قول فیصل صفحہ 34 تا 36

عسکری

معطل
صفحہ 34
ان کا عفو و تحمل اور روش کی متانت

ایک بڑی سبق آموز حقیقت ان کے روش کی کمال درجہ سنجیدگی و متانت اور نہایت موثر درگرر بھی ہے۔یہ وصف بھی ایسا ہے کہ جس پر غور کرنے کی ہماری قومی لیڈروں اور کارکنوں کو بڑی ضرورت ہے۔
یہ قدرتی کمزوری ہم تمام انسانوں میں ہے مخالف کے مقابلے میں غصہ اور غیظ سے بھر جاتے ہیں۔علی ا لخصوص اس حالت میں جبکہ مخالف صاحب اختیاروطاقتور بھی ہو۔لیکن ایک لیڈراور بڑے آدمی کو عام انسانوں سے زیادہ جزبات پر قابو رکھنا چاہیے۔کسی انسان کی بڑائی کے لیے یہ کم سے کم بات ہے کہ وہ وقت پر اپنے غصے کو ضبط کر سکے۔بہت سے لوگ غلطی بھی کرجاتے ہیں کہ شجاعت و ہمت اورطیشو غضب میں فرق نہیں کرتے۔بیت زیادہ غصہ میں آجانے کو شجاعت و بہادری سمجھتے ہیں۔حالانکہ سچا بہادر وہی ہےجو تکلیف جھیلنے میں اس قدر مضبوط ہوکہ تکلیف دیکھ کر اسے غصہ ہی نہ آئے۔ علاوہ بریں غصہ اور طیش کے ہیجان میں واقعات اور حقیقت کی تاثیر نمایاں بھی نہیں ہو سکتی۔
مولانا کے طرز عمل کی ایک بڑی نمایاں ان کی بے حد متانت اور سنجیدگی ہے۔عدالت کی تمام کاروائیوں کی اثناء میں کہیں بھی یہ نظر نہیں آتا کہ وہ غصہ میں بھرے ہوئے ہیں یا دشمن کے قابو میں اپنے آپ کو پا کر پیچ و تاب کھا ریے ہیں۔۔بر خلاف اس کے ان کے بیان کی ہر سطر سے کامل متانت اور ضبط ٹپکتا ہےاور جس حصہ کو دیکھا جائے جزبات کے جوش کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔انہوں نے سخت سے سخت جوش انگیز پولیٹکل معاملات پر بھی اس طرح بحث کی ہے گویا ایک شخص نہایت سادگی کے ساتھ محض واقعات پر لیکچر دے رہا ہو۔وہ گویا کرفتار ہونے کے بود غضبی جزبات سے بالکل خالی ہو گئے تھے۔

اس سے بھی زیادہ موثر بیان کا خاتمہ ہے جہاں انہوں نے ان تمام لوھوں کا زکر کیا ہے جو ان کے خلاف مودمہ میں کام کر رہے تھے۔اپنے مخالف گواہوں سرکاری وکیل اور مجسٹریٹ کی نسبت پوری خوش دلی سے لکھ دیا ہے کہ انہین کوئی شکایت یا رنج ان سے نہیں

صفحہ 35

ہے اور اگر ان سے کوئی قصور اس بارے میں ہوا ہے تو سچے دل سے معاف کر دیتے ہیں۔ مجسٹریٹ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ تو اپنا فرض انجام دے رہا ہے اور حکومت کی مشینری کاایک جزو ہے۔جب تک مشینری میں تبدیلی نہ ہو اس کے اجزا کے افعال مین بھی کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی پس اس سے بھی انہیں کوئی شکایت نہیں ہے۔
ان کے بیان کا خاتمہ بے حد موثر ہے۔وہ ضرب المثل کی طرح ہمارے لٹریچر میں زندہ رہے گا۔جس طرح بیان کے بہت سے جملے اپنی لفظی و معنوی خوبصورتی اور صداقت کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ہم بیان کے مطالب کی اہمیت طرز بیاں کی دل نشینی اسلامی حریت کی عالمانہ ترجمانی اور فرائض ملک و ملت کی بہترین سبق آموزی کی قدر و قیمت کا اندازہ ناظرین کے زوق سلیم پر چھوڑتے ہیں اور مولانا ہی کے لفظوں میں یہ کہہ کر اپنی گزارش ختم کر دیتے ہیں کہ مستقبل فیصلہ کرے گا اور اسی کا فیصلہ آخری ہو گا۔

