قول فیصل صفحہ 23 تا 25

شمشاد

لائبریرین
قول فیصل صفحہ 23

تحریک کی ناکامیابی کا ہمیں اعتراف کر لینا چاہیے!

اس اعلان نے تمام ملک میں افسردگی اور مایوسی کی ایک عام لہر دوڑا دی۔ قریب تھا کہ لوگوں کے دل بالکل ہی بیٹھ جائیں۔ چنانچہ 22 نومبر کو ورکنگ کمیٹی کا جلسہ ہوا تو تمام ممبروں پر یاس و حسرت چھائی ہوئی تھی اور کچھ نظر نہیں آتا تھا کہ تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے کون سا فوری عمل اختیار کیا جائے؟ مولانا اور مسٹر داس نے خود مجھ سے واپسی کے بعدکہا تھا! "ہم بالکل تاریکی میں گھر گئے تھے" لیکن خدا کی رحمت نے فوراً چارہ سازی کی، جبکہ 22 نومبر کو بمبئی میں لوگ راہ عمل سوچ رہے تھے، تو تھیک اسی وقت گورنمنٹ کے نئے جبر و تشدد سے کلکتہ میں ایک نیا دروازہ عمل کھل چکا تھا۔ جونہی گورنمنٹ بنگال نے رضاکاروں کی جماعت اور مجالس کو خلاف قانون قرار دیا، فوراً اہل کلکتہ نے ایک ہزار دستخطوں سے نئی جماعت رضا کاراں کا اعلان شائع کر دیا۔ اس کے بعد مسٹر سی۔ آر۔ داس اور مولانا کلکتہ پہنچے اور اُنہوں نے معلوم کر لیا کہ فتح مندی کا اصلی میدان بنگال ہی میں گرم ہو گا۔ اُنہوں نے آل انڈیا کانگرس کمیٹی یا ورکنگ کمیٹی یا مہاتما گاندھی کی اجازت کے انتظار میں وقت ضائع نہیں کیا، بلکہ فوراً رضاکاروں کی تنظیم اور تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ روزانہ چار چار، پانچ پانچ سو گرفتاریوں کی تعدادپہنچ گئی۔ بنگال کی پیش قدمی نے دوسرے صوبوں پر بھی اثر ڈالا۔ نئی حرکت ہر طرف شروع ہو گئی اور اچانک ملک میں ایک ایسی نئی زندگی پیدا ہو گئی کہ لوگوں کو پچھلی افسردگی و مایوسی کا ایک گزرے ہوئے خواب جتنا بھی خیال باقی نہ رہا۔

خود مولانا کو بھی اس حقیقت کا پورا یقین تھا جیسا کہ ان کے "پیغام" مورخہ 8 دسمبر سے واضح ہوتا ہے۔ علاوہ بریں 4 سے 8 تک اُنہوں نے جو خطوط لوگوں کو لکھے، ان میں بھی صاف صاف اپنا ارادہ اور یقین ظاہر کر دیا۔ ایک خط کی نقل ہمیں ان کے سیکرٹری سے ملی ہے، جو مولانا کفایت اللہ صاحب صدر جمعیۃ العلماء دہلی کے نام اُنہوں نے لکھوایا تھا۔ اس میں لکھتے ہیں :

"بدایوں کے جلسہ (جمعیت) میں شرکت کا قطعی ارادہ تھا۔ لیکن یہاں پہنچ کر جو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 24

حالات دیکھے اور جو حالات روز بروز ظہور پذیر ہو رہے ہیں، ان کے بعد بہت مشکل ہو گیا ہے کہ میں کلکتہ سے نکل سکوں۔ کلکتہ سے نکلنے کے یہ معنی ہوں گے کہ میں ایک بہترین مہلت عمل دیدہ و دانستہ ضائع کر دوں۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شاید سول نافرمانی کا عقدہ یہیں حل ہو گا۔ روز بروز ایک نئی شاہراہ کامیابی کی میرے سامنے کھلتی جاتی ہے۔ یقین کیجیئے کہ بدایوں کے جلسے میں عدم شرکت کا مجھے بھی نہایت افسوس ہے، لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ بحالت موجودہ کلکتہ سے نکلنا کم از معصیت نہ ہوگا۔"

واقعاتِ مابعد نے ثابت کر دیا کہ ان کا خیال کس قدر صحیح تھا؟ فی الحقیقت کلکتہ نے پوری شجاعت کے ساتھ میدان سر کیا اور اس کی کامیابی کے سمنے حریف کو علانیہ سر جھکانا پڑا۔ افسوس ہے کہ بدبختانہ عین وقت پر رہنمایانِ ملک کے قوتِ فیصلہ نے غلطی کی اور یکے بعد دیگرے ایسی لغزشیں ہو گئیں کہ 18 سے 23 دسمبر تک جو عظیم الشان فتح ہوئی تھی، وہی اب شکست بن کر ہمارے سامنے آ گئی!

مقدمہ کی چند خصوصیات :

اب ہم ان بعض امور کی طرف ناظرین کو توجہ دلانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے یہ سادہ اور مختصر مقدمہ ملک کے بے شمار پولیٹیکل مقدمات میں خاص اہمیت رکھتا ہے اور جن میں ہماری اخلاقی اور پولیٹیکل زندگی کے لیے نہایت ہی قیمتی رہنمائی پوشیدہ ہے :

کامل صادقانہ روش :

سب سے پہلے جو چیز ہمارے سامنے آتی ہے، وہ مولانا کا مضبوط، یک سو، قطعی اور ہر طرح کی دو رنگیوں اور تذبذب آمیز باتوں سے محفوظ کریکٹر ہے۔ یہ اگرچہ ان کی پبلک لائف کے ہر حصے میں ہمیشہ نمایاں رہا ہے اور نظر بندی کی چار سالہ زندگی میں اچھی طرح ہم اس کا اندازہ کر چکے ہیں، لیکن عدالت اور باقاعدہ چارہ جوئی کی صورت نظربندی سے بالکل ایک مختلف صورت ہے۔ پہلے میں کوئی موقعہ اظہار بریت اور بحث و دلائل کا نہیں ہوتا۔ دوسرے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 25

میں سزا دہی کی بنیاد ہی بحث و دلائم اور ڈیفنس پر ہوتی ہے۔ پس دراصل ایک لیڈر کی روش اور استقامت کی اصل آزمائش گاہ عدالت ہی کا ہال ہے۔

اس حقیقت کو دونوں پہلوؤں سے جانچنا چاہیے۔ اس لحاظ سے بھی کہ عام طور پر ایک قومی رہنما اور سیاسی لیڈر کی روش گرفتاری کے بعد عدالت میں کیا ہونی چاہیے؟ اور اس لحاظ سے بھی کہ خاص طور پر نان کواپریشن اُصولوں کے ماتحت ایک سچے نان کواپریٹر کو عدالت میں کیا کرنا چاہیے؟ مولانا کی روش دونوں حیثییتوں سے ہمارے لیے سبق آموز ہے۔

سب سے بڑی چیز "قول" اور "عمل" کی مطابقت ہے یعنی ہم جو کچھ کہا کرتے ہیں، وقت پڑنے پر ٹھیک ٹھیک ویسا ہی بلکہ اس سے زیادہ کر دکھائیں۔ مولانا نے اپنے مضبوط طرزِ عمل سے دکھلا دیا کہ وقت پر اپنی کوئی بات اور کوئی دعویٰ بھی واپس لینا نہیں چاہتے۔ ایک لیڈر جب گورنمنٹ کے خلاف طرز عمل اختیار کرتا ہے اور اظہار حق میں اپنے آپ کو نڈر اور بے پروا بتلاتا ہے، تو وہ بار بار ظاہر کرتا ہے کہ ہر طرح کی قربانیوں کے لیے تیار ہے اور گورنمنٹ کو چیلنج دیتا ہے کہ اسے جب چاہے گرفتار کر لے۔ لیکن جب گورنمٹ خود اسی کے اختیار کئے ہوئے اور پسند کئے ہوئے طریقہ کے مطابق اسے گرفتار کر لیتی ہے اور اپنے نقطہ نظر اور قانون کے مطابق مجرم ٹھہرا کر سزا دلانا چاہتی ہے، تو پھر اس وقت سونا آگ پر تپنے لگتا ہے اور کھوٹے کھرے کی پہچان کی گھڑی آ جاتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت تین طرح کی طبیعتیں تین طرح کی راہیں اختیار کرتی ہیں۔

1 ۔۔۔ کچھ لوگ جن کے زبانی دعوؤں کے اندر کوئی محکم ایمان اور سچائی نہیں ہوتی، وہ تو فوراً اپنے دعوؤں سے دست بردار ہو جاتے ہیں اور اپنے کئے پر پشیمانی ظاہر کر کے عجز و نیاز کا سر جھکا دیتے ہیں۔ یہ سب سے ادنٰی درجہ ہے۔

2 ۔۔۔ کچھ لوگ جو اس سے بلند درجہ رکھتے ہیں، ان کی طبیعت اس درجہ گر جانے کو تو گوارا نہیں کرتی، لیکن سزا سے بچنے کے لیے وہ بھی بے قرار ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ بھی فوراً اپنا
 
Top