"مجید لاہوری" کے "نمکدان" سے کچھ نمک

فرخ منظور

لائبریرین
نام: عبدالمجید چوہان
ادبی نام: مجید لاہوری
پیدائش: 1916
مقامِ پیدائش: گجرات
وفات: جون 1957
مقامِ وفات: کراچی

مجید لاہوری ادب و صحافت کے ان چند ناموں میں سے ایک ہیں - جنہوں نے پھولوں‌ کی مانند محض چند دن بہار دیکھی- اور پھر تھوڑے دنوں کے بعد یہ پھول سدا کے لئے اخبارات و جرائد کی فائلوں اور اپنی کتابوں کے اوراق میں زندہ جاوید ہوگیا -
 

فرخ منظور

لائبریرین
جمہوریت کے نام پر

"جمہوریت کے نام پر"

عہدہ و منصب دلا جمہوریت کے نام پر
تخت پر مجھ کو بٹھا جمہوریت کے نام پر

"آیتُ الکرسی" کا کرتا ہوں وظیفہ رات دن
بخش کرسی اے خدا جمہوریت کے نام پر

فاقہ کش لٹتے رہیں، پِٹتے رہیں، مٹتے رہیں
مجھ کو ڈکٹیٹر بنا جمہوریت کے نام پر

بھولی بھالی قوم کوئی اور مل سکتی نہیں
قوم کو الّو بنا جمہوریت کے نام پر

جور و استبداد شاہی دفن زیرِ خاک ہے
جاگ کر اس کو جگا جمہوریت کے نام پر

اے کہ ہے بنگال کا جادو پٹاری میں تری
فتنہء محشر اٹھا جمہوریت کے نام پر

پہلے تو دے آتشِ صوبہ پرستی کو ہوا
تیل پھر اس پر گرا جمہوریت کے نام پر

یہ اگرچہ "شر" ہے لیکن اس میں تیری خیر ہے
پھوٹ کی پھوٹے وبا، جمہوریت کے نام پر

اتحادِ قوم ہے "ڈینجر" برائے اقتدار
قوم کو باہم لڑا جمہوریت کے نام پر

تعرہء تکبیر بھی اچھا ہے لیکن اس کے ساتھ
اور اِک نعرہ لگا جمہوریت کے نام پر

دَور اب بھی دُور ہے سلطانیء جمہور کا
خوب ابھی "گھپلا" چلا جمہوریت کے نام پر

"اسپِ تازی" سر کے بل جو دو قدم چل کر گرا
بڑھ گیا آگے گدھا، جمہوریت کے نام پر

کیا ہوا جمہور کو روٹی اگر ملتی نہیں
تو "ڈنر" اور "لنچ" اڑا ، جمہوریت کے نام پر

التجا ہے تیرے رمضانی کی اے ربَّ ِمجید
اس کو بھی کرسی دلا، جمہوریت کے نام پر
 

فرخ منظور

لائبریرین
تری شان جِلّ جلالہ

تری شان جِلّ جلالہ

انہیں تو نے بخشی ہیں کوٹھیاں تری شان جِلّ جلالہ
میں ہوں لالو کھیت میں لامکاں تری شان جِلّ جلالہ

وہ کہ تیرے دین سے دور کا بھی نہیں جنہیں کوئی واسطہ
وہ ہیں تیرے دین کے پاسباں تری شان جِلّ جلالہ

کوئی فاقہ کرکے بھی ہے مگن، کوئی دال بھات پہ مطمئن
ہیں کسی کے پیٹ میں مرغیاں تری شان جِلّ جلالہ

تو یہ جانتا ہے کہ تیرے بندوں نے دہر میں ترے نام پر
وہ ستم کئے ہیں کہ "الاماں" تری شان جِلّ جلالہ

کہیں دورِ جامِ شراب ہے کہیں رقصِ حسن و شباب ہے
کہیں نامرادی ہے نوحہ خواں تری شان جِلّ جلالہ

یہ ترا مجید ترے سوا کہے کس سے درد کا ماجرا
تو ہی غم کی سُنتا ہے داستاں تری شان جِلّ جلالہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
جلوہء ڈالری

