محاسن و معائبِ سخن

فاتح

لائبریرین
'تنافر' یا 'تنافر صوتی' سے مراد کسی مصرع میں کسی بھی دو حروف کا یوں یکجا ہونا کہ ادائیگی میں دشواری پیدا ہو۔ یعنی صوتی اعتبار سے پہلا لفظ جس حرف پر ختم ہو رہا ہو اسی سے اگلے لفظ کا آغاز ہونا مثلآ غالب کا یہ مصرع "کیا قسم ہے ترے ملے کی کہ کھا بھی نہ سکوں" میں‌ "کی کہ" تنافر صوتی کی ایک مثال ہے۔
یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ تنافر کا انحصار ادائیگیِ الفاظ یا صوتی ترکیب پر منحصر ہے نا کہ الفاظ و حروف کی بندش پر۔
 

فاتح

لائبریرین
غرابت لفظی کیا ہوتی ہے؟

لفظ 'غرابت' کا مادہ بھی وہی ہے جو 'غریب' کا ہے اور عربی زبان میں 'غریب' کا عام فہم مطلب 'عجیب' ہی لیا جاتا ہے۔
غرابت سے مراد کسی شعر میں عجیب و غریب یا غیر مانوس الفاظ کا استعمال ہے جنہیں سمجھنے کے لیے لغات کا سہارا لینا پڑے۔

بلکہ لفظ 'غرابت' بذاتِ خود 'غرابت' کی ایک مثال ہے۔;)

حضرت غالب کے ہاں 'غرابت' کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ مثلآ
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا​

مندرجہ بالا مثال میں 'فتراک' اور 'نخچیر' غرابت کی مثال کے طور پر لیے جا سکتے ہیں۔

عرض کرتا چلوں کہ 'تنافر' اور 'غرابت' دونوں ہی 'معائب سخن' میں شمار کیے جاتے ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
فاتح آپ کی عظمت کو سلام :)

قبلہ فرخ صاحب! سب سے پہلے تو شکریہ ادا کرتا چلوں لیکن ساتھ ہی عرض کروں گا کہ اس جملہ میں بھی 'عیبِ سخن' ہے جسے 'تناقص' کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک ہی شعر میں دو ایسی صفات بیان کرنا جو ایک دوسرے کی ضد ہوں۔ بھلا ناچیز کہاں اور 'عظمت' کا بارِ گراں کہاں؟;):grin:
 

الف نظامی

لائبریرین
لفظ 'غرابت' کا مادہ بھی وہی ہے جو 'غریب' کا ہے اور عربی زبان میں 'غریب' کا عام فہم مطلب 'عجیب' ہی لیا جاتا ہے۔
غرابت سے مراد کسی شعر میں عجیب و غریب یا غیر مانوس الفاظ کا استعمال ہے جنہیں سمجھنے کے لیے لغات کا سہارا لینا پڑے۔

بلکہ لفظ 'غرابت' بذاتِ خود 'غرابت' کی ایک مثال ہے۔;)

حضرت غالب کے ہاں 'غرابت' کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ مثلآ
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا​

مندرجہ بالا مثال میں 'فتراک' اور 'نخچیر' غرابت کی مثال کے طور پر لیے جا سکتے ہیں۔

عرض کرتا چلوں کہ 'تنافر' اور 'غرابت' دونوں ہی 'معائب سخن' میں شمار کیے جاتے ہیں۔

بہت خوب!
ذرا تعقید لفظی و معنوی کے بارے میں بھی کچھ ارشاد ہو۔
 

فاتح

لائبریرین
ذرا تعقید لفظی و معنوی کے بارے میں بھی کچھ ارشاد ہو۔

تعقید بھی عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ 'عَقَد' ہے۔ عقد کا مطلب ہے 'گرہ یا گانٹھ لگانا' یا 'آپس میں‌باندھنا'۔ 'نکاح' کے لیے بھی عقد کا لفظ اسی رعایت سے استعمال کیا جاتا ہے کہ اس میں فریقین کو ایک رشتے میں باندھ دیا جاتا ہے۔

شاعری کی بحث میں بھی 'تعقید' کی اصطلاح انہی معنوں میں مستعمل ہے لیکن یہاں 'تعقید' صرف 'بے محل و موقع' الفاظ کو آپس میں باندھنے کے عیب کا نام ہے اور یہ بھی معائب سخن میں سے ایک ہے۔

کسی بھی شعر کے الفاظ کی ترتیب جس قدر روز مرہ و محاورہ کے قریب تر ہو گی اسی قدر وہ شعر سہولت کے ساتھ سمجھ آ سکے گا۔ گو قافیہ، ردیف اور وزن نباہنے کی خاطر شعرا کو آزادی حاصل ہے کہ وہ روز مرہ یا محاورہ کی عمومی ترتیب سے ہٹ کر الفاظ کو کسی حد تک الٹ پلٹ سکتے ہیں لیکن اس الٹ پلٹ سے معنوی اعتبار سے شعر میں تبدیلی نہ آئے۔ بطور مثال غالب کا یہ مصرع دیکھیے:
"تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا"​
اگر اسے روزمرہ کے مطابق نثر میں لکھا جاتا تو یوں ہوتا:
زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا تھا​
لیکن وزن نباہنے کی خاطر 'تھا' کو آخری کی بجائے پہلا لفظ بنا دیا گیا۔

