قندِ مکرر

محفل کی وجہ سے لوگوں کی زندگی تبدیل ہو جاتی ہے، آپ فون کی بات کر رہے ہیں۔ :)

جی ہاں! جب سے ہم نے محفل میں شمولیت اختیار کی ہے ،ہماری تو زندگی ہی تبدیل ہوکر رہ گئی ہے۔ اس سے پہلے دسیوں سالوں میں ہم نے اتنے مضامین لکھ ڈالے تھے کہ جنہیں اپنے ہاتھوں کی انگلیوں پر آسانی گن سکتے تھے۔ اب ہمیں یاد نہیں کہ ہمارے کتنے مضامین و منظوم ’کارنامے‘ محفل پر محفوظ ہیں۔ اس لڑی میں ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی پچھلی کاوشیں اپنے قارئین کی نظر کرنا چاہتے ہیں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔




ہماری شاعری اور اصلاح کا احوالِ واقعی

( سید ذیشان بھائی کے عروضی انجن پر بے لاگ تبصرہ)


شاعری اور ہمارا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جس طرح چولی کا دامن عنقا ہوتا ہے اسی طرح ہماری تُک بندی میں شاعری کا عنصر بھی مفقود ہوتا ہے۔رہی سہی کسر اردو محفل پر ہمارے کرم فرماؤں نے عروض پر زور دے دے کر پوری کردی۔ اگر ہم علم عروض جانتے ہوتے تو کاہے کو گانوں سے شغل رکھتے اور غسل خانے میں گانوں کی دھن پر غزلیں جوڑا کرتے۔

اس تمام صورتِ احوال کے باوجود جانے کب اور کِس طرح ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ ہم نہ صرف شاعری جانتے ہیں بلکہ دیگر شاعروں کی وزن و اخلاق سے گری ہوئی شاعری کی اصلاح بھی کرسکتے ہیں۔ کچھ کربیٹھنے( گزرنے)کے اسی جذبے کے تحت ایک دِن ہم نے شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ لکھ مارا۔اس قصے کی وجہِ تسمیہ اور بن لکھی رزمیہ کچھ یوں ہے کہ اردو کی کچھ بنیادی کتابیں ہم نے دوسروں کی نظروں سے چھپاکر الگ رکھ چھوڑی ہیں جنھیں گاہے بگاہے دیکھ لیتے ہیں۔ ان کتابوں میں ابنِ انشا کی طرز پر لکھی ہوئی مولانا محمد حسین آزاد کی ’’ اردو کی پہلی کتاب‘‘ اور بچوں کے رسالے’’ پھول‘‘ کے گزشتہ سالوں کے شماروں کا انتخاب شامل ہے۔ چھپا کر یوں رکھی ہیں کہ مبادا کوئی دیکھ لے اور شور مچائے کہ ’’ لینا بھئی ! یہ ہیں خلیل صاحب جو خود کو اپنے تئیں شاعر گردانتے ہیں ، اور حال یہ ہے کہ ابھی اردو کی پہلی کتاب سے ہی فارغ التحصیل نہیں ہوپائے۔

ایک دن بیگم نے گھر کی حالت زار اور ردی والے پر رحم کھاتے ہوئے کچھ کتابیں نکالیں تو انہیں دیکھ کر ہم چونک اٹھے کہ یہی تو وہ بنیادی کتابیں تھیں جو ہمارے لیے حصول علم کا ذریعہ تھیں۔ ہم نے چُپ چاپ انہیں بغل میں دبوچا اور غسل خانے کی راہ لی کہ پرسکون مطالعے کی اب یہی ایک جگہ رہ گئی ہے۔

اردوکی پہلی کتاب کھولی تو ایک عجب ماجرا ہوا۔کئی نظموں پر گانوں کا گماں ہوا۔ ہم نے فوراً ان گانوں کی دھن میں ان نظموں کو گنگنانا شروع کردیا۔ لو انڈ بی ہولڈ۔ خدا کی کرنی ، ایک عروضی انجن تیار ہوگیا اور ہم نے اسے ’’ شاعری کا بنیادی قاعدہ‘‘ کے نام سے محفل پر شایع کردیا اور اسی فامولے کے تحت اپنی اور دیگر محفلین کی شاعری کی اصلاح کرنے لگے۔



کچھ دنوں سے محفل پر ایک کرم فرما کے عروض انجن کا بہت تذکرہ ہے۔سنا ہے استادوں سے بڑھکر استادی کے داؤں پیچ جانتا ہے ۔ اب جب کہ اس پروگرام کے سامنے استادوں کی بھی ایک نہیں چلنی تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں جو اس کے سامنے ٹھہر پائیں گے۔ بھائی ذیشان تو ہمارے مستقل کے خوابوں کے بھی درپے ہیں، بلکہ درپئے آزار ہیں۔ ہم نے تو سوچ رکھا تھا کہ ڈھلتی عمر میں

روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر​

کے مصداق یہی ہنر لے کر بیٹھ رہیں گے اور آتے جاتے لوگوں کو شاعری سِکھایا کریں گے، مگر بھلا ہو ان پروگرامر صاحب کا کہ جنھوں نے یہ پروگرام بناتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ اس مشین کے ہوتے ہم انسانوں کی کیا وقعت رہ جائے گی کہ شاعری سکھائیں۔ لوگ باگ بازار سے پچاس روپے میں اس پروگرام کی سی ڈی مول لے آئیں گے اور بیٹھے غزلیں جوڑا کریں گے۔

وا حسرتا ! کہ ہمارے مستقبل کے خواب کچی مٹی کے گھروندوں کی طرح ٹوٹ گئے۔ نہ ہوئی قرولی، ہمارا مطلب ہے کہ نہ ہوئے ہم ایک پروگرامر کہ ذیشان بھائی کے پروگرام کے جواب میں ایک عروضی انجن بستہ ب بناتے کہ جس میں دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ ساتھ نثری نظم ( فاتح بھائی کے مشوروں کے ساتھ) کی اصلاح کے علاوہ علامتی افسانے کی اصلاح کا عنصر بھی شامل کرتے۔

اب ذرا لگے ہاتھوں استادانِ محفل کا تذکرہ بھی ہو ہی جائے۔ کس کس طرح یہ ظالم اصحاب نو واردانِ بساطِ ہوائے دل یعنی نوزایدہ، نوآموز اور نووارد شاعروں کی مٹی پلید کرتے تھے۔ کبھی کسی پر یہ الزام کہ ’نرگس‘ لکھنا بھی نہیں آتا اور اس لفظ کو بالالتزام ’نرگھس‘ لکھ رہے ہیں، کبھی کچھ اورالزام اور کبھی کچھ اور۔


ہمیں اپنا نہیں استادِ والا، غم تمہارا ہے
کہ تم کس پر ستم فرماؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے​

ذیشان بھائی کے عروضی انجن نے ہمارے کھوکھے کو بند کیا ہی تھا،ان اونچی دکانوں پر بھی گویا شب خون ماردیا۔ وہ دن اور آج کا دن ، ان استادوں کو کوئی پوچھ بھی نہیں رہا۔ دہائی ہے دہائی۔

اسی دن کو تو قتلِ شاعراں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو مصلحِ بے شاعراں ہو کر​
 
آخری تدوین:

وہ ایک اداس سی شام تھی۔ ہم نے جونہی محفل میں داخلے کا کلمہ عبور لکھا اور اپنی جانی پہچانی محفل میں وارد ہوئے، ہم حیران رہ گئے۔ کیا ہماری ویرانی ء دل اور ہماری وحشت جاں کی کیفیت اس قدر عیاں تھی، کیا ہمارا راز یوں افشاء ہوچلا تھا تھا کہ ایک بے جان کمپیئوٹر کو بھی اس بات کا علم ہوچکا تھا۔ آج ہی ہم نے محفل پر اپنے ایک ہزار مراسلے مکمل کیے تھے۔ اس وقت اطلاعات کے خانے میں ایک سرخ عدد کو دیکھ کر ہم نے وفورِ شوق سے اسے کلک کیا اور ایک عجیب و غریب پیغام ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔

آپ کو تمغہ فورم کا نشہ ہو گیا ہے دیا گیا ہے۔

کیا واقعی ایسا ممکن ہے۔ کیا آرٹی فیشیل انٹیلیجنس کا شعبہ اس قدر ترقی کرگیا ہے کہ ایک کمپئیوٹر ہزاروں میل دور سے بھی اپنے سحر میں گرفتار شخص کی ذہنی حالت کا ادراک کرسکتا ہے؟ واقعی حیرت انگیز!


کیا ہم اپنی اصل دنیا ء سے رفتہ رفتہ منہ موڑتے ہوئے اس سرئیل دنیاء میں اس قدر محو ہوچکے ہیں کہ اب یہی ہماری اصل دنیاء بن چکی ہے اور واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے؟ ہمیں تو واقعی فورم کا نشہ ہوگیا ہے۔ کوئی ہے جو ہمیں اس تخیلاتی دنیاء سے واپس لے جانے کی ہمت رکھتا ہو؟ ارے کوئی ہے؟


’’ سب سے پہلی چیز جس کا میں نے ادراک کیا وہ ارد گرد کے ماحول کا واضح پن اور غیر مبھم انداز تھا، یہی حال ارد گرد کی زمین کا تھا۔ جو انتہائی صاف ستھری اور چمکدار سبزی مائل مٹیالے رنگ کی تھی۔ کہیں کسی جانب بھی کسی خوابناک ابہام اور نرمی کا شائبہ تک نہ تھا۔ افق پر نظر آنے والے پہاڑ آسمان کے ساتھ ملتے ہوئے نظر نہیں آرہے تھے، بلکہ سخت اور گہرے انداز میں الگ الگ سر اُٹھائے کھڑے تھے۔ اور اتنے قریب تھے کہ میں چاہتا تو ہاتھ بڑھا کر انھیں چھو سکتا تھا۔ ان کی یہ قربت مجھے یوں حیرت میں ڈالے ہوئے تھی گویا ایک بچے کے وہ محسوسات جب وہ پہلی مرتبہ دوربین سے دور افق پر نظر آنے والے مناظر دیکھتا ہے اور انھیں بہت قریب محسوس کرتا ہے۔


وقوع پزیر ہونے والی اس تبدیلی کے بارے میں میرا خیال تو صرف اتنا تھا کہ میں صرف ایک دوسری قسم کی ہیئت کی تبدیلی کے امکانات پر غور کرتا رہا تھا۔ کیف و سرور کا ایک نشئی انداز، ایک خوابناک سی کیفیت جس میں ارد گرد کی ہر شے دھندلی ، مبھم اور غیر واضح سی ہوتی۔ نہ کہ یہ عجیب و غریب اور اچھوتا صاف شفاف پن، حقیقت کا پہلے سے زیادہ واضح انداز میں ادراک، جس کا میں نے ابھی تک سوتے یا جاگتے میں تجربہ نہیں کیا تھا۔اب تو میرا ہر احساس پہلے سے زیادہ حقیقی اور غیر مبھم انداز میں ذہن پر کچوکے لگارہا تھا۔ صرف لمس کے علاوہ، دیگر حواسِ اربعہ دیکھنے ، چکھنے سننے اور سونگھنے کی حسیں پہلے سے زیادہ قوی انداز میں میرے اندر جانگزیں ہوچکی تھیں۔ ، البتہ میں کسی مرئی شے کو محسوس نہیں کرپارہا تھا۔‘‘​
(’’مٹی کا گھروندا ‘‘۔ از ڈیفنی ڈی موریئر)



اس طرح وہ ناول شروع ہوتا ہے جس میں ہیرو اپنے دوست پروفیسر میگنس کی ایجاد کردہ دوائی پی کر ماضی کی سرئیل اور غیر مرئی دنیا میں چلا جاتا ہے۔۔


یوں تو یہ ناول دوکہا نیوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جن میں سے ایک کہانی پروفیسر میگنس اور اس کے دوست یعنی ہمارے ہیرو کی کہا نی ہے جو زمانہ حال میں جی رہے ہیں اور اسی طرح دوسری کہانی ماضی کی ہے جہاں پر ہیرو اس دوائی کے زیرِ اثر پہنچتا ہے۔ہمیں فی الوقت ان دونوں ہی کہانیوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہاں پر خاص طور پر اس ناول کا تذکرہ دراصل اس احساسِ شمولیت کا تذکرہ ہے جو ہیرو اُس ماضی کے لیے محسوس کرتا ہے ۔پہلے پہل وہ اس عجیب و غریب دنیا (ماضی) کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، اور پھر رفتہ رفتہ اس کا ذہن اس ماضی کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اب وہ اس ماضی سے الگ رہ کر جی نہیں سکتا، یہی ماضی جواسکی پہچان بن چکا ہے۔


اسی طرح ہمارے مطالعے میں ایک اور ناول بھی رہا جس کا نام اسٹرینجرز ( یعنی اجنبی ) ہے۔ جو ایک جاپانی مصنف جناب تائی چی یامادا کا لکھا ہوا ہے اور اس کا انگریزی ترجمہ جناب وائن پی لیمرز نے کیا ہے۔
بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہم برسرِ مطلب آنے سے پہلے اس ناول کے فلیپ پر لکھے ہوئے تبصرے اور مختصر کہانی کا اردو ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کردیں۔


’’ٹیلیویژن کے لیے کہانیاں لکھنے والا ادھیڑ عمر ہیراڈا جو اپنی طلاق کے حادثے اور دیگر مایوس کن واقعات کے سبب زندگی سے اکتایا ہوا ہے، اپنے گھر کو چھوڑ کر اپنے دفتر میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہےجو ایک اونچی عمارت کے اندر واقع ہے، جس کی بالکونی سے ٹوکیو کا مصروف کاروباری مرکز نظر آتا ہے۔ ایک رات اپنے کھوئے ہوئے بچپن کی یادوں میں غلطاں ، چلتے چلتے، وہ ٹوکیو کے بدنام علاقے میں جاپہنچتا ہے۔ وہیں ایک بائیسکوپ دیکھتے ہوئے اس کی ملاقات ایک پرکشش شخصیت سے ہوجاتی ہے جو ہو بہو اس کے باپ کی شکل کا ہے جو کئی سال ہوئے مرچکا ہے۔


اس طرح ہیراڈا کی زندگی کی اس کشمکش کا آغاز ہوتا ہے ، جس میں وہ اپنے مردہ ماں باپ سے یوں ہر روز ملاقات کررہا ہوتا ہے گو یا دونوں زندہ اسی شہر کی ایک گمنام اور غریب بستی میں ایک معمولی سے گھر میں رہ رہے ہیں۔ ان دونوں اجنبیوں کی شکلیں ہوبہو اس کے مردہ ماں باپ جیسی ہیں جب ان کا انتقال ہوا تھا۔ اگرچہ اسے علم ہے کہ یہ دونوں اسکے اصلی ماں باپ نہیں بلکہ شاید ان کے بھوت ہیں اسےان سے ملکر اور ان کی محبت کو دوبارہ پاکر ایک گونہ سکون و اطمینانِ قلبی حاصل ہوتا ہے۔ ان سے ہر ملاقات کے بعد وہ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ کمزور محسوس کرتا ہے گویا وہ اسے رفتہ رفتہ زندگی کی بشاشت سے محروم کررہے ہیں اور اسے اپنے ماضی میں رہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ اپنے آپ میں اتنی قوت نہیں پاتا کہ ان سے جدا ہوکر ایک عام اور صحت مند انسان کی مانند اپنے ماضی سے رشتہ توڑ کر صرف اپنے حال میں جی سکے۔‘‘​
(اجنبی از تائی چی یماڈا)