جلوہء ڈالری

کوئی مولوی ہو کہ پیر ہو، کوئی شیخ ہو کہ ہو چودھری
یہ قتیلِ "غمزہء چرچلی" وہ شہیدِ "جلوہء ڈالری"

نہ اسے خیالِ منسٹری نہ اُسے "جنونِ گورنری"
تری بارگاہ سے مل گئی جسے کوئی "مِل" کوئی "فیکٹری"

یہ خدا کے نام پہ بن گئے جو خدا کے دین کے چودھری
ابھی کل کی بات ہے کر رہے تھے صنم کدے میں "ہری ہری"

یہ سفارشیں، یہ گذارشیں، یہ نمائشیں، یہ نوازشیں
یہ صدارتوں کی گداگری، یہ سفارتوں کی گداگری

نہ ہم اپنی وضع بدل سکے نہ وہ اپنا رنگ بدل سکے
وہی اُن کی شانِ تونگری، وہی اپنی شانِ قلندری
 

فرخ منظور

لائبریرین
آٹا چاہئے

چیختے ہیں مفلس و نادار آٹا چاہئے
لکھ رہے ہیں ملک کے اخبار آٹا چاہئے

از کلفٹن تابہ مٹروپول حاجت ہو نہ ہو
کھارا در سے تابہ گولی مار آٹا چاہئے

مرغیاں کھا کر گزارہ آپ کا ہوجائے گا
ہم غریبوں تو تو اے سرکار، آٹا چاہئے

ہم نے پاؤڈر کا تقاضا سن کے بیگم سے کہا
کیا کرو گی غازہء رخسار، آٹا چاہئے

غم تری خوراک ہے غم کی ضرورت ہے تجھے
مجھ کو لیکن اے دلِ نادار، آٹا چاہئے

بوسہء لب پر ہمیں ٹرخا دیا سرکار نے
بوسہ، عاشق کو نہیں درکار، آٹا چاہئے

فاقہ کش پر نزع کا عالم ہے طاری اے مجید
کہہ رہے ہیں رو کے سب غمخوار آٹا چاہئے
 

گرو جی

محفلین
سر جی تھوڑا صبر فرمائیں ایک دن مین سب کلام شامل کر دیں گے تو پھر مزا نہیں آئے گا
 

شمشاد

لائبریرین
فرخ بھائی بہت شکریہ مجید لاہوری کا کلام شیئر کرنے کا۔

اگر تو ان کا اور کلام پوسٹ کرنے کا ارادہ ہے تو میں غیر متعلقہ پیغامات " تبصرے اور تجاویز " کا دھاگہ کھول کر ادھر منتقل کر دوں گا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ بھائی بہت شکریہ مجید لاہوری کا کلام شیئر کرنے کا۔

اگر تو ان کا اور کلام پوسٹ کرنے کا ارادہ ہے تو میں غیر متعلقہ پیغامات " تبصرے اور تجاویز " کا دھاگہ کھول کر ادھر منتقل کر دوں گا۔

جی شمشاد بھائی ارادہ تو ایسا ہی ہے کہ جو کلام مجھے پسند ہے وہ سارا پوسٹ کردوں -
 

فرخ منظور

لائبریرین
کیا ہو رہا ہے؟

میں کہتا ہوں کہ “یہ کیا ہورہا ہے؟“
وہ کہتے ہیں“ سب اچھا ہورہا ہے“

میں کہتا ہوں “گرانی بڑھ رہی ہے
بہت دشوار جینا ہورہا ہے“

فقیرالدین کا ہے حال پتلا
امیرالدین موٹا ہورہا ہے

وہ کہتے ہیں “تمہاری کھوپڑی کا
یقینا“ پیچ ڈھیلا ہورہا ہے“

گرانی کی شکائت کر رہے ہو؟
کرم یہ تو خدا کا ہورہا ہے

ہر اِک شے عالمِ بالا پہ پہنچی
ہمارا بول بالا ہورہا ہے

ستاروں سے بھی جو آگے جہاں ہیں
وہاں تک اپنا چرچا ہو رہا ہے

خدا کا شکر ہے پھر آسماں سے
جو نازل “من و سلویٰ“ ہو رہا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
الاٹ بنگلہ ہوا اور نہ کارخانہ ملا!
پناہ گیر کو فٹ پاتھ پر ٹھکانہ ملا

