ماسٹر اور ٹیچر

میرا بیٹا نیا نیا اسکول میں داخل ہواتو میں نے اسے پوچھا’ بیٹا آپ کےماسٹروں کے کیانام ہیں؟
وہ کہنے لگا..کونسے ماسٹرابو؟
میں نے کہا..بیٹے وہی ماسٹر جوآپ کے اسکول میں ہوتے ہیں
نہیں ابوہمارے اسکول میں توکوئی ماسٹر نہیں ہوتے“وہ بولا
ہائیں!غضب خدا کا اسکول میں ماسٹر نہیں ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
کہہ جورہا ہوں کہ ہمارے اسکول میں ماسٹرنہیں ہیں
ماسٹر نہیں ہیں توپھر تمییں پڑھاتا کون ہے؟
ہمیں ٹیچر پڑھاتے ہیں۔
اچھا․․․بہت خوب․․․بہرحال آپ کے اسکول میں ہیڈ ماسٹرہوگا
وہ بھی نہیں ہے․․․ ہمارے پرنسپل ہیں
یہاں پہنچ کرمیں خاموش ہوگیا کیونکہ میرے زمانے میں توماسٹر ہواکرتے تھے اور میرے بیٹے کے زمانے میں ٹیچر اور پرنسپل تھے چنانچہ گفتگو آگے کس طرح بڑھتی۔
تھوڑی دیر کے بعد میرابیٹا کہنے لگا”ابو آپ کے زمانے میں توماسٹر ہواکرتے تھے ناں توماسٹر اور ٹیچر میں کیافرق ہوتاہے؟
میں نے کہا”بھئی ماسٹر اور ٹیچر میں بہت فرق ہوتا ہے ماسٹر ہوتا ہے شلوارقمیض پہنے اوپر سے بند گلے کی واسکٹ‘سائیکل تھامے‘ ہنیڈل پر تھیلا لٹکائے اور اس تھیلے میں اکثراوقات حسب پسند ایک عدد چھڑی․․․اور بہت غریب غربا قسم کی مخلوق‘خواہ مخواہ کو پڑھاتا رہتا ہے ٹوشین نہیں پڑھاتا،خواہ مخواہ پڑھاتا ہے اور صرف اس لئے کہ اس کارزلٹ اچھا آئے اور سینہ تان کراسکول میں چل سکے․․․اب ٹیچر کے بارے میں توتم ہی بتاسکتے ہوکہ ٹیچر کیاہوتاہے۔
ابوہمارا ٹیچر توسوٹ پہنتا ہے اور اس کے پاس مائیکل جیکسن کی ڈھیرساری کیسٹیں ہیں
بس یہی فرق ہے ماسٹر اور ٹیچرمیں
یہ گفتگو مجھے یاد آئی کہ کل شام ہمارے اسکول میں پڑھنے والے اولڈ بوائیزکا ایک اجلاس تھا جس میں بے شمار بوڑھے ‘گنجے،دُبلے پتلے،موٹے،امیرغریب لائق اور نالائق”بوائیز“ جمع تھے پہلے توحسب معمول کلاس میں کی گئی شرارتوں کے تذکرے ہوئے گفتہ اور ناگفتہ کا بیان ہواایک دوسرے پرخوشی خوشی کیچڑ اچھالا گیااور پھر گفتگو کارُخ”ماشٹروں“ کی جانب مڑگیا ہرایک نے حسب توفیق اپنے ماسٹروں کی توصیف کی کہ کس طرح وہ مشقت سے بغیر لالچ کے ہمیں پڑھایا کرتے تھے اور آج ہم جوکچھ بھی ہیں ان کی ”پڑھائیوں“ کے بدولت ہیں،اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجردے گا ہم کیادے سکتے ہیں سوائے دعاؤں کے․․․تب میرے ذہن میں وہ تمام ماسٹر آئے جنہوں نے مجھے پڑھایا بلکہ یوں کہیے کہ پڑھانے کی کوشش کی اور اگر ہم آج تک نالائق چلے آرہے ہیں اتواس میں ان کاقصور نہ تھا میرا خیال ہے بارے ماشٹروں کے کچھ بیاں ہوجائے۔
