قلب سلیم ، کلمہء عشق اور مکتب عشق ۔۔۔

نور وجدان

لائبریرین
اچھی تحریر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشق میں چھٹی کبھی ملتی نہیں ہے بلکہ زندگی جب اس کی نذر ہوتی ہے تو وصل میسیر ہوتا ہے ۔ ہم سانس لیتے موت اور زندگی کے درمیاں ۔۔۔۔۔۔۔یعنی نیند اور بیداری کے درمیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہماری نیند اس سے ملن کا سبب ہوتی ہے ، سوچیے کس پل آپ کو بیٹھے بیٹھے نیند آجائے اور اس سے ملن ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلاشبہ جو اس کے محبوب کا ذکر کرتا ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ بھی اسی بندے کا ذکر بلند کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عقل اور عشق کا کام ایسے ہے جیسے ہم نے سمندر یا دریا پار جانا ہے ہمیں کشتی کی ضرورت ہے ، تو جناب وہ کشتی عقل ہے ، جس میں جتنی عقل ہوگی ، اتنا جلد منزل ملے گا ، اس کے عشق کی انٹینسٹی اسی قدر زیادہ ہوگی ۔۔۔۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
اللہ کی شان میں ابھی اسی علاقے سے متعلق احادیث پڑھ رہا تھا۔

پاکستان میں کہاں سے ہیں؟ ملاقات کی کوئی صورت؟؟
بنیادی تعلق سرگودھا اور پھر کراچی سے ہے۔۔۔ اگر اس دفعہ لاہور کا چکر لگا تو ملاقات کی سبیل بن سکتی ہے۔ ان شاءاللہ عزوجل۔
 
آخری تدوین:
عقل اور عشق کا کام ایسے ہے جیسے ہم نے سمندر یا دریا پار جانا ہے ہمیں کشتی کی ضرورت ہے ، تو جناب وہ کشتی عقل ہے ، جس میں جتنی عقل ہوگی
میری ناقص سمجھ میں ناجانے کیوں یہ بات نہیں گھس رہی کہ عقل کا عشق سے عین کے علاوہ کیا تعلق ہے۔ سوال ہے اعتراض نہیں۔ اگر تھوڑی وضاحت فرما دیں۔
 
آخری تدوین:
اور ساتھ ہی اس طالب علم نے یہ صلاح بھی دے دی کہ
اور یہ بھی کہ،


تو رہ نورد شوق ہے ، منزل نہ کر قبول

لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز

ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں

محفل گداز ! گرمی محفل نہ کر قبول

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے

جو عقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول
 

الشفاء

لائبریرین
اچھی تحریر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشق میں چھٹی کبھی ملتی نہیں ہے بلکہ زندگی جب اس کی نذر ہوتی ہے تو وصل میسیر ہوتا ہے ۔ ہم سانس لیتے موت اور زندگی کے درمیاں ۔۔۔۔۔۔۔یعنی نیند اور بیداری کے درمیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہماری نیند اس سے ملن کا سبب ہوتی ہے ، سوچیے کس پل آپ کو بیٹھے بیٹھے نیند آجائے اور اس سے ملن ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلاشبہ جو اس کے محبوب کا ذکر کرتا ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ بھی اسی بندے کا ذکر بلند کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عقل اور عشق کا کام ایسے ہے جیسے ہم نے سمندر یا دریا پار جانا ہے ہمیں کشتی کی ضرورت ہے ، تو جناب وہ کشتی عقل ہے ، جس میں جتنی عقل ہوگی ، اتنا جلد منزل ملے گا ، اس کے عشق کی انٹینسٹی اسی قدر زیادہ ہوگی ۔۔۔۔۔۔

بہت شکریہ نور بہن۔۔۔
اللہ عزوجل آپ کے شوق میں اضافہ فرمائے۔ آمین۔
آپ کی تحریر بہت اچھی لگی ہے۔
اللھم زد فزد

بڑی نوازش ابو عبداللہ بھائی۔۔۔:)

اور یہ بھی کہ،


تو رہ نورد شوق ہے ، منزل نہ کر قبول

لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز

ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں

محفل گداز ! گرمی محفل نہ کر قبول

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے

جو عقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول
واہ۔ سبحان اللہ۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میری ناقص سمجھ میں ناجانے کیوں یہ بات نہیں گھس رہی کہ عقل کا عشق سے عین کے علاوہ کیا تعلق ہے۔ سوال ہے اعتراض نہیں۔ اگر تھوڑی وضاحت فرما دیں۔

ع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عقل ، عبادت ، عشق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ معشوق کو محسوس کریں ۔۔۔۔۔۔۔اس کو دیکھیں۔۔۔۔۔خود کو دیکھیں ،
جیسے واصف علی واصف کی صدا
میں نعرہ مستانہ ،میں طائر لا ہوتی ،میں جوہر ملکوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مظاہر کو دیکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہاڑ ، جنگل ، دریا ، جھیلیں ، آبشاریں ، چشمے ، نہریں ، کھیت وغیرہ ۔۔۔۔۔۔جانوروں کو دیکھیں ۔۔۔۔۔۔۔سب میں کشش محسوس کریں گے ۔۔ان کو محسوس کریں گے ، پیار کریں گی ، ان کی سنیں گی ، سنائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ کو ان سے محبت ہوجائیں گی تو ان کا خیال کرنا فرض سمجھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی امیر غریب ، اچھے برے کی تخصیص کے بغیر ۔۔۔۔۔۔۔سب سے پیار کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سارا عمل آپ کو عشق میں دھکیل دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے آپ نے جو کیا ،وہ آپ نے اپنے حواس سے ڈاٹا اسٹور کیا دماغ میں ، اس کو سمجھا ، پرکھا ، غور کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تب آپ کے حواس نے ایک نقطہ بنایا کہ یہ میرا نظریہ ہے مجھے پیار کرنا ہے ، پیار ہی عبادت ، خدمت افضل ہے ۔۔۔۔۔۔اس میں جب آپ خود کو فنا کرنا شروع کریں گے تو عملِ فنا کے دوران آپ اپنے نظریے سے چلیں گے ، آپ کی سوچ ، سمجھ وہی ہوگی جو آپ نے فنا سے پہلے بنائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ عشق کی ابتدا ہوجائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں سمجھ بوجھ کے عمل دخل نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔عقل کے بغیر کوئی عشق کر ہی نہیں سکتا ہے اور اس لیے قران پاک میں جگہ جگہ کہا گیا ہے ۔۔۔۔

