمس ہوں کے وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کریں ان کی آمد سے پہلے ان کے ہی دو اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ کہتے ہیں​
ہم جو بچھڑے تو پھر بہار آٴی​
ہو گیا خوش ہمیں جُدا کر ک​
پوچھتا ہے پتا وہ یاروں کا​
بھول جاتا ہے بس پتا کر کے​
جناب محمد اظہر نذیر صاحب​
 
السلام و علیکُم،
صاحب صدر کی اجازت سے اپنی تازہ غزل پیش کرتا ہوں

محبت کے خیالوں کےکسی محور کا ہو جاوں
جنوں کے رنگ میں ڈوبے کسی منظر کا ہو جاوں
ترا در چھوڑ دیتا ہوں، مگر اتنی دعا کرنا
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
پیوں اک جام غم یا مستقل ساغر کا ہو جاوں؟
زمیں سے جب اُٹھا ہی لی محبت آسمانوں پر
مجھے بھی اذن ہو جائے، کہ میں امبر کا ہو جاوں
یقیناً ترک کردوں گا میں یوں آشفتہ سر پھرنا
مگر یہ تب ہی ممکن ہے کہ میں اظہر کا ہوجاؤں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ تھے جناب محمداظہر نذیر صاحب جو فرما رہے تھے۔​
محبت کے خیالوں کےکسی محور کا ہو جاوں​
جنوں کے رنگ میں ڈوبے کسی منظر کا ہو جاوں​
ترا در چھوڑ دیتا ہوں، مگر اتنی دعا کرنا​
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں​
بعد اظہر نذیر صاحب کے میں درخواست گزار ہوں جناب محترم صبیح الدین شعیبی صاحب سے کہ وہ تشریف لائیں اور اپنا کلام پیش فرمائے ۔ جن کا کہنا ہے کہ​
چندا بولا پچھلی راتآجا پیارے چرخہ کات​
اک دوجے کو دیں الزامشاید یوں بدلیں حالات​
جناب محترم صبیح الدین شعیبی صاحب​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
حضراتِ گرامی جناب صبیح الدین شعیبی صاحب کیسی وجہ سے کلام پیش کرنے نہیں پہنچ سکے۔ان کے بعد میں دعوت دینا چاہوں گا محترم محمد ذیشان نصر صاحب کو جو محفل میں متلاشی کے نام سے جانے جاتے ہیں لیکن ان کی آمد سے پہلے ان کے ہی اشعار سے ان کا استقبال کروں گا۔​
محبت سے حسیں تر اس جہاں میں اور کیا ہو گا​
جو ہو گا ، وہ محبت کے نہیں کچھ بھی سوا ہو گا​
جہاں والے محبت کو فسانہ ہی سمجھتے ہیں​
نہ جانے کب زمانے پر بھلا یہ راز وا ہو گا​
جناب ذیشان نصر متلاشی صاحب​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جناب ذیشان نصر صاحب بھی کسی وجہ سے اپنا کلام پیش نہیں کر سکے۔​
ان کے بعد​
میں دعوتِ کلام دوں گا جناب محترم​
@ندیم حفی صاحب کو ۔ جن کا کہنا ہے کہ​
مُسکان تیری اکھیوں کی جب یاد آئے ہےکُٹیا میں من کی میٹھی سی اک لو جلائے ہ​
اور کہتے ہیں کہ​
ہستی میری رہینِ شبِ ناتمام بھیاب روشنی مجھے ترا چہرہ دکھائے ہے​
جناب محترم ندیم حفی صاحب سے گذارش کروں گا کہ وہ تشریف لائیں اور اپنا کلام پیش فرمائیں​
 

ندیم حفی

محفلین
بہت شکریہ جناب صدر اور تمام شرکائے گرامی قدر۔۔آپ کی محبتوں کی نذر ایک غزل کے چند اشعار۔


جب شام کے سائے ڈھلتے ہیں تیری یاد سوا ہو جاتی ہے
قلب و قالب قفل پڑیں پر جان ہو ا ہو جاتی ہے