سب سے دہشت ناک یاد ماسٹردین محمد کی ہے ہم چھٹی جماعت میں تھے پہلے روز فارسی پڑھانے کے لیے ماسٹردین محمد تشریف لائے کسرتی اور متناسب جسم،حجامت فوجیوں جیسی بڑے مزے سے پہلا سبق پڑھا، گپ شپ لگائی اور چلے گئے۔دوسرے روزبھی آئے اور مسکراہٹیں بکھیرتے پڑھاتے رہے، چنانچہ وہ وہ ہمارے پسندیدہ ماسٹر ہوگئے نہ ہاتھ میں چھڑی نہ چہرے پر خشونت اور نہ کسی کو کچھ کہنا اور نہ ہی سننا․․․ہماری سمجھ میں یہ نہ آیا اسکول کے پہلے دن سینئرلڑکوں نے یہ کیوں کہا تھا کہ ماسٹر دین محمد سے بچ کے رہنا قصائی ہے قصائی․․․بھلا اتنے خوشگوارشخص کوقصائی کہنا کہاں کی شرافت ہے․․․بہرحال ایک روز ماسٹرصاحب فرمانے لگے کہ بھئی بچومیں نے تمہیں محنت سے پڑھایاہے..میری درخواست ہے کہ کل آپ ساراسبق یاد کرکے آئیں میں سنوں گا․․․دوسرے روز حسب سابق آئے بچوں سے سبق سنا جس بچے کویاد ہوتا اسے ایک طرف کھڑا کردیتے اور جسے نہ یاد ہوتا اسے دوسری طرف،جب یہ کام مکمل ہوگیا تومعلوم ہواکہ جن بچوں کوکچھ یادتھان کی تعداد چھ ہے اور بقیہ حضرات تقریباََ تیس ہیں جو کھڑے مسکرائے چلے جارہے تھے․․․ماسٹر صاحب پیچھے مڑے ہم نے سمجھا کمرے سے باہر جانے لگے ہیں لیکن نہیں انہوں نے دروازہ بند کرکے چٹخنی لگائی پھرایک لمبی ساری دبیزچھڑی(بلکہ سوٹی) پتہ نہیں کہاں سے برآمد کی اور اسی طرح مسکراتے ہوئے کہنے لگے” میرے پیارے طالب علموں جن بچوں نے سبق یاد کیا ہے وہ ذرا ادھر ہوجائیں کیونکہ یہ سارے جنتی ہیں اور جنہوں نے یاد نہیں کیاوہ جہنمی ہیں اور جہنم میں رہنے والوں کوسزاملنی چاہیے․․․اس کے بعد انہوں نے چھڑی کوتلوار کی طرح فضا میں بلند کیااور ”یاعلی“ کانعرہ لگاکرجہنمیوں پرٹوٹ پڑے دروازہ بند تھا اور پورے دس منٹ ماسٹر دین محمد نے جہنمیوں کومارمار کران کا بھرکس نکال دیا۔جب وہ کمرے سے باہر گئے توکلاس روم میں میدان جنگ کے بعد کانقشہ تھا،امی جانوں کویاد کیا جارہا تھا،ہائے ہائے کیا جارہا تھا،متاثرہ حصوں پر پھونکیں ماری جارہی تھیں اور آنسوتھے کہ تھمنے میں نہ آتے تھے․․․میں نے ایک غیر جانبدار مبصر کی حیثیت سے یہ تمام یک طرفہ جنگ دیکھی کیونکہ خوش قسمتی سے میں جنتیوں میں شامل تھا۔
اگلے روز جب فارسی کا پیریڈ آیا توہم سب کونہ صرف”شنیدہ کے بود ماننددیدہ“ کامطلب بھی آتا تھا بلکہ ہم نے شیخ سعدی کے اشعار بھی زبانی یادکرنے کی کوشش کی تھی۔ماسٹردین محمد حسب معمول مسکراتے ہوئے آئے لیکن لڑکوں کودیکھ یک دم سنجیدہ ہوگئے”یہ جنتی اور جہنمی آپس میں گھل مل کے کیوں بیٹھے ہوئے ہیں جنتی ایک طرف اور جہنمی دوسری طرف․․․بے چارے جہنمیوں نے عرض کی کہ ماسٹر صاحب سب یادہے بے شک سن لیں لیکن ماسٹر صاحب نے چھڑی گھمائی اور جنتیوں کوالگ بٹھایا اور جہنمیوں کوالگ․․․حسب معمول انہوں نے ”یاعلی“ کانعرہ لگایااور جہنمیوں پر ٹوٹ پڑے پانچ منٹ تک انہیں پیٹتے رہے پھر کتاب اٹھا کرآرام سے اگلا سبق پڑھانے لگے اس کے بعد روزانہ یہی ہوتا کہ وہ کلاس میں داخل ہوتے پہلے پانچ منٹ جہنمیوں کی پٹائی کرتے اور پھر پڑھائی کرتے جہنمیوں نے لاکھ منت سماجت کہ ماسٹر صاحب اب توسن لیں ہمیں یاد ہے ہمیں یاد ہے لیکن ماسٹر صاحب کہتے کہ جوایک مرتبہ جہنم میں چلاگیا سوچلا گیا واپس نہیں آسکتا․․․پورے دس روزبعد انہوں نے پھرسبق سنااور اس مرتبہ سارے ہی جنتی ہوگئے۔
