ٹائپنگ مکمل لفظ از صبا اکبر آبادی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آمنہ کی گود میں روشن تھا کعبے کا چراغ
منزلِ ظلمات میں توحید کا پہلا چراغ
روشنی جس کی ازل سے تا ابد ایسا چراغ
ہو گیا ہر ایک قصرِ جہل کا ٹھنڈا چراغ
لَو بڑھی ایسی محمد مصطفےٰ کے نام کی
روشنی ہر سمت پھیلا دی خدا کے نام کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ یتیمِ کعبہ ، وہ سارے یتامٰی کا کفیل
لفظ جس کے رودِ کوثر جس کی باتیں سلسبیل
آرزوئے یوسف و یعقوب و عیسٰی و خلیل
وہ وجودِ خالقِ واحد کی اک محکم دلیل
فکرِ انسانی کے بل جس نے نکالے وہ رسول
جس نے ذہنی بُت زباں سے توڑ ڈالے وہ رسول
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ محمد حمد خالق جس کا شغل مستقل
موج باری جس کا سینہ عرش اعظم جس کا دل
جس کےصدقے میں ہوئی برپا یہ بزم آب و گل
عدل جس کی زندگانی جس کی فطرت معتدل
منصفی کا بول جس سے دہر میں بالا ہوا
نور مطلق قالب انصاف میں ڈھالا ہوا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تھا محمد لفظ اول دفتر کن پر رقم
ہوگئے تخلیق جس کے واسطے لوح و قلم
جس کی ترتیب مجلی ہے بہ اعزاز و حشم
حرف ساکن حمد کا اس میں مشدد ہے بہم
معجزہ ہے ذات کا یا منزل الہام ہے
دفتر اسمائے عالم میں یہ پہلا نام ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ اماموں کاامام اور وہ رسولوں کارسول
گلشن تقدیس کا مہکاہوا شاداب پھول
جس نے تازہ کردیئے احکام قدرت کے اصول
جس پہ کرنوں کی طرح آیات مصحف کا نزول
امن اور تہذیب کا عنوان جس کی زندگی
چلتاپھرتا بولتا قرآن جس کی زندگی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ ہوا پیدا تو بت خانوں میں آیا زلزلہ
ہوگیا ٹھنڈا ہزاروں سال کا آتشکدہ
کج رووں کومل گیا منزل کاسیدھا راستہ
ہوش میں آنے لگا دنیا کا ہروحشت زدہ
تہلکہ برپا ہوا سنگیں دلوں کی بزم میں
دست بستہ علم آیا جاہلوں کی بزم میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جب وہ بولاشاعروں کی سب طلاقت چھن گئی
جو فصیح العصر تھے ان کی فصاحت چھن گئی
جو قوی بازوتھے ان کی ساری قوت چھن گئی
طالب تعظیم مغرورں کی نخوت چھن گئی
جام کوثر بھر گئے سب تشنہ کاموں کےلیے
آگیا فرمان آزادی غلاموں کے لیے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نوع انساں کا معلم صاحب ام الکتاب
صفحہ ہستی پہ جس نے لکھ دیا وحدت کا باب
کشت ویران جہاں پر جیسے رحمت کا سحاب
جلوہ خالق نظر سے جس نے دیکھا بے حجاب
چرخ ہفتم اصل میں اک فرش نعلیں اس کا تھا
عرش اعلی پر مقام تاب قوسیں اس کا تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ حطیم کعبہ سے عرش الہی کا سفر
شیشہ صافی سےجیسےپار ہوجائےنظر
ساتھ میں روح الامیں باندھے ہوئے اپنی کمر
عرض کی، اک حد پہ محبوب خدا کو چھوڑ کر
آپ تو ہیں نور، عین نور میں ڈھل جائیں گے
بال بھر آگےبڑھوں گا میں تو پر جل جائیں گے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ شب معراج حد ارتقائے بندگی
وہ حضور خالق کُل سجدہ ہائے بندگی
وہ عطائے بیکراں وہ ادعائے بندگی
وہ خدائی کی حکومت زیر پائے بندگی
اک بشر کو دہر کی فرماں روائی مل گئی