اس حد تک تو جائز ہے۔ لیکن یہ آزادی ایک حد سے تجاوز کر جائے تو 'تعقید' کے زمرہ میں آتی ہے۔ یعنی اگر اسے 'ہوا تھا مرگ کا زندگی میں لگا کھٹکا' کر دیا جائے تو اس کا مفہوم یا تو بمشکل تمام سمجھ آئے گا اور یا معنوی اعتبار سے اس مفہوم سے مختلف ہو گا جو شاعر نے ادا کرنا چاہا اور یہی 'تعقید' ہے۔

نظامی صاحب! میرے خیال میں اب اس دھاگے کا نام 'تنافر حروف' سے بدل کر 'معائبِ سخن' کر دیں۔
 

فاتح

لائبریرین
کلام کے فصیح ہونے کی کیا شرائط ہیں؟

فصاحتِ کلام کی کوئی ٹکسال مقرر کرنا تو ممکن نہیں لیکن یوں کہہ لیجیے کہ کلام 'معائب سخن'، جن میں مندرجہ بالا امثال یعنی تنافر، تعقید اور غرابت وغیرہ بھی شامل ہیں، سے پاک ہو اور آسان فہم ہو۔ شستہ و شگفتہ الفاظ کا بر محل استعمال ہو اور ایسی دلکش پائی جاتی ہو کو سماعت پر ثقیل نہ گزرے بلکہ شیریں محسوس ہو۔
فصاحت کے پیمانے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں کہ آج اہل زبان جو روز مرہ استعمال کرتے ہیں کچھ عرصہ بعد وہ روز مرہ بدل جاتا ہے، نت نئے محاورات آ جاتے ہیں اور یوں شعر کے فصیح یا غیر فصیح ہونے کا پیمانہ بھی بدل جاتا ہے۔
 

مغزل

محفلین
قبلہ آپ کے مراسلات میں پر مغز گفتگو نے ذہن کے دریچے کھول دیئے ہیں۔
(ویسے اس تھریڈ کا نام ’’ محاسن و معائب ِ سخن ‘‘ رکھا جائے تو کیسا ہے ۔
ایک ہی لڑی میں ہم دو نوں معاملات پر گفتگو کرسکتے ہیں۔

ایک دو باتیں مجھے بھی معلوم کرنی تھیں۔
ازراہِ مہربانی تفصیل سے بیان کر دیجئے۔

1) چیستاں
2) مجازِ مرسل
3) لف و نشر
4) وحدتِ تاثر

والسلام
 

فاتح

لائبریرین
قبلہ آپ کے مراسلات میں پر مغز گفتگو نے ذہن کے دریچے کھول دیئے ہیں۔
(ویسے اس تھریڈ کا نام ’’ محاسن و معائب ِ سخن ‘‘ رکھا جائے تو کیسا ہے ۔
ایک ہی لڑی میں ہم دو نوں معاملات پر گفتگو کرسکتے ہیں۔

ایک دو باتیں مجھے بھی معلوم کرنی تھیں۔
ازراہِ مہربانی تفصیل سے بیان کر دیجئے۔

1) چیستاں
2) مجازِ مرسل
3) لف و نشر
4) وحدتِ تاثر

والسلام

مغل صاحب! تجاہل عارفانہ بھی صنائع معنوی میں بطور صنعت مستعمل ہے;) جسے اردو میں "صنعت تجاہلِ عارف" اور عربی میں سوق المعلوم مساق غیرہ" کہا جاتا ہے۔
دیکھیے آپ ہی کے انداز میں جراؔت کیا فرماتے ہیں:
صنم! کہتے ہیں تیری بھی کمر ہے
کہاں ہے؟ کس طرف ہے؟ اور کدھر ہے​

بہرحال آپ کو ہمارا امتحان مقصود ہے اور ہماری جہالت کے باعث جگ میں ہماری رسوائی ہی چاہتے ہیں تو بصد شوق کیجیے۔ کہ "ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام":grin:

ستم در ستم یہ کہ " تفصیل سے بیان " کرنے کا حکم بھی فرما دیا۔ مجاز مرسل کی تفصیل میں تو کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہم کیا تفصیل بیان کریں کہ چوبیس تو محض اقسام ہیں 'حضرت' کی:( خیر آیندہ مراسلہ میں انشاء اللہ کسی قدر لکھوں گا۔
چیستاں کے متعلق بیان کرنا آسان ترین ہے کہ یہ فارسی لفظ ہے جس کا مطلب ہے "معمہ" یا پہیلی"۔
ایسا شعر جس میں کوئی پہیلی بجھوائی جا رہی ہو یا کوئی معمہ فکری رکھا گیا ہو یا ایسا مضمون بیان کیا گیا ہو جو کسی طور ذہن کو غور و فکر کر کے جواب ڈھونڈنے پر اکسائے۔
فی الحال اتنا ہی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
لف و نشر مرتب:

چند چیزوں کو پہلے مصرعے میں بیان کرنا ، پھر ان چیزوں کے مناسبات کو دوسرے مصرعے میں ترتیب وار لانا۔ مثلا

دندان و لب و زلف و رخ شہ کے فدائی
ہیں در عدن ، لعل یمن ، مشک ختن پھول

دنداں کے مناسبت سے در عدن ، لب کی مناسبت سے لعل یمن ، زلف کی مناسبت سے مشک ختن اور رخ کی مناسبت سے پھول

لف و نشر غیر مرتب : اس میں مناسبات بلا ترتیب آتے ہیں

یہ متن "حضرت رضا بریلوی بحیثیت شاعر نعت" از ڈاکٹر جوہر شفیع آبادی سے لیا گیا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہے کیا جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں

(غالب) اس شعر میں وہ صنعت تو نہیں لیکن مندرجہ بالا شعر سے مطابقت رکھتا ہے لہذا محسن اسے بھی دیکھ لیں -
 
Top