جب کبھی ایران سے گزرہوامجھے ماسٹردین محمد بہت یادآئے وہ بہت بے دردی سے پیٹتے تھے لیکن تہران میں‘تبریزمیں ‘مشہد میں انہی کے یاد کرائے ہوئے فارسی کے لفظ بول کرمیں نے راستے دریافت کیے،ایرانیوں کے ساتھ گفتگوکی اور میں ان کاشکرگزار ہوں۔
آٹھویں جماعت میں ہمارے حساب کے استاد ماسٹر نادرخان تھے بعدمیں معلوم ہواکہ وہ دراصل نادرشاہ ہیں۔موٹے کھدر کی شلوار قمیض‘اوپرکوٹ‘بڑی بڑی نادرشاہی مونچھیں اور طرے دار پگڑی کہیں ملاقات ہوجاتی توہاتھ ملانے کی بجائے طالب علم کاکان پکڑکرزور زور سے کھینچتے اور کہتے’ اوئے کیاحال ہے تیرا؟اور جواب آتا”ہائے ماسٹر جی بڑااچھا ہائے حال ہے“میراحساب توواجبی تھا لیکن الجبرے کے موجد کوکبھی معاف نہیں کرسکتا ماسڑنادرخاں بھی میری اس کمزوری سے واقف تھے چنانچہ سردیوں کی خوشگوار دھوپ میں جب اوپن ائرکلاسیں شروع یوجاتیں توماسٹر صاحب بلیک بورڈ پر سب سے پہلے الجبرے کا کوئی سوال لکھ دیتے اور کہتے’آنا توادھرمس تن سراور نکالنا ہاں ذرا یہ سوال“ میں لرزتی ٹانگوں سے لڑکھڑاتا ہواتختہ سیاہ کی جانب یوں روانہ ہوتاجیسے پھانسی کے تختے کی جانب جارہاہوں چاک ہاتھ میں لیتا سرکوکھجاتااور اس طرح گہری سوچ میں غرق ہوجاتاجیسے اس سے بیشتر سوچنے کے عمل سے میں الجبرے کاسوال حل کرلیا کرتا ہوں۔
اوئے کدھرچلاگیا ہے؟ماسٹر صاحب گرجتے اور میں چاک رکھ کران کے سامنے اپنی ہتھیلیاں کھول دیتا․․․اور چھڑی کی ضرب سے پیشترہی ”ہائے ماسٹرجی“ کانعرہ لگادیتا۔
ورینکلرفائنل کا امتحان سرپرآیا توماسٹرنادرخاں کوبخارچڑھ گیا وہ دن رات ایک کرکے طالب علموں کوپڑھانے لگے۔رات کی کلاسیں اس طرح شروع ہوئیں کہ ایک روزماسٹر صاحب نے چھٹی کے وقت حکیم دیاکہ آج سے تمام لڑکے شام کاکھانا کھاکرسیدھے اسکول آئیں اور یہاں پرتین گھنٹے مزید پڑھائی ہوگی۔جملہ طالب علموں کی توبس جان ہی نکل گئی کہ اب دن کے بعدرات کوبھی شامت آئے گی اور وہاں اس ایکسٹراپڑھائی کے لئے کوئی علیحدہ فیس وغیرہ نہیں تھی صرف ماسٹرنادرخان کی لگن تھی ایک دو لڑکوں نے حسب توفیق بہانے بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوگئے تب مجھے پسلیوں میں ٹہوکے دے دے کرکہاگیاکہ تم ہی کچھ کرومیں کھڑاہوگیا”جناب ماسٹر صاحب جیساکہ آپ جانتے ہیں آج کل سردیون کازمانہ ہے سردی بہت ہے ہم چھوٹے چھوٹے بچے کس طرح اسکول پہنچیں گے۔
نہیں پہنچیں گے تو اگلے دن بیس بیس بید کھایں گے چھوٹے چھوٹے بچے ماسٹرصاحب گرج کو بولے۔
میں جی پھر کمبل لے آؤں ساتھ․․․میں نے گزارش کی۔
توکمبل چھوڑ رضائی لے آنا․․․پرآجاناورنہ“ وہ بھناگئے۔