بندگی نے سر جھکایا اور خدائی مل گئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جذبہ بیدار کو انعام خدمت مل گیا
قلب کو گنجینہ ذوق عبادت مل گیا
شوق کو اذن نجاتِ آدمیت مل گیا
سر جو سجدے میں جھکا تاج شفاعت مل گیا
عارض والفجر کی تابندگی بخشی گئی
گیسوئے والیل کی رخشندگی بخشی گئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اور کیا تھے طالب و مطلوب میں ناز و نیاز
ہیں یہ اسرارِ الٰہی یا رسالت کے ہیں راز
ہاں پئے اُمّت عطا فرما دیا یہ امتیاز
دے دیا معراج مومن کے لیے فرضِ نماز
جو سرِ مسلم نمازِ فرض میں جھک جائیگا
وہ زمیں پر رہ کے معراجِ عقیدت پائیگا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اے امام المرسلینِ اولین و آخرین
نقش ہیں سجدے ترے اب تک سرِ عرشِ بریں
اے نمازوں کے موسس ، قبلہ دنیا و دیں
ہے عبادت گاہ تیرے واسطے ساری زمیں
تا قیامت رشک جس پر آئے گا افلاک کو
تیری پیشانی نے وہ رتبہ دیا ہے خاک کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہادی انسانیت، اخلاقِ کامل کے نشاں
اے انیس بے کساں ، اے حامی بےچارگاں
بندگی ماسوا سے تو نے بخشی ہے اماں
آدمیت پر ترے الطاف ہیں کیا بیکراں
مرضی معبود جس سے آ گئی تھی جوش میں
مرتضٰی نے پرورش پائی تری آغوش میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مرتضٰی مشکل کشا، تیرا وزیر معتبر
جو کبھی شمشیر تھا تیری کبھی تیری سپر
جس نے دنیا کو نہ دیکھا تیری صُورت دیکھ کر
نامِ نامی میں ہے جس کے آج تک اتنا اثر
زندگی بھر جو امیں تھا قوّتِ اسلام کا
آج بھی نعرہ لگاتے ہیں ہم اُس کے نام کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جَو کی روٹی تھی غذا اور فقر تھا جس کا لباس
عشق پر بنیاد جس کی ، دین پر جس کی اساس
شیر کی صُورت جو گزرا تہلکوں سے بے ہراس
جوہرِ قابل تھا وہ دنیا میں تو جوہر شناس
مختصر الفاظ میں دفتر کا دفتر کہہ دیا
جس کو تو نے اپنے شہرِ علم کا دَر کہہ دیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بحر عرفاں میں علی اک گوہرِ یکتا بھی ہے
صرف شہرِ علم کا دَر ہی نہیں دریا بھی ہے
صاحبِ حلم و کرم بھی ہے چمن آرا بھی ہے
ضیغمِ اسلام بھی ہے لطفِ سر تا پا بھی ہے
بہرِ گلزارِ نبی اپنے گُلِ تر دے گیا
دینِ حق کے واسطے شبیر و شبر دے گیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کشتی اسلام کو جس نے تر ایا وہ علی
منتشر ہونے سے قرآں کو بچایا وہ علی
جز خدا دنیا جو خاطر میں نہ لایا وہ علی
جو بڑی مشکل میں دیں کے کام آیا وہ علی
شامِ ہجرت دوسرا تھا کون حیدر کی طرح
فرشِ پیغمبر پہ جو سوتا پیمبر کی طرح
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فرشِ پیغمبر کہاں اور مسجد کوفہ کہاں
کیا ضروری ہے جو کہیے واقعاتِ درمیاں
کروٹوں پہ کروٹیں لیتا رہا دَورِ جہاں
خون سے رنگیں نظر آتی ہے ساری داستاں
مکر کے سکّے چلے پھر دین کے بازار میں
پھر منافق غرق دیکھے نشہ پندار میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کون ہوتا ہے منافق، کس کو کہتے ہیں نفاق
دل میں رکھے بغض او ر ظاہر میں رکھے اتفاق
ڈال دے اربابِ اُلفت میں جو طرحِ افتراق
جس کی فطرت میں ہو کینہ جس کی طینت انشقاق
لوٹ لے اپنے وطن والوں کو جو پردیس میں
پشت سے خنجر چلائے دوستی کے بھیس میں
 
Top