قطعہ: ابر تھا، بارش تھی، وقتِ گُل تھا، تم تھے، میں نہ تھا

ن

نامعلوم اول

مہمان
یہ قطعہ آج صبح ہی کہا ہے۔​
ابر تھا، بارش تھی، وقتِ گُل تھا، تم تھے، میں نہ تھا​
قہقہے تھے،خندۂ قُلقُل تھا، تم تھے، میں نہ تھا​
اک طرف آہیں تھیں، غم تھا، رنج تھے اور اک طرف​
قُمریاں تھیں، نغمۂ بُلبُل تھا، تم تھے، میں نہ تھا​
نوٹ: اس قطعہ کے پس منظر اور اس کے پیچھے کارفرما فلسفے کی بحث یہاں ملاحظہ کی جائے۔​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ عمران بھائی۔۔ کیا خوب ہے۔۔
آپ نے بھی کمال ہی کر دیا۔۔ بہت سی داد اس ناچیز کی طرف سے قبول فرمایئے :)

"میں نہ تھا" کو لے کر عدم کی بھی اک بہت خوبصورت غزل ہے۔۔ پیش خدمت ہے اس میں سے اک شعر

عشق جب دم توڑتا تھا، تم نہ تھے​
موت جب سر دُھن رہی تھی، میں نہ تھا​
 
Top