نالہ از بہر رہائی نہ کند مرغ اسیر
خورد افسوس زمانے کہ گرفتار نہ بود

ایک عظیم الشان بیان (A Great Statement)

مہاتما گاندھی جی اپنے اخبار ینگ انڈیا کی اشاعت23 فروری ؁ء22 میں رقم طراز ہیں'مولانا ابو الکلام آزاد نے جو بیان عدالت میں دیا ہے اس کی نقل میرے پاس بھی پہنچی ہے۔یہ فل سکیب سائز کے 33 صفحوں پر ٹائپ کیا ہوا ہے۔لیکن اس قدر طویل ہونے پر بھی سب کا سب پڑہنے کے قابل ہے۔اصل بیان مولانا کی فصیح و بلیغ اردو میں ہو گا۔یہ اس کا انگریزی ترجمہ ہے۔ترترجمہ برا نہیں ہوا پر میں خیال کرتا ہوں اس سے بہتر ممکن تھا۔
مولانا کے بیان میں بڑی ادبی خوبصورتی ہے وہ نہایت وسیع روانی کے ساتھ پر جو ش بھی ہے۔ وہ نہایت دلیرانہ بھی ہے اس کا لہجہ غیر متزلزل اور غیر آتشی چلب (ان کمپرومائزنگ) ہے۔مگر ساتھ میں سنجیدہ اور متین بھی ہے۔تمام بیان اول سے آخر تک ایک پر جوش اثر پایا جاتا
 

عسکری

معطل
صفحہ 36

ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے گویا خلافت اور نیشنلزم پر مولانا ایک پر اژر خطبہ دے ہے ہیں۔میں امد کرتا ہوں کہ اس بیان کو چھاپ کر شائع کر دیا جئے گا۔میں مولانا کے سیکرٹری کو مشورہ دوں گا کہ احتیاط کے ساتھ انگریزی ترجمہ پر نظر ثانی کریں اور کتاب کی صورت میں چھاپ کر شائع کردیں۔مولانا کا بیان پڑھ کر جب میں فارغ ہوا توایک بات بہت زیادہ واضع ہو کر میرے سامنے آ گئی یعینی عدالتوں کا بائیکاٹ کرنے کی اصلی ضرورت کیا ہے؟ میں نے محسوس کیا کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا ہوتا تو یہ بے خوفی اور مظبوطی ہم میں کہاں ہوتی جو آج ہمارے اندر کام کر رہی ہے؟ مسٹر سی آد داس لالہ جپت رائے پنڈت موتی لال نہرونے شریفانہ اعلانات سے پہلے ہمارے اندر صرف چھوٹے موٹے زبانی جھگڑے اور باہم دگر الزامات تھے جو کسی ایک قوم کو سر بلند نہیں کر سکتے۔
اس سے بڑھ کر یہ اگر ہم نے عدالتوں کا بائیکاٹ نہ کیا ہوتا تو آج ہم کو مولانا کے بیان جیسی گرانقدر چیز نہیں ملتی جا بجائے خود ایک بہترین سیاسی تعلیم ہے۔
عدالتوں کے بائیکاٹ کا اثر صرف اسی چیز میں نہیں دیکھنا چاہیے کہ کتنے قانون پیشہ اصحاب نے پریکٹس چھوڑی؟ اصلی چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ آج سے دو سو سال پہلئ جو ہماہمی اور رونق عدالت گاہوں کے اندر اور باہر دیکھنے میں آتی تھی وہ کس طرح اب منقود ہو گئی ہے؟ اب تو وہ صرف لین دین کرنے والوں اور قمار بازوں کی کمین گاہ ہیں۔نہ کوئی وہ آزادی کا سر چشمہ ہیں نہ انفادی آزادی کا۔ اس بات کا اندازہ کہ قوم کسی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے؟صرف بہادر اور بے خوف دلوں کے جزبات دیکھنے سے ہو سکتا ہے۔
مولانا کے بیان کا روئے سخن اگرچہ عدالت کی طرف ہے لیکن دراصل وہ ملک و ملت سے خطاب کر رہے ہیں۔ فی الحقیقت ان کا بیان گویا عمر بھر کے لیے سخت سے سخت سزاؤں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ایک سال قید بامشقتسزا کا فیصلہ سن کر مولانا نے کیا خوب کہا میں جس سزا کا متوقع تھا اس سے تو یہ بہت کم ہے۔
 
Top