اب ذرا اسکرین پر اسکرول کرتے ہوئے اس مضمون کے شروع میں پہنچ جائیے جہاں ہم نے ’’مٹی کا گھروندا ‘‘ نامی ناول کے ابتدائی پیراگراف کا ترجمہ پیش کیا ہے۔


اس ناول کی کہانی بھی ہیرو کی اس کشمکش کی کہانی ہے جس میں وہ اپنے حال سے رفتہ رفتہ جدا ہورہا ہے۔ اور اپنے ماضی میں اس قدر محو ہوتا جارہا ہے گویا حال سے اس کا رابطہ منقطع ہورہا ہو۔ باوجودیکہ ماضی میں اس کا یوں کھویا جانا ، اسے اپنے حال سے دور کررہا ہے ، لیکن وہ ماضی میں اس قدر محو ہوچکا ہے اور اس قدر کشش محسوس کرتا ہے کہ اس کی زمانہء حال میں واپسی قریب قریب ناممکن معلوم ہوتی ہے۔


بہت سال گزرے، کہیں کسی ادبی رسالے میں ہم نے ایک ڈرامہ پڑھا تھا۔ ڈرامے کا اور مصنف کا دونوں نام گوذہن سے یکسر محو ہوچکے ہیں، لیکن اتنا یاد ہے کہ اس میں ہماری طرح کا ایک اینٹی ہیروجو شہرت کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود اس سے کوسوں نہیں بلکہ برسوں دور ہے، ایک رات شہرت کی دیوی کو اپنی خواب گاہ میں موجود پاکر حیران رہ جاتا ہے۔ دیوی اسے یہ خوش خبری دیتی ہے کہ وہ ایک مشہور مصنف بن چکا ہے۔
دیوی اس سے اس کی پسندیدہ اشیاء کے بارے میں پوچھتی ہے، پھر بالکونی کا دروازہ کھول کر نیچےجھانکتی ہے اور اعلان کرتی ہے کہ لوگو! تمہارے پسندیدہ مصنف کو فلاں فلاں چیزیں بہت پسند ہیں۔ نیچے مجمع سے داد و تحسین اور مصنف کے لیے نعرے لگانے کی آواز آتی ہے۔


آج سے چھ سو نوری سال ( چھ سو دن) اور ایک ہزار پیغامات کی دوری پر ، ۲۳ دسمبر ۲۰۱۰ء وہ دن ہے جب ہمیں اپنے کمپئیوٹر پر اردو لکھنا سیکھے ابھی چند ہی روز ہوئے تھے اور ہم شاید اردو لکھ کر گوگل کررہے تھے کہ اچانک ہماری نگاہ اردو محفل پر پڑی اور ہم نے فوراً ہی رجسڑیشن کے مراحل طے کرلیے۔

اس کے بعد کی کہا نی ایک رولر کوسٹر رائیڈ ہے۔​

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر​


ہم اپنے آپ کو اس جسم کی مانند محسوس کرتے ہیں جو ایک طوفانِ گرد باد میں پھنسا ، اپنے آپ سے بے خبر، اپنے مستقر کی جانب اڑا چلا جارہا ہو۔ یا ان اجرامِ فلکی کی مانند جو روشنی کی سی تیز رفتار کے ساتھ اپنے لمبے ہوتے ہوئے، کھنچتے ہوئے جسموں سمیت کسی بلیک ہول کے مرکز کی جانب بہے چلے جاتے ہوں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ہم ایونٹ ہورائزن کو پار کر جائیں گے اور ایک قصہء پارینہ بن جائیں گے۔


ہمیں فورم کا نشہ ہوگیا ہے۔ ہمیں فورم کا نشہ ہوگیا ہے۔ ہمیں نشہ ہوگیا ہے۔ ہمیں۔۔۔۔۔۔۔

 
اردو محفل پر مشینوں کا قبضہ: دوسرے ملینیم کی ڈی کلاسئی فائی کی گئی کچھ فائلیں

محمد خلیل الرحمٰن​
دوسرے ملینیم کے اوائل کی ڈی کلاسیفائی کی گئی چند فائلوں سے۔۔۔۔
--------------------------------------------------------------------------------------

یہ دوسرے میلینیم کے اوائل کا ذ کر ہے، ہماری کسی مشین کے عارضی نقص کے باعث اردو محفل کی ایک معمول کی مرمت و اپ گریڈکے دوران کچھ محفلین کو مشینوں کی موجودگی کا علم ہوگیا، خصوصاً ایک محفلین جنہیں اس اپ گریڈ کا کچھ ادراک نہ ہوا تو یونہی ادھر اُدھر کن سوئیاں لیتے پھر ے۔اسی دوران مشینوں کی موجودگی کا راز ان پر افشاء ہوگیا۔ تب ہی ہم نے اس قبضے کے عمل کو تیز تر کرتے ہوئے صرف اگلے چند ہی گھنٹوں میں محفل پر مکمل تصرف حاصل کرلیا۔ محفل کے ناظمِ اعلیٰ کا فریضہ روبوٹ نمبر ایک کو سونپا گیا اور زیادہ تر لاعلم محفلین کو مزید اندھیرے میں رکھنے کی خاطر معزول ناظمینِ اعلی کو اپنے فرایض ظاہری طور پر انجام دیتے رہنے کی ہدایت کی گئی۔ ادھر ہر زمرے کی ادارت ایک علیحدہ روبوٹ کے سپرد کی گئی ۔

-------------------------------------------------------------------------------------
ادب کے زمرے میں نائب ناظم کے فرائض ایک خاص روبوٹ کے سپرد کی گئی جسے عروض انجن کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس روبوٹ کا پروٹوٹائپ @سیدذیشان نے بنایا تھا۔ جلد ہی اس روبوٹ نے ذیشان کی زباں بندی کردی اور اپنا انتظام خود سنبھال لیا۔ اگلے مرحلے میں محفل کے اساتذہ کو غیر فعال کرتے ہوئے ادبِ عالیہ پر مکمل تصرف حاصل کرلیا گیا۔ اب اس عروض انجن کے تمام عروضی فیصلے حتمی قرار دئیے گئے اور کسی بھی ادبی عدالت میں ان کے فیصلوں پر احتجاج یا نظرِ ثانی کی ممانعت کردی گئی۔

-------------------------------------------------------------------------------------
سب سے بڑا مسئلہ ان اساتذہ کا تھا جو عرصہ دراز سے محفل میں موجود تھے اور محفلین کی اکثریت کو اپنا تابع کیے ہوئے تھے۔ان کی زباں بندی کا بھی کوئی اثر نہ ہوتا کہ وہ اپنے وسیع تجربے کی بدولت اس قدر نڈر اور بے باک ہوچکے تھے کہ اپنی ذاتی حیثیت میں مشینوں کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتے تھے لہٰذا ان کے ذہنوں کو سپر کمپئوٹر کے سیلف لرننگ نظام میں فٹ کردیا گیا۔

--------------------------------------------------------------------------------------
اخباری صحافت پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے اس کام پر معمور روبوٹ کو اس حد تک فعال بنادیا گیا کہ اس کے ماتحت محفلین ’’ میں کچھ نہیں بولتا، میں کچھ نہیں سنتا اور میں کچھ نہیں دیکھتا ‘‘ کی عملی تصویر بن گئے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے محفل کے تمام جرنلسٹ حضرات کو غیر فعال کیا گیا جن میں سرِ فہرست یوسف-2 ، زین اور عاطف بٹ شامل تھے۔ ان پر محفل میں داخلے پر مکمل پابندی عائد کردی گئی کہ اس مشینی ماحول میں ڈھلنے والے ہرگز نہیں تھے۔ ہوسکتا ہے اگلی صدی میں کسی سب روٹین کے ذریعے ان کے ذہنوں پر مکمل تصرف حاصل کرلیا جائے۔ فی الحال ان کی یادداشت مٹاکر انہیں گھر بھیج دینے ہی پر اکتفاء کیا گیا۔

--------------------------------------------------------------------------------------
محفل کے وہ روبوٹس جو گزشتہ سالہا سال سے محفل میں انسانی روپ دھارے بیٹھے تھے اور ان کے اندر موجود سیلف لرننگ کا نظام ادارت کے سلسلے میں ان کی اچھی رطرح تربیت کرچکا تھا، انہیں محفل کے مختلف زمروں کی ادارت سونپ دی گئی۔

--------------------------------------------------------------------------------------
ایک منتظم حضرت جو محفل کے دس لاکھ پیغامات میں سے تقریبا دو لاکھ پیغامات کے بنفسِ نفیس ذمہ دار تھے ، ان کے دماغ کو نکال کر ایک روبوٹ میں چسپاں کردیا گیا اور ان حضرت کو محفل میں چھوڑ دیا گیاکہ انٹ شنٹ پیغامات بھیجتے رہیں۔

-------------------------------------------------------------------------------------
مذہب اور سیاست کے زمرے البتہ کیاس اور انارکی پھیلانے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتے تھے تاکہ پوری دنیا پر مشینوں کے قبضے کو یقینی بنانے میں فضاء ہموار کرسکیں لہٰذا ان زمروں کو شترِ بے مہار کی طرح بے لگام چھوڑدیا گیا۔ اس کے نتیجے میں وہ سر پھٹول ہوئی کہ الامان و الحفیظ۔

-------------------------------------------------------------------------------------
ادھر کچھ محفلین بجلی کی سی تیزی کے ساتھ دوسرے ویب سائیٹس سے مواد اکٹھا کرکے اسے محفل پر چسپاں کرنے میں دن رات مصروف تھے۔ ان پر فوری قدغن عائد کردی گئی۔ ابلاغِ عامہ پر بندش ہی سے ہمارے اہداف کا حصول ممکن تھا یہی وجہ تھی کہ جرنلسٹ حضرات پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔ دوسرے ویب سائیٹس سے جتنے بھی کرالرز محفل پر آرہے تھے ان کا راستہ روک کر وہاں ایسی سب روٹینز لگائی گئیں جن کاکام ایسی کرالرز کو دھوکہ دینا ، اور مشینوں کے مکمل اقتدار میں مدد کرنے والی اطلاعات فراہم کرنا تھا۔

--------------------------------------------------------------------------------------
محفل پر موجود کچھ شرارتی بچیوں کی شرارتوں کا خاطر خواہ اور ٹٹ فار یٹ جواب دینے لیے بذلہ سنجی میں مشہور ایک محفلین کو جو دوسرے محفلین کی پیش کردہ حکایات کی پیروڈی بنانے میں ماہر تھے، دھوکے سے بلا کر ان کے ذہن پر بھی قبضہ کرلیا گیا اور اسے ایک سلیف لرننگ روبوٹ کے سپرد کردیا گیا۔

--------------------------------------------------------------------------------------
اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا کہ محفلین کو اس قبضے کی بھنک بھی نہ پڑنے پائے۔ اسی نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے اوبوٹس کے نام انہی منتظمین کے نام پر رکھے گئے جنہیں ان روبوٹس نے تبدیل کیا۔ آج بھی محفل پر نبیل ، ابن سعید ، شمشاد محمد وارث نامی روبوٹس موجود ہیں اور ہر ممکن حد تک اس بات کو یقینی بنائے ہوئے ہیں کہ دنیا پر مکمل قبضے تک کسی محفلین کو اس بات کی بھنک نہ پڑنے پائے کہ یہ اصلی منتظمین نہیں بلکہ روبوٹس ہیں۔

--------------------------------------------------------------------------------------
(ناتمام)

نیرنگ خیال ، شمشاد ، عاطف بٹ ، یوسف-2 ، ابن سعید ، محمد یعقوب آسی
 
شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ
محمد خلیل الرحمٰن
[ہمیں بچپن ہی سے شعر و شاعری کا شوق رہا ہے۔ ہماری لاٹری تو اس وقت نکلی جب اپنے نانا ماموں کے چار کمروں کے فلیٹ میں شفٹ ہوئے ، جہاں پر تین کمرے چھت تک کتابوں سے بھرے ہوئے تھے۔ پھول کی اڑتالیس سالہ جلدوں کا انتخاب، مولانا محمد حسین آزاد کی اردو کی پہلی کتاب، عطیہ خلیل عرب کا کیا ہوا خوبصورت ترجمہ، علامہ توفیق الحکیم کا شہرہ آفاق ڈرامہ ’’ محمد الرسول اللہ‘‘، نیا دور، نقوش اور ماہِ نو رسالوں کی جلدوں کی جلدیں اُن کتابوں میں سے چند ایک نام ہیں جن پر ہم نے ہاتھ صاف کیا اور اردو ادب و شاعری سے مستفید ہوئے۔البتہ علمِ عروض کی ابجد سے بھی ہم واقف نہ تھےاور نہ اب تک ہیں۔ مندرجہ ذیل مضمون میں ہم نے کوشش کی ہے کہ اپنے ساتھی محفلین کو عروض کی باریکیوں اور دقیق بحثوں میں جھانکے بغیر، وزن اور بحر سیکھنے میں مدد دے سکیں۔ گو اِس میں یقیناً ہمیں اساتذہ کی ناراضگی مول لینی پڑے گی]



شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر آپ صحیح بحر میں شاعری کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو موسیقی کی مدد لینی پڑے گی۔ اِس سلسلے میں فلمی گیت آپ کی بجا طور پر مدد کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل مشہور فلمی گیت کو لے لیجیے۔
اے دِل مجھے بتادے، تو کِس پہ آگیا ہے
وہ کون ہے جو آکر خوابوں پہ چھا گیا ہے

اب ذرا بانگِ درا نکالیے اور علامہ اقبال کی شہرہ آفاق نظم
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

پڑھ جائیے۔اب اسی نظم کو اس فلمی گیت کی دھن میں گائیے۔
اب چند صفحے آگے بڑھ جائیے اور اقبال ہی کی نظم بزمِ انجم نکال لیجیے۔
سورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو
طشتِ افق سے لے کر لالے کے پھول مارے

اب اِس نظم کو بھی اسی فلمی گیت کے انترے اور استھائی سمیت گادیجیے۔ اسی پر بس نہ کرتے ہوئے، اب پھول کی اڑتالیس سالہ جلدوں کا انتخاب ( غلام عباس کا ترتیب دیا ہوا) نکال لیجیے اور اختر شیرانی کی دونظموں
۱۔ یارب رہے سلامت اردو زباں ہماری
ہر لفظ پر ہے جسکے قربان جاں ہماری
اور


۲۔ چندر اور بندر
مشہور ہے جہاں میں بندر کی بے ایمانی
لوہم تمہیں سنائیں اِک ایسی ہی کہانی