جنابِ قیس کی صحرا نوردیاں نہ گئیں
جو “منگھا پیر“ سے نکلا تو “لاڑکانہ“ ملا

“ستارہ“ ڈانس میں لاکھوں روپے کما لائی
جنابِ شیخ کو چندے میں ایک آنہ ملا

ہر اک قدم پہ ملے راہزن بہت لیکن
رہِ وفا میں ہمیں کوئی رہنما نہ ملا

یہ ایک ووٹ کی دولت کا سب کرشمہ ہے
ہر اِک غریب سے جھُک جھُک کے “دولتانہ“ ملا

مسرتیں تو بڑی بے رخی سے پیش آئیں
بڑے خلوص سے ہم کو غمِ زمانہ ملا

مجید کیا کہوں میں لٹ گیا “کلفٹن“ پر
پولیس ملی نہ کہیں اور نہ کوئی تھانہ ملا
 

فرخ منظور

لائبریرین
سخت دشوار ہے “بیڑی“ کا “کونڈر“ ہونا
بہت آساں ہے “منسٹر“ کا گورنر ہونا

اس کو بزنس کی ضرورت نہ کسی سروس کی
جس کی تقدیر میں ہو قوم کا لیڈر ہونا

یہ “پرواڈگہہِ“ عالم میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں “منسٹر“ ہونا

طوقِ زرّیں ہمہ در گردنِ خرمی بینم
بہتر اس دور میں انسان سے ہے “خَر“ ہونا

اِک مڈل پاس منسٹر ہو، یہ آساں ہے مگر
اِک مڈل پاس کا دشوار ہے ٹیچر ہونا

بے بسی دیکھے کوئی ٹیوب جی ٹائر جی کی
بَس کی قسمت میں تھا چوراہے پہ پنکچر ہونا

زندگی اُس کی ہے جو صاحبِ دولت ہے مجید
جرم اس عہد میں ہے مفلس و بے زر ہونا
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہائے یہ کیسا غضب اے چشمِ پُر فن کردیا
دل مرا مومن تھا جسکو تو نے میمن کردیا

ظُلمتِ شب میں جلائے دل کے داغوں کے چراغ
عشق نے ہر اشک کو بادام روغن کردیا

جلوہء تہذیبِ حاضر کی ترقی کے نثار
مرد کو چھکڑا کیا عورت کو انجن کردیا

کل کہا یہ ایک “مِس“ کے جلوہء بیباک نے
اے کراچی جا! تجھے صد رشکِ لندن کردیا

ہے کبھی مجھ سے شناسائی کبھی اغیار سے
اس روش نے تجھ کو ہر تھالی کا بینگن کردیا

اے پروڈا! تیری بھٹّی سے جو بچ نکلا وزیر
پہلے وہ سونا تھا اس کو تم نے کندن کردیا

فاتحہ پڑھنے وہ آئے بعد مردن اے مجید!
اور لحد کی خاک کو دانتوں کا منجن کردیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
بارش کا “لالو کھیت “ میں لشکر پھسل پڑا
گویا “بحالیات“ کا دفتر پھسل پڑا

ہر سمت تیرنے لگیں “منصوبہ بندیاں“
بادل جو ہرطرف سے ہوا پر پھسل پڑا

لاٹھی کو ٹیک کر جو ستوں کو کھڑا کیا
چھجا ذرا رکا تھا کہ چھپر بھسل پڑا

چُپ چاپ ایک جھگی جو پانی میں بہہ گئی
اک جھونپڑا بھی شور مچا کر پھسل پڑا

اک سمت “گولی مار“ کی بستی اجڑ گئی
کوٹی میں انکی مرغی کا اِک پر پھسل پڑا

وہ اونٹ ہو گدھا ہو کہ ہو کوئی آدمی
آیا جو اس زمین کے اوپر پھسل پڑا

سنتے ہی “ہاکس بے“ پہ بھی کل ایک نوجوان
اِک شوخ گلبدن سے لپٹ کر پھسل پڑا
 

فرخ منظور

لائبریرین
عید ملنے کا اِک بہانہ ہوا
کاٹ کر جیب وہ روانہ ہوا

لیڈری میں بھلا ہوا ان کا
“بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا“

