لعل شہباز

زاھر چوہان

محفلین
غلام مصطفیٰ عرف لعل شہباز

سبک رفتار گھوڑی کھیتوں کے درمیان بنی پک ڈنڈی پر جارہی تھی اور اسکا سوار قران مجید کی تلاوت میں مگن تھا کھیتوں کا سلسلہ دور تک پھیلا ہوا تھا یہ اس کا روز کا معمول تھا اس کی عمر لگ بھگ چالیس سال تھی لیکن اپنی اچھی صحت کی بنا پر طبعی عمر سے پانچ سال کم نظر آتا تھا اس کا نام غلام مصطفی تھا لیکن ہر کوئی اسے لعل شہباز کہتا تھا
لعل اس لیے کہ وہ حکمت بھی جانتا نبض شناس حکیم کے طور پر جانا تھا اس لیے لوگ اسے لعل کہتے تھے یعنی ایک نایاب اور قیمتی موتی اپنے فن کی وجہ سے وہ بہت ہی قیمتی تھا
اور شہباز کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ
شہباز یعنی شاہین کی طرح پرواز کرتا رہتا تھا اس کی سواری ایک ہلکے سرخ رنگ کی ایک گھوڑی تھی جو اس سے کافی مانوس تھی
اس دن بھی ایسے ہی اپنے معمول کی طرح اپنے کھیتوں کی سیر کو گیا ہوا تھا
اس کا رقبہ تقریبا ۶۰ ساٹھ ایکٹر پر مشتمل تھا
برکت کا دور تھا اسلیے تمام زمین کاشت نہیں کی جاتی تھی
جس زمین کو کنوئیں سے سیراب کرنا اسان ہوتا اسے کاشت کیا جاتا تھا
اتنے میں گھڑ سوار قران مجید کا ایک پارہ بھی ختم کیا اور قریبی گاؤں کی طرف چل پڑا جیسے ہی اس گاؤں میں داخل ہوا ایک ہلچل مچ گئی لوگ دوڑےآرہے تھے ہرکسی کی خواہش تھی وہ اسکا مہمان بنے اتنے میں لعل شہباز نے کہا کہ ادھر ہی چار پائی لے آؤ اور اگر کوئی مریض ہے تو اسے بھی لے آؤ تھوڑی دیر بعد لعل شہباز ہجوم میں گھرا ہوا تھا اور اطمنان سے مریضوں کی نبض چیک کر رہا تھا
اسکے پاس دواؤں کا ایک تھیلا بھی موجود رہتا تھا جس میں بہت سی دوائیں ہوتیں تھی
ہر مریض کو اسکے مرض کےمطابق دوائی بھی دیے جارہا تھا کچھ دیر بعد مریض ختم ہوگئے سب کو ہی مفت دواء دی گئی تھی اب صرف اس کے ہم عمر ہی بچے تھے تھوڑی دیر تک سب کےحال احوال پوچھتا رہا پھر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا
اسکا گھر بستی کے قلب میں تھا
گھر کے قریب ہی علم وعرفان چشمہ بہاتی علاقے مشھور مسجد تھی جس کے ساتھ مدرسہ بھی ملحق تھا جیسے ہی لعل شہباز مدرسے کے قریب سے گزرتا اور وہاں موجود طالبعلموں معلوم ہوجاتا تو ان کی آوازیں دھیمی ہوجاتیں کیوں کہ لعل شہباز قران مجید کے حافظ کے ساتھ ساتھ عربی فارسی کا بھی ماہر اور حافظ تھا دور سے طالبوں کی غلطی پکڑلیتا تھا اور ڈانتا بھی تھا کہ طالب پڑھائی پر توجہ نہیں دیتے
وہ اکلوتا تھا اسکے بہن بھائی نہیں تھے کیوں کہ اسکے بچپن میں اسکی بستی میں طاعون کی وباء آئی تھی جس میں اسکے ماں باپ لقمہ اجل بن گئے
