لاہور میں صحافی نے وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو جوتا دے مارا

حسینی

محفلین
لاہور میں صحافی نے وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو جوتا دے مارا
248390-Shahbaz-1398324537-370-640x480.jpg


لاہور:
سابق امریکی صدر جارج بش، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، ہیلری کلنٹن، عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجری وال اور سابق وزیر اعلی سندھ ارباب غلام رحیم کے بعد وزیراعلی پنجاب شہباز شریف بھی جوتا باری کلب کے ممبر بن گئے ہیں۔


ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف لاہور میں ساؤتھ ایشیا لیبر کانفرنس کی تقریب میں شرکت کے لئے ابھی اسٹیج پر آ کر بیٹھے ہی تھے کہ پریس گیلری میں بیٹھے نجی ادارے کے ایک صحافی نے ان کی طرف جوتا اچھال دیا جو خوش قسمتی سے اسٹیج کے قریب ہی گر گیا اور شہباز شریف بال بال بچ گئے۔

جوتا اچھالنے کے بعد صحافی نے ہال میں شور شرابا کر دیا کہ حکومت صحافیوں پر حملوں کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے بجائے ان کی حمایت کر رہی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ صحافیوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی تحقیقات کرائے۔ اس موقع پر سیکیورٹی اہلکاروں اور دیگر صحافیوں نے جوتا اچھالنے والے صحافی کو سمجھایا اور کہا کہ کانفرنس میں بدمزگی نہ پیدا کی جائے جس پر صحافی اپنی نشست پر بیٹھ گیا تاہم تقریب کے اختتام پر پولیس نے صحافی کو حراست میں لے لیا جسے بعد میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی حکم پر رہا کردیا گیا۔
 

ساجد

محفلین
پاکستان میں ہر فوجی اور سول با اختیار ادارہ ، اس کے سربراہان ، اہلکار اور چیلے چانٹے اپنے فرائض کی ادائیگی سے زیادہ اس بات میں دلچسپی رکھتے ہی کہ وہ اپنے اختیارات و مقام کو کس حد تک اپنے جائز و ناجائز مفادات کے حصول کے لئے استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس تناظر میں اس صحافی کا یہ کام بھی کسی مہذب احتجاج کی بجائے بے ہودگی کی گھٹیا مثال اور اختیار و مقام کے غلط استعمال کا ایک نمونہ ہے ۔
 

حسینی

محفلین
البتہ شہباز شریف کا رویہ قابل تعریف ہے کہ صحافی کو رہا کرنے کا حکم دے کر عفو و درگزر کی اچھی مثال قائم کی۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
پاکستان میں ہر فوجی اور سول با اختیار ادارہ ، اس کے سربراہان ، اہلکار اور چیلے چانٹے اپنے فرائض کی ادائیگی سے زیادہ اس بات میں دلچسپی رکھتے ہی کہ وہ اپنے اختیارات و مقام کو کس حد تک اپنے جائز و ناجائز مفادات کے حصول کے لئے استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس تناظر میں اس صحافی کا یہ کام بھی کسی مہذب احتجاج کی بجائے بے ہودگی کی گھٹیا مثال اور اختیار و مقام کے غلط استعمال کا ایک نمونہ ہے ۔
متفق ساتھ اس لاحقے کہ اس قسم کی حرکتیں اب بجائے لوگ احتجاج کے کمپنی کی مشھوری کے لیے زیادہ کرتے ہیں یا پھر رسما بنا سوچے سمجھے اندھی تقلید میں ایک صحافی نے ایسا کیا تھا س کے بعد یہ ٹرینڈ چل نکلا لہذا کسی بھی اختلاف ہوتو بجائے اسکی نوعیت کی سنگینی کا ادرک کیئے ایسی حرکت کر ڈالو کہ جس سے ایک تیر سے کئی شکار ہوجائیں ۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
حکومت تو پہلے ہی بدنام تھی اب یہ کام کرکے صحافی صحافت کو بدنام کریں گے تاکہ رہی سہی کسر پوری ہو جائے !
 

شمشاد

لائبریرین
مثال تو بعد میں بنے گی اور صحافی کا وہ حال ہو گا جو آج تک کسی کا نہیں ہوا۔
یہ شریف اتنے بھی شریف نہیں ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دراصل جوتا اظہارِ اختلاف کے لئے نہیں بلکہ اظہارِ نفرت کے لئے مارا جاتا ہے۔

گو کہ یہ ایک غلط حرکت ہے تاہم شہباز صاحب کو سوچنا ضرور چاہیے کہ ایسی کونسی بات ہے جو اُن کے خلاف نفرت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو رہی ہے۔

ساتھ ساتھ ہم اُمید کرتے ہیں کہ صحافی کو مستقبل میں اس حرکت کے نتائج نہ بھگتنے پڑیں۔
 
دراصل جوتا اظہارِ اختلاف کے لئے نہیں بلکہ اظہارِ نفرت کے لئے مارا جاتا ہے۔

گو کہ یہ ایک غلط حرکت ہے تاہم شہباز صاحب کو سوچنا ضرور چاہیے کہ ایسی کونسی بات ہے جو اُن کے خلاف نفرت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو رہی ہے۔

ساتھ ساتھ ہم اُمید کرتے ہیں کہ صحافی کو مستقبل میں اس حرکت کے نتائج نہ بھگتنے پڑیں۔
وجہ اس شخص نے بتائی تو تھی کہ" صحافی نے ہال میں شور شرابا کر دیا کہ حکومت صحافیوں پر حملوں کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے بجائے ان کی حمایت کر رہی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ صحافیوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی تحقیقات کرائے۔"
 
ایک صحافی سے ایسی حرکتوں کی توقع نہیں کی جاتی ۔
صحافی ایک سماجی کارکن اور معاشرہ کا آئینہ دار ہوتا ہے اگر وہ ہی ایسی گھٹیا حرکتیں کرنے لگے تو دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے کیا امید کریں گے ۔
 
شریفوں کی شرافت کا ایک واقعہ میں یہاں بتانا چاہا ہوں۔
ایک دفعہ میں لاہور موچی گیٹ میں نواز شریف کے ایک جلسے میں شرکت کے لئے گیا۔ نواز اپوزیشن لیڈر تھا اور اپنی تقریر میں وزیراعظم بے نظیر پر تنقید کر رہا تھا اس دوران ایک شریک جلسہ نے جذبات میں آکر بے نظیر کو گندی گالی دے دی تو فوراً نواز شریف نے تقریر روک کر اس شخص کو ایسا کرنے سے منع کر دیا اور اسکے بعد اس نے اور کسی اور نے بھی کوئی گالی نہیں دی۔ میں تب سے نواز شریف کی شرافت کا قائل ہوگیا :)
 

Rehmat_Bangash

محفلین
اختلاف اور احتجاج کا حق بجا، لیکن جوتے مارنا کوئی شریفانہ حرکت نہیں، پاکستان میں اختلاف رائے اور احتجاج پر کوئی ایسی شدید پابندیاں بھی نہیں ہیں کہ محترم صحافی کو اپنی فرسٹریشن نکالنے کا کوئی اور راستہ ہی نہ سوجھا اور محترم لگے جوتے مارنے۔ ایسی حرکت ہمارے معاشرے میں سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے بھی کی جاتی ہے۔اور مجھے تو لگتاہے کہ" مطلوب و مقصود"بھی یہی تھا۔
 
Top