کیا تم تدبر نہیں کرتے ؟ کیا تم عقل نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عقل اتنی ہی بری شے ہوتی تو قران پاک کبھی بھی اس کی تائید نہ کرتا ، اس لیے جب آپ تصوف میں جاتے ہیں تو آپ کے شرعی عقید جو شریعت یا سوچ سمجھ کے بنے ہوتے ہیں وہی آپ کی فنا میں شامل ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کی وجہ بندہ عشق میں تو ٹھیک ہوتا مگر اس کی تقلید ٹھیک نہیں ہوسکتی جیسے منصور یا سرمد سچے عاشق تو تھے مگر ان کی تقلید جائز نہیں ہے نا ہی کوئی مکتب فکر کہے گی ان کے افکار کی پیروی کریں جو کہے گا وہ خود بھی اسی عقیدے سے ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محبت تفریق سکھاتی ہے ، عشق تفریق ختم کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریعت تو ہمیں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سکھاتی ہے
مگر عشق صرف لا الہ الا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بتاتا ہے
 

الشفاء

لائبریرین
شریعت تو ہمیں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سکھاتی ہے
مگر عشق صرف لا الہ الا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بتاتا ہے

ہمارے نزدیک تو شریعت اور عشق دونوں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے ملتے ہیں۔۔۔بلکہ اگر غور کریں تو شریعت دراصل عشق ہی کا دوسرا نام ہے ۔ اس میں بڑی تفصیل سے بات ہو سکتی ہے۔ لیکن یہاں مختصراً قرآن مجید کی ایک سادہ سی مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے " وما اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھو " یعنی جو کچھ یہ رسول کریم دیں ، وہ لے لو اور جس چیز سے منع کر دیں اس سے رک جاؤ۔ اب ذرا غور کریں کہ کیا اس جملے میں عشق کا سبق نہیں دیا جا رہا ۔ کوئی اگر مگر کیوں وغیرہ کی گنجائش نہیں رکھی گئی کہ عشق میں یہ سب نہیں ہوتا۔ بس محبوب جو کہے جیسا کہے ، ویسا کرنے لگ جاؤ اور جس سے منع کر دے اس کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ قرآن مجید کی یہ آیت کتاب عشق کا مقدمہ بھی ہے اور ساری شریعت کا نچوڑ بھی ۔۔۔ اور جو شریعت میں جتنا کامل ہوتا جاتا ہے اتنا ہی عاشق صادق بنتا جاتا ہے۔۔۔

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

دوسری بات یہ کہ ہم اللہ عزوجل سے محبت نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سے محبت نہ فرمائے۔ اور " یحبھم ویحبونہ " میں اسی طرف اشارہ ہے۔۔۔ اب اس سبحانہ وتعالیٰ کی محبت کیسے حاصل کی جائے ، اس کا طریقہ "فاتبعونی یحببکم اللہ" کی صورت میں اس نے خود ہی بیان فرما دیا ہے۔ یعنی میرے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کے نقش قدم پر چلو گے تو میری محبت حاصل کر لو گے۔۔۔" لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ لمن کان یرجواللہ " میں بھی یہی سبق دوہرایا جا رہا ہے۔۔۔
تو عشق کا مدار محمد رسول اللہ ہے۔ اور اس مدار کا مرکز ذات الٰہی عزوجل ہے۔ مدار میں داخل ہو ئے بغیر مرکز تک پہنچنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔۔۔ یہ بات گولڑہ شریف والے کچھ یوں سمجھا کر گئے ہیں کہ

پہلے نبی کے عشق میں مدہوش ہو نصیر
پھر یہ کہے کوئی کہ مجھے ہے خدا سے عشق۔
 
ہمارے نزدیک تو شریعت اور عشق دونوں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے ملتے ہیں۔۔۔بلکہ اگر غور کریں تو شریعت دراصل عشق ہی کا دوسرا نام ہے ۔ اس میں بڑی تفصیل سے بات ہو سکتی ہے۔ لیکن یہاں مختصراً قرآن مجید کی ایک سادہ سی مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے " وما اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھو " یعنی جو کچھ یہ رسول کریم دیں ، وہ لے لو اور جس چیز سے منع کر دیں اس سے رک جاؤ۔ اب ذرا غور کریں کہ کیا اس جملے میں عشق کا سبق نہیں دیا جا رہا ۔ کوئی اگر مگر کیوں وغیرہ کی گنجائش نہیں رکھی گئی کہ عشق میں یہ سب نہیں ہوتا۔ بس محبوب جو کہے جیسا کہے ، ویسا کرنے لگ جاؤ اور جس سے منع کر دے اس کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ قرآن مجید کی یہ آیت کتاب عشق کا مقدمہ بھی ہے اور ساری شریعت کا نچوڑ بھی ۔۔۔ اور جو شریعت میں جتنا کامل ہوتا جاتا ہے اتنا ہی عاشق صادق بنتا جاتا ہے۔۔۔