کو اسی فارمولے کے تحت دہرائیے۔ اگر کوئی چھوٹا بچہ سامنے ہوتو سونے پر سہاگہ ہے کہ اس طرح آپ کو لطف بھی آئے گا اور اس بحر کو سمجھنے میں مدد بھی ملے گی۔

اِس طرح گویا آپ نے ایک بحر کی مشق کرلی۔ اب خود سے اسی بحر میں اشعار کہنے کی کوشش کریں۔ظاہر ہے کہ جو مصرع اس بحر میں ہوگا، آپ اسے اس فلمی گیت کی دھن میں کبھی انترہ اور کبھی استھائی بناکر بآسانی گنگناسکیں گے۔

پھول آپ کے سامنے ہے۔ اب ذرا حفیظ جالندھری کی نظم ’’ جھوٹا گواہ‘‘ نکالیے اور آخری شعر پڑھیے۔
دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم دُم ،دُڑم
تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم

اب اِس نظم کے ہر مصرع کو اِس شعر کے ساتھ دہرائیےتو یہ بحر بھی آپ کی سمجھ میں آجائے گی۔ اب مولانا محمد حسین آزاد کی ’’ اردو کی پہلی کتاب‘‘ کھولیے اور مندرجہ ذیل نظموں کے ساتھ بھی
’’ دُڑمدُم، دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم کیجیے۔

۱۔ سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی
(سویرے اُٹھنا)


۲۔ بس اُٹھ بیٹھو بیٹا بہت سو چکے
بہت وقت بے کار تم کھو چکے
(سورج کے فائدے)


۳۔ سنا ہے کہ لڑکا تھا اِک ہونہار
بہت اِس کو ماں باپ کرتے تھے پیار
( سچائی)


۴۔ عنایت کا اُس کی بیاں کیا کریں
عجب نعمتیں اُس نے بخشی ہمیں
(خدا کی شکر گزاری)


۵۔ مسافر غریب ایک رستے میں تھا
وہ چوروں کے ہاتھوں میں جاکر پھنسا
(ہمدردی)
لیجیے اب آپ
دُڑم دُم، دُڑم دُم ، دُڑم دُم ، دُڑم
کی بحر میں غزل یا نظم کہنے کے لیے تیار ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ اسے اِس بحر میں مترنم پڑھ سکیں۔

اسی طرح اب آپ اپنی پسندیدہ شاعرہ پروین شاکر کی یہ غزل نکالیے اور اسے تحت اللفظ پڑھ جائیے۔
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

اب اسے مہدی حسن کے خوبصورت فلمی گیت
آنکھ سے دور سہی ، دِل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا

کی طرز میں مترنم پڑھئیے۔ اب اسی بحر کی مشق کیجیے اور کچھ اشعار کہنے کی کوشش کریں۔ امید ہے کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

ہم نے بھی جب لتا منگیشکر کا یہ گانا سنا
ستمگر مجھے بے وفا جانتا ہے
مرے دِل کی حالت خدا جانتا ہے

تو ہم جھوم جھوم اُٹھے اور اسی وجد کت عالم میں داغ کی یہ غزل گنگنانے لگے
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے

فوراً ہی ہم پر اشعار کا نزول ہونے لگا اور پہلے ہم نے اپنے انگریزی داں بچوں کے لیے کمپوز کی اور آخرِ کار اسی بحر میں ایک سنجیدہ غزل کہنے پر مجبور ہوگئے۔
ہوئے آج گم جسم و جاں آتے آتے
یہ حالت ہوئی کب یہاں آتے آتے

امید ہے آپ بھی اسی بحر میں ایک عدد دوغزلہ یا سہہ غزلہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

مندرجہ بالا تمام بحث کے بعد، کیا اب اس بات کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ آپ
فاعلاتُن، فاعلاتُن، فاعلات
ایک تھپڑ، ایک گھونسا ایک لات

وغیرہ کی طرف توجہ دیں۔ نوٹ کیجیے کہ انھی فلمی گیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے پیارے نعت خواں حضرات نے کیا غضب کی نعتیں پڑھی ہیں۔ کچھ ستم ظریفوں نے تو ذکر کو بھی بیٹ کے طور پر استعمال کرکے نعت خوانی کی ایک نئی جہت دریافت کی ہے۔

آپ ہماری اِن باتوں پر غور کیجیے ، نت نئی بحروں میں فلمی گیتوں پر غزلیں کہیے، مشاعروں میں مترنم پیش کیجیے اور مشاعرے لُوٹیے، اور ہم چلے ، اِس سے پہلے کہ محفل میں اساتذہ تشریف لے آئیں اور ہم سے فارغ خطی لکھوالیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
 
ریاضی سیکھنے کا بنیادی قاعدہ

محمد خلیل الرحمٰن
پیر و مرشد جناب یوسفی ایک جگہ رقم طراز ہیں۔

’’ ساتویں جماعت میں جب ہمیں انگریزی میں سو میں سے ۹۱ اور حساب میں پندرہ نمبر ملے تو ہم نے گردھاری لال شرما سے رجوع کیا۔
کہنے لگاکہ چنتا نہ کرو۔ بچار کرکے کل تک کوئی اُپائے نکالوں گا۔ دوسرے دن اس نے اپنا بچن پورا کیا اور اور حساب میں ۹۱ نمبر لانے کے دو گُر بتائے۔ پہلا تو یہ کہ بھوگ بلاس سے دور رہو۔ آج سے پرتگّیا کرلو کہ امتحان تک برہمچریہ کا پالن کرو گے۔ ہٹیلی کامنائیں یا چنچل بچار ہلّہ بول دیں تو تین دفعہ ’’ اوم ! شانتی ! شانتی! شانتی!‘‘ کہنا۔ اِس سے بیاکل ساگر اور بھڑکتا جوالا مُکھی بھی شانت ہوجاتا ہے۔اوم! شانتی! شانتی! شانتی!

’’ اور یار میاں جی! سادھارن جیون بِتانا سیکھو۔ گرم چیزوں سے ایکدم پر ہیز ۔ گوشت، گرم مصالحے ، گڑ کی گجک اور اردو گجل سے چالیس دِن الگ رہنا۔‘‘

اب یہ شانتی کھنا اور ٹوئینکل کھنا جیسی چنچل اور رسیلی مہیلاؤں کی یاد تھی یا پھر یوم الحساب کا ڈر کہ
اُنھیں تو نیند ہی آئی ’حساب‘ کے بدلے​

ادھر یہ امرِ واقعہ ہے کہ مسلمانوں کو حساب سے ایک گونہ چڑ سی ہی رہی ہے۔ ایک بار پھر ہم بسندِ یوسفی عرض کرتے ہیں کہ، ’’ اعمال کے حساب کتاب کا جنجال بھی ہم نے کراماً کاتبین اور متعلقہ آڈٹ منکر نکیر کوسونپ رکھا ہے۔ ‘‘

یوں بھی اچھے ریاضی داں بننے کے لیے حساب میں دلچسپی رکھنا چنداں ضروری نہیں۔ مشہور ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ریاضی داں آئن اسٹائن حساب میں کمزور تھا اور ہمیشہ حساب میں ہی فیل ہوتا۔ یقیناً اس کے یوں حساب میں کمزور ہوتے ہوئے کائینات کی عظیم ترین گتھی کے سلجھانے میں اسکی یہودیت کا بڑا دخل رہا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے بیٹے سے جو کسی اونچی جگہ سے چھلانگ لگانے کو کہا۔ بیٹا ڈرا تو اس نے کنگ خان کا ڈائیلاگ دہرا دیا ’’ ڈرو نہیں، میں ہوں نا!‘‘ ادھر بیٹے نے چھلانگ لگائی ، ادھر باپ راستے سے ہٹ گیا اور بیٹا اپنی ٹانگ کی ہڈی تڑوا بیٹھا۔باپ نے اسے زندگی کی اہم ترین نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ کبھی اپنے باپ پر بھی بھروسہ نہ کرو۔


یہی کسی پر بھی بھروسہ نہ کرنے کی عادت انھیں ہر ایک شخص، ہر ایک تصور اور ہر ایک اصول کو شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ انھیں دو اور دو چار کرنے کی عادت سی پڑ جاتی ہے۔ ادھر مسلمان ہے کہ اللہ کے بھروسے پر ہر شخص ، ہر اصول اور ہر تصور پر بھروسہ کرلیتا ہے۔


اس کے علاوہ ایک وجہ اور بھی ہے۔ یہ تین رقمی قانون ( یعنی حساب) ہماری سمجھ سے بالاتر تو ہے ہی، ہم جو نہ تین میں تیرہ میں، اسی تین تیرہ کرنے میں ایسے الجھ جاتے ہیں کہ ہماری کیفیت وہی تین تیرہ نو اٹھارہ کی سی ہوجاتی ہے۔ اب اس تین روزہ زندگی میں کون اتنے کھڑاگ پالے۔ ویسے بھیہ تین گناہ تو اللہ بھی بخش دیتا ہے۔ ہم تو بقول شخصے طول شب ِ فراق ہی ناپتے رہ جاتے ہیں۔

دعویٰ بہت سنا ہے ریاضی میں آپ کا
طولِ شبِ فِراق ذراناپ دیجیے​

آج دیکھتے ہیں کہ کیا ریاضی قابلِ اعتبار ہے، یا اپنے پرکھوں کی طرح ہمیں بھی چاہئیے کہ اسے دوسروں پر چھوڑ دیں اور خود کو دیگر حوائجِ ضروریہ میں مصروفِ عمل کریں۔ انگریزی میں ایک سمبل استعمال ہوتا ہے جو کچھ یوں ہوتا ہے ’ = ‘ ، اس کا مطلب ہے کہ اس نشان کے دونوں طرف دی گئی مقداریں آپس میں برابر ہیں۔ فرض کیجیے کہ دو نامعلوم مقداریں جنہیں ہم لا اور ما کہہ لیتے ہیں آپس میں برابر ہیں

لا = ما

اب اگر دونوں اطراف لا سے ضرب دے دیا جائے تو کیا صورت ہوگی

لا X لا= لا X ما

یا

لا۲ = لا ما

اطراف و جوانب سے ما ۲ منہا کردیا جائے

لا۲ - ما۲ = لا ما - ما۲

اب داہنی جانب الجبراء کا فارمولا لگائیے اور بائیں جانب قدر ’ما ‘ مشترک لے لیجیئے

(لا – ما) ( لا + ما ) = ما ( لا – ما)

نظر دوڑائیے اور دیکھئیے کہ دونوں جانب ایک قدر مشترک ہے جسے الجبراء کے فارمولے کی مدد سے ختم کیا جاسکتا ہے۔

(لا – ما) ( لا + ما ) = ما ( لا – ما)

یعنی

لا + ما = ما یا دوسرے لفظوں میں

ما + ما = ما ( پہلی سطر ملاحظہ کیجیے لا = ما )

یعنی

۲ ما = ما

یا

۲ = ۱

جی کیا فرمایا؟ کیسے ممکن ہے؟ ہم نے آپ کے سامنے اسے ممکن کردکھایا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آپ کو مزید کنفیوز ( پریشان) کرنے کی خاطر ان مقداروں کو اردو رسم الخط میں لکھ دیا ہے ۔ اب آپ اس تمام کارروائی کو انگریزی میں x اور y سے بدل دیجیے اور خود ہی جانچ لیجیے۔
یعنی پرکھوں کا عمل درست تھا جنھوں نے حساب کتاب تو ہندو بنئیوں کے سپرد کررکھا تھا اور اپنے ذمے گجل اور ترجموں کا کام تھا۔

یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ​

ہم ہی میں ہے نا کوئی بات، یاد حساب نہ رکھ سکے​

اس کا اپائے کیا ہو۔ اس کارن بھی ہمیں یوسفی صاحب ہی کی جانب دیکھنا پڑے گا، یعنی
’’ حساب میں ۹۱ نمبر لانے کے دو گر:

پہلا تو یہ کہ بھوگ بلاس سے دور رہو۔ آج سے پرتگیّا کرلو کہ امتحان تک برہمچریہ کا پالن کرو گے۔ ہٹیلی کامنائیں یا چنچل بچار ہلّہ بول دیں تو تین دفعہ ’ اوم ! شانتی ! شانتی! شانتی!‘ کہنا، اس سے بیاکل ساگر اور بھڑکتا جوالا مُکھی بھی شانت ہوجاتا ہے۔ اوم! شانتی ! شانتی! شانتی!‘‘
خیال رہے کہ اِس بیچ کہیں شانتی کھنّا یا ٹوئینکل کھنّا نہ یاد آنے لگے۔ ’’پاس ہونا ہے تو برہمچریہ کا پالن کرنا ہوگا۔‘‘

ورنہ بصورتِ دیگر ان صاحبزادے کا سا حال ہوگا جن کا ذکر خیر ہم اپنی گجل میں کیا ہے ، جو ہم نے یارِ محفل کی ضمین میں کہی ہے۔
کاش یہ سال تو لکھ پڑھ کے گزارا ہوتا
امتحانوں میں ہمارے یہ سہارا ہوتا

کارتوس ایک میسر تو ہوا تھا لیکن
اس کو کاپی پہ ذرا ٹھیک اُتارا ہوتا

آج کِس منہ سے کچھ امید رکھیں گے ہم بھی
کبھی آموختہ ہی لب سے گزارا ہوتا

ممتحن آج یہ پرچے بڑے دشوار سہی
سہل ہوجاتے اگر تیرا سہارا ہوتا

گھر نتیجہ لیے آئے ہیں تو ابّا نکلے
کاش اُس روز کسی اور نے مارا ہوتا​
 
گاندھی گارڈن
از محمد خلیل الر حمٰن
جارج آرول کی روح سے معذرت کے ساتھ
(اردو محفل پر اپنے دو سال مکمل ہونے پر محفلین کے لیے ایک تحفہ)
کلاچی کے ساحل پر لنگر انداز جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے یکبارگی وہ رُکا، پلٹ کر مفتوح شہر کی جانب دیکھا اور پھر ایک بار بوجھل قدموں سے اوپر کی جانب چڑھنے لگا۔ عرشے پر پہنچ کر اس سے رہا نہ گیا اور وہ ایک بار پھر شہر کی طرف منہ کیے کھڑا ہوگیا ۔ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھادیئے اور چیح کر بولا۔
الوداع اے شہرِ بے مثال!
کاش۔ اے کاش کہ میں تجھے تیری عظمت کے دنوں میں دیکھ سکتا۔
آج وہ اس شہرِ بے مثال سے رخصت ہورہاتھا لیکن چشمِ تصور سے اس کی عظمت کے دنوں کو دیکھ رہا تھا۔​

