تعارف مجھ سے ملیے!

میں ہوں جمیل اعجاز! میں پیشے کے اعتبارسے صحافی ہوں۔ ایک روزنامے میں نیوز انچارج کے فرائض انجام دے رہا ہوں۔ کچھ اخبارات میں باقاعدگی سے کالم لکھتا ہوں اور دنیا نیوز کے اردو بلاگ میں بھی وقتآ فوقتآ نمودار ہوتا رہتا ہوں۔ مجھے بچپن ہی سے اخبارات کی دنیا سے لگائو ہے۔ اپنے ہاتھ سے بنائے کئی اخبارات آج بھی محفوظ ہیں۔ ان دنوں کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز ان انٹرنیشنل ریلیشن کررہا ہوں۔ دعائوں اور رہنمائی کی درخواست ہے!
 

نایاب

لائبریرین
محترم محمد جمیل اعجاز صاحب محفل اردو پر دلی خوش آمدید
بلا تکلف اک سوال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحافی لفظ کے ساتھ ہی " زرد زرد " کیوں دکھنے لگتا ہے ۔۔۔؟
اللہ سوہنا آپ کا حامی و ناصر رہے سدا آمین
بہت دعائیں
 
بہن ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔۔۔اصل میں انسانوں کی طرح پیشے بھی آئینے جیسے ہوتے ہیں، معاشرے ان کو ویسا ہی سمجھتا ہے جیسا وہ خود ہوتا ہے;)
 

ہادیہ

محفلین

نایاب

لائبریرین
انسانوں کی طرح پیشے بھی آئینے جیسے ہوتے ہیں
آئینے صرف عکس دکھلاتے ہیں میرے محترم بھائی
اصل چہرے پر نقلی چہرہ چڑھا آئینے کے سامنے جاؤ تو آئینہ نقل ہی دکھائے گا ۔
" زرد صحافت " اک عام اصطلاع ہے ۔ اسی کے تناظر میں پوچھا آپ سے ۔
اک سوال مزید ۔۔۔
یہ مونچھ میں چاول کیوں اٹک جاتا ہے ۔ ؟
ہنستے مسکراتے رہیں سدا ۔ آمین
بہت دعائیں
 

ہادیہ

محفلین
یہ مونچھ میں چاول کیوں اٹک جاتا ہے ۔ ؟
ہاہاہا
جو بچوں کی طرح کھاتا ہے ان کے اٹکتے ہوں گے۔ورنہ تو عموما داڑھی میں ہی دیکھا ہے کھاتے ہوئے کچھ نا کچھ لگا ہوا۔ہی ہی ہی
مذاق برطرف ۔۔ویسے آپ کے سوال کا مطلب کوئی اور تھا تو بتا دیں میں سمجھی نہیں ہوں۔
 
میرا جواب دوبارہ پڑھیں بہن۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے۔۔۔۔۔بھائی! میں نے کہا معاشرے کو صحافت زرد اسی لیے لگتی ہے کہ خود معاشرہ زردی مائل ہے!
 
Top