اس لیلیٰ دنیا کو اب کے ہم رہنے دیں گے روٹھا ہی
دل چیر بھی دیں اس کی خاطر یہ پھر بھی خفا ہو جاتی ہے

ہاتھوں سے سنوارا ہے اپنے اس قفس کی ساری اینٹوں کو
ہمیں جہاں سنبھلنا ہوتا ہے اک نئی خطا ہو جاتی ہے

وہ شخص کہ جس کی آنکھوں میں اک عجب سی الجھن رہتی ہے
جو بات بھی اس کی نسبت ہو وہ حرفِ ثنا ء ہو جاتی ہے
 

ندیم حفی

محفلین
سرابِ عشق کی کیا کہیے ہر گام پہ منزل ملتی ہے
پر دشت نوردی میں اکثر روح آبلہ پا ہو جاتی ہے

دنیا کی عدالت بھی ہم کو اب تلک سمجھ نہ آئی ہے
اک بار جو کوئی جرم کرے ہر بار سزا ہو جاتی ہے
 

ندیم حفی

محفلین
اور ایک چھوٹا سا گیت جو کسی بھولی بسری یاد کی طرح آج پھر سے دل میں جاگزیں ہو گیا۔۔۔

ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
کچھ قطرہ قطرہ ٹپکی ہے کچھ لمحہ لمحہ مہکی ہی
چُنری جب سر سے سَرکی ہے تب رات زمیں پر اُتری ہی
ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
جب لہریں شور مچاتی ہوں جب لوٹ کے چڑیاں آتی ہوں
جب سکھیاں بن میں گاتی ہوں بات اُس کی گیت میں لاتی ہوں
ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
وہ جس کے گال پہ تارا تھا وہ موہن یار ہمارا تھا
سَر بستہ راز وہ سارا تھا گِرداب تھا کبھی کنارا تھا
ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
جگ لاکھوں ناز اُٹھائے گا من پھر بھی چین نہ پائے گا
اِک ہُو کا عالم چھائے گا وہ پیارا یاد جب آئے گا
ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
جب ساون رُت میں پون چلے جب سرووثمن ملتے ہوں گلی
اگنی بن کر جب بدن جلے جب بلا نہ کوئی سر سے ٹلی
ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
جب صورت یاد کوئی آتی ہو کونپل کوئی جب مسکاتی ہو
رین اپنی چھب دکھلاتی ہو مٹھی میں جان جب آتی ہو
ہوں سُونے جب میری سوچ کے در
اُس رات کی بات نہ چھیڑا کر
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جب شام کے سائے ڈھلتے ہیں تیری یاد سوا ہو جاتی ہے
قلب و قالب قفل پڑیں پر جان ہو ا ہو جاتی ہے
اس لیلیٰ دنیا کو اب کے ہم رہنے دیں گے روٹھا ہی
دل چیر بھی دیں اس کی خاطر یہ پھر بھی خفا ہو جاتی ہے
یہ تھے جناب محترم ندیم حفی جنوں نے اپنا کلام پیش کیا۔​
 

محمداحمد

لائبریرین
کل محترم محمد ذیشان نصر صاحب کو مشاعرے میں کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی تھی جو بوجوہ پیش نہیں ہوسکے تھے۔ اس وقت چونکہ راحیل فاروق صاحب موجود نہیں ہیں اور محمد ذیشان نصر متلاشی محفل میں آ چکے ہیں سو ہم محمد ذیشان نصر کو دعوتِ کلام دیتے ہیں۔

محمد ذیشان نصر کہتے ہیں:
محبت سے حسیں تر اس جہاں میں اور کیا ہو گا
جو ہو گا ، وہ محبت کے نہیں کچھ بھی سوا ہو گا
جہاں والے محبت کو فسانہ ہی سمجھتے ہیں
نہ جانے کب زمانے پر بھلا یہ راز وا ہو گا
جناب ذیشان نصر متلاشی صاحب
 