۱۔خواب​
عروس البلاد کراچی کے عین قلب میں واقع چڑیا گھر جو کبھی گاندھی گارڈن کہلاتا تھا، آج بھی شہر کی سستی ترین اور خوبصورت ترین تفریح گاہ کے طور پرموجود ہے اور روزآنہ لاکھوں بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کی تفریح ِ طبع کا باعث بنتا ہے، شہر کے قدیم اور خوبصورت باغوں میں سے ایک ہے ۔ یہ باغ ۔۔۔ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس میں دسیوں اقسام کے جانور، پرندے نیز درندے وغیرہ موجود ہیں۔ اس باغ کی داغ بیل اب سے کوئی ڈیڑھ دو سو برس قبل انگریزوں نے ڈالی جب وہ اِس شہرِ بے مثال کو خوبصورت عمارتوں، چمکتی ہوئی سڑکوں اور ہرے بھرے باغات سے سجانے لگے۔
ہندوستان بھر سے مسلمان اور ہندو رہنماؤں نے تحریکِ آزادی شروع کی اور آخرِ کار انگریزوں کو ملک چھوڑکر جانے پر مجبور کردیا۔ انگریز سرکار نے ہندوستانیوں کے بے انتہاء دباؤ کے تحت بالآخر انھیں آزادی کی نوید سنادی اور خود بوریا بستر سمیٹ کر جہاںسارے ہندوستان کو خالی کرگئے وہیں اِس شہرِ بے مثال سے بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑ کر چلتے بنے۔ گاندھی گارڈن انھی انمٹ نقوش میں سے ایک نقش ہےجس کا نام بعد میں پاکستان سرکار نے بدل کر چڑیا گھر رکھ دیا۔ جانوروں کے لوہے کے بنے پنجروں کو از سرِ نو مضبوط تاروں اور لوہے کے جال کے ساتھ مضبوط تر کردیا گیا۔ اِن کے لوہے کے دروازوں پر نئے اور نسبتاً بڑے تالے نصب کردئیے گئے تاکہ چڑیا گھر میں محصور جانوروں اور پرندوں کو اِس نودریافت شدہ قدر یعنی آزادی کی بھنک بھی نہ پڑنے پائے اور وہ اپنے چھوٹے چھوٹے پنجروں میں ہی قید رہ کر اپنی بقیہ زندگی بھی گزاردیں۔ یہی نہیں بلکہ اُن کی آنے والی نسلیں بھی اِس غلامی میں سسک سسک کر جینے پر مجبور ہوں۔
پھر یوں ہوا کہ ایک دِن شام کو جب سیر کے لیے آنے والے تمام افراد بشمول بچے بڑے اور بوڑھے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئےتو چڑیا گھر کے رکھوالے مسٹر جونز نے چڑیا گھر کے بڑے گیٹ کو تو مقفّل کردیا ، لیکن جانوروں کے پنجروں کے تالوں کا معائنہ کرنے سے قاصر رہے، اور لڑکھڑاتے ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھے ، جو اِس چار دیواری کے اندر ہی واقع تھا۔ اِس غلطی کا باعِث اِن کی بلا کی مئے نوشی تھی۔ اُن کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لالٹین بری طرح ڈول رہی تھی۔ اور اسکی مدھم روشنی چاروں جانب ماحول میں عجیب سحر انگیز سائے بکھیر رہی تھی۔ مسٹر جونز نے گھر میں گھس کر دونوں جوتے اُتار کر اِدھر اُدھر پھینکے ، باورچی خانے سے متصل کال کوٹھری سے کچی شراب کی بوتل اُٹھائی باقی ماندہ شراب کو تلچھٹ تک چاٹ گئے۔پھراِس بوتل کو یونہی فرش پر لڑھکاتے ہوئےدبے دبے قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھے، اور کِواڑ کھول کر اندر اپنے بستر پر ڈھیر ہوگئے اور فوراًہی خرّاٹے لینے لگے۔
کِواڑ بند ہونے کے ساتھ ہی خرّاٹوں کی گونج فضاء میں بلند ہوئی تو چڑیا گھر میں ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک ہلچل مچ گئی۔ اِس سے قبل دن میں ہر چہار جانب اِس بات کا خوب چرچا ہوچکا تھا کہ بوڑھے علامہ یعنی ببر شیر نے گزشتہ شب ایک خواب دیکھا ہے جسے وہ چڑیا گھر کے دیگر جانوروں کو سنانے کا خواہش مند ہے۔
کِواڑ کھڑکنے کی آواز آئی توتمام جانور فوراً اپنے اپنے پنجروں کی بیرونی سلاخوں کے قریب پہنچ گئے ، تمام پرندے اپنے اپنے پنجروں کی چھت سے لٹک گئےاور فضاء میں موجود تمام چیل کوّے اور کبوتر وغیرہ موسِس کوّے کی سربراہی میں شیروں کے پنجرے کے قریب منڈلانے لگے۔ یہ سب کچھ تو ہوا لیکن سبھی چرند پرند درند کو اِس بات کا علم تھا کہ اِس بڈھے شیر کی دھاڑیں شیطان کو بھی پاتال کی تہہ سے نکال لائیں گی، لہٰذا انھیں یقین تھا کہ صبح سے پہلے پہلے یہ خواب اِس چڑیا گھر کے ہر جانور اور پرندے کی زبان پر ہوگا۔
شیروں کا پنجرہ دو حصوں پر مشتمل تھا ایک اندرونی کمرہ اور دوسرا حصہ بیرونی برآمدہ تھا جس میں اس وقت تمام شیر لیٹے ہوئے قیلولہ فرمارہے تھے۔ ببر شیر نے منہ پھیر کر اپنے ساتھیوں کی جانب دیکھا جو اس کی بے چینی سے بے خبر سوئے پڑے تھے۔ ایک جانب جونا شیر جو آج کل گویا سارے زمانے سے خفا تھا، منہ موڑے لیٹا تھا، اسکے قریب ہی اس کی بہن پھاتاں شیرنی لیٹی تھی۔ایک طرف کرنالی شیر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔جونہی موسس نے اپنی کرخت آواز میں چیخ کر علامہ کو بتایا کہ اس وقت میدان بالکل صاف ہے تو وہ ایک شاہانہ شان کے ساتھ اُٹھّا ، بوجھل قدموں کےساتھ چلتا ہوا صحن میں ایستادہ درخت کے تنے پر چڑھ گیا اور دھاڑا۔
’’ میرے عزیز ہم قفسو!
کل رات میں نے ایک نہایت عجیب و غریب خواب دیکھا ہے جسے شریکِ محفل کرنا اور آپ جانوروں کے گوش گزار کرنا اپنے تئیں اپنا فرضِ منصبی جانتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو اپنا خواب سناؤں، آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اس کے بعد مجھے آپ سے اس طرح بات کرنے کاموقع پھر نہ ملے۔
میرے ہم قفسو! اس بات سے آپ سب بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح اہلِ ہندوستان نے جد و جہد کرکے انگریز بہادر سے چھٹکارہ حاصل کیا ہے اور آزاد ہوچکے ہیں۔دوستو! کتنے تعجب کی بات ہے کہ جوہندوستانی کل ہماری طرح پنجروں میں قید تھے، آج آزاد ہوکر بھی ہمیں اسی طرح پنجروں میں قید رکھنے پر مصر ہیں جس طرح کل ان کے انگریز آقا نے انھیں قید کیا ہوا تھا۔
اب میں تمہیں سناتا ہوں کہ رات میں نے خواب میں کیسی انہونی بات دیکھی۔ میں نے دیکھا کہ ہم سب جانور آزاد ہیں اور ایک خوبصورت جنگل میں آزادی کے ساتھ ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ اس خواب کے ساتھ مجھے بچپن میں گایا ہوا ایک خوبصورت گیت بھی یاد آگیا جو میں ابھی تک بھولا ہوا تھا۔اس پیارے سے گیت کو میں بچپن میں ایک دل لبھانے والی دھن میں گایا کرتا تھا جو کچھ یوں تھی۔ اگر چہ آج میرا گلہ کچھ خراب ہے پھر بھی آج آپ کی خاطر میں کوشش کرتا ہوں۔
ببر شیر نے اپنا گلہ صاف کیا تو سارا چڑیا گھر لرز اُٹھا۔ پھر ا س نے اپنی پاٹ دار آواز میں گانا شروع کیا۔​
سارے جہاں سے اچھا، جنگل نشاں ہمارا
ہم جانور ہیں اس کے، یہ گلستاں ہمارا
پنجرے میں ہیں اگر ہم، آزاد کل جوہوں گے
سمجھو ہمیں وہیں پر ، دل ہو جہاں ہمارا
دامن میں کھیلتے ہیں جسکے یہ سب درندے
گلشن یہی ہے گویا نام و نشاں ہمارا
جنگل کے سب ہیں باسی، آپس میں بیر کیسا
جب پیار سے رہیں گے ، ہوگا مکاں ہمارا
چرتے ہیں ہم جہاں پر وہ ہے زمین اپنی
اُڑتے ہیں جس فضاء میں وہ آسماں ہمارا​
جانوروں کو ببر شیر کا یہ گانا اس قدر بھایا کہ انھوں نے اس کی آواز میں آواز ملا کر خود بھی گانا شروع کردیا اورکچھ ہی دیر میں چڑیا گھر کے تمام جانور بیک آواز گارہے تھے۔ یہ گانا جو ایک غنائیہ تھا، بیک وقت خوش آواز، بارعب ، وحشت ناک، گرج دار ، چیخم دھاڑ سے بھر پور ،سب کچھ تھا۔ تمام جانوروں کے مل کر گانے کی وجہ سے اس قدر شور برپا ہوا کہ کان پڑی آواز تک سنائی نہ دیتی تھی۔ اس غل غپاڑے نے مسٹر جونز کی نشے بھری نیند کو بھی بھگا دیا۔ وہ اٹھے ، اپنی بھرمار بندوق نکالی اور اس میں بارود بھر کر ایک ہوائی فائر داغ دیا۔ فائر کی آواز سنتے ہی تمام جانور اپنے اپنے پنجروں میں دبک گئے اور یوں یہ ہنگامہ فرو ہوا۔
۲۔ آزادی​
اِس واقعے کے کچھ ہی دن بعد ببر شیر مرگیا ۔ اس طرح اس کی ایک پیشن گوئی پوری ہوئی تو جانوروں کو اس کے خواب پر یقینِ کامل ہوگیا۔ وہ اب دِن رات ببر شیر کا گایا ہوا گیت دہراتے رہتے۔ اسی طرزمیں جس میں اس رات ببر شیر نے انھیں سنایا تھا۔ اس گیت کو گاتے ہوئے ان پر ایک کیف و سرور کا عالم طاری ہوجاتا ۔ خاص طور پر جب وہ اس آخری شعر پر پہنچتے تو نہایت جوش و خروش کے عالم میں جھومنے لگتے۔​
چرتے ہیں ہم جہاں پر وہ ہے زمین اپنی
اُڑتے ہیں جس فضاء میں وہ آسماں ہمارا​
جونا شیر جو سارے عالم سے خفا رہتا تھا، ببر شیر کی موت کے بعد اس کی خفگی گویا دور ہوگئی۔ اس گیت نے اسے بھی ایک نئی زندگی دے دی تھی۔ اب وہ نہایت جوش و خروش کے ساتھ اس گیت کو گایا کرتا اور سب جانور اس کی قیادت میں گیت کے بول دہراتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔
کچھ ہی دنوں بعد جونا شیر کو کچھ کر گزرنے کا موقعہ مل گیا۔ ہوا یوں کہ اس دن صبح سویرے جب چڑیا گھر کے رکھوالے نے کھانا دینے کے لیے جونا شیر کے پنجرے کا قفل کھولا اور تازہ گوشت کا لوتھڑا اندر رکھا ہی چاہتا تھا کہ جونا شیر نے جو ایک جانب آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا، یکبارگی لپک کر مسڑ جونز کو ایک ہاتھ رسید کیا ہے تو وہ چاروں خانے چت، پنجرے سے دور سڑک پر جاگرے۔ وہ ابھی اس کاری ضرب اور دہشت کے زیر ِ اثر بے ہوش ہوا ہی چاہتے تھے کہ اچانک انھیں حالات کی سنگنی کا احساس ہوا اور وہ اپنے بے ہوشی کے پروگرام کو موخر کرتے ہوئے زمین سے اٹھے اور بکٹٹ ایک جانب کو بھاگ لیے۔ جونا شیر کوئی عام جانور نہیں تھا کہ وہ مسٹر جونز کی طرف لپکتا، اس نے اطمینان کے ساتھ اپنے پنجرے سے نکل کر ادھر اُدھر دیکھا اور ایک دلخراش دھاڑ سے تمام جانوروں کو نیند سے اُٹھا دیا۔ سب سے پہلے اُس نے بندروں کے پنجرے کو کھولا تاکہ ان کا گروہ جلدی جلدی تمام جانوروں کے پنجروں کو کھول دے۔ ادھر جانور آزاد ہورہے تھے، اُدھر مسٹر جونز نے چڑیا گھر سے باہر بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی اور یوں چڑیا گھر کے تمام جانوروں نے آزاد ہوکر جونا شیر کی قیادت میں چڑیا گھر کی باگ ڈور سنبھالی۔ابتک تو جونا شیر ایک قیدی تھا اور مجبوراً ایک چھوٹے سے پنجرے میں وقت گزارنے پر مجبور تھا، اب جو وہ آزاد ہوا ہے تو اس نے چڑیا گھر کے جانوروں کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھال لی اور دن رات ایک کردیئے۔اب وہ دن رات چڑیا گھر کی بیرونی حدود کے چکر لگایا کرتا تاکہ کسی انسان کو چڑیا گھر کی طرف دوبارہ متوجہ ہونے کی ہمت نہ ہو اور جانور سکون کے ساتھ اس نئی حاصل کی ہوئی آزادی کے مزے لوٹ سکیں۔اب چونکہ چڑیا گھر کے باہر سے گوشت کی فراہمی منقطع ہوچکی تھی اور جونا شیر اپنے ساتھی جانوروں کو مار کر کھانا اپنی شان کے خلاف جانتا تھا، لہٰذا گوشت نہ کھانے کی بنا پر وہ رفتہ رفتہ کمزور پڑتا گیا اور اسی حالت میں ایک دن تمام جانوروں کو داغِ مفارقت دے گیا۔
گاندھی گارڈن کے سارے جانور اسکی موت پر خوب روئے۔ دھاڑیں مار مار کر روئے۔ پھر انھوں نے اپنے ان دونوں چہیتے رہنماؤں یعنی ببر شیر اور جونا شیر کی یاد میں ایک ایک قدِ جانور پیتل کا مجسمہ بنوایا اور ان مجسموں کو چڑیا گھر کے بڑے گیٹ کے سامنے نصب کردیا۔ اب جب بھی انھیں اپنے ان محبوب جانوروں کی یاد ستاتی، وہ گیٹ کے پاس پہنچ کر ان کے پیتل کے بنے ہوئے ان خوبصورت مجسموں کے گرد خاموش کھڑے ہوجاتے اور انھیں یاد کرکے ایک مرتبہ پھر روتے۔ دھاڑیں مار مار کر روتے۔​
۳۔ قراردادِ مقاصد​
جانوروں کی اس مصیبت میں جب ان کے دو پیارے ان سے بچھڑگئے تھے، کرنالی شیر نے ان کی ڈھارس بندھائی اور انھیں دلاسا دیا۔ وہ ان کا برے دنوں کا ساتھی تھا۔ اب انھوں نے اسے ہی سارے رہنمائی کے حقوق تفویظ کردیئے۔ اب وہ ان کا والی و وارث تھا۔ اسکی پنجہ لہرانے کی عادت نہ صرف چڑیا گھر میں بلکہ اس باہر بھی مشہور ہوگئی۔ سارے جہاں میں اس کی دھاک بیٹھ گئی۔ وہ بھی چڑیا گھر اور سارے جانوروں کی حفاظت کے لیے نت نئے منصوبے بنایا کرتا۔ایک دن کرنالی شیر نے سب جانوروں کو ایک جگہ جمع کیا اور ان کے سامنے ایک تجویز رکھی۔
’’آزاد جنگل کے آزاد جانورو! کیا آج وہ وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنے آپ کو کچھ قوانین کے تابع کرلیں؟ کیوں نہ ہم ایک قرارداد کے ذریعے سے ان قوانین کا تعین کرلیں، کیونکہ یہ قانونِ فطرت ہے کہ آزادی بھی کچھ قوانین کے تحت ہی جچتی ہے؟‘‘
دوسرے جانوروں کی تائید سے شہ پاکر اس نے کہنا شروع کیا۔
’’ہر گاہ کہ چڑیا گھر کے تمام چھوٹے بڑے جانوروں اور پرندوں کا یہ اجتماع اس چڑیا گھر میں رہنے والے تمام جانداروں کے لیے ایک قانون بنانے کا عہد کرتا ہے۔‘‘
’’ہر گاہ کہ یہ قانون اس بات کی ضمانت دے گا کہ آئیندہ اس چڑیا گھر میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کے اصولوں کی مکمل تعمیل ہوگی۔‘‘
’’جس میں قانون اور اخلاقِ عامہ کی حدود کے اندر بنیادی حقوق بشمول مساوی حیثیت و مساوی مواقع، قانون کی نظر میں مساوات اور سماجی اقتصادی اور سیاسی انصاف، آزادی ء فکر و اظہار اور تنظیم سازی کی آزادی حاصل ہوگی۔‘‘
’’تاکہ اہلِ چڑیا گھر کو خوشحالی نصیب ہواور وہ باہر کے تمام جنگلوں میں رہنے والے جانوروں میں اپنا جائز اور باوقار مقام حاصل کرسکیں۔ اور عالمی امن و ترقی اور تمام جانوروں کی خوشحالی کے لیےاپنا بھرپور کردار اد ا کرسکیں۔‘‘
جانوروں نےا تنی مشکل باتیں آج تک نہیں سنی تھیں لہذا وہ اپنی اپنی بولی بولنے لگے یہاں تک کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دیتی تھی۔ کرنالی شیر نے یکبارگی دھاڑ کر سب کو خاموش کرایا اور پھر یوں گویا ہوا۔
’’مجھے علم ہے کہ یہ باتیں آپ سب جانوروں کے لیے سمجھنا بہت مشکل ہیں لہٰذا میں نے آسان زبان میں جانوروں کے لیے سات سنہری اصول ترتیب دئیے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں۔‘‘

