مانا کہ عرضِ حال کے قائل نہیں تھے ہم

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میری کچھ غزلیں اور نثر ی تحریریں سمندر پار سے دوستوں کے خطوط کے جواب میں لکھی گئی ہیں ۔ اس لئے ان کا پس منظر بہت حد تک ذاتی ہے اور عین ممکن ہے کہ ایک عام قاری کے لئے ا ن میں کوئی خاص کشش نہ ہو ۔ بہرحال ، ان میں سے چند منتخب غزلیں اور نثری تحریریں میں احبابِ محفل کی خدمت مین پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ ایک غزل آج آپ احباب کی خدمت میں پیش ہے ۔


مانا کہ عرضِ حال کے قائل نہیں تھے ہم
سمجھے نہ کوئی ایسی بھی مشکل نہیں تھے ہم

کچھ ہوگئیں خطائیں تو معذور جانئے
انسان ہی تھے جوہرِ کامل نہیں تھے ہم

اپنے ہی شہر میں ہمیں مہماں بنادیا
اتنی مدارتوں کے تو قابل نہیں تھے ہم

طوفاں ملے جو ہم سے تو شکوہ نہ کیجئے
اک بحرِ اضطراب تھے ساحل نہیں تھے ہم

مٹ جاتے ایک موجِ گریزاں کے زور سے
نقشِ قدم تو برسرِ ساحل نہیں تھے ہم


۔ ق ۔

ہم اُٹھ گئے تو ہوگئی برہم بساط کیوں؟
اک ہم نشیں تھے رونق ِ محفل نہیں تھے ہم

ہم کھوگئے تو رُک گئے کیوں اہلِ کارواں؟
اک ہمسفر تھے جادہء منزل نہیں تھے ہم

-

ہر موڑ پر ٹھہر کے کریں راستے کی جانچ
اس درجہ احتیاط کے قائل نہیں تھے ہم

غفلت جو تھی اگر تو بس اپنے ہی حال سے
حالت سے دوستوں کی تو غافل نہیں تھے ہم

خوابوں کی آبرو بھی پسِ پشت ڈال دیں
اتنے بھی زیرِبارِ مسائل نہیں تھے ہم

گزری تو خیر جیسی بھی لیکن لگا ہمیں
اُس انتظارِ زیست کا حاصل نہیں تھے ہم

شکوہ نہیں ہے بابِ اثر سے ہمیں ظہیر
اپنی دعائے خیر میں شامل نہیں تھے ہم

ظہیراحمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۸


 

محمداحمد

لائبریرین
کچھ ہوگئیں خطائیں تو معذور جانئے
انسان ہی تھے جوہرِ کامل نہیں تھے ہم

مٹ جاتے ایک موجِ گریزاں کے زور سے
نقشِ قدم تو برسرِ ساحل نہیں تھے ہم

ہم اُٹھ گئے تو ہوگئی برہم بساط کیوں؟
اک ہم نشیں تھے رونق ِ محفل نہیں تھے ہم

ہم کھوگئے تو رُک گئے کیوں اہلِ کارواں؟
اک ہمسفر تھے جادہء منزل نہیں تھے ہم

غفلت جو تھی اگر تو بس اپنے ہی حال سے
حالت سے دوستوں کی تو غافل نہیں تھے ہم

خوابوں کی آبرو بھی پسِ پشت ڈال دیں
اتنے بھی زیرِبارِ مسائل نہیں تھے ہم

شکوہ نہیں ہے بابِ اثر سے ہمیں ظہیر
اپنی دعائے خیر میں شامل نہیں تھے ہم

محترم ظہیر بھائی ! عمدہ اشعار!

ایک سے بڑھ کر ایک۔ ماشاءاللہ۔

بہت سی داد!
 

جاسمن

لائبریرین
کچھ ہوگئیں خطائیں تو معذور جانئے
انسان ہی تھے جوہرِ کامل نہیں تھے ہم

ہم اُٹھ گئے تو ہوگئی برہم بساط کیوں؟
اک ہم نشیں تھے رونق ِ محفل نہیں تھے ہم

ہم کھوگئے تو رُک گئے کیوں اہلِ کارواں؟
اک ہمسفر تھے جادہء منزل نہیں تھے ہم
کس قدر اُداسی ہے اِس غزل کے شعروں میں۔
اِسے پڑھ کے یاد آگئی۔۔۔
اِک بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
۔۔۔۔۔
شامِ الم ڈھلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول۔۔۔۔

۔۔۔۔
بہت ہی پیاری غزل ہے۔
اُداسیوں سے بھری ہوئی۔
ڈھیروں داد قبول کریں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کس قدر اُداسی ہے اِس غزل کے شعروں میں۔
اِسے پڑھ کے یاد آگئی۔۔۔
اِک بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
۔۔۔۔۔
شامِ الم ڈھلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول۔۔۔۔

۔۔۔۔
بہت ہی پیاری غزل ہے۔
اُداسیوں سے بھری ہوئی۔
ڈھیروں داد قبول کریں۔

نوازش! بہت شکریہ! جیسا کہ عرض کیا یہ غزل ایک خاص پس منظر رکھتی ہے ۔ سو ایک اداسی کی سی کیفیت اس پر طاری ہے ۔ آپ نے پڑھ کر تبصرہ لکھا اس کے لئے بہت شکرگزار ہوں ۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے!
 
کچھ ہوگئیں خطائیں تو معذور جانئے
انسان ہی تھے جوہرِ کامل نہیں تھے ہم

ہم اُٹھ گئے تو ہوگئی برہم بساط کیوں؟
اک ہم نشیں تھے رونق ِ محفل نہیں تھے ہم
بہت اعلیٰ اور لاجواب اشعار ہیں ۔ ایسی شاعری صرف آپ کا ہی خاصہ ہو سکتی ہے ۔ ڈھیروں داد ظہیر بھائی ۔
 
Top