مجذوب مجذوب: ستاروں کو یہ حسرت ہے کہ ہوتے وہ مرے آنسو

جو صورت گیرحسن وعشق کی دنیا کہیں ہوتی
ترے ضو کا فلک بنتا مرے ظل کی زمیں ہوتی
تمنا ہے کہ اب ایسی جگہ کوئی کہیں ہوتی
اکیلے بیٹھے رہتے یاد ان کی دل نشیں ہوتی
وہاں رہتے جہاں دودو فغاں کا آسماں ہوتا
وہاں بستے جہاں خاکسترِ دل کی زمیں ہوتی
پتہ چلتا کہ غم میں زندگی کیونکر گذرتی ہے
ترے قالب میں کچھ دن کو مری جانِ حزیں ہوتی
ستاروں کو یہ حسرت ہے کہ ہوتے وہ مرے آنسو
تمنا کہکشاں کو ہے وہ میری آستیں ہوتی
دِکھادیتےمزہ پھر تم کو ہم اپنے تڑپنے کا
جو عالم بے فلک ہوتا جو دنیا بے زمیں ہوتی
نہیں کرتے ہیں وعدہ دید کا وہ حشر سے پہلے
دلِ بے تاب کی ضد ہے ابھی ہوتی یہیں ہوتی
جو میخانہ میں ہے ام الخبائث حضرتِ واعظ
پہنچ جاتی جو حجرہ میں شراب الصالحیں ہوتی
ذرا دیکھو تو تم انصاف سے مجذوب کی ہیئت
محبت کے ریاکاروں کی یہ صورت نہیں ہوتی
 
Top