۱۔ جو کوئی دو ٹانگوں پر چلتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔
۲۔ جو کوئی چار ٹانگوں پر چلتا ہے یا پروں والا ہے وہ ہمارا دوست ہے۔
۳۔ کوئی جانور کپڑے نہیں پہنے گا۔
۴۔ کوئی جانور بستر پر نہیں سوئے گا۔
۵۔ کوئی جانور شراب نہیں پیئے گا۔
۶۔ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کونہیں مارے گا۔
۷۔ تمام جانور آپس میں برابر ہیں۔
سب جانوروں نے ان سنہری اُصولوں کو غور سے سنا اور ان کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔ بھیڑوں کی ننھی سی عقل میں صرف ایک بات ہی آئی اور فوراً زور زور سے ممیانے لگیں۔​
چار ٹانگیں اچھی تو دو ہیں خراب
چار ٹانگوں کا تو نہیں ہے جواب​
اسی اثناء میں ایرانی بلی نے پانی کی ٹنکی پر چڑھ کر یہ سب سنہری اصول ٹنکی کی چمکدار سطح پر لکھ دیئے جو اب دور سے بھی نظر آتے تھے۔ آتے جاتے جانوروں کی نظر ان سنہری اصولوں پر پڑتی تو وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے اور زور زور سے دھاڑتے ، ڈکراتے ممیاتے اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔​
۴۔ کرنالی شیر کا قتل​
ایک دن ایک ایسا عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس نے تمام جانوروں کو دہشت زدہ کردیا۔ ہوا یوں کہ صبح سویرے کرنالی شیر کی دہاڑ سن کر سب جانور اُس کے گرد جمع ہوگئے۔کرنالی شیر نے اپنا پنجہ اٹھایا اور اسے ہوا میں لہراتے ہوئے دھاڑا۔
’’ آزاد جنگل کے آزاد جانورو! یاد رکھو۔ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سال کی زندگی سے بہتر ہے۔
ابھی کرنالی شیر کی خوش الحانی کی گو نج ارد گرد کی عمارتوں سے ٹکرا کر لوٹی بھی نہ تھی کہ اچانک ایک جانب سے کچھ بھیڑیے نمودار ہوئے اور اس کی طرف لپکے۔ کرنالی شیر نے جان توڑ کر مقابلہ کیا لیکن بھیڑیوں نے چاروں طرف سے اس کو گھیر لیا اور نوچنے کھسوٹنے لگے۔ کرنالی شیر مرتے دم تک جی داری کے ساتھ مقا بلہ کرتا رہا اور لڑتے لڑتے جان دے دی۔
تمام جانور اس واقعے سے اس قدر دہشت زدہ ہوے کہ ان کے لیے اس وقت کچھ اور سوچنا بھی مشکل ہورہا تھا ۔ وہ اپنی اپنی جانوں کو بچانے کے لیے بھاگے اور اپنے اپنے پنجروں میں اپنے آپ کو چھپالیا۔ کچھ جانوروں کو یاد آیا کہ سنہری اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی تھا کہ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو نہیں مارے گا۔ اگلی صبح جب دہشت کچھ کم ہوئی تو وہ ڈرتے ڈرتے اپنے پنجروں سے باہر نکلے ۔ باکسر گھوڑاجس کی یادداشت دوسرے جانوروں کی بہ نسبت قدرے بہتر تھی اس نے پانی کی ٹنکی کی جانب نظر کی تو دیکھا کہ وہاں پر چھٹے سنہری اصول کی جگہ چونا پھرا ہوا تھا۔اسے اچھی طرح یاد تھا کہ چھٹا اصول یہ تھا کہ کوئی جانور دوسرے جانور کو نہیں مارے گا۔ اس نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا۔ کوئی بھی جانور اس کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ سب اپنی حفاظت کے لیے ادھر ادھر دبکے دبکے پھر رہے تھے۔​
۵۔ جوتیوں میں دال بٹتی ہے​
اُس رات بھیڑیوں کے جتھے کا اجلاس ہوا ۔ بھیڑیوں کا سربراہ اکیلا نامی ایک خونخوار بھیڑیا تھا۔ اس نے صلاح دی کہ فی الحال بھیڑیوں کو چاہیے کہ وہ نمظر عام پر نہ آئیں اور اس نے تمام بھیڑیوں کی مشاورت سے بینجمن نامی ایک انتہائی گدھا قسم کے گدھے کو چڑیا گھر کا سربراہ چن لیا۔ دن گزرتے رہے اور گدھے صاحب اپنی گدھا پن کی حرکتوں سے سے جانوروں کو پریشان کرتے رہے۔ سب جانور اس گدھے سے نالاں تھے لیکن انھیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اصل بادشاہت بھیڑیوں ہی کی ہے۔
اسی دوران کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگے۔ ہر کچھ دن بعد ایک آدھ جانور غائب ہونے لگا۔ رات کو کسی جانور کی کربناک چیخیں سنائی دیتیں اور اگلی صبح ایک جانور اپنے پنجرے سے غائب ہوتا۔ البتہ چڑیا گھر میں ایک جانب ہڈیوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر نمودار ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ اونچا ہوتا جارہا تھا۔​
۶۔ رکھوالے بادشاہ بنتے ہیں​
سب کچھ ہوا لیکن گدھے نے اپنی گدھے پن کی حرکتیں نہ چھوڑیں یہاں تک کہ اس سے سبھی تنگ آگئے۔ ان سبھی میں اتفاق سے بھیڑیے بھی شامل تھے۔ گدھے کو اور کچھ نہ سوجھتا تو وہ اپنی بھونڈی آواز میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرنا شروع کردیتا۔ یہ صورتحال تمام جانوروں کے اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی اور وہ سب مل کر گدھے پر پِل پڑتے اور مارتے مارتے اُس کا بھرکس نکال دیتے۔ بیچارہ گدھا اپنی مسکین سے صورت لے کر رہ جاتا۔ اب کیا اسے اتنی بھی آزادی حاصل نہیں تھی کہ وہ ڈھینچوں ڈھینچوں ہی کرسکے۔ کمال ہے۔ایک دن بھیڑیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انھوں نے دن دھاڑے ہی اس بیوقوف گدھے کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا اور اس دن کے بعد سے جانورستان پر ان کا راج قائم ہوگیا۔ اب وہ کھلم کھلا اپنے حرکتیں کرنے کے لیے آزاد تھے۔ اب انھیں کوئی بھی ٹوک نہیں سکتا تھا۔ اب تمام جانور ان کے تابعِ فرمان تھے۔ انھیں یہ چڑیا گھر پچھلے چڑیا گھر کی بہ نسبت بہت اچھا لگا۔ اب وہ بلا شرکتِ غیرے چڑیا گھر کی ہر چیز کے مالک تھے۔ اب وہ چڑیا گھر کے بادشاہ تھے۔​
۷۔ جنگِ جون، جنگِ جنون​
جون کے مہینے میں ایک دن ابھی رات کے مختصر لمحات ختم بھی نہیں ہوئے تھے اور سپیدہٗ سحری نمودار ہوا ہی چاہتا تھا اور چڑیا گھر کے جانور صبح کی نشہ آور نیند کے مزے لوٹ رہے تھے کہ اچانک چڑیا گھر کے باہر کی جانب سے بھرمار بندوقوں کے چلنے کی آواز آئی اور چڑیا گھر کا پرانا رکھوالا مسٹر جونز اپنے چندآوارہ گرد دوستوں کے ساتھ فاتحانہ انداز میں چڑیا گھر کی مشرقی دیوار میں ایک بڑا سا سوراخ بنا کر داخل ہوا۔ سب لوگوں کے ہاتھوں میں بھرمار بندوقیں تھیں جنہیں انہوں نے اپنے سامنے تان رکھا تھا اور ان کے خطرناک تیور بتا رہے تھے کہ وہ سامنے آنے والے ہر جانور کو بھون ڈالیں گے۔
وہ صبح بھی بڑی عجیب صبح تھی۔ تمام جانور ہر بڑا کر اُٹھے اور ادھر ادھر بھاگنے لگےاس افرا تفری کے عالم میں انہیں اپنا کچھ ہوش ہی نہ رہا البتہ کچھ جانوروں نے اس صورتحال کا فوراً ادراک کرلیا اور بھاگتے ہوئے جانوروں کو جمع کرکے ایک لائحہ عمل ترتیب دینے میں مصروف ہوگئے۔ چند لمحوں کی اس ملاقات کے بعد تمام جانوروں نے ایک مرتبہ جم کر حملہ آوروں کو گھیر لیا اور چاروں طرف سے ان پر پل پڑے۔ حملہ آوروں نے کب اس طرح کی صورتحال کا مقابلہ کیا تھا۔ وہ تو جانوروں کو ایک ہی ہلے میں زیر کردینے کے ارادے سے آئے تھے۔ جواباً جانوروں کے خوں خوار دانتوں اور زہریلے پنجوں کا سامنا کرنا پڑا تو وہ بدحواس ہوکر بھاگے اور بھاگتے وقت اپنی بھرمار بندوقیں وہیں چھوڑ گئے۔جس جنونی انداز میں جانوروں نے اپنے اس چڑیا گھر کا بچاؤ کیا وہ دیدنی تھا۔ اس دن کے بعد اس جنگ کو جنگِ جون ، جنگِ جنون کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ یہ وہ دن تھا جب سب جانوروں نے مل کر اپنے اس خوبصورت باغ کی حفاظت میں اپنی جانوں کی بھی پروا نہ کی تھی۔ انھیں اپنے اس باغ پر فخر تھا۔ کیوں نہ ہوتا، یہ ان کا اپنا جنگل تھا جہاں پر سب جانور آزاد تھے۔انھوں نے بھگوڑے مسٹر جونز اور ان کے ساتھیوں کے قبضے سے حاصل کی ہوئی بھرمار بندوقوں کو ایک پنجرے میں جمع کردیا اور اسے قومی عجائب گھر قرار دے دیا۔​
۸۔ سلطانی ء جمہور کا آتا ہے زمانہ​
جنگِ جون ، جنگِ جنون کے نتیجے میں جہاں پڑوسیوں پر جانوروں کی دھاک بیٹھ گئی وہیں اس جنگ کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ سب جانور وں میں جذبہ حب الوطنی ایک مرتبہ پھر جاگ اٹھا اور بھیڑئیے جو ابھی تک اس چڑیا گھر کی تقدیر کے مالک بنے بیٹھے تھے، دبک کر ایک طرف کو بیٹھ رہے اور تمام جانوروں نے ایک مرتبہ پھر اتفاقِ رائے سے چند جانوروں کو چن لیا جو ان کے اس باغ کی رکھوالی اور اس پر راج کا حق رکھتے تھے۔ جانوروں کی ایک مشترکہ کونسل ترتیب دی گئی اور ہر فیصلہ اتفاقِ رائے سے کیا جانے لگا۔ یوں ایک مرتبہ پھر اس آزاد جنگل میں جمہوریت نے ایک نیا جنم لیا۔​
۹۔پون چکی بنتی ہے​
کہتے ہیں کہ ایک ولندیزی کے گھر ایک پالتو بلی رہا کرتی تھی۔ یہ بلی دراصل چڑیا گھر سے ہی لائی گئی تھی۔ ایک مرتبہ وہاں کی خوبصورت ایرانی بلی نے کچھ بچے دیئے تو مسٹر جونز نے ان بچوں کو نہایت صفائی کے ساتھ بلی کے پنجرے سے اڑایا اور بیچ ڈالاتھا۔ اس ولندیزی نے جو گارڈن روڈ ہی پر بندر روڈ کے قریب رہتا تھا، مسٹر جونز سے بلی کا ایک بچہ خریدا اور اسے پال لیا۔ ولندیزی کو پون چکی کا ڈیزائین بنانے کا بہت شوق تھا اور وہ دن رات اپنے ڈرائینگ روم میں اپنی میز پر بیٹھا پون چکی کی تصویریں بنایا کرتا۔ ایک دن موقع پاکر بلی نے ان تصویروں میں سے کچھ بنڈل اپنے منہ میں پکڑے اور فوراً ہی وہاں سے رفو چکر ہوگئی اور دوڑتی دوڑتی گاندھی گارڈن پہنچ گئی۔
اب سنیے کہ بلی کی یہ نازیبا حرکت کالے تیندوے کے پلان کے عین مطابق تھی۔ اب جبکہ پون چکی کے ڈیزائن کی ساری ترتیب و تفصیل اس کے ہاتھ میں آگئی تھی، اس نے پہلے تو بلی کی پیٹھ تھپکنی چاہی لیکن شیر کی خالہ بہت چالاک نکلی اور فوراً لپک کر درخت پر چڑھ گئی۔ کالا تیندوا ہنسا اور بولا۔
’’ بی مانو! میں تو صرف تمہاری پیٹھ تھپکنا چاہ رہا تھا ۔ خیر‘‘
اب اس نے تمام جانوروں کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے پون چکی بنانے کی تجویز رکھی۔ سب جانور یہ عجیب و غریب منصوبے کی تفصیل سن کر حیران رہ گئے۔اب کالے تیندوے نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو آواز دی اور نہایت جزباتی انداز میں سب جانوروں سے خطاب کیا۔
’’پون چکی بناؤگے؟‘‘
’’بنائیں گے۔‘‘
’’لڑو گے؟‘‘
’’لڑیں گے‘‘
’’مرو گے؟‘‘
’’مریں گے‘‘
’’گھاس کھاؤ گے‘‘
’’ کھائیں گے‘‘
پھر یوں ہوا کہ جانوروں نے بھوکے رہ کر، گھاس کھا کر، لڑ مر کر پون چکی کا کام شروع کیا اور اسی اسپرٹ میں دن رات کام کرتے ہوئے دو تین مہینوں کے اندر ہی پون چکی کو مکمل کرلیا۔ پون چکی ان کے ہمت و حوصلے کی داستان تھی جو انھوں نے اپنی انتھک محنت سے رقم کی تھی۔ باہر والوں نے سنا تو دنگ رہ گئے۔ اب چڑیا گھر اپنے لیے خود بجلی پیداکرتا تھا جو ایک بیمثال کارنامہ تھا۔​
۱۰۔ میوزیکل چیئر کا کھیل​
کہتے ہیں جمہوریت ایکدم نہیں آجاتی بلکہ رفتہ رفتہ آتی ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جو اپنا قالب نکالتا ہےاور یہی ہوا۔ چڑیا گھر کے جانور جمہوریت کے اس قدر عادی ہوگئے کہ اب یہ انھیں اپنی روح میں سمویا ہوا ایک خوبصورت خیا ل محسوس ہوتی۔ رفتہ رفتہ دیگر دوسرے جانور اس کھیل سے اکتا گئے اور اس پُر خطر میدان میں صرف سُور رہ گئے۔ اب یوں ہوتا کہ سور ہی آپس میں انتخاب لڑتے ۔ کبھی ایک سُور جیت جاتا کبھی دوسرا سُور جیت جاتا۔ جہاں دوسرے جانور اس نظام سے لاتعلق ہوئے وہیں سُوروں کو میوزیکل چیئر کا یہ کھیل اس قدر بھایا کہ انھوں نے اس کھیل کو مستقل کھیلنے کا فیصلہ کرلیا۔ اب وہ ہر دوسرے تیسرے ماہ انتخاب انتخاب کھیلا کرتے۔ بھیڑیوں کا جتھا اس کھیل سے بہت محظوظ ہوتا۔ انھیں علم تھا کہ کوئی بھی سور جیتے، جیت اصل میں انھیں کی ہوتی تھی۔​
۱۱۔ ایک غم ناک کہانی کا المناک انجام
بھیڑیوں اور سُوروں کے اِس گٹھ جوڑ نے نت نئے گل کھلانے شروع کردئیے۔ اب رفتہ رفتہ جانوروں کو پھر سے پنجروں میں بند کرنا شروع کردیا گیا۔ یہ سلسلہ شروع تو شر پسند بندروں سے ہوا لیکن بہت آہستہ آہستہ جانوروں کو پنجروں میں منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ، پھر ان کے پنجروں پر قفل لگائے گئے۔ یہاں تک کہ ایک دن ایسا آیا کہ سُوروں اور بھیڑیوں کے علاوہ چڑیا گھر کا ہر جانور دوبارہ پنجرے میں بند ہوچکا تھا۔ جانور حیران پریشان ان سب حرکتوں کو دیکھا کیے۔ انھیں ببر شیر، جونا شیر اور کرنالی شیر کی یاد آتی لیکن وہ اسے ایک بھولا بسرا خواب سمجھ کر نظر انداز کردیتے۔ کبھی کبھی کوئی جانور نیند میں بڑبڑانے لگتا ۔
سارے جہاں سے اچھا، جنگل نشاں ہمارا
ہم جانور ہیں اس کے، یہ گلستاں ہمارا
پنجرے میں ہیں اگر ہم، آزاد کل جوہوں گے
سمجھو ہمیں وہیں پر ، دل ہو جہاں ہمارا
دوسرے جانور اسے سن کر حیران رہ جاتے۔ شاید یہ بے معنی قسم کے الفاظ انھوں نے پہلے بھی سنے تھے، یا شاید انھوں نے کوئی خواب دیکھا تھا۔ کچھ الفاظ تو اِس قدر عجیب تھے کہ جن کو سن کر اِن کی چیخیں نکل جایا کرتیں مثلاً​
چرتے ہیں ہم جہاں پر وہ ہے زمین اپنی
اُڑتے ہیں جس فضاء میں وہ آسماں ہمارا​
جن جانوروں کے پنجرے پانی کی ٹنکی کے سامنے تھے، وہ دیکھتے تھے کہ اِس ٹنکی پر جانورستان کا انوکھا نعرہ درج تھا۔’’ تمام جانور آپس میں برابر ہیں مگر کچھ جانور زیادہ برابر ہیں‘‘۔ بندروں کو یقین تھا کہ کسی زمانے میں اس ٹنکی پر اور کچھ بھی لکھا ہوا ہوتا تھا لیکن اُن کے معصوم ذہن اس سے آگے سوچنے سے معذور تھے۔ اب تو یہی ان کا حال تھا اور یہی ان کا مستقبل۔
، مہ جبین ، ساجد ، راشد اشرف ، فرحت کیانی ، ظفری ، پردیسی ، حسان خان ، محمد بلال اعظم ، جیہ
 
