حسان خان
لائبریرین
قوسین چون نگویم ابرویِ مصطفیٰ را
ما زاغ گفت ایزد آن چشمِ حقنما را
از طاعتِ الٰهی دیدم جمالِ احمد
وز حُبِّ مصطفایی دریافتم خدا را
هر کس که غوطهزن شد در قُلزُمِ محبت
دارم یقین که یابد آن دُرِّ بیبها را
ای مجمعِ کرامت از فیضِ تو چه دور است
شاها اگر نوازی درویشِ بینوا را
گر آبرو تو خواهی ای دل به صِدقِ نیّت
در بحرِ حق فنا شو یابی دُرِ بقا را
جان را فدا نمایم بر روضهٔ مقدّس
گر آستانهبوسی گردد نصیب ما را
دریایِ فیضِ ساقی مُژده دهد به مستان
گیرید ساغرِ مَی یا ایُّها السُّکارا
ای خسروِ حسینان ای شاهِ نازنینان
روشن کن از تجلّی کاشانهٔ گدا را
ای تاج کجکُلاهان سلطانِ دینپناهان
بر حالِ زارِ عثمان چشمِ کرم خدا را
(نواب میر عثمان علی خان آصفجاه سابع)
ترجمہ:
میں ابروئے مصطفیٰ کو قوسین کیوں نہ کہوں کہ ایزد تعالیٰ نے اُس چشمِ حق نما کو 'ما زاغ' کہا ہے۔
میں نے طاعتِ الٰہی کے ذریعے جمالِ احمد دیکھا اور حُبِّ مصطفائی سے میں خدا تک پہنچا اور اُس کی ذات کو پہچانا۔
مجھے یقین ہے کہ جو بھی شخص بحرِ محبّت میں غوطہ زن ہوا، وہ اُس بیش قیمت دُر کو پا لے گا۔
اے وہ کہ جن کی ذات کریمی و سخاوت کی انجمن ہے! اے شاہ! آپ کے فیض سے کیا بعید ہے اگر آپ درویشِ بے نوا کو نواز دیں۔
اے دل! اگر تم آبرو چاہتے ہو تو صِدقِ نیّت کے ساتھ بحرِ حق میں فنا ہو جاؤ، تمہیں بقا کا دُر مل جائے گا
اگر ہمیں آستانہ بوسی نصیب ہو جائے تو میں [اپنی] جان کو روضۂ مقدس پر فدا کر دوں۔
ساقی کے فیض کا بحر مستوں کو مُژدہ دیتا ہے کہ 'اے مستو! ساغرِ مَے تھام لیجیے۔'
اے خسروِ حسیناں! اے شاہِ نازنیناں! [اپنی] تجلّی سے کاشانۂ گدا کو منور کر دیجیے۔
اے تاجِ کج کُلاہاں! اے سلطانِ دیں پناہاں! عثمان کے حالِ زار پر خدارا نظرِ کرم کیجیے۔
× بیتِ اول میں سورۂ نجم کی آیت ۱۷ کی جانب اشارہ ہے۔
× دُر = موتی
ما زاغ گفت ایزد آن چشمِ حقنما را
از طاعتِ الٰهی دیدم جمالِ احمد
وز حُبِّ مصطفایی دریافتم خدا را
هر کس که غوطهزن شد در قُلزُمِ محبت
دارم یقین که یابد آن دُرِّ بیبها را
ای مجمعِ کرامت از فیضِ تو چه دور است
شاها اگر نوازی درویشِ بینوا را
گر آبرو تو خواهی ای دل به صِدقِ نیّت
در بحرِ حق فنا شو یابی دُرِ بقا را
جان را فدا نمایم بر روضهٔ مقدّس
گر آستانهبوسی گردد نصیب ما را
دریایِ فیضِ ساقی مُژده دهد به مستان
گیرید ساغرِ مَی یا ایُّها السُّکارا
ای خسروِ حسینان ای شاهِ نازنینان
روشن کن از تجلّی کاشانهٔ گدا را
ای تاج کجکُلاهان سلطانِ دینپناهان
بر حالِ زارِ عثمان چشمِ کرم خدا را
(نواب میر عثمان علی خان آصفجاه سابع)
ترجمہ:
میں ابروئے مصطفیٰ کو قوسین کیوں نہ کہوں کہ ایزد تعالیٰ نے اُس چشمِ حق نما کو 'ما زاغ' کہا ہے۔
میں نے طاعتِ الٰہی کے ذریعے جمالِ احمد دیکھا اور حُبِّ مصطفائی سے میں خدا تک پہنچا اور اُس کی ذات کو پہچانا۔
مجھے یقین ہے کہ جو بھی شخص بحرِ محبّت میں غوطہ زن ہوا، وہ اُس بیش قیمت دُر کو پا لے گا۔
اے وہ کہ جن کی ذات کریمی و سخاوت کی انجمن ہے! اے شاہ! آپ کے فیض سے کیا بعید ہے اگر آپ درویشِ بے نوا کو نواز دیں۔
اے دل! اگر تم آبرو چاہتے ہو تو صِدقِ نیّت کے ساتھ بحرِ حق میں فنا ہو جاؤ، تمہیں بقا کا دُر مل جائے گا
اگر ہمیں آستانہ بوسی نصیب ہو جائے تو میں [اپنی] جان کو روضۂ مقدس پر فدا کر دوں۔
ساقی کے فیض کا بحر مستوں کو مُژدہ دیتا ہے کہ 'اے مستو! ساغرِ مَے تھام لیجیے۔'
اے خسروِ حسیناں! اے شاہِ نازنیناں! [اپنی] تجلّی سے کاشانۂ گدا کو منور کر دیجیے۔
اے تاجِ کج کُلاہاں! اے سلطانِ دیں پناہاں! عثمان کے حالِ زار پر خدارا نظرِ کرم کیجیے۔
× بیتِ اول میں سورۂ نجم کی آیت ۱۷ کی جانب اشارہ ہے۔
× دُر = موتی
آخری تدوین: