شمشاد
لائبریرین
صفحہ 26
طرز عمل بدل دیتے ہیں اور عدالت پر ظاہر کرنے لگتے ہیں کہ وہ جو کچھ کرتے رہے، اس کا مقصد وہ نہیں جو گورنمنٹ نے سمجھا ہے۔ بلکہ کچھ دوسرا ہی ہے۔ پھر طرح طرح سے اس کی تاویلیں کرتے ہیں اور مخالفت کو موافقت بنانا چاہتے ہیں۔ کبھی پولیس اور سی، آئی، ڈی کی رپورٹوں کو بالکل جھوٹا کہہ دیتے ہیں، کبھی اپنے کہے ہوئے اور لکھے ہوئے جملوں کو توڑ مروڑ کر کچھ کا کچھ بنانا چاہتے ہیں۔ کبھی گورنمنٹ کا شکوہ کرتے ہیں کہ کیوں خواہ مخواہ بلا قصور انہیں گرفتار کر لیا؟ غرض کہ اپنی تمام پچھلی شجاعانہ آمادگیوں کو فراموش کر کے اچانک ایک نئی پوزیشن اختیار کر لیتے ہیں اور اگرچہ سزا سے نہ بچ سکیں لیکن سزا سے بچنے کے لیے جس قدر بھی حیلے حوالے کر سکتے ہیں، اس میں کمی نہیں کرتے۔ پہلی قسم کی طرح اس قسم کے لوگ بھی بعد کو اپنے طرز عمل کی حمایت یا معذرت میں یہ حیلہ اختیار کرتے ہیں کہ لڑائی بھی ایک طرح کا فریب ہے۔ ہم نے صرف اپنے بچاؤ کے لیے دشمن سے فریب کھیلا، ورنہ دراصل ہمارے دل میں وہی ہے جو پہلے تھا۔ لوگ بھی اسے مان لیتے ہیں۔
یہ بات گویا اس قدر مسلم اور پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی ہے کہ جب کوئی لیڈر عدالت میں ایسا رویہ اختیار کرتا ہے، تو پبلک ذرا بھی تعجب نہیں کرتی اور سمجھ لیتی ہے کہ یہ سب کچھ صرف عدالت کے لیے کیا گیا ہے جہاں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ پالیٹکس میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ گویا پالیٹکس میں جھوٹ، نفاق، دورنگی، ذلتِ نفس اور مکر و فریب کے سوا چارہ نہیں!
3 ۔۔۔ کچھ لوگ ان دونوں قسموں سے بھی بلند تر ہیں۔ وہ زیادہ باہمت اور نڈر دل رکھتے ہیں۔ اس لیے عدالت کے سامنے ان کی جرات و شجاعت اسی آن بان کے ساتھ نظر آتی ہے جس طرح پبلک مجمعوں میں نظر آتی تھی۔ لیکن زیادہ وقت نظر کے ساتھ جب ان کے طرزِ عمل کو دیکھا جاتا ہے، تو وہ بھی بے لاگ اور یک سو ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ گو وہ ساری باتیں ہمت اور بیباکی کی کرتے ہیں، لیکن حقیقت اور اصلیت کے اقرار و برداشت سے انہیں بھی گریز ہوتا ہے۔ یعنی عدالت کی سزا سے بچنے کے لیے وہ بھی کوئی دقیقہ حیلے حوالوں کا اٹھا نہیں رکھتے۔
طرز عمل بدل دیتے ہیں اور عدالت پر ظاہر کرنے لگتے ہیں کہ وہ جو کچھ کرتے رہے، اس کا مقصد وہ نہیں جو گورنمنٹ نے سمجھا ہے۔ بلکہ کچھ دوسرا ہی ہے۔ پھر طرح طرح سے اس کی تاویلیں کرتے ہیں اور مخالفت کو موافقت بنانا چاہتے ہیں۔ کبھی پولیس اور سی، آئی، ڈی کی رپورٹوں کو بالکل جھوٹا کہہ دیتے ہیں، کبھی اپنے کہے ہوئے اور لکھے ہوئے جملوں کو توڑ مروڑ کر کچھ کا کچھ بنانا چاہتے ہیں۔ کبھی گورنمنٹ کا شکوہ کرتے ہیں کہ کیوں خواہ مخواہ بلا قصور انہیں گرفتار کر لیا؟ غرض کہ اپنی تمام پچھلی شجاعانہ آمادگیوں کو فراموش کر کے اچانک ایک نئی پوزیشن اختیار کر لیتے ہیں اور اگرچہ سزا سے نہ بچ سکیں لیکن سزا سے بچنے کے لیے جس قدر بھی حیلے حوالے کر سکتے ہیں، اس میں کمی نہیں کرتے۔ پہلی قسم کی طرح اس قسم کے لوگ بھی بعد کو اپنے طرز عمل کی حمایت یا معذرت میں یہ حیلہ اختیار کرتے ہیں کہ لڑائی بھی ایک طرح کا فریب ہے۔ ہم نے صرف اپنے بچاؤ کے لیے دشمن سے فریب کھیلا، ورنہ دراصل ہمارے دل میں وہی ہے جو پہلے تھا۔ لوگ بھی اسے مان لیتے ہیں۔
یہ بات گویا اس قدر مسلم اور پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی ہے کہ جب کوئی لیڈر عدالت میں ایسا رویہ اختیار کرتا ہے، تو پبلک ذرا بھی تعجب نہیں کرتی اور سمجھ لیتی ہے کہ یہ سب کچھ صرف عدالت کے لیے کیا گیا ہے جہاں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ پالیٹکس میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ گویا پالیٹکس میں جھوٹ، نفاق، دورنگی، ذلتِ نفس اور مکر و فریب کے سوا چارہ نہیں!
3 ۔۔۔ کچھ لوگ ان دونوں قسموں سے بھی بلند تر ہیں۔ وہ زیادہ باہمت اور نڈر دل رکھتے ہیں۔ اس لیے عدالت کے سامنے ان کی جرات و شجاعت اسی آن بان کے ساتھ نظر آتی ہے جس طرح پبلک مجمعوں میں نظر آتی تھی۔ لیکن زیادہ وقت نظر کے ساتھ جب ان کے طرزِ عمل کو دیکھا جاتا ہے، تو وہ بھی بے لاگ اور یک سو ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ گو وہ ساری باتیں ہمت اور بیباکی کی کرتے ہیں، لیکن حقیقت اور اصلیت کے اقرار و برداشت سے انہیں بھی گریز ہوتا ہے۔ یعنی عدالت کی سزا سے بچنے کے لیے وہ بھی کوئی دقیقہ حیلے حوالوں کا اٹھا نہیں رکھتے۔