لیکن اللہ کی قدرت نے اسے بچا لیا اور پرورش بھی کی اور اب اس کی نسل آگے چل پڑی ہے
غصیلی طبیعت کا مالک لعل شہباز بلاوجہ بھی غصہ نہیں کرتا تھا
ایک دفعہ صبح صادق کے وقت تہجد کیلے اٹھتا ہے تو ایک بکری ممنا رہی تھی بکریوں کے باڑے میں جاکے دیکھا باقی بکریاں سکون سے بیٹھی تھیں لیکن اس ایک بکری کو پتا نہیں کیا ہوا جو منما رہی تھی
وہ اندر داخل ہوا اور اس بکری پکڑ کر باھر لے آیا اور طرف باندھ کر اسے گھاس ڈال دیا بکری گھاس کو دیکھ کر بے تاب ہوگئی جیسے ہی گھاس ڈالا گیا وہ جلدی جلدی کھانے لگی وہ بھی حیران تھا کہ شام کو تو سب گھاس ڈالا گیا اور سب بکریوں پیٹ بھی بھر لیا تھا پھر اسے کیا ہوا چلو لگ گئ ہوگی بھوک یہ سوچتے ہوئے اور گھاس لاکر بھی اسکے سامنے ڈال دیا
اور وضو کر کے تہجد کیلے کھڑا ہوگیا دورکعت پڑھ کے سلام پھیرا پھر اور نیت کرکے دو اور پڑھنے لگا ابھی پہلے رکعت میں تھا کہ بکری پھر منمانے لگی لیکن وہ اپنی نماز میں مگن رہا یہاں تک نماز مکمل ہوگئی ذکر اذکار کیے اور دعاء مانگی جیسے ہی سونے کیلے بستر پہنچا تو بکریپھر منمانے لگی اب تو اسے غصہ آگیا
چھری آٹھائی اور جاکر بکری کو ذبح کر ڈالا اور کتنا گھاس ڈالوں اس لیے مجھے ایسی بکری نہیں چاہیے بکری کی اتارتے ہوئے وہ کہہ تھا کھال اتار کے بکری کو ایسےمحفوظ جگہ پر رکھ کر تھوڑی دیر تک سو گیا
پھر فجر کی اذان ہوئی اور مسجد کی طرف رواں ہوگیا نماز کے بعد اعلان کیا کہ میں بکری ذبح کی ہے آج طالبوں کو میری دعوت ہے کھانا میری طرف سے ہوگا
پھر دوپھر کو بڑے دیکچے میں سالن مدرسے پہنچا دیا گیا
تو جناب
یہ تھے میرے پردادا جان غلام مصفطی عرف لعل شہباز
ان کے دو بیٹے تھے میرے ناناجان اور میرے دادا جان
ناناجان عالم باعمل تھے اور دادا جان ایک منجھے ہوئے صحافی تھے دونوں ہی علم کے شیدائی تھے لکھنے پڑھنے سے دونوں کو ہی شغف تھا
اب سوچتا ہوں کہ میں انکو شعور کی عمر میں نہ پاسکا داداجان تو بہت ہی جلد اس دار فانی سے کوچ کرگئے جب تین چار سال کا تھا اور نانا بھی جلد ہی چلے گئے
ناناجان کا آخری سبق مجھے آج بھی یاد ہے
آلم پارہ کا آخری رکوع مجھے یاد کروایا تھا پھر آنکھ کے آپریشن کے سلسلے میں بھاول پور چلے گئے وہاں انھیں ہارٹ اٹیک ہوا اور ہسپتال میں دار فانی سے کوچ کرگئے
اب میں تہی دامن ہوں اگر ان دونوں میں سے کسی بھی ساتھ ہوتا تو بہت سے نایاب گوہر ہاتھ لگتے بہت سا علم اپنے اندر سموتا
لیکن کاششش
بس کاش پے اکتفاء ہے

قبر کے تہہ خانے سے اقتباس
تحریر :زاہر احتشام
 
Top