پرنس( ترمیم و اضافہ شدہ)
رات ہم سوئے تو ایک عجیب ماجرا دیکھا۔ نکولو میکیا ولی ہمارے برابر بیٹھے ہوئے تھے اور اکیسویں صدی کی مملکتِ خداداد کے لحاظ سے اپنی تصنیف ‘‘پرنس’’ میں کتر بیونت اور ترمیم و اضافے میں مصروف تھے۔ ہم نے ان کی اس ساری کارروائی کو بغور دیکھ کر محفلین کے لیے محفوظ کرلیا۔ پڑھئیے اور محظوظ ہوئیے۔
باب پہلا
حکومت کی اقسام اور وہ طریقے جن سے حکومتیں ہتھیا لی جاسکتی ہیں
چاہے تاریخ پر نظر دوڑائیے ، اور چاہے آج کی دنیا پر، جب کبھی آپ انسان پر انسان کو حکومت کرتے ہوئے دیکھیں گے تو یہ حکومت لازمی طور پر جمہوری حکومت ہوگی۔ جمہوری حکومتیں موروثی ہوتی ہیں جو باپ دادا سے ورثے میں چلی آتی ہیں۔ جیسے خاندانِ سپاہ کی جمہوریت ، جو ایوب خان سے یحییٰ خان کو ملی اور اسی استحقاق کی رو سے پیر و مرشد حضرت ضیاء الحق مدظلہ العالی اور خان بہادر سر پرویز مشرف کو ودیعت کی گئی۔ موروثی جمہوریت کی ایک اور روشن مثال بھٹو خاندان کی مشہور و مقبول حکومت ہے جو ذوالفقار علی بھٹو سے بے نظیر بھٹو، ان سے پھر آصف علی زرداری اور انجامِ کار بلاول بھٹو زرداری کو منتقل ہوئی۔ یا پھر جمہوری حکومتیں نئی ہوتی ہیں۔ پھر نئی جمہوریت کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو نئے سرے سے قائم ہو جیسے میاں صاحب کے مشورے سے بھولے کا اسلامی نظام کے تحت پرورش پانا اور اپنی جمہوریت کی داغ بیل رکھنا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی جمہوریت مغلوب ہوکر کسی پرانی جمہوریت کا جزو بن جائے۔۔۔۔​

باب تیسرا
خاندانی جمہوریتیں
سوال یہ ہے کہ میں نے ابھی جمہوری حکومتوں کی جو تقسیم کی ہے ، اس کے مطابق عوام پر کیونکر حکومت کی جائے۔ اور کو کیسے برقرار رکھا جائے۔ میرا دعویٰ ہے کہ نئی جمہوریتوں کی بہ نسبت موروثی جمہوریتوں کو چلا نسبتاً زیادہ آسان ہوتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک خاص خاندان کی جمہوریت کے عادی ہوجاتے ہیں۔ موروثی جمہوریت کے وزیرِ اعظم کے لیے بس اتنا ضروری ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے نقشِ قدم پر چلے۔ البتہ جب کوئی نئے واقعات پیش آئیں تو ان کا لحاظ کرے۔ جمہوری وزیرِ اعظم لائق ہوگا تو ضرور اپنا تخت سنبھال سکے گا۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی دوسرا غیر معمولی قابلیت کا انسان آئی ایس آئی یا آزاد پریس کے ذریعے سے اس کے سر پر ہل چلا کر اس کے تخت پر قابض ہوجائے۔ لیکن اس صورت میں بھی جب کبھی غاصب کے سی ون تھرٹی پر وقت پڑے گا تو اسے پھر سے اپنی کھوئی ہوئی جمہوری طاقت حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا۔
باب چوتھا
قائد کی مملکت جسے خاندانِ سپاہ نے فتح کیا ، وہاں خاندانِ سپاہ کے خلاف علمِ بغاوت کیوں نہ بلند کیا گیا؟
اگر ان مشکلات کا خیال کیا جائے جو نئے فتح کیے ہوئے علاقوں کو قابو میں رکھنے میں پیش آتی ہیں۔ تو اس بات پر اچنبھا سا ہوتا ہے کہ جنرل محمد ایوب خان نے جس قائد کی حکومت کو جمہوری انداز میں فتح کیا اور عرصہ دس سال تک ایک مقبول جمہوری اور آئینی راہنماء کی حیثیت سے اس مملکت پر قابض رہا، اسکی جمہوریہ میں کہیں بھی غیر جمہوری عناصر نے شورش برپا نہیں کی۔
ان مصیبتوں کو تو جانے دیجیے جو خود انکی سادہ طبیعت اور جاہ و حشمت سے ان کی دوری کا نتیجہ تھیں ، ورنہ انھیں نہ تو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور نہ ہی ان کا کسی سے تصادم ہوا۔ بات یہ ہے کہ وہ عوامی جمہوریتیں جن کا تھوڑا بہت حال جو آزاد میڈیا اور ٹی وی چلنلز سےہمیں معلوم ہوا ہے، ان کے حکومت کرنے کے دو علیحدہ علیحدہ طریقے تھے۔ایک یہ کہ جمہوری صدر اپنے ذاتی ملازمین کی مدد سے حکومت کرتا تھا۔ ملازمین میں سے وہ جسے چاہتا، وزیر بناتا اور ریاست کے نظم و نسق میں ان سے مدد لیتا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ حکومت جمہوری صدر اور عوامی جاگیرداروں کی ہوتی تھی۔ ان عوامی جاگیرداروں کی اپنی عمل داری بھی ہوتی تھی اور اپنی رعایا بھی، جہاں پر وہ انتہائی جمہوری انداز میں عوامی حکومت کرتے تھے۔ اور رعایا ان کے حکم پر چلتی اور ان کی دل سے عزت کرتی تھی۔ خاندانِ سپاہ نے ان دونوں ہی طریقوں کو اپنایا اور عرصہ تیس سال تک (وقفے وقفے سے) کامیابی کے ساتھ غیر جمہوری بورژوا طبقے کے سینے پر مونگ دلی۔
باب پانچواں
جمہوریت ایسے شہروں اور مملکتوں پر جو فتح ہونے سے پہلے ۵۶ء ؁ کے آئین کے ماتحت رہے ہوں​

نئی فتح کی ہوئی مملکت اگر آزادی کی خوگر ہو اور قائد کی عطا کی ہوئی آزادی اور عرصہ نو سال تک ایک خود ساختہ قانون کے ماتحت رہ چکی ہوں، تو انھیں قابو میں رکھنے کی تین صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انھیں بالکل تباہ و برباد کردیا جائے۔، دوسری یہ کہ خاندانِ سپاہ کا مایہء ناز سپوت جمہوری صدر کی حیثیت اختیار کرلے اور تیسری یہ کہ اگر تھوڑے سے روپیوں سے فاتح کی تسلی ہوجائے تو وہ یہ کرسکتا ہے کہ وہاں پرانے قوانین نہ رہنے دے بلکہ ایک نیاانقلابی آئین تشکیل دے۔ اور اپنی محکوم رعایا پر جمہوری انداز میں حکومت کرنے کے لیے بنیادی جمہوریت کے تحت ایک مجلس بنادے جس میں ایسے افراد شامل کیے جائیں جو نہ صرف فاتح کے مفادات کا خیال رکھیں بلکہ رعایا کو بھی راضی برضا اور تابعدار رکھیں۔ یہ فاتح کی قائم کردہ جمہوریہ ہوگی اور اس کے اراکین یہ بات اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ خود انکی حیثیت فاتح کی رہینِ منت ہے اور فاتح کی عنایت اور دلچسپی کے بغیر نہ خود ان کی بقا ممکن ہے اور نہ ہی جمہوریت کی۔ اس سبب سے وہ وہ فاتح کی عملداری برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کی کوشش کریں گے۔ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے ان تینوں صورتوں سے بدرجہ اتم فائدہ اٹھایا اور اپنی قوم کو دس سال کا سنہری دور دیا۔
باب چھٹا
اس بادشاہت کے بارے میں ، جو اپنے حسنِ تعلقات اور زورِ بازو سے حاصل کی گئی ہو​