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

دوسری بات یہ کہ ہم اللہ عزوجل سے محبت نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سے محبت نہ فرمائے۔ اور " یحبھم ویحبونہ " میں اسی طرف اشارہ ہے۔۔۔ اب اس سبحانہ وتعالیٰ کی محبت کیسے حاصل کی جائے ، اس کا طریقہ "فاتبعونی یحببکم اللہ" کی صورت میں اس نے خود ہی بیان فرما دیا ہے۔ یعنی میرے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کے نقش قدم پر چلو گے تو میری محبت حاصل کر لو گے۔۔۔" لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ لمن کان یرجواللہ " میں بھی یہی سبق دوہرایا جا رہا ہے۔۔۔
تو عشق کا مدار محمد رسول اللہ ہے۔ اور اس مدار کا مرکز ذات الٰہی عزوجل ہے۔ مدار میں داخل ہو ئے بغیر مرکز تک پہنچنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔۔۔ یہ بات گولڑہ شریف والے کچھ یوں سمجھا کر گئے ہیں کہ

پہلے نبی کے عشق میں مدہوش ہو نصیر
پھر یہ کہے کوئی کہ مجھے ہے خدا سے عشق۔
کہتے ہیں اللہ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ میں نے صبح سے لڑی کھول رکھی تھی نور بہنا کے مراسلے کے جواب کے لئے۔ لیکن فراغت کا انتظار کرتا رہا۔ دفتر سے گھر پہنچا ہوں تو یہ نور افزا تحریر موجود تھی۔ سر بہت خوبصورت کلام۔ متفق شدید طور پہ۔ اس پر مزید کچھ نکات بھی وارد ہوئے تھے مگر وقت کی قلت کے باعث پھر کبھی سہی۔
 

نایاب

لائبریرین
شریعت تو ہمیں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سکھاتی ہے
مگر عشق صرف لا الہ الا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بتاتا ہے
محترم نور بٹیا جسے ہم شریعت کے عنوان سے جانتے ہیں یہ کلمہ طیبہ کی شہادت پر استوار وہ مکتب عشق ہے ۔
جہاں گواہی دینے والے کو یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ
کیسے وہ " اسوہ حسنہ " کی اتباع میں اپنے نفس کی قربانی دیتے
قلب سلیم کا حامل ہوتے کلمئہ عشق کو سچا ثابت کرتے " طلب " کے اس بلند ترین مقام پر پہنچ سکتا ہے ۔
جہاں اس کا " مطلوب " اس کی رضا کو اپنی رضا قرار دے دیتا ہے ۔
شریعت جو کلمہ طیبہ کے اقرار پر قائم ہے ۔ وہ بعثت رسول علیہ السلام کے بعد وجود میں آئی ۔
کلمہ طیبہ کے پہلے جز " لا الہ الا اللہ " پر قائم کلمہ عشق آپ جناب نبی پاک علیہ السلام کی بعثت سے پہلے کا ہے ۔
اور آپ جناب نبی پاک علیہ السلام کی بعثت سے پہلے مکتب عشق میں " طالبوں " کے لیے قلب سلیم پانے " مطلوب " تک پہنچنے کے لیئے یہی کلمہ عشق زینہ تھا ۔
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق کا مدار محمد رسول اللہ ہے۔ اور اس مدار کا مرکز ذات الٰہی عزوجل ہے۔ مدار میں داخل ہو ئے بغیر مرکز تک پہنچنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔۔۔
بہت دعائیں
 

نور وجدان

لائبریرین
ہمارے نزدیک تو شریعت اور عشق دونوں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے ملتے ہیں۔۔۔بلکہ اگر غور کریں تو شریعت دراصل عشق ہی کا دوسرا نام ہے ۔ اس میں بڑی تفصیل سے بات ہو سکتی ہے۔ لیکن یہاں مختصراً قرآن مجید کی ایک سادہ سی مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے " وما اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھو " یعنی جو کچھ یہ رسول کریم دیں ، وہ لے لو اور جس چیز سے منع کر دیں اس سے رک جاؤ۔ اب ذرا غور کریں کہ کیا اس جملے میں عشق کا سبق نہیں دیا جا رہا ۔ کوئی اگر مگر کیوں وغیرہ کی گنجائش نہیں رکھی گئی کہ عشق میں یہ سب نہیں ہوتا۔ بس محبوب جو کہے جیسا کہے ، ویسا کرنے لگ جاؤ اور جس سے منع کر دے اس کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ قرآن مجید کی یہ آیت کتاب عشق کا مقدمہ بھی ہے اور ساری شریعت کا نچوڑ بھی ۔۔۔ اور جو شریعت میں جتنا کامل ہوتا جاتا ہے اتنا ہی عاشق صادق بنتا جاتا ہے۔۔۔

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

دوسری بات یہ کہ ہم اللہ عزوجل سے محبت نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سے محبت نہ فرمائے۔ اور " یحبھم ویحبونہ " میں اسی طرف اشارہ ہے۔۔۔ اب اس سبحانہ وتعالیٰ کی محبت کیسے حاصل کی جائے ، اس کا طریقہ "فاتبعونی یحببکم اللہ" کی صورت میں اس نے خود ہی بیان فرما دیا ہے۔ یعنی میرے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کے نقش قدم پر چلو گے تو میری محبت حاصل کر لو گے۔۔۔" لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ لمن کان یرجواللہ " میں بھی یہی سبق دوہرایا جا رہا ہے۔۔۔
تو عشق کا مدار محمد رسول اللہ ہے۔ اور اس مدار کا مرکز ذات الٰہی عزوجل ہے۔ مدار میں داخل ہو ئے بغیر مرکز تک پہنچنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔۔۔ یہ بات گولڑہ شریف والے کچھ یوں سمجھا کر گئے ہیں کہ

