قول فیصل صفحہ 26 تا 28

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 26

طرز عمل بدل دیتے ہیں اور عدالت پر ظاہر کرنے لگتے ہیں کہ وہ جو کچھ کرتے رہے، اس کا مقصد وہ نہیں جو گورنمنٹ نے سمجھا ہے۔ بلکہ کچھ دوسرا ہی ہے۔ پھر طرح طرح سے اس کی تاویلیں کرتے ہیں اور مخالفت کو موافقت بنانا چاہتے ہیں۔ کبھی پولیس اور سی، آئی، ڈی کی رپورٹوں کو بالکل جھوٹا کہہ دیتے ہیں، کبھی اپنے کہے ہوئے اور لکھے ہوئے جملوں کو توڑ مروڑ کر کچھ کا کچھ بنانا چاہتے ہیں۔ کبھی گورنمنٹ کا شکوہ کرتے ہیں کہ کیوں خواہ مخواہ بلا قصور انہیں گرفتار کر لیا؟ غرض کہ اپنی تمام پچھلی شجاعانہ آمادگیوں کو فراموش کر کے اچانک ایک نئی پوزیشن اختیار کر لیتے ہیں اور اگرچہ سزا سے نہ بچ سکیں لیکن سزا سے بچنے کے لیے جس قدر بھی حیلے حوالے کر سکتے ہیں، اس میں کمی نہیں کرتے۔ پہلی قسم کی طرح اس قسم کے لوگ بھی بعد کو اپنے طرز عمل کی حمایت یا معذرت میں یہ حیلہ اختیار کرتے ہیں کہ لڑائی بھی ایک طرح کا فریب ہے۔ ہم نے صرف اپنے بچاؤ کے لیے دشمن سے فریب کھیلا، ورنہ دراصل ہمارے دل میں وہی ہے جو پہلے تھا۔ لوگ بھی اسے مان لیتے ہیں۔

یہ بات گویا اس قدر مسلم اور پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی ہے کہ جب کوئی لیڈر عدالت میں ایسا رویہ اختیار کرتا ہے، تو پبلک ذرا بھی تعجب نہیں کرتی اور سمجھ لیتی ہے کہ یہ سب کچھ صرف عدالت کے لیے کیا گیا ہے جہاں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ پالیٹکس میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ گویا پالیٹکس میں جھوٹ، نفاق، دورنگی، ذلتِ نفس اور مکر و فریب کے سوا چارہ نہیں!

3 ۔۔۔ کچھ لوگ ان دونوں قسموں سے بھی بلند تر ہیں۔ وہ زیادہ باہمت اور نڈر دل رکھتے ہیں۔ اس لیے عدالت کے سامنے ان کی جرات و شجاعت اسی آن بان کے ساتھ نظر آتی ہے جس طرح پبلک مجمعوں میں نظر آتی تھی۔ لیکن زیادہ وقت نظر کے ساتھ جب ان کے طرزِ عمل کو دیکھا جاتا ہے، تو وہ بھی بے لاگ اور یک سو ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ گو وہ ساری باتیں ہمت اور بیباکی کی کرتے ہیں، لیکن حقیقت اور اصلیت کے اقرار و برداشت سے انہیں بھی گریز ہوتا ہے۔ یعنی عدالت کی سزا سے بچنے کے لیے وہ بھی کوئی دقیقہ حیلے حوالوں کا اٹھا نہیں رکھتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 27

البتہ ان کی حیلہ جوئی بہت ہی مخفی اور باریک ہوتی ہے۔ پچھلی دو جماعتوں کی طرح کھلی ہوئی اور صاف نہیں ہوتی۔ وہ گورنمنٹ کی مخالفت سے انکار تو نہیں کرتے لیکن ساتھ ہی عدالت اور قانون کی آڑ میں پناہ بھی لینا چاہتے ہیں۔ یعنی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گو اُنہوں نے یہ سب کچھ کہا اور کیا ہے، تا ہم انہیں سزا نہیں ملنی چاہیے۔ کیونکہ عدالت اور قانون کو رو سے وہ ہر طرح ایک جائز فعل تھا۔ کسی طرح بھی سزا کا موجب نہیں ہو سکتا۔ ساتھ ہی وہ اس بات کی بھی سخت شکایت کرتے ہیں کہ بلا "قصور" انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ نیز عدالت کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کو سزا دینا نہایت "ناانصافی" کی بات ہو گی! یہ طرزِ عمل ان کا اس گورنمنٹ اور گورنمنٹ کی عدالت میں ہوتا ہے۔ جس کے ظلم و ستم کا وہ شب و روز رونا رو چکے ہیں اور جس کے انصاف سے اُنہوں نے ہمیشہ مایوشی ظاہر کی ہے نیز جس کی نسبت انہیں یقین بھی ہے کہ خواہ کتنی ہی قانون اور انصاف کے نام پر اپیلیں کی جائیں، لیکن انہیں سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا!

یہ آخری قسم گویا سب سے بلند اور اعلٰی سے اعلٰی جماعت ہے جو ہماری پولیٹیکل جدوجہد کا دور اس وقت تک پیدا کر سکا ہے۔ لیکن "قول" اور "فعل" کی مطابقت سے اس کا طرز عمل بھی خالی ہے۔ اگر فی الواقع وہ اپنے تمام دعوؤں میں سچی تھی اور دعوتِ آزادی و حق پرستی کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار تھی، تو چاہیے تھا کہ اپنی گرفتاری اور سزایابی کا بلا کسی اعتراض اور شکایت کے استقبال کرتی اور صاف صاف کہہ دیتی کہ فی الواقع اس نے ایسا ہی کام کیا ہے جس پر گورنمنٹ کے نقطہ خیال کے مطابق سزا ملنی چاہیے اور چونکہ اس نے خود اپنی پسند سے یہ راہ اختیار کی ہے، اس لیے اس کے قدرتی نتائج کے لیے وہ کسی طرح گورنمنٹ کو ملامت بھی نہیں کرتی۔ گورنمنٹ دنیا کے تمام جانداروں کی طرح یقیناً اپنے مخالفوں کو سزا ہی دے گی۔ پھولوں کا تاج نہیں پہنائے گی۔ پس جب ایک بات قدرتی طور پر ناگزیر ہے تو کیوں اس سے گریز کیا جائے؟ اگر گریز ہے تو آزادی و حق طلبی کی راہ میں قدم رکھنا ہی نہیں چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 28

لیکن مولانا کا طرزِ عمل اس اعتبار سے بالکل ایک نئی راہ ہمارے سامنے کھولتا ہے۔ اُنہوں نے بتلا دیا ہے کہ "قول" اور "فعل" کی مطابقت اور سچی اور بے لاگ حقیقت پرستی کے معنی کیا ہیں؟ اُنہوں نے اپنے بیان میں سب سےپہلے اسی سوال پر توجہ کی ہے۔ اُنہوں نےصاف صاف تسلیم کر لیا ہے کہ وہ بحالت موجودہ گورنمنٹ کے نقطہ نظر اور قانون سے واقعی "مجرم" ہیں اور یہ ہرگز قابل ملامت و شکایت نہیں ہے کہ گورنمنٹ انہیں سزا دلانا چاہتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب اُنہوں نے استغاثہ کے مواد کو بہت ہی کمزور پایا، تو ایک ایسی جرات کے ساتھ جس کی کوئی نظیر موجود نہیں، استغاثہ کا بارِ ثبوت بھی اپنے ذمہ لے لیا اور خود اپنے قلم سے وہ تمام باتیں بتفصیل لکھ دیں جن کا ثبوت استغاثہ کے لیے بہت مشکل تھا اور اس لیے وہ پیش نہ کر سکا تھا۔ اس طرح عدالت پر اچھی طرح واضح ہو گیا کہ استغاثہ کے دعویٰ سے بھی کہیں زیادہ گورنمنٹ کے مجرم ہیں اور یہ بالکل ایک قدرتی بات ہے کہ انہیں سزا دی جائے۔

چنانچہ ہم خود انہی کی زبانی سنتے ہیں کہ ان کا ارادہ بیان دینے کا نہ تھا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان کے خلاف گورنمنٹ کو جو کچھ کہنا چاہیے وہ سب کچھ پیش کر دے گی۔ لیکن جب کاروائی شروع ہوئی اور اُنہوں نے دیکھا کہ صرف دو تقریروں کی بنا پر استغاثہ دائر کیا گیا ہے اور وہ ان بہت سی باتوں سے بالکل خالی ہیں، جو ہمیشہ وہ کہتے رہے ہیں۔ تو اُنہوں نے محسوس کیا کہ گورنمنٹ میرے خلاف تمام ضروری مواد مہیا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی اس لیے میرا فرض ہے کہ میں عدالت کو اصلیت سے باخبر کر دوں" وہ تسلیم کرتے ہیں کہ "قواعدِ عدالت کی رو سے یہ میرا فرض نہیں ہے" مگر چونکہ "حقیقیت کا قانون عدالتی قواعد کی حیلہ جوئیوں کا پابند نہیں ہے۔" اس لیے یقیناً یہ سچائی کے خلاف ہو گا کہ ایک بات صرف اس لیے پوشیدگی میں چھوڑ دی جائے کہ مخالف اپنے عجز کی وجہ سے ثابت نہ کر سکا۔"

اس کے بعد اُنہوں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ کیوں "جرم" کا اقرار کرتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں اس لیے کہ جب ایک قوم اپنے ملک کی آزادی کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا مقابلہ اس
 
Top