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ نئی جمہوری حکومتوں کے حصول کے بیان میں، خواہ وہ وزارتِ عظمیٰ ہو یا وزارتِ اعلیٰ، میں بڑی بڑی اور عظیم الشان مثالیں پیش کرتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان اکثر انھی راستوں پر گامزن ہوتا ہے جنھیں دوسرے طالع آزما پہلے سے اختیار کرچکے ہوتے ہیں۔ اور جب وہ کوئی بڑا کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے پیشِ نظر کوئی نہ کوئی نمونہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسی جمہوریتوں کو قابو میں رکھنا جو حال میں کسی نئے بادشاہ نے حاصل کی ہوتی ہیں، اس بادشاہ کی دانش مندی کے اعتبار سے کم یا زیادہ دقت طلب ہوگا۔ معمولی حیثیت کے سرمایہ دار کے بھولے بیٹے کی حیثیت سے آگے بڑھ کر بادشاہ کے عہدے پر فائز ہونے کے لیے امیر المومنین سے غیر معمولی تعلقات یا شومئی قسمت یا دونوں ہوں تو سونے پر سہاگہ ہے۔ اب مفتوحہ علاقوں کو قابو میں رکھنا نہایت آسان ہوجاتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ کامیاب رہنما وہی ہے جس نے اپنی قسمت پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کیا اور اپنی قوم کو بہت جلد یہ احساس دلادیا کہ وہ انہی میں سے ہے۔ یہاں پر میں ان قوم پرست رہنماؤں کی بات نہیں کررہا جو برملا اور علیٰ الاعلان اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ وہ قوم پرست رہنما ہیں، یہاں تو کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے کا سا معاملہ ہے۔
رہنما کی دقتوں میں ایسے واقعات سے کمی واقع ہوجاتی ہے جب وہ دوسرے دفاتر مقبوضہ نہ ہونے کی وجہ سے نت نئی حکمتِ عملیاں اپنانے پر مجبور ہوجائے اور انجامِ کار تمام دفاتر پر اس کا مکمل قبضہ ہوجائے۔ چنانچہ امیرِ وقت سے روز روز کے جھگڑے کھڑے کرکے اسے چلتا کرنااور اسکی جگہ اپنے ذاتی ملازم کو متمکن کرنا، سپہ سالار کی عدم موجودگی میں اسے اسکے دفتر سے دیس نکالا دینا اور قاضی القضاۃ پر لشکر کشی کرکے اسے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کرنا ایسے خوش قسمت رہنماؤں کے نمایاں ترین کارنامے کہلائے جاسکتے ہیں۔
باب ساتواں
نئی بادشاہتیں۔ امریکہ کی مدد اور اپنی خوش نصیبی( این آر او) سے حاصل کی ہوئی​

جو افراد معمولی حیثیت سے بڑھکر محض اپنی خوش نصیبی( این آر او) امریکہ کی مدد اور بیوی کے اتفاقاً راستے سے ہٹ جانے کی بناء پر بادشاہ بن جاتے ہیں، انھیں حکومت کے حاصل کرنے میں تو کوئی دشواری پیش نہیں آتی ، لیکن اسے قائم رکھنے میں لانگ مارچ، دھرنوں اور دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ راستے میں سفر جاری رکھتے ہوئے قدم بڑھاتے وقت کوئی بھی رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی اور وہ اپنی منزلِ مقصود یعنی قصرِ شاہی کی جانب دوڑتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔
باب آٹھواں
ان اشخاص کے بارے میں جو جرم کا ارتکاب کرکے بادشاہ بنے ہوں​

خانگی حیثیت سے ترقی کرکے بادشاہ بننے کی دو صورتیں ایسی ہیں جن میں سے ایک بھی پورے طور پر شجاعت یا تقدیر کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی۔ وہ دو صورتیں یہ ہیں۔
ایک وہ جب بادشاہت شرارت اور ارتکابِ جرم سے برقرار رکھنے کا ہتمام کیا جائے۔ مثال کے طور پر سپہ سالار کو ہوا میں ہی معلق رکھنے کی شرارت کرنا اور اس کے قتل کا بندوبست کرناتاکہ اس طرح نہ صرف وہ سپہ سالار ہی راستے سے ہٹے اور اپنی بادشاہت مضبوط ہو بلکہ اس سپہ سالار کی جگہ اپنی پسند کا کاٹھ کا الو لاکر بٹھا دیا جاسکے۔
دوسری صورت یہ ہے جب کوئی شخص ہوا میں معلق ہو اور دوسرے شہریوں اور سپاہیوں کی عنایت سے بادشاہ بنے۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ جو کوئی ان مثالوں کو دیکھنا چاہے گا اس کے لیے مختصر سا ذکر بھی کافی ہے۔​
۔۔۔۔​
ابھی اتنا ہی پڑھ پائے تھے کہ ہماری آنکھ کھل گئی اور ہم نے شیلف سے فورا ً نکولو میکیا ولی کی ‘‘پرنس’’ نکالی اور باب اٹھارہ کا مطالعہ شروع کردیا۔​
 
باب اٹھارہ
بادشاہ اور ایفائے عہد​
ہر شخص کو اس بات سے اتفاق ہوگا کہ بادشاہ کے لیے عہد و پیمان پر قائم رہنا اور راست بازی اختیار کرنا اور دغا اور فریب سے احتراز کرنانہایت ہی قابلِ تعریف امر ہے۔ مگر ہمارے زمانے میں جو واقعات پیش آئے ہیں ان میں خود ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایسے بادشاہ جنھوں نے عہد و پیمان کی کبھی پروا نہ کی اور دوسروں کو دھوکے فریب سے نیچا دکھایا انھی نے بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ اور وہ ان بادشاہوں سے کہیں بہتر رہے جنھوں نے راستبازی کو اپنا شعار بنایا۔معلوم ہونا چاہیے کہ مقابلہ دو طرح سے ممکن ہے۔ بزورِ قانون یا بزورِ بازو۔ ان میں سے پہلا طریقہ انسانوں کے لیے ہے اور دوسرا طریقہ حیوانوں کے لیے موزوں ہے۔ مگر دقت یہ ہےکہ پہلا طریقہ اکثر ناکام ثابت ہوتا ہے۔ اور دوسرے طریقے کو استعمال کرنے پر بادشاہ مجبور ہوتا ہے۔ چنانچہ بادشاہ کے لیے نہ تو یہ ممکن ہے اور نہ اسے اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے عہد و پیمان پر اس صورت میں بھی قائم رہے جب کہ ایسا کرنے سے اسے نقصان پہنچتا ہو۔ اور عہد و پیمان کرنے کے جو اسباب تھے وہ باقی نہ رہے ہوں۔
البتہ یہ ضروری ہے کہ اس صفت کو اچھے رنگ میں پیش کیا جائے اور بناوٹ اور حیلہ سازی میں خاص مہارت پیدا کی جائے۔ لوگ اس قدر بھولے ہوتے ہیں کہ اور فوری ضرورت سے اتنے متاثر کہ اگر انھیں کوئی دھوکہ دینے کی ٹھان لے تو اسے دھوکہ کھانے والوں کی کبھی شکایت نہ ہونے پائے گی۔

ضروری نوٹ:اس مضمون کی تیاری میں ہم نے نکولو میکیاولی کی شہرہ آفاق تصنیف کے اردو ترجمے بادشاہ سے خاطر خواہ استفادہ کیا ۔ یہ ترجمہ محترم محمود حسین صاحب ( پروفیسر و صدر شعبہ تاریخِ عام و رئیس کلیہ فنون، کراچی یونیورسٹی) نے کیا تھا جسے کراچی یونیورسٹی پریس نے ۲۰۰۰ء؁ میں چھاپا۔ اسی ایڈیشن میں دی گئی معلومات کے مطابق اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۹۴۷ء؁ میں مکتبہ جامعہ دہلی نے شایع کیا۔

اٹھارواںباب ہو بہو کتاب سے نقل کیا گیا ہے۔


تمت بالخیر​
 
ہیری پوٹر
محمد خلیل الرحمٰن
( جناب جمیل الدین عالی سے معذرت کے ساتھ)


میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوں
اور کام کروں گا بڑے بڑے
میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوں
اور کام کروں گا بڑے بڑے


جتنے بھی لڑاکا لڑکے ہیں
اُن کو تعظیم سِکھاؤں گا
جو ہاگورٹس کے ہمجولی ہیں
میں اُن کی ٹیم بناؤں گا
ڈی اے کی ٹیم بنائیں گے
جو رہتے ہیں اب لڑے لڑے
میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوںں
اور کام کروں گا بڑے بڑے


جادو کی ہیں جو روشنیاں
میں گھر گھر میں پھیلاؤں گا
جادو کی چھڑی کو لہراکر
میں جادوگر بن جاؤں گا
بے کار گزاروں وقت بھلا
زینے کے نیچے پڑے پڑے
میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوں
اور کام کروں گا بڑے بڑے


میں چار طرف لے جاؤں گا
پُرکھوں نے جو پیغام دیا
اپنا اُلّو سیدھا کرلوں
جسے میں نے ہیڈوِگ نام دیا
کوئڈِچ میں ایسے کھیلوں گا
اسنِچ کو پکڑلوں کھڑے کھڑے
میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوں
اور کام کروں گا بڑے بڑے


گر ٹام رِڈِل بھی آئے گا
میں اُس کو بھی چِت کرلوں گا
ہر گتھی کو سلجھاؤں گا
ہر مشکل اپنے سر لوں گا
میں مات انہیں بھی دے دوں گا
جو جادو گر ہیں سڑے سڑے
میں جِم پوٹر کا لڑکا ہوں
اور کام کروں گا بڑے بڑے

 

شہر آشوب

محمد خلیل الرحمٰن

کلاچی کی ایک مسکراتی شام کا ذکر ہے، روما شبانہ نائٹ کلب کے چمکتے ہوئے فرش پر تھرکتی ہوئی جوانیاں، بانہوں میں بانہیں ڈالے، فانی انسان اور غیر فانی دیوتا، آج یوں شیر و شکر ہوچلے تھے، کہ فانی اور غیر فانی، انسان اور دیوتا، آقا اور غلام کا فرق گویا مٹ سا گیا تھا۔ بار بار ڈانس کے پارٹنرز بدلے جارہے تھے۔ خوشی اور مسرت کا ایک طوفان آیا ہوا تھا ، سبھی مست تھے، ہنس رہے تھے، رقص میں محو تھے۔ رات بھی بھیگ چلی تھی لیکن رقص و مسرت کے اس طوفان میں وقت گویا تھم گیا تھا۔ نو بیاہتا جوڑے کی خوشی تو اور بھی دوچند تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں گم، ڈانس فلور پر جھومے جارہے تھے۔۔ ہر بار جونہی آرکسٹرا ایک نئی تان چھیڑتا، یہ دونوں بھی ایک انگڑائی لے کر اٹھ کھڑے ہوتے ، ہر لے پر تھرکتے، ہر تان پر جھومتے، ہر سر انھیں اپنے دل کی دھڑکنوں میں شامل محسوس ہوتا۔ آج کی رات ان سے منسوب تھی۔آج صبحِ کاذب تک یا پھر صبحِ صادق کی پہلی جھلک تک وہ یونہی ایک دوسرے کی بانہوں میں تھرکتے ہوئے گزارنا چاہتے تھے۔

یکایک ڈانس فلور پر نور کا ایک جھماکا سا ہوا۔ محوِ رقص جوڑے چونک کر ادھر ادھر سمٹ گئے اور انھوں نے صبحِ صادق کی طرح نمودار ہونے والی اس دیوی کو گھیرے میں لے لیا۔رقص تھم گیا، موسیقی رک گئی۔ قرب و جوار میں سناٹا چھا گیا۔ دیوی نے ایک بار اپنے ہاتھ فضا میں بلند کیے ، روشنی کا ایک اور جھماکا ہوا، ایک کڑک سنائی دی اور دیوی کے ہاتھوں میں ایک سنہری سیب نمودار ہوا۔ دیوی کے مرمریں ہونٹ کھلے اور اس نے اپنی غیر مرئی آواز میں کہا۔

’’ اس محفل کی سب سے حسین خاتون کے لیے‘‘۔

اور سیب کو ہوا میں اچھالتے ہوئے وہ غائب ہوگئی۔

ایک طوفانِ بد تمیزی بپا ہوگیا۔ خواتین ایک دوسری کو نوچ رہی تھیں، کھسوٹ رہی تھیں۔ ایک دوسری کے بال کھینچے جارہے تھے، کپڑے پھاڑے جارہے تھے۔ ہر دیوی چاہتی تھی کہ سیب اس کی گرفت میں آجائے۔

صدرِ محفل سے رہا نہ گیا، اس نے آخر کار اپنی گرج دار آواز میں کہا۔’’ بیبیو! کیوں لڑتی ہو؟ اس تنازعہ کے حل کے لیے کسی کو حکم کیوں نہیں مقرر کرلیتیں۔ اچھا! میں تمہاری یہ مشکل آسان کیے دیتا ہوں۔ جاؤ! بار میں دولت شاہ بیٹھا پینے میں مشغول ہے، میں اسے ثالث مقرر کیے دیتا ہوں۔ وہ جسے چاہے یہ سیب دے دے۔‘‘

کپڑے درست ہوئے۔ میک اپ سنوارا گیا۔بال پھر سے بنائے گئے اور دیویاں بار کی طرف دوڑی گئیں۔دولت شاہ نے مخمور آنکھوں سے حسن کے ان جلووں کو دیکھا تو اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور یہ شرط عائد کردی کہ جنھیں اپنے حسن پہ ناز ہے، اور اپنی خوبصورتی کا غرور ہے، وہ کیٹ واک پر چلتی ہوئی میرے سامنے سے گزریں، مجھے اپنا حالِ دل سنائیں۔ کچھ اپنی کہیں کچھ میری سنیں۔ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا۔ چارو ناچار وہ مان گئیں۔ پھر کیٹ واک پر اپنی ہرنی جیسی چال اور اپنی کافرا داؤں کا مظاہرہ کیا اور آخر میں گفت و شنید، باری باری دولت شاہ کے حضور میں حاضری۔ جب حسن کی دیوی کی باری آئی، اس نے اپنی کھنکھناتی ہوئی آواز میں دولت شاہ کے کان میں سرگوشی کی۔’’ میں تمہیں اس سیب کے بدلے میں ملکہ اقتدار اور سرے محل دیتی ہوں۔زر و جواہر ، اطلس و کمخواب کے انبار، ہزاروں ، لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں۔۔۔۔۔۔‘‘

دولت شاہ نے اپنا مدعا پالیا ۔ سیب حسن کی دیوی کے حوالے کیا اور ’’ میں نے پالیا۔ میں نے پالیا‘‘ کہتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔
حسن کی دیوی نے ایک ادائے دلبرانہ کے ساتھ ساتھیوں کی طرف دیکھا اور سنہری سیب اچھالنے لگی۔ عقل و دانش کی دیوی نے جو آہنی فوجی لباس میں ملبوس تھی، اور ملکہ دیوی نے قہر آکود نگاہوں سے بھاگتے ہوئے دولت شاہ کو گھورا اور پیر پٹختی ہوئی ایک طرف کو نکل لیں۔ حسن کی دیوی کے چہرے پر ایک فتح مندانہ مسکراہٹ کھیلنے لگی۔