اس شال کھانے کے بعدمیں نے گھرکی سب سے طویل وعریض رضائی سائیکل کے کیرئرپر باندھی اور اسکول پہنچ گیاجو نہی میں رضائی سرپراٹھائے کلاس روم میں داخل ہواوہاں”رضائی زندہ باد“ کے نعرے لگنے لگے چونکہ شام کی نشست کے لئے کمرے میں سے ڈیسک اور کرسیاں وغیرہ اٹھاکرصفیں بچھادی گئی تھیں اس لئے ٹیک لگاکربراجمان ہوگیا۔ماسٹر نادرکمرے میں داخل ہوئے طالب علموں کی تعداد دیکھ کربہت خوش ہوئے بلیک بورڈصاف کرکے اس پرکوئی سوال لکھنے لگے تو ان کی نظرمجھ پرپڑی۔ اوئے توحقہ پینے آیاہے یہاں مستنصر․․․یہ رضائی کس کی ہے؟میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے کہا”ماسٹر صاحب میری ہے اور آپ نے خود ہی توکہاتھاکہ توکمبل چھوڑرضائی لے آنا۔
ماسٹر صاحب کے چہرے کی رنگت بدلی دانت کچکچائے لیکن وہ کچھ بولے نہیں اور نظریں نیچی کرکے پڑھانے لگے چونکہ سردی توتھی اس لئے آہستہ آہستہ باقی لڑکوں کی ٹانگیں اور ہات میری رضائی کی گرمی میں پہنچنے لگے تھوڑی دیربعد نصف سے زیادہ کلاس میری رضائی سے لطف اندوزہورہی تھی اس موقع پرماسٹر نادرخان نے بلیک بورڈپرالجبرے کاایک سوال لکھا”آہاں رضائی والے باؤ‘نکال یہ سوال اب ظاہر ہے یہ صریحاََ خودکشی کی دعوت تھی میں نے رضائی کواپنے آپ سے علیحدہ کیااس سوال کودیکھا جومیری موت تھاماسٹر نادرکے ہاتھ میں پکڑے بیدکودیکھا جو میرامنتظر تھااور بلیک بورڈکی جانب آہستہ آہستہ قدم قدم اٹھانے لگایہی وہ لمحہ تھاجب پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت نوازش کوکمرے میں روشن بجلی کے واحد بلب کے بٹن کوآف کردیناتھا․․․چنانچہ عین اس وقت جب میں تختہ دار پرچڑھنے کوتھا روشنی گل ہوگئی اور دھماچوکڑی مچ گئی ماسٹر صاحب اپنا بیداٹھائے اندھیرے میں ہی حساب کتاب لگاتے مجھ پر وار کرنے لگے لیکن میں واپس اپنی رضائی میں پہنچ چکاتھاجس کی دبیزتہیں میرے لئے ڈھال کاکام دے رہی تھیں اندھیرے سے فائدیہ اٹھاتے ہوئے بیشتر لڑکے کھسلتے کھسلتے کلاس روم سے بھاگ گئے اور ان میں میں بھی شامل تھا اپنی رضائی سمیت․․․دوسری صبح ماسٹر نادرنے ہمیں ہیڈماسٹر صاحب کے حوالے کردیا اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی․․بہت عرصہ بعدایک روزمیری دکان پرایک بوڑھا شخص آیاجس کی مونچھیں مردہ ہوچکی تھیں آواز میں تھراہٹ تھی اور آنکھیں بجھ رہی تھیں میں نے ہاتھ آگے کیا تو اس نے مجھے گلے لگالیا۔
مستنصرمیں بڑے فخرسے لوگوں کوکہتاہوں کہ تومیراشاگرد ہے․․․میری آنکھوں میں نمی کی ہلکی تہ اترآئی یہ ماسٹر نادرخاں تھے․․․ہاں ماسٹر اور ٹیچرمیں بہت فرق ہوتاہے
ازقلم….مستنصر حسین تارڑ
 
ہماری کلاس میں بھی ریاضی اور کیمیا کے ماسٹر تھے شفیق صاحب جن کا مزاج ماسٹر نادر خان سے ملتا تھا البتہ میرا الجبرا مضبوط تھا اور کیمیا کمزور
 
Top