متلاشی

محفلین
جناب صدر کی اجازت سے اپنی ایک دعائیہ نظم پیش کرنا چاہوں گا۔۔۔۔!​
دُعا
الٰہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر دے​
جنوں کو تو مرے، مولا شکیبائی عطا کر دے​
بنوں رہبر دکھاؤں راہ میں گمراہ لوگوں کو​
مجھے وہ معرفت ، ایماں، وہ مولائی عطاکردے​
مری بے نام منزل کو نشانِ راہ دے دے تو​
مجھے تو ذات سے اپنی شناسائی عطا کر دے​
الٰہی سوچ سے میری ،ہو روشن اک جہانِ نو​
تخیل کو مرے تو ایسی گہرائی عطا کردے​
نگہ میری اٹھے جس سمت دنیا ہی بدل جائے​
مری بے نور آنکھوں کو ،وہ بینائی عطا کر دے​
معطر روح ہو جس سے ، مسخر قلب ہو جس سے
زبان و نطق کو یارب ،وہ گویائی عطا کردے
زَمن جس سے منور ہو، چمن جس سے معطر ہو​
مرے کردار کو مولا، وہ رعنائی عطا کر دے​
خیالوں کو ملے تصویر اور تعبیر خوابوں کو​
مرے وجدان کو یارب، وہ دانائی عطا کر دے​
اگر چہ عجز سے ہوں میں تہی دامن ، کرم سے تُو​
مرے بے ربط جملوں کو پذیرائی عطا کردے​
ترے در پر ندامت سے ،جھکی ہے پھر جبیں میری​
تمنائے حزیں کو اب، تو شنوائی عطا کر دے​
ترا ہی نام ہو لب پر ، نہ ہو پھر دوسرا کوئی​
نصرؔ کو اب تو وہ خلوت، وہ تنہائی عطا کردے​

اس کے بعد اپنی ایک تازہ غزل احباب کے ہدیہ سماعت کرنا چاہوں گا۔۔۔!​
مطلع عرض ہے ۔۔۔۔​
تری یاد دل سے مٹانے لگے​
تجھے رفتہ رفتہ بھلانے لگے​
تمہارے بنا بھی ہیں جس سکتے ہم​
زمانے کو اب یہ دکھانے لگے​
مقدر ہمارے ہوئے خواب پھر​
جبھی تجھ کو دل میں بسانے لگے​
خزینے وفا کے لٹا کر سبھی​
ترے در سے تشنہ ہی جانےلگے​
بچی تھی یہی جاں مرے پاس پھر​
وہی تجھ پہ اب ہم لٹانے لگے​
چلی پھر ہوا یوں ہوا ختم سب​
وفا کر کے یوں ہم ٹھکانے لگے​
جنہیں لوگ پاگل سمجھتے تھے سب​
وہی لوگ ہم کو سیانے لگے​
ہوئے ہم تو تائب محبت سے اب​
تصور کے بت سب گرانے لگے​
اور مقطع عرض ہے ۔۔۔​
تمناؤں کا خون کر کے نصر​
سراپنا لحد میں چھپانے لگے​
محمد ذیشان نصر​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
معطر روح ہو جس سے ، مسخر قلب ہو جس سے
زبان و نطق کو یارب ،وہ گویائی عطا کردے
تمناؤں کا خون کر کے نصر
سراپنا لحد میں چھپانے لگےے
یہ تھے محترم محمد ذیشان نصر جنوں نے اپنا کلام پیش کیا ان کے بعد میں دعوت کلام دیتا ہوں جناب راحیل فاروق صاحب کو۔ کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش فرمائے۔ ان کی آمد سے پہلے ان کے ہی دو اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
غمِ دوراں سے دور بیٹھا ہوں
تیرے غم کے حضور بیٹھا ہوں
ابھی محفل پہ اپنے بھید نہ کھول
ابھی میں بے شعور بیٹھا ہوں
جناب راحیل فاروق صاحب
 
Top