ایک مینڈھے پہ ہی نہیں موقوف
تجھ پہ قربان اِک زمانہ ہوا

ہے یہ اِک یادگار “ویول“ کی
“لاڑکانہ“ سے “لڑکانہ“ ہوا

یہ عوامی بنا رہے ہیں “لیگ“
کیا مذاق ان کا عامیانہ ہوا

جہاں رہتے تھی “زہرہ جان“ کبھی
پیر صاحب کا آستانہ ہوا

اپنا “بُندو“ بھی بن گیا لیڈر
جب الاٹ ایک کارخانہ ہوا

ہم تو بے دال کے رہے بودم
پا کے دولت وہ “دولتانہ“ ہوا

میں لکھوں گا مجید یونہی غزل
تنگ اگر ان میں قافیہ نہ ہوا
 

فرخ منظور

لائبریرین
حاذق الملک نہ کوئی بھی رہا میرے بعد
کون دیگا تجھے کھجلی کی دوا میرے بعد

مرغیاں، کوفتے، مجھلی، بھنے تیتر، انڈے
کس کے گھر جائے گا سیلابِ غذا میرے بعد

فاتحہ خوانی میں احباب اڑائیں گے پلاؤ
اور کریں گے مری بخشش کی دعا میرے بعد

اک یہی چیز ہے جو خیر سے ہے بے راشن
کون کھائے گا کلفٹن کی ہوا میرے بعد

سینکڑوں پلان بنا کر تجھے دوں گا اے دوست
جنکے پڑھنے سے ہو “بہتوں کا بھلا“ میرے بعد

اے کہ ہے “سیفٹی ریزر“ ترا ہر ہر غمزہ
اور کس کس پہ کرے گا تُو جفا میرے بعد

کل یہ اِک اونٹ سے کہتا تھا شتربان مجید
کون ہوگا ترے غمزوں پہ فِدا میرے بعد
 

فرخ منظور

لائبریرین
تھا یہ محبت کا اثر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر
بٹ کر رہا دردِ جگر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

آئین میں ترمیم کر، انصاف سے تقسیم کر!
جنسِ وفا، حسنِ نظر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

شاداب کِشتِ حُسن ہو، سیراب ذوقِ عشق ہو
دریا بہا اے چشمِ تر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

ابرِ کرم کھل کر برس، کھل کر برس، اب کے برس
ہر دشت پر ہر کوہ پر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

کس ٹھاٹھ سے بیٹھا ہے تو اے فتنہ گر، اے فتنہ جُو
دو کرسیوں کو جوڑ کر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

زخمی اِدھر ہے میرا دل، چھلنی ادھر میرا جگر
مرہم لگا اے چارہ گر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

ہاں اے مجیدِ بے نوا، صد شکر اب تو ہوگیا
جذبِ محبت کا اثر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب فرخ۔۔ مزا آ گیا اور اپنا بچپن یاد دلا دیا جب نمکدان ہمارے گھر میں پابندی سے ڈاک سے آتا تھا والد کے نام اعزازی۔ اور میرے ذہن میں بھی اب آدھا ادھر آدھا ادھر والی ہزل ہی اب تک محفوظ رہی تھی۔
 

مسٹر گرزلی

محفلین
اگر چہ یہ پوسٹس موضوع سے ہٹ کر ہے،لیکن آپ محظوظ ضرور ہوں گے:
مجید لاہوری سے ان کے کسی دوست نے پوچھا....”مجید صاحب ! آپ دنیا بھر کے لو گوں کا مضحکہ اڑاتے ہیں ، کبھی آپ کا بھی کسی نے یوں مذاق اڑایا ہے ۔“
”ہاں .... ایک بار ....“مجید نے جواب دیا :“ہوا یوں کہ میں دفتر سے نکلا سڑک پر آیا ، ایک رکشہ والے کو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور کہا کیماڑی لے چلو گے ؟“
رکشہ والے نے میرے تن وتوش کو غور سے دیکھا ، یوں جیسے وزن کررہاہو اور پھر بولا ....”لے چلوں گا مگر دوپھیروں میں ۔“
 
Top