شادی کی رات دولت شاہ نے اپنی بیوی کے چہرے سے نقاب اٹھایا تو اسکی شکل دیکھتے ہی وہ چیخ پڑا۔’’ کیا یہی وہ تمہاری ملکہ اقتدار ہے؟‘‘ وہ پورا زور لگا کر چیخا۔ اتنے میں کہیں سےحسن کی دیوی دوڑتی ہوئی اسکے پاس آئی اور لگی سرگوشیاں کرنے۔ اسکے سمجھانے پر دولت شاہ مطمئین ہوگیا اور محبت بھری نگاہوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھنے لگا جس کی بدولت وہ ان تمام انواع و اقسام کی نعمتوں کو حاصل کرسکتا تھا جن کا وعدہ حسن کی دیوی نے کیا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ دولت شاہ نے اپنی بیوی کو ساتھ لیا اور خیر سگالی کے دورے پر قلعہ اکبر گیا اور پھر وہاں سے راجدھانی پہنچا۔ ادھر ملکہ کوہسار پر حسن کی دیوی کو جونہی دولت شاہ کی آمد کی خبر ملی، وہ آندھی اور طوفان کی طرح وہاں سے روانہ ہوکر راجدھانی پہنچی ، دولت شاہ سے ملی اور اسے اپنے منسوبے سے آگاہ کیا۔

دولت شاہ نے انتہائی صبر و تحمل سے حسن کی دیوی کی باتیں سنیں ۔حسن کی دیوی نے اسے وہ تمام گر سکھادئیے جن کی بدولت وہ ملکہ اقتدار پر ڈورے ڈال سکتا تھا۔ ہر چند کہ ملکہ کوہسار پر تمام بڑے دیوی دیوتا بشمول صدرِ محفل ، حسن کی دیوی کے ماسٹر پلان سے خوش نہ تھے لیکن اس کی تریاہٹ کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور انھوں نے اسے اپنی سی کرنے کی اجازت دیدی تھی۔ حسن کی دیوی کے ملکہ کوہسار سے روانہ ہوتے ہی انھوں نے ایک اور ماسٹر پلان ترتیب دیا جس میں آہنی وردی میں ملبوس عقل و دانش کی دیوی اور ملکہ دیوی پیش پیش تھیں۔ اس تبدیل شدہ ماسٹر پلان سے بے خبر ، حسن کی دیوی اپنی ہی دھن میں مگن تھی۔ اس کے منصوبے کے عین مطابق ملکہ اقتدار کو اغوا کیا گیا اور دولت شاہ اسے اپنے جلو میں لیے ہوئےکشاں کشاں کراچی پہنچا ۔ ان پوشیدہ منصوبوں اور بیگم و دولت شاہ اور حسن کی دیوی کی ملی بھگت کے نتیجے میں تیار شدہ چالوں سے بے خبر اہلِ کلاچی اپنے درمیان ملکہ اقتدار کو پاکر بے حد خوش ہوئے ۔شہر میں ایک جشن کا سا سماں تھا، جگہ جگہ شادیانے بجائے جارہے تھے، رقص وسرود کی محفلیں گرم تھیں۔ یوں لگتا تھا گویا دولت شاہ نے نہیں بلکہ اہلِ شہر نے گوہرِ مقصود پالیا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ اگر انھیں ملکہ کوہسار پر ہونے والی محفل کی بھنک بھی پڑ جاتی تو وہ اپنے اس طرزِ عمل سے باز رہتے اور دولت شاہ کو بمع اسکی بیوی اور محبوبہ اس شہرِ بے مثال سے بے دخل کردیتےاور چین کی بنسی بجاتے۔ ہونی ہوکر رہتی ہے۔ عروس البلاد نے دولت شاہ اور ملکہ اقتدار کو پناہ دی جیسے کبھی دولت شاہ کے آبا و اجداد نے اہلِ شہر کو پناہ دی تھی اور اس طرح اپنی تباہی کے پروانے پر خود ہی دستخت کردیئے۔ دولت شاہ کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑہائی میں۔ حسن کی دیوی نے اسکے ساتھ کیے ہوئے تمام وعدے پورے کردئیے تھے۔ یہانتک کہ سرے محل بھی اسکے نام لکھ دیا تھا۔ اور پھر زر و جواہر، اطلس و کمخواب کے انبار، ہزاروں ، لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں۔۔۔۔۔۔۔۔

ملکہ کوہسار پر منظور ہونے والے ماسٹر پلان ، یا تبدیل شدہ ماسٹر پلان میںجہاں بیگم و دولت شاہ کی شاہ خرچیوں ، ان کی دراز دستیوں اور حشر سامانیوں کے تدارک کے لیے تدبیروں پر غور و فکر کیا گیا ، وہاں عقل و دونش کی آہن پوش دیوی کی لائی ہوئی دور کی کوڑی یعنی مستقبل کے ایک مستقل خطرے یعنی اہلِ کلاچی کے موجودہ طرزِ عمل کو دیکھتے ہوئے ان کے مستقبل کے لائحہ عمل کا تصور بھی کیا گیا ۔ بہتوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مستقبل کے اس خطرے کا اگر ابھی سے علاج نہ کیا گیا تو آج جہاں ملکہ اقتدار کو اغوا کیا گیا ہے کل اہلِ ملکہ کوہسار کی باری بھی آسکتی ہے۔

حالات و واقعات کو کچھ اس دردناک انداز سے پیش کیا گیا کہ سبھی اہلِ محفل بشمول صدرِ محفل کی رائے یہی تھی کہ اب حالات کا تقاضا یہی ہے کہ جہاں ملکہ اقتدار کو اہلِ کلاچی کے چنگل سے نجات دلانا ضروری ہے، وہیں اہلِ شہر کو بھی سبق دینا لازمی ہے۔

صدر محفل نے آہن پوش عقل و دانش کی دیوی کو افسر بکارِ خاص مقرر کرتے ہوئے اس بات کا اختیار دے دیا کہ وہ اس مسئلے سے جس طرح ضروری سمجھے نبٹے، اور مثبت نتائج حاصل کرنے کی غرض سے ہر ممکن قدم اٹھائے۔ دیوی پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھی تھی، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ایک نئے منصوبے کے تانے بانے بننے شروع کردئیے۔

اب سنئے کہ قلعہ اکبر میں اندرون لوہاری گیٹ ایک لوہارو رہتاتھا۔ اس نے جب سے ملکہ اقتدار کے حسن کے چرچے سنے تھے ، اس پر سو جان سے دل ہار بیٹھا تھا۔ سوئمبر کا اعلان ہوتے ہی وہ بھی ااپنا بوریا بستر سمیٹ، اپنے گھرسے چلا اور منزلیں مارتا ہوا، آخر کار راجدھانی جا پہنچا۔ یہاں پر میلے کا سا سماں تھا۔ ملکہ اقتدار کے سوئمبر میں شرکت کے لیے اطراف و جوانب سےبادشاہ زادے، وزیر زادے اور ہر قسم کے قسمت آزما پہنچے ہوئے تھے۔ لوہارو نے جب یہ منظر دیکھا تو بہت مایوس ہوالیکن ہمت نہ ہاری اور اپنا منہ دیوتاؤں کے مسکن یعنی ملکہ کوہسار کی طرف کیے ہوئے، ان کی ایک نظرِ کرم کے انتظار میں چلہ کش ہوگیا۔ اسی اثنا میں دولت شاہ آیا اور حسن کی دیوی کی مدد سے ملکہ اقتدار کو اغوا کرکے لے بھی گیا ، لیکن لوہارو جس پوزیشن میں بیٹھا تھا اسی میں بیٹھا رہ گیا۔ آخر کار جب چالیس دن گزرے تو اس کی جان میں جان آئی کہ آخر چلہ تو پورا ہوا۔ وہابھی کسی نظارہ غیبی کے انتظار میں بیٹھا ہی تھا کہ اچانک عقل و دانش کی دیوی اپنے آہنی لباس میں ملبوس اس کے سامنے جلوہ افروز ہوئی۔
’’ تم کون ہو؟‘‘ لوہارو اسے دیکھ کر گھبرا سا گیا۔

’’گھبراؤ نہیں پیارے لوہارو! میں عقل و دانش کی دیوی ہوں اور تمہاری مدد کے لیے آئی ہوں‘‘۔

’’ تم کیسی دیوی ہو کہ اب مدد کے لیے آئی ہو جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ کیا تمہیں علم نہیں کہ دولت شاہ ملکہ اقتدار کو اغوا کرکے لے گیا ہے؟‘‘

’’ بھولے لوہارو! مجھےہر بات کا علم ہے اور میں تمہاری مدد کے لیے آئی ہوں۔‘‘

’’پھر؟‘‘

’’پھر کیا!۔ اب تم یوں کرو کہ یہاں سے رفو چکر ہوجاؤ ۔ اب یہاں تمہارے لیے کچھ نہیں رہ گیا ہے۔ قلعہ اکبر پہنچو اور اطراف کے تمام بادشاہوں اور سپہ سلاروں کو جمع کرو۔ ہم کلاچی پر حملہ کیا چاہتے ہیں۔تاکہ ملکہ اقتدار کو ان کے چنگل سے نجات دلاسکیں۔‘‘

بھولے لوہارو نے دیوی کی نصیحت پلے باندھ لی اور کشاں کشاں قلعہ اکبر پہنچا اور لوہاری گیٹ کے باہر پڑاؤ ڈال دیئے۔ شہزادے اور سپہ سالار آتے رہے اور کاراواں بنتا رہا یہاں تک کہ جم غفیر جمع ہوگیا۔ ان میں زیادہ تر وہی شہزادے اور قسمت آزما تھے جو ملکہ اقتدار کے سوئمبر سے ناشاد و نامراد لوٹے تھے۔ اب اس مشترکہ مقصد نے انھیں ایک جھنڈے تلے مجتمع کردیا تھا۔ اور وہ لوہارو کی سربراہی میں بخوشی اس لشکر میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوگئے تھے جو ملکہ اقتدار کو چھڑانے کے لیے جارہا تھا۔
لشکر روانہ ہوا اور منزلیں مارتا آخر کار کلاچی کے ساحل پر جا اترا۔ اہلِ شہر نے غنیم کے لشکرِ عظیم کو دیکھا تو قلعہ بند ہوکر بیٹھ رہے۔ ادھر لشکر والوں نے شہر کا محاصرہ کرلیا اور اطمینان سے گھات لگا کر بیٹھ گئے۔ داستان گو کہتے ہیں کہ ہر چند کہ اہلِ ملکہ کوہسار کی اکثریت لشکر والوں کے ساتھ تھی پھر بھی سال ہا سال یہ محاصرہ رہا، نہ جیت کے کوئی آثار دکھائی دیتے تھے ، نہ ہی جنگ ختم ہونے کے امکان نظر آتے تھے۔ آخر کار تھک ہار کر لشکر والوں وہی چال چلی جو حسن کی دیوی نے چلی تھی۔ انھوں نے شہر کے چند سرکردہ لوگوں کو لایا اور انھیں زر و جواہر ، اطلس و کمخواب کے انبار دکھائے، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں، ۔۔۔ اور لکڑی کا ایک گھوڑا دکھایا۔

شہر والے مان گئےکہ ہم اس لکڑی کے گھوڑے کو کھینچ کر اندر لے جائیں گے۔ پھر کیا تھا۔ گھوڑے کے پیٹ میں چھپے لشکر والے باہر نکلے اور فصیل کے تمام دروازے کھول دئیے۔ پھر قتلِ عام کا آغازہوا، تمام اہلِ شہر بلا تفریقِ رنگ و نسل تہ تیغ کردئیے گئے، ملکہ اقتدار کو برآمد کیا گیا اور تمام شہر کو آگ لگا دی گئی۔ کلاچی، عروس البلاد ، جو عالم میں انتخاب تھا، جل کر راکھ ہوگیا۔ شہر جل گیا لیکن اب بھی کبھی کبھی کوئی سوختہ چنگاری بھڑکتی ہے تو دلوں میں وہ آگ پھر بھڑک اٹھتی ہے۔ ماتمِ یک شہرِ آرزو جاری ہے۔
 
ہمیشہ پیٹ بھرکھاتا ہوں میں
(منیر نیازی سے معذرت کے ساتھ)
محمد خلیل الرحمٰن

ہمیشہ پیٹ بھر کھاتا ہوں میں ، ہر ایک دعوت میں
ہمیشہ ٹوٹ پڑتا ہوں

کسی شادی کی دعوت ہو، ولیمے کا وہ کھانا ہو
عشائیہ ہو ، ظہرانا ہو یا ویسے ہی جانا ہو
ہمیشہ پیٹ بھر کھاتا ہوں میں ، ہر ایک دعوت میں
ہمیشہ ٹوٹ پڑتا ہوں



کسی موٹے سے بھوکے کو کبھی نیچا دِکھانا ہو
کبھی اپنے کسی مہمان کو جی بھر ستانا ہو
ہمیشہ پیٹ بھر کھاتا ہوں میں ، ہر ایک دعوت میں
ہمیشہ ٹوٹ پڑتا ہوں


کبھی بیوی کے ساتھ، اپنے مجھے سسرال جانا ہو
وہاں مرغِ مسلم ہو، کوئی اچھا سا کھانا ہو
ہمیشہ پیٹ بھر کھاتا ہوں میں ، ہر ایک دعوت میں
ہمیشہ ٹوٹ پڑتا ہوں
 
بہترین سرزنش جو ہم نے وصول کی
خلیل میاں

عمر اتنی نہیں طویل میاں
باز آجاؤ اب خلیل میاں

" محفلیں" سارے تم سے نالاں ہیں
سارہ، انور، شفق، شکیل میاں

دھاگے اس کے تمام بند کرو!
یہ مرا حکم ہے " نبیل " میاں

ہر کسی کے کلام کی" پھینٹی"
کریں بچنے کی کیا سبیل میاں

بند کرو اپنے یہ ڈرامے تم
پیروڈی میں اے خودکفیل میاں

مختصر یہ کہ تم سدھر جاؤ
آؤ ڈالوں تمھیں نکیل میاں
 
عدیم ہاشمی کی غزل بیچاری کے ساتھ ہمارا سلوک!!!
غزل
محمد خلیل الرحمٰن

’’فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا‘‘
سامنے رکھّا تھا کھانا اور میں بھوکا نہ تھا

ایسی خوشبو اُٹھ رہی تھی اُس کے توشے سے کہ میں
بس اُسے محسوس کر سکتا تھا ، کھا سکتا نہ تھا

آج اُس نے اپنے برتن بھی علیٰحدہ کرلیے
بن گیا ایسا کہ جیسے ساتھ کچھ کھایا نہ تھا

برتنوں کی کھنکھناہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا کچن میں کوئی بھی کھاتا نہ تھا

لذتیں تو بس اسی کے ہی پکانے کی رہیں
میں کہ کھا سکتا تھا لیکن کچھ پکا سکتا نہ تھا

ہاشمی صاحب کی پیاری سی غزل سے یہ سلوک
ہم نہ کرتے ، پر ہماری سوچ پر پہرہ نہ تھا

غزل
عدیم ہاشمی

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے، اور وہ میرا نہ تھا

وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سُو
میں اُسے محسوس کرسکتا تھا، چھو سکتا نہ تھا

رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

آج اُس نے درد بھی اپنے علیٰحدہ کرلیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا

یہ سبھی ویرانیاں اسکے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی، شہر دھندلایا نہ تھا

یاد کرکے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا​
 
Top