پہلے نبی کے عشق میں مدہوش ہو نصیر
پھر یہ کہے کوئی کہ مجھے ہے خدا سے عشق۔

عقل اتنی ناقص شے نہیں ہے ۔ جس کو ملتی ہے ، اس کے لیے تحفتہ العظیم ہے ۔ خدا تعالیٰ نے جن روحوں کو عشق کی نعمت سے سرفراز کیا وہ سب بہت عقل والے تھے ۔ اس کی مثال حضرت موسی علیہ سلام کی حیات مبارکہ ہے جس کا ذکر قران پاک میں بار بار کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی دید کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کس بات کا محتاج ، دیکھنے کا ! اللہ تعالیٰ سے کلام کرنا ، کس بات کا محتاج ، سننے کا ! اللہ تعالیٰ تک رسائی کیسے حاصل کی جب جناب موسی علیہ سلام نے اپنی آنکھ ، کان ، ناک ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے حواس نورانی عقل کے تابع کردیے ۔ آپ اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں ! سوال عقل یا عاقل ہونے کی نشانی ہے ! کیا عاشق بندہ سوال نہیں کرسکتا ؟ آپ نے کہا مولا تجھے دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔دیکھنے کی خواہش ۔۔۔خواہش کا خمیر عقل سے ماخذ ہے ۔۔۔۔۔تو کیا آپ جناب عقل کے حامل نہیں تھے بس ایک عاشق ہی تھے ؟ آپ کا سفرِ خضر ۔۔۔۔۔۔۔۔سوال در سوال ۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ کے کیے گئے سوالات نے آپ کو عشق سے خارج کردیا ؟ یا علم دیا ؟ علم کیسے حاصل کیا جاتا ہے ؟ عشق سے اگر جانب اللہ ہو اور جانب دنیا ہو تو عقل سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں پر عقل و عشق کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔۔

اہل مشرق عقل کو وجدانی علم قرار دیتے ہیں ، اس لیے اس کو عشق سے مشتق کیا جاتا ہے ، وجدانی علم کی بیداری کبھی بھی برہانی علم کے بغیر نہیں ہوتی ۔۔

اہل مغرب کے پاس صرف برہانی علم ہے ۔۔۔۔۔اس لیے ان کے پاس مالک کل تک رسائی کے راستے محدود ہوگئے ۔۔

سوال جناب موسی علیہ سلام نے کیے مگر بارگاہ ایزدی میں معطون تو اہل مصر ہوئے جن کو ایک بچھڑے کی محبت نے گھیر لیا تھا ۔۔اس بچھڑے کی قربانی سے پہلے ''قیل و قال '' کو میں برہانی عقل پر متصل کروں گی جبکہ موسی علیہ سلام کی عقل کو الہامی ، نورانی ، وجدانی عقل کہوں گی ۔اس عقل کو آپ جناب علیہ سلام نے اپنے حواس کے ذریعے رسا پایا ۔۔جناب سیدنا حضرت امام حسین نے قربانی کی جو مثال پیش کی ، اس کے پیچھے بھی حکمت تھی ۔ حکمت کا باب جس کو میں ''طریقہ '' سے موسوم کرتی ہوں ، یہ علم و عقل و عمل کا سنگم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان تینوں میں 'ع' مشترک ہے جب یہ تینوں ایک بندے میں بیک وقت پائیں جائیں تو سمجھ لیجئے کہ بندہ عاشق ہے ۔

اللہ عقلِ کل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرشتے یا نوری مخلوق عقل نہیں رکھتے یعنی علم نہیں رکھتے مگر عبادت میں مشغول ہیں ، اللہ نے انسان کو خلیفہ بنایا اس کو عقل کی وجہ سے تو عقل سے انکار اس وجہ سے کردیں کہ کسی شاعر نے ایسے لوازمات اکٹھے کیے ہیں کہ بظاہر جو عقل کے منافی ہیں ؟

اللہ تبارک وتعالیٰ نے روح کے امر کیا ، روح کے دنیا میں آنے کے بعد ، اس کو پہلا احساس مامتا کا ہوا ، یہ روح کا روح سے لگاؤ ہے ۔ جیسے جیسے بچے نے شعور کی منازل طے کیں ، اس نے ماں کی محبت پر یقین کرنا شروع کردیا ۔ بچے کو اس بات کا یقین ہے کہ ماں اس سے محبت کرتی ہے ، خالق نے بھی قران پاک میں جگہ جگہ یہی فرمایا ہے کہ میں ماں سے 70 گناہ زیادہ محبت رکھتا ہوں ، یہی احساس روح رکھتی ہے جیسا کہ وہ ماں سے پیدائیشی انس رکھتی ہے ۔ اس انس ، محبت کے ساتھ بچے کی عقل بھی متحرک ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔ لاشعور جو 7 برس تک بیدار رہتا ہے اس پر پہرہ حواس کا کم ہوتا ہے مگر دماغ مشاہدات کو ذخیرہ کرنا شروع کردیتا ہے ۔ ان مشاہدات پر یقین ، ایمان لانا عشق ہے جو کہ شعور کی سرحد پر لانے کے بعد ہوتا ہے ۔ اس لیے شعور کی منزل پر پہنچ کے بچے ماں باپ کی محبت کوبھلا دیتے ہیں ، ان سے ویسی محبت نہیں رکھتے جیسا کہ ماں باپ نے کی اور جو ان سے محبت کرتے ہیں ، ان کا یقین ، ان کو یہ باور کراچکا ہوتا ہے کہ ماں ان سے محبت کرتی ہے ۔ محبت آسمانی تحفہ ہے جسکی تجدید ہر روح عقل سے کرتی ہے اور عقلِ کُل سے متصل ہوجاتی ہے ۔ اس لیے سیدنا محمد صلی علیہ والہ وسلم نے غار حرا میں قیام کیا تاکہ اللہ کو اپنی عقل سے پہچان سکیں ۔۔۔اس لیے جب انسان اپنی عقل اللہ کے حوالہ کردیتا تو عشق شروع ہوجاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
عقل اتنی ناقص شے نہیں ہے ۔

محترم بہن۔ آپ کسی دوسری ہی بحث میں پڑ گئیں ۔ یہ کس نے کہا کہ عقل کوئی ناقص شے ہے؟
بے شک عقل اللہ عزوجل کی عطا کی ہوئی انمول نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔۔۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کی عشق کے ساتھ کوئی خاص نہیں بنتی۔۔۔
لیکن یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ گیٹ کے آس پاس ہی رہے زیادہ ادھر ادھر نہ جائے تاکہ بوقت ضرورت اس سے انٹر کام پر رابطہ کیا جا سکے۔۔۔
[/QUOTE]
 

الشفاء

لائبریرین
اس کا عیسائی ، ہندو ، یہودی یا محمدی ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شریعت کی دلیل ہے
لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدم صفی اللہ
لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوح نجی اللہ
لا الہ الا اللہ -------------- ابراہیم خلیل اللہ ،
لا الہ الا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسماعیل ذبیح اللہ
لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موسی کلیم اللہ
لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داؤڈ خلیفتہ اللہ
لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عیسی روح اللہ
لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد رسول اللہ

یہ تمام اللہ کی جانب جانے کے راستے ہیں ،
ہم الحمدللہ امت محمدی سے ہیں۔ اور یہ اپنے آپ میں اتنا بڑا اعزاز ہے کہ ہم میں سے بیشتر کو اس کا اندازہ ہی نہیں۔۔۔ بہرحال اوپر والی تمام شریعتیں اور راستے شریعت محمدی میں تحلیل ہو چکے ہیں۔ اور اب اللہ عزوجل تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ اور وہ شریعت محمدی علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم ہے۔۔۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:''بے شک ہم لوگ یہود سے کچھ ایسی باتیں سنتے ہیں، جو ہمیں اچھی لگتی ہیں، کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم اُن میں سے کچھ لکھ لیا کریں؟‘‘ آپ ﷺ نے بہ طور زَجر وانکار فرمایا:کیا تم لوگ دینِ اسلام کے بارے میں حیرت میں ہو جیسا کہ یہود ونصاریٰ اس کیفیت میں مبتلاہوگئے تھے، حالانکہ میں تمہارے پاس ایک پاکیزہ روشن دین وملّت لے کر آیا ہوںاور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کے لئے(بھی) میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا،(مسنداحمد:387/3)‘‘​

اتباع رسول علیہ الصلاۃ والسلام کا نام ہی شریعت ہے اور یہ بغیر عشق کے ممکن نہیں۔۔۔
اللہ عزوجل آپ کو آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین۔۔۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
بہت بہت بہت بہت۔۔۔۔۔۔خوبصورت۔
دل میں اترتی تحریر۔
اس تحریر کی تعریف میں بندی کیا لکھ سکتی ہے!جس مقدس موضوع پہ ہے ہم نمانے اس پہ بات کرنے کے قابل نہیں۔بس دعا کر سکتے ہیں اور لکھنے والے کے لئے دعا دے سکتے ہیں۔اللہ ہم سب کو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رستے پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!ثم آمین!
 

الشفاء

لائبریرین
بہت بہت بہت بہت۔۔۔۔۔۔خوبصورت۔
دل میں اترتی تحریر۔
اس تحریر کی تعریف میں بندی کیا لکھ سکتی ہے!جس مقدس موضوع پہ ہے ہم نمانے اس پہ بات کرنے کے قابل نہیں۔بس دعا کر سکتے ہیں اور لکھنے والے کے لئے دعا دے سکتے ہیں۔اللہ ہم سب کو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رستے پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!ثم آمین!
جزاک اللہ الف خیر جاسمن بہنا۔۔۔ بس دعا ہی چاہیئے۔ جب بھی کبھی اس حقیر کا خیال آئے ، مغفرت و رضوان کی دعا کر دیا کیجیے۔ اور اگر محمد اور ایمی بٹیا تک بھی یہی گزارش پہنچا دیں تو شاید کام جلدی بن جائے۔۔۔
اللہ عزوجل آپ پر اور آپ کی فیملی پر اپنا کرم بنائے رکھے۔ آمین۔۔۔
 
[QUOTE="الشفاء, post: 1232885, member: 6537" عمدہ بہت لطیف انداز اور سوچ کے ساتهہ
اللہ عزوجل سورۃ الشعراء میں ارشاد فرماتا ہے۔

يَوْمَ لا يَنْفَعُ مَالٌ وَلا بَنُونَ ، إِلاَّ مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ۔
سورة الشعراء : آیت ٨٨،٨٩۔

جس دن نہ کسی کو مال نفع دے گا اور نہ اولاد ، مگر وہی شخص ( نفع مند ہوگا ) جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں حاضر ہو۔۔۔

یہ دل جو بظاہر ایک مٹھی بھر عضو نظر آتا ہے ۔ اس کے باطن میں قدرت نے عجیب وغریب صلاحیتیں رکھی ہیں۔ اور یہی وہ باطنی قلب ہے کہ جس کی وسعت و گہرائی کے سامنے صحرا و سمندر بھی شرما جاتے ہیں۔۔۔ وہ سب کچھ جو ہمارے وہم و گمان کی دسترس میں نہیں آ سکتا اس قلب میں سما جاتا ہے۔۔۔ سبحان اللہ۔

اوپر بیان کی گئی آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ وتعالٰی نے ہماری کامیابی کا دارومدار بھی اسی قلب پر رکھا ہے۔۔۔ کہ جو صاف ، پاکیزہ اور سلامتی بھرا دل لے کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔ وہ کامیاب ہے۔۔۔
اعضائے بدن کا بادشاہ بھی یہی قلب ہے اور کائنات عشق ومحبت کا مرکز و محور بھی یہی قلب ہے۔ محبت و پیار کی ساری کہانیاں اسی قلب سے شروع ہو کر اسی پر مُک جاتی ہیں۔۔۔ بلکہ دیکھا جائے تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتیں۔ اندر خانے چلتی ہی رہتی ہیں۔۔۔
آقا علیہ الصلاہ والسلام کا فرمان ہے کہ : سن لو۔۔۔ اس بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ سنور جائے تو پورا بدن سنور جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو پورا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ تو جان لو۔۔۔ کہ گوشت کا وہ ٹکڑا دل ہے۔۔۔
جب ہماری تمام تر کامیابیوں کا انحصار اسی قلب کی صفائی اور پاکیزگی پر رکھ دیا گیا ہے تو اب اس دل کو سنوارنے کے لئے کیا کیا جائے کہ یہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں پیش کئے جانے کے قابل بن جائے۔۔۔
تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس کا یہ کام کوئی آسان کام نہیں۔۔۔ قلب سے قلب سلیم حاصل کرنے تک کا یہ سفر ایک کٹھن سفر ہے۔ اس سفر کے مسافر روز مرتے اور روز جیتے ہیں۔۔۔ اسی لئے تو اس کام کو جہاد اکبر کا نام دیا گیا ہے۔۔۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

کام جتنا مشکل اور کٹھن ہو اس کو انجام دینے کے لئے اتنی ہی زیادہ طاقت اور مضبوط جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہم جیسے کمزور لوگ اس بھاری کام کو کیسے انجام دیں۔۔۔ اور خاص طور پر اس دور میں کہ جب ہم باہر نکلتے ہیں تو نظر اٹھاتے ہی بے شرمی اور بے حیائی کے سارے سامان اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دعوت نظارہ دے رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ اب تو باہر نکلنے کی بھی حاجت نہیں رہی۔ یہ سب خرافات ہمیں ہمارے گھروں کے بند کمروں میں دستیاب ہیں۔۔۔ غالباً یہ وہی وقت ہے جس کے بارے میں آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ میں فتنوں کو بارش کے اولوں کی طرح مسلمانوں کے گھروں پر گرتا دیکھ رہا ہوں۔۔۔ اب ان حالات میں ہم جیسے کمزور لوگ اپنے قلب و نظر کی حفاظت اور دل کی صفائی کا کٹھن کام کیسے کریں۔۔۔ کوئی ایسی زبردست طاقت ملے کہ جو اس دنیا کی محبت کو اس کی تمام تر گندگیوں کے ساتھ ہمارے قلوب سے نکال دے۔۔۔ کوئی ایسا طریقہ ہو کہ یہ مشکل سفر منزل بہ منزل آسانی سے کٹتا جائے۔۔۔
جی ہاں اس کا ایک گُر ہے۔ اور یہ وہی گُر ہے جس کی طاقت سے ہمارے اسلاف نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے کہ جنہیں سن کر عقل انگشت بدنداں رہ جاتی ہے۔۔۔ جی ہاں یہ وہی گر ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے کہ کس طرح نمرود کی بھڑکتی ہوئی آگ کو اپنی مسکراہٹ سے ٹھنڈا کر کے خلیل اللہ بنتے ہیں۔۔۔ یہ وہی گر ہے جو ہمیں حضرت سمیّہ رضی اللہ عنہا نے سکھایا کہ کس طرح مشرکین مکہ کے مظالم سہتے سہتے ابو جہل کی برچھیوں کو اپنے نازک بدن پر روک کر اسلام کی پہلی شہیدہ کا لقب حاصل کرتے ہیں۔۔۔ یہ وہی گر ہے جو ہمیں حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ کس طرح تپتے انگاروں پر لیٹ کر احد احد کا لاہوتی نغمہ گاتے ہیں۔۔۔ یہی گر سیکھ لینے کے بعد اسیران جمال مصطفٰے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر ابروئے محبوب کے اشارے کے منتظر رہتے تھے کہ اشارہ ہو اور وہ اپنی گردن کٹا دیں۔۔۔ جی ہاں یہ ایک ایسا ہی گر ہے کہ اس کے حاصل ہو جانے کے بعد جان دے دینا تو ایک معمولی سا کام لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ایک جان تو کیا دونوں جہاں لٹا دیں۔ بلکہ صدا اٹھتی ہے کہ
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا، کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں۔۔۔

اور اس گُر ، اس جذبے اور اس طاقت کا نام ہے۔۔۔۔ عشق ۔۔۔۔

جس کسی نے بھی لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کو سمجھ کر پڑھ لیا ، عشق کی یہ چنگاری اس کے دل میں پیوست کر دی جاتی ہے۔۔۔ اس کلمے اور جذبہ عشق کے درمیان ایک بڑا لطیف اور مضبوط رشتہ ہے۔ بلکہ اگر اس کلمے کو کلمئہ عشق کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ جس طرح عشق آپ کو خود آپ کی ذات سے الگ کر دیتا ہے اسی طرح یہ کلمہ پڑھ لینے کے بعد بھی آپ اپنے نہیں رہتے ، کسی اور کے ہو جاتے ہیں۔۔۔
ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ زمانے کی سرد ہوا اس عشق کی چنگاری پر راکھ ڈالتی رہے اور ہمیں بظاہر ایسا نظر آئے کہ کسی کے دل کی یہ چنگاری ٹھنڈی ہو چکی ہے۔ لیکن جب تک اس کلمے کا اثر دل میں موجود ہے یہ چنگاری بجھتی نہیں، اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے۔ اور پھر جب کبھی مدینے کی خوشبودار ہوا کا جھونکا اس چنگاری سے ٹکراتا ہے تو یہ بھڑک اٹھتی ہے۔ اور پھر ہم اس بھڑکتی ہوئی چنگاری کو کبھی غازی علم دین کا نام دے دیتے ہیں اور کبھی غازی عبدالقیوم کہنے لگتے ہیں۔ اور کبھی یہ بخاری بن کر گرجتی ہے اور کبھی چیمہ بن کر چھا جاتی ہے۔۔۔
جس طرح حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے مدینہ منورہ کو ایک بھٹی کی مانند قرار دیا ہے کہ جو اپنے اندر کسی قسم کی گندگی یا غلاظت برداشت نہیں کرتی اور تمام آلائشوں کو جلا کر نکال باہر کرتی ہے اسی طرح جب قلب میں عشق کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے تو دل کی صفائی اور پاکیزگی کا مشکل اور کٹھن کام بہت آسانی سے بلکہ لطف سے ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ جب نفس کا پُر غرور سر ، تسلیم و رضا کی تلوار کے نیچے آتا ہے تو ہر رگ کٹتے کٹتے ایسا لطف دے جاتی ہے کہ جس سے ہم پہلے آشنا ہی نہیں ہوتے۔۔۔

اس خنجر تسلیم سے یہ جان حزیں بھی
ہر لحظہ شہادت کے مزے لوٹ رہی ہے

اور پھر قلب اپنے تمام داغ دھبوں سے پاک ہو کر کندن کی طرح چمکنے لگتا ہے۔ اور اپنے رب کے حضور حاضر ہونے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔۔۔ لیکن تصفیہ قلب ، تزکیہ نفس اور کلمئہ عشق میں فنا ہو جانے کی یہ تربیت مکتب عشق میں داخلہ لئے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔۔۔

-
مکتب عشق کی کچھ خصوصیات:۔
ممکن ہے کہ مکتب عشق کی اصطلاح ایک نئی اصطلاح ہو۔ لیکن دراصل یہ کوئی نیا مکتب نہیں ہے۔ بلکہ صدیوں سے اس مکتب کی کلاسیں جاری ہیں۔ اور بے شمار طالب علم اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس مکتب سے فیض پا کر ساری زندگی اپنے محبوب کا نام روشن کرتے رہے ہیں۔۔۔ جی ہاں۔ یہ اس مکتب کی خصوصیت ہے کہ یہاں کے طالب علم اپنے نام کی بجائے اپنے محبوب کے نام کو روشن کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اور جب یہ اپنا کام پورا کر لیتے ہیں تو پھر ان کا محبوب فاذکرونی اذکرکم کے وعدے کے مطابق رہتی دنیا تک ان کے نام کے ڈنکے بجاتا ہے۔۔۔اور اگر دیکھا جائے تو اس مکتب کی داغ بیل تخلیق کائنات سے بھی پہلے کی ڈالی ہوئی ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ
۔

لو لاک لما خلقت الافلاک۔۔۔ اے محبوب۔۔۔ اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ کائنات بھی پیدا نہ کی جاتی۔۔۔

اور اسی بات کی تشریح مکتب عشق کے ایک طالب علم نے ان الفاظ میں کی ہے۔۔۔
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا۔۔۔ لوح و قلم تیرے ہیں

جس طرح ہر مکتب میں کچھ سینئرز ، کچھ جونیئرز، کچھ سینئر موسٹ، کچھ ذہین و فطین، کچھ سنجیدہ ، کچھ شرارتی اور کچھ ہم جیسے نکمے طالب علم ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس مکتب میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ یہاں بعض ایسے طلباء بھی ملتے ہیں جو شروع میں شرارتی تھے لیکن مکتب عشق سے تعلق استوار ہونے کے بعد ایسے سنجیدہ اور ہونہار طالب علم بنے کہ نئے آنے والوں کے لئے لائق تقلید ہو گئے۔۔۔

مکتب عشق کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس مکتب میں کوئی استاد نہیں۔۔۔ سب کے سب طالب علم ہیں۔۔۔ ہے نا عجیب و غریب بات۔۔۔ اور استاد نہ ہونے کی وجہ ایک طالب علم نے یوں بیان کی ہے کہ

ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا۔۔۔
میر تقی میر

کہ عشق و محبت کا کورس ایسا کورس ہے کہ جس کو مکمل کرنے کے لئے ایک تو کیا کئی زندگیاں بھی کم ہیں اور جب کسی کا کورس ہی مکمل نہیں ہوا تو استاد کون بنے گا۔۔۔ ہاں اس مکتب کے ایک ہی استاد ہیں۔۔۔ محمد الرسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم، کہ جن کو خود بانئ مکتب نے یہ منصب عطا فرمایا ہے اور قرآن مجید میں ان کی شان معلم یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ

ویعلمھم الکتاب والحکمۃ ویزکّیھم۔۔۔
اور وہ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ فرماتے ہیں۔۔۔ سبحان اللہ۔

اب ان کے بعد کوئی دوسرا اس منصب پر نہیں بٹھایا گیا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام ہی اس مکتب کے آخری اور کمال درجہ کے استاد ہیں۔۔۔ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

مکتب عشق میں عقل کی نشست۔۔۔

بے شک عقل اللہ عزوجل کی عطا کی ہوئی انمول نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔۔۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کی عشق کے ساتھ کوئی خاص نہیں بنتی۔۔۔ عشق جب آگ میں چھلانگ لگا دیتا ہے تو یہ کنارے پہ کھڑی روکتی رہ جاتی ہے۔۔۔ اسی لئے مکتب عشق کے ایک طالب علم نے کہا تھا کہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی۔۔۔

اور ساتھ ہی اس طالب علم نے یہ صلاح بھی دے دی کہ
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
ڈاکٹر محمد اقبال

اسی لئے عقل کی نشست مکتب عشق میں گیٹ کے پاس لگائی جاتی ہے۔۔۔ چونکہ اس مکتب کی بعض باتیں عقل کو عجیب و غریب یا غریب و عجیب لگ سکتی ہیں اس لئے کلاس میں آتے وقت عقل کو دروازے پر رکھی اس کی نشست پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ورنہ وہ کلاس میں شور مچاتی ہے اور سب کو ڈسٹرب کرتی ہے۔ لیکن یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ گیٹ کے آس پاس ہی رہے زیادہ ادھر ادھر نہ جائے تاکہ بوقت ضرورت اس سے انٹر کام پر رابطہ کیا جا سکے۔۔۔
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
ڈاکٹر محمد اقبال
داخلے کی اہلیت۔۔۔

ہر وہ شخص جو ذوق لطیف و جمیل اور فطرت سلیمہ رکھتا ہے اس مکتب میں داخلے کے لئے کوالیفائیڈ ہے۔ اس میں مرد و زن ، چھوٹے بڑے اور تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ کی کوئی قید نہیں۔۔۔

مکتب عشق سے چھٹی کا مسئلہ۔۔۔

اب مکتب عشق میں چھٹی کا بڑا مسئلہ رہتا ہے۔ کیونکہ یہاں بار بار چھٹی نہیں ملتی۔۔۔ شرارتی اور نکمے سٹوڈنٹس تو ڈنڈی مار کے چھٹی کر لیتے ہیں۔ لیکن ذہین سٹوڈنٹس جس قدر ہوشیار اور سنجیدہ سٹوڈنٹ بنتے جاتے ہیں اور اپنے تمام اسباق یاد کر کے ان کو رو بہ عمل لاتے جاتے ہیں ، ان کے چھٹی لینے کے چانسز اتنے ہی کم ہوتے جاتے ہیں۔۔۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا



-
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ سنجیدہ طالبعلموں کے دل میں چھٹی کی خواہش نہیں ہوتی۔ لیکن چونکہ چھٹی کرنے اور چھٹی ملنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اس لئے ذہین طالب علم چھٹی کرتے تو نہیں لیکن چھٹی ملنے کی ایک خواہش ان کے دل میں ضرور موجود ہوتی ہے۔ اور چھٹی کی یہ خواہش اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ کچھ دیر دنیا کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں کیونکہ دنیا تو ان پر پہلے ہی بہت بھاری ہو چکی ہوتی ہے۔ بلکہ چھٹی ملنے کی خواہش اس لئے ہوتی ہے کہ انہوں نے جان لیا ہوتا ہے کہ چھٹی دینے والا چھٹی دینے کے بعد ان کو ان کے گھر نہیں بھیجتا۔۔۔۔۔ بلکہ اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاتا ہے۔۔۔ اور چونکہ وہ واپس اپنے گھر نہیں جانا چاہتے بلکہ " اُس " کے پاس جانا چاہتے ہیں اس لئے وہ چھٹی ملنے کے انتظار میں رہتے ہیں۔۔۔
الموت جسر ۔۔۔ یوصل الحبیب الی الحبیب۔۔۔ موت ایک پل ( بریج ) ہے جو محبوب کو محبوب سے ملاتا ہے۔۔۔




۔
اور یہ ذہین اور سنجیدہ طالب علم کہ جو اپنی پوری زندگی مکتب عشق کے ٹاٹ پر بیٹھ کر اپنے محبوب کو یاد کرنے ، اس کو منانے اور راضی کرنے اور اس کے ہجر و پیار میں روتے ہوئے گزار دیتے ہیں ، جب ان کی چھٹی کا وقت آتا ہے تو کچھ اس طرح کی ایک صدا آتی ہے۔۔۔

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ، ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ۔۔۔
سُورة الْفَجْر ، آیت ٢٧ ،٢٨۔

اے اطمینان پا جانے والے نفس، لوٹ چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی۔۔۔

اے کاش کہ جب ہماری چھٹی کا وقت آئے تو یہی صدا ہمارے کانوں میں بھی رس گھول رہی ہو۔۔۔ اے کاش۔۔۔۔۔ کہ ایسا ہو ۔۔۔

۔۔۔۔۔
[/QUOTE]
 
Top